جواب : لعان ’لاعن‘ کا مصدر ہے اور لفظ ’لعن‘ سے ماخوذ ہے۔ جس کے لغوی معنی ’دور کرنا‘ ہے کیونکہ لعن کے سبب وہ شخص اللہ کی رحمت سے دور ہو جاتا ہے۔
عسقلانی، فتح الباری، 9 : 440
اصطلاحاً اس سے مراد زوجین میں سے ہر ایک کی جانب سے قسم کے ساتھ اللہ کی لعنت اور غضب کی شہادت دینا لعان کہلاتا ہے۔
یہ لعان شوہر کے حق میں جھوٹی تہمت اور عورت کے حق میں بدکاری کی حد (شرعی سزا) کے قائم مقام ہوتا ہے۔
جواب : لعان کی شرائط یہ ہیں :
1۔ میاں بیوی دونوں آزاد ہوں۔
2۔ دونوں عاقل و بالغ ہوں۔
3۔ دونوں مسلمان ہوں۔
4۔ دونوں بولنے والے ہوں، کوئی گونگا نہ ہو۔
5۔ ان میں سے پہلے کسی پر حد قذف نہ لگی ہو۔
6۔ مرد نے اپنی بات پر گواہ نہ پیش کیے ہوں۔
7۔ عورت بدکاری سے انکاری ہو اور خود کو پارسا کہتی ہو۔
جواب : جب کوئی شخص اپنی بیوی پر بدکاری کی تہمت لگائے تو قاضی اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرائے جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے :
وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اِلَّآ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَۃُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍ م بِاللهِ لا اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَo وَالْخَامِسَۃُ اَنَّ لَعْنَتَ اللهِ عَلَیْهِ اِنْ کَانَ مِنَ الْکٰـذِبِیْنَo وَیَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْهَدَ اَرْبَعَ شَهٰدٰتٍ م بِاللهِ لا اِنَّهٗ لَمِنَ الْکٰـذِبِیْنَo وَالْخَامِسَۃَ اَنَّ غَضَبَ اللهِ عَلَیْھَآ اِنْ کَانَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَo وَلَوْلَا فَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهٗ وَاَنَّ اللهَ تَوَّابٌ حَکِیْمٌo
النور، 24 : 6-10
اور جو لوگ اپنی بیویوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں اور ان کے پاس سوائے اپنی ذات کے کوئی گواہ نہ ہوں تو ایسے کسی بھی ایک شخص کی گواہی یہ ہے کہ (وہ خود) چار مرتبہ اللہ کی قَسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (الزام لگانے میں) سچا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو۔ اور (اسی طرح) یہ بات اس (عورت) سے (بھی) سزا کو ٹال سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر (خود) گواہی دے کہ وہ (مرد اس تہمت کے لگانے میں) جھوٹا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر (یعنی مجھ پر) اللہ کا غضب ہو اگر یہ (مرد اس الزام لگانے میں) سچا ہو۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو تم ایسے حالات میں زیادہ پریشان ہوتے) اور بے شک اللہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا بڑی حکمت والا ہے۔
یعنی مرد چار بار کہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اپنی بیوی پر بدکاری کا جو الزام لگایا ہے؛ خدا کی قسم! میں اس میں سچا ہوں۔ پانچویں بار کہے اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔
عورت اس طرح لعان کرے کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ خدا کی قسم خاوند مجھ پر بدکاری کا الزام لگانے میں جھوٹا ہے۔ یہ جملہ چار بار کہے۔ پانچویں بار کہے اگر وہ سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب ہو۔
اگر خاوند تہمت لگا کر لعان سے انکار کرے تو قید کیا جائے گا۔ اگر پھر بھی لعان نہ کرے تو اسے حد قذف لگائی جائے گی۔ یعنی اسی (80) کوڑے۔ یونہی عورت لعان سے انکار کرے تو اسے قید کیا جائے گا اگر پھر بھی نہ کرے تو گویا اس نے خاوند کی تصدیق و تائید کردی۔ لہٰذا عورت کو حدِ زنا لگائی جائے گی۔ لعان کرنے کے بعد اس عورت سے قربت حرام ہو جائے گی۔ مگر محض لعان سے عورت کا نکاح نہیں ٹوٹتا بلکہ عدالت کی تفریق شرط ہے۔ جب قاضی ان میں تفریق کرائے گا اس وقت عورت کو طلاقِ بائن ہو جائے گی۔ اگر قاضی نے تفریق نہیں کی تو نکاح برقرار رہے گا۔
جواب : لعان کے لیے پہلے مرد گواہی دے گا۔
جواب : جی نہیں! لعان کے بعد طلاق دینا ضروری نہیں۔ جب شوہر یہ کہہ دے کہ خدا کی قسم! ’یہ عورت بدکار ہے‘ اور ایسا چار بار کہے؛ پھر پانچویں مرتبہ کہے کہ ’اگر میں جھوٹ بولوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہے‘۔ پھر عورت چار بار قسم اٹھا کر کہے : ’یہ جھوٹ بولتا ہے‘ اور پانچویں مرتبہ کہے کہ ’اگر سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب ہو‘۔ ایسا کرنے سے نکاح ٹوٹ جائے گا۔ لعان طلاقِ بائن ہے۔ طلاق کی ضرورت نہیں رہے گی اور عورت عدت گزار کر جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔
حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے کہ لعان کے بعد طلاق کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ ان کے درمیان تفریق کر دی جائے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
لَاعَنَ النَّبِيُّ ﷺ بَیْنَ رَجُلٍ وَامْرَأَۃٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَفَرَّقَ بَیْنَهُمَا.
بخاری، الصحیح، کتاب الطلاق، باب التفریق بین المتلاعنین، 5 : 2036، رقم : 5008
حضورنبی اکرم ﷺ نے انصار کے ایک مرد اور عورت سے لعان کروایا اور اُن دونوں کے مابین تفریق کرا دی۔
حضرت ابراہیم دو لعان کرنے والے (مرد و عورت) کے بارے میں فرماتے ہیں :
یُفَرَّقُ بَیْنَھُمَا؛ لِأَنَّھا تطلیقةٌ بَائِنٌ.
شیبانی، کتاب الآثار، 2 : 465، رقم : 522
ان کے درمیان تفریق کر دی جائے کیونکہ یہ طلاق بائن ہے۔
جواب : اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگائے اور ثبوت پیش نہ کر سکے اِس صورت میں عورت عدالت میں رجوع کرے گی اور لعان کے بعد عدالت تفریق کا فیصلہ صادر کرے گی، جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے :
وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اِلَّآ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَۃُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍ م بِاللهِ لا اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَo وَالْخَامِسَةُ اَنَّ لَعْنَتَ اللهِ عَلَیْهِ اِنْ کَانَ مِنَ الْکٰـذِبِیْنَo وَیَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْهَدَ اَرْبَعَ شَهٰدٰتٍ م بِاللهِ لا اِنَّهٗ لَمِنَ الْکٰـذِبِیْنَo وَالْخَامِسَۃَ اَنَّ غَضَبَ اللهِ عَلَیْھَآ اِنْ کَانَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَo
النور، 24 : 6-9
اور جو لوگ اپنی بیویوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں اور ان کے پاس سوائے اپنی ذات کے کوئی گواہ نہ ہوں تو ایسے کسی بھی ایک شخص کی گواہی یہ ہے کہ (وہ خود) چار مرتبہ اللہ کی قَسم کھاکر گواہی دے کہ وہ (الزام لگانے میں) سچا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو۔ اور (اسی طرح) یہ بات اس (عورت) سے (بھی) سزا کو ٹال سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر (خود) گواہی دے کہ وہ (مرد اس تہمت کے لگانے میں) جھوٹا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر (یعنی مجھ پر) اللہ کا غضب ہو اگر یہ (مرد اس الزام لگانے میں) سچا ہو۔
عدالت کا فائدہ یہ ہے کہ فیصلے کو قانونی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ لہٰذا جب اس نے اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگایا اور ثبوت نہ پیش کر سکا تو لعان ہوگا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved