جواب: ایلاء کے لغوی معنی قسم کھانے کے ہیں۔ شرعاً ایلاء یہ ہے:
هو أَن یحلف الرجل أَن لا یطأ زوجته: إما مدة هی أَکثر من أَربعة أَشھر.
ابن رشد، بدایۃ المجتہد، 2: 114
کوئی شخص قسم کھائے کہ چار ماہ یا اس سے زائد مدت تک اپنی زوجہ سے جماع نہ کرے گا۔
فقہ کی اصطلاح میں ایلاء سے مراد یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی سے قطع تعلق کرنے کی قسم کھائے اور یوں کہہ کہ: واللہ لا أُقربک (بخدا میں تیرے قریب نہ جاؤں گا یا واللہ لا أُقربک أربعۃ أَشھر (خدا کی قسم! میں چار ماہ تک تیرے قریب نہ جاؤں گا)۔
قرآن حکیم نے اس کے بارے میں فرمایا:
لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآئِھِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ اَشْھُرٍ ج فَاِنْ فَآئُوْ فَاِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلاَقَ فَاِنَّ اللهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo
البقرہ، 2: 226-227
اور ان لوگوں کے لیے جو اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں چار ماہ کی مہلت ہے پس اگر وہ (اس مدت میں) رجوع کر لیں تو بے شک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ اور اگر انہوں نے طلاق کا پختہ ارادہ کر لیا ہو تو بے شک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔
جواب: ایلاء سے مراد خاوند کو اپنی بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کھانا ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں:
1۔ چار ماہ کا وقت مقرر کرنا۔
2۔ ہمیشہ کے لیے قربت نہ کرنے کی قسم کھانا۔
پہلی صورت میں اگر چار ماہ کے اندر اندر قربت نہ کی تو قسم پوری ہو جائے گی اور طلاق بائن قاضی کے حکم کے بغیر واقع ہو جائے گی، یعنی نکاح ختم ہوگیا۔ اس میں صرف مدت کا گزرنا شرط ہے۔ اب بیوی آزاد ہے کہ عدت گزار کے جہاں چاہے نکاح کر لے۔
دوسری صورت میں قسم یوں اٹھائی کہ ’میں کبھی بھی تیرے قریب نہیں آؤں گا‘ تو یہ دائمی ایلاء ہے۔ عمر بھر جب بھی قربت کرے گا، کفارہ لازم ہوگا جبکہ نکاح برقرار رہے گا۔
جواب: ایلاء کا کفارہ دس مساکین کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے اور جو یہ نہیں کر سکتا اس پر تین دن کے روزے رکھنا لازم ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللهُ بِاللَّغْوِ فِیْ اَیْمَانِکُمْ وَلٰـکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ ج فَکَفَّارَتُـہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ ط فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰـثَةِ اَیَّامٍ ط ذٰلِکَ کَفَّارَةُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ط وَاحْفَظُوْآ اَیْمَانَکُمْ ط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللهُ لَکُمْ اٰیٰـتِـهٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo
المائدۃ، 5: 89
اللہ تمہاری بے مقصد (اور غیر سنجیدہ) قَسموں میں تمہاری گرفت نہیں فرماتا لیکن تمہاری ان (سنجیدہ) قسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم (ارادی طور پر) مضبوط کر لو، (اگر تم ایسی قَسم کو توڑ ڈالو) تو اس کا کفّارہ دس مسکینوں کو اوسط (درجہ کا) کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا (اسی طرح) ان (مسکینوں) کو کپڑے دینا ہے یا ایک گردن (یعنی غلام یا باندی کو) آزاد کرنا ہے، پھر جسے (یہ سب کچھ) میسّر نہ ہو تو تین دن روزہ رکھنا ہے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفّارہ ہے جب تم کھا لو (اور پھر توڑ بیٹھو) اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو، اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیتیں خوب واضح فرماتا ہے تاکہ تم (اس کے احکام کی اطاعت کر کے) شکر گزار بن جائوo
قسم خاوند نے اٹھائی ہے تو کفارہ بھی صرف خاوند کے ذمہ ہے بیوی پر نہیں۔
جواب: شادی نہ کرنے کی قسم کھا کر شادی کر لی جائے تو اس صورت میں کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلایا جائے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھے جائیں۔
قرآن حکیم میں قسم توڑنے کا کفارہ یوں بیان ہوا ہے:
لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللهُ بِاللَّغْوِ فِیْ اَیْمَانِکُمْ وَلٰـکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ ج فَکَفَّارَتُـہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ ط فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰـثَةِ اَیَّامٍ ط ذٰلِکَ کَفَّارَةُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ط وَاحْفَظُوْآ اَیْمَانَکُمْ ط
المائدۃ، 5: 89
اللہ تمہاری بے مقصد (اور غیر سنجیدہ) قَسموں میں تمہاری گرفت نہیں فرماتا لیکن تمہاری ان (سنجیدہ) قسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم (ارادی طور پر) مضبوط کر لو، (اگر تم ایسی قَسم کو توڑ ڈالو) تو اس کا کفّارہ دس مسکینوں کو اوسط (درجہ کا) کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا (اسی طرح) ان (مسکینوں) کو کپڑے دینا ہے یا ایک گردن (یعنی غلام یا باندی کو) آزاد کرنا ہے، پھر جسے (یہ سب کچھ) میسّر نہ ہو تو تین دن روزہ رکھنا ہے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفّارہ ہے جب تم کھا لو (اور پھر توڑ بیٹھو) اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔
جواب: قسم کی تین اقسام ہیں جن میں سے دو اقسام پر کفارہ لازم نہیں آتا اور ایک قسم پر کفارہ لازم ہے۔ وہ درج ذیل ہیں:
گزشتہ واقعہ پر جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھانا مثلاً قسم کھا کر یوں کہنا کہ میں نے فلاں کام نہیں کیا حالانکہ اس نے کیا تھا محض الزام کو ٹالنے کے لیے جھوٹی قسم کھالی یا مثلاً قسم کھا کر یوں کہے کہ فلاں آدمی نے یہ جرم کیا ہے حالانکہ اس بے چارے نے نہیں کیا تھا محض اس پر الزام دھرنے کے لیے جھوٹی قسم کھالی ایسی جھوٹی قسم ’یمین غموس‘ کہلاتی ہے اور نہ صرف یہ عمل گناہِ کبیرہ ہے بلکہ اس کا وبال بھی بہت سخت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دن رات توبہ و استغفار کرے اور معافی مانگے۔ یہی اس کا کفارہ ہے، اس کے سوا کوئی کفارہ نہیں۔
گزشتہ واقعہ پر لاعلمی کی وجہ سے جھوٹی قسم کھالے مثلاً قسم کھا کر کہا کہ زید آگیا ہے حالانکہ زید نہیں آیا تھا مگر اس کو دھوکہ ہوا اور اس نے یہ سمجھ کر کہ واقعی زید آگیا ہے جھوٹی قسم کھائی۔ اس کو یمین لغو کہتے ہیں اور اس پر کفارہ نہیں ہوگا۔
بعض لوگوں کی عادت بن جاتی ہے کہ بات بات پر قسم کھاتے رہتے ہیں، وہ بھی یمین لغو کے زُمرے میں آتا ہے۔
آئندہ زمانے میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھالے اور پھر قسم کو توڑ ڈالے۔ اس کو یمین معقودہ یا یمین منعقدہ کہتے ہیں اور ایسی قسم توڑنے پر کفارہ لازم آتا ہے۔
جواب: قرآن حکیم میں قسم کا کفارہ درج ذیل آیت میں ملتا ہے:
لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللهُ بِاللَّغْوِ فِیْ اَیْمَانِکُمْ وَلٰـکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ ج فَکَفَّارَتُـہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ ط فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰـثَةِ اَیَّامٍ ط ذٰلِکَ کَفَّارَةُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ط وَاحْفَظُوْآ اَیْمَانَکُمْ ط
المائدۃ، 5: 89
اللہ تمہاری بے مقصد (اور غیر سنجیدہ) قَسموں میں تمہاری گرفت نہیں فرماتا لیکن تمہاری ان (سنجیدہ) قسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم (ارادی طور پر) مضبوط کر لو، (اگر تم ایسی قَسم کو توڑ ڈالو) تو اس کا کفّارہ دس مسکینوں کو اوسط (درجہ کا) کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا (اسی طرح) ان (مسکینوں) کو کپڑے دینا ہے یا ایک گردن (یعنی غلام یا باندی کو) آزاد کرنا ہے، پھر جسے (یہ سب کچھ) میسّر نہ ہو تو تین دن روزہ رکھنا ہے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفّارہ ہے جب تم کھا لو (اور پھر توڑ بیٹھو) اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔
یعنی اولاً غلام آزاد کرے۔ اگر میسر نہ ہو تو دو وقت دس مسکینوں کو کھلائے۔ اگر یہ بھی نہ ہوسکے توتین روزے رکھے۔ کھانا ایک مسکین کو بھی دس دن تک دونوں وقت کھلایا جاسکتا ہے یا نقد دے دے۔ اور تھوڑا تھوڑا کر کے دینا بھی درست ہے بشرطیکہ دس مسکینوں کو پہنچ جائے یا یہ کہ ایک مسکین کو دس دن کھلا دیا جائے یا نقد دے دیا جائے۔
جواب: جی ہاں! جتنی بار قسم کھائی جائے اتنی ہی بار کفارہ ادا کرنا لازم ہو گا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved