جواب: صدقہ ’خیرات‘ کرنے کو کہتے ہیں۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے غریب لوگوں کو دیا جائے۔
ابن منظور، لسان العرب، 10: 196
امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
صدقہ وہ مال ہے جس کا ادا کرنا واجب نہ ہو بلکہ خیرات دینے والا اس سے قربِ الٰہی کا قصد کرے۔
راغب اصفهانی، مفردات ألفاظ القرآن: 480
گویا صدقہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد وہ زائد مال و دولت ہے جسے مستحقین کے درمیان اس طرح خرچ کیا جائے کہ ان کا معاشی تعطل ختم ہو، ان کی تخلیقی جد و جہد بحال ہو اور وہ معاشرے کی ترقی میں مطلوبہ کردار بحسن و خوبی سرانجام دے سکیں۔
جواب: اللہ کی راہ میں مال صدقہ و خیرات کرنا انسان کا کوئی ذاتی کمال نہیں کیونکہ مال و جان سب کچھ اُسی خالق و مالک کی عطا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر یہ احسان کیا کہ اس مال کو وصول کرکے کئی گنا بڑھا کر عطا فرماتا ہے اور بعض کو بے حساب بھی دیتا ہے۔ قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں صدقہ و خیرات کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے، بلکہ اِسے اللہ اور اُس کے رسول مکرم ﷺ کی رضا کے حصول کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اس اٹل اور ناقابلِ تردید حقیقت کو قرآن حکیم نے ایک شاندار مثال کے ذریعے بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَتَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ کَمَثَلِ جَنَّةٍم بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰ تَتْ اُکُلَهَا ضِعْفَیْنِ ج فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ط وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo
البقرة، 2: 265
اور جو لوگ اپنے مال اللہ کی رضا حاصل کرنے اور اپنے آپ کو (ایمان و اطاعت پر) مضبوط کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی سطح پر ہو اس پر زوردار بارش ہو تو وہ دوگنا پھل لائے اور اگر اسے زوردار بارش نہ ملے تو (اسے) شبنم (یا ہلکی سی پھوار) بھی کافی ہو، اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔
قرآن حکیم نے اسی تصور کو ایک اور مقام پر یوں بیان کیا ہے:
وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللهِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوْلِ ط اَ لَآ اِنَّھَا قُرْبَةٌ لَّھُمْ ط سَیُدْخِلُھُمُ اللهُ فِیْ رَحْمَتِهٖ ط اِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ لا رَّضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَآ اَبَدًا ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُo
التوبة، 9: 99-100
اور بادیہ نشینوں میں (ہی) وہ شخص (بھی) ہے جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور جو کچھ (راهِ خدا میں) خرچ کرتاہے اسے اللہ کے حضور تقرب اور رسول (ﷺ) کی (رحمت بھری) دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتا ہے، سن لو! بے شک وہ ان کے لیے باعث قربِ الٰہی ہے، جلد ہی اللہ انہیں اپنی رحمت میں داخل فرما دے گا۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ اور مہاجرین اور ان کے مددگار (انصار) میں سے سبقت لے جانے والے، سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجہء احسان کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے والے، اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے۔
پہلی آیت نے انفاق کے وجوب کو قرب و رضاے اِلٰہی اور قرب و رضاے رسول ﷺ کا باعث قرار دیا ہے تو دوسری آیت نے اس عمل کو اِحسان کے ساتھ تعبیر کرتے ہوئے رضاے اِلٰہی کی حقیقی اساس قرار دیا ہے۔
اِسی طرح کثیر احادیث مبارکہ میں صدقہ و خیرات کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ذیل میں چند احادیث مبارکہ درج کی جاتی ہیں:
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَمَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ.
صدقہ مال میں کچھ بھی کمی نہیں کرتا، بندے کے معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت ہی بڑھاتا ہے اور جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کا درجہ ہی بلند فرماتا ہے۔
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِیئُ غَضَبَ الرَّبِّ، وَتَدْفَعُ عَنْ مِیْتَةِ السُّوْءِ.
بے شک صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔
اسی موضوع سے متعلقہ امام طبرانی کی بیان کردہ روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
عَنْ کَثِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْمُزَنِيِّ عَنْ أَبِیْهِ عَنْ جَدِّهٖ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: إِنَّ صَدَقَةَ الْمُسْلِمِ تَزِیْدُ فِي الْعُمْرِ، وَتَمْنَعُ مِیْتَةَ السُّوءِ، وَیُذْهِبُ اللهُ بِهَا الْکِبْرَ وَالْفَخْرَ.
طبرانی، المعجم الکبیر، 17: 22، رقم: 31
کثیر بن عبد اللہ المزنی اپنے والد گرامی کے واسطہ سے اپنے جد امجد (حضرت عمرو بن عوف) سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کا صدقہ عمر میں اضافہ کرتا ہے، بری موت کو روکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے تکبر و فخر کو ختم کر دیتے ہیں۔
3۔ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اَلصَّدَقَةُ تَسُدُّ سَبْعِیْنَ بَابًا مِنَ السُّوْءِ.
طبرانی، المعجم الکبیر، 4: 274، رقم: 4402
صدقہ برائی اور بدبختی کے ستر دروازے بند کر دیتا ہے۔
4۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِیُٔ عَنْ أَھْلِھَا حَرَّ الْقُبُوْرِ، وَإِنَّمَا یَسْتَظِلُّ الْمُؤْمِنُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِي ظِلِّ صَدَقَتِهٖ.
طبرانی، المعجم الکبیر، 17: 286، رقم: 787
صدقہ اہلِ قبور سے گرمی کو ختم کرتا ہے اور مومن قیامت کے دن اپنے صدقہ کے سائے تلے ہوگا۔
5۔ حضرت میمونہ بنت سعد رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں صدقہ کے متعلق بتائیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّهَا حِجَابٌ مِنَ النَّارِ، لِمَنِ احْتَسَبَهَا یَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللهِ تعالیٰ.
طبرانی، المعجم الکبیر، 25: 35، رقم: 3449
جو شخص ثواب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے صدقہ کرتا ہے اس کے لیے یہ نار جہنم سے رکاوٹ ہے۔
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ صدقہ و خیرات کرنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا و قرب نصیب ہوتا ہے اور یہ عمر میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ اس سے نہ صرف مصائب و آلام اور بلائیں دور ہوتی ہیں بلکہ اَہلِ قبور بھی صدقے کی برکات سے مستفیض ہوتے ہیں۔
جواب: جی ہاں! صدقہ و خیرات ہر مسلمان پر لازم ہے، البتہ اس کی نوعیت میں فرق ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر شخص مال و دولت ہی خرچ کرے تو وہ صدقہ و خیرات کا ثواب پاسکے گا بلکہ صدقہ و خیرات میں بہت وسیع مفہوم پایا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمانِ اَقدس ہے:
عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ.
ہر مسلمان پر صدقہ کرنا لازم ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:
یَا نَبِيَّ اللهِ! فَمَنْ لَمْ یَجِدْ؟
یا نبی اللہ! جس میں اِستطاعت ہی نہ ہو (تو وہ کیا کرے)؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
یَعْمَلُ بِیَدِهٖ فَیَنْفَعُ نَفْسَهٗ وَیَتَصَدَّقُ.
تو اپنے ہاتھ سے کام کرکے خود نفع حاصل کرے اور صدقہ بھی دے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:
فَإِنْ لَمْ یَجِدْ؟
اگر یہ نہ کرسکے تو؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
یُعِینُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ.
مظلوم حاجت مند کی مدد کرے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:
فَإِنْ لَمْ یَجِدْ؟
اگر یہ بھی نہ کرسکے تو؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
فَلْیَعْمَلْ بِالْمَعْرُوفِ وَلْیُمْسِکْ عَنِ الشَّرِّ، فَإِنَّهَا لَهُ صَدَقَةٌ.
بخاری، الصحیح، کتاب الزکاة، باب علی کل مسلم صدقة، 2: 524، رقم: 1376
نیکی کے کام کرے اور برے کاموں سے رُکے تو اس کے لیے یہی صدقہ ہوگا۔
پس ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جس صورت میں بھی صدقہ کرنے کی استطاعت رکھے، حتی المقدور صدقہ کرے۔
جواب: صدقہ و خیرات پوشیدہ کیا جائے یا ظاہراً دونوں صورتیں جائز ہے اور یہ گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا ہے:
اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِیَ ج وَاِنْ تُخْفُوْهَا وَتُؤْتُوْهَا الْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ط وَیُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِنْ سَیِّاٰ تِکُمْ ط وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo
البقرة، 2: 271
اگر تم خیرات ظاہر کر کے دو تو یہ بھی اچھا ہے (اس سے دوسروں کو ترغیب ہوگی) اور اگر تم انہیں مخفی رکھو اور وہ محتاجوں کو پہنچا دو تو یہ تمہارے لیے (اور) بہتر ہے، اور اللہ (اس خیرات کی وجہ سے) تمہارے کچھ گناہوں کو تم سے دور فرما دے گا، اور اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفل صدقہ میں خفیہ صدقہ کو اعلانیہ صدقہ پر ستر (70) درجہ فضیلت دی ہے جب کہ واجب صدقہ (یعنی زکوٰۃ اور فطرانہ وغیرہ) میں خفیہ ادائیگی کو اِعلانیہ ادائیگی پر پندرہ گنا زیادہ فضیلت دی ہے۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ کون سا صدقہ افضل ہے۔ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
سِرٌّ إِلٰی فَقِیْرٍ، وَجُهْدٌ مِنْ مُقِلٍّ.
کسی تنگ دست کو خفیہ صدقہ دینا اور مفلوک الحال آدمی کے خون پسینے کی کمائی۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ کے دوران میں ارشاد فرمایا:
یَاأَیُّهَا النَّاسُ، تُوبُوْا إِلَی اللهِ قَبْلَ أَنْ تَمُوتُوا، وَبَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ الصَّالِحَۃِ قَبْلَ أَنْ تُشْغَلُوْا، وَصِلُوا الَّذِي بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ رَبِّکُمْ بِکَثْرَةِ ذِکْرِکُمْ لَهٗ وَکَثْرَۃِ الصَّدَقَۃِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِیَۃِ، تُرْزَقُوْا، وَتُنْصَرُوْا، وَتُجْبَرُوْا.
ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة، باب في فرض الجمعة، 1: 343، رقم: 1081
اے لوگو! مرنے سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کر لو، اور (موت کی سختی میں) مشغول کر دیے جانے سے قبل اعمال صالحہ میں جلدی کر لو۔ کثرتِ ذکر سے اپنے اور اپنے رب کے درمیان تعلق پیدا کرو، اسی طرح ظاہر و باہر اور پوشیدہ طور پر صدقہ کرو تو تمہیں رزق بھی دیا جائے گا اور تمہاری مدد بھی کی جائے گی۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَمَّا خَلَقَ اللهُ الْأَرْضَ جَعَلَتْ تَمِیْدُ، فَخَلَقَ الْجِبَالَ، فَعَادَ بِهَا عَلَیْهَا فَاسْتَقَرَّتْ، فَعَجِبَتِ الْمَلَائِکَۃُ مِنْ شِدَّۃِ الْجِبَالِ. قَالُوْا: یَا رَبِّ، هَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْئٌ أَشَدُّ مِنَ الْجِبَالِ؟ قَالَ: نَعَمْ! الْحَدِیدُ. قَالُوْا: یَا رَب! فَهَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْئٌ أَشَدُّ مِنَ الْحَدِیدِ؟ قَالَ: نَعَمْ! النَّارُ. فَقَالُوْا: یَا رَبِّ، فَهَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْئٌ أَشَدُّ مِنَ النَّارِ؟ قَالَ: نَعَمْ! اَلْمَاءُ. قَالُوْا: یَا رَبِّ، فَهَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْئٌ أَشَدُّ مِنَ الْمَاءِ؟ قَالَ: نَعَمْ! اَلرِّیْحُ. قَالُوْا: یَا رَبِّ، فَهَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْئٌ أَشَدُّ مِنَ الرِّیحِ؟ قَالَ: نَعَمْ! ابْنُ آدَمَ، تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ بِیَمِیْنِهٖ یُخْفِیْهَا مِنْ شِمَالِهٖ.
جب اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا فرمائی تو وہ ہلنے لگی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پیدا کیے اور انہیں زمین پر رکھ دیا چنانچہ وہ ٹھہر گئی۔ فرشتوں کو پہاڑوں کی شدت اور قوت پر تعجب ہوا، انہوں نے عرض کیا: اے پروردگار! تیری مخلوق میں پہاڑوں سے بھی طاقتور کوئی چیز ہے؟ فرمایا: ہاں! لوہا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رب! تیری مخلوق میں لوہے سے بھی زیادہ طاقت والی کوئی چیز ہے؟ فرمایا: ہاں! آگ ہے۔ انہوں نے پھر پوچھا: اے پروردگار! تیری مخلوق میں آگ سے بھی زیادہ طاقت والی کوئی چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں! پانی ہے۔ پھر عرض کیا: اے رب! تیری مخلوق میں پانی سے بھی زیادہ طاقتور کوئی چیز ہے؟ فرمایا: ہاں! ہوا ہے۔ پوچھا: ہوا سے بھی زیادہ سخت کوئی مخلوق ہے؟ فرمایا: ہاں انسان ہے۔ وہ اپنے داہنے ہاتھ سے صدقہ دیتا ہے اور بائیں ہاتھ سے پوشیدہ رکھتا ہے۔
نفلی صدقہ خفیہ طور پر ادا کرنا افضل ہے، البتہ کسی دینی مصلحت کے پیش نظر یا دوسروں کو مہمیز و ترغیب دینے کی خاطر اس کا اعلان کرنا افضل ہو جاتا ہے۔ بہر حال یہ امر ضرور ملحوظ خاطر رہے کہ اس اعلان میں ریاکاری نہ آنے پائے۔ کیونکہ اگر شہرت اور ریاکاری مقصود ہے تو نیکی برباد اور گناہ لازم ہے۔ لہٰذا صدقہ - خواہ فرض ہو یا نفل - جب صدقِ دل اور خلوصِ نیت سے ریاکاری سے مبرا ہوکر اللہ کے لیے دیا جائے تو ظاہر ہو یا اِعلانیہ، دونوں بہتر ہیں۔ تاہم صدقہ کا ظاہر کردینا افضل ہے اور نفل کا چھپا کر ادا کرنا بہتر ہے۔
جواب: احادیثِ مبارکہ میں اہل و عیال پر صدقہ کرنے کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے، بلکہ دوسروں کی نسبت اہل و عیال پر صدقہ کرنا زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
دِیْنَارٌ أَنْفَقْتَهٗ فِي سَبِیْلِ اللهِ، وَدِیْنَارٌ أَنْفَقْتَهٗ فِي رَقَبَةٍ، وَدِیْنَارٌ تَصَدَّقْتَ بِهٖ عَلٰی مِسْکِیْنٍ، وَدِینَارٌ أَنْفَقْتَهٗ عَلٰی أَھْلِکَ، أَعْظَمُھَا أَجْرًا الَّذِي أَنْفَقْتَهٗ عَلٰی أَھْلِکَ.
ایک دینار وہ ہے جسے تم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا، ایک دینار وہ ہے جسے تم نے غلام کی آزادی کے لیے خرچ کیا اور ایک دینار وہ ہے جسے تم نے مسکین پر صدقہ کیا اور ایک دینار وہ ہے جسے تم نے اپنے اہل خانہ پر خرچ کیا؛ ان میں سب سے زیادہ اجر اُس دینار پر ملے گا جسے تم نے اپنے اہل خانہ پر خرچ کیا۔
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کون سا صدقہ سب سے افضل ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
جُھْدُ الْمُقِلِّ، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ.
تنگ دست کے خون پسینے کی کمائی کا صدقہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اور اس سے شروع کر جس کی کفالت تیرے ذمہ ہے۔
3۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
أَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ بِالصَّدَقَۃِ، فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، عِنْدِي دِیْنَارٌ. قَالَ: فَقَالَ: تَصَدَّقْ بِهٖ عَلٰی نَفْسِکَ. قَالَ: عِنْدِي آخَرُ. قَالَ: تَصَدَّقْ بِهٖ عَلٰی وَلَدِکَ. قَالَ: عِنْدِي آخَرُ. قَالَ: تَصَدَّقْ بِهٖ عَلٰی زَوْجَتِکَ، أَوْ زَوْجِکَ. قَالَ: عِنْدِي آخَرُ. قَالَ: تَصَدَّقْ عَلٰی خَادِمِکَ: قَالَ: عَنْدِي آخَرُ. قَالَ: أَنْتَ أَبْصَرُ.
حضور نبی اکرم ﷺ نے صدقہ کرنے کا حکم فرمایا تو ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس ایک دینار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنے اوپر خرچ کر لو۔ اس نے عرض کیا: میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ فرمایا: اسے اپنی اولاد پر خرچ کر لو۔ عرض کیا: میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ فرمایا: اسے اپنی بیوی پر خرچ کر لو۔ عرض کیا: میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ فرمایا: اسے اپنے خادم پر خرچ کرو۔ عرض کیا: میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ فرمایا: جس کے لیے تم مناسب سمجھو (اس پر خرچ کرو)۔
4۔ حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلصَّدَقَةُ عَلَی الْمِسْکِیْنِ صَدَقَةٌ، وَھِيَ عَلٰی ذِي الرَّحِمِ ثِنْتَانِ: صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ.
کسی حاجت مند کو صدقہ دینا (صرف) ایک صدقہ ہے اور رشتہ دار کو صدقہ دینا دو صدقات (کے برابر) ہے: ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی۔
آج کل ہمارے معاشرے میں یہ اَخلاقی مرض بہت عام ہے کہ دوسرے غیر لوگوں پر تو بہت زیادہ نوازشات کی جاتی ہیں اور ان پر کثرت سے صدقہ و خیرات بھی کیا جاتا ہے لیکن اپنے غریب اور مستحق رشتہ داروں کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس کی وجوہات بھی کوئی ٹھوس نہیں ہوتیں بلکہ اکثر اوقات بدظنی و بدگمانی اور انا پرستی ہی اس بے اعتنائی و بے توجہی کا سبب بنتی ہیں۔ مثال کے طور پر غریب رشتہ دار نے صاحبِ ثروت رشتہ دار کے خلافِ منشا کوئی بات کر دی، اُس سے اختلافِ رائے کر لیا یا بالفرض اُس امیر رشتہ دار کے بارے میں کوئی بات ہی کر دی تو صاحبِ ثروت رشتہ دار دل میں رنجش پال لیتا ہے اور اپنے اس غریب رشتہ دار کی مدد کرنا اپنے اوپر حرام کرکے دوہرے اجر و ثواب کے باعث عمل خیر سے رک جاتا ہے۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم صدقہ و خیرات اس پر کریں گے جس سے ہم خود راضی ہوں گے نہ کہ جس پر خرچ کرنے کا حکم ہمیں اسلام دیتا ہے۔ گویا ہم صدقہ و خیرات کرکے غریب کو اپنا نیاز مند اور احسان مند بنانا چاہتے ہیں نہ کہ کما حقهٗ اَحکامِ اِلٰہی پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں۔ اس لیے جو غریب رشتہ دار ہمارے ذاتی معیار پر پورا نہیں اترتا، ہم اسے دھتکار دیتے ہیں چاہے وہ کتنا ہی مستحق کیوں نہ ہو۔ رشتہ دار کا عمل اس کے ذمہ ہے، جس سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ اس پر صدقہ و خیرات کرنے والے امیر رشتہ دار کو دوگنا اَجر و ثواب نہیں ملے گا۔ لہٰذا صدقہ و خیرات ہی نہیں بلکہ ہر نیک عمل کی بجاآوری میں محض اللہ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کی خوش نودی کو ہی پیش نظر رکھنا چاہیے اور کسی بھی عمل کی ادائیگی میں ذاتی پسند و ناپسند کو نہیں داخل کرنا چاہیے۔
جواب: شہرت اور ریاکاری کی نیت سے دیا گیا صدقہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہوگا بلکہ وبالِ جان بنے گا۔ دوسروں کو دکھانے یا ذاتی نمود و نمائش کے لیے کیا گیا کوئی بھی نیک عمل قطعی طور پر بارگاهِ اِلٰہ میں شرفِ قبولیت نہ پاسکے گا، بلکہ ایسا کرنے والوں کے لیے سخت وعید آئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَا یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط فَمَثَلُهٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَکَهٗ صَلْدًا ط لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْئٍ مِّمَّا کَسَبُوْا ط وَاللهُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَo
البقرة، 2: 264
اے ایمان والو! اپنے صدقات (بعد ازاں) احسان جتا کر اور دُکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روزِ قیامت پر، اس کی مثال ایک ایسے چکنے پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو پھر اس پر زوردار بارش ہو تو وہ اسے (پھر وہی) سخت اور صاف (پتھر) کر کے ہی چھوڑ دے، سو اپنی کمائی میں سے ان (ریاکاروں) کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا، اور اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں فرماتا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث مبارکہ میں ہے کہ سب سے پہلے جن تین اشخاص کو جہنم میں پھینکا جائے گا ان میں ایک ریاکار سخی ہوگا جو لوگوں کو دکھانے کے لیے اپنا مال خرچ کیا کرتا تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمانِ اَقدس ہے:
إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ یُقْضٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَیْهِ رَجُلٌ … وَسَّعَ اللهُ عَلَیْهِ وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ کُلِّهٖ، فَأُتِيَ بِهٖ فَعَرَّفَهٗ نِعَمَهٗ، فَعَرَفَهَا۔ قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِیهَا؟ قَالَ: مَا تَرَکْتُ مِنْ سَبِیلٍ تُحِبُّ أَنْ یُنْفَقَ فِیهَاِ إِلَّا أَنْفَقْتُ فِیهَا لَکَ. قَالَ: کَذَبْتَ، وَلٰـکِنَّکَ فَعَلْتَ لِیُقَالَ ’هُوَ جَوَّادٌ‘، فَقَدْ قِیلَ. ثُمَّ أُمِرَ بِهٖ، فَسُحِبَ عَلَی وَجْهِهٖ، ثُمَّ أُلْقِيَ فِي النَّارِ.
قیامت کے دن سب سے پہلے جس شخص کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا … وہ ہوگا جس پر اللہ تعالیٰ نے وسعت کی اور اس کو ہر قسم کا مال عطا کیا۔ اسے قیامت کے دن بلایا جائے گا اور وہ نعمتیں دکھائی جائیں گی۔ جب وہ ان نعمتوں کو پہچان لے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں سے کیا کام لیا؟ وہ کہے گا: میں نے (تیرا عطا کردہ مال) ہر اُس راستہ میں خرچ کیا جس راستہ میں مال خرچ کرنا تجھے پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بولتا ہے، تو نے یہ کام اس لیے کیے تاکہ تجھے سخی کہا جائے؛ سو (دنیا میں) تجھے سخی کہا گیا۔ پھر اس (ریا کار سخی) کو منہ کے بل جہنم میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا اور پھر اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔
ہمیں مال خرچ کرتے ہوئے یا کوئی بھی نیک عمل کرتے ہوئے ایسی سوچ ہرگز نہیں رکھنی چاہیے کہ لوگ ہمیں غنی کہیں یا ہمیں نیکو کار کہا جائے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف نیک عمل ضائع ہوجاتا ہے بلکہ الٹا اس کا وبال بھگتنا پڑے گا۔ لہٰذا نیکی کرتے ہوئے ہمیشہ ہر لحظہ اللہ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کی رضا پیشِ نظر رہے کیونکہ اسی سے وہ عمل مقبول اور باعث اَجر و ثواب ہوگا۔
جواب: جی نہیں! صدقہ دینے سے مال کبھی بھی کم نہیں ہوتا بلکہ بے پناہ بڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والے کے درجات بھی بلند فرماتا ہے۔
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَمَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ.
صدقہ مال میں کچھ بھی کمی نہیں کرتا، بندے کے معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت ہی بڑھاتا ہے اور جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کا درجہ ہی بلند فرماتا ہے۔
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
بَیْنَا رَجُلٌ بِفَـلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ، فَسَمِعَ صَوْتًا فِي سَحَابَةٍ: اسْقِ حَدِیْقَۃَ فُـلَانٍ فَتَنَحّٰی ذٰلِکَ السَّحَابُ. فَأَفْرَغَ مَائً فِي حَرَّةٍ فَإِذَا شَرْجَةٌ مِنْ تِلْکَ الشِّرَاجِ قَدِ اسْتَوْعَبَتْ ذٰلِکَ الْمَاءَ کُلَّهٗ فَتَتَبَّعَ الْمَاءَ، فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِي حَدِیْقَتِهٖ یُحَوِّلُ الْمَاءَ بِمِسْحَاتِهٖ، فَقَالَ لَهٗ: یَا عَبْدَ اللهِ، مَا اسْمُکَ؟ قَالَ: فُـلَانٌ؛ للِاِسْمِ الَّذِي سَمِعَ فِي السَّحَابَۃِ. فَقَالَ لَهٗ: یَا عَبْدَ اللهِ، لِمَ تَسْأَلُنِي عَنِ اسْمِي؟ فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ صَوْتًا فِي السَّحَابِ الَّذِي هٰذَا مَاؤُهٗ. یَقُولُ: اسْقِ حَدِیْقَۃَ فُـلَانٍ لِاسْمِکَ. فَمَا تَصْنَعُ فِیْهَا؟ قَالَ: أَمَّا إِذْ قُلْتَ هٰذَا، فَإِنِّي أَنْظُرُ إِلٰی مَا یَخْرُجُ مِنْهَا، فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِهٖ، وَآکُلُ أَنَا وَعِیَالِي ثُلُثًا، وَأَرُدُّ فِیْهَا ثُلُثَهٗ.
ایک مرتبہ ایک شخص نے جنگل میں بادل سے ایک آواز سنی کہ فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کرو۔ وہ بادل چل پڑا اور اس نے بجری والی زمین پر پانی برسایا، وہاں کے نالوں میں سے ایک نالہ بھر گیا، وہ شخص اس پانی کے پیچھے پیچھے گیا، وہاں ایک شخص باغ میں کھڑا ہوا اپنے پھاوڑے سے پانی کو اِدھر اُدھر کر رہا تھا، اس شخص نے باغ والے سے پوچھا: اے اللہ کے بندے! تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے اپنا وہی نام بتایا جو اس نے بادل سے سنا تھا، اس شخص نے پوچھا: اے بندئہ خدا! تم میرا نام کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس نے کہا: جس بادل نے اس باغ میں پانی برسایا ہے میں نے اس بادل سے یہ آواز سنی تھی: فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کرو۔ اس نے تمہارا نام لیا تھا، تم اس باغ میں کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا: اب جب تم نے یہ بتایا ہے تو سنو! میں اس باغ کی پیداوار پر نظر رکھتا ہوں، اس میں سے ایک تہائی کو میں صدقہ کرتا ہوں، ایک تہائی میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں اور باقی ایک تہائی کو میں اس باغ میں لگا دیتا ہوں۔
اِسلام کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر صدقہ و خیرات کرنے سے اَجر و ثواب ملتا ہے، درجات بھی بلند ہوتے ہیں، مال میں بے پناہ برکت پیدا ہوتی ہے اور غیبی طریقوں سے نصرتِ اِلٰہی ہوتی ہے۔
جواب: جی ہاں! ہر نیکی صدقہ ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کُلُّ مَعْرُوْفٍ صَدَقَةٌ.
ہر نیکی کا کام صدقہ ہے۔
2۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ ﷺ سے عرض کیا:
یَا رَسُولَ اللهِ! ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ بِالْأُجُورِ، یُصَلُّونَ کَمَا نُصَلِّي، وَیَصُومُونَ کَمَا نَصُومُ، وَیَتَصَدَّقُونَ بِفُضُولِ أَمْوَالِهِمْ.
یا رسول اللہ! مال والے تو اَجر و ثواب لوٹ کر لے گئے؛ وہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں، ہماری طرح روزے رکھتے ہیں، لیکن اپنے زائد مال میں سے صدقہ کرتے ہیں۔
اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
أَوَ لَیْسَ قَدْ جَعَلَ اللهُ لَکُمْ مَا تَصَّدَّقُونَ بِهٖ؟ إِنَّ بِکُلِّ تَسْبِیحَةٍ صَدَقَةً، وَکُلِّ تَکْبِیرَةٍ صَدَقَةً، وَکُلِّ تَحْمِیدَةٍ صَدَقَةً، وَکُلِّ تَهْلِیلَةٍ صَدَقَةً، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْيٌ عَنْ مُنْکَرٍ صَدَقَةٌ، وَفِي بُضْعِ أَحَدِکُمْ صَدَقَةٌ.
کیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھی صدقہ کا سبب نہیں بنایا! ہر تسبیح صدقہ ہے، ہر تکبیر صدقہ ہے اور ہر بار الحمد ﷲ کہنا صدقہ ہے، ہر بار لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ کہنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ ہے، حتی کہ عملِ تزویج بھی صدقہ ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر ہم میں سے کوئی شخص شہوت کی غرض سے عمل تزویج کرے تو کیا پھر بھی صدقہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
أَرَأَیْتُمْ لَوْ وَضَعَهَا فِي حَرَامٍ أَکَانَ عَلَیْهِ فِیهَا وِزْرٌ؟ فَکَذٰلِکَ إِذَا وَضَعَهَا فِي الْحَلَالِ کَانَ لَهٗ أَجْرًا.
مسلم، الصحیح، کتاب الزکاة، باب بیان أن اسم الصدقة یقع علی کل نوع من المعروف، 2: 697، رقم: 1006
کیوں نہیں! بھلا بتلاؤ اگر کوئی حرام طریقہ سے اپنی شہوت پوری کرتا تو کیا اسے گناہ نہ ہوتا؟ اسی طرح جب وہ حلال طریقہ سے اپنی شہوت پوری کرے گا تو اسے اجر ملے گا۔
3۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کُلُّ سُلَامٰی مِنَ النَّاسِ عَلَیْهِ صَدَقَةٌ، کُلَّ یَوْمٍ تَطْلُعُ فِیهِ الشَّمْسُ یَعْدِلُ بَیْنَ الاِثْنَیْنِ صَدَقَةٌ، وَیُعِینُ الرَّجُلَ عَلَی دَابَّتِهٖ، فَیَحْمِلُ عَلَیْهَا أَوْ یَرْفَعُ عَلَیْهَا مَتَاعَهٗ صَدَقَةٌ، وَالْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ صَدَقَةٌ وَکُلُّ خُطْوَةٍ یَخْطُوهَا إِلَی الصَّلَاۃِ صَدَقَةٌ، وَیُمِیطُ الْأَذٰی عَنْ الطَّرِیقِ صَدَقَةٌ.
بخاری، الصحیح، کتاب الجهاد والسیر، باب من أخذ بالرکاب ونحوه، 3: 1090، رقم: 2827
اِنسان کے ہر جوڑ پر روزانہ صدقہ واجب ہوجاتا ہے۔ سورج طلوع ہوتے ہی دو آدمیوں کے درمیان عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کرنا صدقہ ہے، کسی آدمی کو سوار ہونے میں مدد دینا یا اس کا سامان سواری پر رکھوا دینا بھی صدقہ ہے۔ اچھی بات کہہ دینا بھی صدقہ ہے، نماز کے لیے اٹھایا جانے والا ہر قدم بھی صدقہ ہے اور تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔
مذکورہ بالا اَحادیث مبارکہ سے صدقہ کا وسیع مفہوم واضح ہوتا ہے کہ اِسلام میں ہر عملِ خیر ہی کسی نہ کسی طرح صدقہ کے زُمرے میں آتا ہے۔
جواب: صدقہ جاریہ سے مراد ایسا عمل صالح کرنا ہے کہ جس کا نفع باقی رہنے والا ہو اور اس کا اجر ’کرنے والے‘ کو اُس کی زندگی میں بھی ملے گا اور بعد ازاں جو اس پر عمل کریں گے ان کے عمل کے باعث بھی اسے مسلسل اجر ملتا رہے گا لیکن ان بعد میں عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ مِمَّا یَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهٖ وَحَسَنَاتِهٖ بَعْدَ مَوْتِهٖ عِلْمًا عَلَّمَهٗ وَنَشَرَهٗ، وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَکَهٗ، وَمُصْحَفًا وَرَّثَهٗ، أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ، أَوْ بَیْتًا لِابْنِ السَّبِیلِ بَنَاهُ، أَوْ نَهْرًا أَجْرَاهُ، أَوْ صَدَقَةً أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهٖ فِي صِحَّتِهٖ وَحَیَاتِهٖ یَلْحَقُهٗ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهٖ.
مومن کے مرنے کے بعد اس کی نیکیوں اور اعمال میں سے جو چیزیں اسے نفع دیتی ہیں: ایک تو ان میں سے علم ہے جس کی وہ تعلیم دے اور پھیلائے، دوسرا نیک بیٹا ہے جسے وہ چھوڑ کر مرا ہو، تیسرا قرآن ہے کہ اس نے کسی کو اس کا وارث بنایا ہو، چوتھی مسجد ہے جس کی اس نے تعمیر کی ہو، پانچواں وہ مکان ہے جو اس نے مسافروں کے قیام کے لیے بنایا ہو، چھٹی وہ نہر ہے جو اس نے جاری کی ہو، ساتواں وہ صدقہ ہے جو اس نے اپنی زندگی میں اور بحالتِ صحت اللہ کی راہ میں دیا ہو۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو موت کے بعد بھی اس سے ملتی رہتی ہیں۔
یاد رکھیے کہ کسی بھی اعمال صالحہ کی ادائیگی میں کسی شخص کی زندگی یا بعد اَز وفات دوسرے لوگ بھی شامل ہوئے تو ان کے اجر میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی۔ مثلاً کسی نے مسجد بنوائی اور اس میں لوگ نماز پڑھتے رہیں گے تو جب تک اس میں نماز ہوتی رہے گی اس کا ثواب خود بخود مسجد بنانے والے کو ملتا رہے گا اور نماز پڑھنے والوں کو بھی۔ اسی طرح اگر کوئی اپنا مال اللہ کی راہ میں اس انداز سے خرچ کرتا ہے کہ اس سے مسافر خانہ بنوادے جس سے عامۃ الناس استفادہ کرتے رہے تو بنوانے والے کو ثواب ملتا رہے گا۔ اگر کسی نے ٹھنڈے پانی کا کولر رفاهِ عامہ کے لیے لگا دیا تو جب تک لوگ اس سے پانی پیتے رہیں گے کولر لگوانے والے کو اس کا اجر ملتا رہے گا۔ اگر کسی نے وضو خانہ بنوا دیا تو جب تک نمازی وہاں وضو کرتے رہیں گے وضو کرنے والے اور وضو خانہ بنوانے والے دونوں کو اس کا اجر ملے گا یہاں تک کہ بنوانے والا اگر مر جائے تو اس کو مرنے کے بعد بھی اس کا ثواب پہنچتا رہے گا۔
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهٗ إِلَّا مِنْ ثَـلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِیَةٍ أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِهٖ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَهٗ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں لیکن تین عمل منقطع نہیں ہوتے: صدقہ جاریہ، علم نافع اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہتی ہے۔
جواب: قرض حسنہ اس قرض کو کہتے ہے جو صاحبِ مال کسی ضرورت مند، غریب یا محتاج فرد کو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے دیتا ہے۔ اس میں وہ اپنے لیے کوئی فائدہ، لالچ، مالی منفعت، بدل یا سود کے حصول کی ہرگز ہرگز نیت نہیں رکھتا بلکہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اجر کی امید رکھتا ہے۔
جواب: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہے۔ وہ اپنی دی ہوئی نعمتوں میں سے اگر کچھ واپس بھی لیتا ہے تو بدلے میں اس سے بہتر نعمت سے نوازتا ہے بشرطیکہ بندہ اس کی رضا پر راضی رہے اور حرفِ شکایت زبان پر نہ لائے۔ یہ صدقہ و خیرات کی ہی فضیلت ہے کہ اللہ نے اپنی راہ میں خرچ کیے گئے مال کو اپنے ذمہ قرضِ حسنہ سے تعبیر فرمایا ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ کسی کا قرض باقی رہے! قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
1۔ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَةً ط وَاللهُ یَقْبِضُ وَیَبْصُطُ وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَo
البقرة، 2: 245
کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے پھر وہ اس کے لیے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اللہ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
2۔ اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ وَاَقْرَضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌo
الحدید، 57: 18
بے شک صدقہ و خیرات دینے والے مرد اور صدقہ و خیرات دینے والی عورتیں اور جنہوں نے اللہ کو قرضِ حسنہ کے طور پر قرض دیا ان کے لیے (صدقہ و قرضہ کا اجر) کئی گنا بڑھا دیا جائے گا اور اُن کے لیے بڑی عزت والا ثواب ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کی یہی ایک شکل ہے کہ اس کی راہ میں اپنا پسندیدہ مال خرچ کیا جائے جس کے بدلے میں نہ صرف بے اندازہ مال ملے گا بلکہ بے پناہ اجر و ثواب کے ساتھ ساتھ درجات میں بلندی بھی نصیب ہوگی۔
جواب: اسلام میں قرض حسنہ معاف کرنے یا اس کی وصولی میں مہلت، سہولت اور آسانی فراہم کرنے والے کے لیے زیادہ اجر و ثواب کی نشان دہی کی گئی ہے۔ قرآن حکیم فرماتا ہے:
وَاِنْ کَانَ ذُوْعُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰی مَیْسَرَةٍ ط وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo
البقرة، 2: 280
اور اگر قرض دار تنگ دست ہو تو خوش حالی تک مہلت دی جانی چاہیے، اور تمہارا (قرض کو) معاف کر دینا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں معلوم ہو (کہ غریب کی دِل جوئی اللہ کی نگاہ میں کیا مقام رکھتی ہے)۔
یہ اَمر ضرور ذہن نشین رہے کہ جہاں قرضِ حسنہ دینا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے وہیں قرض لینے والے کے لیے اس کی واپسی بھی اَز حد ضروری ہے۔ کیونکہ قرض ایسی شے ہے کہ مرنے والے کے ترکہ کی تقسیم سے بھی قبل اس کے ذمہ واجب الادا قرض ادا کرنے کا حکم ہے۔ ثانیاً قرض مرنے کے بعد بھی معاف نہیں ہوتا اِلا یہ کہ قرض دینے والا خود معاف نہ کردے۔ لہٰذا انتہائی ناگزیر صورت میں ہی قرض لینا چاہیے اور جلد اَز جلد اسے واپس کردینا چاہیے۔
جواب: اِسلام معاشرتی تعلق و روابط کی اُستواری پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ معاشرے میں باہمی مودّت و محبت اور یگانگت پیدا کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور معاوِنت کی نمایاں اَہمیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِسلام تنگ دستوں کی مدد اور حاجت روائی کرنے والوں کی بہت فضیلت بیان کرتا ہے۔
1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ کَانَ فِي حَاجَةِ أَخِیْهِ کَانَ اللهُ فِي حَاجَتِهٖ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَةً فَرَّجَ اللهُ عَنْهُ بِهَا کُرْبَةً مِنْ کُرُبَاتِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ.
جو شخص اپنے کسی (مسلمان) بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی مشکل حل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل فرمائے گا۔
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ کُرْبَةً مِنْ کُرَبِ الدُّنْیَا نَفَّسَ اللهُ عَنْهُ کُرْبَةً مِنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَمَنْ یَسَّرَ عَلَی مُعْسِرٍ یَسَّرَ اللهُ عَلَیْهِ فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِیْهِ.
جو شخص کسی مسلمان کی کوئی دنیاوی تکلیف دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل کرے گا جو شخص دنیا میں کسی تنگ دست کے لیے آسانی پیدا کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانی پیدا فرمائے گا اور جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ (اس وقت تک) اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے۔ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔
3۔ حضرت اَنس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا یَزَالُ اللهُ فِي حَاجَۃِ الْعَبْدِ مَا دَامَ فِي حَاجَۃِ أَخِیْهِ.
بخاری، التاریخ الکبیر، 6: 404، رقم: 2793
طبرانی نے ’المعجم الکبیر (5: 118، رقم: 4802)‘ میں اسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
دیلمی نے ’الفردوس (5: 91، رقم: 7560)‘ میں اسے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کے کام میں (مدد کرتا) رہتا ہے جب تک بندہ اپنے (مسلمان) بھائی کے کام میں (مدد کرتا) رہتا ہے۔
4۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ لِلّٰهِ خَلْقًا خَلَقَهُمْ لِحَوَائِجِ النَّاسِ یَفْزَعُ النَّاسُ إِلَیْهِمْ فِي حَوَائِجِهِمْ أُوْلَئِکَ الْآمِنُوْنَ مِنْ عَذَابِ اللهِ.
اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی مخلوق ہے جنہیں اس نے لوگوں کی حاجت روائی کے لیے پیدا فرمایا ہے، لوگ اپنی حاجات (کے سلسلہ) میں دوڑے دوڑے ان کے پاس آتے ہیں یہ (وہ لوگ ہیں جو) اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔
یعنی اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق کی مدد اور حاجت روائی اس قدر پسند ہے کہ اس نے اپنی مخلوق کی مدد و اِعانت کے لیے کچھ بندوں کو مامور کیا ہوا ہے جن کے ذمہ صرف دوسروں کی مدد کرنا ہوتا ہے۔
5۔ حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین دونوں سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ مَشٰی فِي حَاجَۃِ أَخِیْهِ الْمُسْلِمِ حَتّٰی یُتِمَّھَا لَهٗ، أَظَلَّهُ اللهُ بِخَمْسَۃِ آلَافٍ (وفي روایۃ: بِخَمْسَةٍ وَسَبْعِیْنَ أَلْفَ) مَلَکٍ یَدْعُوْنَ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْهِ، إِنْ کَانَ صَبَاحًا حَتّٰی یُمْسِي وَإِن کَانَ مَسَاءً حَتّٰی یُصْبِحَ؛ وَلَا یَرْفَعُ قَدَمًا إِلَّا کُتِبَتْ لَهٗ بِھَا حَسَنَةٌ، وَلَا یَضَعُ قَدَمًا إِلَّا حَطَّ اللهُ عَنْهُ بِهَا خَطِیْئَةً.
جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کے کام کے سلسلہ میں چل پڑا یہاں تک کہ اسے پورا کردے تو اللہ تعالیٰ اس پر پانچ ہزار - اور ایک روایت کے مطابق پچھہتر ہزار - فرشتوں کا سایہ فرما دیتا ہے جو اس کے لیے اگر دن ہو تو رات ہونے تک اور رات ہو تو دن ہونے تک دعائیں کرتے رہتے ہیں اور اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں۔ اس کے اٹھنے والے ہر قدم کے بدلے اس کے لیے نیکی لکھ دی جاتی ہے اور اس کے (اپنے مسلمان بھائی کی مشکل کو حل کرنے کے لیے) اٹھنے والے ہر قدم کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔
ان احادیث مبارکہ سے عیاں ہوتا ہے کہ دوسروں کی مدد کرنا اور ان کے کام آنا کتنا عظیم کام ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں افرا تفری، بے یقینی اور خود غرضی کی کیفیات اسی لیے بڑھتی جارہی ہیں کہ ہم نے دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھنا اور ان کے دکھ کو بانٹنا چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے حسی بڑھتی جارہی ہے اور ہر جا نفسا نفسی کا عالم ہے، کسی کو ہمسائے کی خبر نہیں ہوتی کہ کون جیا اور کون مرا چہ جائیکہ ہمسائے کے دکھ درد میں شریک ہوا جائے۔ لہٰذا حقیقی اِسلامی معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ اِسلامی تعلیمات پر انفرادی و اجتماعی ہر دو سطحوں پر عمل پیرا ہوا جائے اور ایک دوسرے کی اَخلاقی، عملی اور مالی ہر طرح کی مدد کی جائے۔
جواب: اِسلام معاشرتی تعلق و روابط کی اُستواری پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ معاشرے میں باہمی مودّت و محبت اور یگانگت پیدا کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور معاوِنت کی اَہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اِسلام تنگ دستوں کی مالی مدد کی بہت ترغیب دیتا ہے تاکہ ضرورت مندوں کی حاجات پوری ہوسکیں۔ لیکن اگر کوئی زیادہ استطاعت نہ رکھتا ہو تو حاجت مند کو قرضِ حسنہ ہی دے دے تاکہ اس کی مشکل دور ہوسکے۔ اِسلام نے قرضِ حسنہ دینے کے بھی بعض قواعد بیان فرمائے ہیں کہ قرض دینے کے بعد مقروض کے گرد گھیرا تنگ نہ کیا جائے بلکہ اسے قرض سے سبک دوش ہونے کے لیے مکمل آسانی فراہم کی جائے۔
1۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تَلَقَّتِ الْمَلَائِکَۃُ رُوْحَ رَجُلٍ مِمَّنْ کَانَ قَبْلَکُمْ. فَقَالُوْا: أَعَمِلْتَ مِنَ الْخَیْرِ شَیْئًا؟ قَالَ: لَا. قَالُوْا: تَذَکَّرْ. قَالَ: کُنْتُ أُدَایِنُ النَّاسَ فَآمُرُ فِتْیَانِي: أَنْ یُنْظِرُوْا الْمُعْسِرَ وَیَتَجَوَّزُوْا عَنِ الْمُوْسِرِ. قَالَ ﷺ: قَالَ اللهُ تعالیٰ: تَجَوَّزُوْا عَنْهُ.
تم سے پہلی اُمتوں کا واقعہ ہے کہ فرشتوں نے ایک شخص کی روح قبض کی اور پوچھا: کیا تم نے کوئی نیک کام کیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ فرشتوں نے کہا: یاد کرو۔ اس نے کہا: میں لوگوں کو قرض دیتا تھا اور اپنے نوکروں سے کہتا تھا کہ تنگ دست کو مہلت دینا اور مالدار سے درگزر کرنا۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا: اس سے درگزر کرو۔
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کَانَ تَاجِرٌ یُدَایِنُ النَّاسَ، فَإِذَا رَأَی مُعْسِرًا، قَالَ لِفِتْیَانِهِ: تَجَاوَزُوا عَنْهُ لَعَلَّ اللهَ أَنْ یَتَجَاوَزَ عَنَّا فَتَجَاوَزَ اللهُ عَنْهُ.
ایک تاجر لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا۔ جب کسی کو تنگ دست دیکھتا تو اپنے خادموں سے کہتا: اس سے درگزر کرو، شاید اللہ تعالیٰ ہم سے درگزر فرمائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اُسے معاف کر دیا۔
’سنن نسائی‘ میں یہی حدیث کچھ تفصیل کے ساتھ یوں بیان ہوئی ہے:
عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی الله عنه، عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا لَمْ یَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ وَکَانَ یُدَایِنُ النَّاسَ. فَیَقُولُ لِرَسُولِهِ: خُذْ مَا تَیَسَّرَ وَاتْرُکْ مَا عَسُرَ، وَتَجَاوَزْ لَعَلَّ اللهَ تَعَالَی أَنْ یَتَجَاوَزَ عَنَّا. فَلَمَّا هَلَکَ، قَالَ اللهُ تعالیٰ لَهُ: هَلْ عَمِلْتَ خَیْرًا قَطُّ؟ قَالَ: لَا، إِلَّا أَنَّهُ کَانَ لِي غُلَامٌ، وَکُنْتُ أُدَایِنُ النَّاسَ، فَإِذَا بَعَثْتُهُ لِیَتَقَاضَی، قُلْتُ لَهُ: خُذْ مَا تَیَسَّرَ وَاتْرُکْ مَا عَسُرَ، وَتَجَاوَزْ لَعَلَّ اللهَ یَتَجَاوَزُ عَنَّا. قَالَ اللهُ تَعَالَی: قَدْ تَجَاوَزْتُ عَنْکَ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک شخص نے اس کے سوا بھلائی کا کوئی کام نہیں کیا تھا مگر یہ کہ وہ لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا۔ (جب قرض واپس لینا مقصود ہوتا تو) وہ اپنے ایلچی سے کہتا: جہاں سے آسانی سے موصول ہو وہاں سے وصول کرو لیکن جہاں مقروض مفلس اور تنگ دست ہو تو چھوڑدو اور اُس سے درگزر کرو، شاید اللہ تعالیٰ ہماری خطاؤں اور لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ جب وہ فوت ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا: کیا تو نے کوئی نیکی کی تھی؟ اس شخص نے عرض کیا: نہیں، مگر میرا ایک خادم تھا اور میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا۔ جب میں اس خادم کو قرض کی وصولی کے لیے بھیجتا تو اُسے ہدایت کرتا کہ آسانی سے ملے تو لے لینا اور جہاں دشواری ہو چھوڑ دینا اور معاف کرنا، شاید اللہ تعالیٰ بھی ہمیں معاف فرما دے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے تجھے معاف کر دیا۔
مفلس اور تنگ دست مقروض لوگوں سے صرفِ نظر کرنے اور انہیں سہولیات بہم پہنچانے کے صلہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ کی مغفرت فرما دی کیونکہ اس نے اس کی مخلوق کو فائدہ پہنچایا تھا۔
3۔ ’صحیح مسلم‘ میں ہے کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک قرض دار سے قرض کا مطالبہ کیا تو وہ ان سے چھپ گیا۔ بعد ازاں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ اس سے ملے تو اس نے کہا: میں ایک غریب آدمی ہوں، ابھی قرض نہیں لوٹا سکتا۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: بخدا! کیا یہ درست ہے؟ اس نے کہا: ہاں! خدا کی قسم۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
مَنْ سَرَّهٗ أَنْ یُنْجِیَهُ اللهُ مِنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَلْیُنَفِّسْ عَنْ مُعْسِرٍ أَوْ یَضَعْ عَنْهُ.
مسلم، الصحیح، کتاب المساقاة والمزارعة، باب فضل النظار المعسر، 3: 1196، رقم: 1563
جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے یوم قیامت کی تکلیفوں سے نجات دے تو وہ کسی (مقروض) مفلس کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کردے۔
4۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَرَادَ أَنْ تُسْتَجَابَ دَعْوَتُهٗ وَأَنْ تُکْشَفَ کُرْبَتُهٗ فَلْیُفَرِّجْ عَنْ مُعْسِرٍ.
احمد بن حنبل، المسند، 2: 23، رقم: 4749
جو آدمی چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے اور اس کی مشکلات دور کی جائیں تو اسے چاہیے کہ وہ (مقروض) تنگ دست کے لیے آسانی پیدا کرے۔
مقروض تنگ دست کے لیے سہولت پیدا کرنے کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں کہ یا تو قرض خواہ خود اسے رعایت دیتے ہوئے اس کا قرض معاف کردے یا کوئی صاحبِ ثروت مقروض کے ذمہ واجب الادا قرض ادا کردے۔ دونوں صورتوں میں ہی اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنا ہے جس سے قربِ اِلٰہی نصیب ہوتا ہے۔
جواب: جس طرح قرضِ حسنہ دینے کی حوصلہ افزائی اور پھر اس میں مفلس و نادار مقروض کو مہلت یا معاف کر دینے پر انعام و اکرام دینے کی خوش خبری دی گئی ہے، اسی طرح قرض ادا نہ کرنے والوں کو بھی عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
1۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
یُغْفَرُ لِلشَّهِیدِ کُلُّ ذَنْبٍ إِلَّا الدَّیْنَ.
قرض کے سوا شہید کے سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
2۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الدَّیْنَ یُقْضٰی مِنْ صَاحِبِهٖ یَوْمَ الْقِیَامَةِ.
قیامت کے دن مقروض سے قرض ادا کرایا جائے گا۔
3۔ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
عَلَی الْیَدِ مَا أَخَذَتْ حَتّٰی تُؤَدِّيَ.
عاریتاً لی ہوئی شے کی ذمہ داری ہے جب تک کہ واپس نہ کر دی جائے۔
قرض حقوق العباد میں سے ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ بھی یہ حق معاف نہیں فرماتا۔ پس جلد اَز جلد اِسے ادا کرنا چاہیے۔ کیا معلوم کب موت اُچک لے جائے اور بعد میں کوئی قرض ادا بھی کرے یا نہ کرے۔ لہٰذا اپنا قرض خود ہی پہلی ترجیح کے طور پر ادا کردینا چاہیے۔
جواب: صدقہ فطر مالی اِنفاق ہے جس کا حکم حضورنبی اکرم ﷺ نے زکوٰۃ سے پہلے اس سال دیا جب رمضان کا روزہ فرض ہوا۔ صدقہ فطر غریبوں اور مسکینوں کو دیا جاتا ہے۔ اسے فطرانہ بھی کہتے ہیں۔ یہ ادا کرنا ہر مال دار شخص کے لیے ضروری ہے تا کہ غریب اور مسکین لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ علاوہ ازیں صدقہ فطر روزے دار کو فضول اور فحش حرکات سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
فَرَضَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ زَکَاۃَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاکِینِ.
رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کو واجب فرمایا جو روزہ دار کو لغویات اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے والا ہے اور غریبوں کی غذا کے لیے ہے۔
جواب: صدقہ فطر تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:
فَرَضَ رَسُولُ اللهِ ﷺ زَکَاۃَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیرٍ عَلَی الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّکَرِ وَالْأُنْثٰی وَالصَّغِیرِ وَالْکَبِیرِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ.
رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو کی مقدار ہر (صاحبِ اِستطاعت) غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان پر واجب فرمایا ہے۔
اِسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا صَدَقَةَ إِلَّا عَنْ ظَهْرِ غِنًی.
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 230، رقم: 7155
صدقہ فطر ہر تونگر پر (واجب) ہے۔
شرع کی رُو سے تونگر ایسے شخص کو کہتے ہیں جس پر زکوٰۃ واجب ہو یا اس پر زکوٰۃ تو واجب نہ ہو لیکن اس کے پاس ضروری اسباب (جیسے گھر، کپڑے اور گھر کا سامان وغیرہ) ہو کہ جتنی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے۔ خواہ وہ تجارت کا مال ہو یا نہ ہو اور خواہ اس پر سال گزرے یا نہ گزرے، ایسی صورت میں اس شخص پر صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے۔
جواب: صدقہ فطر کے بارے میں اَصل حکم تو یہی ہے کہ نمازِ عید سے پہلے ادا کیا جائے تاکہ فقراء و مساکین اور نادار لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں اور عید کے دن سوال کرنے سے مستغنی ہوجائیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ لوگ نمازِ عید کے لیے نکلنے سے پہلے صدقہ فطر ادا کر دیں۔ لیکن اگر کوئی شخص صدقہ فطر کسی مجبوری کے باعث نمازِ عید سے پہلے ادا نہ کر سکا اور بعد میں ادا کیا تو اُس نے اَفضل کو ترک کیا کیونکہ صدقہ فطر سے مقصود فقیروں کو دستِ سوال دراز کرنے سے بے نیاز کرنا ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے:
أُغْنُوْهُمْ فِی هٰذَا الْیَوْم.
دارقطنی، السنن، 2: 152، رقم: 67
اس دن فقیروں کو (دستِ سوال دراز کردینے سے) بے نیاز کردو۔
جوں جوں فطرانہ میں تاخیر ہوگی، مقصد بعید ہوتا جائے گا۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ فطرانہ کی رقم رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتے ہی ادا کر دی جائے تا کہ مستحقین اور فقراء و مساکین عید کی خوشیوں میں دوسروں کے ساتھ بھرپور شرکت کرسکیں۔
جواب: صدقہ فطر کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں:
1۔ صدقہ فطر ادا کرنے سے حکم شرعی پر عمل کرنے کا ثواب ملتا ہے۔
2۔ صدقہ فطر روزوں کو کمی کوتاہی سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔
3۔ صدقہ فطر دینے سے ناداروں اور مفلسوں کی کفالت ہو جاتی ہے اور وہ بھی عید کی خوشیوں میں بھرپور شرکت کرتے ہیں۔
جواب: صدقہ و خیرات وہ مال ہے جو اللہ کی رضا کے لیے غریب و مسکین لوگوں کو دیا جاتا ہے۔ راهِ خدا میں صدقہ و خیرات کرنے کا بہت زیادہ اجر و ثواب ہے اور دنیا و آخرت میں اس کے بے شمار فوائد ہیں۔ رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات کی فضیلت کا علم ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ کی متعدد احادیثِ مبارکہ سے ملتا ہے۔
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
صَدَقَةٌ فِی رَمَضَانَ.
رمضان میں صدقہ کرنا اَفضل ہے۔
2۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
کَانَ النَّبِيُّ ﷺ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَیْرِ، وَکَانَ أَجْوَدُ مَا یَکُونُ فِي رَمَضَانَ حِینَ یَلْقَاهُ جِبْرِیلُ، وَکَانَ جِبْرِیلُ علیه السلام یَلْقَاهُ کُلَّ لَیْلَةٍ فِي رَمَضَانَ حَتّٰی یَنْسَلِخَ یَعْرِضُ عَلَیْهِ النَّبِيُّ ﷺ الْقُرْآنَ، فَإِذَا لَقِیَهُ جِبْرِیلُ علیه السلام کَانَ أَجْوَدَ بِالْخَیْرِ مِنَ الرِّیحِ الْمُرْسَلَۃِ.
بخاری، الصحیح، کتاب الصوم، باب أجود ما کان النبی ﷺ یکون فی رمضان، 2: 672، رقم: 1803
حضور نبی اکرم ﷺ بھلائی کرنے میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ کی سخاوت اُس وقت اور بڑھ جاتی جب جبرئیل علیہ السلام آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں حاضر ہوتے یہاں تک کہ وہ گزر جاتا۔ حضور نبی اکرم ﷺ اُنہیں قرآن حکیم سناتے اور حضرت جبریل علیہ السلام کی ملاقات کے وقت تو آپ ﷺ کی سخاوت تیز ہوا کے جھونکے سے بھی بڑھ جاتی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved