جواب: عدت سے مراد وہ دورانیہ ہے جو عورت کو شوہر سے خلع لینے یا طلاق واقع ہونے یا تنسیخ نکاح کے بعد خاص مدت کے لیے گزارنا ہوتا ہے۔ عدت کے لیے خلوتِ صحیحہ کا ہونا شرط ہے۔ اگر خلوتِ صحیحہ کے بغیر کسی وجہ سے طلاق یا خلع یا تنسیخِ نکاح ہو جائے تو اس صورت میں عورت پر عدت گزارنا لازم نہیں ہوتا؛ لیکن بیوہ غیر مدخولہ پر عدت لازم ہوتی ہے۔
جواب: مدتِ عدت کی گنتی کا آغاز وقت طلاق یا وفات سے کیا جائے گا اور عدت تفریق، طلاق یا وفات کے وقت سے واجب ہوگی اگرچہ عورت کو طلاق یا وفات کا علم نہیں ہوا اور عدت کی مدت گزر گئی تو عدت پوری سمجھی جائے گی۔
جواب: عورت کی عدت کا معاملہ تاریخ سے وابستہ ہے۔ قبل از اسلام بھی عورت کو عدت گذارنا ہوتی تھی۔ مرتے دم تک اس کی عدت قائم رہتی تھی۔ اس طرح قدیمی ایام میںعدت کی گنتی محدود نہ تھی بلکہ موت ہی ایسی گنتی کو ختم کرنے کا موجب بنتی تھی۔ لہٰذا بیوہ یا مطلقہ عورت کو عدت کے لیے قید و بند میں ڈال دیا جاتا تھا اور زندگی بھر دوسری شادی سے محروم رکھا جاتا اور انہیں معاشرے سے لا تعلق کر کے منحوس قرار دیا جاتا تھا۔
بیوہ عورتوں کے بال جو حسن کی علامت ہیں کاٹ دئیے جاتے یا انہیں خاوندوں کے ساتھ زندہ جلا (ستی) دیا جاتا۔ اور زندہ رہنے کی صورت میں عورت کو نئی شادی کے حق سے یکسر محروم کر دیا جاتا تھا۔ لہٰذا بیوہ اپنی آئندہ زندگی کے عذاب سے محفوظ رہنے کے لیے خاوند کے ساتھ ستی ہو جانے کو ترجیح دیتی اور مرنے کے بعد ستی ساوتری کہلاتی۔ اس طرح معاشرتی نفرت کا مقابلہ کرنے کی بجائے مقدس عورت کہلوانا پسند کرتی تھی۔
ستی نہ ہونے والی عورت کو ایسی خوارک دی جاتی جو ان کے جنسی احساس کے بیدار ہونے میں مانع ہوتی تھیں۔ انہیں ننگی چارپائی پر سونے کے لیے مجبور کیا جاتا اور آرام و آسائش کی ہر سہولت سے محروم کر دیا جاتا تھا۔ انہیں تمام عمر اپنے مرحوم شوہر کے گھر گزارنا ہوتی تھی۔ ان عورتوں پر کہیں آنے جانے یا تقریبات میں شمولیت کی پابندی تھی۔ یہاں تک کہ اس کے والدین کے علاوہ کسی دیگر رشتہ دار کو ملنے کی اجازت بھی نہ ہوتی۔
مطلقہ عورت کے لیے قدیم رواج یہ بھی تھا کہ مطلقہ عورت کو عدت کے دوران اگرچہ مرد کے گھر میں رکھا جاتا تھا لیکن اس دوران اس عورت پر سختی روا رکھی جاتی اور عورت کو نان و نفقہ سے تنگ کیا جاتا تاکہ وہ گھر سے بھاگ جائے یا پھر عدت کے خاتمے کے نزدیک ان عورتوں سے رجوع کر لیا جاتا۔ اس طرح طلاق اور رجوع کا یہ کھیل ایک عرصہ تک قائم رکھ کر عورت طلاق کے باوجود آزاد نہ کی جاتی اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر پاتی کہ اس کی آئندہ زندگی کیا ہوگی۔
امام رازی نے {اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ} کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آکر یہ شکایت کی کہ اس کا شوہر اس کو بار بار طلاق دیتا ہے اور پھر رجو ع کر لیتا ہے جس وجہ سے اس کو ضرر ہوتا ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ م بِاِحْسَانٍ.
البقرۃ، 2: 229
طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔
جواب: دورانِ عدت معاشرتی معاملات کے لیے دینی اور فقہی اَحکامات درج ذیل ہیں:
1۔ بیوہ عورت عدت کے دوران زیب و زینت نہ کرے۔
2۔ بیوہ شوہر کے گھر سے بلا ضرورت باہر نہ نکلے۔
3۔ بیوہ کی عدت بغرض آسان معنی استبراء رحم اور شوہر کے سوگ کے لیے ضروری ہے۔
4۔ بیوہ عورت کو گھر کے کام کاج کے لیے باہر نکلنے کی اجازت ہے لیکن رات گھر میں قیام کرے۔
5۔ بیوہ عدت کے دوران نکاح کا پیغام وصول نہ کرے۔
6۔ بیوہ یا طلاق والی عورت عدت کے دوران دوسرا نکاح نہ کرے۔
7۔ عدت کے فوراً بعد نکاح ثانی کے لیے عجلت کرے اور عارضی سہاروں کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرے۔
جواب: اگر کوئی عورت دورانِ عدت نکاح ثانی کر لے تو یہ جائز نہ ہوگا بلکہ یہ حرام ہے اور ایسا عقد باطل ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
وَلاَ تَعْزِمُوْا عُقْدَةَ النِّکَاحِ حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتٰبُ اَجَلَهٗ.
البقرۃ، 2: 135
اور (اس دوران) عقدِ نکاح کا پختہ عزم نہ کرو یہاں تک کہ مقررہ عدت اپنی انتہا کو پہنچ جائے۔
سو معلوم ہوا کہ حکم اِلٰہی کے مطابق جب عدت میں نکاح کا عزمِ مصمم کرنے سے منع کیا گیا ہے تو نکاح کرنا تو بدرجہ اَولیٰ منع ہوگا۔ لہٰذا دورانِ عدت نکاحِ ثانی حرام ہے۔
جواب: درج ذیل صورتوں میں عدت واجب ہوگی:
1۔ نکاح صحیح میں دخول یا خلوتِ صحیحہ کے بعد طلاق دی جائے یا تفریق ہو جائے۔
2۔ نکاح فاسد میں بعد اَز دخول یا خلوتِ صحیحہ کے بعد طلاق دی جائے یا تفریق ہو جائے۔
3۔ نکاحِ صحیح یا فاسد میں شوہر انتقال کر جائے۔
جواب: عورت کو اسی گھر میں عدت پوری کرنی چاہیے جس گھر میں عدت واجب ہوئی ہے یعنی جس گھر میں شوہر کی وفات کے وقت وہ موجود تھی مگر یہ کہ وہ مکان کسی دوسرے کا ہو، اسے وہاں رہنے نہ دیا جائے یا وہ مکان منہدم ہو جائے یا منہدم ہونے کا خطرہ ہو، یا اس گھر میں عورت کو اپنی جان و مال اور آبرو کے بارے میں خوف لاحق ہو یا ضروریات کا انتظام کرنے والا کوئی نہ ہو، ضروریاتِ زندگی آسانی سے پوری نہ ہوسکتی ہوں اور یہ بھی ممکن نہ ہو کہ کوئی بھائی یا دوسرے قریبی رشتہ دار اس کے پاس رہ کر اس کی حفاظت کرسکیں تو اس صورت میں وہ اپنے ماں، باپ، بہن یا بھائی کے گھر میں رہ کر عدت پوری کرسکتی ہے۔
حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے کہ اگر عورت کو خطرہ لاحق ہو تو وہ کسی اور جگہ دوران عدت منتقل ہو سکتی ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
قَالَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَیْسٍ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أَخَافُ أَنْ یُقْتَحَمَ عَلَيَّ. فَأَمَرَهَا أَنْ تَتَحَوَّلَ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب الطلاق، باب ھل تخرج المرأۃ فی عدتھا، 2: 512، رقم: 2033
فاطمہ بنت قیس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اس امر کا ڈر ہے کہ کوئی میرے مکان میں نہ گھس آئے۔ آپ ﷺ نے انہیں جگہ تبدیل کرنے کا حکم فرمایا۔
جواب: طلاق کی عدت کا وقت طلاق دیتے ہی شمار ہوگا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
تعتدُّ من یوم طلَّقها، أو مات عنها.
عبد الرزاق، المصنف، 6: 327، رقم: 11043
عورت اس دن سے عدت شروع کرے گی جس دن اسے طلاق دی گئی یا جس دن اس کا خاوند فوت ہوا۔
حضرت ابراہیم سے مروی ہے:
تعتدُّ المتوفی عنها زوجها من یومِ مات عنها زوجها، والمطلقة من یوم طلقها.
محمد الشیبانی، کتاب الآثار، 2: 456، رقم: 508
بیوہ عورت اس دن سے عدت شروع کرے جس دن اس کا خاوند فوت ہوا اور مطلقہ عورت اس دن سے شروع کرے جس دن اس کو طلاق دی گئی۔
جواب: اگر عورت طلاق کی عدت گزار رہی ہو اور اس دوران شوہر کا انتقال ہوجائے تو اس کی درج ذیل تین صورتیں ہیں اور تینوں کا حکم الگ الگ ہے:
1۔ ایک صورت یہ ہے کہ عورت حاملہ ہو اس کی عدت وضع حمل (بچے کی پیدائش) ہوگی۔ بچے کی پیدائش سے اس کی عدت ختم ہو جائے گی خواہ طلاق دینے والے خاوند کی وفات کے چند لمحوں بعد بچہ پیدا ہو جائے عورت کی عدت ختم ہوگئی۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
إذا وضعت حملها حلَّ أجلها، قال: فحدثه رجل من الأنصار أن عمر قال: لو وضعت حملها وهو علی سریره لم یدفن لحلّت للأزواج.
عبد الرزاق، المصنف، 6: 472، رقم: 11719
جب عورت اپنا وضع حمل کر لے تو اس کی عدت مکمل ہو جاتی ہے۔ پس یہی حدیث انصار میں سے ایک شخص نے بیان کی اور کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر عورت وضع حمل کرے اور اس کا شوہر ابھی چار پائی پر پڑا ہوا ہے، دفن بھی نہیں کیا گیا تو وہ دوسرے شوہر کے لیے حلال ہے (یعنی دوسرے شخص سے شادی کرسکتی ہے)۔
2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ عورت حاملہ نہ ہو اور شوہر نے رجعی طلاق دی ہو اور عدت ختم ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو جائے تو اس صورت میں طلاق کی عدت کالعدم سمجھی جائے گی اور عورت نئے سرے سے وفات کی عدت گزارے گی یعنی چار مہینے دس دن۔ قتادہ کہتے ہیں:
إذا طلّق الرجل المرأة واحدة أو اثنتین، ثم توفي عنھا قبل انقضاء عدتها، اعتدت عدة المتوفی عنها من یوم یموت، وورثته.
عبد الرزاق، المصنف، 4: 470، رقم: 11709
جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دے، پھر اس عورت کی عدت پوری ہونے سے قبل ہی اس شخص کی وفات ہو جائے تو جس دن وہ آدمی فوت ہوا اسی دن سے عورت کی عدت (دوبارہ) شمار کی جائے گی اور وہ اس کے مال کی وارث بنے گی۔
3۔ تیسری صورت یہ ہے کہ عورت حاملہ نہ ہو اور شوہر نے طلاق بائن دی ہو، پھر عدت ختم ہونے سے پہلے خاوند فوت ہو جائے تو اس صورت میں دیکھا جائے گا طلاق کی عدت زیادہ طویل ہے یا وفات کی۔ ان دونوں میں سے جو زیادہ طویل ہو وہ عدت عورت کے ذمہ لازم ہوگی۔ جیسا کہ امام محمد فرماتے ہیں:
وبه نأخذُ إذا کان طلاقاً یملک الرجعة، فإِن کانَ الطلاقُ بائناً فعلیھا من العدةِ أبعدُ الأجلین: من ثلاث حیضٍ من یوم طلّقَ، ومن أربعةِ أشهرٍ وعشرٍ من یومِ مات، وهو قولُ أبی حنیفةَ.
محمد الشیبانی، کتاب الآثار، 2: 433-434، رقم: 468
ہم اس بات کو اختیار کرتے ہیں، جب ایسی طلاق ہو جس میں وہ رجوع کا مالک ہو اور اگر طلاق بائن ہو تو عورت پر وہ عدت واجب ہوگی جس کی مدت زیادہ ہو یعنی طلاق والے دن کے بعد تین حیض یا مرنے والے دن سے چار مہینے دس دن۔
لہٰذا عورت ایسی صورت میں طلاق اور وفات دونوں کی عدت بیک وقت گزارے گی۔ ان میں سے اگر ایک پوری ہو جائے اور دوسری کے کچھ دن باقی ہوں تو ان باقی دنوں کی عدت بھی پوری کرے گی۔
جواب: جس عورت کا خاوند وفات پا جائے اور وہ حاملہ ہو تو ایسی صورت میں اس کی عدت وضع حمل سے پوری ہو جاتی ہے۔ خواہ خاوند کی وفات کے چند لمحوں بعد ہی بچہ پیدا ہوا ہو یعنی بچہ کی پیدائش کے ساتھ ہی عورت عدت سے فارغ ہو جائے گی۔ اس کے لیے کسی اور سے بھی شادی کرنا حلال ہوگا۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ.
الطلاق، 65: 4
اور حاملہ عورتیں (تو) ان کی عدت ان کا وضع حمل ہے۔
حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے۔ حضرت عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ أَبَاهُ کَتَبَ إِلٰی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْأَرْقَمِ الزُّہْرِیِّ، یَأْمُرُہٗ أَنْ یَدْخُلَ عَلٰی سُبَیْعَۃَ بِنْتِ الْحَارِثِ الْأَسْلَمِیَّۃِ، فَیَسْأَلَهَا عَنْ حَدِیثِهَا وَعَمَّا قَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ، حِینَ اسْتَفْتَتْهُ. فَکَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ إِلٰی عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَۃَ یُخْبِرُہٗ؛ أَنَّ سُبَیْعَۃَ أَخْبَرَتْهُ؛ أَنَّهَا کَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ بْنِ خَوْلَۃَ. وَهُوَ فِي بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ. وَکَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا. فَتُوُفِّيَ عَنْهَا فِي حَجَّۃِ الْوَدَاعِ وَهِيَ حَامِلٌ. فَلَمْ تَنْشَبْ أَنْ وَضَعَتْ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاتِہٖ. فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا تَجَمَّلَتْ لِلْخُطَّابِ. فَدَخَلَ عَلَیْهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْکَکٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ، فَقَالَ لَهَا: مَا لِي أَرَاکِ مُتَجَمِّلَۃٌ؟ لَعَلَّکِ تَرْجِینَ النِّکَاحَ. إِنَّکِ، وَاللهِ! مَا أَنْتِ بِنَاکِحٍ حَتّٰی تَمُرَّ عَلَیْکِ أَرْبَعَۃُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ. قَالَتْ سُبَیْعَۃُ: فَلَمَّا قَالَ لِي ذٰلِکَ، جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِیَابِي حِینَ أَمْسَیْتُ. فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ فَسَأَلْتُہٗ عَنْ ذٰلِکَ؟ فَأَفْتَانِي بِأَنِّي قَدْ حَلَلْتُ حِینَ وَضَعْتُ حَمْلِي. وَأَمَرَنِي بِالتَّزَوُّجِ إِنْ بَدَا لِی. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَلَا أَرٰی بَأْسًا أَنْ تَتَزَوَّجَ حِینَ وَضَعَتْ. وَإِنْ کَانَتْ فِي دَمِهَا. غَیْرَ أَنْ لَا یَقْرَبُهَا زَوْجُهَا حَتّٰی تَطْهُرَ.
مسلم، الصحیح، کتاب الطلاق، باب انقضاء عدۃ المتوفی عنھا زوجھا، وغیرھا بوضع الحمل، 2: 1122، رقم: 1484
ان کے والد نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ وہ حضرت سبیعہ بنت حارث اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جائیں اور ان سے پوچھیں کہ جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے فتویٰ طلب کیا تھا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے ان سے کیا ارشاد فرمایا تھا؟ حضرت عمر بن عبد اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عتبہ کو لکھا کہ میں نے حضرت سبیعہ سے جا کر دریافت کیا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ ان کا نکاح حضرت سعد بن خولہ عامری سے ہوا تھا جو بنو عامر بن لوی سے تھے، حضرت سعد جنگ بدر میں حاضر ہوئے تھے اور حجۃ الوداع میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت وہ حاملہ تھیں اور ان کی وفات کے چند دنوں بعد ہی وضع حمل ہوگیا۔ نفاس سے پاک ہونے کے بعد انہوں نے منگنی کرنے والوں کے لیے بنائو سنگھار کیا، اسی اثناء میں ان کے پاس بنو عبدالدار کے قبیلہ سے ابو السنابل بن بعکک نامی ایک شخص آیا اور کہنے لگا: تم نے بنائو سنگھار کیوں کیا ہے؟ شاید تم نکاح کرنے کا ارادہ کر رہی ہو! قسم بخدا! تم نکاح نہیں کر سکتیں جب تک کہ تمہارے چار ماہ اور دس دن پورے نہ ہو جائیں۔ سبیعہ کہتی ہیں جب حضرت ابو السنابل نے یہ کہا تو میں اپنے کپڑے سنبھال کر شام کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ ﷺ سے میں نے یہ مسئلہ دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جیسے ہی میرا حمل وضع ہوا میری عدت پوری ہو گئی اور فرمایا اگر میں چاہوں تو دوسرا نکاح کر سکتی ہوں۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ اگر کوئی عورت وضع حمل ہوتے ہی دوسرا نکاح کر لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ اس وقت اس کا خون جاری ہو، البتہ اس کا شوہر پاک ہونے سے پہلے اس سے مقاربت نہیں کر سکتا۔
جواب: بیوہ عورت حاملہ نہ ہو تو اس صورت میں مدتِ عدت چار ماہ دس دن ہوگی۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّعَشْرًا ج فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْٓ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ.
البقرۃ، 2: 234
اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں، پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آ پہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مؤاخذہ نہیں۔
جواب: جب شوہر اپنی بیوی کو رجعی یا بائن طلاق دے یا دونوں میں طلاق کے علاوہ کسی دوسری صورت سے تفریق ہوجائے اور اس عورت کو حیض آتا ہو تو اس کی عدت تین حیض مقرر ہے، جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰـثَۃَ قُرُوْٓءٍ.
البقرۃ، 2: 228
اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔
حضرت ابراہیم سے مروی ہے:
تعتدُّ المستحاضۃُ إذا طلقت بأَیامِ أقرائھا، فإذا فرغت حلّت للرجالِ.
محمد الشیبانی، کتاب الآثار، 2: 439، رقم: 479
مستحاضہ عورت کو جب طلاق دی جائے تو وہ اپنے حیض کے دنوں کے حساب سے عدت گزارے۔ جب فارغ ہو جائے تو مردوں کے لیے حلال ہو جائے گی۔
جواب: ہر ایسی عورت جس کو سرے سے حیض آتا ہی نہ ہو یا بڑھاپے کی وجہ سے رک جائے تو ایسی عورت کی عدت تین ماہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالّٰئِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِکُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَـلٰـثَۃُ اَشْهُرٍ وَالّٰئِیْ لَمْ یَحِضْنَ.
الطلاق، 65: 4
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہو گی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)۔
جواب: جی ہاں! قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالّٰئِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِکُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَـلٰـثَۃُ اَشْهُرٍ وَالّٰئِیْ لَمْ یَحِضْنَ ط وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ط وَمَنْ یَّتَّقِ اللهَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًاo
الطلاق، 65: 4
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہو گی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)، اور حاملہ عورتیں (تو) اُن کی عدّت اُن کا وضعِ حمل ہے، اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ اس کے کام میں آسانی فرما دیتا ہےo
اور احادیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ مُغِیرَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ إِبْرَاهِیمَ عَنِ السِّقْطِ. فَقَالَ: تَنْقَضِی بِهِ الْعِدَّۃُ.
ابن أبی شیبۃ، المصنف، 4: 197، رقم: 19274
حضرت مغیرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابراہیم سے سوال کیا کہ اگر نامکمل بچہ پیدا ہو جائے تو کیا عدت پوری ہوجائے ہوگی؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! عدت مکمل ہو جائے گی۔
ایک اور روایت میں ہے:
کَانَ الْحَسَنُ یَقُولُ: إِذَا أَلْقَتْهُ عَلَقَةً أَوْ مُضْغَةً بَعْدَ أَنْ یُعْلَمَ أَنَّہٗ حَمْلٌ، فَفِیهِ الْغُرَّةُ، وَتَنْقَضِی بِهِ الْعِدَّةُ.
ابن أبی شیبۃ، المصنف، 4: 198، رقم: 19279
حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جب عورت نے معلّق وجود یا دانتوں سے چبائے ہوئے لوتھڑے جیسی حالت میں جنم دیا بعد اس کے کہ حمل ٹھہرنا معلوم ہو چکا تھا تو اس میں غُرَّہ (صحت مند غلام یا لونڈی بطور دیت) ہے۔ اس سے عدت پوری ہو جائے گی۔
لہٰذا اِسقاط حمل سے عدت ختم ہو جاتی ہے۔
جواب: جس عورت کا خاوند مفقود الخبر (لا پتہ) ہو وہ مالکی مسلک کے مطابق چار سال تک انتظار کر کے کسی اور جگہ اپنی مرضی سے عقدِ نکاح کر سکتی ہے۔ امام مالک فرماتے ہیں:
إذا مضی أربع سنین یفرّق القاضی بینه وبین امرأته وتعتدّ عدّة الوفاة، ثم تتزوج من شائت.
مرغینانی، الہدایۃ، 2: 181
جب (کوئی شخص لا پتہ ہو جائے اس کے بعد) چار سال گزر جائیں تو قاضی ان دونوں کے درمیان تفریق کرے گا اور عورت عدتِ وفات گزار کر حسبِ منشاء شادی کرے۔
امام مالک حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے درج ذیل قول سے استدلال کرتے ہیں:
أَیُّمَا امْرَأَۃٍ فَقَدَتْ زَوْجَھَا فَلَمْ تَدْرِ أَیْنَ ھُوَ؟ فَاِنَّھَا تَنْتَظِرُ أَرْبَعَ سِنِیْنَ. ثُمَّ تَعْتَدُ أَرْبَعَۃَ أَشْھُرٍ وَعَشْرًا. ثُمَّ تَحِلُّ.
مالک، الموطا، 2: 575، رقم: 52
جس عورت کا خاوند مفقود الخبر ہو جائے اور یہ نہ معلوم ہو کہ وہ کہاں ہے تو وہ عورت چار سال انتظار کرے، اس کے بعد چار ماہ دس دن عدت گزارے تو عقد ثانی کے لیے حلال ہو جائے گی۔
اَحناف کا فتویٰ بھی آج کل اسی قول پر ہے۔ لہٰذا مفقود الخبرخاوند کی بیوی مجسٹریٹ کے روبرو پیش ہو کر اپنے خاوند کے مفقود الخبرہونے کا ثبوت دے کر دوسری شادی کا اِجازت نامہ حاصل کر سکتی ہے۔ بعد ازاں اگر مفقود الخبر شخص واپس آجائے تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا کیونکہ تمام کارروائی عدالتی اَحکامات کے مطابق ہوئی ہے اور شرعی مسئلہ کو حکومتی تحفظ حاصل ہوگا۔ یہ عورت دوسرے خاوند کی ہی بیوی رہے گی، پہلے سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ البتہ حق مہر یا چار سال کا خرچہ سابقہ شوہر کے ذمہ واجب الادا ہوگا، عورت چاہے تو بذریعہ عدالت وصول کرے اور چاہے تو معاف کر دے۔
جواب: بدکار عورت کی عدت کے بارے میں اَئمہ کا اختلاف ہے۔ جن کے نزدیک حاملہ بدکار عورت کی عدت ہے وہ درج ذیل آیت کو دلیل بناتے ہیں:
وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ.
الطلاق، 65: 4
اور حاملہ عورتیں (تو) اُن کی عدّت اُن کا وضعِ حمل ہے۔
علامہ شوکانی لکھتے ہیں:
قال أبو حنیفة: بل تعتد بوضعه ولو کان من زنا لعموم الآیة.
شوکانی، نیل الأوطار، 7: 89
امام ابو حنیفہ نے فرمایا ہے: حاملہ عورت کی عدت وضعِ حمل ہے۔ اگرچہ حمل بدکاری کے باعث ہی کیوں نہ ہو کیونکہ آیت مبارکہ کا حکم عام ہے۔
جب کہ علامہ کاسانی بدائع الصنائع میں لکھتے ہیں:
وَلَا عِدَّۃَ عَلَی الزَّانِیَۃِ حَامِلًا کَانَتْ أَوْ غَیْرَ حَامِلٍ؛ لِأَنَّ الزِّنَا لَا یَتَعَلَّقُ بِہٖ ثُبُوتُ النَّسَبِ.
کاسانی، بدائع الصنائع، 3: 192
بدکار عورت پر عدت نہیں ہوتی خواہ وہ حاملہ ہو یا غیر حاملہ کیونکہ بدکاری کے ساتھ ثبوتِ نسب کا تعلق نہیں ہوتا۔
لہٰذا مناسب رائے یہی ہے کہ بدکار حاملہ عورت اگر اُسی شخص سے نکاح کرے جس کے نطفہ سے حاملہ ہوئی ہے تو عدت میں بھی کر سکتی ہے، مگر کسی اور شخص سے نکاح کرنا چاہے تو وضعِ حمل کے بعد کرے۔
جواب: جی ہاں! شہید کی بیوہ پر عدت لازم ہوگی اور عدت کے بعد وہ دوسری جگہ عقد کر سکتی ہے۔ شہیدوں پر بھی دنیا میں وفات پانے والے لوگوں کے احکام جاری ہوتے ہیں اور ان کی وارثت تقسیم ہوتی ہے۔ ان کی بیواؤں پر عدت لازم ہے اور عدت کے بعد ان کا دوسری جگہ نکاح کرنا بھی جائز ہے۔
جواب: اگر خرچ کا کسی صورت انتظام نہ ہو تو عدت کے دوران ملازمت کرنا جائز ہے لیکن اگر خرچ کا کم انتظام ہو تو اس صورت میں ملازمت جائز نہیں۔ یعنی مجبوری کی صورت میں باہر جاسکتی ہے۔
حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے کہ بیوہ دورانِ عدت کام کی غرض سے دن کے وقت باہر جاسکتی ہے لیکن رات وہ واپس گھر آکر گزارے۔ یحیی بن سعید سے مروی ہے:
أَنَّہٗ بَلَغَہٗ أَنَّ السَّائِبَ بْنَ خَبَّاب تُوْفِّیَ. وَإِنَّ امْرَأَتَہٗ جَائَ تْ إِلٰی عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہما فَذَکَرَتْ لَہٗ وَفَاۃَ زَوْجِھَا. وَذَکَرَتْ لَہٗ حَرْثًا لَھُمْ بِقَنَاۃَ. وَسَأَلَتْهُ هَلْ یَصْلُحُ لَھَا أَنْ تَبِیْتَ فِیْهِ؟ فَنَھَاھَا عَنْ ذٰلِکَ. فَکَانَتْ تَخْرُجُ مِنَ الْمَدِیْنَۃِ سَحَرًا. فَتُصْبِحُ فِی حَرْثِھِمْ، فَتَظَلُّ فِیْهِ یَوْمَھَا. ثُمَّ تَدْخُلُ الْمَدِیْنَۃَ إِذَا أَمْسَتْ فَتَبِیْتُ فِيْ بَیْتِھَا.
مالک، الموطا، 2: 592، رقم: 88
سائب بن خباب وفات پا گئے تو ان کی بیوی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئیں اور انہیں اپنے خاوند کی وفات کا قصہ بتایا۔ یہ بھی کہا کہ ان کے سسرال والوں کی مقامِ قناۃ میں کچھ کھیتی باڑی ہے، تو کیا ان کے لیے جائز ہے کہ وہ رات وہاں گزاریں؟ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اسے اس سے منع فرمایا۔ پس وہ بوقتِ سحر مدینہ سے نکلتی تھیں اور صبح تک ان کی کھیتی میں جا پہنچتی تھیں۔ پھر دن بھر وہاں رہتیں اور شام کو مدینہ میں داخل ہو جاتی تھیں اور اپنے گھر میں ہی رات بسر کرتی تھیں۔
جواب: عورت دورانِ عدت کسی خوشی یا غمی میں شریک نہیں ہوسکتی۔ دورانِ عدت عورت کا بلا ضرورت گھر سے نکلنا درست نہیں ہے۔ بامر مجبوری کسی قریبی رشتہ دار کی وفات کی صورت میں عورت گھر سے باہر جا سکتی ہے لیکن رات واپس اپنے گھر آکر گزارے گی۔
حصکفی، درمختار، 1: 260
لہٰذا مجبوری کی حالت میں عورت عدت کے دوران گھر سے نکلے اور قریبی عزیز کی وفات کی ضورت میں غمی میں شامل ہو جائے، ورنہ گھر میں ہی رہے۔
جواب: جی ہاں! عورت دوران عدت شرعی یا اپنی ذاتی و گھریلو ضرویات اور ضروری کام کی وجہ سے اپنے گھر سے باہر جا سکتی ہے بشرطیکہ اس کی جان اور عزت محفوظ ہو اور کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہو۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
طُلِّقَتْ خَالَتِي. فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا. فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ. فَأَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: بَلٰی. فَجُدِّي نَخْلَکِ. فَإِنَّکِ عَسٰی أَنْ تَصَدَّقِي أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا.
مسلم، الصحیح، کتاب الطلاق، باب جواز خروج المعتدۃ البأئن، والمتوفی عنھا زوجھا فی النھار لحاجتھا، 2: 1121، رقم: 1483
میری خالہ کو طلاق دے دی گئی تھی، انہوں نے اپنے باغ کی کھجوروں کو توڑنے کا ارادہ کیا تو انہیں گھر سے باہر نکلنے پر ایک شخص نے ڈانٹا۔ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس گئیں، آپ ﷺ فرمایا: کیوں نہیں! تم اپنے باغ کی کھجوریں توڑ لو۔ ہو سکتا ہے کہ تم اس میں سے صدقہ دو یا کوئی اور نیکی کرو۔
حضرت ابراہیم سے مروی ہے:
والمتوفی عنھا زوجھا لا تخرج إلا فی حق لا بد منہ ولا تبیت عن بیتھا.
أبو یوسف، کتاب الآثار، 142، رقم: 645
اور بیوہ عورت لازمی حق کے لیے جاسکتی ہے لیکن رات دوسرے گھر میں ہرگز نہ گزارے۔
ہاںعدت کے دوران غیر ضروری بنائو سنگھار سے پرہیز کرے اور غیر محرموں سے بلا ضرورتِ شرعی ملاقات و گفتگو سے پرہیز کرے۔ اگر محرم ساتھ ہو تو زیادہ بہتر ہے جیسا کہ قرآن حکیم میںارشاد ہے:
فَاِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْ مَا فَعَلْنَ فِیْٓ اَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَّعْرُوْف.
البقرہ،2: 240
پھر اگر وہ خود (اپنی مرضی سے) نکل جائیں تو دستور کے مطابق جو کچھ بھی وہ اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی گناہ نہیں۔
لہٰذا معتدہ ضروری کام کے لیے گھر سے باہر جاسکتی ہے۔
جواب: جی ہاں! اگر عدت کے دوران بیوہ کی طبیعت خراب ہو تو اس صورت میں ہسپتال میں داخل کروا کے علاج کروایا جا سکتا ہے کیوں کہ انسانی جان کی حفاظت ضروری ہے۔ اس سے بڑی مجبوری کوئی نہیں ہے۔ اس لیے دورانِ عدت اسپتال میں داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جواب: بیوہ عدت کے دوران اپنے بیٹے کا نکاح کرنا چاہتی ہو تو اس صورت میں وہ اپنے بیٹے کے نکاح کا مشورہ دے سکتی ہے۔ یہ ممنوع نہیں ہے، البتہ شادی کی خوشی کے کاموں میں خود حصہ نہ لے اور عمدہ نیا لباس نہ پہنے، نہ مہندی وغیرہ لگا کر زیب و زینت اختیار کرے، گھر سے باہر نہ نکلے تاکہ سوگ قائم رہے۔ جب تک عدت کا زمانہ ہے، اس وقت تک سوگ ضروری ہے۔
جواب: جی ہاں! اَز روئے شریعت عورت مطلقہ ہو یا بیوہ عدت گزارنے کے بعد آزاد ہے۔ جہاں چاہے اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے جیسا کہ بیوہ کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّعَشْرًا.
البقرۃ، 2: 234
اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں۔
مطلقہ کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ.
البقرۃ، 3: 231
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو انہیں اچھے طریقے سے (اپنی زوجیّت میں) روک لو یا انہیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو۔
لہٰذا قرآن حکیم کی رو سے جو عورت اپنی عدت گزار چکی ہے وہ جہاں چاہے شریعت کے مطابق نکاح کر سکتی ہے۔
جواب: اگر نابالغ لڑکے کا نکاح ہوا اور اس نے بالغ ہو کر طلاق دی تو اگر اس نے لڑکی کے ساتھ خلوتِ صحیحہ کر لی تھی تو عدت گزارنا اس لڑکی پر لازم ہے، بغیر عدت گزارے دوسری جگہ شادی نہیں کر سکتی۔
خلوتِ صحیحہ سے پہلے طلاق ہونے کی صورت میں عدت نہیں ہوتی۔
جواب: شوہر اور بیوی نابالغ ہیں اور شوہر کی وفات ہو جائے تو اس صورت میں عدت چار ماہ دس دن ہوگی۔
جواب: اگر کوئی شخص نکاح کے بعد خلوتِ صحیحہ سے پہلے فوت ہو جائے تو اُس کی بیوہ پر عدت بطورِ سوگ واجب ہوگی یعنی وہ چار ماہ دس دن تک کہیں اور نکاح نہ کرے گی اور نہ ہی زیب و زینت کرے گی۔ فقہاء کرام فرماتے ہیں:
عِدَّۃُ الْحُرَّۃِ فِی الْوَفَاۃِ أَرْبَعَۃُ أَشْهُرٍ وَعَشرَۃُ أَیَّامٍ سَوَاءٌ کَانَتْ مَدْخُولًا بِهَا أَوْ لَا مُسْلِمَةً أَوْ کِتَابِیَّةً.
1۔ابن ہمام، شرح فتح القدیر، 4: 313
2۔ الفتاوی الہندیۃ، 1: 529
آزاد بیوہ عورت کی عدت چار ماہ دس دن ہے، برابرا ہے کہ وہ مدخول بہا ہو یا نہ ہو، مسلمان ہو یا کتابیہ ہو۔
لہٰذا غیر مدخولہ بیوہ پر عدت واجب ہے۔
جواب: اگر نو مسلمہ کے شوہر کی وفات کو تقریباً تین ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا تو وہ عورت مسلمان ہونے کے دن سے نکاح کرسکتی ہے کیونکہ کافرہ پر عدت نہیں ہوتی۔
جواب: اگر ایک عورت سے دو مرد شادی کا دعویٰ کریں اور دونوں میں سے کوئی بھی اپنے نکاح کی تاریخ نہ بتائے تو دونوں کا نکاح ساقط ہو جائے گا۔ سو نکاح کسی کا بھی ثابت نہ ہوا، لہٰذا نکاحِ ثانی کے لیے عورت پر عدت لازم نہیں آئے گی۔
جواب: جی نہیں! اس کا نکاح اس کی مسلمان بیوی سے باقی نہیں رہے گا کیونکہ شوہر یا بیوی میںسے کسی ایک کا مرتد ہو جانا فوری فسخِ نکاح ہے۔ عورت پر عدت لازم ہے اور عدت شوہر کے مرتد ہونے کے وقت سے شمار ہوگی۔
ابو صباح روایت کرتے ہیں:
قلت لسعید بن المسیب: کم تعتد امرأته یعني المرتد؟ قال: ثلاثة قروء. قلت: فإن قتل؟ قال: فأربعۃ أشھر وعشراً.
ابن أبی شیبۃ، المصنف، 4: 155، رقم: 18799
میں نے سعید بن المسیب سے پوچھا کہ مرتد شخص کی بیوی کی عدت کتنی ہے؟ آپ نے فرمایا: تین حیض۔ میں نے کہا: اگر وہ مارا جائے تو کتنی عدت ہوگی؟ آپ نے فرمایا: چار ماہ دس دن۔
ایک روایت میں امام شعبی اور حکم مرتد شخص کے بارے میں کہتے ہیں:
تعتد ثلاثۃ قروء إن کانت تحیض، وإن کانت لا تحیض فثلاثۃ أشھر، وإن کانت حاملا فتضع حملھا، ثم تزوج إن شائت.
ابن أبی شیبۃ، المصنف، 4: 155، رقم: 18800
اس کی بیوی اگر حائضہ ہو تو تین حیض عدت ہوگی۔ اگر وہ حائضہ نہ ہو تو تین ماہ عدت ہوگی اور اگر وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ پھر جہاں وہ چاہے شادی کرسکتی ہے۔
جواب: احداد کا مطلب ہے: سوگ منانا، ترک زینت۔ ’لسان العرب‘ میں ہے:
والحادُّ والمُحِدُّ من النساء: ھی المرأۃ التي تترک الزینۃ والطیب بعد زوجھا للعدۃ.
ابن منظور، لسان العرب، 3: 143
الحاد اور المحد کا معنی ہے کہ وہ عورت جو خاوند کی وفات کے بعد عدت گزرنے تک زینت اور خوشبو چھوڑ دے۔
اُم المومنین حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
لَا یَحِلُّ لِامْرَأَۃٍ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلٰی مَیِّتٍ فَوْقَ ثَـلَاثِ لَیَالٍ، إِلَّا عَلٰی زَوْجٍ أَرْبَعَۃَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا۔ قَالَتْ زَیْنَبُ: فَدَخَلْتُ عَلٰی زَیْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِینَ تُوُفِّيَ أَخُوهَا، فَدَعَتْ بِطِیبٍ فَمَسَّتْ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَتْ: أَمَا وَاللهِ مَا لِي بِالطِّیبِ مِنْ حَاجَۃٍ، غَیْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ یَقُولُ عَلَی الْمِنْبَرِ: لَا یَحِلُّ لِامْرَأَۃٍ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلٰی مَیِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَیَالٍ، إِلَّا عَلٰی زَوْجٍ أَرْبَعَۃَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا.
بخاری، الصحیح، کتاب الطلاق، باب تحد المتوفی عنھا زوجھا أربعۃ أشھر وعشرا، 5: 2042، رقم: 5024
کسی ایسی عورت کو جو اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتی ہو، خاوند کے علاوہ مرنے والے پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں۔ خاوند کی وفات پر چار مہینے دس دن سوگ منائے۔ پھر سیدہ زینب، ام المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لائیں جب ان کے بھائی فوت ہوگئے تھے۔ انہوںنے خوشبو منگوا کر استعمال فرمائی اور پھر فرمایا: مجھے خوشبو کی کوئی حاجت نہیں مگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کے علاوہ کسی مرنے والے پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے۔ خاوند پر چار مہینے دس دن تک سوگ ہے۔
ابن رشد لکھتے ہیں:
أجمع المسلمون علی أن الإحداد واجب علی النساء الحرائر المسلمات فی عدۃ الوفاۃ.
ابن رشد، بدایۃ المجتہد، 2: 140
مسلمانوں نے اس پر اجماع و اتفاق کیا ہے کہ خاوند کی وفات پر مسلمان آزاد بیویوں پر وفات کی عدت میں سوگ منانا واجب ہے۔
جواب: شوہر کے سوا دوسرے اعزاء و اقارب کے سوگ کی مدت تین دن ہے جیسا کہ اُم المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہاسے مروی روایت ہم نے گزشتہ سوال کے ذیل میں بیان کی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved