جواب : ظہار کا لفظ اَلظَّھْرِ سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی ہے پشت، پیٹھ، ظہار کا معنی یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے :
أَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ أُمِّیْ.
زبیدی، تاج العروس من جواہر القاموس، 7 : 172
تو میرے لیے پشتِ مادری کی مانند ہے۔
أنت علی کبطن أمی او فخذ أمی أو فرج أمی، ولأَن معنی الظهار تشبیه الحلال بالحرام.
کاسانی، بدائع الصنائع، 3 : 229
(شوہر کا اپنی بیوی سے یہ کہنا) کہ تو مجھ پر میری ماں کے پیٹ کی طرح ہے یا تو میرے لیے میری ماں کی ران کی طرح ہے یا تو میرے لیے میری ماں کی شرم گاہ کی طرح ہے کیونکہ ظہار کا معنی حلال کو حرام سے تشبیہ دینا ہے۔
زمانہ جاہلیت میں یہ لفظ طلاق کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ اہل عرب عورتوں کو اس لفظ (ظہار) سے طلاق دیتے تھے۔ اسلام نے اس سے منع کیا اور جو کوئی اپنی بیوی سے ظہار کرے اس پر کفارہ واجب کیا۔
زبیدی، تاج العروس من جواہر القاموس، 7 : 172
جیسا کہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَالَّذِیْنَ یُظٰھِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِھِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا.
المجادلۃ، 58 : 3
اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کر بیٹھیں پھر جو کہاہے اس سے پلٹنا چاہیں تو ایک گردن (غلام یا باندی) کا آزاد کرنا لازم ہے قبل اِس کے کہ وہ ایک دوسرے کو مَس کریں۔
جواب : ظہار کی تین طرح کی شرائط ہیں :
1۔ بعض کا تعلق ظہار کرنے والے سے ہے۔
2۔ جس کے ساتھ ظہار کیا جا رہا ہے، اس سے متعلق۔
3۔ جن الفاظ سے ظہار کیا جا رہا ہے، ان سے متعلق۔
جواب : ظہار کرنے والے سے متعلق شرائط درج ذیل ہیں :
1۔ صاحبِ عقل ہو۔
2۔ کم عقل نہ ہو۔
3۔ بالغ ہو۔
4۔ مسلمان ہو۔
5۔ نیت کی ہو۔
جواب : جس سے ظہار کیا جارہا ہے اس سے متعلق شرائط درج ذیل ہیں :
1۔ بیوی ہو۔
2۔ نکاح تمام وجوہ سے قائم ہو۔
3۔ لفظ ظہار بیوی کے بدن یا جسم کے کسی حصہ کی طرف منسوب ہو۔
جواب : مظاہر بہٖ سے متعلق شرائط درج ذیل ہیں :
1۔ مظاہر بہٖ (جس کے ساتھ ظہار میں تشبیہ دی) عورت کی جنس سے ہو۔
2۔ مظاہر بہٖ ایسا عضو ہو جس کی طرف نظر کرنا جائز نہ ہو۔
3۔ ایسی عورت کے اعضاء سے تشبیہ دینا جس سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہو۔
جواب : قرآن حکیم میں ظہار کے کفارہ سے متعلق درج ذیل حکم فرمایا گیا ہے :
وَالَّذِیْنَ یُظٰھِرُوْنَ مِنْ نِّسَآءِ ھِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا ط ذٰلِکُمْ تُوْ عَظُوْنَ بِہٖ ط وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا ج فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا ط ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِہٖ ط وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللهِ ط وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌo
المجادلۃ، 58 : 3-4
اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کر بیٹھیں پھر جو کہاہے اس سے پلٹنا چاہیں تو ایک گردن (غلام یا باندی) کا آزاد کرنا لازم ہے قبل اِس کے کہ وہ ایک دوسرے کو مَس کریں، تمہیں اس بات کی نصیحت کی جاتی ہے، اور اللہ اُن کاموں سے خوب آگاہ ہے جو تم کرتے ہوo پھر جسے (غلام یا باندی) میسّر نہ ہو تو دو ماہ متواتر روزے رکھنا (لازم ہے) قبل اِس کے کہ وہ ایک دوسرے کو مَس کریں، پھر جو شخص اِس کی (بھی) طاقت نہ رکھے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا (لازم ہے)، یہ اِس لیے کہ تم اللہ اور اُس کے رسول ( ﷺ ) پر ایمان رکھو۔ اور یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں، اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہےo
گویا قرآن حکیم نے ترتیب کے ساتھ تین چیزوں کا کفارہ ظہار کے زمرے میں ذکر کیا ہے، ان میں سے جس کی بھی قدرت رکھے وہ ادا کرے۔
1۔ غلام آزاد کرنا۔
2۔ ساٹھ دن کے لگاتار روزے رکھنا۔
3۔ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔
جواب : ظہار کے تین احکام ہیں :
کفارہ کی ادائیگی سے قبل بیوی سے جماع کرنا حرام ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان کی وجہ سے ہے :
وَالَّذِیْنَ یُظٰھِرُوْنَ مِنْ نِّسَآءِ ھِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا۔
المجادلہ، 58 : 3
اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کر بیٹھیں پھر جو کہاہے اس سے پلٹنا چاہیں تو ایک گردن (غلام یا باندی) کا آزاد کرنا لازم ہے قبل اِس کے کہ وہ ایک دوسرے کو مَس کریں۔
کفارہ کی ادائیگی سے قبل بیوی سے جنسی منافع کا حرام ہونا۔
کفارہ ادا کرنے سے قبل جنسی فائدہ اٹھانا مثلاً اس کے جسم سے اپنے جسم کو ملانا، اس کا بوسہ لینا، اس کو شہوت سے چھونا، شہوت سے اس کی شرم گاہ کو دیکھنا، یہ سب چیزیں حرام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان {مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا} کی وجہ سے کیونکہ مس کا اطلاق سب سے کم جس چیز پر ہوتا ہے وہ ہاتھ سے چھونا ہے۔ مس کا لفظ دونوں معنی یعنی جماع اور ہاتھ سے چھونے کو شامل ہے۔
بیوی کا شوہر سے مباشرت کا مطالبہ کرنا۔
بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شوہر سے مباشرت کرنے کا مطالبہ کرے اور جب بیوی مطالبہ کرے تو حاکم پر لازم ہے کہ وہ شوہر کو مجبور کرے یہاں تک کہ وہ کفارہ ادا کرے اور بیوی سے جماع کرے کیونکہ خاوند نے بذریعہ ظہار جماع کو حرام کر کے بیوی کو نقصان پہنچایا ہے۔ مِلک نکاح کے باوجود بیوی کو حق جماع سے روک دیا گیا۔
جواب : جی نہیں! بیوی کو محض بہن کہہ دینے سے ظہار واقع نہیں ہوتا۔ البتہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ایسے شخص کو ناصرف ناپسند کیا بلکہ ایسا کہنے سے منع بھی فرمایا ہے۔ ابو تمیمہ ہجیمی سے مروی ہے :
إِنَّ رَجُلًا قَالَ لِامْرَأَتِهٖ : یَا أُخَیَّةُ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : أُخْتُکَ هِيَ؟ فَکَرِهَ ذٰلِکَ وَنَهٰی عَنْهُ.
أبو داؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب في الرّجل یقول لامرأتہ یا أختی، 2 : 239، رقم : 2210
ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا : اے بہن! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کیا یہ تمہاری بہن ہے؟ آپ ﷺ نے اسے ناپسند کیا اور اس سے منع فرمایا۔
اسی بنا پر فقہاء نے بیوی کو بہن کہنا مکروہ قرار دیا ہے۔ در مختار میں ہے :
ویکره قوله أنتِ أمی ویا بنتی ویا أختی ونحوه.
حصکفی، در مختار، 1 : 249
اور خاوند کا اپنی بیوی سے یوں کہنا مکروہ ہے کہ تو میری ماں ہے اور یوں کہنا کہ تو میری بیٹی اور میری بہن اور اس کے مانند ہے (لیکن اس سے ظہار ثابت نہیں ہوتا)۔
جواب : جی نہیں! عورت کو کسی مرد سے تشبیہ دینا ظہار نہیں ہے جیسے اگر شوہر یوں کہے کہ تو مجھ پر میرے باپ کی طرح ہے یا میرے بیٹے کی طرح ہے تو اس صورت میں ظہار نہیں ہوگا۔ ظہار ایک اصطلاح ہے جسے شریعت نے صرف اسی وقت تصور کیا ہے جب ظہار میں عورت سے تشبیہ دی گئی ہو۔
حضرت ابراہیم فرماتے ہیں :
لا یقعُ الظهارُ إذا ظاهرَ الرجلُ من امرأتِهٖ إلا بذاتِ محرمٍ.
محمد الشیبانی، کتاب الآثار، 2 : 481، رقم : 547
ظہار(اس وقت تک) واقع نہیں ہوگا جب تک (خاوند اپنی بیوی کو) اپنی کسی ذی رحم محرم خاتون سے تشبیہ نہ دے۔
اسی طرح امام حسن بصری سے مروی ہے :
من ظاهر بذات محرم، فھو ظهار.
عبد الرزاق، المصنف، 6 : 423، رقم : 11485
جس نے (اپنی بیوی کو) ذی رحم محرم خاتون سے تشبیہ دی تو وہ ظہار ہے۔
جواب : جی نہیں! شوہر کا اپنی بیوی کو ماں اور بیوی کا اپنے شوہر کو بیٹا کہہ دینے سے ان کے درمیان طلاق واقع نہیں ہوتی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved