جواب: صدقہ کے سب سے مستحق لوگ اپنے رشتہ دار جیسے بھائی، بہن، بھتیجے، بھتیجیاں، چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں، ساس، سسر، داماد وغیرہ میں سے حاجت مند لوگ ہیں۔ انہیں صدقہ دینے میں بہت زیادہ ثواب ہے۔ ان کے بعداپنے پڑوسیوں یا اپنے شہر کے لوگوں میں سے جو زیادہ حاجت مند ہو اسے دینا افضل ہے۔ پھر جسے دینے میں دین اور ملّت کا فائدہ زیادہ ہو جیسے طالب علم اور محققین وغیرہ۔
حضرت طارق محاربی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ مدینہ منورہ آئے تو حضور نبی اکرم ﷺ خطبہ میں ارشاد فرما رہے تھے:
یَدُ الْمُعْطِي الْعُلْیَا، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ: أُمَّکَ وَأَبَاکَ وَأُخْتَکَ وَأَخَاکَ؛ ثُمَّ أَدْنَاکَ أَدْنَاکَ.
دینے والا ہاتھ اوپر والا ہے اور ان لوگوں سے صدقہ شروع کرو جن کا نان و نفقہ تم پر ہے، جیسے ماں، باپ، بہن اور بھائی وغیرہ اور پھر اسی طرح قریبی رشتہ داروں کو (صدقات) دو۔
جواب: جی ہاں! معمولی چیز بطور صدقہ دینا جائز ہے بشرطیکہ حلال کمائی سے ہو۔
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ، وَلَا یَقْبَلُ اللهُ إِلَّا الطَّیِّبَ، وَإِنَّ اللهَ یَتَقَبَّلُهَا بِیَمِینِهٖ، ثُمَّ یُرَبِّیْهَا لِصَاحِبِهَا، کَمَا یُرَبِّي أَحَدُکُمْ فَلُوَّهٗ، حَتّٰی تَکُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ.
جس نے ایک کھجور کے برابر بھی حلال کمائی سے خیرات کی - اور اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا مگر حلال کمائی سے - تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے دستِ قدرت سے قبول فرماتا ہے۔ پھر خیرات کرنے والے کے لیے اس کی پرورش کرتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ نیکی پہاڑ کے برابر ہو جائے گی۔
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ فرماتے تھے:
یَا نِسَاءَ الْمُسْلِمَاتِ! لَا تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا وَلَوْ فِرْسِنَ شَاةٍ.
اے مسلمان عورتو! تم میں سے کوئی اپنی پڑوسن کے ہدیہ کو حقیر نہ سمجھے خواہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔
3۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لِیَتَّقِ أَحَدُکُمْ وَجْهَهُ النَّارَ، وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ.
تم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے چہرے کو جہنم کی آگ سے بچائے اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی خیرات کرنے سے ہو۔
ہر مسلمان کو اپنی حیثیت کے مطابق جتنا ہوسکے صدقہ و خیرات ضرور کرتے رہنا چاہیے اور مال کی کمی کے باعث صدقہ کرنے کا عمل روکنا نہیں چاہیے۔ نیز کسی کی دی ہوئی چیز کو بھی حقیر نہیں جاننا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تو ایک ذرّہ برابر بھی نیکی مقبول ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ ارشاد ہوتا ہے:
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗo
الزلزال، 99: 8
تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔
جواب: مالِ حرام سے صدقہ کرنا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف حلال مال ہی قبول فرماتا ہے اور اس کا ثواب پہاڑ کی مثل عطا کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ، وَلَا یَقْبَلُ اللهُ إِلَّا الطَّیِّبَ، وَإِنَّ اللهَ یَتَقَبَّلُهَا بِیَمِینِهٖ، ثُمَّ یُرَبِّیْهَا لِصَاحِبِهَا، کَمَا یُرَبِّي أَحَدُکُمْ فَلُوَّهٗ، حَتّٰی تَکُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ.
جس نے ایک کھجور کے برابر بھی حلال کمائی سے خیرات کی - اور اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا مگر حلال کمائی سے - تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے دستِ قدرت سے قبول فرماتا ہے۔ پھر خیرات کرنے والے کے لیے اس کی پرورش کرتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ نیکی پہاڑ کے برابر ہو جائے گی۔
لہٰذا حرام مال سے چاہے کتنا ہی صدقہ و خیرات کیا جائے بے سود ہے۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے جسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے:
مَنْ جَمَعَ مَالًا حَرَامًا ثُمَّ تَصَدَّقَ بِهٖ، لَمْ یَکُنْ لَهٗ فِیهِ أَجْرٌ، وَکَانَ إِصْرُهٗ عَلَیْهِ.
ابن حبان، الصحیح، 8: 153، رقم: 3367
جس نے حرام مال جمع کیا اور پھر اس میں سے صدقہ کیا تو اس میں اس کے لیے کوئی اجر نہیں۔ البتہ اس کا وبال اسی پر ہوگا۔
جواب: صدقہ دے کر واپس لینا جائز نہیں بلکہ ناپسندیدہ اور قبیح فعل ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
حَمَلْتُ عَلٰی فَرَسٍ فِي سَبِیلِ اللهِ، فَأَضَاعَهُ الَّذِي کَانَ عِنْدَهٗ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِیَهٗ وَظَنَنْتُ أَنَّهٗ یَبِیعُهٗ بِرُخْصٍ؛ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ، فَقَالَ: لَا تَشْتَرِهٖ وَلَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِکَ، وَإِنْ أَعْطَاکَهٗ بِدِرْهَمٍ، فَإِنَّ الْعَائِدَ فِي صَدَقَتهٖ کَالْعَائِدِ فِي قَیْئِهٖ.
بخاری، الصحیح، کتاب الزکاة، باب ھل یشتری صدقته، 2: 542، رقم: 1419
میں نے ایک گھوڑا سواری کے لیے اللہ کی راہ میں دیا۔ جس کو دیا تھا اس نے اسے ضائع کر دیا (یعنی اس کی اچھی طرح دیکھ بھال نہ کی) تو میں نے اسے خریدنا چاہا اور خیال کیا کہ وہ سستا بیچ دے گا۔ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اسے مت خریدو اور اپنے صدقہ کو واپس نہ لو خواہ وہ تم کو ایک درہم میں ہی کیوں نہ دے، کیونکہ صدقہ دے کر واپس لینے والا ایسا ہی ہے جیسا قے کر کے چاٹنے والا۔
جواب: صدقہ دینے والا درج ذیل حدیث مبارکہ کے مطابق اپنے ہی صدقہ کا وارث بن سکتا ہے۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
بَیْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، إِذَا أَتَتْهُ امْرَأَةٌ. فَقَالَتْ: إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلٰی أُمِّي بِجَارِیَةٍ وَإِنَّھَا مَاتَتْ. قَالَ: فَقَالَ: وَجَبَ أَجْرُکِ. وَرَدَّھَا عَلَیْکِ الْمِیْرَاثُ. قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّهٗ کَانَ عَلَیْھَا صَوْمُ شَھْرٍ. أَفَأَصُوْمُ عَنْهَا؟ قَالَ: صُوْمِي عَنْھَا. قَالَتْ: إِنَّھَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ. أَفَأَحُجُّ عَنْھَا؟ قَالَ: حُجِّي عَنْهَا.
میں رسول اللہ ﷺ کی بارگاهِ اقدس میں حاضر تھا کہ ایک عورت آئی اور عرض کیا: میں نے اپنی ماں کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی اور اب میری ماں فوت ہوگئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں ثواب مل گیا اور وراثت نے وہ باندی تمہیں لوٹا دی۔ اس عورت نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! میری ماں پر ایک ماہ کے روزے (بھی باقی) تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، اس کی طرف سے روزے رکھو۔ اس نے عرض کیا: میری ماں نے کبھی حج نہیں کیا تھا، کیا میں اس کی طرف سے حج بھی ادا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، اس کی طرف سے حج بھی ادا کرو (کیونکہ اسے ان سب اعمال کا ثواب پہنچے گا)۔
اکثر علماء کرام کا اس پر عمل ہے کہ جب کوئی شخص صدقہ دے اور پھر اس کا وارث ہو جائے تو اس کے لیے حلال ہے۔ لیکن بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ صدقہ ایک ایسی چیز ہے جو اس نے اللہ تعالیٰ کے لیے دی ہے۔ لہٰذا وارث ہونے کے باوجود واجب ہے کہ اُدھر ہی لوٹائے۔
جواب: جی ہاں! اگر پرندے یا جانور کسی مسلمان کے کھیت یا باغ سے کھا جائیں تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ یَزْرَعُ زَرْعًا، فَیَأْکُلُ مِنْهُ طَیْرٌ، أَوْ إِنْسَانٌ، أَوْ بَهِیمَةٌ، إِلَّا کَانَ لَهٗ بِهٖ صَدَقَةٌ.
جو کوئی پھل دار درخت لگاتا ہے یا کھیتی باڑی کرتا ہے اور اس میں سے پرندے، انسان یا مویشی کھاتے ہیں تو وہ اس کی طرف سے صدقہ لکھا جاتا ہے۔
2۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَغْرِسُ غَرْسًا إِلَّا کَانَ مَا أُکِلَ مِنْهُ لَهٗ صَدَقَۃً، وَمَا سُرِقَ مِنْهُ لَهٗ صَدَقَةٌ، وَمَا أَکَلَ السَّبُعُ مِنْهُ فَهُوَ لَهٗ صَدَقَةٌ، وَمَا أَکَلَتِ الطَّیْرُ فَهُوَ لَهٗ صَدَقَةٌ، وَلَا یَرْزَؤُهٗ أَحَدٌ إِلَّا کَانَ لَهٗ صَدَقَةٌ. کَانَ لَهٗ صَدَقَۃً إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ.
مسلم، الصحیح، کتاب المساقاة، باب فضل الغرس والزرع، 3: 1188، رقم: 1552
جو مسلمان کوئی پودا اُگاتا ہے تو اس درخت میں سے جو کچھ کھایا جائے وہ اس کی طرف سے صدقہ ہوجاتا ہے، جو کچھ اس سے چوری ہو وہ بھی اس کی طرف سے صدقہ ہوجاتا ہے، اور جو درندے کھالیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے، اور جو کچھ پرندے کھائیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے، اور جو شخص اس میں سے کم کرے گا وہ اس کا صدقہ ہوجائے گا۔
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’وہ قیامت کے دن تک اس کے لیے صدقہ ہوگا۔‘
جواب: صدقات دو طرح کے ہیں: ایک صدقاتِ واجبہ یعنی زکوٰۃ، صدقہ فطر، نذر، کفارات اور فدیہ کی رقوم جبکہ دوسرے صدقاتِ نافلہ ہیں جن میں عام صدقہ و خیرات اور عطیات شامل ہیں۔ صدقاتِ نافلہ کی رقوم سے قرضِ حسنہ کے لیے فنڈ کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے تاکہ غرباء و مساکین کی مدد کی جاسکے۔ لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ صدقہ و خیرات اور عطیات دینے والے اس کی اجازت بھی دیں۔
جواب: جی ہاں! میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے۔ تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کرنے سے میت کو ثواب پہنچتا ہے۔ احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ میت کی طرف سے قرض ادا کیا جائے تو قرض ساقط ہو جاتا ہے۔ اسی طرح میت کی طرف سے فرض حج کرنا بھی صحیح ہے۔ اسی طرح میت کی طرف سے صدقہ کرنے سے صدقہ بھی ادا ہو جاتا ہے۔
ذیل میں چند احادیث مبارکہ پیش کی جاتی ہیں:
1۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ مَاتَ وَعَلَیْهِ صِیَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِیُّهٗ.
جو کوئی فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے (باقی) ہوں تو اُس کا ولی اس کی طرف سے وہ روزے رکھے۔
2۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
وَإِنْ کَانَ عَلَیْهِ نَذْرٌ قَضٰی عَنْهُ وَلِیُّهٗ.
أبو داود، السنن، کتاب الصیام، باب فیمن مات وعلیه صیام، 2: 315، رقم: 2400-2401
اگر اس (فوت ہونے والے) پر کسی نذر کا پورا کرنا باقی ہو (جو اس نے مانی تھی) تو اُسے اس کی طرف سے اس کا ولی پوری کرے۔
3۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
أَنَّ رَجُـلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ: إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُھَا، وَأَظُنُّھَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَھَلْ لَھَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْھَا؟ قَالَ: نَعَمْ.
امام مسلم نے یہ حدیث ’صدقات کے ثواب کا فوت شدگان کو پہنچنا‘ کے باب میں نقل کی ہے۔
ایک آدمی حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میری والدہ اچانک فوت ہوگئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقت نزع) گفتگو کر سکتی تو صدقہ (کی ادائیگی کا حکم) کرتی۔ اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا اسے ثواب پہنچے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔
4۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ رضی الله عنهما تُوُفِّیَتْ أُمُّهٗ وَهُوَ غَائِبٌ عَنْهَا، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ أُمِّي تُوُفِّیَتْ وَأَنَا غَائِبٌ عَنْهَا، أَیَنْفَعُهَا شَيئٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِهٖ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ۔ قَالَ: فَإِنِّي أُشْهِدُکَ أَنَّ حَائِطِيَ الْمِخْرَافَ صَدَقَةٌ عَلَیْهَا.
امام ترمذی فرماتے ہیں: حدیث حسن ہے۔ علماء کا یہی قول ہے کہ ’میت کو صرف صدقہ اور دعا پہنچتی ہے۔‘
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور وہ اس وقت موجود نہ تھے۔ وہ بارگاهِ رسالت میں عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا ہے اور میں اُس وقت حاضر نہ تھا، اگر میں ان کی طرف سے کوئی صدقہ و خیرات کروں تو کیا انہیں ثواب پہنچے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے کہ میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے۔
5۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن کی والدہ فوت ہوگئیں تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! انہوں نے عرض کیا: تو کون سا صدقہ بہتر رہے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پانی پلانا، (تو انہوں نے ایک کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا)۔ پس یہ کنواں مدینہ منورہ میں سعد یا آل سعد کی پانی کی سبیل (کے نام سے مشہور) تھا۔
6۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! میرے والد فوت ہوگئے ہیں اور اُنہوں نے مال چھوڑا ہے، لیکن اُنہوں نے وصیت نہیں کی۔ اگر میں اُن کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ (صدقہ) اُن کے گناہوں کا کفّارہ ہو جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔
7۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا: (یا رسول اللہ !) میری والدہ فوت ہوگئی ہیں اور اُن پر ایک ماہ کے روزے واجب ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ بتاؤ اگر اُس پرکچھ قرض ہوتا تو کیا تم اُس کی طرف سے وہ قرض ادا کرتیں؟ اُس عورت نے عرض کیا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پس اللہ تعالیٰ زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض (پہلے) ادا کیا جائے۔
8۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے حج ادا نہیں کیا تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تو اپنے والد کی طرف سے حج کر لے۔
9۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: میری بہن وفات پا چکی ہے اور اُس نے حج نہیں کیا تھا تو کیا میں اُس کی طرف سے حج کر سکتا ہوں؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر اس پر قرض ہوتا تو تم یقینا ادا کر دیتے، پس اللہ تعالیٰ وفاء کا زیادہ حق دار ہے۔
10۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ مَاتَ وَعَلَیْهِ صِیَامُ شَهْرٍ فَلْیُطْعَمْ عَنْهُ مَکَانَ کُلِّ یَوْمٍ مِسْکِیْنًا.
جو شخص وفات پا جائے اور اُس کے ذمہ رمضان شریف کے روزے باقی ہوں تو اُس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔
11۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
إِذَا مَرِضَ الرَّجُلُ فِي رَمَضَانَ ثُمَّ مَاتَ وَلَمْ یَصُمْ أُطْعِمَ عَنْهُ وَلَمْ یَکُنْ عَلَیْهِ قَضَاءٌ وَإِنْ نَذْرٌ قَضٰی عَنْهُ وَلِیُّهٗ.
جب کوئی شخص رمضان میں بیمار ہو جائے پھرصحت یاب نہ ہو بلکہ مر جائے تو اس کی جانب سے کھانا کھلایا جائے اور اس کے اوپر قضا نہیں ہے۔ اور اگر اس نے نذر مانی ہو تو اس کا ولی اس کی نذر پوری کرے۔
12۔ حنش کا بیان ہے کہ اُنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو عرض کیا: یہ کیا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے اپنی طرف سے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔ چنانچہ (ارشادِ عالی کے تحت) میں (ہمیشہ) ایک قربانی حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف سے پیش کرتا ہوں۔
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ اور واقعات سے ثابت ہوجاتا ہے کہ فوت شدگان کی طرف سے نیک اعمال بجا لائے جاسکتے ہیں اور انہیں ان نیک اعمال کا ثواب بھی پہنچتا ہے۔
جواب: عورت شوہر کے مال میں سے صدقہ کرسکتی ہے، اس صورت میں جب شوہر کی جانب سے عادۃً اجازت ہو۔ اگر یہ معلوم ہو کہ فلاں چیز صدقہ کرنے سے شوہر ناراض ہوگا تو ایسی چیزوں کا صدقہ کرنا عورت کے لیے جائز نہیں۔ عورت شوہر کی رضامندی سے صدقہ کرے تو اس عورت، اس کے شوہر اور جس ملازم کے ذریعے صدقہ دے سب کو اجر ملے گا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَنْفَقَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ طَعَامِ بَیْتِهَا غَیْرَ مُفْسِدَةٍ کَانَ لَهَا أَجْرُهَا بِمَا أَنْفَقَتْ، وَلِزَوْجِهَا أَجْرُهٗ بِمَا کَسَبَ، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذٰلِکَ، لَا یَنْقُصُ بَعْضُهُمْ أَجْرَ بَعْضٍ شَیْئًا.
مسلم، الصحیح، کتاب الزکاة، باب الاجر الخازن الامین والمراة اذا تصدقت من بیت زوجها، 2: 710، رقم: 1024
جب کوئی عورت اپنے گھر کے طعام کو خراب کیے بغیر اس میں سے خرچ کرے تو اس کو خرچ کرنے کا اجر ملے گا اور اس کے شوہر کو کمانے کا اور خازن کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا لیکن کسی کو اجر ملنے سے دوسرے کا اجر کم نہیں ہو گا۔
2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا تَصَدَّقَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ بَیْتِ زَوْجِهَا، کَانَ لَهَا بِهٖ أَجْرٌ، وَلِلزَّوْجِ مِثْلُ ذٰلِکَ، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذٰلِکَ، وَلَا یَنْقُصُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مِنْ أَجْرِ صَاحِبِهٖ شَیْئًا لَهٗ بِمَا کَسَبَ وَلَهَا بِمَا أَنْفَقَتْ.
جب کوئی عورت اپنے خاوند کے گھر سے صدقہ دے تو اس کے لیے بھی اجر ہے اور شوہر کے لیے بھی اس کی مثل اجر ہے، خزانچی کے لیے بھی اس کے برابر اجر ہے اور کسی ایک کا ثواب دوسرے کے ثواب میں کمی نہیں کرے گا۔ شوہر کے لیے کمانے کا اور عورت کے لیے خرچ کرنے کا ثواب ہے۔
علاوہ ازیں اگر کسی عورت کا شوہر مال دار ہونے کے باوجود کنجوس اور بخیل ہے تو پھر عورت بغیر پوچھے بھی صدقہ کرسکتی ہے۔
جواب: جی ہاں: عورت شوہر کی اجازت کے بغیر اپنا ذاتی مال صدقہ کرسکتی ہے۔
جواب: دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا، سوال کرنا اور بھیک مانگنا انتہائی ناپسندیدہ اور قبیح فعل ہے۔ اسلام میں اِس کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے۔
1۔ حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَسَأَلَهٗ فَأَعْطَاهُ، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَهٗ عَلَی أُسْکُفَّۃِ الْبَابِ، قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: لَوْ تَعْلَمُونَ مَا فِي الْمَسْأَلَۃِ، مَا مَشٰی أَحَدٌ إِلٰی أَحَدٍ یَسْأَلُهٗ شَیْئًا.
ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے کچھ مانگا، آپ ﷺ نے عنایت فرمایا۔ جب (واپس جاتے ہوئے) اس نے اپنا پائوں چوکھٹ پر رکھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ سوال کرنا کتنا عیب اور نقص ہے تو کوئی شخص دوسرے کے پاس مانگنے کے لیے نہ جاتا۔
2۔ بلاضرورت سوال کرنا اور مانگنے میں اصرار کرنا ایک مذموم عمل ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَسْأَلُ النَّاسَ حَتّٰی یَأْتِيَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، لَیْسَ فِي وَجْهِهٖ مُزْعَةُ لَحْمٍ.
بخاری، الصحیح، کتاب الزکاة، باب من سأل الناس تکثرا، 2: 536، رقم: 1405
آدمی لوگوں سے ہمیشہ سوال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت والے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہوگا۔
3۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْمَسْأَلَةَ، کَدٌّ یَکُدُّ بِهَا الرَّجُلُ وَجْهَهٗ، إِلَّا أَنْ یَسْأَلَ الرَّجُلُ سُلْطَانًا، أَوْ فِي أَمْرٍ لَا بُدَّ مِنْهُ.
بھیک مانگنا ایک زخم ہے جس کے ساتھ آدمی اپنا چہرہ زخمی کرتا ہے، سوائے اس کے کہ کوئی شخص حکمران سے یا کسی ضروری اَمر میں اِعانت طلب کرے (تو جائز ہے)۔
4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَهُمْ تَکَثُّرًا، فَإِنَّمَا یَسْأَلُ جَمْرَ جَهَنَّمَ، فَلْیَسْتَقِلَّ مِنْهُ أَوْ لِیُکْثِرْ.
ابن ماجه، السنن، کتاب الزکاة، باب من سأل عن ظهر غنی، 1: 589، رقم: 1838
جس نے غنا کی حالت میں لوگوں سے سوال کیا (یعنی بھیک مانگی) تو وہ جہنم کی آگ کے انگاروں کا سوال کرتا ہے؛ اب اسے اختیار ہے کہ وہ (انگارے) کم حاصل کرے یا زیادہ۔
اِسلام میں سوال کرنے اور بھیک مانگنے کی حد درجہ مذمت اس لیے کی گئی ہے کہ اس سے معاشرے میں کام نہ کرنے کا ماحول پروان چڑھتا ہے اور معاشرہ مجموعی طور پر کام چوری و غفلت کا مظہر بن جاتا ہے۔ جب کہ اسلام تو ایک ایسا دین ہے جو اپنے پیروکاروں میں ہمہ وقت تحرک اور کام کرنے کا جذبہ دیکھنا چاہتا ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا اور یہ انتظار کرنا کہ اللہ تعالیٰ خیر الرازقین ہے اور وہ خود ہی ہمارے لیے رزق بھیج دے گا یا دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور انہیں اپنی مجبوریاں بتا کر بھیک مانگنے کی اسلام میں قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کو بھی یہ حکم فرمایا تھا کہ پہلے اُمورِ حیات و کارہاے اُمت ادا کیے جائیں اور بعد میں عبادتِ اِلٰہی کی طرف راغب ہوا جائے۔ اِرشاد ہوتا ہے:
فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْo وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْo
الإنشراح، 94: 7-8
پس جب آپ (تعلیمِ اُمت، تبلیغ و جہاد اور ادائیگیِ فرائض سے) فارغ ہوں تو (ذکر و عبادت میں) محنت فرمایا کریں۔ اور اپنے رب کی طرف راغب ہو جایا کریں۔
5۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان اقدس ہے:
وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهٖ! لَأَنْ یَأخُذَ أَحَدُکُمْ حَبْلَهٗ فَیَحْتَطِبَ عَلَی ظَهْرِهٖ خَیْرٌلَهٗ مِنْ أَنْ یَأْتِيَ رَجُلًا فَیَسْأَلَهٗ أَعْطَاهُ أَوْ مَنَعَهٗ.
بخاری، الصحیح، کتاب الزکاة، باب الاستعفاف عن المسألة، 2: 535، رقم: 1401
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی رسی لے کر لکڑیوں کا گٹھا اپنی پیٹھ پر اٹھائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ سوال کرتا پھرے تو کوئی اسے دے اور کوئی نہ دے۔
6۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام l سوال کرنے کے بارے میں حد درجہ احتیاط کیا کرتے تھے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
سَرَّحَتْنِي أُمِّي إِلٰی رَسُولِ اللهِ ﷺ فَأَتَیْتُهُ وَقَعَدْتُ، فَاسْتَقْبَلَنِي، وَقَالَ، مَنِ اسْتَغْنٰی أَغْنَاهُ اللهُ u، وَمَنِ اسْتَعَفَّ أَعَفَّهُ اللهُ تعالیٰ، وَمَنِ اسْتَکْفٰی کَفَاهُ اللهُ تعالیٰ، وَمَنْ سَأَلَ وَلَهٗ قِیمَۃُ أُوقِیَّةٍ فَقَدْ أَلْحَفَ. فَقُلْتُ: نَاقَتِي الْیَاقُوتَۃُ خَیْرٌ مِنْ أُوقِیَّةٍ، فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَسْأَلْهُ.
میری والدہ نے (شدید ضرورت کے تحت کچھ مانگنے کے لیے) مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں بھیجا، میں حاضر ہو کر بیٹھ گیا۔ آپ ﷺ اپنا رُخِ انور میری طرف کر کے بیٹھے اور ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں سے بے نیاز ہوگا اللہ تعالیٰ اسے لوگوں سے بے نیاز کر دے گا اور جو شخص سوال سے بچے گا اللہ تعالیٰ اسے بچائے گا اور جو شخص تھوڑے مال پر کفایت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے کفایت دے گا اور جو شخص بھیک مانگے گاحالانکہ اس کے پاس ایک اُوقیہ (چالیس درہم - 122.472 گرام) کے برابر مال ہو گا تو اس نے الحاف کیا (یعنی گڑگڑا کر بھیک مانگی)۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میری یاقوتہ نامی اونٹنی ایک اوقیہ سے بڑھ کر ہے۔ میں واپس آیا اور آپ ﷺ سے سوال نہیں کیا۔
مذکورہ بالا روایات سے ثابت ہو جاتا ہے کہ اِسلام میں گداگری کتنا مذموم عمل ہے۔ سوال کرنے اور ہاتھ پھیلانے کی اجازت صرف اور صرف انتہائی مجبوری کی حالت میں ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ جان بچانے جیسی مجبوری کی حالت میں ہی سوال کرنے کی اجازت ہے۔
7۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إلَّا لِثَلاثَةٍ: لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ، أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ، أَوْ لِذِي دَمٍ مُوجِعٍ.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تین اشخاص کے علاوہ کسی کے لیے سوال کرنا درست نہیں: ایک وہ شخص جو خاک پر لٹا دینے والی محتاجی میں مبتلا ہو، دوسرا وہ جو سخت قرضے میں گھر گیا ہو، تیسرا وہ جسے دیت کی ادائیگی کی مجبور ی ہو۔
8۔ حضرت عبید اللہ بن عدی بن خیار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
أَخْبَرَنِي رَجُلَانِ أَنَّهُمَا أَتَیَا النَّبِيَّ ﷺ فِي حَجَّۃِ الْوَدَاعِ، وَهُوَ یَقْسِمُ الصَّدَقَۃَ فَسَأَلَاهُ مِنْهَا، فَرَفَعَ فِیْنَا الْبَصَرَ وَخَفَضَهٗ، فَرَآنَا جَلْدَیْنِ، فَقَالَ: إِنْ شِئْتُمَا أَعْطَیْتُکُمَا، وَلَا حَظَّ فِیهَا لِغَنِيٍّ وَلَا لِقَوِيٍّ مُکْتَسِبٍ.
دو آدمیوں نے مجھے بیان کیا کہ وہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ ﷺ صدقے کا مال تقسیم فرما رہے تھے۔ پس انہوں نے اس میں سے کچھ مانگا تو آپ ﷺ نے نظر اٹھا کر دیکھا، پھر نگاہیں جھکالیں۔ آپ ﷺ نے ہمیں دیکھا کہ ہم دونوں موٹے تازے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں تمہیں دے دوں ورنہ اس میں غنی اور کمانے کے قابل طاقت ور کا حق نہیں ہے۔
بھیک مانگنے اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی عادت دراصل نہ صرف افراد و اقوام کو اقتصادی طور پر پسماندہ کر دیتی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ دستِ سوال دراز کرنے کی عادتِ قبیح سے اَقوام نفسیاتی و روحانی طور پر بھی مجروح ہوتی ہیں۔
جواب: ضرورت مند ہونے کے باوجود حتی الوسع سوال سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ احادیث مبارکہ میں سوال سے بچنے کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔
1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:
أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: وَهُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ، وَذَکَرَ الصَّدَقَةَ وَالتَّعَفُّفَ وَالْمَسْأَلَةَ: اَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلٰی، فَالْیَدُ الْعُلْیَا هِيَ الْمُنْفِقَۃُ، وَالسُّفْلٰی هِيَ السَّائِلَةُ.
رسول اللہ ﷺ جب کہ آپ ﷺ منبر پر جلوہ افروز تھے - نے صدقہ کرنے، سوال سے بچنے اور سوال کرنے کے متعلق فرمایا: اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے؛ اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے جب کہ نیچے والا ہاتھ سوال کرنے والا ہے۔
2۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرے گا، تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں؟ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں۔ چنانچہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کسی سے کچھ سوال نہیں کیا کرتے تھے۔()
3۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
أَنَّ نَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللهِ ﷺ، فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ حَتّٰی نَفِدَ مَا عِنْدَهٗ. فَقَالَ: مَا یَکُونُ عِنْدِي مِنْ خَیْرٍ، فَلَنْ أَدَّخِرَهٗ عَنْکُمْ، وَمَنْ یَسْتَعْفِفْ یُعِفَّهُ اللهُ، وَمَنْ یَسْتَغْنِ یُغْنِهِ اللهُ، وَمَنْ یَتَصَبَّرْ یُصَبِّرْهُ اللهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَیْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ.
انصار کے کچھ لوگوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے (مال کا) سوال کیا تو آپ ﷺ نے انہیں دے دیا۔ انہوں نے پھر آپ ﷺ سے سوال کیا تو آپ ﷺ نے انہیں عطا فرما دیا حتی کہ آپ ﷺ کے پاس جتنا بھی مال تھا وہ ختم ہوگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس جتنا بھی مال ہو میں کبھی بھی اسے تم سے نہیں روکوں گا لیکن جو شخص خود کو سوال کرنے سے بچائے، اللہ اس کو بچائے گا؛ اور جو شخص استغناء اختیار کرے، اللہ اسے غنی کر دے گا؛ اور جو شخص صبر کی کوشش کرے گا تو اللہ اسے صبر عطا کر دے گا؛ اور کسی شخص کو صبر سے بہتر اور فراخی والا کوئی دوسرا عطیہ نہیں دیا گیا۔
جواب: بن مانگے صدقہ لینا جائز ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے فرمایا:
فَمَا جَائَکَ مِنْ هٰذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَیْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَمَالَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَکَ.
جو مال تمہارے پاس اس طرح آئے کہ تم اُس کے طلب گار یا سائل نہ ہو تو اُسے لے لو اور اگر نہ لینا ہو تو پھر اُس کے پیچھے دل کو نہ بھگائو۔
جواب: اللہ کے نام پر سوال کرنا نہایت ہی قبیح اور مذموم عمل ہے، ایسے بھکاری فقیر نہیں ہوتے بلکہ زیادتیِ مال کی حرص میں اللہ کے نام پر بھیک مانگ کر حقیقتاً جہنم کے انگارے جمع کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی بھکاری اُس وقت مسلمانوں کے لیے تکلیف کا بھی باعث بنتے ہیں جب وہ اللہ کے نام پر مانگ کر ان کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور گداگر کو منع کردینے کی صورت میں بھیک نہ دینے والا پشیمان ہوتا ہے۔ لہٰذا حتی الامکان دوسروں کو یہ اذیت دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ گداگروں اور بھکاریوں میں اللہ تعالیٰ کا نام بہت لیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر کثرتِ سوال کے باعث ان میں توکل علی اللہ کا انتہائی فقدان ہوتا ہے۔ ان کے ہاں اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات صرف بھیک مانگنے کا ایک آلہ قرار پاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر سوال کرنے کی ممانعت پر کتبِ احادیث میں باب باندھے گئے ہیں۔ امام ابو داود روایت کرتے ہیں:
عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: لَا یُسْأَلُ بِوَجْهِ اللهِ إِلَّا الْجَنَّةُ.
أبو داود، السنن، کتاب الزکاة، باب کراهِیة المسألة بوجه الله تعالی، 2: 127، رقم: 1671
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نام پر کچھ نہ مانگا جائے سوائے جنت کے۔
خالقِ کائنات اور رب العالمین کا نام فقط اِس لیے اِستعمال نہ کیا جائے کہ چند ٹکے وصول کیے جاسکیں یا ایک وقت کی روٹی حاصل کی جاسکے؛ بلکہ اگر اس نام کے بدلے کچھ حاصل ہی کرنا ہے تو جنت حاصل کرو تاکہ آخرت میں فائدہ ہو؛ چند لمحوں کی دنیاوی منفعت سے کیا ملے گا کیونکہ دنیا کا تو سب کچھ یہیں رہ جانا ہے، آخرت میں تو صرف اَعمال ہی ساتھ جائیں گے۔
جواب: تعلیماتِ اسلام کے مطابق بھیک مانگنا یا اس کو اپنا ذریعہ روزگار بنانا انتہائی ناپسندیدہ اور مذموم عمل ہے۔ آج کل بہت سے لوگوں نے سوال کرنے اور بھیگ مانگنے کو باقاعدہ اپنا پیشہ بنالیا ہے۔ یہ لوگ کثیر مال و متاع کے مالک ہو کر بھی بھیک مانگنا نہیں چھوڑتے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو تو جواب دیتے ہیں کہ یہ تو ہمارا پیشہ ہے، ہم کیسے اپنا پیشہ چھوڑ دیں؟ حالانکہ ایسے لوگوں کا سوال کرنا اور بھیک مانگنا بالکل حرام ہے۔ اگر وہ چاہیں تو حلال روزگار سے کام کرکے نہ صرف خود کھا سکتے ہیں بلکہ دوسروں کی کفالت بھی کرسکتے ہیں۔
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَهُمْ تَکَثُّرًا، فَإِنَّمَا یَسْأَلُ جَمْرًا، فَلْیَسْتَقِلَّ أَوْ لِیَسْتَکْثِرْ.
مسلم، الصحیح، کتاب الزکاة، باب کراهة المسألة للناس، 2: 720، رقم: 1041
جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے مانگتا ہے تو وہ (جہنم کے) انگاروں کا سوال کرتا ہے چاہے کم کرے یا زیادہ۔
2۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
جس پر فاقہ گزرا نہ اُس کے اتنے بچے ہیں کہ جن کی کفالت کی اس میں استطاعت نہیں اور وہ اس کے باوجود دوسروں کے سامنے سوال کرے تو اللہ تعالی اس پر ایسی جگہ سے فاقہ کا دروازہ کھول دے گا جو اس کے خیال میں بھی نہیں ہوگا۔
بیهقی، شعب الایمان، 3: 274، رقم: 3526
3۔ حضرت قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
میں ایک بڑی رقم کا مقروض ہو گیا تھا۔ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ آپ ﷺ سے اس کے متعلق سوال کروں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اُس وقت تک ہمارے پاس ٹھہرو جب تک صدقہ کا مال آجائے، ہم اس میں سے تمہیں دینے کا حکم کریں گے۔ پھر فرمایا: اے قبیصہ! تین شخصوں کے علاوہ اور کسی کے لیے سوال کرنا جائز نہیں ہے: ایک وہ شخص جو مقروض ہو اس کے لیے اتنی مقدار کا سوال جائز ہے جس سے اس کا قرض ادا ہو جائے۔ اس کے بعد وہ سوال سے رک جائے۔ دوسرا وہ شخص جس کے مال کو کوئی ناگہانی آفت پہنچی ہو جس سے اس کا مال تباہ ہوگیا ہو تو اس کے لیے اتنا سوال کرنا جائز ہے جس سے اس کا گزارہ ہو جائے۔ تیسرا وہ شخص جو فاقہ زدہ ہو اور اس کے قبیلہ کے تین عقل مند آدمی اس بات پر گواہی دیں کہ واقعی یہ فاقہ زدہ ہے تو اس کے لیے بھی اتنی مقدار کا سوال کرنا جائز ہے جس سے اس کا گزارہ ہو جائے۔ اے قبیصہ! ان تین اشخاص کے علاوہ سوال کرنا حرام ہے اور جو (ان کے علاوہ کسی اور صورت میں) سوال کر کے کھاتا ہے وہ حرام کھاتا ہے۔
مسلم، الصحیح، کتاب الزکاة، باب من تحل له المسئلة، 2: 722، رقم: 1044
مقروض کے لیے ادائیگیِ قرض کے واسطے سوال کی اجازت اُس وقت ہے جب اس نے کسی جائز ضرورت کی وجہ سے قرض لیا ہو؛ اگر کسی گناہ کی خاطر قرض لیا ہے تو سوال کی اجازت نہیں۔ فاقہ زدہ کے لیے اس کی قوم کے تین باشعور اور زیرک اَفراد کی گواہی بطور اِستحباب ہے ورنہ دو آدمیوں کی گواہی بھی کافی ہے۔
اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پیشہ ور گداگری اسلام میں ناجائز ہے اور پیشہ ور گداگروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنا حکومتِ وقت کا فرض ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ لوگ (الا ماشاء اللہ) بھیک مانگنے کے لیے مصنوعی طور پر اور بعض عمداً معذور بن جاتے ہیں اور اپنے ہاتھ، پاؤں خراب کر کے ایسی وضع اختیار کرتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو ترس آئے اور زیادہ سے زیادہ بھیک ملے۔ ایمان کے بعد سب سے بڑی نعمت سلامتیِ اعضاء ہے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو ضائع کرتے ہیں اور کفرانِ نعمت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ بعض لوگ میک اپ کا سہارا لے کر مصنوعی بیماریاں ظاہر کرتے ہیں اور مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ بعض مصنوعی طور پر نابینا یا اپاہج بن جاتے ہیں۔ ایسے تمام لوگوں کو گرفتار کر کے سخت سزا دینی چاہیے تاکہ اس مکروہ پیشہ کی حوصلہ شکنی ہو اور معاشرہ سے پیشہ ور گداگری کی لعنت کا خاتمہ ہو۔
جواب: جی ہاں! رمضان کے روزے نہ رکھنے والے پر بھی صدقہ فطر واجب ہے کیونکہ صدقہ فطر واجب ہونے کے لیے روزہ رکھنا شرط نہیں۔ اگر کسی عذر جیسے سفر، مرض، بڑھاپے کی وجہ سے یا معاذ اللہ بلا عذر بھی روزہ نہ رکھا تب بھی صدقہ فطر واجب ہے۔
جواب: جی ہاں! بلکہ صدقہ فطر یوم عید سے پہلے ادا کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے تاکہ غرباء و مساکین بھی بہتر طور پر عید کی تیاریاں کر سکیں۔ عید سے ایک دو دن قبل حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے صدقہ فطر ادا کرنا ثابت ہے۔ حضرت نافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
کَانُوا یُعْطُونَ قَبْلَ الْفِطْرِ بِیَوْمٍ أَوْ یَوْمَیْنِ.
بخاری، الصحیح، کتاب الزکاة، باب صدقۃ الفطر علی الحر والمملوک، 2: 549، رقم: 1440
وہ (یعنی حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ) عید الفطر سے ایک یا دو روز قبل فطرانہ ادا کر دیا کرتے تھے۔
جواب: جی ہاں! اگر نابالغ کا اپنا مال ہو تو اس کے مال میں سے صدقہ فطر ادا کیا جائے گا وگرنہ ہر صاحبِ نصاب مالک پر اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے۔
جواب: صدقہ فطر / فطرانہ کے مصارِف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں، یعنی جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اُنہیں صدقہ فطر دے سکتے ہیں اور جنہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتے اُنہیں فطرانہ بھی نہیں دے سکتے۔ مصارِف میں سے بہتر یہی ہے کہ فقراء و مساکین کو ترجیح دی جائے، اِس لیے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا اِرشاد ہے:
أُغْنُوْھُمْ فِیْ ھٰذَا الْیَوْمِ.
دارقطنی، السنن، 2: 152، رقم: 67
اس دن مساکین کو (سوال سے) بے نیاز کر دو۔
جواب: جی ہاں! رشتہ داروں مثلاً بھائی، بہن، چچا، ماموں، خالہ وغیرہ کو صدقہ فطر دینا جائز ہے لیکن اپنی اولاد کو یا ماں باپ، نانا، نانی اور دادا، دادی کو زکوٰۃ اور صدقہ فطر نہیں دے سکتے۔ علاوہ ازیں شوہر بیوی کو یا بیوی شوہر کو بھی صدقہ فطر نہیں دے سکتی۔
جواب: صدقہ فطر گیہوں یا گیہوں کا آٹا آدھا صاع اور جَو یا جَو کا آٹا یا کھجور ایک صاع دیں۔ اگر فطرانہ میں اس مقدار کے برابر قیمت دے دی جائے تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ محتاجوں کو اس سے زیادہ فائدہ ہو گا۔ صدقہ فطر اجتماعی طور پر کسی ایک محتاج کو بھی دیا جا سکتا ہے۔
جواب: ہر طبقہ کے لوگ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ فطر ادا کریں گے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے صدقہ فطر کی مختلف اَقسام کو اُمت کے لیے جائز فرمایا جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں ہم ایک صاع اناج (بطور صدقہ فطر) ادا کرتے تھے؛ یا ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کشمش ادا کرتے تھے۔ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو گندم کا آٹا آگیا - جو کہ اُس وقت نسبتاً سب سے مہنگا تھا - تو نصف صاع گندم کو ان چیزوں کے چار کلو کے برابر قرار دے دیا گیا۔
بخاری، الصحیح، کتاب صدقة الفطر، باب صاع من زبیب، 2: 548، رقم: 1437
ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ اَقدس میں ہم ایک صاع اناج بطور صدقہ فطر ادا کرتے تھے۔ ہمارا اناج جَو، کشمش، پنیر اور کھجور پر مشتمل ہوتا تھا۔
بخاری، الصحیح، کتاب صدقة الفطر، باب الصدقة قبل العید، 2: 548، رقم: 1439
لہٰذا مختلف آمدنی رکھنے والے طبقات اپنی اپنی آمدن اور مالی حیثیت کے مطابق دو کلو گندم کی قیمت سے لے کر چار کلو کشمش کی قیمت تک کسی بھی مقدار کو صدقۂ فطر کے طور پر ادا کرسکتے ہیں تاکہ غرباء و مستحقین کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved