جواب: میاں بیوی میں ہم آہنگی نہ ہونے کی صورت میں خاندان کے چند معزز افراد کو مل کر ان کے مابین پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ رشتہ زوجین باہم استوار رہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے:
وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِهٖ وَحَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا ج اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللهُ بَیْنَھُمَا ط اِنَّ اللهَ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًاo
النساء، 4: 35
اور اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان مخالفت کا اندیشہ ہو تو تم ایک منصف مرد کے خاندان سے اور ایک منصف عورت کے خاندان سے مقرر کر لو، اگر وہ دونوں (منصف) صلح کرانے کا اِرادہ رکھیں تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، بے شک اللہ خوب جاننے والا خبردار ہے۔
لیکن اگر تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود ایسے حالات پیدا نہ ہو سکیں اور گھریلو نظام کی عمارت میں دراڑیں پڑنا شروع ہو جائیں اور میاں بیوی کی طبیعتوں میں کسی صورت ہم آہنگی پیدا نہ ہو تو اس صورت میں طلاق کو اختیار کیا جائے۔ اسلام بھی اسی مصلحت کے تحت طلاق کو ان ناگزیر حالات میں جائز قرار دیتا ہے جب موافقت پیدا کرنے کی تمام صورتیں ناکام ہو جائیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌم بِاِحْسَانٍ.
البقرة، 2: 229
طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔
لہٰذا جب فریقین میں بے حد نفرت پیدا ہوجائے اور ان کا بطور میاں بیوی رہنا خطرناک ہوجائے تو طلاقِ رجعی دینا بہتر عمل ہے۔
جواب: طلاق دینے کا اختیار مرد کو ہے کیونکہ نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ میں رکھی گئی جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
بِیَدِهٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ.
البقرۃ، 2: 237
(شوہر) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔
قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق شوہر پر لازم ہے کہ اختلاف اور نزاع کی صورت میں حتی الامکان طلاق سے گریز کرے اور اگر طلاق دینا ناگزیر ہو تو صرف ایک طلاق رجعی دے۔ حضرت ابراہیم سے مروی ہے:
إذا أراد الرجل أن یطلق امرأته للسنَّۃِ ترکھا حتی تحیضَ و تطھرَ من حیضتھا۔ ثم یطلقُھا تطلیقۃً من غیر جماعٍ، ثم یترکھا حتی تنقضیی عدتُھا، وإن شاءَ طلقھا ثلاثاً عند کلِّ طهرٍ تطلیقۃٌ حتی یطلقھا ثلاثاً.
شیبانی، کتاب الآثار، 1: 426، رقم: 459
جب کوئی شخص اپنی بیوی کو سنت کے مطابق طلاق دینے کا ارادہ کرے تو اسے حیض آنے تک چھوڑ دے جب حیض سے پاک ہو تو (اس طہر میں) جماع کیے بغیر اسے ایک طلاق دے پھر اسے (اسی حالت میں) چھوڑے حتی کہ اس کی عدت پوری ہو جائے اور اگر تین طلاقیں دینا چاہے تو ہر طہر میںایک طلاق دے حتی کہ تین طلاقیں دے دے۔
طلاق دینے کا اختیار فقط مرد کو ہے جب مرد نے طلاق دے دی تو طلاق ہو گئی۔ چاہے عورت منظور کرے یا نہ کرے ہر طرح سے طلاق ہو جاتی ہے۔
جواب: طلاق اصالتاً اور بالذات تو شوہر کا حق ہے اور وہ جب چاہے اسے استعمال کر سکتا ہے لیکن یہ حق بیوی کو بھی تفویض کرسکتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے۔
وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِیْضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلآَّ اَنْ یَّعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَ الَّذِیْ بِیَدِهٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ.
البقرۃ، 2: 237
اور اگر تم نے انہیں چھونے سے پہلے طلاق دے دی درآنحالیکہ تم ان کا مَہر مقرر کر چکے تھے تو اس مَہر کا جو تم نے مقرر کیا تھا نصف دینا ضروری ہے سوائے اس کے کہ وہ (اپنا حق) خود معاف کر دیں یا وہ (شوہر) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔
قرآن حکیم نے طلاق دینے کا اختیار صرف خاوند کو دیا ہے البتہ خاوند یہ اختیار چاہے تو بیوی کو مشروط یا غیر مشروط طور پر دے سکتا ہے خواہ نکاح کے وقت یا بعد میں کسی وقت، اگر شوہر اپنی بیوی سے یہ کہے کہ تو جب چاہے یا جب کبھی چاہے یا جس وقت چاہے یا جس وقت بھی چاہے ، اپنے آپ کو طلاق دے سکتی ہے تو یہ حق تفویضِ طلاق دائمی ہو گا جب تک وہ اس شوہر کے نکاح میں ہے اس حق کو استعمال کر سکتی ہے لیکن اگر بیوی کسی خاص موقع پر باہمی تکرار کے دوران شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اور وہ جواباً کہے کہ: ’تم اپنے آپ کو طلاق دے دو‘ یا یہ کہے کہ ’تمہارا معاملہ تمہارے اختیار میں ہے‘ یا یہ کہ ’تم اپنا فیصلہ خود کر لو‘ وغیرہ اور یہ کلمات طلاق کی نیت سے کہے تو اگر بیوی اسی مجلس میں یہ حق استعمال کرے، یعنی یوں کہے کہ ’میں نے اپنے آپ کو طلاق دی‘، ’میں نے اپنے نفس کا خود فیصلہ کر لیا‘ وغیرہ تو طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر اس مجلس میں یہ حق استعمال نہ کیا تو بعد میں اسے یہ حق حاصل نہیں رہے گا۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
إذا خیَّر الرجلُ امرأته فقامت من مجلسھا فلا خیارَ لھا.
شیبانی، کتاب الآثار، 2: 469، رقم: 530
جب کوئی مرد اپنی بیوی کو اختیار دے اور وہ مجلس سے اٹھ جائے تو اسے کوئی اختیار نہیں۔
جواب: طلاق دینے کا حق صرف مرد کو تفویض کیا گیا ہے عورت کو نہیں۔ عورت کو طلاق کا اختیار نہ دینے اور مرد کو طلاق کا اختیار دینے کی چند وجوہات ہیں جو درج ذیل ہیں:
جواب: اگر میاں بیوی کی آپس میں ناچاقی ہو اور موافقت کی کوئی صورت نہ ہو اور حقوقِ طرفین ادا نہ ہو سکتے ہوں تو اس صورت میں عورت طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے اور خلع لے سکتی ہے۔ حدیث مبارکہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
أَنَّ امْرَأَۃَ ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَتْ: یَا رَسُولُ اللهِ، ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ، مَا أَعْتِبُ عَلَیْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِینٍ، وَلٰکِنِّي أَکْرَهُ الْکُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: أَتَرُدِّینَ عَلَیْهِ حَدِیقَتَهُ. قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: اقْبَلِ الْحَدِیقَۃَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِیقَۃً.
بخاری، الصحیح، کتاب الطلاق، باب الخلع وکیف طلاق فیہ، 5: 2021، رقم: 4971
حضرت ثابت بن قیس کی اہلیہ محترمہ حضورنبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں: یارسول اللہ! میں کسی بات کی بنا پر ثابت بن قیس سے ناخوش نہیں ہوں، نہ اُن کے اخلاق سے اور نہ اُن کے دین سے، لیکن میں مسلمان ہو کر احسان فراموش بننا ناپسند کرتی ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم ان کا باغ واپس دینا چاہتی ہو وہ عرض گزار ہوئیںجی ہاں! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان کا باغ دے دو اور اُن سے ایک طلاق لے لو۔
لیکن اس میںعورت کو خود اپنا اختیار حاصل نہیں۔ مرد ہی کو اختیار ہے کہ وہ طلاق دے یا نہ دے، خلع کرے یا نہ کرے۔ اگر شوہر حقوق بھی پورے نہ کرے اور طلاق بھی نہ دے تو پھر عورت بذریعہ عدالت تنسیخ نکاح کرواسکتی ہے۔
جواب: تین طلاقیں اکٹھی دینے کی بجائے دو طلاقیں مختلف اوقات میں دینے میں حکمت یہ ہے کہ رجوع کا حق برقرار رہتا ہے۔ جب کوئی شخص قرآن وسنت کے احکامات کے مطابق صحیح طریقہ سے عورت کی پاکیزگی کے ان ایام میں جن میں اس نے جماع نہ کیا ہو صرف ایک طلاق دے گا اور دوسری طلاق کے لیے اگلی پاکیزگی کے ایام تک رکا رہے گا جو تقریباً ایک ماہ کے برابر ہیں تواس عرصہ میں وہ اس معاملہ پر سو دفعہ غور کرے گا اور غالب گمان ہے کہ اس کی رائے بدل جائے گی۔
اگر بیوی کے مطالبہ یا اس کے غلط طرزِ عمل کی وجہ سے یہ اختلاف کی صورت پیدا ہوئی ہے تو ایک ماہ میں اس کے طرز عمل میں تبدیلی یا مطالبہ طلاق ترک کر دینے کا غالب امکان ہے اس طرح دوسری طلاق پڑنے کا خطرہ ٹل جائے گا اور تیسری طلاق کی نوبت نہیں آئے گی۔ جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق احسن طریقہ یہ ہے کہ دورانِ طہر جماع کیے بغیر صرف ایک طلاق دی جائے اور عدت کی پوری مدت میں دوبارہ طلاق نہ دی جائے اور عدت کے ان تین ماہ میں طلاق سے رجوع کرنے کا زیادہ موقع رہے گا اور بالفرض رجوع نہیں کیا اورعدت گذر گئی اور عورت بائنہ ہو گئی اور بعد میں حالات سازگار ہوئے تو اب دوبارہ نکاح کرنے کی گنجائش باقی رہے گی اور حلالہ کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی جبکہ تین طلاقیں دینے کے بعد یہ گنجائش نہیں رہتی۔
جواب: عدت کے لحاظ سے قرآن حکیم میں مطلقہ عورتوں کی تین اقسام ہیں، جو درج ذیل ہیں:
وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰـثَۃَ قُرُوْٓءٍ.
البقرۃ، 2: 228
اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔
وَالّٰئِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِکُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَـلٰـثَۃُ اَشْهُرٍ وَالّٰئِیْ لَمْ یَحِضْنَ ط وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ط وَمَنْ یَّتَّقِ اللهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ یُسْرًاo
الطلاق، 65: 4
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں اگر تمہیں شک ہو (کہ اُن کی عدّت کیا ہو گی) تو اُن کی عدّت تین مہینے ہے اور وہ عورتیں جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)، اور حاملہ عورتیں (تو) اُن کی عدّت اُن کا وضعِ حمل ہے، اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ اس کے کام میں آسانی فرما دیتا ہے۔
1۔ وہ عورت جس کو ’ایام‘ آتے ہوں اس کی عدت تین حیض ہے، طلاق کے بعد جب تیسری مرتبہ وہ پاک ہو جائے گی تو اس کی عدت ختم ہو جائے گی۔
2۔ وہ عورت جو نہ حاملہ ہو نہ اسے ایام آتے ہوں اس کی عدت تین ماہ ہے۔
3۔ حاملہ عورت کی عدت ’وضع حمل‘ پر ہوتی ہے یعنی بچے کی پیدائش پر اس کی عدت ختم ہو جائے گی، خواہ بچے کی پیدائش جلدی ہو یا دیر سے۔
رجوع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ:
1۔ رجعی طلاق میں اگر مرد اپنی بیوی سے رجوع کرنا چاہے تو زبان سے کہہ دے کہ میں نے رجوع کر لیا تو رجوع ہو جائے گا۔
2۔ اگر زبان سے کچھ نہ کہا مگر میاں بیوی کا تعلق قائم کر لیا یا خواہش و رغبت سے اس کو ہاتھ لگا دیا تب بھی رجوع ہو جائے گا۔
3۔ اگر تحریر کردے کہ میں رجوع کرتا ہوں تو پھر بھی رجوع ہوجائے گا۔
جواب: عدالتی اور شرعی طلاق میں فرق درج ذیل ہے:
عدالتی طلاق: جب شوہر فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ کے مطابق بیوی بنا کر رکھے نہ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ کے تحت چھوڑے تو ایسی صورت میں عورت کو حق ہے کہ بذریعہ عدالت تنسیخ نکاح کروا لے۔ اس صورت میں قاضی یا جج کو حق ہوتا ہے کہ ظلم کی اندھیر نگری کو ختم کرنے کے لیے میاں بیوی کے درمیان تفریق کر دے۔ یہ طریقہ کار عین شرعی ہے اس کو ہم غیر شرعی نہیں کہیں گے۔
شرعی طلاق: شرعی طلاق سے مراد جب میاں بیوی کا آپس میں اکٹھے رہنا ناگزیر ہو جائے تواس صورت میں شوہر شرعی طریقہ کار کے مطابق خود طلاق دے یا خلع کے ذریعے علیحدہ ہوجائیں۔
جواب: عدت کے اندر رجوع ہو سکتا ہے نکاح کی ضرورت نہیں۔ علاوہ ازیں اس میں عورت کی رضا شرط نہیں۔ عورت راضی ہو یا نہ ہو رجوع کیا جاسکتا ہے۔ امام مرغینانی لکھتے ہیں:
والرجعه أن یقول راجعتک أو راجعت امرأتی وهذا صریح فی الرجعة، ولا خلاف فیه بین الأئمة.
مرغینانی، الہدایۃ، 2: 6
اور رجعت یہ ہے کہ عورت کو خطاب کرکے کہے کہ میں نے تجھ سے رجعت کر لی یا گواہوں کو مخاطب کرکے کہہ دے کہ میں نے اپنی عورت سے رجعت کر لی خواہ عورت حاضر ہو یا آگاہ کر دے اور یہ رجعت میں صریح لفظ ہے اور چاروں ائمہ میں کچھ اختلاف نہیں۔
جواب: حالتِ حیض میں اگر طلاق دی تو طلاق واقع ہو جائے گی لیکن ایسا کرنا منع ہے۔ اب اگر طلاق رجعی دی ہے تو رجوع کرے اور پھر چاہے تو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو۔
اگر حالت حیض میں تین طلاقیں دیں تو اس صورت میں عورت کو طلاق مغلظہ واقع ہوگئی۔ اب بغیر حلالہ شرعی کے وہ اس کے لیے حلال نہیں اور عدت طلاق دینے کے وقت سے شمار ہوگی، جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
إِنَّ ابْنَ عُمَرَ رضی الله عنهما طَلَّقَ امْرَأَتَهٗ وَهِيَ حَائِضٌ، فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ ﷺ فَأَمَرَهٗ أَنْ یَرْجِعَهَا ثُمَّ یُمْهِلَهَا حَتّٰی تَحِیضَ حَیْضَۃً أُخْرٰی، ثُمَّ یُمْهِلَهَا حَتّٰی تَطْهُرَ، ثُمَّ یُطَلِّقَهَا قَبْلَ أَنْ یَمَسَّهَا، فَتِلْکَ الْعِدَّۃُ الَّتِي أَمَرَ اللهُ أَنْ یُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ. قَالَ: فَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سُئِلَ عَنْ الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَأَتَهٗ وَهِيَ حَائِضٌ یَقُولُ: أَمَّا أَنْتَ طَلَّقْتَهَا وَاحِدَۃً أَوِ اثْنَتَیْنِ، إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَمَرَهٗ أَنْ یَرْجِعَهَا ثُمَّ یُمْهِلَهَا حَتّٰی تَحِیضَ حَیْضَۃً أُخْرٰی ثُمَّ یُمْهِلَهَا حَتّٰی تَطْهُرَ، ثُمَّ یُطَلِّقَهَا قَبْلَ أَنْ یَمَسَّهَا. وَأَمَّا أَنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا فَقَدْ عَصَیْتَ رَبَّکَ فِیمَا أَمَرَکَ بِهٖ مِنْ طَلَاقِ امْرَأَتِکَ وَبَانَتْ مِنْکَ.
مسلم، الصحیح، کتاب الطلاق، باب تحریم طلاق الحائض، 2: 1094، رقم: 1471
حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دے دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے اس سلسلہ میں مسئلہ دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما کو اس طلاق سے رجوع کرنے کا حکم دیا اور یہ کہ وہ اس کو ایک اور حیض گزرنے کی مہلت دیں، پھر اس دوسرے حیض سے پاک ہونے کی مہلت دیں۔ پھر (اگر چاہے تو) مقاربت سے پہلے اسے طلاق دیں اور یہ وہ وقت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ پھر جب حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ سوال کیا جاتا کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دی ہے تو وہ فرماتے اگر تو نے ایک طلاق دی ہے یا دو طلاقیں دی ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے، پھر اس کو مہلت دو حتیٰ کہ اس کا ایک اور حیض گزر جائے اور وہ اس حیض سے پاک ہو جائے، پھر اس کو مقاربت سے پہلے طلاق دے دو۔ لیکن اگر تم نے اسے تین طلاقیں (ہی حالتِ حیض میں) دی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا جس طریقہ سے حکم دیا ہے تو نے اس کی نافرمانی کی ہے اور تیری بیوی تجھ سے علیحدہ ہوگئی ہے۔
لہٰذا حالت حیض میں دی گئی طلاق، بائن ہو یا رجعی اگرچہ یہ گناہ ہے مگر طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
جواب: جی نہیں! ماں باپ یا دونوں میں سے کسی ایک کے کہنے پر بیوی کو طلاق دینا شوہر پر لازم نہیں ہوتا۔ اگر بلا وجہ طلاق دے گا تو سخت گناہگار ہوگا۔
جواب: اگر کوئی شخص ٹیلی فون پر اپنی بیوی کو طلاقِ ثلاثہ دے تو وہ واقع ہو جائیں گی۔ اب وہ عورت اس خاوند پر قطعاً حرام ہوگی اور بغیر حلالہ کے تعلقات بحال نہیں ہو سکتے۔ وہ عورت آزاد ہے، عدت گزار کر جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔
جواب: اگر زبردستی طلاق لینے والے جان سے مار دینے پر قادر ہوں یا جو دھمکیاں دے رہے ہوں ان پر عمل بھی کرسکتے ہوں تو ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی خواہ تحریری ہو یا زبانی حدیث مبارکہ میں ایسی کوئی تخصیص نہیں کی گئی۔
قرآن حکیم میں ہے:
لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّیْنِ.
البقرۃ، 2: 256
دین میں کوئی زبردستی نہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لا طلاق ولا عتاق فی إغلاق.
1۔ ابن ماجہ، السنن، 1: 660، رقم: 2046
2۔ حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2: 217، رقم: 2803
3۔ ابن أبی شیبۃ، المصنف، 4: 83، رقم: 18038
4۔ بیہقی، السنن الکبری، 7: 357، رقم: 14874،
5۔ دارقطنی، السنن، 4: 36، رقم: 99،
جبرو اکراہ سے نہ طلاق ہوتی ہے اور نہ غلام آزاد
فقہاے کرام فرماتے ہیں:
رجل أکره بالضرب والحبس علی أن یکتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان ابن فلان فکتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق.
1۔ فتاوی قاضی خان علی ھامش عالمگیری، 1: 472
2۔ ابن نجیم الحنفی، غمز عیون البصائر، 3: 447
کسی شخص کو مار پیٹ اور حبس (قید) کے ذریعہ، اپنی بیوی کو تحریری طلاق پر مجبور کیا گیا، کہ فلاں دختر فلاں ابن فلاں کو طلاق اس نے لکھ دیا کہ فلاں عورت فلاں بن فلاں کی بیوی کو طلاق اس کی بیوی کو طلاق نہ ہوگی۔
کتاب الفقہ میں مذکور ہے:
ویشترط أَن یکون الإِکراه علی التلفظ بالطلاق فاذا أَکرھه علٰی کتابة الطلاق فکتبه فإِنه لا یقع به الطلاق.
الجزیری، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعة، 4: 284
جبر کرنے کی شرط یہ ہے کہ اسے منہ سے الفاظِ طلاق ادا کرنے پر مجبور کیا جائے۔ پس اگر تحریری طلاق دینے پر مجبور کیا گیا اور اس نے طلاق لکھ دی تو اس سے طلاق واقع نہ ہوگی۔
میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں مگر کوئی تیسرا فریق زبردستی طلاق دلوائے تو طلاق واقع نہ ہوگی۔ اگر بیوی شوہر کے ساتھ نہ رہنا چاہے اور وہ جبراً طلاق لے لے تو طلاق واقع ہوجائے گی کیوں کہ جب بیوی کسی صورت رہنا ہی نہ چاہے تو وہ طلاق کی حق دار ہوتی ہے۔
جواب: گونگے شخص کی طلاق اشارہ سے واقع ہو جاتی ہے بشرطیکہ اشارہ معلوم اور واضح ہو۔ ایسی صورت میں اشارہ قول کا قائم مقام تصور کیا جائے گا، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
کَانَ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ جَارٌ فَارِسِيٌّ طَیِّبُ الْمَرَقَۃِ فَأَتَی رَسُولَ اللهِ ﷺ ذَاتَ یَوْمٍ وَعِنْدَهٗ عَائِشَۃُ فَأَوْمَأَ إِلَیْهِ بِیَدِهٖ أَنْ تَعَالَ وَأَوْمَأَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِلٰی عَائِشَۃَ أَيْ وَهٰذِهٖ، فَأَوْمَأَ إِلَیْهِ الْآخَرُ هٰکَذَا بِیَدِهٖ أَنْ لَا مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا.
نسائی، السنن، کتاب الطلاق، باب الطلاق بالإشارۃ المفھومۃ، 6: 115-116، رقم: 3436
رسول اللہ ﷺ کا ایک فارسی پڑوسی تھا جو شوربہ بہت عمدہ پکاتا تھا، ایک مرتبہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ کے پاس اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں تو اس نے اپنے ہاتھ کا اشارہ کیا کہ تشریف لائیے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی طرف اشارہ فرمایا یعنی انہیں بھی لائوں۔ اس نے ہاتھ سے دو تین دفعہ اشارہ کیا۔
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جو شخص گفتگو نہ کر سکے اس کا سمجھ میں آنے والا اشارہ بولنے والے شخص کی طرح ہے۔ اگر اشارے سے طلاق دے اور معلوم ہو جائے کہ طلاق دیتا ہے تو طلاق واقع ہو جائے گی۔ لیکن اگر گونگا شخص پڑھا لکھا ہے تو صرف تحریر کا اعتبار کیا جائے گا، اس کی طلاق بذریعہ اشارہ نہ ہوگی اور بغیر طلاق کے دوسرا نکاح اس لڑکی کا درست نہیں۔
گونگے شخص کی طلاق کے بارے میں فقہاء کا موقف یہ ہے:
کانت له إشارۃ مفهومة یعرف بھا طلاقه، ونکاحه، وبیعه وشراؤه، فإنھا تعتبر. وإن لم تکن له إشارة مفھومة فلا یعتبرله طلاق۔ وإذا کان یعرف الکتابة فإن طلاقه بالاشارة لا یصح إذ فی إمکانه أن یکتب ما یرید، فکتابة الأخرس کاللفظ من السلیم علی المعتمد۔
الجزیری، کتاب الفقه، 4: 289
اس (گونگے شخص) کا اشارہ ایسا ہو جس سے طلاق، نکاح اور خرید و فروخت سب کچھ سمجھ میں آجاتا ہو تو اس کااشارۂ (طلاق) بھی مانا جائے گا۔ اگر اس کااشارہ سمجھ میں نہ آتا ہو تو اشارۂ طلاق کا بھی اعتبار نہ ہوگا لیکن اگر وہ لکھنا جانتا ہے تو اس کے اشارے سے طلاق دینا درست نہ ہوگا کیونکہ اس کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنا ارادہ لکھ کر بتا سکے۔ لہٰذا بقولِ معتمد گونگے شخص کا لکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ صحیح الحال شخص کا منہ سے بولنا۔
جواب: جی نہیں! جو شخص گونگا نہ ہو وہ اشارہ سے طلاق نہیں دے سکتا۔ جب تک وہ الفاظ زبان سے نہ کہے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، اگرچہ شوہر کی نیت بھی اس اشارے سے تین طلاق کی ہو۔
فقہاء کرام کا موقف ہے:
الإشارة بالطلاق لا تقوم مقام اللفظ من السلیم الذی یمکنہ أز ینطق، فلا یقع الطلاق إلا باللفظ المسموع، بخلاف حدیث النفس أو الھمس، فانہ لا یعتبر.
الجزیری، کتاب الفقہ، 4: 289
ایسا صحیح المزاج شخص جو بول سکتا ہے اشارہ میں طلاق دے تو وہ اشارہ لفظ کی بجائے کام نہیں دے سکتا۔ لہٰذا ایسے شخص سے جب تک ایسے الفاظ نہ سنے جائیں تو طلاق نہ ہوگی۔ دل میں کہنے یا بڑ بڑانے کے بر خلاف جس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
جواب: پاگل، مجنون کی ذہنی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ پاگل پن اور جنون کا اس کے اعصاب پر غلبہ ہوتا ہے اور اس کو کوئی بات سمجھائی نہیں دے رہی ہوتی، لہٰذا اس صورت میں اس کی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَـلَاثَۃٍ: عَنِ الْمَجْنُونِ حَتّٰی یُفِیقَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتّٰی یُدْرِکَ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتّٰی یَسْتَیْقِظَ.
بخاری، الصحیح، کتاب الطلاق، باب الطلاق في الإغلاق والکرہ والسّکرانِ والمجنون، 5: 2019
قدرت کا قلم تین آدمیوں سے اٹھا لیا گیا ہے دیوانہ جب تک اسے افاقہ نہ ہو جائے، بچہ جب تک بلوغ کی عمر کو نہ پہنچے اور سونے والا جب تک وہ بیدار نہ ہو جائے۔‘‘
فقہاے کرام فرماتے ہیں:
لا یقع طلاق الصبی والمجنون والنائم.
مرغینانی، ہدایہ، 1: 229
بچے، پاگل اور سوتے ہوئے کی طلاق نہیں ہوتی۔
الغرض حالتِ جنون میں دی گئی طلاق یعنی پاگل کی طلاق واقع نہیں ہوتی مگر یہ کہ وہ اِفاقہ کے دوران دی گئی ہو۔
جواب: جی ہاں! بیماری کی حالت میں بیمار کی دی ہوئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اگر حالت مرض میں دی گئی طلاق کی عدت کے دوران اس کا خاوند فوت ہو جائے تو عورت وارثت کی بھی مستحق ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت طلحہ بن عبد اللہ بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ طَلَّقَ اِمْرَأَتَهُ الْبَتَّۃَ وَھُوَ مَرِیْضٌ. فَوَرَّثَھَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ مِنْهُ، بَعْدَ انْقِضَاءِ عِدَّتِھَا.
مالک، الموطا، 2: 571، رقم: 40
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حالت مرض میں طلاق دی تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان کی بیوی کو اس کی عدت ختم ہونے کے بعد ان کی وراثت میں سے مقررہ حصہ دیا۔
حالتِ مرض میں اگر ہوش و حواس قائم ہوں تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
جواب: جی ہاں ! نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
طلاق السکران جائز.
ابنِ ابی شیبہ، المصنف، 4: 78، رقم: 17955
نشے والے کی طلاق صحیح ہے۔
حالت نشہ میں طلاق ہو جانے پر احناف کی دلیل یہ ہے کہ اس کی عقل گناہ کی وجہ سے زائل ہوئی ہے۔ لہٰذا زجراً اس کی طلاق واقع ہو جائے گی۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ کسی کو زنا کی تہمت لگائے اور ثبوت پیش نہ کر سکے تو اس پر حد قذف جاری ہو گی۔ یوں ہی ایسی حالت میں قتل کر دے تو قصاص واجب ہوگا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جب نشہ آور چیز (جو نشہ کے لیے استعمال ہوتی ہے) سے کوئی خود نشہ کرے یا وہ نشے کا عادی ہو تو اس صورت میں طلاق واقع ہوتی ہے۔ اگر کسی کو کوئی دھوکہ سے نشہ آور چیز دے دے یا پھر ایسی چیز سے نشہ آجائے کہ وہ چیز اس مقصد کے لیے نہ ہو تو ایسی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ مثلاً ایک شخص خود کشی کی خاطر نیند کی گولیاں کھائے لیکن وہ حالتِ نشہ میں آجائے اور اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو ایسے شخص کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
جواب: جی ہاں! مذاق میں دی ہوئی طلاق واقع ہو جاتی ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ثَـلَاثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ: النِّکَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرِّجْعَۃُ.
ابوداود، السنن، کتاب الطلاق، باب في الطلاق علی الھزل، 2: 232، رقم: 2194
تین چیزیں ایسی ہیں کہ ارادہ کریں تو صحیح مراد ہوں گی اور اگر مذاق کریں تو پھر بھی صحیح مراد ہیں:
(1) نکاح
(2) طلاق
(3) رجوع
لہٰذا ہوش و حواس میں اپنی مرضی سے دی گئی طلاق نافذ ہوجاتی ہے خواہ مذاق میں دی جائے۔
جواب: جی نہیں! مدہوشی میںدی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی کیونکہ مدہوش شخص کا ذہنی توازن مکمل طور پر درہم برہم ہو چکا ہوتا ہے اور عقل و حواس پر کنٹرول نہیں ہوتا۔ لہٰذا ایسا شخص طلاق دے تو طلاق واقع نہیں ہوتی۔
علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
الثانی: أن یبلغ النھایۃ فلا یعلم ما یقول ولا یریدہ، فھذا لا ریب أنہ لا ینفذ شئی من أقوالہ.
ابن عابدین، رد المحتار، 2: 463
دوسری قسم غصہ کی ہے کہ غصہ آخری حد تک پہنچ جائے اور پتہ نہ چلے کہ کیا کہتا ہے اور کیا کہنا چاہتا ہے۔ اس حال میں بلا شبہ اس کی بات نافذ نہ ہوگی۔
جواب: نا بالغ کی طلاق کسی طرح صحیح نہیں ہے، نہ وہ خود طلاق دے سکتا ہے اور نہ اس کا ولی طلاق دے سکتا ہے۔ حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے کہ نابالغ طلاق دینے کا اہل نہیں جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَـلَاثَۃٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتّٰی یَسْتَیْقِظَ، وَعَنِ الصَّغِیرِ حَتّٰی یَکْبَرَ، وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتّٰی یَعْقِلَ أَوْ یُفِیقَ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب الطلاق، باب طلاق المعتوہ و الصغیر و النائم، 2: 516، رقم: 2041
تین آدمیوں سے باز پرس نہیں ہے: سونے والے سے جب تک وہ جاگ نہ جائے، بچے سے جب تک وہ بالغ نہ ہو جائے، اور دیوانے سے جب تک اسے عقل نہ آجائے۔
فقہاء نے چند وجوہات کی بناء پر نابالغ کی بیوی سے تفریق کی قاضی کے لیے اجازت دی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یا تو شوہر مجنوں ہو یا مقطوع الذکر ہو یا شوہر مرتد ہو جائے یا کافر کی بیوی اسلام لے آئے تو ان جگہوں میں نابالغ کی بیوی کو قاضی اس سے علیحدہ کر سکتا ہے۔ یہاں بھی درحقیقت طلاق واقع ہونا نابالغ کی طرف سے نہیں ہے اور جہاں فقہاء نے تفریق کی تصریح کی ہے ان جگہوں کے سوا نابالغ کی طلاق کے عدمِ وقوع کی تصریح فرماتے ہیں کہ ماسوا ان مسائلِ اربعہ کے صبی (بچہ) میں طلاق دینے کی اہلیت نہیں ہے۔
جواب: جی ہاں! اگر کوئی شخص بیوی کی خود کشی کی دھمکی کے ڈر سے اس کو طلاق دے دے تو اس صورت میں طلاق واقع ہو جائے گی۔ بہتر یہی ہے کہ ایسی بیوی کو طلاقِ رجعی دے دی جائے۔ اگر عدت کے اندر درست ہوجائے تو رجوع کرے ورنہ عدت کے بعد خود ہی آزاد ہوجائے گی، کیوں کہ عورت طلاق کا مطالبہ کرے تو وہ طلاق کی حق دار ہوتی ہے۔
جواب: رخصتی سے پہلے شوہر بیوی کو طلاق دے دے تو طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر تینوں طلاقیں ایک ہی لفظ میں دے دے تو تینوں واقع ہو جائیں گی۔ اگر تینوں علیحدہ علیحدہ دے تو پہلی کے ساتھ بائنہ ہو جائے گی اور دوسری اور تیسری واقع نہ ہوگی۔ جس عورت کے ساتھ بالکل دخول نہیں ہوا اس کو طلاق رجعی واقع نہیں ہوگی اس کی طلاق بائن یا مغلظہ ہوگی۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
فِيْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهٗ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ یَدْخُلَ بِهَا، لَا تَحِلُّ لَهٗ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ.
ابن أبی شیبۃ، المصنف، 4: 66، رقم: 17852
جو شخص دخول سے قبل اپنی بیوی کو طلاقِ ثلاثہ دے دے تو وہ عورت اس شخص کے لیے تب تک حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے۔
اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
إذَا طَلَّقَ الْبِکْرَ وَاحِدَۃً فَقَدْ بَتَّهَا، وَإِذَا طَلَّقَهَا ثَلاَثًا لَمْ تَحِلَّ لَهٗ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ.
ابن أبی شیبۃ، المصنف، 4: 66، رقم: 17853
اگر کسی آدمی نے باکرہ کو ایک طلاق دی تو وہ بائنہ ہو جائے گی۔ اگر اسے دخول سے پہلے تین طلاقیں دے تو وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کر لے۔
غیرمدخولہ کی طلاق کے بارے فقہاے اَحناف کا موقف ہے:
فَإِنْ فَرَّقَ الطَّلَاقَ بَانَتْ بِالْأُولٰی وَلَمْ تَقَعِ الثَّانِیَۃُ وَالثَّالِثَۃُ۔ وَذٰلِکَ مِثْلُ أَنْ یَقُولَ: أَنْتِ طَالِقٌ طَالِقٌ طَالِقٌ، لِأَنَّ کُلَّ وَاحِدَۃٍ إیقَاعٌ عَلٰی حِدَۃٍ إذَا لَمْ یَذْکُرْ فِی آخِرِ کَلَامِهٖ مَا یُغَیِّرُ صَدْرَهٗ حَتّٰی یَتَوَقَّفَ عَلَیْهِ، فَتَقَعُ الْأُولٰی فِی الْحَالِ فَتُصَادِفُهَا الثَّانِیَۃُ وَهِیَ مُبَانَۃٌ.
1۔ مرغینانی، الھدایۃ، 1: 240
2۔ ابن ھمام، فتح القدیر، 4: 55
3۔ الفتاوی الھندیۃ، 1: 373
اگر شوہر نے غیر مدخولہ بیوی کو الگ الگ تین طلاقیں دیں تو پہلی طلاق سے بائن ہو جائے گی، دوسری اور تیسری واقع نہیں ہوں گی۔ مثلاً شوہر یوں کہے: ’’تجھے طلاق، تجھے طلاق، تجھے طلاق۔‘‘ ان میں سے ہر ایک الگ الگ طلاق واقع کر رہا ہے بشرطیکہ شوہر نے اپنے آخری کلام میں کوئی ایسی چیز نہ ذکر کی ہو جو صدرِ کلام کو بدل دے حتیٰ کہ وقوع اسی پر موقوف ہو جائے۔ چنانچہ پہلی طلاق فوراً واقع ہوجائے گی، اب دوسری طلاق اس حال میں دی کہ نکاح ٹوٹ چکا تھا۔
لہٰذا رخصتی سے قبل دی گئی الگ الگ طلاقوں سے ایک طلاق واقع ہوگی جب کہ ایک ہی لفظ میں دی گئی تین طلاقوں سے تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔
جواب: جی ہاں! اگر حاملہ، حائضہ، نفساء کو طلاق دی جائے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اگر تین طلاقیں دی جائیں تو وہ بھی واقع ہو جائیں گی لیکن ان حالات میں عورت کو طلاق دینا بدعت اور گناہ ہے۔
جواب: تین بار طلاق دینے کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔ بیک وقت ایک لفظ سے یا الگ الگ الفاظ میں تین طلاقیں دینے سے تین ہی واقع ہوتی ہیں اور اسی پر صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین اور چاروں فقہی مسالک کا اتفاق ہے۔ لہٰذا تین طلاق دینے کے بعد بیوی کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے۔
جواب: جی نہیں! جب نارمل حالت میں تین طلاقیں دے دی جائیں تو وہ طلاق مغلظہ ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد خاوند کو نہ رجوع کرنے کاحق باقی رہتا ہے اور نہ تجدیدِ نکاح کا۔ مگر عدت کے بعد عورت دوسرے شوہر سے نکاح کرے، پھر دوسرا شوہر فوت ہو جائے یا اَز خود طلاق دے دے تو عورت عدت گزارنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے؛ اس کے بغیر نہیں۔
اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهٗ ثَـلَاثًا، فَتَزَوَّجَتْ، فَطَلَّقَ، فَسُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ: أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ؟ قَالَ: لَا، حَتّٰی یَذُوقَ عُسَیْلَتَهَا کَمَا ذَاقَ الْأَوَّلُ.
بخاری، الصحیح، کتاب الطلاق، باب من أجاز طلاق الثلاث، 5: 2014، رقم: 4961
ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو اس عورت نے کسی دوسرے شخص سے نکاح کر لیا۔ بعد ازاں اس نے بھی طلاق دے دی۔ سو حضور نبی اکرم ﷺ سے استفسار کیا گیا کہ کیا وہ عورت اب پہلے خاوند کے لیے حلال ہے؟ فرمایا: حلال نہیں ہے یہاں تک کہ دوسرا خاوند اس کا ذائقہ نہ چکھ لے جیسا پہلے نے چکھا تھا۔
ابن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے اُس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دیں۔ انہوں نے جواب دیا:
أثم بربہ وحرمت علیہ امرأتہ.
ابن أبی شیبۃ، المصنف،، 4: 62، رقم: 17782
اس شخص نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اس کی بیوی اس پر حرام ہوگئی۔
ایک اور روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
کان عمر إذا أُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ طَلَّقَ امْرَأَتُهٗ ثَـلَاثاً فِي مَجْلِسٍ، أَوْجَعَهٗ ضَرْبًا، وَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا.
ابن أبی شیبۃ، المصنف، 4: 62، رقم: 17784
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اگر کسی ایسے شخص کو لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہوں تو آپ اس کو مارتے تھے اور ان کے درمیان تفریق کرا دیتے تھے۔
جواب: جی ہاں! تین بار طلاق لکھ کر پھاڑ دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے کیونکہ تین طلاقیںجب تحریری صورت میں بھی دی جائیں تو واقع ہو جاتی ہیں، چاہے لکھے ہوئے کو بعد میں پھاڑ ہی کیوں نہ دیا جائے۔ لہٰذا ایسی صورت میں رجوع کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور نہ دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے یہاں تک کہ اس عورت کا دوسری جگہ نکاح ہو، وہاں آباد ہو اور پھر طلاق لے لے یا بیوہ ہوجائے۔
جواب: ائمہ اربعہ اور جمہور علماء اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ بیک وقت دی گئی تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں۔
اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے کہ أنت طالق ثلاثا (تجھے تین طلاقیں ہیں) تو اس کے بارے میں علامہ نووی شافعی لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی،امام احمد اور قدیم و جدید جمہور علماء کے نزدیک یہ تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں۔
نووی، شرح صحیح مسلم، 10: 70
جمہور اپنے موقف کو قرآن حکیم کے اس ارشاد سے دلالت کرتے ہیں جس میں ہے کہ طلاق دو مرتبہ ہے یعنی دو طلاقوں کے بعد خاوند کو رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن:
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهٗ مِنْم بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ.
البقرۃ، 2: 230
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے۔
قرآن حکیم نے اَلطَّلَاقُ مَرَّتَان فرمایا یعنی دو مرتبہ طلاق دی جائے اور اس کے بعد فوراً اگر تیسری طلاق دے دی تو اس کی بیوی اس پر حرام ہو جائے گی۔ اس سے واضح ہوگیا کہ اگر کسی شخص نے ایک مجلس میں تین بار طلاق دی اور بیوی سے کہہ دیا کہ ’میں نے تم کو طلاق دی، میں نے تم کو طلاق دی، میں نے تم کو طلاق دی‘ تو یہ تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی اور اس کی بیوی اس پر حرام ہو جائے گی۔
احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهٗ ثَـلَاثًا، فَتَزَوَّجَتْ، فَطَلَّقَ، فَسُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ: أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ؟ قَالَ: لَا، حَتّٰی یَذُوقَ عُسَیْلَتَهَا کَمَا ذَاقَ الْأَوَّلُ.
بخاری، الصحیح، کتاب الطلاق، باب من أجاز طلاق الثلاث، 5: 2014، رقم: 4961
ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو اس عورت نے کسی دوسرے شخص سے نکاح کر لیا۔ بعد ازاں اس نے بھی طلاق دے دی۔ سو حضور نبی اکرم ﷺ سے استفسار کیا گیا کہ کیا وہ عورت اب پہلے خاوند کے لیے حلال ہے؟ فرمایا: حلال نہیں ہے یہاں تک کہ دوسرا خاوند اس کا ذائقہ نہ چکھ لے جیسا پہلے نے چکھا تھا۔
سوید بن غفلہ بیان کرتے ہیں کہ عائشہ خثعمہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو اس نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کو خلافت مبارک ہو، حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا تو حضرت علی رضی اللہ عنہکی شہادت پر خوشی کا اظہار کر رہی ہو۔
اذهبی. فانتِ طالق یعني ثلاثا.
جاؤ تم کو تین طلاقیں دیں۔
اس نے اپنے کپڑے لیے اور بیٹھ گئی حتیٰ کہ اس کی عدت پوری ہوگئی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف اس کا بقیہ مہر اور دس ہزار کا صدقہ بھیجا جب اس کے پاس قاصد یہ مال لے کر آیا تو اس نے کہا مجھے اپنے جدا ہونے والے محبوب سے یہ تھوڑا سا سامان ملا ہے، جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے آب دیدہ ہو کر فرمایا: اگر میں نے اپنے نانا سے یہ حدیث نہ سنی ہوتی یا کہا اگر میرے والد نے یہ بیان نہ کیا ہوتا کہ انہوں نے میرے نانا سے سنا ہے:
أَیما رجل طلق امرأته ثلاثًا عند الإقراء أو ثلاثًا مبھمۃ، لم تحل له حتی تنکح زوجا غیره، لراجعتھا.
بیہقي، السنن الکبری، 7: 550، رقم: 14971
جس شخص نے بھی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں خواہ الگ الگ طہروں میں یا بیک وقت تو وہ عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک کہ وہ کسی اور خاوند سے نکاح نہ کرے۔ تو میں اس سے رجوع کر لیتا۔
آثارِ صحابہ اور اقوال تابعین سے بھی واضح ہوتا ہے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں۔ حضرت سالم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
من طلَّق امرأَته ثلاثًا، طلَّقت، وعصی ربه.
عبد الرزاق، المصنف، 6: 395، رقم: 11344
جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں وہ واقع ہو جائیں گی مگر اس شخص نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
کان عمر إذا أُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ طَلَّقَ امْرَأَتُهٗ ثَـلَاثاً فِي مَجْلِسٍ، أَوْجَعَهٗ ضَرْبًا، وَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا.
ابن أبی شیبۃ، المصنف، 4: 62، رقم: 17784
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اگر کسی ایسے شخص کو لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہوں تو آپ اس کو مارتے تھے اور ان کے درمیان تفریق کرا دیتے تھے۔
جواب: اگر شوہر کو یاد نہ ہو کہ اس نے دو طلاقیں دی ہیں یا تین دی ہیں تو اس صورت میں طلاق تو واقع ہو جائے گی لیکن اگر تیسری طلاق میں شک ہو تو دو سمجھی جائیں گی اور دو طلاق صریح میں عدت کے اندر تجدید نکاح کے بغیر رجوع صحیح ہے۔ حلالہ وغیرہ کی قطعا ضرورت نہیں ہے۔ در مختار میں ہے:
ولو شک اطلق واحدة أو أکثر بنی علی الأقل.
حصکفی، در مختار، 1: 222
اور اگر شک ہو کہ آیا ایک طلاق دی ہے یا زیادہ تو کم تر کو قائم رکھے (یعنی اگر ایک اور دو میں شک ہے توایک کو قائم رکھے اور اگر دو میں اور تین میں شک ہے تو دو کو قائم رکھے)۔
جواب: عورت نے خود تین طلاقیں سُنی ہوں مگر مرد کو یاد نہیں تو ایسی صورت میں یقینا طلاق واقع ہوگئی ہے۔ اگر تعداد میں اختلاف ہے اور مرد کو تعداد یاد نہیں، وہ دو کا اقراری اور تین کا انکاری ہے، جبکہ عورت تین کی مدعی ہے لیکن اس کے پاس کوئی گواہ یا شرعی ثبوت نہیں۔ لہٰذا خاوند کو قسم دی جائے گی جیسا کہ حدیث مبارکہ سے ثابت ہے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا دَعَتِ الْمَرْأَۃُ طَلَاقَ زَوْجِهَا، فَجَاءَتْ عَلٰی ذٰلِکَ بِشَاهِدٍ عَدْلٍ، اسْتُحْلِفَ زَوْجُهَا۔ فَإِنْ حَلَفَ بَطَلَتْ شَهَادَۃُ الشَّاهِدِ وَإِنْ نَکَلَ فَنُکُولُهٗ بِمَنْزِلَۃِ شَاهِدٍ آخَرَ وَجَازَ طَلَاقُهٗ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب الطلاق، باب الرجل یجحد الطلاق، 2: 515، رقم: 2038
اگر عورت یہ دعویٰ کرے کہ اس کے شوہر نے اسے طلاق دی ہے اور اس پر ایک عادل گواہ بھی لے آئے تو خاوند سے قسم لی جائے گی۔ اگر اس نے طلاق نہ دینے کی قسم کھا لی تو گواہی باطل ہوگی اور اگر اس نے قسم سے انکار کیا تو یہ انکار دوسرے گواہ کے قائم مقام ہو جائے گا اور اس پر طلاق ہو جائے گی۔
لہٰذا خاوند قسم اٹھائے کہ ’میں نے دو بار طلاق دی ہے‘، اگر عدت نہیں گزری تو رجوع کرکے تعلقاتِ زن و شوہر بحال کر سکتے ہیں اور اگر عدت گزر چکی ہے تو بغیر حلالہ اَز سر نو تعلقات بحال کرنے کے لیے نکاح کر سکتے ہیں۔
جواب: اگر شوہر دو طلاقیں دے مگر بیان میں جھوٹ کہہ کر تین بنا لے تو اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔ حلالہ کیے بغیر پہلے خاوند کے لیے بیوی حلال نہیں ہوگی۔
جواب: تیری اجازت کے بغیر نکاح کروں یا اگر کر چکا ہوں تو تجھے تین طلاق کہنے کاحکم یہ ہے کہ اس صورت میں بیوی کی اجازت کے بغیر اگر نکاح کرے گا یا نکاح کر چکا ہے تو اسے تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔ جیسا کہ درج ذیل روایت سے ظاہر ہوتا ہے:
عَنِ الشَّعْبِیِّ، اَنَّهٗ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ قَالَ لامْرَاَتهِ: کُلُّ امْرَاَۃٍ أَتَزَوَّجُهَا عَلَیْکَ فَهِیَ طَالِقٌ، قَالَ: فَکُلُّ امْرَاَۃٍ یَتَزَوَّجُهَا عَلَیْهَا، فَهِیَ طَالِقٌ.
ابن أبی شیبۃ، المصنف، 4: 65، رقم: 17838
امام شعبی سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں تیرے ہوتے ہوئے جس عورت سے بھی شادی کروں اُسے (نئی بیوی کو) طلاق ہے، تو اس کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ اس بیوی کے ہوتے ہوئے جس عورت سے بھی شادی کرے گا اُسے طلاق ہو جائے گی۔
ایک اور روایت میں ہے:
عَنِ الْحَسَنِ، فِی رَجُلٍ قَالَ: إِنْ دَخَلْتِ دَارَ فُلاَنٍ فَأَنْتِ طَالِقٌ وَاحِدَۃً. فَدَخَلَتْ وَهُوَ لاَ یَشْعُرُ. قَالَ: إِنْ کَانَ غَشِیَهَا فِی الْعِدَّۃِ فَغِشْیَانُهٗ لَهَا مُرَاجَعَۃٌ، وَإِلاَّ فَقَدْ بَانَتْ مِنْهُ بِوَاحِدَۃٍ.
ابن أبی شیبۃ، المصنف، 4: 60، رقم: 17787
حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تو فلاں شخص کے گھر میں داخل ہوئی تو تجھے ایک طلاق ہے۔ سو اگر وہ داخل ہوئی اور مرد کو علم نہیں تھا، اب اگر عدت میں آدمی نے اس سے جماع کیا تھا تو جماع کرنا رجوع ہے اور اگر نہیں کیا تھا تو عورت کو ایک طلاقِ بائنہ ہو جائے گی۔
اِسی طرح جب کوئی شخص تین طلاقوں کی شرط لگائے گا تو شرط پوری ہونے پر تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔ فقہاء کرام فرماتے ہیں:
وَإِذَا اَضَافَهٗ إِلٰی شَرْطٍ وَقَعَ عَقِیْبَ الشَّرْطِ.
1۔ مرغینانی، الہدایۃ، 1: 251
2۔ الفتاوی الہندیۃ، 1: 420
جب خاوند نے طلاق کو شرط سے مشروط کیا تو جب شرط پائی گئی، طلاق ہو جائے گی۔
سو معلوم ہوا کہ جب شوہر طلاق کو کسی اَمر کے ساتھ معلق کردے تو وہ اَمر وقوع پذیر ہوتے ہی طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے۔
جواب: اگر شوہر بیوی سے کہے کہ ’اتنے دن خبر گیری نہ کروں تو تمہیں طلاق واقع کرنے کا اختیار ہے۔‘ اس صورت میں تحقیق شرط کے بعد عورت کو طلاق واقع کرنے کا اختیار ہے۔ یہ شرط عورت کی طرف سے ہو یا مرد کی طرف سے برابر ہے۔
جواب: اس صورت میں اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوں گی۔ وہ عورت نکاح سے نکل گئی کیونکہ صریح طلاق میں نیت کی ضرورت نہیں ہے اور پھر شوہر کا یہ کہنا کہ پڑ جانے دو؛ یہ بھی سببِ وقوعِ طلاق ہے۔
جواب: اگر طلاق کے ساتھ اِن شاء اللہ اس طرح کہا کہ اگر کوئی اس کی زبان سے سن لے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔ حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے کہ لفظ اِن شاء اللہ کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی جیسا کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں مخاطب کرتے ہوے فرمایا:
ما خلق اللہ علی ظھر الْأَرض أَحبّ إِلیه من عتاق، وما خلق الله علی وجه الأَرض أَبغض إِلیه من الطلاق. فإذا قال الرجل لعبده: ھو حرٌّ إِن شاءَ الله، فھو حرّ، ولا استثناءَ له، وإِذا قال لامرأَته: أَنت طالق إِن شاءَ الله، فله استثنائُهٗ، ولا طلاق علیه.
عبد الرزاق، المصنف، 6: 390، رقم: 11331
اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر آزادی سے محبوب کوئی شے پیدا نہیں کی اور روئے زمین پر طلاق سے زیادہ ناپسندیدہ شے کوئی پیدا نہیں کی۔ تو جب کسی شخص نے اپنے غلام سے کہا کہ وہ آزاد ہے اگر اللہ چاہے؛ تو وہ آزاد ہے اور اسے استثناء حاصل نہیں ہوگا۔ لیکن جب کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تجھے طلاق ہے ان شاء اللہ تو اس کے لیے استثناء ہوگا اور طلاق واقع نہیں ہوگی۔
حضرت ابراہیم روایت کرتے ہیں کہ جس نے اپنی بیوی سے کہا:
أنتِ طالقٌ ثلاثًا إن شاءَ اللهُ، قَالَ: لَیس بشيئٍ، ولا یقعُ علیھا الطلاقُ.
شیبانی، کتاب الآثار، 2: 458، رقم: 511
تجھے تین طلاقیں ہیں اِن شاء اللہ (اگر اللہ چاہے) وہ فرماتے ہیں! یہ کوئی بات نہیں اور اس عورت کو طلاق نہیں ہوگی۔
اگر محض دل میں کہا اور زبان سے اس طرح نہیں کہا کہ کوئی اس کی زبان سے ’’اِن شاء اللہ‘‘ نہ سن سکے تو طلاق واقع ہو جائے گی۔
جواب: بیوی نے طلاق مانگی تو شوہر نے کہا: ’سب سے کہہ دو کہ طلاق دے دی ہے‘۔ اس صورت میں شوہر کی نیت اور غرض کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر شوہر نے طلاق نہیں دی لیکن عورت سے کہہ دیا کہ سب سے کہہ دو کہ طلاق دے دی تو اس لفظ سے طلاق واقع نہیں ہوگی اور اگر مقصد اس لفظ سے طلاق دینا ہی تھا تو طلاق واقع ہو جائے گی۔
جواب: جی ہاں! جب شوہر طلاق کی نیت سے اپنی بیوی کو کہے کہ ’آج سے تم مجھ پر حرام ہو‘ تو ان الفاظ سے ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔ اگر شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ ’تم مجھ پر حرام ہو‘ اور اس سے مراد بیوی سے قربت نہ کرنا ہو تو یہ قسم ہے اور اس کے بعد اس نے بیوی کو مقاربت کا موقع دیا تو اس کی قسم ٹوٹ جائے گی اور اس پر کفارہ بھی لازم ہوگا جیسا کہ حدیث مبارک میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
فِي الْحَرَامِ: یَمِینٌ یُکَفِّرُهَا.
مسلم، الصحیح، کتاب الطلاق، باب وجوب الکفارۃ علی من حرم امرأتہ ولم ینو الطلاق، 2: 1100، رقم: 1473
(اپنی بیوی کو) حرام کہنا قسم ہے جس کا کفارہ لازم ہے۔
جواب: ’میں تم کو حقِ زوجیت سے خارج کرتا ہوں‘ کے الفاظ سے طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔ ایسی صورت میں دوبارہ نکاح کیا جاسکتا ہے۔
جواب: شوہر نے دو مرتبہ کہا کہ ’تجھ کو آزاد کردیا‘ تو اس صورت میں بیوی کو ایک بائن واقع ہوگی اور نکاح ٹوٹ جائے گا۔ رجوع کے لیے تجدید نکاح ضروری ہوگا تجدید نکاح کے بعد زندگی میں دوبار طلاق کا حق باقی رہ جائے گا۔ تجدید نکاح نہ کرنے کی صورت میں عورت آزاد ہوگی عدت کے بعد جہاں چاہے اپنی مرضی سے نکاح کرسکتی ہے۔
جواب: جی نہیں! ’میں آزاد کرتا ہوں‘ کے الفاظ سے طلاقِ بائن واقع ہوگی۔
جواب: اگر طلاق میں میاں بیوی کااختلاف ہوجائے اور بیوی کہے کہ اس نے طلاق دے دی ہے اور شوہر انکار کرے تو گواہ نہ ہونے کی صورت میں عدالت شوہر کی بات کا اعتبار کرے گی۔ لیکن آج کل لوگوں میں دین و دیانت کی بہت کمی آگئی ہے اور وہ طلاق دینے کے بعد مکر جاتے ہیں اس لیے اگر شوہر دین دار قسم کاآدمی نہیں ہے اور عورت کو یقین ہے کہ اس نے تین بار طلاق دی ہے تو عورت کے لیے شوہر کے گھر آباد ہونا جائز نہیں ہے۔ شوہر کی قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے اس کا حل یہ ہے کہ عدالت سے رجوع کیا جائے اور عورت کی طرف سے تنسیخ نکاح کا دعوی کیا جائے اور عدالت دونوں کے درمیان تفریق کرادے۔
حضرت ابراہیم نے اُس شخص کے بارے میں فرمایا کہ جو اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے اور پھر ان تینوں کا انکار کرے:
أَحب إلي أَن ترافعهٗ إلی السلطان، فإن حلف فأحب إلي أن تفتدی منه إذا حلف.
ابن أبي شیبۃ، المصنف، 4: 102، رقم: 18217
میرے نزدیک یہ زیادہ پسندیدہ بات ہے کہ اس معاملہ کو قاضی کی عدالت میں پیش کیا جائے۔ تو اگر (طلاق دینے والا جھوٹی) قسم اٹھا لے، پھر میرے نزدیک یہ بات زیادہ مناسب ہے کہ عورت اپنی جان چھڑانے کے لیے اسے کچھ فدیہ دے دے جب وہ جھوٹی قسم اٹھائے۔
جواب: اگر کسی شخص کا غصہ اس درجہ کو پہنچ جائے کہ ہوش و حواس قائم نہ رہیں تو ایسی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی۔ جیسا کہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
إِن یبلع النھایة فلا یعلم ما یقول ولا یریده، فهذا لاریب أَنه لا ینفذ شیء من أَقوالهٖ.
ابن عابدین، رد المحتار، 2: 463
ایسی حالت جس میں وہ اس انتہا کو پہنچ جائے کہ اس کو اپنا کہا معلوم نہ ہو اور نہ وہ یہ الفاظ کہنا چاہتا ہو تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا اس حالت میں کہا گیا کوئی قول نافذ نہیں ہوگا۔
جواب: اگر تو شدید غصے کی کیفیت میں کہا پھر تو ایک بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس اگر نارمل غصہ تھا تو ایسی کیفیت میں طلاق مغلظہ واقع ہوجائے گی۔ امام شعبی سے روایت ہے:
عن شریح قال رجل: إِني طلقتھا مائة. قال: بانت منک بثلاث وسائرھن إسراف ومعصیة.
ابن أبی شیبۃ، المصنف، 4: 64، رقم: 17802
شریح سے کسی نے پوچھا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دی ہیں۔ انہوں نے کہا: تمہاری بیوی تین طلاقوں سے علیحدہ ہوگئی اور باقی ماندہ طلاقیں اسراف اور معصیت ہیں۔
جواب: ابتدائی غصہ میں طلاق واقع ہو جائے گی۔ یعنی غصے کی وہ کیفیت جس میں عقل زائل نہیں ہوتی اس کیفیت میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ امام جزیری لکھتے ہیں:
إِن الغضب الذي لا یغیر عقل الإِنسان ولا یجعله کالجنون، فإِن الطلاق فیه یقع بلا شبهة.
الجزیری، کتاب الفقہ، 4: 295
ایسا غصہ جو انسان کی عقل کو مسخ نہ کر دے اور اسے پاگل کی طرح نہ بنا دے اس کی دی ہوئی طلاق بلاشبہ واقع ہو جاتی ہے۔
جواب: غصے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے لیکن اگر دو یا تین میں شک ہو تو دو طلاق سمجھی جائیں گی اور دو طلاقِ صریح میں عدت کے اندر تجدید نکاح کے بغیر رجوع ہو سکتا ہے، حلالہ کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ شک ہو کہ طلاق دو دیں یا زیادہ تو کم والے عدد پر عمل کیا جائے گا۔
جواب: جی نہیں! طلاق میں بیوی کا سامنے موجود ہونا یا اسے مخاطب کیا جانا ضروری نہیں ہے۔ اگر غائبانہ طلاق دی جائے تب بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
أَرْسَلَ إِلَيَّ زَوْجِي بِطَلَاقِي فَشَدَدْتُ عَلَيَّ ثِیَابِي، ثُمَّ أَتَیْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: کَمْ طَلَّقَکِ؟ فَقُلْتُ: ثَـلَاثًا۔ قَالَ: لَیْسَ لَکِ نَفَقَۃٌ وَاعْتِدِّي فِي بَیْتِ ابْنِ عَمِّکِ ابْنِ أُمِّ مَکْتُومٍ، فَإِنَّهٗ ضَرِیرُ الْبَصَرِ تُلْقِینَ ثِیَابَکِ عِنْدَهٗ، فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُکِ فَآذِنِیْنِيْ.
نسائی، السنن، کتاب الطلاق، باب ارسال الرجل الی زوجتہ بالطلاق، 6: 110، رقم: 3418
مجھے میرے خاوند نے طلاق کہلوا بھیجی اور بعد ازاں میں نے اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ آپ کو کتنی طلاقیں دی گئی ہیں۔ میں نے عرض کیا: تین۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تجھے عدت بیٹھنے کے لیے تیرے خاوند کی طرف سے خرچہ نہ ملے گا۔ نیز آپ نے ارشاد فرمایا کہ آپ اپنے چچا کے بیٹے کے گھر میں ایامِ عدت پورے کریں یعنی ابن ام مکتوم کے پاس کیونکہ وہ نابینا آدمی ہیں اور آپ ان کی موجودگی میں اپنے کپڑے بھی اتار سکتی ہیں اور ارشاد فرمایا: جب تمہاری عدت پوری ہو جائے تو اس وقت مجھے اطلاع کرنا۔
یعنی بیوی کا سامنے موجود ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کی زبانی اپنی بیوی کو طلاق کہلوا بھیجے تو بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے اور عورت عدت گزار کر جہاں چاہے شادی کر سکتی ہے۔
جواب: جی نہیں! دل میں طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اس کی توضیح حدیث مبارکہ سے بھی ملتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهٖ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ نَتَکَلَّمَ.
قَالَ قَتَادَۃُ: إِذَا طَلَّقَ فِي نَفْسِهٖ فَلَیْسَ بِشَیْئٍ.
بخاری، الصحیح، کتاب الطلاق، باب الطلاق في الاغلاق والکرہ والسکران والمجنون، 5: 2020، رقم: 4968
اللہ نے میری امت سے دلوں میں پیدا ہونے والی باتوں سے درگزر کر لیا ہے جب تک کہ لوگ ان کو عملاً بروئے کار نہ لائیں یا انہیں زبان سے ادا نہ کریں۔
نیز قتادہ نے کہا ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو دل میں طلاق دے بیٹھے تو اس سے کچھ نہیں ہوتا۔
یعنی محض دل میں وسوسہ پیدا ہو جانے کے باعث یا محض دل میں ارادہ یا نیت کر لینے کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی جب تک کہ صراحتاً زبان سے الفاظِ طلاق ادا نہ کیے جائیں۔
جواب: اگر واقعی کوئی جھوٹ موٹ بہکانے کی نیت سے طلاق کا اقرار کرے تو دیانتاً طلاق واقع نہیں ہوتی لیکن قضاًء واقع ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں معاملہ عدالت میں جائے گا تووہاں اس کی نیت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ حاکم کے لیے ضروری ہو گا کہ اس کو طلاق قرار دے اور جب حاکم اس کو طلاق دے کر تفریق کا حکم کرے گا تو پھر دیانتاً بھی عورت حرام ہو جائے گی۔ جیسا کہ کتاب الفقہ میں ہے:
فلو أَقر بدون إکراه کاذبا أَو ھاز لا فانه لا یقع دیانة بینة وبین ربه، ولکنه یقع قضاء لأن القاضی له الظاهر ولا اطلاع له علی ما في قلبه.
جزیری، کتاب الفقه، 4: 284
پس اگر بغیر جبر کیے جھوٹ موٹ یا مذاق کے طور پر اقرار کر لیا تو شرعا وہ طلاق واقع نہ ہوگی اور اس کا یہ معاملہ اس کے اور اس کے رب کے درمیان ہے۔ لیکن عدالتی فیصلہ کی رو سے طلاق ہو جائے گی کیونکہ حاکم شرع ظاہر پر فیصلہ کرے گا، اسے دل کی بات کا علم نہیں ہو سکتا۔
لیکن اگر الفاظ مذکور ہی کہے گئے تھے تو عورت کو طلاق رجعی ہوئی ہے۔ اس لیے مرد کے لیے بہتر یہ ہے کہ اگر عورت کو رکھنا چاہتا ہے تو عدت گزرنے سے پہلے رجوع کر لے اور اگر عدت گزر گئی تو تجدید نکاح کرے تاکہ حرمت کے خطرے سے نکل جائے۔
یہی حکم اس وقت بھی ہے جب کوئی کسی کو جھوٹی خبر دے کہ میں نے طلاق دی ہے اور جھوٹ بولنا ہی نیت ہو۔
جواب: جی ہاں! کسی کو طلاق نامہ لکھنے کو کہا جائے تو بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے کیونکہ طلاق کے صریح لفظ میں نیت کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ثَـلَاثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ: النِّکَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرِّجْعَةُ.
ابو داؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب في الطلاق علی الھزل، 2: 232، رقم: 2194
تین چیزیں ایسی ہیں جن میں سنجیدگی بھی سنجیدگی ہے اور مذاق بھی سنجیدگی: نکاح، طلاق اور رجعت۔
ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
ولو قال للکاتب: اکتب طلاق امرأتي. کان اقرارا بالطلاق وإن لم یکتب.
ابن عابدین، رد المحتار، 2: 465
اگر کاتب کو کہا کہ میری بیوی کو طلاق لکھ دے تو یہ کہنا بھی طلاق کا اقرار ہوگا۔ اگرچہ وہ نہ لکھے تب بھی طلاق واقع ہو جائے گی۔
جواب: جی ہاں! بیوی کو طلاق لکھنے یا لکھوانے اور طلاق نامہ بنوانے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ چاہے خود لکھے، کسی سے لکھوائے، طلاق نامہ بنوائے یا طلاق نامہ بنوانے کا کہہ دے۔ سب صورتوں میں طلاق واقع ہو جائے گی۔ کاغذ بیوی کے ہاتھ میں دے یا دیئے بغیر ہی ضائع کر دے۔ امام زہری سے مروی ہے:
إذا کتب إلیها بطلاقها، فقد وقع الطلاق علیها، فإن جحدھا استحلف.
عبد الرزاق، المصنف، 6: 413، رقم: 11433
جب کوئی شخص اپنی بیوی کی طرف طلاق لکھے تو اس عورت پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ پس اگر وہ (دی گئی طلاق کا) انکار کرے تو اس سے قسم لی جائے گی۔
حضرت ابراہیم سے مروی ہے:
إذ اکتبَ إلیها زوجها بطلاقها وهو ینوي الطلاقَ، فهي طلاق۔
شیبانی، کتاب الآثار، 2: 449، رقم: 495
جب کوئی شخص بیوی کی طرف طلاق لکھے اور طلاق دینے کی نیت کرتا ہو تو اسے اس وقت سے طلاق ہوجائے گی جب اس نے طلاق لکھی ہے۔
جواب: اگر کاتب سے ایک طلاق لکھنے کو کہا مگر اس نے تین طلاقیں لکھ دیں تو ایسی صورت میں ایک طلاق واقع ہوگی اور شوہر دورانِ عدت رجوع کر سکتا ہے اور عدت کے بعد بغیر حلالہ تجدیدِ نکاح کر سکتا ہے۔
جواب: وساوس و خیالات اور وہمی طور پر زبان کی حرکت سے طلاق واقع نہیں ہوتی اور نہ ہی نکاح ٹوٹتا ہے۔
جواب: طلاق کے الفاظ بولنے کے بجائے محض کنکریاں پھینکنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، جب تک ہ وہ بول کر کنکری کے ساتھ طلاق نہ لکھ دے یا کہے کہ ایک کنکری سے مراد ایک طلاق ہے اور دو سے دو اور تین کنکریوں سے مراد تین طلاقیں ہیں۔
جواب: جس بیوی کے لیے جتنی طلاقیں لکھے گا واقع ہو جائیں گی۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ثَـلَاثٌ جَدُّهُنَّ جَدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جَدٌّ النِّکَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَةُ.
1۔ابوداؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب في الطلاق علی الھزل،2:
232، رقم: 2194
2۔ ترمذی، السنن، کتاب الطلاق، باب ما جاء في الجد والھزل فی الطلاق، 3: 490، رقم:
1184
3۔ ابن ماجہ، السنن، کتاب الطلاق، باب من طلق أو نکح أو راجع لاعبا، 2: 515، رقم: 2039
تین چیزیں واقع ہو جاتی ہیں خواہ انہیں کوئی قصدًا کرے یا ہنسی مذاق میں۔ نکاح، طلاق اور رجعت۔
لہٰذا بلا جبر و اکراہ عام حالات میں شوہر زبانی یاتحریری جتنی طلاقیں دے گا واقع ہو جائیں گی۔
جواب: اگر کوئی کہے کہ ایک ماہ بعد میں نے تین طلاقیں دیں تو تحریر کے وقت سے ٹھیک ایک ماہ کے بعد اس کو لکھنے والے کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی جب کہ لکھنے یا لکھوانے والا اس کا شوہر ہو۔
جواب: اگر شوہر جج کے سامنے کہے کہ میں نے چھ ماہ قبل طلاق دی تھی اور حقیقتاً اس نے دی نہیں تھی تو طلاق واقع نہیں ہوگی لیکن اگر شوہر نے جو کہا اس کی اس طلاق کی تصدیق اس کی طرف سے ہوگئی تو طلاق واقع ہوگئی۔ البتہ طلاق اُسی وقت واقع ہوگی جس وقت شوہر نے طلاق دی تھی۔
جواب: تفویضِ طلاق سے مراد ہے کہ شوہر طلاق کا اپنا اختیار بیوی کو سونپ دے کہ اگر وہ چاہے تو خود پر طلاق واقع کرلے۔ ایسی صورت میں عورت اس حق کو استعمال کر کے خود کو طلاق دے کر رشتۂ زوجیت قطع کر سکتی ہے اور اس طلاق کا اسی طرح اعتبار کیا جائے گا جیسے شوہر نے خود اپنی بیوی کو وہ طلاق دی ہو۔
تفویضِ طلاق کے بعد شوہر بیوی کے اس حق کو فسخ نہیں کر سکتا کیونکہ تفویض کے بعد بیوی اس اختیار کی بنفسهٖ مالک ہو جاتی ہے خواہ اس حق کو وہ استعمال کرے یا نہ کرے اور جب چاہے کرے۔ البتہ اگر تفویضِ طلاق ایک معین مدت کے لیے ہو اور وہ مدت گزر جائے تو عورت کا حق باطل اور بے اثر ہو جائے گا۔ بصورتِ دیگر اگر شوہر حقِ طلاق سپرد کرتے وقت ایک طلاق سپرد کرنے کی نیت کرتا ہے تو پھر ایک طلاق واقع ہوگی اور اس کی حقیقت ایک پیغام رساں کی ہوگی۔ اگر شوہر تین طلاقوں کی نیت کرتا ہے تو وہ تین ہی واقع ہوجائیں گی جیسا کہ خارجہ بن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّهٗ کَانَ جَالِساً عِنْدَ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ. فأَتَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِیْ عَتِیْقٍ وَعَیْنَاهُ تَدْمَعَانِ. فَقَالَ لَهٗ زَیْدٌ: مَاشَأْنُکَ؟ فَقَالَ مَلَّکْتُ اِمْرَأَتِیْ أَمْرَهَا. فَفَارَقَتْنِیْ. فَقَالَ لَهٗ مَا حَمَلَکَ عَلٰی ذٰلِکَ؟ قَالَ: الْقَدَرُ. فَقَالَ زَیْدٌ: اِرْتَجِعْهَا إِنْ شِئْتَ. فَإِنَّمَا هِیَ وَاحِدَۃٌ. وَأَنْتَ أَمْلَکُ بِها.
مالک، الموطا، 2: 554، رقم: 12
وہ زید بن ثابت کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس ایک شخص محمد بن ابی عتیق آیا، اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آپ نے اس سے پوچھا: کیا ہوا؟ کہنے لگا: میں نے (ایک) طلاق دینے کا اختیار اپنی بیوی کے سپرد کر دیا تھا تو وہ (اُس اختیار کو استعمال کرکے مجھے) چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ آخر تو نے یہ کیوں کیا؟ کہنے لگا: تقدیر ہی ایسی تھی۔ حضرت زید بن ثابت فرمانے لگے: اگر تم رجوع کرنا چاہتے ہو تو کرسکتے ہو کیونکہ طریقہ مذکورہ سے صرف ایک طلاق واقع ہوئی ہے اور تم اس کے مالک ہو۔
یہ امر ذہن نشین رہے کہ شوہر کے اپنی بیوی کو حقِ طلاق تفویض کرنے کی صورت میں خود اس کا حقِ طلاق ساقط نہیں ہوتا۔ اگر شوہر نے اپنی بیوی کو حقِ طلاق تفویض کر دیا اور پھر خود اس کو طلاقِ بائن دے دی تو عورت کا اختیار باطل اور غیر نافذ ہو جائے گا۔
جواب: اِختیار ملنے کے بعد عورت جب چاہے خود کو طلاق دے سکتی ہے، یعنی اپنا نکاح فسخ کر سکتی ہے اور وہ یہ الفاظ کہے کہ ’میں نے اپنے آپ کو طلاقِ بائنہ دی اور اپنے نفس کو اپنے شوہر کے نکاح سے خارج کر دیا‘ تو اس صورت میں عورت پر طلاق بائنہ واقع ہو جائے گی اور وہ شوہر کے نکاح سے خارج ہو جائے گی۔ عدت کے بعد اس کے لیے جائز ہے کہ وہ دوسرے مرد سے نکاح کر لے۔
جواب: ایک یا دو طلاق کے بعد عدت میں رجوع قول سے ہوگا اور فعل سے بھی ہوسکتا ہے، جیسا کہ الہدایہ میں ہے:
والرجعۃ أن یقول: راجعتک أو راجعت امرأتی.
مرغینانی، الہدایۃ، 2: 6
اور رجعت یہ ہے کہ عورت کو خطاب کر کے کہے کہ میں نے تجھ سے رجعت کرلی یا (گواہوں کو مخاطب کر کے کہہ دے کہ) میں نے اپنی عورت سے رجعت کرلی (خواہ عورت حاضر ہو یا آگاہ کردے)۔
اور رجعت کبھی فعل سے بھی ہوتی ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم سے روایت ہے:
إذا لَمسَ الرجلُ امرأتَهٗ من شهوۃٍ في عدَّتها فتلک مراجعۃٌ، وإذا قبَّلها في عدتِها فتلک مراجعةٌ.
شیبانی، کتاب الآثار، 2: 443-444، رقم: 486
جب کوئی شخص اپنی بیوی کی عدت کے دوران اسے شہوت کے ساتھ ہاتھ لگائے تو یہ رجوع ہے اور جب عدت کے دوران اس کا بوسہ لے تو یہ بھی رجوع ہے۔
اگر دو بار طلاق دی تھی تو اب شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا اختیار رہ گیا۔ اگر اس نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی تو وہ ایک طلاق سے ہی مغلظہ ہو جائے گی اور بغیر حلالہ شرعی نکاح بھی نہ ہو سکے گا۔
جواب: بلا اجازت بیوی کے کہیںجانے پر اسے طلاق دینا جائز نہیں لیکن اگر طلاق دے گا تو طلاق واقع ہو جائے گی۔ اگر وہ کہیں غلط جگہ جاتی ہو تو اسے پہلے منع کیا جائے گا اور سمجھایا جائے گا اگر پھر بھی باز نہ آئے تو ایک طلاق رجعی دی جائے گی۔
جواب: جی نہیں! طلاق میں گواہوں کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ طلاق تنہائی میں دی جائے تو بھی واقع ہو جاتی ہے حتیٰ کہ خود بیوی بھی موجود نہ ہو تب بھی طلاق دی جا سکتی ہے۔ البتہ اگر شوہر طلاق دے کر مکر جائے تو عدالت میں گواہی کے لیے گواہ ہونا ضروری ہے۔
جواب: اگر شوہر کہے کہ ’مہر کا معافی نامہ لکھ کر بھیجو، میں طلاق لکھ کر بھیجتا ہوں‘ تو اس صورت میں طلاق اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک شوہر طلاق نہیں دے گا اورنہ مہر معاف ہوگا کیونکہ مہر کی معافی طلاق دینے پر معلق ہے۔ غرض یہ کہ شوہر کے طلاق دئیے بغیر طلاق واقع نہیں ہوگی۔
جواب: مہر کے بدلے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے کیونکہ جو طلاق مال کے عوض ہوتی ہے وہ طلاقِ بائنہ ہے۔ لہٰذا ایک طلاقِ بائنہ واقع ہوئی اور مہر معاف ہوگیا۔ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
الخلع: تطلیقة بائنة، … وإن المرأَة لتفتدی ببعض مالها.
عبد الرزاق، المصنف، 6: 481، رقم: 11752
خلع طلاقِ بائن ہے۔ … بے شک عورت اپنے کچھ مال کا فدیہ دے کر اپنے خاوند سے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہے۔
حضرت ابراہیم سے ہی مروی ہے:
کلُّ طلاقٍ أُخِذَ علیه جعلٌ فهو بائنٌ لا یملکُ الرجعةَ.
محمد الشیبانی، کتاب الآثار، 2: 444، رقم: 488
جب طلاق پر کوئی چیز (مال وغیرہ) لی جائے تو وہ طلاقِ بائن ہے، اس میں رجوع نہیں کرسکتا۔
جواب: اگر دو رِجعی طلاقیں دے کر عدت کے بعد دوبارہ اُسی سے نکاح کیا تو اب اس صورت میں اِس عورت کو طلاقِ مغلّظہ ہوگئی۔ چونکہ درمیان میں نکاح دوسرے مرد سے نہیں کیا۔ لہٰذا پہلی دو طلاقیں منسوخ نہیں ہوئیں، اس لیے ایک طلاق باقی تھی اور بعد کی دو طلاقوں سے ایک طلاق ان کے ساتھ مل کر تین طلاقیں ہو جائیں گی اور جب عورت مطلقہ ثلاثہ ہوگئی تو بغیر حلالہ اس سے نکاح کرنا صحیح نہ ہوگا۔ وہ نکاح جو بعد میں کیا باطل قرار پایا۔
جواب: جہاں اِحتیاطاً تجدیدِ اِیمان اور تجدیدِ نکاح ہو وہاں تجدیدِ مہر ضروری نہیں ہے۔
جواب: استاد یا پیر طلاق دینے کو کہیں اور ماں باپ منع نہ بھی کریں تو اس صورت میں اپنی بیوی کو طلاق دینا جائز نہیں ہے، خصوصاً جب والدین منع کر رہے ہوں تو بھی طلاق نہیں دینی چاہیے۔
جواب: جی نہیں! اگر کسی عورت کا بھائی یا والد اس کی اجازت کے بغیر اس کے شوہر سے مہر کی معافی کی شرط پر تین طلاق دلوا دے اور جہیز نہ مانگنے کا دعویٰ بھی خود لکھ دے تو اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔ کیونکہ مہر عورت کا حق ہوتا ہے اور وہی اس کی مالکہ بھی ہوتی ہے لہٰذا مہر معاف کرنے کا حق صرف عورت کو ہے جب مہر معاف کرنے کی شرط پر تین طلاقیں لکھی جائیں تو وہ والد یا بھائی کے مہر معاف کرنے سے واقع نہیں ہوں گی۔
جواب: حلالہ میں عورت کا یہ شرط لگانا کہ ’میںجب چاہوں آزاد ہو جائوں گی‘، قبل از نکاح ایسا کہنا باطل ہے کیونکہ ایسا کہنے سے عورت کو خود طلاق کا اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ البتہ اگر یہ شرط رکھی جائے کہ نکاح کے بعد جس وقت چاہوں گی طلاق لے لوں گی اور شوہر ثانی بھی اسے منظور کر لے کہ نکاح کے بعد تجھ کو طلاق دینے کا اختیار ہے تو اس صورت میں عورت جب چاہے اپنے نفس کو طلاق دے سکتی ہے؛ جیسا کتاب الفقہ میں ہے:
فإذا خافت المرأة أن لا یطلقھا، فإنہ یمکنھا أن تقول لهٗ: زوجتک نفسی علی أن یکون أمر طلاقی بیدی. فیقول لھا: قبلت علی ذٰلک. وفي ھذہ الحالة یصح العقد، ویکون لھا الحق فی تطلیق نفسها متی أرادت.
الجزیری، کتاب الفقہ، 4: 80
اگر عورت کو اس امر کا اندیشہ ہے کہ وہ شخص نکاح کے بعد اسے طلاق نہ دے گا تو عورت کے لیے ممکن ہے کہ وہ اس شخص سے یہ کہے کہ میں تمہاری زوجیت اس شرط پر قبول کرتی ہوں کہ مجھے خود اپنے تئیں طلاق دینے کا اختیار ہوگا اور وہ شخص کہے کہ مجھے یہ شرط قبول ہے، تو اس صورت میں وہ عقد صحیح ہوگا اور اس عورت کو حق ہوگا کہ جس وقت بھی چاہے خود کو طلاق دے کر اس سے علیحدہ ہو جائے۔
جواب: نہیں! حلالہ کے دوران عورت کو گولیاں یا انجکشن لگوانے سے حلالہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
جواب: قرآن و سنت کی رُو سے طلاق مغلظہ کے بعد حلالہ کیے بغیر بیوی پہلے خاوند سے رجوع نہیں کر سکتی، جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهٗ مِنْ م بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ.
البقرة، 2: 230
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کرلے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے
سُئِلَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهٗ فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا غَیْرَهٗ، فَدَخَلَ بِهَا ثُمَّ طَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ یُوَاقِعَهَا أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: لَا حَتّٰی یَذُوقَ الْآخَرُ عُسَیْلَتَهَا وَتَذُوقَ عُسَیْلَتَهٗ.
نسائی، السنن، کتاب الطلاق، باب الطلاق للتي تنکح زوجاً ثم لا یدخل بھا، 6: 107، رقم: 3407
کسی شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اور اس عورت نے دوسرا خاوند کر لیا، اس خاوند نے چھونے سے قبل ہی طلاق دے دی اور بعد ازاں یہ مسئلہ حضور نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کیا ایسی عورت پہلے خاوند کے لیے حلال ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں! جب تک کہ اس عورت کا مزہ دوسرا خاوند پہلے خاوند کی طرح نہ چکھ لے۔
جواب: جس عورت سے بدکاری کا گناہ سرزد ہو جائے اور الزام بھی ثابت ہو جائے تو اس صورت میں اس پر حد جاری ہوگی، طلاق دینا ضروری نہیں ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved