اِس باب میں ڈاکٹر غزالہ حسن قادری کے ڈاکٹریٹ کے مقالہ سے ضروری مواد شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے University of Birmingham سے ’’پاکستان میں قانونِ خلع میں اِصلاحات‘‘ کے موضوع پر اپنی PhD کی ہے۔
جواب: خلع کا لغوی معنی ایک شے سے دوسری شے نکالنے کا ہے۔ اصطلاحًا خلع کے معنی بر وزنِ نَزَعَ باہر نکالنے یا اتارنے کے آتے ہیں۔ مثلاً خَلَعَ النَّعْلَ وَالثَّوْبَ(1) (اس نے جوتے اور کپڑے اتارے یا اس نے خود سے جدا کیے)۔ چونکہ خلع میں عورت مرد کے رشتہ زوجیت سے باہر آجاتی ہے اس لیے شرعاً خلع کا مفہوم یہ ہے مِلکِ نکاح سے دست بردار ہونا۔
(1) ابن منظور، لسان العرب، 8: 76
امام ابن ہمام حنفی نے لکھا ہے:
إزالۃ ملک النکاح.
ابن الہمام، شرح فتح القدیر، 4: 210-211
مِلکِ نکاح زائل کرنے کو خلع کہتے ہیں۔
علامہ حصکفی لکھتے ہیں:
هو إزاله ملک النکاح المتوقفه علی قبولها بلفظ الخلع أو في معناه ولا بأس.
حصکفی، الدر المختار، 3: 439
مِلکِ نکاح کو ختم کرنا، جو عورت کے قبول کرنے پر موقوف ہے۔ لفظِ خلع کے ساتھ یا اس کے ہم معنی لفظ سے اور ضرورت کے وقت خلع کرنے میں حرج نہیں۔
خَلَعَ کا لفظ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے باہر آنے کو بھی کہتے ہیں:
من خلع یداً من طاعة لقي الله تعالٰی لا حجة له. أی: خرج من طاعة سلطانه.
ابن الأثیر، النھایۃ، 2: 64
جس نے اطاعتِ حاکم سے ہاتھ کھینچا تو وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ اس کی کوئی حجت باقی نہیں ہوگی۔
یہاں خلع خروج کے معنی میں ہے۔ اِسی طرح خلع سے مراد رشتہ زوجیت سے باہر آنا اور رشتہ زوجیت کا ختم ہونا ہے۔
جواب: جس طرح مرد کے اختیار میں طلاق ہے اسی طرح خلع کو عورت کے اختیار میں رکھا گیا ہے۔ اگر عورت کو مرد کی طرف سے کوئی تکلیف ہو تو اس کے اختیار میں خلع ہے اور اگر مرد کو عورت کی طرف سے تکلیف ہو تو شارع نے اسے طلاق کااختیار دیا ہے۔
خلع کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرد عورت سے کچھ معاوضہ لے کر عورت کو چھوڑ دے۔ خلع عام حالات میں مکروہ ہے اور صرف اس حالت میں جائز ہے جب شوہر اور بیوی میں سے ہر ایک کو یہ خطرہ ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے اور اس سے مرد اور عورت کے درمیان حسنِ معاشرت ناپسندیدہ ہوگی یا اس وجہ سے کہ مرد کی صورت عورت کے نزدیک ناپسندیدہ ہو یا اس کے اخلاق عورت کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں۔
جواب: اگر عورت ازدواجی زندگی سے مطمئن نہ ہو تو ایسی صورت میں قرآن کی رُو سے وہ خلع کا حق رکھتی ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ م بِاِحْسَانٍ ط وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا اِلآَّ اَنْ یَّخَافَآ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللهِ ط فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ط تِلْکَ حُدُوْدُ اللهِ فَلاَ تَعْتَدُوْهَا ج وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللهِ فَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَo
البقرۃ، 2: 229
طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے، اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ جو چیزیں تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لو سوائے اس کے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ (اب رشتہء زوجیت برقرار رکھتے ہوئے) دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے،سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے، یہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں، پس تم ان سے آگے مت بڑھو اور جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں سو وہی لوگ ظالم ہیں۔
یعنی حدود اللہ کو قائم نہ رکھ سکنے کے خطرہ کے باعث عورت کو خلع کا اختیار دیا گیا ہے مگر قرآن حکیم میں ایک مقام پر یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ شوہر اگر طلاق دینا چاہتا ہے تو معاوضہ وصول کرنے کے لالچ میں وہ بیوی کو خلع لینے پر مجبور نہیں کر سکتا یہاں تک کہ اگر وہ بیوی کو مہر میں ایک معقول رقم ہی کیوں نہ دے چکا ہو۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰـٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ کَرْھًا ط وَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْھَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ ج وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ج فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓـی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّیَجْعَلَ اللهُ فِیْهِ خَیْرًا کَثِیْرًاo
النساء، 4: 19
اے ایمان والو! تمہارے لیے یہ حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جائو، اور انہیں اس غرض سے نہ روک رکھو کہ جو مال تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ (واپس) لے جائو سوائے اس کے کہ وہ کھلی بدکاری کی مرتکب ہوں، اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتائو کرو، پھر اگر تم انہیں نا پسند کرتے ہو تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دےo
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَوْجٍ لا وَاٰتَیْتُمْ اِحْدٰھُنَّ قِنْطَارًا فَـلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَیْئًا ط اَتَاخُذُوْنَہٗ بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًاo
النساء، 4: 20
اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم ناحق الزام اور صریح گناہ کے ذریعے وہ مال (واپس) لینا چاہتے ہو؟o
جواب: اسلام میں سب سے پہلے حقِ خلع حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے استعمال کیا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
إِنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ، مَا أَعْتِبُ عَلَیْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِینٍ، وَلٰکِنِّي أَکْرَهُ الْکُفْرَ فِي الإِسْلَامِ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: أَتَرُدِّینَ عَلَیْهِ حَدِیقَتَہٗ. قَالَتْ: نَعَمْ. قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: اقْبَلِ الْحَدِیقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِیقَۃً.
بخاری، الصحیح، کتاب الطلاق، باب الخلع و کیف الطلاق فیہ، 5: 2021، رقم: 4971
حضرت ثابت بن قیس کی اہلیہ حضورنبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں: یارسول اللہ! میں کسی بات کی بنا پر ثابت بن قیس سے ناخوش نہیں ہوں، نہ اُن کے اخلاق سے اور نہ اُن کے دین سے، لیکن میں مسلمان ہو کر احسان فراموش بننا ناپسند کرتی ہوں۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا تم ان کا باغ واپس دینا چاہتی ہو۔ وہ عرض گزار ہوئیں: جی ہاں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان کا باغ دے دو اور اُن سے ایک طلاق لے لو۔
حدیث مبارکہ کے الفاظ ’اسلام کے بعد کفر میں داخل ہونے کو ناپسند کرتی ہوں‘ سے مراد ہے کہ میں ایسی چیز ناپسند کرتی ہوں جو اسلام کے منافی ہو کہ میں اپنے خاوند کی نافرمانی کروں، اس کی اطاعت نہ کروں اور اس کی خدمت نہ کروں وغیرہ۔
جواب: فیملی لاء کے مطابق خلع لینے کا طریقہ یہ ہے کہ جب خاتون فیملی کورٹ میں خلع کا کیس فائل کرتی ہے۔ تو 8 دن کے اندر شوہر کو نوٹس جاتا ہے۔ اس کے بعد شوہر کی طرف سے جواب دعویٰ آتا ہے۔ اس جواب دعویٰ کے بعد عدالت ایک تاریخ مقرر کرتی ہے۔ جس کو ابتدائی مصالحت کہتے ہیں۔ اس مصالحت کی تاریخ پر میاں بیوی کو بلایا جاتا ہے، عدالت ان کو موقع دیتی ہے کہ اگر جذبات میں آکر، غصے میں یا کسی غلط فہمی کی بنیاد پر کیس فائل ہوگیا ہے تو مصالحت کرلیں اور کیس ختم کر دیں اگر ابتدائی مصلحت ناکام ہو جائے یا عدالتی نوٹس ملنے کے باوجود مقدمہ کی سماعت کے لیے شوہر حاضر نہ ہو پائے تو جج پر لازم ہوتا ہے کہ وہ فوری بیوی کے حق میں کارروائی کرکے خلع کی ڈگری جاری کر دے۔
جواب: تنسیخ نکاح ایکٹ 1939ء سیکنڈ گراؤنڈ کے مطابق عدالت دو ماہ میں خلع کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ خلع عدالت میں دائرگی کے بعد یک طرفہ کی صورت میں تقریباً 2 ماہ کے اندر فائنل ہو جاتا ہے۔ اگر دوسرا فریق بھی عدالت حاضر ہوجائے تو پھر زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ عدالت سے ڈگری ہونے کے بعد متعلقہ یونین کونسل میں عدالتی ڈگری جمع کروائی جاتی ہے۔ پھر یونین کونسل ایک ایک ماہ بعد فریق مخالف کو نوٹس کرتی ہے۔ یونین کونسل میں عدت کا دورانیہ 3 ماہ ہے جو اُس تاریخ سے شروع ہوگا جب عدالتی ڈگری یونین کونسل میں جمع کروائی جاتی ہے۔ 3 ماہ گزرنے کے بعد یونین کونسل طلاقِ مؤثرہ کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیتی ہے۔ اگر عورت حاملہ ہے تو خلع عدالت سے ڈگری ہونے کے بعد بھی جب تک بچے کی پیدائش نہ ہو جائے طلاق مؤثر نہ ہوگی۔
جواب: شادی ایک ایسا متبرک تعلق ہے جس میں دونوں فریقین کو ایک دوسرے کے ساتھ پیار ، محبت، عزت اور احترام کے ساتھ رہنے کا پابند بنایا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جنسی اعتبار سے معاشرے میں ناہمواری ہمیں گھر سے لے کر ریاست تک اور بالخصوص ازدواجی زندگی میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت اپنی زندگی کو تلخی سے بچانے کے لیے خلع کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ ایسی وجوہات جن کی بنا پر عورت بذریعہ عدالت حقِ خلع اِستعمال کرسکتی ہے، درج ذیل ہیں:
بے روزگاری اور مالی وسائل کی قلت گھریلو جھگڑے کا باعث بنتی ہے کیونکہ بنیادی ضروریات پوری نہیں ہو پاتیںاور نوبت علیحدگی تک آجاتی ہے۔بعض اوقات خاوند کام تو کرتا ہے مگر بیوی کو خرچ نہیں دیتا اور چھوٹی چھوٹی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے اسے بار بار شوہر کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔ ایسے دلبرداشتہ حالات سے بچنے کے لیے عورت خلع لے سکتی ہے۔
شوہر کا بیوی پر تشدد کرنا جس میں جسمانی ایذائ، گالی گلوچ، بے جا مار پیٹ اور تذلیل شامل ہے۔ خاص طور پر منشیات کا عادی شوہر جب کوئی کام کاج نہیں کرتا اور نشے کی حالت میں بیوی پر تشدد کی انتہاء کر دیتا ہے۔ تو ایسی صورت میں عورت کے لیے یہ ظلم و ستم ناقابل برداشت ہو جاتا ہے اس بناء پر وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے۔ اندریں صورت ایسے ظالم شخص سے عورت کو چھٹکارا دلوانے کی خاطر عدالت تنسیخِ نکاح کا اِختیار رکھتی ہے۔
جب عورت کو کم جہیز لانے پر طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے تو وہ مجبور ہو کر بذریعہ عدالت حقِ خلع اِستعمال کرسکتی ہے۔
اگر شوہر گھر سے 4 سال تک غائب رہے، اور اس کے بارے میں کسی کو علم ہو نہ ہی عورت سے کوئی رابطہ ہو توایسی صورت میں خاتون خلع لے سکتی ہے۔ لیکن آج کل جدید ذرائع اِبلاغ کی بھرمار کے دور میں کسی شخص کے بارے میں جاننا نہایت آسان ہوجاتا ہے۔ لہٰذا عورت 4 سال سے پہلے بھی خلع کے لیے عدالت کی طرف رجوع کرسکتی ہے۔
اگر شوہر کو کسی بھی عدالت کی طرف سے طویل عرصہ (سات سال) قید کی سزا ہو جائے تو اس وجہ سے عورت عدالت میں جاکر خلع لے سکتی ہے۔
اگر شوہر ذہنی توازن کھو بیٹھے اور بحالی کی کوئی امید نہ رہے تو ایسی صورت میں عورت خلع لے سکتی ہے۔
مسلم لاء آرڈنینس کے تحت شریعت مرد کو چار شادیوں کی اجازت دیتی ہے لیکن قانون نے اس پر قدغن لگائی ہے کہ وہ اپنی پہلی بیوی یا بیویوں سے بذریعہ یونین کونسل سے مزید شادی کی اجازت حاصل کر ے گا۔ اگر وہ اجازت کے بغیر شادی کر لیتا ہے تو اس بنا پربھی عورت عدالت سے خلع لے سکتی ہے۔
کم عمری میں والدین یا سرپرست کی جانب سے کی گئی شادی کو لڑکی بالغ ہوتے ہی اپنی مرضی سے ختم کرسکتی ہے۔ اگر اس وقت بچپن کے نکاح کا انکار نہ کرے تو بعد میں خلع کے لیے عدالت سے رجوع کرسکتی ہے کہ میری کم عمری میں شادی کر دی گئی تھی۔ اب میں بالغ ہوگئی ہوں اور یہ شادی قائم نہیں رکھنا چاہتی۔ اس درخواست پر عدالت تنسیخِ نکاح کی مجاز ہوگی۔
اگر شوہر خود بری عورتوں سے میل میلاپ رکھے اور بیوی کو غیر اخلاقی زندگی گذارنے پر مجبور کر دے یا مذہب پر عمل کرنے سے رو کے۔ تو ایسی صورت میں عورت عدالت سے خلع لے سکتی ہے۔
جواب: بغیر کسی جواز کے عورت کا خلع لینا ایک ناجائز امر ہے حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَیُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا مِنْ غَیْرِ بَأْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَیْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّۃِ.
ترمذی، الصحیح، کتاب الطلاق، باب ما جاء فی المختلعات، 3: 493، رقم: 1187
جس عورت نے بھی اپنے شوہر سے بغیر کسی معقول عذر اور مجبوری کے خلع حاصل کیا، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
جواب: جی نہیں! عورت کا حصولِ خلع کے لیے ثبوت دینا ضروری نہیں ہے۔ خلع کے حصول کے سلسلہ میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی زوجہ حبیبہ یا جمیلہ کی طرف سے حدیث مبارک کی مختلف روایات منسوب ہیں۔ جس میں ان کی اپنے شوہر سے ناپسندیدگی،ان کے ظلم و ستم اور سخت رویہ کا ذکر آتا ہے۔مثلاً:
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے حبیبہ بنت سہل جو ثابت بن قیس کے نکاح میں تھیں۔
فَضَرَبَھَا فَکَسرَ نَقْضَھَا.
ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب فی الخلع،2: 269، رقم: 2228
انہیں ان کے شوہر نے پیٹا اور ان کا کوئی عضو توڑ دیا۔
حضرت عمرو بن شعیب اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس زیادہ خوش شکل نہ تھے۔ حبیبہ بن سہل نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا:
وَاللهِ، لَولا مَخَافَةُ اللهِ إِذَا دَخَلَ عَلَیَّ لَبَصَقْتَ فِی وَجْھِهٖ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب الطلاق، باب المختلعۃ تأخذما أعْطاھَا، 2: 524، رقم: 2057
اللہ کی قسم!ـ مجھے اگر اللہ کا خوف نہ ہو تو جب وہ میرے پاس آتے تو میں ان کے منہ پر تھوک دیتی۔
حافظ ابن حجر عسقلانی بیان کرتے ہیں کہ ان کا اپنی زوجہ کے ساتھ رویہ بھی سخت تھا۔
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 9: 457
امام بخاری کی روایت کے مطابق حضرت ثابت بن قیس کی بیوی حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کرتی ہیں:
وَلَکِنِّی لاَ أُطِیْقُہٗ۔
بخاری، الصحیح، کتاب الطلاق، باب الخلع وکیف الطلاق فیہ، 5: 2022، رقم: 4972
مجھ میں اسے برداشت کرنے کی مزید ہمت نہیں ہے (یعنی میں اس کے ساتھ مزید نہیں رہ سکتی)۔
ان وجوہات کی بنا پر ان کی بیوی نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے شوہر سے علیحدگی کا مطالبہ کیا۔ جس پر آپ ﷺ نے اسے اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ خلع اختیار کر لے اس موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ نے ان سے خلع کے مطالبہ پر کوئی ثبوت طلب نہ فرمایا۔
حدیث مبارک سے متعلق مختلف روایات کی روشنی میں اور آئمہ کرام کی آراء سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خلع کے حصول کے لیے عورت کا جواز پیش کرنا یا ثبوت دینا ضروری نہیں ہے۔
جواب: جی نہیں! خلع کے لیے شوہر کی رضا مندی ضروری نہیں کیونکہ بیوی شوہر سے خلع کا مطالبہ صرف اسی صورت میں کرتی ہے جب اسے شوہر سے اختلاف ہو۔ جس طرح شریعت نے مرد کو طلاق کا حق دیا ہے اسی طرح عورت کو خلع کا اختیار دیا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ طلاق کے معاملے میں مرد بااختیار ہوتا ہے وہ جب چاہے اس حق کو استعمال کر سکتا ہے جبکہ عورت کو خلع کے لیے عدالت کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔
اس کا ثبوت گزشتہ صفحات میں بیان کی گئی حدیثِ ثابت بن قیس سے ملتا ہے جس میں حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کا کردار مکمل خاموشی والا ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ نے بطور جج ان کے درمیان فیصلہ فرماتے ہوئے حکم دیا کہ وہ اپنی زوجہ کو طلاق دے اور بدل میں اپنا باغ واپس لے لے۔ علاوہ ازیں فقہاء اور مفسرین نے خلع پر جو بھی باب قائم کیا اس میں انھوں نے خلع کی کیفیت ، ماہیت اور اس کے فقہی احکامات کو ہی موضوع ِ بحث بنایا ۔کسی نے بھی شوہر کی رضامندی کو لازم قرار نہیں دیا۔ مثلاً:
وإذ اختلعت المرأۃ من زوجھا فالخلع تطلیقۃ بائنۃ۔
الشیباني، الأصل: 549
اگر بیوی اپنے خاوند سے خلع لے لے تو خلع طلاقِ بائنہ ہے۔
امام شیبانی کے نزدیک بیوی کا شوہر سے علیحدہ ہونا یا خود کو شادی کے بندھن سے آزاد کرانا جائز ہے۔ وہ اس بات پر کوئی دلیل نہیں دیتے کہ خلع کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری ہے۔
امام ابو بکر الجصاص بیان کرتے ہیں:
اگر زوجین کو یہ خوف ہو کہ وہ حدود اللہ کو رشتہ زوجیت میں رہتے ہوئے مزید قائم نہیں رکھ سکیں گے تو پھر بیوی کے لیے جائز ہے کہ وہ خلع اختیار کرے (یعنی شوہر کی رضامندی خلع کے لیے ضروری نہیں)۔
جصاص، احکام القرآن، 1: 535
سرخسی خلع کے باب کو شروع کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ
وإذا اختلعت المرأة من زوجها فالخلع جائز والخلع تطلیقة بائنة عندنا.
سرخسی، المسبوط، 6: 171
بیوی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ خلع کے لیے دعوی کرے اور اس کے فقہی احکامات وہی ہوں گے جو طلاق بائن کے ہوتے ہیں۔
یہاں بھی شوہر کی رضامندی کو لازمی قرار نہیں دیا گیا۔ لیکن خلع یا تو فریقین کی باہمی رضامندی سے ہوگا اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مقدمہ فریق ثالث کی یعنی قاضی یا جج کی طرف منتقل ہوجائے گا۔
امام کاسانی کا خلع کے حوالے سے قائم کیا گیا باب خلع کے لیے شوہر کی رضامندی کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کرتا۔ بلکہ ان کی بنیادی بحث خلع کے فقہی احکامات legal effect کے گرد گھومتی ہے کہ خلع حکم کے لحاظ سے طلاق بائن کی حیثیت رکھتی ہے مزید براں امام کاسانی کے نزدیک قاضی کا حکم بھی خلع میں اہمیت رکھتا ہے کہ خلع یا تو بغیر کسی قانونی کارروائی کے باہم فریقین کی رضامندی سے بھی ہو سکتی ہے اور دوسری صورت میں (یعنی جھگڑے کی صورت میں) قاضی ہی خلع کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے۔
الجصاص بیان کرتے ہیں کہ حسن البصری اور ابن سیرین عدالت کے ذریعے خلع کے حصول کی اجازت دیتے ہیں:
أن الخلع لایجوز إلّا عند السلطان.
جصاص، احکام القرآن، 1: 539
خلع کا اِختیار حاکم کے پاس ہے۔
کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اگر زوجین کی صواب دید پر اس معاملے کو چھوڑ دیا گیا تو ہوسکتا ہے کہ اس طرح بیوی کے حقوق تلف ہوں۔ اگر خلع عدالت کے ذریعے یا زوجین کی باہم رضامندی سے یا کسی ثالث کی مداخلت سے ہو تو ان سب صورتوں میں خلع جائز ہے۔
مفسرین کرام سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 229 کی تفسیر کرتے ہوئے عدالتوں کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ زوجین کے درمیان باہمی کشمکش کے دوران جھگڑوں کو ختم کرا کے معاملات حل کریں۔ مثلاً:
امام قرطبی بیان کرتے ہیں کہ اِس آیت کا پہلا حصہ - اَنْ یَّخَافَآ (کہ دونوں کو اندیشہ ہو) - شوہر اور بیوی دونوں کی طرف منسوب ہوتا ہے:
اَنْ یَّخَافَآ: والخطاب للزوجین.
قرطبی، الجامع الاحکام القرآن، 2: 137
’’کہ دونوں کو اندیشہ ہو‘‘ میں خطاب شوہر اور بیوی دونوں کے لیے ہے۔
جب کہ آیت مبارکہ کا اگلا حصہ - اِنْ خِفْتُمْ (اگر تمہیں اندیشہ ہو) - زوجین کی طرف نہیں بلکہ تیسرے فریق کی طرف منسوب ہوتا ہے یا حاکم (سلطان) کی طرف یا ان احباب کی طرف جو اس کی جانب سے متعین ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
فَاِنْ خِفْتُمْ: فجعل الخوف لغیر الزوجین.
قرطبی، الجامع الاحکام القرآن، 1: 138
’’پھر تمہیں اندیشہ ہو‘‘ سے یہاں مراد ہے کہ اندیشہ غیر زوجین کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 229 کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابن ہمام بیان کرتے ہیں کہ عربی کے الفاظ - اِنْ خِفْتُمْ (اگر تمہیں اندیشہ ہو) - خاص طور پر ائمہ، حکام اور judges کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے یہ شرط بیان کی کہ اگر تمہیں یعنی حکام یا judges کو اندیشہ ہو کہ دونوں میاں بیوی اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کی پامالی کریں گے اور اپنے باہمی جھگڑوں کو نبٹانے میں ناکام ہیں تو پھر اس صورت میں حکام اور judges اسے حل کریں گے۔
مذکورہ بالا آراء کی روشنی میں یہ ثابت ہوا کہ خلع کے لیے شوہر کا رضامند ہونا ضروری نہیں کیونکہ اگر زوجین میں باہم رضامندی کے ساتھ علیحدگی ہو جائے تو وہ فقہی اصطلاح میں خلع مبارات کے معنی میں آئے گا۔ جب کہ خلع تو بیوی کا یک طرفہ فیصلہ ہوتا ہے جس میں شوہر کا راضی ہونا ضروری نہیں۔ اسے تنسیخِ نکاح بھی کہتے ہیں۔
جواب: شریعت نے عورت کو خلع کا حق دیا ہے کہ ازدواجی زندگی کے نا مساعد حالات میں وہ خلع لے سکتی ہے۔ لیکن شرعی و قانونی حق ہونے کے باوجود بہت ساری وجوہات ایسی ہیں جن کے باعث عورت خلع لینے سے گریز کرتی ہے ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
مظلوم خاتون بچوں اور ان کے مستقبل کو روشن کرنے کے لیے گھریلو تشدد اور ظلم و زیادتی کو برداشت کرتی ہے اور خلع کے حق کو استعمال نہیں کرتی۔
خلع کا شعور رکھنے کے باوجود عورت اس حق کو استعمال نہیں کرتی کیونکہ اسے خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ خلع حاصل کرنے کے بعد اسے معاشرے میں تحفظ نہیں ملے گا۔
ایک طرف میکہ کی عزت و آبرو قائم رکھنے کے لیے عورت خود کو شوہر کے مظالم اور سسرال کی جانب سے ملنے والے طعن و تشیع کو برداشت کرتی ہے۔ تو دوسری طرف مطلقہ یا خلع لینے والی عورت کو میکے میں ایک بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔
خلع نہ لینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عموماً شادی کے موقع پر بیٹی کو والدین کی طرف سے یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ جس گھر سے تم رخصت ہوکر جارہی ہو ہمیشہ وہی رہنا، اور تمہارا جنازہ وہاں سے اٹھنا چاہیے، گویا شروع سے ہی لڑکی کی ذہن سازی کی جاتی ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں تم نے زندگی وہی بسر کرنی ہے۔ اکثر اس نصیحت کو نبھاتے ہوئے عورت کی زندگی شوہر کے مظالم کی نظر ہو جاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ یا خلع لینے والی عورت کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور اگر فیملی میں بڑی بہن کے ساتھ یہ مسئلہ پیش آجائے تو اسے بدشگونی تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے اثرات بالخصوص چھوٹی بہنوں کے رشتوں پر مرتب ہوتے ہیں۔
درج بالا وجوہات اور معاشرتی حالات کی بنا پر عورت حقِ خلع کا شعور رکھنے کے باوجود اسے استعمال نہیں کرتی بلکہ اپنے لیے ایک کٹھن زندگی کا انتخاب کرتی ہے او زندگی کے تلخ تجربات کا سامنا کر کے بھی وہ تکلیف دہ بندھن کو نبھانے کے لیے پرعزم رہتی ہے اسے گھر بسانے کی قیمت اپنی عزتِ نفس، خودداری اور انفرادیت ختم کر کے ادا کرنا پڑتی ہے۔
جواب: تھیوری کی حد تک تو عورت کے خلع لینے کے قوانین سادہ اور آسان معلوم ہوتے ہیں۔ مگر عملی زندگی میں یہ بڑا پیچیدہ، مہنگا اور توہین آمیز ہے بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ خلع کے لیے نوٹس بھیجنے پر خاوند آئے گا اور عورت کٹھن اور تلخ زندگی سے آزاد ہو جائے گی مگر زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں موجودہ عدالتی نظام درست نہ ہونے کی وجہ سے خلع کے حصول کے لیے عورت کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ درج ذیل ہیں:
1۔ قانونی طور پر خلع کا فیصلہ دعویٰ دائر ہونے کے بعد چار ماہ کے اندر ہو جانا چاہیے۔ لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ بعض اوقات چھ ماہ اور سال تک کا عرصہ بھی لگ جاتا ہے۔ جبکہ نان و نفقہ اور جہیز کے معاملات خلع ہونے کے بعد بھی حل نہیں ہو پاتے۔
2۔ عورت اس وقت ذہنی اور قلبی اذیت سے دوچار جاتی ہے جب خلع کے کیس کو طویل یا مؤخر کرنے کے لیے شوہر جان بوجھ کر بروقت عدالت میں حاضر نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے عدالتی اخراجات بہت بڑھ جاتے ہیں جو بیوی کو ہی ادا کرنا ہوتے ہیں۔ ایسی خواتین جو پہلے ہی معاشی مسائل کا شکار ہوتی ہیں ان کے لیے اس فیس کی ادا ئیگی ایک تکلیف دہ کٹھن مرحلہ ہوتا ہے اور بسا اوقات مقدمے کا فیصلہ ہونے تک وہ مقروض ہو چکی ہوتی ہیں۔
3۔ خلع کے حصول تک عورت روزانہ نت نئے مسائل سے دو چار رہتی ہے مثلاً عدالت میں پابندی وقت کو ملحوظ نہ رکھنا، وکلاء کا بیک وقت کئی مقدمات کی نگرانی کرنا، مقدمات کی سماعت کا منظم نظام نہ ہونا، ججوں اور وکلاء کا clientsکو مطلع کیے بغیر چھٹیوں پر چلے جانا، ضلعی عدالتوں کے ججوں کا بیک وقت کئی مقدمات مثلاً criminal اور سول مقدمات کے ساتھ ساتھ فیملی لاء مقدمات کی نگرانی وغیرہ شامل ہیں۔
4۔ عورت کے لیے یہ بڑا تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے جب شوہر عدالتی نوٹس ملنے کے باوجود حاضر نہیں ہوتا اور نوٹس جاری ہونے کا ثبوت نہ ملنے پر اس کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری نہیں ہو پاتے۔ جس کی وجہ عدالتی کلرکوں کا دیگر انتظامی امور کی نگرانی کے باعث فائلوں کو منظم انداز میں ترتیب نہ دینا ہے اور اگر کبھی عدالت کی طرف سے وارنٹ گرفتاری جاری بھی ہو جائے تو علاقے کی پولیس کے تعاون سے شوہر کو فرار ہونے میں مدد مل جاتی ہے۔
جواب: خلع سے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے۔ امام برہان الدین مرغینانی لکھتے ہیں:
فإذا فعلا ذلک وقع بالخلع تطلیقة بائنة ولزمها المال.
مرغینانی، الھدایہ، 2: 13
اگر میاں بیوں نے خلع کا فیصلہ کر لیا تو خلع کی وجہ سے عورت پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگی اور عورت کے ذمہ مال واجب ہوگا۔
جواب: خلع کے بعد رجوع نہیں، بلکہ تجدید نکاح ہوسکتی ہے۔ خلع کی صورت میں چونکہ طلاق بائن ہوتی ہے۔ بائن وہ طلاق ہے جس میں شوہر بغیر نکاح کے عورت سے ازدواجی تعلقات قائم نہیں کرسکتا ہے۔ اگر فریقین باہمی رضا مندی سے اَز سر نو دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ یک طرفہ ڈگری کی صورت میں عورت کی رضا مندی سے حیثیت رجعی رہتی ہے اور تجدید نکاح ہوسکتا ہے۔ تجدید نکاح کی صورت میں عدت گزرنے کی قید نہیں۔ لیکن اگر عورت کسی اور سے نکاح کرنا چاہے تو عدت گزرنے کے بعد ہی کرسکتی ہے۔
جواب: جب خاوند بیوی کے حقوق بھی پورے نہ کرے یا حقوق پورے کرنے کے قابل ہی نہ ہو اور اس پر ظلم و زیادتی کرے، طلاق دے نہ بیوی بنا کر رکھے ان صورتوں میں بیوی بذریعہ عدالت تنسیخ نکاح کروا سکتی ہے۔
جواب: عورت درج ذیل وجوہات کی بناء پرتنسیخِ نکاح کا مطالبہ کرسکتی ہے:
1۔ اگر خاوند عورت پر تشدد کرنے والا ہو، اسے برائی کی طرف مائل کرنے والا ہو اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی ادائیگی سے روکنے والا ہو اور طلاق بھی نہ دے تو اس صورت میں عورت تنسیخ نکاح کا مطالبہ کرسکتی ہے۔
2۔ بیوی اگر اپنے شوہر کی سیرت، دین سے دوری یا جسمانی ضعف کی وجہ سے اسے ناپسند کرنے لگے اور یقین ہو کہ زوجین ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی نہیں کرسکیں گے۔
3۔ عورت کو شوہر سے جان و مال اور عزت کا خطرہ لاحق ہو۔
جواب: برصغیر پاک و ہند میں پہلے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کا کوئی قانون نہ تھا۔ عورت کی قسمت کی باگ ڈور مر دکے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ وہ جس طرح چاہتا اس کو ذلیل و رسوا کرتا۔ عورت کو مرد سے جان چھڑانے کا کوئی قانونی راستہ نہ تھا۔ اسی طرح کم سنی کی شادی وغیرہ بھی معاشرہ کی مشکلات میں اضافہ کر رہی تھیں۔ بعد ازاں 1939ء مسلم تنسیخ نکاح ایکٹ قوانین میں ایوب خان کے دور میں ترامیم کی گئیں اور خواتین کو کچھ مزید تحفظات دیے گئے اور نکاح و طلاق کے کاموں کو باقاعدہ بنانے کے لیے قوانین وضع کیے گئے۔ انہیں مسلم عائلی قوانین 1961ء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ان کے چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں:
1۔ کوئی مرد اٹھارہ برس سے کم اور عورت سولہ سال سے کم شادی نہیں کرسکتے۔
2۔ پہلی بیوی کی موجودگی میں کوئی شخص اس بیوی کی تحریری اجازت کے بغیر شادی نہیں کر سکتا۔
3۔ بیوی اگر خاوند کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو وہ مقررہ اسباب یا وجوہات پر عدالت میں تنسیخ نکاح کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ ان وجوہات میں خاوند کا ظالم ہونا، نان و نفقہ نہ دینا، نامرد ہونا اور بغیر اجازت دوسری شادی کر لینا شامل ہیں۔
4۔ نکاح کو نکاح خواں کے پاس رجسٹر کرانا ضروری ہے۔
5۔ طلاق سے یونین کونسل کے چیرمین کو مطلع کیا جائے گا اور چیئرمین ایک ثالثی کمیٹی تشکیل دے گا۔ طلاق کانوٹس بیوی کو بھی رجسٹرڈ ڈاک سے بھیجنا ضروری ہے۔
جواب: اگر شوہربیوی کو مارتا پیٹتا ہے، نان نفقہ دیتا ہے نہ خبر گیری کرتا ہے اور نہ ہی طلاق دیتا ہے تو اس صورت میں شوہر کے طلاق دیے بغیر تفریق کا طریقہ کار بذریعہ عدالت تنسیخ نکاح ہے۔ اس صورت حال میں قاضی یا جج کو اختیار ہوتا ہے کہ ظلم کو ختم کرنے کے لیے میاں بیوی کے درمیان تفریق کر دے اگر خاوند عدالت میں پیش نہ بھی ہو تو یکطرفہ فیصلہ کرسکتا ہے۔
جواب: جی ہاں! بالغ شوہر کی نابالغہ بیوی ولی کے ذریعے خلع لے سکتی ہے۔ خلع کی اس صورت میں شوہر کے ذمہ سے مہر ساقط ہو جائے گا کیونکہ خلع سے نکاح کے تمام حقوق ختم ہو جاتے ہیں جبکہ بالغہ بیوی کا ولی کے ذریعے خلع لینا اس کی اجازت پر موقوف ہے یعنی اگر بالغہ بیوی ولی کو خلع کا اختیار دے تو خلع درست ہوگا اور مال کی ادائیگی لازم ہو جائے گی لیکن اگر اجازت نہ دے تو خلع لاگو نہ ہوگا اور نہ مال دینا لازم ہوگا۔
جزیری، کتاب الفقه، 4: 399
جواب: جی ہاں ! خلع یا طلاق کے کاغذات مرد و عورت دونوں لکھ دیں اور بعد میں ان کاغذات کو پھاڑ دیں تو اس صورت میں طلاق واقع ہو جائے گی۔ خلع یا طلاق باطل نہیں ہوگی، عورت اپنے شوہر کے نکاح سے خارج ہوکر مطلقہ ہوگئی۔ عدت گزرنے پر وہ جہاں چاہے دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔
جواب: اگر شوہر اپنی بیوی کو مہر یا زبردستی رقم کے عوض خلع کی شرط رکھتا ہے تو اس صورت میں بھی خلع صحیح ہے اور عورت پر ایک طلاق بائن واقع ہوگی۔ لیکن یہ قاضی پر منحصر ہوگا کہ وہ فریقین کا موقف سننے کے بعد فیصلہ کرے کہ عورت کتنا مالِ مہر دینے کی پابند ہوگی۔ امام محمد فرماتے ہیں:
وبه نأخذُ، لا نُحبُّ لَهٗ أن یزداد علی ما أعطاها شیئاً، وإن فعلَ فهو جائز في القضاءِ.
محمد الشیبانی، کتاب الآثار، 2: 463، رقم: 518
ہم اسی بات کو اختیار کرتے ہیں اس کے لیے اس سے زیادہ لینا پسندیدہ نہیں جس قدر اس نے (بطور مہر) دیا تھا۔ اگر زیادہ لے تو قانونی طور پر جائز ہے (لیکن دیانت داری کے خلاف ہے)۔
ایک اور مقام پر امام محمد بن حسن شیبانی کہتے ہیں:
مَا اخْتَلَعَتْ بِهِ الْمَرْأَةُ مِنْ زَوْجِهَا فَهُوَ جَائِزٌ فِی الْقَضَاءِ وَمَا تُحِبُّ لَہٗ أَنْ یَّأْخُذَ أَکْثَرَ مِمَّا أَعْطَاهَا، وَإِنْ جَاءَ النُّشُوْزَ مِنْ قِبَلِهَا. فَأَمَّا إِذَا جَاءَ النُّشُوْزُ مِنْ قِبَلِهٖ لَمْ نُحِبُّ لَہٗ أَنْ یَّأْخُذَ مِنْهَا قَلِیْلًا وَلَا کَثِیْراً، وَإِنْ أَخَذَ فَهُوَ جَائِزٌ فِی الْقَضَاءِ وَمَکْرُوْہٌ لَہٗ فِیْمَا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ اللهِ تَعَالٰی. وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِیْفَةَ.
محمد الشیبانی، الموطا: 253
عورت جس قدر مال پر بھی اپنے خاوند سے خلع لیتی ہے تو وہ از روئے قانون جائز ہے اور ہم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ خاوند اس سے زیادہ لے جو اس نے اسے دیا تھا، اگرچہ نافرمانی عورت کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو۔ اگر نافرمانی مرد کی طرف سے ہو تو ہم پسند نہیں کرتے کہ خاوند تھوڑا یا زیادہ کچھ بھی لے اور اگر لے لیتا ہے تو اَز روئے قانون جائز ہے لیکن اس مرد اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ناپسندیدہ ہے۔ یہی امام اعظم ابوحنیفہ کا قول ہے۔
جواب: خلع کے لیے مہر کی واپسی شرط نہیں ہے۔ اگرچہ علماء کرام بیوی سے خلع کے بدل میں مہر کے حصول کے لیے ثبوت سورہ البقرہ کی آیت نمبر 229 سے پیش کرتے ہیں۔ جب کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسی آیت مبارکہ کو نہایت مدلل اور محقق انداز میں متن آیت کے لفظ ’لا جناحٌ‘کا ترجمہ ’’اس پر کوئی گناہ نہیں اگروہ کچھ واپس کردے۔‘‘ کی طرف توجہ مبذول کروائی۔
اسلوب قرآن اور لغتِ عرب کے مطابق ’لا جناحٌ‘ کے ذریعے عورت کو حکم نہیں دیا جارہا کہ وہ خلع لیتے ہوئے حق مہر واپس لوٹانے کی پابند ہے۔بلکہ حدود اللہ قائم نہ رکھ سکنے کے خوف کی بنا پر عورت خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ یہاں علیحدگی اختیار کرنے کی صورت میں معاوضہ کی نوعیت قرآن نے نہیںبتائی کہ کم یا زیادہ کتنا مہر دینا ہے اور نہ ہی یہ لازم کیا ہے کہ معاوضہ دینا بیوی پر واجب ہے بلکہ اس آیت کے مطابق اگر بیوی اپنے خاوند سے خلع کے ذریعے آزاد ہونا چاہتی ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ کچھ معاوضہ خاوند کو دے کر آزاد ہو جائے۔
اس نقطہ کو واضح کرنے کے لیے ’لا جناحٌ‘کا معنی کوئی گناہ نہیں، شیخ الاسلام نے قرآن حکیم کے مختلف مقامات پر بیان کی گئی 25 آیات پیش کیں جن میں ’لا جناحٌ‘ کے ذریعے تخیر یعنی اختیار دیا جارہا ہے کہ اگر فلاں کام کر لو تو اس میں کوئی گناہ نہیں، ان سے کسی کام کی فرضیت ثابت نہیں ہوتی۔
مثال کے طور پر قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ ط فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْکُرُوْهُ کَمَا هَدٰکُمْ ج وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَo
البقرۃ، 2: 198
اور تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں اگر تم (زمانہء حج میں تجارت کے ذریعے) اپنے رب کا فضل (بھی) تلاش کرو پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعرِ حرام (مُزدلفہ) کے پاس اللہ کا ذکر کیا کرو اور اس کا ذکر اس طرح کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی، اور بے شک اس سے پہلے تم بھٹکے ہوئے تھے۔
اگر حجاج کرام حج کے دنوں میں تجارت کے خواہش مند ہیں تو ان پر گناہ نہیں کہ دورانِ حج تجارت اور خرید و فروخت کر لیںیعنی ’لا جناحٌ‘کا یہاں اور کہیں بھی یہ معنی قرآنی حکم میں نہیں ہے بلکہ حج کے دوران تجارت کرنے یا نہ کرنے میں اختیار دیا گیا ہے۔ بالکل ایسے ہی خلع لیتے ہوئے عورت کے لیے حق مہر واپس کرنا محض ایک صوابدیدی امر ہے چاہے تو وہ اسے واپس کرے اور چاہے تو نہ لوٹائے تاہم اس کی فرضیت نصِ قرآنی سے ثابت نہیں ۔
حضور شیخ الاسلام کے مؤقف کی تائید ہمیں درج ذیل اقوال سے بھی ملتی ہے:
1۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے مطابق:
لا یحل الفداء حتی یکون الفساد من قبلها.
طبری، جامع البیان، 4: 140
یہ شوہر کے لیے غیر قانونی ہے کہ وہ بیوی سے خلع کے بدل میں معاوضہ طلب کرے سوائے اس صورت کے کہ اگر بیوی کی جانب سے قبل ازاں کوئی فساد ظاہر ہوا ہو۔
2۔ علامہ بدر الدین عینی کے مطابق:
إن کان النشوز من قبله یکره له أن یأخذ منها عوضًا.
عینی، البنایۃ شرح الھدایۃ: 510
اگر شوہر کی جانب سے نافرمانی پائی جائے تو پھر اس کے لیے بیوی سے کچھ بھی واپس لینا ناپسندیدہ ہے۔
3۔ امام مرغینانی کے نزدیک:
إن کان النشوز من قبله یکره له أن یأخذ منھا عوضا۔ وإن کان النشوز منھا کرھنا له أن یأخذ منھا أکثر مما أعطاھا.
مرغینانی، الھدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی، 2: 261
اگر نافرمانی شوہر کی جانب سے ہے تو اس کے لیے مکروہ ہے کہ وہ بیوی سے کچھ بھی واپس لے اور اگر بیوی کی جانب سے نافرمانی ہے تو ہمارے نزدیک بیوی کو جتنا اس نے دیا اس سے زیادہ لینا ناجائز ہے۔
فقہاء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اگر خاوند غلطی پر ہے اور وہ عورت سے زیادتی کرتا ہے تو اس صورت میں مہر کا واپس لوٹانا عورت کے ذمہ نہیں ہے بلکہ زبردستی عورت سے مہر واپس لینے کو بعض فقہاء نے حرام اور مکروہ تحریمی قرار دیا ہے۔ پاکستان کے عائلی قوانین کی روشنی میں عورت سے خلع کے بدل مہر بطور معاوضہ لیا جاتا تھا، اب سال 2015ء میں عائلی قوانین میں کی گئی ترامیم کے بعد عورت کو یہ سہولت دے دی گئی ہے کہ وہ خلع کے عوض مہر کا 25 فی صد حصہ شوہر کو دینے کی پابند ہوگی۔
جواب: جی ہاں! ہر وہ شے جو شرعاً مہر ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے اور مہر میں دی جا سکتی ہے خلع کا معاوضہ ہونے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔
حصکفی، در مختار، 1: 246
جواب: اگر شوہر اپنی بیوی کو کسی حرام شے کے عوض خلع دے تو اس صورت میں بیوی پر طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔ امام ابو حنیفہ کا قول ہے:
عورت پر کوئی معاوضہ واجب نہیں ہے۔
ابن رشد، بدایۃ المجتہد، 2: 79
لیکن اگر شوہر حرام شے کے عوض اپنی بیوی کو طلاق دے تو ایسی صورت میں عورت کے ذمہ معاوضہ واجب نہ ہوگا اور طلاق رجعی واقع ہوگی کیونکہ پہلی صورت میں خلع کا لفظ طلاق بالکنایہ کے سبب طلاق بائن کے حکم میں ہوگا جبکہ دوسری صورت میں طلاق کا لفظ صریح ہے، اس لیے طلاق رجعی واقع ہوگی۔
جواب: جی ہاں! خاوند کا عورت کی پیشکش قبول کرنے سے خلع ہو جاتا ہے، جب تک خاوند عورت کی پیشکش قبول نہ کرے خلع نہیں ہو سکتا۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ.
البقرۃ، 2: 229
پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، سو (اندریں صورت) ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی (خود) کچھ بدلہ دے کر (اس تکلیف دہ بندھن سے) آزادی لے لے۔
فقہاء کرام فرماتے ہیں:
وإذا تشاق الزوجان وخافا أن لا یقیما حدود الله فلا بأس بأن تفتدی نفسھا منه بمال یخلعها به … فإذا فعلا ذلک وقع بالخلع تطلیقه بائنه ولزمها المال.
مرغینانی، الہدایۃ، 2: 13
جب میاں بیوی میں ناچاقی ہو جائے اور دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود قائم نہ رکھ سکیں گے تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ عورت مال دے کر خاوند سے جان چھڑا لے۔ … پھر جب خاوند نے یہ (مال قبول) کر لیا تو ایک طلاق بائن واقع ہوگی اور عورت کو مال دینا لازم ہوگا۔
لہٰذا خلع دو باتوں پر موقوف ہے: پہلی یہ کہ عورت مال دے کرجان چھڑا لے اور دوسری یہ کہ خاوند مال قبول کر لے۔ اگر عورت مال دینا چاہتی ہے اور خاوند قبول نہیں کرتا تو خلع ہوگا نہ طلاق۔ البتہ عورت عدالت سے مدد لے سکتی ہے کہ وہ خاوند کو اس بات پر راضی کرے کہ وہ مال لے کر اُسے آزاد کر دے۔
جواب: جی ہاں! عورت اولاد کے نفقہ کے عوض خلع لے سکتی ہے اور یہ خلع صحیح ہے۔
جواب: عورت کو خلع دیتے وقت مرد کو طلاق کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
حصکفی، درمختار، 1: 247
برصغیر پاک و ہند میں خلع کا ایک خاص مفہوم متعین ہو چکا ہے۔ یہاں بالعموم عورت مہر سے دست برداری کے عوض مرد سے تفریق حاصل کرتی ہے۔ بالفاظِ دیگر پاکستان اور ہندوستان میں خلع اپنے جوہر میں ’طلاق بالمال‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا ہماری عدالتوں کو چاہیے کہ وہ ’خلع‘ اور ’طلاق بالمال‘ کے فرق کو پیش نظر رکھتے ہوئے زوجین میں خلع کرواتے وقت شوہر سے ’خلع‘ کا لفظ کہلوائیں نہ کہ ’طلاق‘ کا۔
جواب: جی ہاں! اگر عورت خلع لینا چاہتی ہے تو اس صورت میں شوہر خلع کے عوض مکان یا جائیداد واپس لینے کی شرط عائد کر سکتا ہے جو اس نے بیوی کے نام کیا تھا۔
جواب: اگر عورت کے خلع کے مطالبہ پر شوہر نے تین طلاقیں دے دیں تو حلالہ شرعی کے بغیر دوبارہ نکاح نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ امام محمد کہتے ہیں کہ ہمارا یہ عمل ہے:
الْخُلْعُ تَطْلِیْقَةٌ بَائِنَةٌ إِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ سَمّٰی ثَـلَاثًا اَوْ نَوَاھَا فَیَکُوْنُ ثَـلَاثًا.
محمد الشیبانی، الموطا: 253
خلع طلاق بائنہ ہے اور اگر تین کا نام لے یا تین کی نیت کرے تو پھر خلع بطور تین طلاق شمار ہوگا۔
خلع کا حکم ایک طلاقِ بائن کا ہے۔ اگر شوہر اور بیوی کے درمیان خلوت ہوچکی ہے اور خلع کی بنیاد پر شوہر نے بیوی کو ایک طلاق دی ہے تو اگر عورت نے عدت گزارنے کے بعد کسی اور سے شادی نہیں کی تو دونوں فریق باہم رضامندی سے حلالہ کے بغیر ازسر نو نکاح کر سکتے ہیں۔
جواب: جی ہاں! تنسیخ نکاح اور خلع میں عدت لازم آتی ہے کیونکہ عدالتی فسخ نکاح ہو یا زوجین کی باہمی رضا مندی کے مالی بدل کے مقابل خلع، یہ دونوں ایک طلاقِ بائن کے حکم ہیں بشرطیکہ ان میں تین طلاق کے الفاظ صریح استعمال نہ کیے گئے ہوں اور دونوں صورتوں میں وہ باہمی رضا مندی سے دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں اور ایسی صورت میں آئندہ شوہر کے پاس صرف دو طلاق کا حق باقی رہے گا اور کسی بھی وقت خدا نخواستہ شوہرنے دوبارہ حق طلاق استعمال کیا تو یہ پہلی طلاق بائن اس کے ساتھ جمع ہو کر موثر ہو جائے گی۔
جواب: خلع والی عورت کی عدت بھی مطلقہ کی طرح تین حیض ہی ہے جس کی تائید مندرجہ ذیل احادیث سے ہوتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
عدَّة المختلعة مثل عدَّة المطلَّقة.
عبد الرزاق، المصنف، 6: 507، رقم: 11860
خلع والی عورت کی عدت بھی مطلقہ کی عدت کی طرح ہی ہے۔
امام زہری اور قتادہ سے مروی ہے:
خلع والی عورت کی عدت تین حیض ہے۔ امام معمر کہتے ہیں کہ امام حسن بصری نے فرمایا: فقہاء کرام کا یہی مسلک ہے۔
عبد الرزاق، المصنف، 6: 507، رقم: 11861
ابو سلمیٰ سے روایت ہے:
عدَّة المختلعة ثلاث حیض.
عبد الرزاق، المصنف، 6: 507، رقم: 1862
خلع والی عورت کی عدت تین حیض ہے۔
جواب: مبارات کے لفظی معنی ایک دوسرے سے بری ہونے کے ہیں۔ مبارات میں شوہر یا بیوی یا دونوں میں سے کسی ایک کی طرف سے ایجاب ہو سکتا ہے اور اس کے قبول ہو جانے کے ساتھ ہی نکاح کی کامل تنسیخ عمل میں آجاتی ہے اس کے لیے کسی قاضی کے حکم کی ضرورت نہیں۔ مبارات اپنے اثر کے لحاظ سے خلع کی طرح طلاق بائن کا حکم رکھتی ہے۔
جواب: خلع کا مطالبہ عموماً عورت کی جانب سے ہوتا ہے اور اگر مرد کی طرف سے اس کی پیش کش ہو تو عورت کے قبول کرنے پر موقوف رہتی ہے۔ عورت قبول کر لے تو خلع واقع ہوتا ہے ورنہ نہیں۔ جب کہ طلاق دینے کا اختیار مرد کو ہے۔ جب مرد نے طلاق دے دی تو طلاق ہوگئی، اس میں عورت کا اختیار نہیں۔ مبارات طلاق کی ایسی قسم ہے جس میں زوجین باہمی رضا مندی سے ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ اس میں عدالت سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved