جواب: پاکستان میں حکومتی سطح پر زکوٰۃ و عُشر آرڈیننس اور عوام کی انفرادی و اجتماعی کوششوں کی بدولت نظامِ زکوٰۃ چل تو رہا ہے مگر اس کے مکمل اثرات ظاہر نہیں ہو رہے؛ کیونکہ اس نظام میں چند بنیادی خامیاں ہیں، جن کا ذیل میں جائزہ پیش کیا جارہا ہے:
1۔ اسلام میں زندگی کے ہر شعبے کے متعلق راہنمائی ملتی ہے۔ کسی بھی نظام کے مکمل اثرات اسی وقت نمایاں ہوسکتے ہیں جب سارے نظام صحیح معنوں میں نافذ ہوں۔ نظامِ زکوٰۃ کے بھی مؤثر نتائج برآمد نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ پاکستان میں زندگی کے باقی شعبوں میں اسلامی نظام پوری طرح عملی طور پر نافذ نہیں ہے۔
2۔ اگرچہ اسلامی نظریاتی کونسل کا تیار کردہ نظامِ زکوٰۃ کافی بہتر ہے مگر اس کا نفاذ اس طریقے سے ممکن نہیں بنایا گیا جیسے ہونا چاہیے تھا۔ نظامِ زکوٰۃ کے غیر معیاری نفاذ (implementation) کے باعث اس کے مطلوبہ نتائج و اثرات برآمد نہیں ہوسکے۔
3۔ موجودہ نظام کے تحت کسی بھی فرد کی زکوٰۃ اس کے بینک اکاؤنٹ میں موجود رقم سے کاٹی جاتی ہے جبکہ زکوٰۃ اس سارے مال پر لاگو ہوتی ہے جو ضرورت سے زائد ہو۔
4۔ اس نظام میں حولانِ حول کی شرط کا لحاظ نہیں رکھا جاتا بلکہ مقررہ تاریخ پر زکوٰۃ کاٹ لی جاتی ہے چاہے اس رقم پر ایک سال گزرا ہو یا ایک دن؛ حالانکہ وجوبِ زکوٰۃ کے لیے لازمی ہے کہ مال پر سال گزر جائے۔
5۔ کسی کے اکاؤنٹ میں قرض کی رقم بھی ہوسکتی ہے اور اس پر زکوٰۃ لاگو نہیں ہوتی جبکہ بینک میں اس رقم پر بھی بغیر تحقیق کے زکوٰۃ کاٹ لی جاتی ہے۔
اِس ضابطے میں ایک تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ اگر اکاؤنٹ ہولڈر اپنے اکاؤنٹ سے زکوٰۃ منہا نہیں کرانا چاہتا تو وہ بیانِ حلفی جمع کرا دے۔ پھر بینک اس کے اکاؤنٹ سے زکوٰۃ نہیں کاٹتا، لیکن جس نے یہ حلف نامہ جمع نہیں کرایا اس کے اکاؤنٹ سے زکوٰۃ کاٹ لی جاتی ہے۔
6۔ اس نظام میں ایک خامی یہ بھی ہے کہ حکومت تحصیلی سطح پر زکوٰۃ میں تو سرگرمی سے کام لیتی ہے مگر اس کے خرچ کو بالعموم نمایاں نہیں کرتی جس کی وجہ سے زکوٰۃ کے مطلوبہ اثرات مرتب نہیں ہوتے اور لوگ اَز خود زکوٰۃ دینے کی طرف مائل نہیں ہوتے۔
7۔ پسماندہ علاقوں میں شعور کی کمی اور وڈیرہ شاہی کے باعث سردار یا وڈیرے غریب و نادار لوگوں سے انگوٹھے لگواکر رقم خود رکھ لیتے ہیں جس کے باعث ان علاقوں میں زکوٰۃ کی رقم سے مطلوبہ تبدیلی نہیں آتی۔
8۔ زکوٰۃ کاٹنے کی معینہ تاریخ سے پہلے ہی وہ لوگ یکم رمضان سے قبل اپنی رقم بینک سے نکلوا لیتے ہیں جو زکوٰۃ نہیں دینا چاہتے۔
9۔ زکوٰۃ کی رقم ایسے فلاحی منصوبہ جات میں نہیں لگائی جاتی جن کی تکمیل سے زکوٰۃ کے حاجت مندوں کی تعداد کم ہوسکے۔
10۔ زکوٰۃ کے نظام کو ترغیب اور ترہیب سے نہیں چلایا جارہا جس کی وجہ سے بیشتر لوگ اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے۔
لہٰذا درج بالا بنیادی خامیوں کی وجہ سے پاکستان میں رائج نظامِ زکوٰۃ کامیاب نہیں ہے۔ تاریخِ اِسلام کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے اِسلامی ریاست میں زکوٰۃ کا نظام ہمیشہ حکومت کے تحت چلایا جاتا تھا یعنی مرکزی سطح پر (centralized) زکوٰۃ اکٹھی کرنے کا اہتمام ہوتا رہا ہے۔ حکومت کی طرف سے عاملین کا تقرر کیا جاتا تھا جو نچلی سطح (grass-roots level) تک جاکر زکوٰۃ اکٹھی کرتے اور بیت المال میں جمع کراتے تھے۔ بعد ازاں ریاست جمع شدہ زکوٰۃ کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت غریبوں کی فلاح و بہبود اور دیگر ضروری شعبوں میں شرعی اُصول و ضوابط کے مطابق خرچ کرنے کا اِہتمام کرتی تھی۔ فی زمانہ جہاں ہر سطح پر اور ہر شعبہ میں بگاڑ پیدا ہوا، اسی طرح نظامِ زکوٰۃ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ آج ہمارے ملک میں عدمِ منصوبہ بندی اور ناقص اِنتظامات کی وجہ سے زکوٰۃ کی collection اور distribution کا نظام اِنتہائی حد تک گر چکا ہے اور صاحبانِ ثروت اور متمول اَفراد کا اکثریتی طبقہ اﷲ کی دیے ہوئے مال و دولت کو اُس کی راہ میں خرچ کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ مال سمیٹنے میں مصروف ہے۔ یوں غرباء و مساکین مزید غریب ہورہے ہیں اور امیر و غریب کے مابین پائی جانے والی معاشی خلیج کم ہونے کی بجائے وسیع ہوتی جارہی ہے۔
جواب: آج کل جس طرح ہر شعبے میں نیکی و بدی میں امتیاز کرنا مشکل ہے اسی طرح یہ مسئلہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ قرونِ اُولیٰ میں زکوٰۃ و عُشر اور صدقات ہمیشہ سرکاری طور پر جمع کیے جاتے تھے اور مستحقین کی ضروریات پوری کی جاتیں۔ سیدنا ابو بکر صدیق g کے دورِ خلافت میں منکرین زکوٰۃ کے خلاف ایکشن لیا گیا کہ وہ بیت المال میں سرکاری اہل کاروں کے ذریعے زکوٰۃ دینے سے انکاری تھے۔ لہٰذا اس سے اصولاً اختلاف ممکن نہیں۔ اختلاف اس سے ہوسکتا ہے کہ بینک میں رکھی ہوئی رقوم پر کٹوتی سے مستحقین تک مال پہنچے گا یا غلط کار لوگ اسے اپنی عیش و عشرت پر خرچ کریں گے؟ علاوہ ازیں اگر کوئی بینک وقت سے پہلے رقم پر زکوٰۃ لے لیتا ہے تو درست نہیں۔ لہٰذا زکوٰۃ کی collection اور distribution شفاف بنیادوں پر یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اِقدامات کی ضرورت ہے۔
جواب: قانون کی تحت تین قسم کے زکوٰۃ فنڈ قائم کیے گئے ہیں: مرکزی زکوٰۃ فنڈ؛ صوبائی زکوٰۃ فنڈ اور لوکل زکوٰۃ فنڈ۔
مرکزی کونسل کی ہدایات کے تحت ایڈمنسٹریٹر جنرل زکوٰۃ، زکوٰۃ فنڈ کا انتظام و انصرام کرتا ہے۔ مرکزی زکوٰۃ فنڈ کا بڑا حصہ جبری طور پر کٹوتی کی گئی رقوم سے آتا ہے۔ مرکزی زکوٰۃ فنڈ سے رقوم صوبائی زکوٰۃ فنڈ میں منتقل ہوتی ہیں جہاں سے کچھ حصہ صوبائی کونسلیں خرچ کرتی ہیں اور باقی رقوم لوکل کمیٹیوں کو مہیا کی جاتی ہیں۔ قومی حیثیت کے حامل اداروں کی وساطت سے مستحقین زکوٰۃ کو ادائیگی بھی مرکزی زکوٰۃ فنڈ سے کی جاتی ہے۔ یہ فنڈ بنک دولتِ پاکستان (State Bank of Pakistan) میں دوسری تمام سرکاری رقومات سے علیحدہ رکھا جاتا ہے۔ لوکل زکوٰۃ کمیٹیاں مستحقین کو براهِ راست ادائیگی کرتی ہیں۔ ان کمیٹیوں کی آمدن اور ادائیگیوں کو جمع کر کے تحصیلی و صوبائی کونسلوں کو ہر تین ماہ بعد رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔
زکوٰۃ کی رقم منہا کرنے کے لیے کئی زکوٰۃ کٹوتی کنٹرولنگ ایجنسیاں ہیں، جب کہ ہزاروں دفاتر ہیں جو اثاثوں سے زکوٰۃ کی کٹوتی کرنے کا کام کرتے ہیں؛ تاہم بنیادی طور پر یہ سارا نظام اِعتماد پر قائم ہے۔
جواب: قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ فِیْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِo
الذاریات، 51: 19
اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھا۔
درج بالا آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ مال داروں کے مالوں میں غریبوں کا حق ہے۔ لہٰذا ضرورت مند کے لینے میں عار نہیں اور مال دار کے دینے میں کوئی احسان نہیں کیونکہ غریب تو اپنا حق لے رہا ہے اور مال دار اپنا فریضہ ادا کر رہا ہے۔ پس امیر و دولت مند طبقہ غرباء و مساکین کو اپنے مال میں شریک کریں تاکہ غریب اور امیر کے درمیان پایا جانے والا غیر معمولی اور غیر فطری و غیر عادلانہ فرق دور ہو اور ایک انسان دوسرے انسان سے اپنے لیے اُنس و اُلفت کے جذبات محسوس کرے۔ لہٰذا ملک کی اقتصادی صورت حال میں مفید تبدیلی لانے اور غریب لوگوں کو امیروں کے اموال میں شریک کرنے کے لیے یہاں درج ذیل دو عملی اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں:
1۔ پُرتکلف کھانے پینے اور پہننے کے مظاہر کو ختم کرنے کے لیے حکومتی حلقے فعال کردار ادا کریں اور نمود و نمائش اور اسراف کو ختم کریں جو اقتصادی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔
2۔ معاشی طبقاتی تفاوت ختم کیا جائے اور معاشرے کے تمام افراد کی عزت و تکریم کا خیال رکھا جائے۔ یہ کام زندگی کے تمام شعبہ جات میں ہونا چاہیے۔
3۔ صنعتی و زرعی سیکٹرز اور حکومتی و پرائیویٹ دفاتر سے حاصل ہونے والے منافع جات کو ملازمین اور ورکرز کے مابین بھی تقسیم کیا جائے تاکہ ہر کام کرنے والا شخص اپنی فیملی کے حقوق اچھے طریقے سے ادا کر سکے اور کام کرنے والا محنتی طبقہ اقتصادی مصائب کی چکی میں نہ پستا رہے۔
4۔ ٹیکس کے نظام میں منصفانہ تبدیلی لاتے ہوئے اس کے دائرہ کار میں بڑے بڑے اُمراء کو بھی شامل کیا جائے تاکہ ہر شخص ٹیکس ادا کرے اور کوئی شخص ناجائز سرمایہ اکٹھا نہ کر سکے۔ اس کے علاوہ جو چیز اقتصادی تباہی کا سبب بنتی ہے وہ یہ ہے کہ جب لوگوں پر ٹیکس لاگو کیا جاتا ہے تو اس وقت وہ ٹیکس سے بچنے کے لیے ناجائز طریقے استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے حکومتی خزانہ خالی رہتا ہے، اس رویہ کا بھی سدِباب کیا جائے۔
5۔ ٹیکس اور اقتصادی امور حکومتی کارکنوں کے ہاتھوں میں ہی محصور نہیں ہونے چاہییں بلکہ ان امور کی انجام دہی میں مختلف تنظیموں کے لوگوں کو بھی شریک کیا جائے تاکہ حکومت مناسب اقتصادی نظام کو احسن طریقے سے اپنا سکے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ حکومت اور عوام کے درمیان باہمی اعتماد رہے گا اور اقتصادی مسائل کم ہوتے جائیں گے۔
6۔ حکومتی دفاتر میں غیر ضروری اخراجات کو کم کیا جائے اور کارکنوں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے سہولیات دی جائیں تاکہ حرام مال کمانے اور رشوت کے مواقع کم ہو جائیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جب قومی سطح پر کارکنوں کے احوال کی اصلاح ہو جاتی ہے تو چھوٹے کارکنوں کے احوال کی اصلاح خود بخود ہوجاتی ہے۔ جب اس طرز پر کام کیا جائے گا تو پبلک کے لیے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بہت زیادہ مال بچ جائے گا اور خسارے کے امکانات کم ہو جائیں گے۔
7۔ ایسے قوانین بنا کر انہیں عملاً نافذ کیا جائے جن کے ذریعے رشوت، سمگلنگ، جوا، سٹہ بازی اور ڈرگ مافیا وغیرہ میں ملوث عناصر کی سرکوبی ہو تاکہ یہ قوانین صرف کاغذی پرزوں کی بجائے اقتصادی حالت کی بہتری کا سبب بنیں۔
مذکورہ بالا سطور میں مذکورہ اقدامات کی تنفیذ تبھی ممکن ہے جب امیر طبقہ درج ذیل اِقدامات کرے گا:
1۔ امیر لوگ اپنی طاقت و قدرت کے مطابق اسکول، کالج اور فنی تعلیم کے ادارے مفت کھولیں تاکہ غریب اور متوسط لوگوں کے بچوں کو فری تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر آسکیں۔ اس اقدام سے علمی میدان میں پائی جانے والی خرابیاں دور کرکے بہتری لائی جاسکتی ہے۔
2۔ امیر لوگوں کو فقیر اور متوسط طبقے کے لیے ایسے فری ہسپتال بنانے چاہییں جن میں تمام جدید طبی سہولتوں کے مطابق علاج ممکن ہو۔
3۔ صاحبِ ثروت اَفراد رہائشی مکانات تیار کرکے متوسط اور غریب لوگوں کو آسان قسطوں پر فراہم کریں یا سستے کرایوں پر دیں تاکہ غریبوں کے رہائشی مسائل حل ہوں اور ان کے لیے زندگی گزارنا آسان ہو جائے۔
4۔ امیر طبقہ ایسی امدادی سوسائٹیز تشکیل دے جو مستحق لوگوں کو قرضِ حسنہ فراہم کریں تاکہ ان کی معاشرتی ضروریات پوری ہو سکیں۔ اسی طرح وہ چھوٹی صنعتیں قائم کریں جو معاشی لحاظ سے پسماندہ و غریب اور بے روزگار لوگوں کی آمدنی کا ذریعہ بن جائیں۔
یہ ایسی عملی تجاویز ہیں کہ جن کے ذریعے غریب لوگوں کو امیر لوگوں کے اموال میں شریک کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اموال صرف ایک طبقہ کے ہاتھ میں مرتکز نہیں ہوں گے بلکہ غریب لوگوں کی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں گی۔ یہ تمام امور اسلامی احکام کے مطابق ہیں جن سے معاشی اور معاشرتی ترقی یقینی ہے۔
جواب: زکوٰۃ و عُشر کی وصولی یقینی بنانے کے لیے درج ذیل اصلاحات کی ضرورت ہے:
1۔ تجارتی و صنعتی اموالِ تجارت پر لازمی زکوٰۃ پہلے مرحلہ میں خود تشخیصی کی بنا پر کی جائے۔ بہتر یہ ہے کہ ٹیکسوں کے نظام کو شفاف نظامِ زکوٰۃ میں بدلا جائے۔ وہ اس طرح کہ کاروباری حضرات اپنے اثاثہ جات سال کے شروع میں گوشواروں کی صورت میں جمع کرائیں اور سال کے آخر میں ان کے اثاثوں اور آمدنیوں پر نصاب کے مطابق زکوٰۃ وصول کرلی جائے تو پھر کاروباری حضرات پر مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ تمام چھوٹے بڑے کاروباری اور تجارتی اداروں کو رجسٹرڈ کیا جائے اور ان کی سالانہ آمدنیوں پر زکوٰۃ لگائی جائے۔ بصورتِ دیگر ان کا تجارتی لائسنس منسوخ کیا جائے۔
2۔ شہروں اور قصبوں میں ریاست خود ماہرین کی موجودگی میں زکوٰۃ کی تشخیص کا کام سر انجام دے کیونکہ پاکستان میں نظامِ زکوٰۃ درہم برہم ہوگیا ہے۔ لہٰذا اس نظام کو لوگوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔
3۔ تاجروں کے اَموالِ تجارت کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ نہ کیا جائے۔
4۔ منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد جو بیچنے کے لیے خریدی جائے، اس کی حیثیت مالِ تجارت کی ہوگی۔
5۔ حصص (shares) اور سرٹیفکیٹس وغیرہ پر زکوۃ ان کی اس وقت کی بازاری مالیت کے حساب سے کاٹی جائے۔
6۔ اداروں کی طرف سے جاری کیے جانے والے مختلف اقسام کے بانڈز اور اسناد وغیرہ کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ کرنے کا کام فوری روک دیا جائے۔
7۔ عُشر کی وصولی کی تشخیص کا نظام سخت سست ہونے کے باعث حکومت کو عُشر سے سالانہ آمدنی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اس کام کے لیے ایمان دار اور اہل لوگوں کو متعین کرتے ہوئے فول پروف نظام وضع کرے۔
8۔ ایک گاؤں/قصبہ کے لوگ جب فصل کی کٹائی سے فارغ ہوجائیں تو ایک کمیٹی کی زیر نگرانی اجلاس کیا جائے جس میں تمام کاشت کار اپنی فصل کی پیداوار ریکارڈ کروائیں۔ اجلاس میں باہمی مشاورت سے ہر ایک کے عُشر کا تعین کیا جائے۔ اس طرح کوئی بھی غلط بیانی نہیں کرسکے گا۔
9۔ کمیٹی میں پڑھے لکھے شریعت کے اصول و قوانین سے واقف عاملین کا تعین کیا جائے۔
10۔ زکوٰۃ و عُشر سے حاصل ہونے والی آمدنی کو اسی علاقہ کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔
11۔ فقہ جعفریہ کے پیروکاروں پر خُمس لاگو کیا جائے۔
جواب: تحصیلی سطح پر زکوٰۃ کی وصولی درج ذیل طریقے سے ہونی چاہیے:
1۔ ایسی مؤثر قانون سازی کی جائے جس میں کسی کے لیے بھی بچ نکلنے کی راہ (loop holes) نہ ہو۔ ان قوانین پر عمل درآمد کراکر تمام صاحبِ نصاب لوگوں سے زکوۃ وصول کی جائے اور کوئی شخص زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچ نہ پائے۔
2۔ جو لوگ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے، حکومت ان کے ساتھ سختی سے پیش آئے۔
3۔ صرف نقدی اور اجناس پر زکوٰۃ وصول نہ کی جائے بلکہ مال و جائیداد، مویشی اور دفینوں جیسے ساری اشیاء کو ملا کر زکوٰۃ وصول کی جائے۔
4۔ محکمہ زکوٰۃ میں ایک شعبہ ایسا بھی ہو جو لوگوں کے احوال کی تحقیق پر مامور ہو تاکہ زکوٰۃ کی چوری پر قابو پایا جاسکے۔
5۔ عاملین زکوٰۃ کی تربیت اور احتساب کا منظم نظام قائم ہو، تاکہ حصولِ زکوٰۃ اور ادائیگی زکوٰۃ کا مرحلہ موثر اور یقینی بنایا جاسکے۔
6۔ وصولیِ زکوٰۃ کا نظام سادہ اور سہل ہو تاکہ اس پر کم سے کم اخراجات آئیں۔
7۔ مرکزی سطح سے لوکل سطح تک محکمہ زکوٰۃ میں جو بھی افراد کام کریں ان میں تقویٰ، امانت داری اور جذبہ خدمتِ خلق جیسی خصوصیات موجود ہوں تاکہ وصولیِ زکوٰۃ شفاف طریقے سے عمل میں لائی جاسکے۔
جواب: زکوٰۃ کی تقسیم کار درج ذیل اصولوں کے مطابق ہونی چاہیے:
1۔ زکوٰۃ سے حاصل ہونے والی رقم درست اور مکمل حساب کے ساتھ علیحدہ رکھی جائے تاکہ اسے صرف معینہ مصارف پر خرچ کیا جاسکے۔
2۔ زکوٰۃ ادا کرنے والوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ ان کی زکوٰۃ صحیح جگہ پر خرچ کی جائے گی اور اس کا عملاً ثبوت بھی فراہم کیا جائے تاکہ لوگ بخوشی زکوٰۃ ادا کریں۔
3۔ حکومتی سطح پر حاصل ہونے والی زکوٰۃ کی رقم ٹریننگ سینٹرز کے قیام اور اس طرح کے دوسرے منصوبہ جات پر بھی خرچ کی جائے جن کے ذریعے مستحقین زکوٰۃ کی تعداد کم سے کم کرنے کے مقاصد حاصل ہوسکیں۔
4۔ زکوٰۃ کی رقم سے مستحقین کے لیے بنیادی ضروریات جیسے لباس، خوراک، مکان، تعلیم اور صحت حکومت کی طرف سے فراہم کی جائیں تاکہ غربت و امارت کی خلیج کم سے کم کی جاسکے۔
5۔ لوکل سطح پر زکوٰۃ کمیٹیوں کے پاس مستحقین زکوٰۃ کی مکمل فہرست ہو اور اس کے مطابق ہر شخص کی ضرورت کی کفالت کی جائے۔
اِن تمام اقدامات سے ملک سے غربت و بے روزگاری کا خاتمہ کرنے اور معاشی ترقی میں نہایت اہم کردار لیا جاسکتا ہے۔
جواب: پاکستان کو صحیح معنوں میں فلاحی اسلامی ریاست بنانے اور نظامِ زکوٰۃ کو مؤثر بنانے کے لیے درج ذیل تجاویز پر عمل کیا جائے تو اس کے بہترین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں:
1۔ ملکی سطح پر زکوٰۃ کی اہمیت و افادیت اور اس کی برکات و اثرات کے بارے میں لوگوں کا شعور بیدار کیا جائے۔ اس سلسلے میں میڈیا کا بھرپور استعمال مؤثر نتائج پیدا کرسکتا ہے۔
2۔ زکوٰۃ کی تنظیم میں ایک عملی قدم یہ بھی اٹھانا چاہیے کہ نہ صرف ملکی سطح پر زکوٰۃ کی ایک مرکزی کونسل ہو بلکہ پوری امت مسلمہ کی ایک مشترکہ زکوٰۃ کونسل بھی بنائی جائے؛ جس طرح مغربی ممالک نے اپنے اقتصادی مفادات کے لیے مختلف کونسلز بنائی ہوئی ہیں۔
3۔ تمام اسلامی ممالک کے منتخب نمائندوں پر مشتمل امت مسلمہ زکوٰۃ کونسل ہو جو تمام اسلامی ممالک کی زکوٰۃ فنڈ کا کچھ حصہ لے اور زیادہ پسماندہ مسلمان ممالک میں اس رقم کو خرچ کرے۔
جواب: تحریکِ منہاج القرآن کے بانی و سرپرستِ اَعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 17 اکتوبر 1989ء کو منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ جو معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی فلاح و بہبود کے لیے ہر شعبہ زندگی میں مدد و تعاون فراہم کرنے کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں کوشاں ہے۔
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن ایک بین الاقوامی فلاحی و رفاہی تنظیم ہے جو امدادِ باہمی کے تصورِ تعاون، اُخوت، عزت و احترام کے جذبے کے تحت معاشرے کے خوش حال طبقے کے ساتھ مل کر متاثرہ افراد اور بدحالی میں مبتلا طبقے کو خوش حال زندگی گزارنے کے لیے اعانت فراہم کرتی ہے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن تعلیم، صحت اور فلاحِ عام کے میدانوں میں بھی نمایاں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ اس کے قیام کے مقاصد درج ذیل ہیں:
1۔ بامقصد، معیاری اور سستی تعلیم کا فروغ
2۔ غریب اور مستحق طلباء کے لیے وظائف کا اہتمام
3۔ صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم افراد کے لیے معیاری اور سستی طبی امداد کی فراہمی
4۔ ناگہانی حادثات اور ایمرجنسی کی صورت میں زخمیوں کے لیے فرسٹ ایڈ، خون اور ایمبولینس کی فراہمی
5۔ خواتین اور بچوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کے منصوبہ جات کا قیام
6۔ یتیم اور بے سہارا بچوں کی تعلیم و تربیت اور کفالت کا اہتمام
7۔ متاثرینِ قدرتی آفات کی اِمداد اور بحالی
8۔ بنیادی انسانی حقوق کے شعور کی بیداری کی عملی جد و جہد
9۔ بیت المال کے ذریعے مجبور اور حق دار لوگوں کی مالی امداد
10۔ پسماندہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی
11۔ غریب اور نادار گھرانوں کی بیٹیوں کی شادی کا اہتمام
12۔ بیرون ملک پاکستان کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے منصوبہ جات
13۔ منہاج مصالحتی کونسل کے ذریعے اَفرادِ معاشرہ کی اخلاقی و قانونی مدد
14۔ بیرونِ ملک مقیم افراد اور خاندانوں کی تعلیم و تربیت اور سماجی خدمت کے لیے ایجوکیشن اور کمیونٹی سنٹرز کا قیام
15۔ ہنگامی صورت حال میں متاثرین کی فوری امداد کے لیے ویئر ہاوسز کا قیام
جواب: منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے بنیادی اَہداف درج ذیل ہیں:
1۔ خواندگی سنٹرز اور پرائمری اسکولز کا قیام
2۔ 1,000 ہائی اسکولز و اسلامک سنٹرز اور کالجز کا قیام
3۔ ایک بین الاقوامی چارٹرڈ یونی ورسٹی کا قیام
4۔ پاکستان کے ہر صوبے میں یونی ورسٹی کا قیام
5۔ غریب و مستحق طلبہ و طالبات کے لیے تعلیمی وظائف کی فراہمی
1۔ ملک کی ہر یونین کونسل میں فری ڈسپنسری کا قیام
2۔ ہر یونین کونسل میں ماہانہ بنیادوں پر فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد
3۔ ملک کے تمام بڑے شہروں اور پانچ سو تحصیلوں میں منہاج ایمبولینس سروس کا قیام
4۔ تحصیلی سطح پر منہاج ہاسپٹل کا قیام
5۔ ملک بھر میں بلڈ ڈونیشن سوسائٹیز کا قیام
1۔ پانچ سو یتیم و بے سہارا بچوں کے لیے مرکزی سطح پر ادارہ آغوش کا قیام۔ الحمد ﷲ یہ منصوبہ کام یابی سے چل رہا ہے۔
2۔ چار سو مستحق اور ذہین طالبات کی رہائش کے عظیم منصوبہ بیت الزہراء کا قیام۔ بحمد اﷲ تعالیٰ اِس منصوبے کا بیسمنٹ کے ساتھ تین منزلوں پر مشتمل سٹرکچر مکمل ہوچکا ہے اور بقیہ کام تیزی سے جاری ہے۔
3۔ ملک کے تمام بڑے شہروں میں یتیم و بے سہارا بچوں کی تعلیم و تربیت اور کفالت کے لیے ادارہ آغوش کی برانچز کا قیام۔
4۔ پانی کی کمی والے علاقوں میں واٹر پمپس کی تنصیب کے ذریعے فراہمیِ آب کے منصوبہ جات کا قیام۔
5۔ قدرتی آفات، زلزلہ، سیلاب، بارش اور دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی اور بحالی کے لیے ریلیف سرگرمیاں۔
(6) بے روزگاری اور غربت کے خاتمے کے لیے منہاج روزگار اسکیم کے ذریعے باعزت روزگار کی فراہمی۔
جواب: تحریکِ منہاج القرآن، منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن (MWF) کے ذریعے نظامِ زکوٰۃ و صدقات اور مخیر حضرات کے تعاون سے تعلیم، صحت اور فلاحِ عام کے منصوبہ جات پر کام کرکے نہ صرف معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کی طرف گام زن ہے بلکہ دنیا بھر کے پریشان حال اور افلاس زدہ لوگوں کی مدد کرنے میں بھی پیش پیش ہے۔
اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرم a نے زکوٰۃ کے ذریعے معاشرے کی ناہمواریاں ختم کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ اگر حلال ذرائع سے کمائی گئی دولت سے زکوٰۃ نکالی جائے تو ایسی دولت میں برکت و اِضافہ ہوتا ہے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن نظامِ زکوٰۃ کے ذریعے بیت المال کی شکل میں معاشرے کو دائمی غربت کی مصیبت اور استحقاق کی ذلت سے نکالنا چاہتی ہے، کیونکہ اسلام خوش حال طبقے کو زکوٰۃ کے ذریعے معاشرے کے بے حال اور بے روزگار طبقے کی مدد کرنے کا حکم دیتا ہے۔
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن درج ذیل شعبہ جات میں خدمات سرانجام دے رہی ہے:
یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے کہ MWF کے تحت پاکستان میں قائم شدہ 630 اسکولز اور 8 کالجز میں غریب و متوسط طبقے کے تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار طلبہ و طالبات زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں اور ہزاروں طلبہ و طالبات ان تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اب تک تقریباً 3 کروڑ 28 لاکھ روپے کے تعلیمی وظائف بھی مستحقین کو دیے جاچکے ہیں جو ذہین اور ہونہار ہونے کے باوجود محض غربت کی وجہ سے تعلیم جیسی نعمت سے محروم تھے۔
اسی طرح صحت کے میدان میں ملک بھر کی 110 فری ڈسپنسریوں اور ہسپتالوں میں ہزاروں مریضوں کو مفت علاج معالجہ کی سہولت حاصل ہے جبکہ 31 شہروں اور دیہی علاقوں میں منہاج فری ایمبولینس سروس بھی فراہم کی گئی ہے۔
(1) سالانہ فری آئی سرجری کیمپس
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ہر سال مختلف شہروں اور بالخصوص دیہی علاقہ جات میں فری آئی سرجری کیمپ لگائے جاتے ہیں جہاں ہزاروں مریضوں کو فری میڈیسن فراہم کی جاتی ہیں جبکہ فری آئی سرجری بھی کی جاتی ہے۔
(2) بلڈ ڈونیشن سوسائٹیز کا قیام
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے تحت ملکی سطح پر وسیع بلڈ ڈونیشن سوسائٹیز کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے جس کے تحت ملک کے طول و عرض میں ہزاروں خواتین و حضرات بالخصوص طلبہ رجسٹرڈ ہوکر حسبِ ضرورت خون کا عطیہ دیتے ہیں۔
(1) اجتماعی شادیاں
ہر سال 100 سے زائد غریب، نادار اور یتیم بچیوں کی شادیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی ستم ظریفی ہے کہ اس میں بیٹی کی شادی جیسا مقدس فریضہ بھی والدین پر بوجھ بن چکا ہے۔ جہیز کی لعنت نے غریب اور سفید پوش طبقے کو بہت پریشان کر رکھا ہے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن نے والدین کے اس بوجھ اور پریشانی کے خاتمے کے لیے غریب بچیوں کی اجتماعی شادیاں سر انجام دینے کا آغاز کیا ہے۔ ان بیٹیوں کے لیے جہیز کا ضروری سامان، بارات اور مہمانوں کی با عزت تواضع، نکاح اور رخصتی کا اہتمام منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کرتی ہے۔ اس وقت تک 712 غریب بیٹیوں کی شادیاں منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیر انتظام ہوچکی ہیں۔ ایک شادی پر تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر اب تک 10 کروڑ 68 لاکھ روپے اجتماعی شادیوں کی مدّ میں خرچ کیے جاچکے ہیں۔
منہاج ویلفئیر فاؤنڈیشن کی خدمات تمام انسانوں کے لیے بلاتفریق پیش کی جاتی ہیں۔ بایں وجہ اِجتماعی شادیوں میں دیگر مذاہب کی پیروکار مستحق بچیوں کے لیے بھی مساوی بنیادوں پر اِہتمام کیا جاتا ہے، جو کہ منہاج القرآن اور منہاج ویلفئیر فاؤنڈیشن کا طرۂ اِمتیاز ہے۔
(2) قدرتی آفات سے متاثرین کی بحالی
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن قدرتی آفات مثلاً زلزلہ، سیلاب اور قحط سالی وغیرہ کا شکار ہونے والے انسانوں کی بحالی میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔ اور بلا تفریقِ مذہب اور رنگ و نسل ان کے لیے خوراک، لباس، رہائش، ادویات اور ضروری سامان کا ممکنہ حد تک انتظام کیا جاتا ہے۔ اب تک متاثرین کی بحالی کے لیے 73 کروڑ روپے خرچ کیے جاچکے ہیں۔
(3) اِجتماعی قربانی
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے تحت سنتِ ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے پورے ملک میں اجتماعی قربانی کے وسیع سطح پر انتظامات کیے جاتے ہیں اور لاکھوں غریب خاندانوں میں گوشت تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ مبارک عمل اب پاکستان کی حدود سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل چکا ہے، خصوصاً براعظم افریقہ اور براعظم ایشیا میں غریب و مفلوک الحال اور پسماندہ لوگوں میں قربانی کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے۔
(4) عید گفٹس
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام غریب اور نادار لوگوں میں فری رمضان پیکج تقسیم کیا جاتا ہے جس میں آٹا، گھی، چاول، چینی اور رمضان المبارک میں خصوصی طور پر اِستعمال ہونے والی اشیاے خورد و نوش شامل ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن ویمن ونگ ہر سال بے سہارا بچوں اور خواتین کے ساتھ عید کی خوشیاں منانے کے ساتھ ساتھ ان کو خوبصورت گفٹس بھی دیتی ہے جس میں سوٹ، سکارف، مہندی اور بچوں کے کھلونے بھی شامل ہوتے ہیں۔
(5) آغوش
منہاج ویلفیئر فاونڈیشن کا سب سے بڑا اور قابلِ فخر منصوبہ یتیم اور بے سہارا بچوں کا ادارہ ’آغوش‘ ہے۔ 500 بچوں کے لیے بغداد ٹاؤن لاہور میں اِنتہائی خوبصورت و جدید سہولتوں سے آراستہ پانچ منزلہ عمارت کی تعمیر تقریباً 30 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہوئی ہے، جس میں تعلیمی سیشن 2012ء سے باقاعدہ طور پر سرگرمیاں جاری ہوچکی ہیں۔ آغوش گرامر اسکول کے نام سے ایک بہترین و معیاری ہائی اسکول فروغِ علم و شعور میں کوشاں ہے۔ یتیم و بے سہارا بچوں کو ادارہ آغوش میں رہائش دی گئی ہے جن کی کفالت کا اہتمام کرنا بھی منہاج ویلفیئر فائونڈیشن کی ذمہ داری ہے۔ ہر بچے کی مکمل کفالت - جس میں رہائش، خوراک، لباس اور تعلیمی اخراجات شامل ہیں - پر ماہانہ 6500/- روپے کے اخراجات اٹھتے ہیں۔
(6) بیت الزہراء
اِسی طرز پر ذہین اور مستحق طالبات کے لیے ’بیت الزہراء‘ کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے جس پر تقریباً دس کروڑ کے قریب لاگت آئے گی۔ اِس کا بنیادی سٹرکچر مکمل ہوچکا ہے جس میں بیسمنٹ کے علاوہ تین منزلیں تعمیر ہوگئی ہیں اور بقیہ تعمیراتی اُمور تیزی سے تکمیل کی جانب گام زن ہیں۔
مزید برآں پاکستان بھر میں اس وقت 55 نئے تعلیمی اور فلاحی منصوبہ جات بھی زیرِ تعمیر ہیں۔
گزشتہ صفحات میں بیان کی گئی تفصیلات سے یہ حقیقت آشکار ہوگئی ہے کہ اِسلام کا نظامِ زکوۃ و صدقات تاریخ اِنسانی میں جدید اور منفرد نظام ہے جس تک انسانی فکر کی کبھی رسائی نہیں ہوئی اور نہ کسی دوسری شریعت نے اس قدر مفصل نظام وضع کیا ہے۔زکوۃ سے ناداروں کی اقتصادی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے اور یہ اِرتکازِ دولت کے خلاف ایک مؤثر اقدام ہے۔ یہ ایک اجتماعی نظام ہے کیونکہ اس سے معاشرے میں امیر و غریب کے فاصلے کم ہوتے ہیں اور ظلم و اِستحصال کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اِس کا سیاسی پہلو یہ ہے کہ ریاستی سطح پر اس کی وصولی و تقسیم کا پورا نظام قائم ہوتا ہے اور اس کا اَخلاقی پہلو یہ ہے کہ اس سے زکوٰۃ دہندہ کے قلب و مال کی تطہیر ہوتی ہے اور اَفرادِ معاشرہ کے مابین اُخوت و محبت پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ الغرض! اِسلامی نظامِ زکوٰۃ و صدقات ایک مکمل، مفصل اور قابل عمل نظام ہے جس کے معاشرتی زندگی کے ہر پہلو پر دور رس اَثرات مرتب ہوتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved