جواب: جی ہاں! اسلام میں پسند کی شادی (love marriage) کرنا جائز ہے کیونکہ شریعت میں رشتہ پسند کرنے اور ناپسند کرنے کا اختیار مرد اور عورت دونوں کو دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شادی کا مقصد بیان فرمایا ہے:
وَمِنْ اٰیٰـتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً.
الروم، 30: 21
اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔
زوجین کا ایک دوسرے کی طرف سکون پانا اور ان کے درمیان محبت و رحمت کا پیدا ہونا اسی صورت ممکن ہے جب میاں بیوی ایک دوسرے کو پسند کریں۔ اور حدیث مبارکہ میں ہے:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَمْ نَرَ (یَرٰی) لِلْمُتَحَابِّیْنِ مِثْلَ النِّکَاحِ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب النکاح، باب ما جاء في فضل النکاح، 2: 415-416، رقم: 1847
محبت کرنے والوں کے لیے نکاح سے اچھی کوئی شے نہیں۔
لہٰذا والدین کو چاہیے کہ رشتہ طے کرتے وقت اولاد کی پسند اور ناپسند کا خصوصی خیال رکھیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں اکثر والدین گائے، بھینس، بکری، مکان، گاڑی، کپڑے اور دیگر اشیاء خریدتے وقت تو سو بار پسند و ناپسند کا خیال رکھتے ہیں لیکن اولاد کی شادی کرتے وقت اپنی مرضی کے رشتے ان پر مسلط کرتے ہیں جنہوں نے ساری زندگی اکٹھی گزارنی ہوتی ہے۔ لہٰذا شادی پسند کی ہی کرنا بہتر ہے تاکہ میاں بیوی اپنی زندگی احسن انداز میں گزار سکیں۔
اِس کی دوسری اِنتہاء یہ ہے کہ بعض اوقات لڑکا یا لڑکی اپنے والدین کے علم میں لائے بغیر نکاح کر لیتے ہیں حالانکہ ہوسکتا تھا کہ وہ اگر اپنے والدین کو consult کرتے اور convince کرتے تو باوقار طریقے سے شادی سر انجام پاتی مگر اس طرح اُن کو بتائے بغیر نکاح کرنے سے نہ صرف اِسلامی روایات اور والدین کی عزت و تکریم پامال ہوئی بلکہ یہ مستقبل میں بے شمار مسائل سے بھی دو چار ہونگے۔ لیکن اگر والدین بالغ اولاد کی پسند و نا پسند کو نظرانداز کریں تو پھر ان کے پاس حق ہے کہ وہ اَپنی پسند کو ترجیح دیں۔
جواب: جی ہاں! کورٹ میرج کرنا جائز ہے۔ کورٹ میرج کے دوران گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول سے شرعی طور پر نکاح ہو جاتا ہے مگر یہ طرزِ عمل ہماری معاشرتی اقدار اور آداب و اخلاق کے خلاف ہے۔ لہٰذا بہتر طریقہ کار یہی ہے کہ شادی میں والدین کو بھی شریک کیا جائے تاکہ بعد میں خدانخواستہ حالات بگڑ جائیں تو والدین بھی معاملات طے کرنے میں مددگار بن سکیں، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے والدین کو شامل کیے بغیر شادی نہ کریں کیونکہ معاملات میں خرابی کی وجہ سے لڑکیاں بہت بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔
جواب: پیپر میرج چونکہ کاغذی کاروائی کی حد تک ہوتی ہے اس میں شرعی نکاح کے ارکان اور شرائط نہیں پائے جاتے لہٰذا ایسی میرج جھوٹ، دھوکہ، فراڈ اور ناجائز ہے۔
جواب: ہمارے معاشرے میں خاندانی سطح پر بہت سی عائلی پریشانیوں کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اپنے فرائض و واجبات اور دوسروں کے حقوق و جذبات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ اگر ایک دوسرے کے حقوق معلوم بھی ہوں تو ان کی ادائیگی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ والدین کے حقوق اپنی جگہ واجب ہیں مگر ان کے ساتھ ساتھ شوہر پر اس کی بیوی اور بچوں کے حقوق بھی واجب ہیں۔ شریعت اس بات کی کبھی اجازت نہیں دیتی کہ ایک فریق کا حق ادا ہو اور دوسرے کی حق تلفی ہو جائے۔ والدین کی نافرمانی صرف اُس صورت میں ہوتی ہے جب اُن کے وہ حقوق ادا نہ کیے جائیں جنہیں شریعت نے ان کے حق میں مقرر کیا ہے یا اُن کی بے ادبی اور گستاخی کی جائے یا اُن کی خدمت میں کوتاہی کی جائے۔ یہی ان کا حق اور اولاد کافرض ہے۔ اسلام نے حقوق و فرائض میںبہت خوبصورت توازن قائم کیا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ایک کے حق کی ادائیگی میں دوسرے کا حق تلف ہو جائے۔
بیٹے، بہو اور اولاد کا یہ فرض ہے کہ وہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کے شرعی حقوق کا خیال رکھیں جبکہ والدین کی بھی ذمّہ داری ہے کہ وہ اولاد کی جائز خواہشات، ضروریات اور معاملات میں معاونت اور سرپرستی میں وسعت ظرفی کا مظاہرہ کریں۔
اپنی پسند کی شادی کرنا بالغ لڑکی اور لڑکے کا حق ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ہاں دُہرے معیار قائم ہیں اور معاملہ افراط و تفریط کا شکار ہو گیا ہے۔ بعض علاقوں میں والدین کی شدید انانیت سامنے آتی ہے اور اسے غیرت کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ یہ انانیت اور غیرت اولاد کے جائز حقوق کا گلا دبا دیتی ہے، اس ’غیرت‘ کا نشانہ زیادہ تر بیٹیاں بنتی ہیں کیونکہ بیٹے کو پھر بھی اس کی پسند و نا پسند کا اختیار دے دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف اس ناجائز پابندی اور ہٹ دھرمی کے ردِ عمل میں بعض بچوں میں بغاوت سر اٹھا لیتی ہے۔ وہ عدالت میں جا کر رشتۂ اِزدواج استوار کر لیتے ہیں۔ پھر بعض اوقات لڑکی کے گھر والے اسے جان سے مار دینے ہی میں اپنی غیرت کی تسکین تلاش کرتے ہیں۔ یہ تلخ واقعات روز مرہ کا معمول ہیں اور اس بات کی شہادت ہیں کہ ہم شریعت سے قطع نظر اولاد پراپنی ذاتی رائے کو حد سے تجاوز کرتے ہوئے مسلط کرتے ہیں۔ ہمیں شرعی مسائل اور تعلیمات کا علم ہوتا تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کے مقابلے میں اپنی انا کو ہرگز مسئلہ نہ بننے دیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ شادی کے معاملے میں والدین کو اپنی بیٹی یا بیٹے پر ان کی مرضی کے خلاف دباؤ کا حق حاصل نہیں ہے۔ اگر وہ ان پر دباؤ ڈالیں اور وہ انکار کر دیں تو اس سے ان کی نافرمانی نہیں ہوگی بلکہ والدین زبردستی اپنی بچی یا بچے کا نکاح ان کی رضا مندی کے خلاف کر دیں تو یہ عمل خلافِ شریعت ہوگا۔ جس شریعت نے پسند کی شادی کا اختیار دیا ہے، اس نے نا پسندیدہ شادیوں کو رد کرنے کا اختیار بھی دیا ہے۔ لہٰذا اُس بچی یا بچے کو یہ نکاح رَد کرنے کا اختیار اللہ اور رسول ﷺ نے دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ج فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ط ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَلاَّ تَعُوْلُوْاo
النساء، 4: 3
ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے) پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہوo
اس آیت کریمہ میں ’پسند کے مطابق‘ شادی کا حق لڑکے اور لڑکی کو دیا گیا ہے نہ کہ والدین اور دیگر اعزاء و اقارب کو، اسی طرح بچے یا بچی کی مرضی کے خلاف شادی کر دی جائے تو اسے فسخ کرنے کا حق بھی شریعت ہی نے مقرر کر رکھا ہے۔
1۔ امام احمد بن حنبل، امام نسائی اور امام ابنِ ماجہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی ہے۔ وہ فرماتی ہیں:
جَاءَتْ فَتَاۃٌ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَتْ: یَارَسُوْلَ اللهِ! إِنَّ أَبِي زَوَّجَنِي ابْنَ أَخِیْهِ یَرْفَعُ بِي خَسِیْسَتَهُ. فَجَعَلَ الْأَمْرَ إِلَیْهَا، قَالَتْ: فَإِنِّي قَدْ أَجَزْتُ مَا صَنَعَ أَبِي وَلَکِنْ أَرَدْتُ أَنْ تَعْلَمَ النِّسَاءُ أَنْ لَیْسَ لِلْآبَاءِ مِنَ الْأَمْرِ شَيْئٌ.
1۔ أحمد بن حنبل، المسند، 6: 136، رقم: 25087
2۔ نسائی، السنن، کتاب النکاح، باب البکر یزوجہا أبوہا وہي کارہۃ، 6: 86، رقم: 3269
3۔ ابن ماجہ، السنن، کتاب النکاح، باب من زوج ابنتہ وھی کارھۃ، 1: 602، رقم: 1874
4۔ دارقطني، السنن، کتاب النکاح، 3: 232، رقم: 45
ایک لڑکی رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے باپ نے اپنے بھتیجے سے میرا نکاح کر دیا ہے تاکہ میرے ذریعہ سے (بھتیجے کی مالی معاونت حاصل کرے اور) اپنی مفلسی دور کرے۔ آپ ﷺ نے معاملہ اُس کے اختیار میں دے دیا (چاہے نکاح برقرار رکھے اور چاہے تو اس سے علیحدگی کر لے)۔ اس نے عرض کیا: میں اپنے والد کے نکاح کو برقرار رکھتی ہوں لیکن میں نے یہ اس لیے کیا کہ عورتوں کو معلوم ہو جائے کہ اولاد کے نکاح کے معاملے میں والدین کا (اولاد کی مرضی کے خلاف زبردستی کی صورت میں) کوئی حق لازم نہیں ہے۔
اِس حدیث مبارک سے ہمیں ایک اور رہنمائی ملتی ہے کہ جبری شادیوں (forced marriages) کی ایک اہم وجہ قریبی رشتہ داروں میں شادیاں (cousins marriages) بھی ہیں۔ بسا اوقات والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا/بیٹی ان کے بھتیجی/، بھتیجے بھانجی/بھانجے سے شادی کرلے تاکہ گھر کی دولت بھی گھر میں رہے اور بیرون ملک مقیم ہونے کی صورت میں اس کا ویزا وغیرہ بھی لگ جائے۔ یہ خیر خواہی، ہمدردی اور قرابت داری کا لحاظ اپنی جگہ اچھی سوچ ہے، مگر اس معاملے میں بھی بعض والدین بچوں پر دباؤ ڈالتے ہیں جس کے نتیجے میں مغربی ممالک میں اس طرح کی شادیاں اکثر و بیشتر ناکام ہو جاتی ہیں اور پھر اس کے سماجی اثرات بڑے منفی ثابت ہوتے ہیں، خاص طور پر اگر علیحدگی بچوں کی پیدائش کے بعد عمل میں آئے تو اس کے اثرات مزید خطرناک ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ اِسلام نے cousins marriages کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان اقدس ہے:
لَا تَنْکِحُوا الْقَرَابَةَ الْقَرِیْبَةَ، فَإِنَّ الْوَلَدَ یُخْلَقُ ضَاوِیًا.
1۔ ابن الأثیر، النہایۃ فی غریب الأثر، 3: 106
2۔ ابن حجر عسقلانی، تلخیص الحبیر فی تخریج أحادیث الرافعی الکبیر، 3: 146
3۔ غزالی، إحیاء علوم الدین ومعہ تخریج الحافظ العراقی، 2: 41
4۔ سبکی، طبقات الشافعیۃ الکبری، 6: 310
اپنے قریبی رشتہ داروں میں نکاح مت کرو، کیونکہ اس طرح (بسا اوقات) تمہارے بچے ناقابلِ علاج بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔
اگرچہ یہ شرعی ممانعت نہیں ہے اور عہد نبوی اور دورِ صحابہ میں بہت سی شادیاں قریبی رشتہ داروں میں ہوئیں جس پر کثیر مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ تاہم بعض اوقات صرف medical reasons کی بناء پر ایسی شادیوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بنو سائب کے لوگوں سے فرمایا:
قَدْ أَضْوَأْتُمْ فَانْکِحُوْا فِي النَّزَائِعِ.
1۔ دینوری، المجالسۃ وجواہر العلم: 249، رقم: 1437
2۔ ہندی، کنز العمال، 16: 208، رقم: 45626
3۔ ابن حجر عسقلانی، تلخیص الحبیر فی تخریج أحادیث الرافعی الکبیر، 3: 146
تمہارے بچے ناقابلِ علاج بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، لہٰذا تم (ان اَمراض سے بچنے کے لیے) اپنے خاندان سے باہر کی عورتوں سے شادی کیا کرو۔
2۔ امام احمد بن حنبل، ابو داود اور ابن ماجہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
إِنَّ جَارِیَةً بِکْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ فَذَکَرَتْ أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ کَارِهَۃٌ فَخَیَّرَهَا النَّبِيُّ ﷺ.
1۔ أحمد بن حنبل، المسند، 1: 273، رقم: 2469
2۔ أبو داود، السنن، کتاب النکاح، باب في البکر یزوجہا أبوہا ولا یستأمرہا، 2: 232،
رقم: 2096
3۔ ابن ماجہ، السنن، کتاب النکاح، باب من زوج ابنتہ وھی کارھۃ، 1: 603، رقم: 1875
ایک کنواری لڑکی حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں آئی اور عرض کیا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح (کسی شخص کے ساتھ) زبردستی کر دیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے اختیار دے دیا (چاہے تو نکاح برقرار رکھے اور چاہے تو اسے فسخ کر دے)۔
3۔ امام دارقطنی اور بیہقی نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ رَدَّ نِکَاحَ بِکْرٍ وَثَیِّبٍ أَنْکَحَهُمَا أَبُوهُمَا، وَهُمَا کَارِهَتَانِ، فَرَدَّ النَّبِيُّ ﷺ نِکَاحَهُمَا.
1۔ دارقطنی، السنن، کتاب النکاح، 3: 233، رقم: 53
2۔ بیہقی، السنن الکبری، 7: 114
رسول اللہ ﷺ نے بالغہ (کنواری) اور بیوہ (یا طلاق یافتہ) عورتوں کے نکاح اس وجہ سے فاسد فرما دیے کہ اُن کے والدین نے اُن کے نکاح ان کی مرضی کے خلاف کر دیئے تھے، لہٰذا نبی اکرم ﷺ نے اُن دونوں کے نکاح کو رَد کر دیا۔
4۔ حضرت عطاء بن ابی رباح تابعی سے (مرسلاً) مروی ہے:
فَرَّقَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بَیْنَ امْرَأَةٍ وَزَوْجِھَا وَھِيَ بِکْرٌ، أَنْکَحَھَا أَبُوھَا وَھِيَ کَارِھَۃٌ.
دارقطنی، السنن، کتاب النکاح، 3: 234، رقم: 52
رسول اللہ ﷺ نے ایک بالغہ عورت اور اس کے خاوند کے مابین تفریق کروا دی کیونکہ اس کے باپ نے (اپنی مرضی سے) اس کا نکاح کیا تھا اور وہ اس خاوند کو ناپسند کرتی تھی۔
اِسلام وہ دین ہے جس میں جبری شادی کا کوئی تصور نہیں کیونکہ شادی عورت کا حق ہے، والدین کو اس پر جبر کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ سو والدین بھی یہ حکمِ شریعت اچھی طرح سمجھ لیں کہ اگر وہ اولاد کو ایسا حکم دیں گے جس کا انہیں شرعاً کوئی حق حاصل نہیں بلکہ اس کے برعکس وہ حق شریعت نے اولاد کو دیا ہے تو اس کی عدمِ تکمیل والدین کی نافرمانی تصور نہیں ہو گی۔ اسی طرح والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک، اپنے شادی شدہ بیٹے کو ایسا حکم دے جس سے اس کی بیوی (یعنی والدین کی بہو) کے شرعی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہو، یا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے عطا کردہ حق سے محروم ہوتی ہو، یا اس کے ساتھ ظلم اور نا انصافی ہوتی ہو، سو اس صورت میں لڑکا اگر والدین کا ایسا حکم بجا نہ لائے تو یہ شرعاً ان کی نافرمانی تصور نہیں ہو گی۔
کیونکہ والدین یا والدہ بیٹے کو ایسا کام کرنے کا کہہ رہی ہے جو نہ تو اس کا شرعی حق ہے نہ بیٹے پر شرعاً واجب ہے، بلکہ دوسری طرف، اس کام کے بجا لانے سے بیوی پر ظلم و زیادتی کا ارتکاب ہوتا ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے لہٰذا ایسا کام نہ کرنا والدین کی نافرمانی قرار نہیں پائے گا۔ اولاد کو چاہیے کہ اس صورت میں وہ والدین کے ساتھ بھی گستاخی سے پیش نہ آئیں۔ اُف تک بھی نہ کریں اور بیوی کے ساتھ بھی عدل و انصاف اور حسنِ سلوک کا شرعی حکم بجا لاتے رہیں اور ہرگز زیادتی نہ کریں۔ یوں دونوں طرف ممکنہ حد تک توازن برقرار رکھیں۔ اگر یہ توازن اکٹھے رہنے میں ممکن نہ ہو، تو شوہر بیوی کو الگ رہائش مہیا کرے، یہ اس کا حق ہے۔ اندریں حالات والدین کا ناجائز حکم نہ ماننا شرعاً گناہ نہیں ہے۔
کیونکہ حکم شریعت یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی اطاعت کسی ایسے کام میں نہیں ہے جس سے گناہ واقع ہوتا ہو یا خدا و رسول ﷺ کی نافرمانی ہوتی ہو۔ ارشادِ نبوی ہے:
لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِیَةِ اللهِ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب التمني، باب ما جاء في إجازۃ خیر الواحد
الصدوق في الأذان الصلاۃ والصوم والفرائض والأحکام، 6: 2649، رقم: 6830
2۔ مسلم، الصحیح، کتاب الإمارۃ، باب وجوب طاعۃ الأمراء في غیر معصیۃ وتحریمہا فی المعصیۃ،
3: 1469، رقم: 1840
اللہ تعالیٰ کی نافرمانی (کے قول و فعل) میں کسی شخص کی اطاعت کرنا لازم یا جائز نہیں ہے۔ اطاعت صرف نیک کاموں میں ہوتی ہے۔
جواب: جی ہاں! ٹیلی فون یا انٹرنیٹ وغیرہ پر رابطہ کے ذریعے نکاح کرنا شرعا جائز ہے۔ بعض لوگ جواز اور عدم جواز کے قائل ہیں۔ اصل مسئلہ نکاح کی شرائط کا ہے اگر ان میں سے کوئی ایک یا اس سے زائد شرائط پوری نہ ہوسکیں تونکاح منعقد نہیں ہوگا اور اگر شرائط پوری ہو رہی ہوں تو نکاح جائز ہوگا۔
جواب: ٹیلی فون/ انٹرنیٹ پر نکاح کرنے کا طریقہ درج ذیل ہے:
1۔ سب سے پہلے نکاح فارم لیں اور ان کو مکمل فل کریں۔ جو فریق دوسرے ملک میں ہے اس کا نام وپتہ اور دستخط کروانے کے لیے وہ کاغذات اس کے پاس بھیجیں۔ مثلاً لڑکا دوسرے ملک میں ہے تو دلہا، اس کا وکیل اور اس کے وکیل کے دو گواہ کم سے کم ان تینوں کے نام، مکمل پتے اور ان کے مخصوص جگہ پر دستخط کرنے کے لیے مکمل نکاح فارمز باہر بھیجیں۔ لڑکے اور ان تینوں کو لڑکی کی تمام ضروری معلومات اور حق مہر کی تفصیل بتا دیں۔ وہ اسے پُر کر کے واپس بھیج دیں گے۔
2۔ لڑکی یہاں ہے تو اس کا نام و پتہ، اس کے وکیل کا نام پتہ اور وکیل بنانے کے دو گواہوں کے نام و پتہ لکھیں اوران سب کے دستخط کروائیں۔ پھر شادی کے دو گواہ بنالیں ان کا نام و پتہ اور دستخط کروائیں۔
3۔ جب فریقین کو تمام حقیقت معلوم ہوگئی تو ٹیلی فون سیٹ نکاح خوان کے سامنے رکھیں۔ تمام متعلقہ لوگ دونوں فریقین میں سے جن کے نام فارم پر لکھے ہیں، ایک جگہ بیٹھ جائیں اور دوسرے ملک کے وہاں بیٹھ جائیں۔ اب نکاح خواں فارم ہاتھ میں لے اور ٹیلی فون پر لڑکے کانام اسی سے پوچھے۔ والد کا نام اور یہ بھی معلوم کرے کہ کیا اس کا آج نکاح ہورہا ہے؟ کس لڑکی سے ہے اور وہ کس جگہ سے ہے؟ لڑکی کے والد کانام، حق مہر اور اگر دیگر شرائط ہوں تو وہ بھی نکاح خواں اس سے پوچھے۔
4۔ جب لڑکا یہ تمام باتیں کرلے اور نکاح کی اجازت بھی دے دے تو اس سے کہا جائے کہ اس کا یہاں وکیل کون ہے، اس کا والد کون ہے وغیرہ۔ اب لڑکی سے اجازت لے کر اس لڑکی کا اس لڑکے سے نکاح کریں۔ ٹیلی فون پر لڑکے سے اس کے گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کروائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لڑکے کا جو وکیل آپ کے پاس موجود ہے اُس سے بھی نکاح کا ایجاب و قبول کروایا جائے۔ یعنی لڑکے کا وکیل کہے کہ میں نے فلاں لڑکی اتنے حق مہر کے عوض ان شرائط کے تحت ان گواہوں کے روبرو اپنے فلاں موکل کے نکاح کے لیے قبول کی۔ اگر ٹیلی فون پر پورا بندوبست ہو اور فریقین ایک دوسرے کو پہچان لیں تو نکاح ہو جائے گا۔ اس نکاح میں تین پہلو نمایاں ہوں گے:
(1) چونکہ دونوں نے اپنا اپنا وکیل بنایا ہوا ہے اور نکاح فارم میں ہر ایک کا وکیل اور اس کے دستخط موجود ہیں۔ وکیل بنانے کے دوگواہ اور ان کے دستخط بھی موجود ہیں، لہٰذا یہ نکاح وکالتاً صحیح ہوا۔
(2) ٹیلی فون پر جب نکاح فارمز کے مطابق ولدیت، پتہ اور دوسرے فریق سے ان کا تعلق، ہونے والے نکاح کے بارے میں اجازت و رضا مندی، لکھی گئی شرائط کی تائید و توثیق وغیرہ صراحتاً موجودہے اور دوسری طرف سے پوری احتیاط کے ساتھ تمام مراحل طے کرا لیے گئے اور گواہوں کی موجودگی میں یہ نکاح پڑھا گیا تو نکاح درست رہا۔
(3) بالفرض ٹیلی فون پر گفتگو میں کوئی غلط بیانی ہوگئی تو ایسا امکان لڑکے، لڑکی کی موجودگی میں بھی ممکن ہے۔ مثلاً یہاں ہم آئے دن نکاح پڑھتے ہیں۔ نکاح خواں کو کیا معلوم کہ یہی لڑکی ہے، یہی لڑکا ہے اور یہی ان کی پہلی شادی ہے وغیرہ۔ محض اعتماد و اعتبار کی بات ہے۔ ٹیلی فون پر کاروبار، لین دین، ٹھیکے، درآمدات و برآمدات، موت و حیات کے بہت سے دوسرے امور انجام پاتے ہیں۔ لہٰذا جب ان معاملات میں ٹیلی فون وغیرہ سے استفادہ کرتے ہیں تو نکاح و شادی کے معاملات میں تو کئی گنا احتیاط برتی جاتی ہے، لہٰذا وہ بھی شرعاً جائز ہے۔
جواب: جی ہاں! جس عورت سے نکاح کا ارادہ ہو، اسے نکاح سے پہلے دیکھنا جائز ہے۔ جیسا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا خَطَبَ أَحَدُکُمُ الْمَرْأَةَ، فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ یَنْظُرَ إِلٰی مَا یَدْعُوهُ إِلٰی نِکَاحِهَا فَلْیَفْعَلْ.
أبو داؤد، السنن، کتاب النکاح، باب الرجل ینظر الی المرأۃ وھو یرید تزویجھا، 2: 192، رقم: 2082
جب کوئی عورت تمہیں پیغامِ نکاح دے تو اگر اسے دیکھنا ممکن ہو تو دیکھ لو۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت سے نکاح کا ارادہ کیا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَیْهَا فَإِنَّهٗ أَحْرٰی أَنْ یُؤْدَمَ بَیْنَکُمَا.
ابن ماجہ، السنن، کتاب النکاح، باب النظر إلی المرأۃ اذا أراد ان یتزوجھا، 2: 426، رقم: 1865
جاؤ اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔
جواب: جی ہاں! حالتِ احرام میں نکاح جکرنا ائز ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَزَوَّجَ مَیْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ.
بخاری، الصحیح، کتاب ابواب الإحصار و جزاء الصید، باب تزویج المحرم، 2: 652، رقم: 1740
حضور نبی اکرم ﷺ نے اُم المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے حالتِ احرام میں عقدِ نکاح کیا تھا۔
جواب: نکاح خفیہ نہیں بلکہ اعلانیہ ہونا چاہیے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَعْلِنُوا هٰذَا النِّکَاحَ وَاضْرِبُوا عَلَیْهِ بِالْغِرْبَالِ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب النکاح، باب إعلان النکاح، 2: 442-443، رقم: 1895
نکاح کا اعلان کیا کرو اور اس پر ڈھول بجایا کرو۔
دوسری روایت میں محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
فَصْلُ مَا بَیْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ الدُّفُّ وَالصَّوْتُ فِی النِّکَاحِ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب النکاح، باب إعلان النکاح، 2: 443، رقم: 1896
حلال و حرام میں فرق نکاح میں گانا اور دف بجانا ہے۔
اگر شرائطِ نکاح پوری ہوں تو نفسِ نکاح منعقد ہو جائے گا مگر معاشرتی سطح پر مستحسن نہیں ہے۔
جواب: جی نہیں! شریعت کی رُو سے مرد کا مرد سے اور عورت کا عورت سے کسی بھی صورت نکاح نہیں ہوسکتا بلکہ ایسا عمل ہم جنس پرستی کہلائے گا جو سراسر خلافِ اِسلام اور صریح حرام ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِـہٖٓ اَتَـاْتُـوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَکُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰـلَمِیْنَo اِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَھْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِ ط بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَo
الأعراف، 7: 80-81
اور لوط ( علیہ السلام ) کو (بھی ہم نے اسی طرح بھیجا) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم (ایسی) بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جسے تم سے پہلے اہلِ جہاں میں سے کسی نے نہیں کیا تھا؟o بے شک تم نفسانی خواہش کے لیے عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس آتے ہو بلکہ تم حد سے گزر جانے والے ہوo
لہٰذا یہ اِنتہائی قبیح اور حرام فعل ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
جواب: مرد، مرد کے ساتھ مجامعت کرے تو اس عمل کو عمل قومِ لوط کہتے ہیں۔ اس کی سزا کے بارے میں وضاحت درج ذیل ہے:
امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس پر حد نہیں تعزیر ہے، قید کر دیا جائے یہاں تک کہ توبہ کرے یا مر جائے اور عادی ہو تو قتل کر دیا جائے خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔
صاحبین کے نزدیک یہ جرم زنا کی طرح ہے۔ لہٰذا اس کا حکم ہے اگر کنوارا ہے تو سو کوڑے اور شادی شدہ ہے تو سنگسار کیا جائے۔
امام شافعی ؒ کا بھی ایک قول یہی ہے اور ان کا دوسرا قول یہ ہے کہ دونوں کو قتل کر دیا جائے خواہ کنوارے ہو یا شادی شدہ کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
فاعل اور مفعول کو قتل کر دو۔
ایک دوسری روایت میں ہے:
اوپر اور نیچے والے کو سنگ سار کر دو۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس کو قوم لوط کا عمل کرتے دیکھو کرنے اور کروانے والے دونوں کو قتل کر دو۔
محمد بن اسحاق نے حضرت عمر و بن ابی عمرو سے روایت کی ہے کہ قوم لوط کا عمل کرنے والا لعنتی ہے۔
(1) ابن ہمام، فتح القدیر، 5: 262
عورت کا عورت سے مجامعت کرنے کے بارے میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ آج کل مغرب کی گندگی ہے۔ لہٰذا اس برائی کو روکنے کے لیے تعزیری سزا دی جائے گی، اس کا فیصلہ قاضی یا جج حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کرے گا۔ اگر یہ گندگی زیادہ پھیلتی ہوئی نظر آئے تو قاضی یا جج حد سے بھی بڑھ کر سزا دے سکتا ہے تاکہ دوسروں کے لیے عبرت کا نشان بنے اور معاشرہ اس برائی سے نجات پا سکے۔
جواب: جی ہاں! سید زادی کا نکاح غیر سید سے کرنا جائز ہے۔ اس لیے کہ قرآن حکیم نے سورۃ النساء کی آیت نمبر تئیس اور چوبیس میں جن عورتوں سے نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے ان کی تعداد گنوا دی ہے اور ان محرمات میں سید زادی کہیں بھی مذکور نہیں ہے اور نہ ہی کسی حدیث مبارکہ میں ممانعت ہے۔ لہٰذا سید زادی سے نکاح جائز ہے اور اس کی مثال حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ سے ملتی ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی دو صاحبزادیوں سیدہ ام کلثوم اور سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا جو کہ نہ سید تھے اور نہ ہاشمی تھے۔
جواب: جی ہاں! عصرِ حاضر میں اہل کتاب سے نکاح کرنا جائز ہے۔ قرآن حکیم جو قیامت تک اللہ تعالیٰ کے حتمی احکامات کا مجموعہ اور حلال و حرام کی بنیادی کسوٹی ہے، اس نے اہل کفر کے درمیان فرق کرتے ہوئے نکاح اور شادی جیسے اہم ترین سماجی بندھن کے معاملے کو اہل کتاب عورتوں کے ساتھ جائز قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُوْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَلَا مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ ط وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ ز وَھُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo
المائدۃ، 5: 5
اور (اسی طرح) پاک دامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاکدامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (تمہارے لیے حلال ہیں) جب کہ تم انہیں ان کے مَہر ادا کر دو، (مگر شرط) یہ کہ تم (انہیں) قید نکاح میں لانے والے (عفت شعار) بنو نہ کہ (محض ہوس رانی کی خاطر) اعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے، اور جو شخص (احکامِ الٰہی پر) ایمان (لانے) سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں (بھی) نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگاo
مذکورہ بالا آیت میں بالصراحت پاکدامن کتابیہ عورت سے مسلمان عورت کی طرح نکاح کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ اہل کتاب خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی - قرآن نے خود ان کے شرکیہ عقائد کو بیان کیا ہے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے ذبیحہ کی طرح کتابیہ سے نکاح کو جائز کیوں رکھا گیا؟ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں اور اہلِ کتاب میں کافی حد تک اعتقادی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ اگرچہ اہل کتاب بعض عقائد کا محض دعوی کرتے ہیں مگر قرآن نے ان کے دعویٰ کو بھی قطعی رد نہیں کیا۔ مثلاً وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں، وحی اور رسالت کو بھی مانتے ہیں، موت کے بعد برزخ اور بعد ازاں اُخروی زندگی کے بھی قائل ہیں، قیامت کے دن اور جزا و سزا کے تصور کو بھی مانتے ہیں۔ ان بڑے اور بنیادی عقائد پر ایمان رکھنے کی وجہ سے قرآن نے ان کی تمام تر عداوتوں، نافرمانیوں اور بغاوتوں کے باوجود مسلمانوں کو ان سے معاملات میں نرمی برتنے کا حکم دیا۔ اسی ضمن میں ان کی عورتوں سے شادی کا جواز بھی ہے۔ (مزید تفصیلات کے لیے شیخ الاسلام کی کتاب ’اِسلام اور اہل کتاب‘ ملاحظہ فرمائیں۔)
ایسی عورت جو اسلام چھوڑ کر عیسائی یا یہودی ہوئی ہو اس سے مسلمان کا نکاح جائز نہیں ہے۔ مگر جو عورت نسلی اَہلِ کتاب یا پھر اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کو چھوڑ کر اَہلِ کتاب بنی ہو تو اس سے نکاح جائز ہے۔
جواب: کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے حربی کفار کی شادی یا خوشی وغیرہ میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے۔ ان کے علاوہ جو غیر مسلم ہمارے ساتھ بر سر جنگ نہ ہوں ان کی شادیوں میں شرکت کر سکتے ہیں۔
جواب: قرآن حکیم کی رُو سے نکاح پر نکاح کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ.
النساء، 4: 24
اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پر حرام ہیں)۔
جواب: اگر پہلا نکاح شرعی تقاضوں کے مطابق پڑھا گیا تو جب تک وہ خاوند طلاق نہ دے یا فوت نہ ہوجائے یا (العیاذ باللہ ) دونوں میں سے کوئی ایک مرتد نہ ہو جائے تو نکاح برقرار رہے گا۔ پہلا نکاح ہوتے ہوئے دوسرے کے جواز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ دوسرا نکاح سرے سے نکاح ہی نہیں۔ جو لوگ دانستہ طور پر اس قبیح عمل میں شریک ہوئے انہوں نے قرآن کے قطعی حرام کو حلال کرنے کی ناپاک جسارت کی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کا صریح انکار و استہزاء کیا۔ وہ سب مرتد ہوگئے اور ان کے اپنے نکاح بھی ٹوٹ گئے کیونکہ ان کی عورتیں مسلمان ہیں اور یہ مرتد۔ لہٰذا انہیں فوراً اپنے گناہ کی معافی مانگنے اور توبہ کرنے کے ساتھ تجدید ایمان اور شادی شدہ کو تجدید نکاح کرنا چاہیے۔ بصورتِ دیگر عدالت کے ذریعے حدودِ شرعی کے اجراء کا انتظام کیا جائے۔ تمام اہل اسلام کو ان گواہوں، شرکت کرنے والوں اور میاں بیوی بننے اور انہیں میاں بیوی بنانے والوں کا معاشی و سماجی مقاطعہ کرنا چاہیے۔
جواب: نکاح پر نکاح کروانے کے عمل میں شرکت کی وجہ سے جن کا نکاح ٹوٹ گیا تھا، اگر وہ توبہ کر لیں تو جن کی بیویاں حاملہ ہیں اگر وہ خود ان سے نکاح کرنا چاہیں تو عدت میں کریں۔ لیکن اگر کسی اور سے کرنا چاہیں تو وضع حمل شرط ہے۔
جواب: منہ بولی بہن اگر محرمات میں سے نہیں ہے تو اس سے نکاح کرنا جائز ہے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ من پسند اجنبی عورت کو بہن کہہ دیا جاتا ہے اور پھر آزادنہ میل ملاپ شروع ہو جاتا ہے۔نہ کوئی اجنبیت نہ کوئی پردہ، باہمی میل جول سے اعتماد پروان چڑھتا رہتا ہے۔ شرعاً ایسا کرنا حرام ہے۔ کوئی غیر محرم اس طرح بہن بھائی یا ماں بیٹا نہیں بن سکتا کہ شرعی حدود و قیود کی پاس داری نہ رہے۔ اس شیطانی چکر سے سیکڑوں گھر تباہ ہورہے ہیں اور کئی لوگ لا علمی و نادانی میں رسوا ہو رہے ہیں۔
جواب: نکاح کے بعد مرد و عورت ایک دوسرے کی جائیداد کے مالک نہیں بنتے۔ مرد پر عورت کا نان ونفقہ اور دیگر ضروریاتِ زندگی پورا کرنا فرض ہوتا ہے جبکہ عورت پر اس طرح کے کوئی اخراجات نہیں ہیں۔ میاں بیوی میں سے اگر کوئی ایک فوت ہو جائے تو دوسرا اس کے ترکہ سے حصہ پائے گا۔ نکاح کی وجہ سے ایک دوسرے کی جائیداد کا مکمل مالک نہیں بنے گا۔
جواب: جی نہیں! اگر بیوی اپنی رقم سے کاروبار کرے تو اس کاروبار میں اس کا شوہر یا اس شوہر کی دوسری بیوی قطعاً حق دار نہیں ہوں گے۔ اگر وہ بیوی فوت ہوجائے تو شوہر کو وراثت سے حصہ ملے گا لیکن دوسری بیوی کو کچھ نہیں ملے گا۔
جواب: جی ہاں! خوشی کے موقع پر دف یا ڈھولک بجا کر اس کا اظہار کرنا، اچھے کلام پڑھنا اور خواتین کا مہندی لگانا جائز ہے۔ حضرت محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
فَصْلُ مَا بَیْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ وَالْدُّفُّ وَالصَّوْتُ فِی النِّکَاحِ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب النکاح، باب إعلان النکاح، 2: 443، رقم: 1896
حلال اور حرام میں فرق یہ ہے کہ نکاح میں دف بجانا اور آواز سے اعلان واِظہار ہے۔
تاہم مہندی کی رسم پر غیر محرموں کے ساتھ اِختلاطِ مرد وزن، لغو ناچ گانا کرنا، بے پردگی اور فضول خرچی کرنا اسلام کی رو سے ناجائز اور حرام اُمور ہیں۔
جواب: شادی یا خوشی کے موقع پر خوشی کے گیت گانا اور سننا مستحب ہے تاکہ نکاح کا اعلان واِظہار ہو جائے۔ تاہم حدود سے تجاوز کرتے ہوئے لغو گانے گانا، سننا، اِختلاطِ مرد وزن اور لڑکے لڑکیوں کا مل کر ناچنا حرام ہے۔
جواب: جی ہاں! اپنی شادی میں پہنا ہوا کپڑوں کا جوڑا فروخت کرسکتے ہیں، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
جواب: جی ہاں! نکاح کے بعد دعوتِ ولیمہ کرنا حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
أَوْلَمَ النَّبِيُّ ﷺ بِزَیْنَبَ فَأَوْسَعَ الْمُسْلِمِینَ.
بخاری، الصحیح، کتاب النکاح، باب الصفرۃ للمتزوج، 5: 1979، رقم: 4859
حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت زینب (بنت جحش) رضی اللہ عنہا کا ولیمہ کیا اور اس میں مسلمانوں کو بہت وسعت کے ساتھ کھانا کھلایا۔
اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے نکاح کی خبر حضور نبی اکرم ﷺ کو ملی تو آپ ﷺ نے انہیں حکم فرمایا:
أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ.
بخاری، الصحیح، کتاب النکاح، باب الولیمۃ ولو بشاۃ، 5: 1983، رقم: 4872
تم ولیمہ کرو خواہ ایک بکری سے ہو۔
لہٰذا صاحبِ استطاعت کے لیے ضروری ہے کہ دعوتِ ولیمہ کرے اور اس میں غریبوں کا خاص خیال رکھے۔ اِستطاعت نہ رکھنے والے کے لیے قرض لے کر ولیمہ کرنا ضروری نہیں ہے۔
جواب: بچپن میں نابالغ لڑکی کا نکاح کرنا بچی کے ساتھ ظلم ہے۔ چھوٹی عمر میں بچیوں کی شادی کر کے والدین کو اس سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ ہر چند کہ فقہی اعتبار سے نابالغ بچی کے لیے ولایت مجبرہ اور غیر مجبرہ کی تفریق ہے مگر بالغ ہونے کے بعد اس کے پاس حقِ خیارِ بلوغ بھی ہے کہ وہ بچپن میں کیے گئے نکاح کو ردّ کر کے دوسرا نکاح کر لے۔ جیسا کہ قرآن حکیم صحتِ نکاح کے لیے بلوغ شرط قرار دیتا ہے:
وَابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ج فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ.
النساء، 4: 6
اور یتیموں کی (تربیتاً) جانچ اور آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں ہوشیاری (اور حُسنِ تدبیر) دیکھ لو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔
احناف جن کے نزدیک نابالغ لڑکے لڑکیوں کا نکاح جائز ہے ان کے مطابق بھی اگر بعد میں باپ کی لاپرواہی، حماقت یا لالچ ثابت ہوجائے تو نکاح نہیں ہوگا بالغ ہونے پر لڑکی جہاں چاہے اپنی مرضی سے شادی کرسکتی ہے۔ علامہ شامی نے الدر المختار میں لکھا ہے:
لم یعرف منهما سوء الاختیار مجانة وفسقاً، وإن عرف لا یصح النکاح اتفاقاً.
محمد بن علی علاء الدین الحصنی، الدر المختار، 3: 66، 67
باپ دادا کے نکاح کرنے سے خیار بلوغ ختم اس وقت ہوگا جب ان سے غلط فیصلہ نہ ہو لاپرواہی یا فسق کی وجہ سے اور اگر غلط فیصلہ معلوم ہوجائے تو بالاتفاق نکاح غلط ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں مذکور ہے:
وإذا أدرکت بالحیض لا بأس بأن تختار نفسها مع رؤیة الدم.
الشیخ نظام وجماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، 1: 286
اگر لڑکی حیض کے ذریعے بالغ ہوئی تو خون دیکھتے ہی اسے اختیار حاصل ہوگا کہ بچپن کے نکاح کو برقرار رکھے یا رد کر دے۔
بہر حال اگر نکاح کے وقت لڑکی، لڑکا نابالغ ہوں اور باپ دادا ان نابالغوں کا نکاح کر دیں تو نکاح ہوجاتا ہے لیکن بالغ ہونے پر لڑکے لڑکی کو اختیار ہوتا ہے کہ بچپن میں کیے ہوئے نکاح کو برقرار رکھیں یا اس کا انکار کردیں۔ لہٰذا لڑکی نے بالغ ہونے پر اگر پہلا نکاح قبول نہیں کیا تھا تو اب وہ آزاد ہے اپنی مرضی سے کہیں نکاح کرسکتی ہے۔
جواب: شریعتِ اسلامی نے ہر بالغ مسلمان مرد و عورت کو اپنی مرضی و پسند کی شادی کرنے کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ حکم دیا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ.
النساء، 4: 3
تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا خَطَبَ أَحَدُکُمُ الْمَرْأَةَ فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ یَنْظُرَ إِلٰی مَا یَدْعُوْهُ إِلٰی نِکَاحِھَا فَلْیَفْعَلْ.
ابوداؤد، السنن، کتاب النکاح، باب فی الرجل ینظر إلی المرأۃ وھو یرید تزویجھا، 2: 192، رقم: 2082
جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے تو اگر اس کی وہ خوبیاں جو اس شخص کو نکاح کی ترغیب دیں دیکھ سکتا ہے، تو ضرور دیکھے۔
قرآن و حدیث کے درج بالا حکم سے واضح ہوا کہ ہر بالغ مسلمان مرد و عورت کو اپنی مرضی سے شادی کا حق ہے۔ لیکن اگر والد یا سرپرست اپنی بیٹی کے لیے کسی شخص کو موزوں سمجھتے ہیں تو اسے پیار اور دلیل سے بہتر مشورہ دے سکتے ہیں اور اسے سمجھا سکتے ہیں تاکہ دونوں کامتفقہ فیصلہ ہو سکے۔ نہ اولاد باغی ہو نہ والدین غلط دباؤ ڈالیں کہ نوبت بغاوت، بے عزتی اور قتل و غارت تک پہنچ جائے کیونکہ مصالحت میں ہی خیر و برکت ہے۔ یہی شرعی تقاضا ہے اور اسی سے انجام بخیر ہوگا۔
جواب: قرآن حکیم میں نکاح کی نسبت جس طرح مرد کی طرف ہے اسی طرح عورت کی طرف بھی ہے۔ لہٰذا عاقل بالغ لڑکا، لڑکی اپنا پیغامِ نکاح شرعاً بھیج سکتے ہیں۔ والدین کو بھی ان کی رضا کے بغیر قدم نہیں اٹھانا چاہیے۔ اس پر تفصیلی بحث ہم گزشتہ صفحات میں کرچکے ہیں۔
جواب: جی ہاں! ایک ہی شخص لڑکے، لڑکی دونوں کی طرف سے وکیل ہو سکتا ہے۔ وہ وکیل یا ولی لڑکے اور لڑکی دونوں کی جانب سے یہ کہہ دے کہ میںنے فلاں لڑکی کا فلاں لڑکے سے نکاح کر دیا تو نکاح ہو جاتا ہے۔ یعنی اس بات کی بھی ضرورت نہیں کہ ایک بار یوں کہے کہ میں فلاں لڑکی کا فلاں لڑکے سے نکاح کرتاہوں اور دوسری بار یوں کہے کہ میں لڑکی کی طرف سے قبول کرتا ہوں اور تین بار دہرانے کی بھی ضرورت نہیں، صرف ایک بار گواہوں کے سامنے کہہ دینے سے نکاح ہو جائے گا۔
جواب: بہنوں کی وجہ سے بھائیوں کی شادی میں دیر کرنے کا شرعًا کوئی جواز نہیں۔ بہن اور بھائی دونوں اگر بالغ ہیں تو جس کا مناسب رشتہ ملے نکاح کر دینا چاہیے۔ تاہم بھائیوں کے شادی کی عمر تک پہنچنے کے ساتھ اس بات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ وہ صاحبِ استطاعت ہوں۔ کیونکہ حدیث مبارکہ میں ہے:
یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ! مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ الْبَائَةَ فَلْیَتَزَوَّجْ.
مسلم، الصحیح، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسہ إلیہ، 2: 1018، رقم: 1400
تم میں سے جو شخص گھر بسانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کرے۔
جواب: دوسری شادی کے لیے قرآن حکیم میں عدل و انصاف کی شرط ہے۔ اگر عدل نہ کر سکے یا جسمانی و مالی لحاظ سے حقوقِ زوجیت ادا نہ کر سکے تو ایک پر ہی اکتفاء کرنا چاہیے جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا:
فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ج فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً.
النساء، 4: 3
تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے) پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو)o
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَقْسِمُ بَیْنَ نِسَائِہٖ فَیَعْدِلُ، ثُمَّ یَقُوْلُ: اللّٰھُمَّ ھٰذَا فِعْلِیْ فِیْمَا أَمْلِکُ، فَلاَ تَلُمْنِیْ فِیْمَا لَا أَمْلِکُ.
ابن حبان، الصحیح، 10: 5، رقم: 4205
رسول اللہ ﷺ اپنی اَزواجِ مطہرات کے درمیان اوقات کی تقسیم فرمایا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتے: اے اللہ! یہ میرا فعل ہے جس کا مجھے اختیار ہے، تو میرے ان کاموں میں ملامت نہ کرنا جو میرے بس میں نہیں ہیں۔
جواب: پہلی بیوی کے حقوق مثلاً نان و نفقہ اور اس کی بنیادی ضروریاتِ زندگی پوری نہ کرنے کی صورت میں مرد دوسری شادی کرنے کا استحقاق نہیں رکھتا۔ کیونکہ اسلام تو ایک شادی کی بھی مشروط اجازت دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ج فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ط ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَلاَّ تَعُوْلُوْا.
النساء، 4: 3
اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے) پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہوo
جواب: مرد پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر وہ دوسری شادی کر لیتا ہے تو اس صورت میں مسلم فیملی لاء آرڈنینس 1965ء کی دفعہ 6[5(b)] کے مطابق اسے سات سال قید یا ایک لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں بھی ہو سکتی ہیں، تاہم اس کا دوسرا نکاح برقرار رہے گا۔
جواب: اگر کوئی شخص اپنی بیویوں کے درمیان عدل نہ رکھ سکے تو اس کے لیے سخت وعید ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ کَانَتْ لَهٗ إِمْرَأَتَانِ، فَمَالَ مَعَ إِحْدَاھُمَا عَلَی الْأُخْرٰی، جَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَأَحَدُ شِقَّیْهِ سَاقِطٌ.
ابن حبان، الصحیح، 10: 7، رقم: 4207
جس آدمی کی دو بیویاں ہوں اور وہ دوسری کے مقابلے میں ایک کو زیادہ ترجیح دے (یعنی معاملات میں عدل نہ کرے) تو قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو ساقط ہوگا۔
جواب: شوہر اگر اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو ایسی عورت کے لیے سخت وعید ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلٰی فِرَاشِهِ فَأَبَتْ، فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَیْهَا، لَعَنَتْهَا الْمَلَائِکَةُ حَتَّی تُصْبِحَ.
1۔ بخاری، الصحیح، کتاب بدء الخلق، باب إذا قال أحدکم آمین
والملائکۃ في السمائ، فوافقت إحداہما الأخری غفر لہ ما تقدّم من ذنبہ، 3: 1182، رقم:
3065
2۔ بخاری، الصحیح، کتاب النکاح، باب إذا باتت المرأۃ مہاجرۃ فراش زوجہا، 5: 1993،
رقم: 4897
3۔ مسلم، الصحیح، کتاب النکاح، باب تحریم امتناعہا من فراش زوجہا، 2: 1060، رقم: 1436
جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو قربت کے لیے بلائے اور وہ (بغیر کسی صحیح عذر کے) اِنکار کر دے، اور وہ شخص اس سے ناراضگی کی حالت ہی میں رات بسر کر لے تو فرشتے صبح تک اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں (کیونکہ یہ طرزِ عمل شوہر کے دِین اور ایمان کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہٖ، مَا مِنْ رَجُلٍ یَدْعُو امْرَأَتَهٗ إِلٰی فِرَاشِهَا فَتَأْبٰی عَلَیْهِ إِلَّا کَانَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ سَاخِطًا عَلَیْهَا حَتّٰی یَرْضٰی عَنْهَا.
1۔ مسلم، الصحیح، کتاب النکاح، باب تحریم امتناعہا من فراش زوجہا، 2: 1060، رقم: 1436
اُس رب کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! جس شخص نے اپنی بیوی کو (ازدواجی تعلق کے لیے) بلایا اور وہ (بغیر عذر کے) اِنکار کر دے تو اُس سے آسمانوں میں موجود رب (تعالیٰ) اُس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اُس کا شوہر اس سے راضی نہ ہو جائے۔
جواب: معینہ مدت کے لیے نکاح کرنا متعہ ہے جو حرام ہے۔ پھر اگر طلاق نہ دے تو طلاق واقع نہیں ہو گی بلکہ نکاح برقرار رہے گا۔
جواب: اسلام ایسے ہر طریقہ کے خلاف ہے جس میں مرد اور عورت کے درمیان حق زوجیت (عقد) کو کسی بھی طرح ضعف پہنچنے کا خطرہ لاحق ہو یا زوجین کو حق مجامعت سے روکا جائے یا معاش اور تنگیِ رزق کے باعث ایسا عمل اختیار کیا جائے۔ قرآن حکیم فرماتا ہے:
وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ ط نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَاِیَّاکُمْ ط اِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًاo
بنی اسرائیل، 17: 31
اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو، ہم ہی انہیں (بھی) روزی دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہےo
جواب: ایک سو بیس دن یعنی چار ماہ گزرنے سے پہلے اگر کسی عذر کی وجہ سے حاملہ عورت اِسقاطِ حمل کروانا چاہے تو کروا سکتی ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
إِنَّ أَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُهٗ فِي بَطْنِ أُمِّہٖ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًا، ثُمَّ یَکُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذٰلِکَ، ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَةً مِثْلَ ذٰلِکَ، ثُمَّ یَبْعَثُ اللهُ مَلَکًا فَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ کَلِمَاتٍ، وَیُقَالُ لَهٗ: اکْتُبْ عَمَلَهٗ، وَرِزْقَهٗ، وَأَجَلَهٗ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِیدٌ، ثُمَّ یُنْفَخُ فِیهِ الرُّوحُ.
بخاری، الصحیح، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، 3: 1174-1175، رقم: 3036
تم میں سے ہر ایک اپنی ماں کے بطن میں (نطفہ کی صورت میں) چالس دن گزارتا ہے، پھر اتنا عرصہ علقۃ اور اتنا ہی عرصہ مضغۃ کی صورت میں رہتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتا ہے جسے چار چیزیں لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے: رزق، عمر، نیک بخت یا بد بخت۔ پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔
اس حدیث مبارکہ سے فقہاء کرام نے یہی مسئلہ اخذ کیا ہے کہ اگر حاملہ چاہے تو ایک سو بیس دن گزرنے سے پہلے اِسقاط حمل کر سکتی ہے۔
جیسا کہ کتب فقہ میں ہے:
ھل یباح الاسقاط بعد الحبل؟ یباح ما لم یتخلق شیء منه. ثم في غیر موضع ولا یکون ذٰلک إلا بعد مائة وعشرین یومًا.
1۔ ابن نجیم، البحر الرائق، 3: 215
2۔ ابن الہمام، شرح فتح القدیر، 3: 401
کیا حمل ٹھہرنے کے بعد ساقط کرنا جائز ہے؟ (ہاں) جب تک اس کی تخلیق نہ ہو جائے، جائز ہے۔ پھر متعدد مقامات پر تصریح ہے کہ تخلیق کا عمل ایک سو بیس دن یعنی چار ماہ بعد ہوتا ہے۔
جواب: خاندانی منصوبہ بندی (family planning) پانچ صورتوں میں جائز ہے:
1۔ میڈیکل رپورٹ سے یہ بات ظاہر ہو کہ کثرتِ تولد کی وجہ سے عورت کی جان کو خطرہ ہے۔
2۔ میڈیکل رپورٹ سے ظاہر ہو کہ پیدا ہونے والے بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔
3۔ میڈیکل رپورٹ سے یہ بات ظاہر ہو کہ کثرتِ تولد کی وجہ سے عورت کی صحت کو ایسا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے کہ اس کی صحت گر جائے گی، بیمار رہنے لگے گی اور شفایابی مشکل ہوگی۔
4۔ میڈیکل رپورٹ سے ثابت ہو کہ پیدا ہونے والا بچہ صحت مند اور توانا نہیں ہو گا بلکہ مستقل بیمار رہے گا۔
5۔ انسان یقین کی حد تک محسوس کرے کہ اُس کے وسائل اس قدر نہیں کہ زیادہ اولاد کی صورت میں حلال ذرائع سے بچوں کی کفالت کر سکے گا اور نتیجتاً اُسے حرام ذرائع اختیار کرنا پڑیں گے۔
ان پانچ صورتوں میں خاندانی منصوبہ بندی جائز ہے تاکہ ماں اور بچے کی زندگی اور صحت محفوظ رہے اور اس کا اپنا دین بھی محفوظ رہے۔ اگر اس کے معاشی حالات اَبتر ہوں (رزق کی بنیاد پر نہیں کیونکہ رزق دینے والا اللہ تعالیٰ ہے) لیکن اگر حالات ایسے ہوں کہ وہ یقین کی حد تک محسوس کرے کہ اولاد کی کثرت اور ذمہ داریوں کا بوجھ اتنا زیادہ ہو جانے کی وجہ سے جائز اور حلال وسائل کافی نہ ہوں گے اور اسے اپنے بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کے لیے رشوت، غبن، چوری اور بددیانتی کرنا پڑے گی اور اس کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حرام رزق گھر میں آنے لگے گا تو ایسی صورت میں اولیت دین و ایمان کو حاصل ہے، اسے کثرت اولاد سے بچنا چاہیے۔ ائمہ کرام اور بہت سے علماء کا فتوی ہے کہ اگر یہ خدشہ ہو کہ کثرت اولاد سے وہ بچوں کو رزقِ حلال نہیں کھلا سکے گا تو اس صورت میں خاندانی منصوبہ بندی جائز ہے۔
جواب: جی نہیں! دورانِ حمل ایکسرا یا الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے اگر معلوم ہو جائے کہ پیدا ہونے والا بچہ لڑکی ہے تو اس صورت میں حمل گرا دینا سخت گناہ اور ناجائز عمل ہے۔ کیونکہ پیدائش سے قبل ماں کے پیٹ میں احادیث کے مطابق چار ماہ بعد بچہ میں روح پھونک دی جاتی ہے اور اس کے بعد اس پیدا ہونے والے بچے کے احکامات زندہ بچوں جیسے ہوتے ہیں۔ مکمل صورت بن جانے کے بعد حمل گرانا بچے کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اس کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ.
بنی اسرائیل، 71: 31
اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو۔
جواب: جی نہیں! چارہ ماہ یعنی ایک سو بیس دن گزرنے کے بعد کسی بھی صورت میں حمل ساقط کروانا جائز نہیں کیونکہ حدیث مبارکہ کے مطابق ایک سو بیس دن کے بعد پیدا ہونے والے بچے کا رزق، عمر اور قسمت لکھ دی جاتی ہے اور اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ لہٰذا ڈاکٹرز کی رپورٹ کے مطابق اگر بچہ معذور بھی ہو تو ایسی صورت میں حمل ساقط نہیں کروایا جا سکتا۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل اعتمار رکھتے ہوئے دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھا جائے اور اس کی بارگاہ میں اچھی امید وابستہ کی جائے۔
جواب: شرعاً ٹیسٹ ٹیوب بے بی جائز ہے کیونکہ بسا اوقات رحم مادر (uterus) کی ٹیوب بند ہوتی ہے یا رحم کی ٹیوبز تنگ ہوتی ہیں، یا کوئی ایسی خرابی ہوتی ہے کہ زوجین کے قدرتی ملاپ کے نتیجے میں سپرم (sperm) اندر نہیں جا سکتے اور استقرارِ حمل نہیں ہو سکتا۔ ایسی صورتوں میں ڈاکٹرز شوہر کا سپرم اور بیوی کا اووم (ovum) لے کر ایک ٹیوب میں ان کا ملاپ کر دیتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حمل ٹھہرنے کا مرحلہ ماں کے پیٹ میں ہونے کی بجائے لیبارٹری میں انجام پاتا ہے۔ جب ٹیوب میں یہ عمل مکمل ہو جاتا ہے تو اسے احتیاط کے ساتھ ماں کے رحم میں منتقل کر دیا جاتا ہے اور حمل کے اگلے مراحل بچہ ماں کے پیٹ میں ہی طے کرتا ہے۔
جواب: بچہ ہو یا بچی، دونوں کو دو برس تک دودھ پلایا جائے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے:
وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ ط وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَکِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ط لاَ تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلاَّ وُسْعَهَا ج لاَ تُضَآرَّ وَالِدَۃٌ م بِوَلَدِهَا وَلاَ مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِہٖ وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ ج فَاِنْ اَرَادَا فِصَالاً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْهِمَا ط وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْآ اَوْلاَدَکُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط وَاتَّقُوْا اللهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ.
البقرۃ، 2: 233
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے، (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضا مندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھنے والا ہےo
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ ج حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰی وَهْنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَ ط اِلَیَّ الْمَصِیْرُo
لقمان، 31: 14
اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں (نیکی کا) تاکیدی حکم فرمایا، جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں (اپنے پیٹ میں) برداشت کرتی رہی اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے (اسے یہ حکم دیا) کہ تو میرا (بھی) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ (تجھے) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہےo
علامہ ابوبکر علاؤ الدین الکاسانی فرماتے ہیں:
قال أبو حنیفة: ثلاثون شهراً ولا یحرم بعد ذٰلک سؤفطم اولم یفط قال ابو یوسف و محمد حولان لا یحرم بعد ذلک فطم اولم یفطم وقول الشافعی.
الکاسانی، بدائع اصنائع، 4: 6، دار الکتاب العربی، بیروت
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک مدتِ رضاعت تیس مہینے ہے، اس کے بعد حرمت ثابت نہیں ہوتی چاہے بچے کا دودھ چھڑایا گیا ہو یا نہ چھڑایا گیا ہو۔ امام ابو یوسف اور امام محمد رحمھما اللہ کے نزدیک یہ مدت دو سال ہے، اس کے بعد حرمت ثابت نہیں ہوتی چاہے دودھ چھڑایا گیا ہو یا نہ چھڑایا گیا ہو۔ امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ دو سے اڑھائی سال کے دوران کسی عورت کا دودھ بچے کے پیٹ میں جانے سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔ جمہور ائمہ کے نزدیک مدت رضاعت دو سال، جبکہ امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک اڑھائی سال ہے۔ امام اعظم کا موقف احتیاط کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہے۔
جواب: اگر کسی شخص نے اپنی سالی سے نکاح پڑھا لیا تو اس کا پہلا نکاح بدستور قائم رہے گا، لیکن سالی سے اس کا نکاح ہوا ہی نہیں کیونکہ شرعاً بیوی کی بہن سے نکاح جائز نہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتاہے:
وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ ط اِنَّ اللهَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo
النساء، 4: 23
اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہےo
جواب: سوتیلی ماں اور بیٹی بیک وقت بھی اور الگ الگ بھی ایک شخص کے نکاح میں آسکتی ہیں۔ فقہاے کرام نے قرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں فرمایا ہے کہ دو ایسی عورتیں کسی شخص کے نکاح میں آسکتی ہیں جن میں سے ایک کو مرد فرض کریں تو ان کا آپس میں نکاح نہ ہو سکے مگر دوسری کو مرد فرض کیا تو دونوں میں نکاح ہو سکتا ہو۔ ایسی عورتوں کو ایک وقت میں ایک ہی شخص اپنے نکاح میں جمع کر سکتا ہے اور یکے بعد دیگرے اپنے نکاح میں لا سکتا ہے۔ امام مرغینانی لکھتے ہیں:
ولا باس بأن یجمع بین امرأة وبنت زوج کان لھا من قبل. لأَن ابنة الزوج لو قدرتھا ذکرا لا یجوز له التزوج بامرأة أبیه. امرأة الاب لو صورتھا ذکرا جاز له التزوج بھذه. والشرط أن یصور ذلک من کل جانب.
مرغینانی، الھدایة، 1: 192
عورت اور اس کے خاوند کی پہلی بیوی سے بیٹی کو جمع کرنے میں حرج نہیں کیونکہ خاوند کی بیٹی کو مرد فرض کریں تو اس مرد پر باپ کی بیوی سے نکاح ناجائز تھا۔ لیکن اگر باپ کی بیوی کو مرد تصور کریں تو اس مرد کے ساتھ اس شخص کی بیٹی سے نکاح جائز تھا۔ شرط یہ ہے کہ حرمت دونوں طرف سے ہو۔
صورت مذکورہ میں سوتیلی ماں کو مذکر یعنی مرد فرض کریں تو اس لڑکی سے اس کا کوئی رشتہ نہیں اور لڑکی کو لڑکا فرض کریں تو اس لڑکے پر اس کی سوتیلی ماں حرام ہے کیونکہ اس کے باپ کے نکاح میں آگئی ہے اور قرآن حکیم میں ہے:
وَلَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ.
النساء، 4: 22
اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپ دادا نکاح کر چکے ہوں۔
ایک نکاح میں دونوں کا جمع کرنا تب حرام تھا جب دونوں کو باری باری مرد فرض کریں تو ان کا آپس میں نکاح ناجائز ہوتا۔ یہاں ایک کو مرد فرض کریں تو نکاح دوسری سے ناجائز اور دوسری کو فرض کریں تو جائز ہے۔ لہٰذا حرمتِ جمع کی کوئی صورت نہ پائی گئی، اس لیے نکاح جائز ہے۔
جواب: جی نہیں! اگر کوئی شخص کسی عورت سے بدکاری کرنے کے بعد توبہ کرلے تو اس کے بعد اسی عورت کی بیٹی سے نکاح نہیں کر سکتا کیونکہ شرع میں حرمتیں جس طرح نکاح سے ثابت ہوتی ہیں اسی طرح بدکاری سے بھی ثابت ہوجاتی ہیں۔ جیسے منکوحہ کی ماں، نانی اوپر تک دادی، بیٹی، پوتی، نواسی نیچے تک۔ نکاح کرنے والے پر حرام ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح بدکار پر مزنیہ کی ماں اور اوپر تک دادی اور تمام اولاد نیچے تک حرام ہو جاتی ہے۔ امام مرغینانی لکھتے ہیں:
مَنْ زَنَا بامرأة حُرِّمَتْ عَلَیْهِ أُمِّھَا وَبنتھا.
مرغینانی، الہدایة، 1: 192
جس نے کسی عورت سے بدکاری کی تو اس پر اس عورت کی ماں اور بیٹی حرام ہو جاتی ہیں۔
جواب: جی ہاں! بدکار مرد کا نکاح بدکار عورت سے ہو سکتا ہے اور قرآن و سنت کا بھی یہی حکم ہے:
اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ ج وَالطَّیِّبٰتُ لِلْطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِo
النور، 24: 26
ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لیے (مخصوص) ہیں اور پلید مرد پلید عورتوں کے لیے ہیں، اور (اسی طرح) پاک و طیب عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے (مخصوص) ہیں اور پاک و طیب مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیںo
فقہاے کرام فرماتے ہیں:
إذا تزوج امرأة قد زنی ھو بھا وظھر بھا حبل، فالنکاح جائز عند الکل، وله أن یطأھا عند الکل.
فتاوی عالمگیری، 1: 280
جب کسی شخص نے ایسی عورت سے نکاح کیا جس سے اسی نے بدکاری کی تھی اور وہ حاملہ ہوگئی، تو یہ نکاح تمام علماء کے نزدیک جائز ہے۔ سب کے نزدیک وہ شخص اس عورت سے قربت کر سکتا ہے۔
جواب: بدکار مرد کا بدکار حاملہ سے نکاح کے بعد اگر پورے چھ ماہ یا اس سے زیادہ عرصے کے بعد اولاد پیدا ہوئی تو اس صورت میں پیدا ہونے والی اولاد کا نسب اسی مرد کی طرف ہوگا۔ اگر اولاد چھ ماہ سے پہلے پیدا ہوئی تو اس کا نسب ثابت نہ ہوگا اور نہ وہ اولاد اس کی وارث ہوگی۔ کیونکہ بدکاری سے نسب ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:
اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاھِرِ الْحَجَرُ۔
بخاری، الصحیح، کتاب الفرائض، باب الولد للفراش، 6: 2481، رقم: 6368
بچے کا نسب نکاح والے سے ہوگا اور بدکار کے لیے محرومی ہے۔
امام حصکفی ’الدر المختار‘ میں رقم طراز ہیں:
فیه زنا لا یثبت به النسب.
حصکفی، الدر المختار، 1: 263
بدکاری سے نسب ثابت نہیں ہوتا۔
لیکن اس بچے کی دیکھ بھال انہی کے ذمہ ہوگی۔
جواب: مرد کے لیے شریعت نے بیویوں کی تعداد مقرر کی ہے، بیک وقت چار عورتوں سے مرد کا نکاح کرنا درست ہے۔ قرآن حکیم میں ہے:
فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰع.
النساء، 4: 3
ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)۔
مگر اس کی اجازت اس وقت ہے، جب ہر بیوی کے شرعی حقوق کی ادائیگی ممکن ہو۔ بیک وقت چار سے زیادہ عورتوں سے کوئی مرد نکاح نہیں کر سکتا حتیٰ کہ اگر چار میں سے چوتھی کو طلاق دے دی تو جب تک وہ عدت میں ہے پانچویں سے شادی نہیں کر سکتا۔ لہٰذا چار کے ہوتے ہوئے پانچویں سے نکاح منعقد ہی نہ ہوا اور جب نکاح صحیح نہ ہوا تو اس سے ہونے والی اولاد کا نسب بھی ثابت نہیں ہوگا اور نہ وہ وراثت میں حصہ دار ہوگی۔
جواب: جی ہاں! اگر ساس کو شہوت کے ساتھ چھوا تو اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگی اور اس کا نکاح جو اس کی بیٹی سے تھا ٹوٹ جائے گا اور اس کی ساس کی بیٹی (یعنی اس کی بیوی) اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی۔ ساس حرام ہوئی اپنی بیٹی کی وجہ سے یعنی مرد کی بیوی کی وجہ سے اور اب بیوی حرام ہوئی اپنی ماں یعنی ساس کی وجہ سے۔ بیوی کا نکاح ٹوٹ گیا ہے اور اب عدت گزار کر جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔
جیسا کہ فقہاء کا بھی موقف ہے:
ومن مسته امرأة بشھوة حرمت علیه أمھا وبنتھا.
مرغینانی، الہدایة، 1: 192
اور جس نے کسی عورت کو شہوت کے ساتھ چھوا تو اس پر اس عورت کی ماں اور بیٹی حرام ہو جاتی ہیں۔
فقہاے اَحناف کے نزدیک شہوت سے چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے۔
جواب: جی نہیں! اگر سسر نے اپنی بہو کے ساتھ زیادتی کی تو اب وہ بہو اس بدکار کی اولاد اور باپ یعنی اصول و فروع پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی۔ اس کے بیٹے کے ساتھ اس کا نکاح ٹوٹ گیا۔ یہ حرمتِ مؤکدہ ہے۔ یعنی اب کبھی کسی صورت اس کے بیٹے سے اس کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ چونکہ پہلے بیٹے سے نکاح ہوا تھا، لہٰذا اس شحض یعنی سسر پر حرام تھی، اب سسر کی بدکاری سے بیٹے پر بھی حرام ہو گئی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved