Silsila Ta‘limat-e-Islam (8): Zakat awr Sadaqat (Fazail o Masail)

3۔ مسائلِ عُشر، معادِن اور رِکاز

سوال 90: عُشر کسے کہتے ہیں؟

جواب: عُشر دسویں حصہ کو کہتے ہیں جو زرعی پیداوار پر لیا جاتا ہے اور نصف عُشر یعنی بیسواں حصہ بھی اس اطلاق میں شامل ہے۔ دراصل عُشر زکوٰۃ کی طرح ایک ایسا مقررہ حصہ ہے جو زرعی پیداوار پر دینا واجب ہوتا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

فِیمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُیُونُ أَوْ کَانَ عَثَرِیًّا الْعُشْرُ؛ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ.

بخاری، الصحیح، کتاب الزکاة، باب العشر فیما یسقی من ماء السمآء، وبالمآء الجاری، 2: 540، رقم: 1412

وہ زمین جسے آسمان یا چشمہ سیراب کرتا ہو یا وہ خود بخود نمی کی وجہ سے سیراب ہو جاتی ہو تو اس کی پیداوار میں دسواں حصہ زکوٰۃ ہے؛ اور جسے کنوئیں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو اس کی پیداوار میں بیسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔

سوال 91: عُشر کا نصاب کیا ہے؟

جواب: عُشر کا کوئی نصاب مقرر نہیں اور نہ ہی سال گزرنا شرط ہے۔ اگر کوئی زمین سال میں تین، چار فصلیں بھی دے تو اس زرعی پیدوارپر اتنی ہی بار عُشر لازم ہوگا۔ پیدوار قلیل ہو یا کثیر، سب میں عُشر واجب ہے۔

اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ.

البقرة، 2: 267

اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے (اللہ کی راہ میں) خرچ کیا کرو۔

سوال 92: زمین کے عُشری ہونے کی کتنی صورتیں ہیں؟

جواب: زمین کے عُشری ہونے کی درج ذیل صورتیں ہیں:

1۔ مسلمان کا مکان جو کھیت یا باغ بن گیا۔

2۔ کاشت ہونے والی زمین عُشری کے قریب ہے۔

3۔ عُشری و خَراجی زمین سے یکساں قریب کاشت ہونے والی زمین۔

4۔ دور اُفتادہ غیر آباد زمین جسے مسلمان نے آباد کیا ہو۔

5۔ غیر مسلم لاوارث بچے کے مرنے کے بعد اس کی زمین مسلمان کے قبضہ میں آجائے۔

6۔ مفتوحہ اَراضی جو شرکائِ جنگ میں تقسیم کی گئی۔

7۔ اِسلام قبول کرنے والوں کی زمینیں۔

درج بالا تمام صورتوں میں عُشر یا نصف عُشر واجب ہوگا۔

سوال 93: خَراج کسے کہتے ہیں؟

جواب: اسلامی ریاست اپنی حدود میں آنے والے غیر مسلموں سے جو ٹیکس وصول کرتی ہے اسے خَراج کہتے ہیں۔

حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اُنہیں بحرین یا ہجر کی جانب روانہ فرمایا۔ وہاں حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ اُس باغ سے جس میں ایک مسلمان اور ایک کافر شریک ہوتا تو مسلم سے عُشر اور کافر سے خَراج لیتے۔

ابن ماجه، السنن، کتاب الزکاة، باب العشر والخَراج، 2: 405، رقم: 1831

اس کی خاص شرح مقرر نہیں بلکہ حاکم وقت غیر مسلموں کی مالی حالت کے مطابق اس شرح میں کمی بیشی کرنے کا مجاز ہے، جیسا کہ روایات میں درج ہے کہ شام کے کفار کی مالی حیثیت مستحکم تھی تو ان سے سالانہ چار دینار اور یمن کے کفار - جو اچھی مالی حیثیت کے مالک نہیں تھے - سے ایک دینار سالانہ وصول کیا جاتا تھا۔ آج بھی ٹیکس عائد کرتے وقت پوری دنیا کی حکومتیں اس بنیادی اصول کو مد نظر رکھتی ہیں کہ کون کتنا ٹیکس ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ زکوٰۃ و عُشر میں عبادت کا پہلو بھی پایا جاتا ہے جبکہ جزیہ اور خَراج خالصتاً ٹیکس ہیں، ان کا عبادت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔

سوال 94: زمین کے خَراجی ہونے کی کتنی صورتیں ہیں؟

جواب: زمین کے خَراجی ہونے کی بہت سی صورتیں ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

مثلاً کوئی علاقہ فتح ہوا تو زمین وہاں کے رہائشیوں کو احسان کے طور پر دے دی گئی، یا وہ ملک صلح کے طور پر فتح ہوا، یا ذِمّی نے مسلمانوں سے عُشری زمین خرید لی تو ان صورتوں میں زمین خَراجی ہے۔

جو زمین بیت المال کی ملکیت ہوگئی تو وہ عُشری ہے نہ خَراجی۔

سوال 95: کیا شہد میں عُشر واجب ہے؟

جواب: جی ہاں! اگر شہد عُشری زمینوں میں پایا جائے تو اس پر عُشر واجب ہوگا جبکہ خَراجی زمین میں پائے جانے کی صورت میں عُشر واجب نہیں ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:

حضور نبی اکرم ﷺ نے شہد سے عُشر لیا۔

ابن ماجه، السنن، کتاب الزکاة، باب زکاة العسل، 1: 584، رقم: 1824

البتہ اگر شہد خَراجی زمینوں یا پہاڑوں، جنگلوں یا باغوں وغیرہ میں ملے گا تو اس میں عُشر نہیں ہوگا کیونکہ اس صورت میں وہ جنگلی پھل کی مانند ہوگا۔ لیکن اگر مسلمان اپنے گھر میں باغ بنائے تو اس کے عُشر کا حکم اس کے پانی کے ساتھ ہوگا۔ اگر عُشر کا پانی دے تو عُشر اور اگر خَراج کا پانی دے تو خَراج مگر غیر مسلم جیسا بھی پانی دے اسے خَراج ہی دینا ہوگا۔

سوال 96: غلّہ جات، اَجناس اور پھلوں پر زکوٰۃ کی فرضیت کا کیا حکم ہے؟

جواب: غلّہ جات، اَجناس اور پھلوں پر زکوٰۃ کی فرضیت قرآن وسنت، اِجماع اور عقلی دلائل سے واجب ہے۔

قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

کُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ وَلَا تُسْرِفُوْا ط اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَo

الأنعام، 6: 141

جب (یہ درخت) پھل لائیں تو تم ان کے پھل کھایا (بھی) کرو اور اس (کھیتی اور پھل) کے کٹنے کے دن اس کا (اللہ کی طرف سے مقرر کردہ) حق (بھی) ادا کر دیا کرو اور فضول خرچی نہ کیا کرو، بے شک وہ بےجا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اس سے فرض زکوٰۃ مراد ہے۔

  1. طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 8: 54
  2. ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 2: 182
  3. ابن عبد البر، التمہید، 20: 154

جب کہ دوسری روایت میں فرمایا: اس سے عُشر اور نصف عُشر مراد ہے۔

  1. سعید بن منصور، السنن، 5: 102، رقم: 928
  2. بیهقی، السنن، 4: 132، رقم: 7292

ایک اور مقام پر قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ.

البقرة، 2: 267

اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے (اللہ کی راہ میں) خرچ کیا کرو۔

سنت

جس زمین کی بارش، چشموں یا ندی نالوں سے آب پاشی ہوتی ہو اس میں عُشر اور جس کی رہٹ سے آب پاشی ہوتی ہو اس میں نصف عُشر ہے۔

اِجماع

عُشر کی فرضیت پر اُمت کا اجماع ہے۔

عقلی تقاضا/ دلائل

زکوٰۃ کے شرعی حکم کے بارے میں جو عقلی دلیل دی گئی ہے یہاں بھی یہ بات صادق آتی ہے کہ عُشر فقیر کو دینا اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہے۔ بے سہارا لوگوں کو سہارا دینا، انہیںاپنے فرائض ادا کرنے کے قابل بنانا، نفس کو گناہوں سے پاک و صاف کرنا وغیرہ۔ یہ سارے کام عقلاً اور شرعاً ضروری ہیں۔

سوال 97: کن اَجناس پر عُشر دینا لازم ہے اور کن پر نہیں؟

جواب: لکڑی، گھاس اور بانس کے علاوہ ہر شے پر عُشر واجب ہے جسے زمین اگاتی ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

وہ زمین جسے آسمانی پانی سیراب کرے اس کی پیداوار میں دسواں حصہ واجب ہے۔

بخاری، الصحیح، کتاب الزکاة، باب العشر فیما یسقی من ماء السماء، و بالماء الجاری، 2: 540، رقم: 1412

امام اعظم ابو حنیفہؒ سورۃ الانعام کی آیت نمبر 114 اور سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 267 سے استدلال کرتے ہیں کہ مطلق زمین کی پیداوار میں عُشر واجب ہے، چاہے پیداوار کم ہو یا زیادہ، بغیر تدبیر اختیار کیے ایک سال تک باقی رہنے والی ہو یا باقی رہنے والی نہ ہو، زمین کو نہر وغیرہ کے جاری پانی سے سیراب کیا ہو یا بارش کے پانی سے سیراب کیا ہو، ہر صورت میں عُشر واجب ہوجائے گا۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: حَقَّہٗ سے مراد عُشر یا نصف عُشر ہے۔

  1. سعید بن منصور، السنن، 5: 102، رقم: 928
  2. بیهقی، السنن، 4: 132، رقم: 7292

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں یمن بھیجا تو حکم دیا کہ اس زمین سے عُشر وصول کروں جو بارش کے پانی یا بلا خرچ کے پانی سے سیراب ہو رہی ہو اور اس زمین سے بیسواں حصہ وصول کروں جو رہٹ وغیرہ کے ذریعے سیراب کی جا رہی ہو۔

بیهقی، السنن الکبریٰ، 4: 7491

سوال 98: کرائے پر لی گئی زرعی زمین کی زکوٰۃ مالک پر ہے یا کرایہ دار پر؟

جواب: کرائے پر لی گئی زرعی زمین کی زکوٰۃ کرایہ دار پر ہے کیونکہ عُشر پیداوار پر واجب ہے اور پیداوار کا مالک کرایہ دار ہے۔ اس پر عُشر اسی طرح واجب ہے جیسے عاریتاً کوئی چیز لینے والے پر واجب ہوتا ہے۔ اِسی طرح زمین کا مالک کرایہ لینے کی صورت میں منافع کماتا ہے، اب وہ منافع اگر مکمل مال کے بعد نصاب تک پہنچ جاتا ہے تو اس صورت میں زمین کے مالک پر زکوٰۃ عائد ہوگی۔

سوال 99: عُشر زمین کے مالک پر واجب ہے یا مزارع پر؟

جواب: عُشر واجب ہونے کا تعلق زمین کی ملکیت سے نہیں ہے بلکہ پیداوار کی ملکیت سے ہے۔

بقول علامہ کاسانی حنفی:

ملک الأرض لیس بشرط لوجوب العشر، وإنما الشرط ملک الخارج.

کاسانی، بدائع الصنائع، 2: 56

زمین کا مالک ہونا عُشر واجب ہونے کے لیے شرط نہیں بلکہ پیداوار کا مالک ہونا شرط ہے۔

لہٰذا مالکِ زمین اور بٹائی دار دونوں اپنے اپنے حصہ پیداوار میں عُشر ادا کریں گے۔

ولو دفعها مزارعة فأَما علی مذهبهما فالمزارعة جائزة، والعشر یجب فی الخارج، والخارج بینهما فیجب العشر علیهما.

کاسانی، بدائع الصنائع، 2: 56

اگر کوئی شخص اپنی زمین مزارعت پر دیتا ہے تو صاحبین کے نزدیک مزارعت جائز ہے، عشر پیداوار پر واجب ہوتا ہے اور پیداوار میں مالک و مزارع دونوں شریک ہیں۔ لہٰذا عُشر بھی دونوں پر واجب ہوگا۔

سوال 100: زرعی پیداوار، سبزیوں اور پھلوں میں عُشر کب واجب ہوتا ہے؟

جواب: زرعی پیداوار، سبزیوں اور پھلوں پر عُشر کا حکم اُس وقت واجب ہوگا جب زمین کو بارش یا چشموں سے سیراب کیا جائے یا نہر کے پانی سے اسے سینچا جائے۔ لیکن اگر رہٹ کے ذریعے آب پاشی کی جائے تو اس پر نصف عُشر واجب ہوگا۔

کھیتوں میں زکوٰۃ اس وقت واجب ہوگی جب غلہ پک جائے اور ملا ہوا دانہ بن جائے اور پھلوں میں اس وقت واجب ہوگی جب ان کی صلاحیت ظاہر ہوجائے اور یہ اس طرح پتہ چلتا ہے کہ کچی کھجور سرخ ہوجائے اور انگور میں مٹھاس پیدا ہوجائے۔ زکوٰۃ صرف اس وقت نکالی جائے گی جب غلّہ صاف کرلیا جائے اور پھل خشک ہوجائیں۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

کُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ.

الأنعام، 6: 141

جب (یہ درخت) پھل لائیں تو تم ان کے پھل کھایا (بھی) کرو اور اس (کھیتی اور پھل) کے کٹنے کے دن اس کا (اللہ کی طرف سے مقرر کردہ) حق (بھی) ادا کر دیا کرو۔

سوال 101: قدرتی ذرائع سے حاصل ہونے والی پیداوار اور قیمتاً یعنی ٹیوب ویل، مشین، پمپنگ سے سیراب کی جانے والی زمین سے حاصل شدہ پیداوار پر کتنا عُشر واجب ہوگا؟

جواب: زمین بارانی ہے یا قدرتی ذرائع یعنی چشموں سے سیراب ہوتی ہے تو اس کی پیدا وار پر عُشر یعنی دسواں حصہ واجب ہے۔ اگر زمین قیمتاً سیراب کی جاتی ہے مثلاً ٹیوب ویل، نہری پانی، مشین یا پمپنگ سے جس پر آبیانہ دینا پڑتا ہے یا ڈول کے ساتھ پانی نکالا جاتا ہے۔ تو ان صورتوں میں سیراب کرنے میں مال بھی خرچ ہو تا اور محنت بھی کرنی پڑتی ہے۔ لہٰذا اس زمین کی پیداوار پر نصف عُشر یعنی بیسواں حصہ دینا لازم ہے۔ پیداوار چاہے کم ہو یا زیادہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

فِیمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُیُونُ أَوْ کَانَ عَثَرِیًّا الْعُشْرُ؛ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ.

بخاری، الصحیح، کتاب الزکاة، باب العشر فیما یسقی من مآء السماء وبالماء الجاری، 2: 540، رقم: 1412

وہ زمین جسے آسمان یا چشمہ سیراب کرتا ہو یا وہ خود بخود نمی کی وجہ سے سیراب ہو جائے تو اس کی پیداوار میں دسواں حصہ زکوٰۃ ہے اور جسے کنویں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہے اس کی پیداوار میں بیسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔

سوال 102: کیا کھیتی کے اَخراجات نکال کر عُشر دینا چاہیے؟

جواب: جی نہیں! کھیتی کے اَخراجات نکال کر عُشر نہیں نکالا جائے گا بلکہ جو کچھ پیداوار ہوئی، ان سب کا عُشر یا نصف عُشر دینا واجب ہوگا۔ حکومت کو جو مال گزاری دی جاتی ہے وہ بھی عُشر کی رقم سے کٹوتی نہیں کی جائے گی بلکہ پوری پیداوار کا عُشر یا نصف عُشر اللہ کی راہ میں نکالنا پڑے گا۔

زمین اگر بٹائی پر دے کر کھیتی کرائی ہے تو زمین اور کھیتی کرنے والے دونوں کو جتنی جتنی پیداوار ملی ہے دونوں پر اپنے اپنے حصے کی پیداوار کا دسواں یا بیسواں حصہ نکالنا واجب ہے۔

سوال 103: کیا اَجناس کے بدلے میں قیمت دینا جائز ہے؟

جواب: جی ہاں! اَجناس کے بدلے ان کی قیمت بھی بطور عُشر دی جاسکتی ہے کوئی ممانعت نہیں۔

سوال 104: معادِن کسے کہتے ہیں؟

جواب: معادِن، معدن (کان) کی جمع ہے جس کے معنی جاے قرار کے ہیں۔ اِصطلاحی طور پر معدن اُس مال کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے زمین میں مرتکز فرما دیا ہے؛ جیسے سونا، چاندی، سیسہ، لوہا، تیل، گندھک، یاقوت، زبرجد، عقیق، سرمہ وغیرہ۔

سوال 105: معادِن میں شرح زکوٰۃ کیا ہے؟

جواب: معادِن کی شرح زکوٰۃ نہیں کیونکہ دفینہ میں وہ تمام اشیاء شامل ہیں جو زمین سے دریافت ہوئی ہوتی ہیں۔ لہٰذا ان تمام اشیاء پر زکوٰۃ نہیں بلکہ خمس واجب ہوگا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

فِي الرِّکَازِ الْخُمُسُ.

ابن ماجه السنن، کتاب اللقطه، باب من أصحاب رکاز، 3: 208، رقم: 2509

کان میں پانچواں حصہ ہے۔

سوال 106: کان سے برآمد شدہ معادِن کی کتنی اقسام ہیں جن پر خُمس واجب ہے؟

جواب: کان سے برآمد شدہ معادِن کی تین اقسام پر خمس واجب ہے:

1۔ جو آگ میں پگھلائی جاسکیں، جیسے سونا، چاندی، تانبا، پیتل، سیسہ اور لوہا۔

2۔ مائع اشیاء جیسے تارکول، پٹرول، مٹی کا تیل یا گیس وغیرہ۔

3۔ وہ اشیاء جو آگ میں پگھلائی جاسکیں نہ مائع ہوں جیسے چونے کا پتھر اور جواہر وغیرہ۔

معادِن کی مندرجہ بالا تینوں اَقسام پر خمس واجب ہے اور اس کا مصرف وہی ہے جو مالِ غنیمت کے خمس کا ہے جس کا ذکر قرآن حکیم میں ہے۔

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ.

الأنفال، 8: 41

اور جان لو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول (ﷺ) کے لیے اور (رسول ﷺ کے) قرابت داروں کے لیے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لیے ہے۔

خمس نکالنے کے بعد بقیہ مال اُس کا ہے جس کو ایسی زمین سے ملا ہو جو کسی کی ملکیت نہ تھی۔

سوال 107: کیا سمندر سے نکالی جانے والی اشیاء پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے؟

جواب: جی نہیں! وہ اشیاء جو سمندر سے نکالی جائیں جیسے عنبر، موتی، مونگا، مچھلی وغیرہ تو ان پر کوئی زکوٰۃ نہیں، لیکن اگر ان کی تجارت کی جائے تو زکوٰۃ واجب ہوگی۔

سوال 108: کنز کسے کہتے ہیں؟

جواب: کنز سے مراد وہ خزانہ ہے جسے اِنسان خود زمین میں محفوظ کردے۔ قرآن حکیم میں یہ لفظ سیدنا موسیٰ اور سیدنا خضر d کے واقعہ کے ضمن میں یوں بیان ہوا ہے:

وَاَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰـمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَةِ وَکَانَ تَحْتَهٗ کَنْزٌ لَّهُمَا.

الکهف، 18: 82

اور وہ جو دیوارتھی تو وہ شہر میں (رہنے والے) دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لیے ایک خزانہ (مدفون) تھا۔

سوال 109: رِکاز کسے کہتے ہیں؟

جواب: رِکاز سے مراد جاہلیت کے زمانے کا زمین میں مدفون خزانہ ہے جو بغیر کسی محنت و مشقت کے حاصل ہوا ہو۔ معدنیات کو رِکاز بھی کہتے ہیں۔

رِکاز (دفینہ) معدن اور کنز دونوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے لغوی معنی اتار دینے کے ہیں خواہ اللہ نے اُتارا ہو یا اِنسانوں نے۔

ابن الهمام، شرح فتح القدیر، 2: 233-234

سوال 110: کیا رِکاز میں نصاب اور سال کی شرط عائد ہوتی ہے؟

جواب: جی نہیں! رِکاز، دفینے میں نصاب اور سال کی شرط عائد نہیں ہوتی۔

سوال 111: کیا رِکاز پر خُمس واجب ہے؟

جواب: جی ہاں! رِکاز پر خُمس یعنی پانچواں حصہ واجب ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

الْعَجْمَاءُ جُبَارٌ، وَالْبِئْرُ جُبَارٌ، وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ، وَفِي الرِّکَازِ الْخُمُسُ.

بخاری، الصحیح، کتاب الزکاة، باب فی الرِکاز الخمس، 2: 545-546، رقم: 1428

جانور سے جو نقصان پہنچے اس کا کچھ بدلہ نہیں اور کنوئیں کا بھی یہی حال ہے اور کان کا بھی یہی حکم ہے اور رِکاز میں سے پانچواں حصہ لیا جائے گا۔

سوال 112: رِکاز کا مصرف کیا ہے؟

جواب: رِکاز کا مصرف وہی ہے جو مالِ فے کے خمس کا مصرف ہے۔ مالِ فے اُس مال کو کہتے ہیں جو بغیر مشقت یعنی بغیر جنگ کے حاصل ہو جائے۔ مالِ فے کا مصرف اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں یوں بیان فرمایا:

مَآ اَفَآءَ اللهُ عَلٰی رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَةًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ ط وَمَآ اٰتٰـکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ج وَاتَّقُواللهَ ط اِنَّ اللهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo

الحشر، 59: 7

جو (اَموالِ فَے) اللہ نے (قُرَیظہ، نَضِیر، فِدَک، خَیبر، عُرَینہ سمیت دیگر بغیر جنگ کے مفتوحہ) بستیوں والوں سے (نکال کر) اپنے رسول (ﷺ) پر لوٹائے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے لیے ہیں اور (رسول ﷺ کے) قرابت داروں (یعنی بنو ہاشم اور بنو عبدالمطّلب) کے لیے اور (معاشرے کے عام) یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لیے ہیں (یہ نظامِ تقسیم اس لیے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مال داروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے) اور جو کچھ رسول (ﷺ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو (یعنی رسول ﷺ کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو)، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔

سوال 113: اگر کسی کے گھر سے خزانہ نکل آئے تو اس بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب: اگر کسی کے گھر کی زمین سے معدن یا دفینہ نکل آئے تو اس پر بھی خمس واجب ہوگا۔ دفینہ پانے والا مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، بالغ ہو یا بچہ، مسلمان ہو یا ذِمّی؛ اِس سے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved