جواب: وراثت ایک غیر اِختیاری اِنتقالِ ملکیت ہے، جس کے ذریعے ایک فوت شدہ کا ترکہ اس کے ورثاء کے حق میں بطریقِ خلافتِ جانشینی منتقل ہو جاتا ہے۔
جواب: اَرکانِ وراثت تین ہیں:
1۔ مورث (یعنی وراثت کا مالک)
2۔ وارث
3۔ ترکہ
جواب: موجباتِ وراثت دو ہیں کہ جن سے وراثت واجب ہوتی ہے:
1۔ نسب
2۔ زوجیت
جواب: میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرنے والے نے وفات کے وقت جو بھی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد چھوڑی، سب سے پہلے اس کل مال سے میت کی تجہیز و تکفین کی جائے گی۔ دوسرے اس پر اگر کسی کا قرض ہے تو وہ ادا کیا جائے گا۔ پھر متوفی کی اگر کوئی وصیت ہے تو اسے پورا کیا جائے گا بشرطیکہ کل ترکہ کے ثلث یعنی ایک تہائی سے زائد نہ ہو۔ پھر جو مال بچ گیا وہ میت کے ورثاء میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ بیوی (بیوہ) کو آٹھواں حصہ، بیٹوں کو دو تہائی اور بیٹے کو دو بیٹیوں کے برابر حصہ ملے گا۔
جواب: جی نہیں! جہیز وراثت کے قائم مقام نہیں ہوسکتا کیونکہ لڑکیوں کو جہیز تو والد کی زندگی میں دیا جاتا ہے جبکہ وراثت کے حصہ کا تعلق والد مرحوم کی وفات سے ہے۔ سو جو چیز والد کی وفات سے حاصل ہوگی اس کی کٹوتی والد کی زندگی میں کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔
جہیز وراثت کے قائم مقام نہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ وراثت یا ترکہ کا حصہ تو متعین ہوتا ہے کہ کل جائیداد اتنی مالیت کی ہے اوراس میں فلاں وارث کا اتنا حصہ ہے لیکن جہیز کی مالیت تو متعین نہیں ہوتی بلکہ والدین حسبِ توفیق دیا کرتے ہیں۔
جواب: اگر اولاد بھی ہے اور بیوہ بھی تو مرنے والے کی جائیداد میں سے آٹھواں حصہ بیوہ کا ہے اور باقی اولاد کا اور اگر مرنے والی کی اولاد نہ ہو تو بیوہ کا چوتھا حصہ ہوگا۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے:
وَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ ج فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِّنْ م بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْ دَیْنٍ.
النساء، 4: 12
اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔
جواب: اگر شوہر اپنی جائیداد بیوی کے حوالے کردے یا پھر شوہر کی وفات ہو جائے تواس میں سے بیوی اپنا حصہ غیر سودی اکاؤنٹ، ادارے یاسکیم میں جمع کرواسکتی ہے۔
جواب: مرحوم کے کل ترکے کا آٹھواں یا چوتھا حصہ دونوں بیویوں میں مساوی (برابر) تقسیم ہوگا، یعنی اولاد ہو تو آٹھواں حصہ اور اولاد نہ تو چوتھا حصہ دونوں میں تقسیم ہوگا۔
جواب: مرحومہ کا جہیز، حق مہر اور جائیداد و زیورات وغیرہ سب ترکہ میں شامل ہیں۔ مرحومہ کے ورثا اس کے حق دار ہوں گے اور ورثاء میں شوہر، والد اور والدہ شامل ہوں گے۔ اگر اولاد ہے تو اولاد بھی وارثان میں شامل ہوگی۔ جیسا کہ قرآن حکیم فرماتا ہے:
وَلَکُمْ نِصْفُ مَاتَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّھُنَّ وَلَدٌ ج فَاِنْ کَانَ لَھُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْ م بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بِھَآ اَوْ دَیْنٍ ط وَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ ج فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِّنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْ دَیْنٍ ط وَاِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰـلَۃً اَوِ امْرَاَۃٌ وَّلَـہٗٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ ج فَاِنْ کَانُوْٓا اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَھُمْ شُرَکَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنْ م بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰی بِھَآ اَوْدَیْنٍ.
النساء، 4: 12
اور تمہارے لیے اس (مال) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمہارے لیے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔ اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جا رہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا (ماں کی طرف سے) ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہوگی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو۔
جواب: جی ہاں! بیوہ نکاح ثانی کر لینے کے باوجود سابقہ شوہر کی جائیداد میں حصہ دار ہوگی کیونکہ مرتے وقت جو بیوی تھی وہ وارث ہے اور جائیداد میں حصہ دار ہے۔ خواہ وہ نکاح ثانی کرے یا نہ کرے، وارثت پر فرق نہیں پڑتا۔
جواب: اگر ایک بیٹی ہے تو باپ کی وراثت میں سے بیٹی کو نصف ملے گا لیکن اگر دو یا دو سے زیادہ ہیں تو ترکہ کا دو تہائی ملے گا اور اگر بیٹے ہیں تو ہر بیٹے کو دو بیٹیوں کے برابر حصہ ملے گا، جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے:
یُوْصِیْکُمُ اللهُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ق لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ج فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ج وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ ط وَلِاَبَوَیْهِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ج فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَـہٗٓ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ ج فَاِنْ کَانَ لَـہٗٓ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ م بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ اَوْدَیْنٍ ط اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ ج لَا تَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا ج فَرِیْضَۃً مِّنَ اللهِ ط اِنَّ اللهَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًاo
النساء، 4: 11
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لیے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے، اور مورث کے ماں باپ کے لیے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مورث کی کوئی اولاد ہو، پھر اگر اس میت (مورث) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کے لیے تہائی ہے (اور باقی سب باپ کا حصہ ہے)، پھر اگر مورث کے بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے (یہ تقسیم) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوگی)، تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے یہ (تقسیم) اللہ کی طرف سے فریضہ (یعنی مقرر) ہے، بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔
جواب: جی ہاں! جس طرح باپ کی وارثت میں بچوں کا حصہ ہوتا ہے اسی طرح ماں کی وراثت میں بھی بچوں کو حصہ ملے گا۔
جواب: وارث کو میراث سے محروم کرنے کو عرف عام میں عاق کرنا کہتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی شرعی وارث کو وراثت سے محروم کرنے کے لیے یہ وصیت کر دی جائے کہ میرے مرنے کے بعد فلاں شخص میری جائیداد کا وارث نہیں ہوگا اور اسے عاق نامہ کہتے ہیں۔ لیکن اس عاق نامہ سے وارث وراثت پانے سے محروم نہیں ہوگا وہ دوسرے وارثوں کی طرح وراثت پائے گا۔
جواب: وارث کو میراث سے محروم کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مالی معاملات میں کسی کو من مانی کا حق نہیں دیا بلکہ اپنی حکمتِ کاملہ سے انہیں خود حل فرمایا ہے۔
جائیداد سے محروم رکھنے والا شخص بہتر جانتا ہے کہ اس نے اپنے ورثاء کو کس بناء پر جائیداد سے محروم رکھا ہے۔ اگر کوئی شرعی جواز نہ تھا تو یقینا یہ جرم ہے جس کی سزا وہ آخرت میں بھگتے گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ وَالْمَرْأَۃُ بِطَاعَۃِ اللهِ سِتِّیْنَ سَنَۃً، ثُمَّ یَحْضُرُھُمَا الْمَوْتُ فَیُضَارَّانِ فِی الْوَصِیَّۃِ، فَتَجِبُ لَھُمَا النَّارُ.
ترمذی، السنن، کتاب الوصایا، باب ما جاء في الضرار في الوصیۃ، 4: 375، رقم: 2117
ایک شخص مرد یا عورت ساٹھ سال اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں۔ پھر موت کا وقت آتا ہے تو وہ وصیت میں کسی کو نقصان پہنچا دیتے ہیں جس سے ان کے لیے جہنم لازم ہو جاتی ہے۔
جواب: جی ہاں! ذہنی یا جسمانی معذور اولاد کا وراثت میں حصہ ہوتا ہے۔ بلکہ معذور اولاد تو زیادہ ہمدردی اور معاونت کی حق دار ہوتی ہے کجا کہ انہیں وراثت سے ہی محروم کر دیا جائے یا ان کا حصہ کسی دوسرے کی ضرورت پر خرچ کیا جائے۔ ایسا کرنا جائز اور درست نہیں۔ لہٰذا معذور افراد کاحصہ محفوظ طریقے سے ان تک پہنچایا جائے اور اسے صرف انہی کی ضروریات پر خرچ کیا جائے۔
جواب: جی نہیں! منہ بولی اولاد کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا، کیوں کہ شریعتِ مطہرہ کی رُو سے اِستحقاقِ وراثت کا مدار قرابت یعنی نسبی رشتہ داری پر ہے جب کہ منہ بولی اولاد سے بنصِ قرآنی رشتہ داری قائم نہیں ہوتی۔ اِس لیے گود لینے والے شخص کے ترکہ میں متبنیٰ کا کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ لیکن منہ بولی اولاد کی پرورش کرنے والا شخص اپنی زندگی میں حسبِ استطاعت مکان، روپیہ، دکان وغیرہ اسے ہبہ کر سکتا ہے یا دوسری صورت میں اس کے حق میں ایک تہائی ترکہ کی وصیت کر سکتا ہے۔
جواب: جی نہیں! والد کی حیات میں بہن، بھائی وارث نہیں ہوسکتے۔ اس لیے کہ والد کی حیات میں جائیداد ہبہ تو ہوسکتی ہے میراث نہیں۔
جواب: اگر مرحوم کی اپنی کوئی اولاد نہیں اوربیوی بھی وفات پا چکی ہو اور مرحوم کے بہن بھائی بھی نہ ہوں تو اس صورت میں مرحوم کے ترکہ میں شرعاً وارث بھتیجے ہوں گے، بھتیجیاں وارث نہیں ہوں گی۔
جواب: یتیم کو وراثت سے محروم کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کی خلاف ورزی ہے۔ قرآن حکیم میں یتیموں کے حقوق کی پامالی پر سخت وعید آئی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا ط وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًاo
النساء، 4: 10
بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گےo
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَیسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی ط قُلْ اِصْلاَحٌ لَّهُمْ خَیْرٌ ط وَاِنْ تُخَالِطُوْهُمْ فَاِخْوَانُکُمْ ط وَاللهُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ط وَلَوْ شَآءَ اللهُ لَاَعْنَتَکُمْ ط اِنَّ اللهَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌo
البقرۃ، 2: 220
اور آپ سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں: ان (کے معاملات) کا سنوارنا بہتر ہے، اور اگر انہیں (نفقہ و کاروبار میں) اپنے ساتھ ملا لو تو وہ بھی تمہارے بھائی ہیں، اور اللہ خرابی کرنے والے کو بھلائی کرنے والے سے جدا پہچانتا ہے، اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا، بے شک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےo
وَاٰتُوا الْیَتٰمٰـٓی اَمْوَالَھُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ وَلَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلٰٓی اَمْوَالِکُمْ ط اِنَّہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًاo
النساء، 4: 2
اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور بُری چیز کو عمدہ چیز سے نہ بدلا کرو اور نہ ان کے مال اپنے مالوں میں ملا کر کھایا کرو، یقینا یہ بہت بڑا گناہ ہےo
لہٰذا جب بھی کوئی شخص اپنی زندگی میں ایسا دور رس فیصلہ کرنے لگے تو اسے اس کے تمام اثرات و نتائج پر غور کر لینا چاہیے تاکہ دنیا و آخرت میں کسی مرحلہ پر وہ فیصلہ اس کے لیے باعثِ حسرت و ندامت نہ ہو جائے۔
جواب: وصیت انتقال جائیداد کی ایک قانونی اور فقہی اصطلاح ہے جو مادہ (و۔ ص۔ ي) وصی وصیًا بمعنی اِتصال یعنی ملانا اور عہد کرنا سے اسم مصدر ہے۔ اس کا مطلب آنے والے واقعہ سے متعلق آگاہ کرنا خصوصاً مرنے والے یا سفر پر جانے والے کا کسی کو کچھ سمجھانا ہے۔ وصیت کو وصیت اس لیے کہتے ہیں کہ یہ میت کے معاملات کے ساتھ متصل ہوتی ہے۔
زبیدی، تاج العروس من جواہر القاموس، 20: 296
قانونِ اِنتقال میں میت کے لحاظ سے اِس اِصطلاح کا سب سے اہم اِستعمال مرنے والے یا سفر پر جانے والے شخص کی اپنے ’ترکہ‘ سے متعلق ہدایات پر کیا جاتا ہے، پہلے مال کی وصیت کرنا لازم ہوتی تھی جب سے ورثاء کے حصے متعین کر دیئے گئے اس کے بعد اب وصیت لازم نہیں ہے اگر کوئی غیر وارث کے لیے وصیت کرنا چاہے تو ایک تہائی (1/3) مال تک کرسکتا ہے۔
جواب: جی نہیں! وصیت کے قابلِ نفاذ ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وصیت کل مال کے تہائی (1/3) حصے سے زیادہ نہ ہو کیونکہ شریعت میں اس سے زیادہ وصیت کی اجازت نہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ وہ اس وقت مکہ میں تھے۔ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا:
یَا رَسُولَ اللهِ، أُوصِي بِمَالِي کُلِّہٖ؟ قَالَ: لَا. قُلْتُ: فَالشَّطْرُ؟ قَالَ: لَا. قُلْتُ: الثُّلُثُ؟ قَالَ: فَالثُّلُثُ، وَ (الثُّلُثُ کَثِیرٌ)، إِنَّکَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَکَ أَغْنِیَاءَ، خَیْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَۃً یَتَکَفَّفُونَ النَّاسَ فِي أَیْدِیهِمْ، وَإِنَّکَ مَہْمَا أَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَۃٍ فَإِنَّهَا صَدَقَۃٌ، حَتَّی اللُّقْمَۃُ الَّتِي تَرْفَعُهَا إِلٰی فِي امْرَأَتِکَ.
بخاری، الصحیح، کتاب الوصایا، باب ان یترک ورثتہ أغنیاء خیر من ان یتکففوا الناس، 3: 1006، رقم: 2591
یا رسول اللہ! میں اپنے تمام مال کی وصیت کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا: آدھے مال کی کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا: تہائی مال کی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تہائی مال بہت ہے، بے شک اگر تم اپنے وارثوں کو مال دار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو تنگ دست چھوڑ دو اور وہ (اپنی ضروریات کے لیے) لوگوں کے سامنے اپنی ہتھیلیاں پھیلاتے رہیں۔ بے شک تم جو بھی خرچ کرو گے وہ صدقہ ہے، حتی کہ جو لقمہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں رکھتے ہو (وہ بھی صدقہ ہے)۔
لیکن اگر مرنے والے نے تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کردی تو اس کا نفاذ متوفی کے ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگا۔ اگر وہ اجازت نہ دیں تو اس وصیت کو فقط تہائی مال تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ نیز وصیت کرنے کے لیے انسان کا عاقل، بالغ اور آزاد ہونا ضروری ہے؛ دیوانے، نابالغ اور غلام کی وصیت معتبر نہیں۔
جواب: اسٹامپ پیپر پر تحریر کردہ وصیت نامے کی شرعی حیثیت مصالحتی تجویز یعنی مصلحت پر مبنی تجویز کی ہے۔ اگر سب وارث بخوشی اس پر راضی ہوں تو ٹھیک ہے ورنہ جائیداد شریعت کے مطابق تقسیم کی جائے گی۔
جواب: اپنی زندگی میں جائیداد اور مال لڑکوں اور لڑکیوں میں تقسیم کرنا جائز ہے لیکن وہ ترکہ یا وراثت نہیں کہلاتا بلکہ ہبہ کہلاتا ہے۔ ہبہ کرنے میں وہ مختار ہیں، ان پر کوئی شرعی لزوم یا پابندی نہیں ہے۔ البتہ شریعت میں یہ ہدایت ضرور ملتی ہے کہ اگر والدین میں سے کوئی اپنی اولاد کو ہبہ کرنا چاہے تو وہ اولاد کے درمیان مساوات کرے جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر سے مروی حدیث مبارک سے ثابت ہے:
إِنَّ أُمَّہٗ بِنْتَ رَوَاحَۃَ سَأَلَتْ أَبَاهُ بَعْضَ الْمَوْهُوْبَۃِ مِنْ مَالِہٖ لِابْنِهَا. فَالْتَوٰی بِهَا سَنَۃً. ثُمَّ بَدَا لَہٗ. فَقَالَتْ: لَا أَرْضٰی حَتّٰی تُشْهِدَ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَلٰی مَا وَهَبْتَ لِابْنِي. فَأَخَذَ أَبِي بِیَدِي. وَأَنَا یَوْمَئِذٍ غُلَامٌ. فَأَتٰی رَسُولَ اللهِ ﷺ ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ أُمَّ ہٰذَا، بِنْتَ رَوَاحَۃَ، أَعْجَبَهَا أَنْ أُشْهِدَکَ عَلَی الَّذِي وَهَبْتُ لِابْنِهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ یَا بَشِیرُ أَلَکَ وَلَدٌ سِوٰی هٰذَا؟ قَالَ: نَعَمْ. فَقَالَ أَکُلَّهُمْ وَهَبْتَ لَہٗ مِثْلَ هٰذَا؟ قَالَ: لَا. قَالَ فَلَا تُشْهِدْنِي إِذًا. فَإِنِّي لَا أَشْهَدُ عَلٰی جَوْرٍ.
مسلم، الصحیح، کتاب الھبات، باب کراھۃ تفضیل بعض الٔاولاد في الھبۃ، 3: 1243، رقم: 1623
ان کی والدہ حضرت بنت رواحہ نے ان کے والد (یعنی اپنے شوہر) سے درخواست کی کہ وہ اپنے مال میں سے کچھ ان کے بیٹے (حضرت نعمان) کو ہبہ کردیں۔ میرے والد نے ایک سال تک یہ معاملہ ملتوی رکھا۔ پھر انہیں اس کا خیال آیا۔ میری والدہ نے کہا میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی جب تک کہ تم میرے بیٹے کے ہبہ پر رسول اللہ ﷺ کو گواہ نہ کرلو۔ میرے والد میرا ہاتھ پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے حالانکہ اس وقت میں نوعمر لڑکا تھا۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! اس کی ماں بنت رواحہ یہ چاہتی ہیں کہ میں آپ کو اس چیز پر گواہ کرلوں جو میں نے اپنے اس لڑکے کو ہبہ کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: اے بشیر! کیا اس کے علاوہ تمہاری اور بھی اولاد ہے؟ انہوں نے کہا جی! آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے سب کو اس کی مثل دی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر میں ظلم کے حق میں گواہی نہیں دوں گا۔
ایک روایت کے مطابق حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اِتَّقُوا اللهَ وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِکُمْ. وَإِنِّي لَا أَشْهَدُ إِلَّا عَلٰی حَقٍّ.
مسلم، الصحیح، کتاب الھبات، باب کراھۃ تفضیل بعض الأولاد في الھبۃ، 3: 1244، رقم: 1624
اللہ سے ڈرو! اور اپنی اولاد میں انصاف کرو اور میں حق کے سوا اور کسی چیز پر گواہی نہیں دیتا۔
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ کی روشنی میں فقہاء احناف کی رائے یہ ہے کہ اگرچہ اولاد کے درمیان غیر مساویانہ ہبہ قانوناً نافذ العمل ہو جائے گا، لیکن یہ شرعاً ناپسندیدہ اور مکروہ عمل ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے پسند نہیں فرمایا، جبکہ دیگر ائمہ کے نزدیک ایسا غیر مساویانہ ہبہ باطل ہے اور اس سے رجوع واجب ہے۔
جواب: بہنوں سے ان کی جائیداد کا حصہ معاف کروانا درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے باپ کی جائیداد میں جس طرح بیٹوں کا حق رکھا ہے اسی طرح بیٹیوں کا بھی حق رکھا ہے۔ یہ حق شرعاً انہیں ملنا چاہیے۔ اب اگر کوئی جبراً یا مصالحتی انداز میں ان کا حصہ معاف کرواتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی ہے۔ البتہ اگر بہن بخوشی اپنا حصہ معاف کر دے اور نہ لے تو یہ الگ بات ہے اور بہن کا اپنا حصہ خود معاف کرنے کے بعد اس کی اولاد کو ماں کا حصہ لینے کا کوئی حق نہیں۔
جواب: بدقسمتی سے ملکی حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ عوام خوشیوں کو ترس گئی ہے۔ کیونکہ ملک پر مسلط حکمران کئی دہائیوں سے عوام کے حقوق کو سلب کر رہے ہیں اور عوام اپنی بنیادی ضروریات سے محروم ہو چکے ہیں یہاں تک کہ بیٹی کی شادی جیسا مقدس فریضہ بھی والدین پر انتہائی بوجھ بن چکا ہے۔ جہیز کی لعنت نے غریب اور سفید پوش طبقے کو پریشان کر رکھا ہے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن گزشتہ گیارہ سال سے والدین کے اس بوجھ اور پریشانی کے لیے غریب بچیوں کی اجتماعی شادیاں منعقد کر رہی ہے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے تحت غریب بچیوں کی شادیوں کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا رہے ہیں!
اس وقت تک تقریباً ایک ہزار سے زائد غریب بچیوں کی شادیاں MWF کے زیر اہتمام ہو چکی ہیں۔ ایک شادی پر ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر اب تک تقریبا ڈیڑھ ارب روپے سے زائد خرچ کیے جا چکے ہیں۔ علاوہ ازیں مختلف اضلاع میں بھی MWF کے تحت مخیر حضرات اور منہاج القرآن کی ذیلی تنظیمات مقامی سطح پر غریب بچیوں کی شادی کا اہتمام کرتے ہیں۔ جس میں کروڑوں روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved