جواب: جن اَموال پر زکوٰۃ فرض ہے ان کی شریعت نے خاص مقدار مقرر کر دی ہے۔ جب کسی کے پاس مقررہ مقدار پوری ہو جائے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے۔ اس مقدار کو ’نصاب‘ کہتے ہیں۔
جواب: ساڑھے سات تولے (87.48 گرام) سونے پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے جبکہ اس سے کم پر زکوٰۃ نہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَیْسَ عَلَیْکَ شَيْئٌ یَعْنِي فِي الذَّهَبِ حَتّٰی تَکُوْنَ لَکَ عِشْرُونَ دِینَارًا، فَإِذَا کَانَتْ لَکَ عِشْرُوْنَ دِینَارًا وَحَالَ عَلَیْهَا الْحَوْلُ فَفِیهَا نِصْفُ دِینَارٍ، فَمَا زَادَ فَبِحِسَابِ ذٰلِکَ.
سونے میں تم پر کچھ نہیں ہے یہاں تک کہ بیس دینار ہوجائیں۔ جب تمہارے پاس بیس دینار ہوجائیں اور ان پر سال گزر جائے تو ان پر نصف دینار زکوٰۃ ہے۔ زیادہ ہوں تو اسی حساب سے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دونوں سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ ہر بیس دینار یا اس سے زیادہ پر نصف دینار (یعنی چالیسواں حصہ) زکوٰۃ لیتے تھے اور ہر چالیس دینار پر ایک دینار (یعنی چالیسواں حصہ)۔
ابن ماجه، السنن، کتاب الزکاة، باب زکاة الورق والذهب، 1: 571، رقم: 1791
یاد رہے کہ اُس دور میں دینار سونے کا تھا اور بیس دینار کا وزن ساڑھے سات تولے (87.48 گرام) ہوتا تھا۔
جواب: ساڑھے باون تولے (612.36 گرام) چاندی پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے جبکہ اس سے کم پر زکوٰۃ نہیں اور زکوٰۃ میں چالیسواں حصہ دینا فرض ہوتا ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَیْسَ فِیمَا دُوْنَ خَمْسِ أَوَاقٍ مِنَ الْوَرِقِ صَدَقَةٌ.
پانچ اَوقیہ (ساڑھے باون تولہ - 612.36 گرام) چاندی سے کم پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
یاد رہے کہ زکوٰۃ کی شرح بلحاظِ وزن یا بلحاظِ قیمت اڑھائی فیصد ہے۔
جواب: قیمتی جواہرات اگر تجارت کی غرض سے ہوں تو ان پر زکوٰۃ فرض ہے۔ اگر تجارت کے لیے نہ ہوںبلکہ ذاتی استعمال کے لیے ہوں تو ان پر زکوٰۃ فرض نہیں چاہے کتنی ہی مالیت کے ہوں۔
جواب: جی نہیں! تمام جانوروں پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی بلکہ صرف تین قسم کے جانوروں پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے اگر وہ سائمہ ہوں، مثلاً: اونٹ، گائے اور بکری، بھیڑ وغیرہ۔
جواب: سائمہ ایسے جانور کو کہتے ہیں جسے اس کے مالک نے سال کے بیشتر حصے میں میدانوں کے اندر چرایا ہو تاکہ دودھ زیادہ ہو، یا اُون بڑھے، یا جانور فربہ یعنی توانا ہوجائے۔ ضروری ہے کہ جنگل میں چرانے سے مالک کی یہی غرض ہو۔ اگر اس کی پرورش کی غرض ذبح کرنا، بار برداری، سواری یا کھیتی باڑی ہے تو مطلق زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ تاہم اگر جانور کے پالنے سے تجارت مقصود ہے تو ان کی آمدنی پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی۔
جواب: پانچ سے لے کر چوبیس اونٹوں تک ہر پانچ کے بعد ایک بکری زکوٰۃ دینی چاہیے۔ پانچ سے کم پر کوئی زکوٰۃ نہیں۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَیْسَ فِیْمَا دُوْنَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ.
پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَیْسَ فِیمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ مِنَ الْإِبِلِ صَدَقَةٌ.
پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
جواب: تیس سے کم گائیوں یا بھینسوں پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی جبکہ تیس گائیوں یا بھینسوں پر ایک سال کا بچھڑا یا بچھڑی بطور زکوٰۃ دینی چاہیے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
تیس گائیوں پر ایک سال کا بچھڑا یا بچھڑی (جو دوسرے سال میں ہو) اور چالیس گائیوں پر دو سال کا بچھڑا یا بچھڑی بطور زکوٰۃ دی جائے گی۔
ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب الزکاة، باب ما جاء فی زکاة البقر، 3: 19-20، رقم: 622
گائے، بھینس اور بیل کا ایک ہی حکم ہے۔ اگر دونوں ہوں تو ملا لیں جیسے بیس گائیں اور دس بھینسیں ہوں تو ان پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ زکوٰۃ میں اس کا بچہ لیا جائے جو زیادہ ہوں یعنی گائیں زیادہ ہوں تو گائے کا بچہ اور اگر بھینسیں زیادہ ہوں تو بھینس کا بچہ لیا جائے۔ اگر دونوں برابر ہوں تو زکوٰۃ میں وہ بچہ لیں جو اَوسط درجہ کا ہو لیکن شرط یہ ہے کہ ایک سال سے کم کا نہ ہو۔ اگر ایک سال سے کم کا ہو تو قیمت کے حساب سے دیا جائے۔
اگر کسی کے پاس اونٹ، گائیں بکریاں سب ہیں مگر نصاب کسی کا بھی پورا نہیں تو نصاب پورا کرنے کے لیے انہیں ملایا نہ جائے کیونکہ اس طرح ان پر زکوٰۃ واجب نہیں۔
جواب: چالیس سے کم بھیڑ یا بکریوں پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی جبکہ چالیس سے لے کر ایک سو بیس بکریوں تک ایک بکری بطور زکوٰۃ دینی چاہیے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ہر چالیس پر ایک بکری ہے، ایک سو بیس تک۔ اس کے بعد دو سو تک تین بکریاں اور پھر ہر سو پر ایک بکری (بطور زکوٰۃ دینا لازم ہے)۔
ابن ماجه، السنن، کتاب الزکاة، باب صدقة الغنم، 2: 392-393، رقم: 1807
جواب: زکوٰۃ کے وجوب کے لیے مسلمان ہونا شرط ہے۔ کافر پر زکوٰۃ واجب نہیں۔ اگر مرتد مسلمان ہو جائے تو اس پر بھی زمانہ ارتداد کی زکوٰۃ ادا کرنا واجب نہیں ہے۔
جواب: حصص کو بھی دوسرے مال و دولت اور سونا چاندی کے ساتھ ملا کر نصاب بنایا جائے گا۔ اگر کل مالیت نصاب کو پہنچے تو زکوٰۃ ادا کی جائے گی یعنی حصص پر زکوٰۃ واجب ہوجائے گی۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جو کمپنیاں حلال کاروبار کرتی ہوں، ان کے حصص کی خرید و فروخت جائز ہے اور ان کے حصص خرید کر متوقع نفع/نقصان کی بنیاد پر ان کے ساتھ مضاربت (کاروبار کی ایک جائز شکل) کرنا بھی جائز ہے۔ حصص چونکہ دو بنیادوں پر خریدے جاتے ہیں، اس لیے دونوں صورتوں میں زکوٰۃ کے احکام میں بھی فرق ہوگا۔ جن دو بنیادوں پر حصص خریدے جاتے ہیں، وہ یہ ہیں:
اگر کمپنی کے حصص اس نیت سے خریدے ہوں کہ ان کے ذریعے کمپنی کا منافع حاصل کیا جائے تو ایسے حصص کی زکوٰۃ کی صورت یہ ہوگی کہ سال گزرنے کے بعد اپنے حصص کا جائزہ لیا جائے اور جتنا حصہ مشینری اور عمارت کی نمائندگی کرتا ہو اسے کل حصص سے منہا (کٹوتی) کرکے باقی حصص جو مال تجارت اور نقدی وغیرہ کی شکل میں ہوں، کی زکوٰۃ ادا کی جائے۔
حصص شروع ہی سے اس نیت کے ساتھ خریدے گئے ہوں کہ جب ان کی قیمت بڑھ جائے گی تو انہیں بیچ کر نفع حاصل کیا جائے گا تو ایسی صورت میں حصص چونکہ مالِ تجارت کی حیثیت سے خریدے گئے ہیں لہٰذا حصص کی کل مالیت پر زکوٰۃ ادا کی جائے گی اور مشینری و عمارت وغیرہ کی رقم کو اس سے منہا نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس صورت میں مشینری و عمارت، آلاتِ تجارت و ذرائع پیداوار کی حیثیت کی بجائے مالِ تجارت کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں، لہٰذا اب انہیں مستثنیٰ نہیں کیا جائے گا۔ مسلمان تاجر کی ملکیت میں جو بھی مال ہے، یعنی نقد رقم، بینک اکاؤنٹ، بانڈز، ڈیپازٹس، سونا چاندی اور مالِ تجارت وغیرہ سب کی مالیت پر زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنے کی غرض سے سونا، چاندی اور مالِ تجارت کی وہ قیمت معتبر ہے جو وجوبِ زکوٰۃ کے وقت ہوگی یعنی قیمتِ خرید کا اعتبار نہیں ہے۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان تاجر کو وجوبِ زکوٰۃ کی مقررہ تاریخ پر اپنے مالِ تجارت کی محتاط اسٹاک چیکنگ اور قدر یعنی صحیح قیمت کا تعین کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں وہ کارخانہ جو پیداواری مقاصد کے لیے استعمال ہورہا ہے، اس کی زمین، عمارت، متعلقہ تنصیبات اور مشینری کی قیمت پر جو صنعتی پیداواری مقاصد میں استعمال ہو، زکوٰۃ عائد نہیں ہوگی۔ البتہ مسلمان صنعت کار کو اپنے دیگر تمام اموال کے ساتھ کارخانے میں موجود خام مال، تیار مال اور مارکیٹ میں کریڈٹ پر دیے ہوئے تمام مال کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔
تاجر حضرات کا اکثر مارکیٹ میں لین دین جاری رہتا ہے، کسی سے کچھ لینا ہے اور کسی کو کچھ دینا ہے؛ نیز تجارت سے ہٹ کر بعض لوگوں کا شخصی لین دین بھی ہوتا ہے، لہٰذا تشخیص زکوٰۃ کے وقت واجب الوصول رقم کو اپنی مالیت میں جمع کرکے اس سے واجب الاداء رقم منہا کردی جائے اور اس کے بعد جو مجموعی مالیت بنے اس پر زکوٰۃ دی جائے۔
جواب: حصص خواہ کمپنی کے نفع و نقصان میں شرکت کے لیے خریدے جائیں یا نفع (capital gain) حاصل کرنے کے لیے سامانِ تجارت کے طور پر انہیں خریدا جائے؛ ان دونوں صورتوں میں ان کی زکوٰۃ قیمت (market value) کے حساب سے نکالی جائے گی۔ اس قیمت کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا جس پر شروع میں انہیں خریدا گیا تھا، خواہ زکوٰۃ کے وقت ان کی قیمت بڑھ گئی ہو یا قیمتِ خرید سے بھی کم ہوگئی ہو۔
جواب: اگر کسی کے پاس بقدرِ نصاب کرنسی ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔ اَہلِ علم نے کرنسی میں وجوبِ زکوٰۃ کے لیے کچھ شرائط بھی بیان کی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
جواب: رہائشی مکان، فلیٹ یا پلاٹ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں۔ البتہ وہ مکان، پلاٹ، دکانیں یا فلیٹ جو کرائے پر دیے ہوئے ہیں، ان کی سالانہ آمدنی وضعِ مصارف کے بعد مالک کی مجموعی سالانہ آمدنی میں جمع ہوگی اور تمام ذرائع آمدن سے جمع شدہ رقم نصاب کو پہنچے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
جواب: جو اَشیاء نفع حاصل کرنے کی غرض سے خرید و فروخت کے لیے مہیا کی گئی ہوں، وہ سامانِ تجارت کہلاتی ہیں؛ مثلاً: غلہ، کپڑا، گھریلو ساز و سامان اور مختلف انواع کے حیوانات وغیرہ۔
جواب: سامانِ تجارت پر زکوٰۃ فرض ہے جبکہ آلاتِ تجارت پر زکوٰۃ فرض نہیں کیونکہ یہ آمدن کا ذریعہ ہیں اور ذرائع آمدن کو شریعت نے زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ البتہ ان سے حاصل ہونے والے منافع پر زکوٰۃ ہوگی بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچتا ہو اور اس پر سال کا عرصہ گزر چکا ہو۔
جواب: کل مالِ تجارت کی سال بہ سال قیمت کا اندازہ لگا کر زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ اس مال کی جو بھی لاگت بنے اسے اپنے پاس موجود نقدی و زیورات وغیرہ کے ساتھ ملا کر اکٹھی زکوٰۃ نکالی جائے گی۔ علاوہ ازیں وہ قرضہ جات جو اُدھار فروخت کیے گئے مالِ تجارت سے قابلِ وصول ہیں، اگر وہ نقدی کی صورت میں ہیں اور ان کی معیادِ ادائیگی پوری ہوچکی ہے یا تازہ واجب الوصول قرضہ جات ہیں اور دونوں صورتوں میں قرض کی وصولی مقروضوں سے متوقع ہے تو وہ سب قابلِ زکوٰۃ مال کی گنتی میں آئے گا۔ اور اگر قرضہ مالِ تجارت کی شکل میں واجب الوصول ہے اور اس کی وصولی بھی متوقع ہے تو اس مال کی مالیت کا اندازہ لگا کر دیگر مال میں شامل کرکے سب کی زکوٰۃ اکٹھی نکالی جائے گی۔
جواب: زکوٰۃ ادا کرنے والے کو چاہیے کہ اس کے پاس جتنی بھی گاڑیاں ہیں اس کی قیمت لگالے۔ پھر کسی کو اگر کچھ رقم قرض دی ہو اور اس کے ملنے کی بھی اُمید ہو تو اسے بھی شمار کر لے اور اگر کسی کا قرض دینا ہو تو بقدرِ قرض رقم الگ کر لے، پھر جو باقی ہو اس میں سے اڑھائی فی صد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کر دے۔ لیکن اگر کوئی شخص کچھ گاڑیوں کا مالک ہو اور ان کی قیمت نصاب سے کم ہو، پھر سال کا کچھ حصہ گزر جائے یا وہ شخص دورانِ سال ہی مزید گاڑیوں کا مالک بن جائے یا ایسی قیمتوں کا جن کے ذریعے نصاب مکمل ہو جائے تو اس وقت سے سال کی ابتداء ہو جائے گی جب وہ صاحبِ نصاب ہوا، گزشتہ وقت شمار نہیں کیا جائے گا۔
جواب: مشترک کاروبار میں حصہ دار اپنے اپنے حصے کی نسبت سے زکوٰۃ ادا کرے گا۔ مثلاً ایک کاروبار میں دو آدمی برابر کے سرمایہ میں شریک ہیں تو سال کے آخر میں اس رقم کی زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے دونوں زکوٰۃ کی نصف نصف رقم ادا کریں گے۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ادائیگیِ زکوٰۃ کے حکم میں لکھا:
جو مال دو شریکوں کا ہو وہ ایک دوسرے سے برابر حساب کر لیں۔
بخاری، الصحیح، کتاب الزکاة، باب ماکان من خلیطین، 2: 526، رقم: 1383
جواب: ٹیکس دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔ چونکہ زکوٰۃ مسلمان پر فرض عبادت ہے جو مال کو پاک کرنے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے لازم ہے۔ جب کہ ٹیکس اِن شرعی تصورات سے خالی ہے؛ مثلاً زکوٰۃ میں نیت شرط ہے جبکہ ٹیکس میں شرط نہیں۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ کی مقدار شرعاً مقرر ہے جبکہ ٹیکس کی کوئی مقدار مقرر نہیں۔ حاکمِ وقت جتنا چاہے مقرر کرلے۔ تیسرا یہ کہ زکوۃ دائمی ثابت شدہ حق ہے جبکہ ٹیکس بحسبِ حاجت وقتی طور پر دیا جاتا ہے۔ زکوۃ کے آٹھ مصارف ہیں جبکہ ٹیکس سرکاری امور میں صرف کیا جاتا ہے۔ زکوۃ کے روحانی، اَخلاقی، اِجتماعی اور اِنسانی اَہداف ہیں جبکہ ٹیکس میں یہ اَہداف مقصود نظر نہیں آتے۔
جوب: مالِ ضمار سے مراد ایسا مال ہے جو کسی کے قبضہ سے ایسے نکل جائے کہ پھر اس کے واپس ملنے کی امید نہ ہو مثلا گم ہو جائے، سمندر میں ڈوب جائے، چوری ہوجائے، چھین لیا جائے، مقروض واپس کرنے سے مکر جائے، کہیں چھپا کر بھول جائے یا ظالم حکمران زبردستی اپنے قبضہ میں لے۔
جوب: مالِ ضمار کی زکوٰۃ ادا کرنا واجب نہیں کیونکہ اسے اس مال پر کامل تصرف حاصل نہیں؛ البتہ اگر کبھی اسے وہ مال مل جائے، خواہ کئی سالوں کے بعد ہی ملے، تو اسے اس سال سے ایک سال کی زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔
جواب: جی نہیں! سونے چاندی کے علاوہ دیگر دھاتوں کے بنے ہوئے ذاتی اِستعمال کے زیورات پر زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی۔
جواب: اِس صورت میں سونے کی قیمت چاندی سے یا چاندی کی قیمت سونے سے لگا کر دیکھیں گے کہ دونوں میں سے کسی ایک کا نصاب پورا ہے یا نہیں، اگر کسی ایک کا نصاب پورا ہو جائے تو اُس کے حساب سے زکوٰۃ دینا ہوگی۔ لیکن اگر دونوں میں سے کسی ایک کا بھی نصاب پورا نہیں ہورہا تو زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی۔
کتبِ فقہ میں اِس مسئلہ کو ’ضم‘ کے عنوان سے بیان کیا جاتا ہے کہ کون سے اَموال کو ایک دوسرے سے ملا کر نصاب کی تکمیل کی جائے گی اور کون سے اَموال میں ایسا نہیں ہوگا۔ مثلاً پانچ اونٹ، تیس گائے اور چالیس بکریوں سے کم پر زکوٰۃ نہیں۔ کسی کے پاس اگر یہ تینوں جانور نصاب سے کم ہوں اور ان کے علاوہ سونا چاندی یا رقم نہ ہو تو یہ مسئلہ متفقہ ہے کہ ان میں ضم (merge) نہیں ہوگا؛ یعنی تینوں موجود جانوروں کی قیمت اگر کسی ایک نصاب کے برابر پہنچ جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ البتہ بیل، گائے اور بھینس کے بارے میں ایک ہی حکم میں ہے کہ اُنہیں ملا کر نصاب پورا کرلیا جائے گا۔ علامہ ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں:
وَالسَّوَائِمُ الْمُخْتَلِفَةُ الْجِنْسِ لَا تُضَمُّ بِالْإِجْمَاعِ کَالإِبِلِ وَالْغَنَمِ؛ وَالنَّقْدَانِ یُضَمُّ أَحَدُهُمَا إِلَی الْآخَرِ فِی تَکْمِیْلِ النِّصَابِ.
ابن همام، فتح القدیر، 2: 221
بالاتفاق مختلف جنس کے جانور جیسے اونٹ اور بکریوں وغیرہ کو جمع نہیں کیا جائے گا؛ البتہ سونے اور چاندی کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر نصاب پورا کیا جائے گا۔
جمہور کا متفقہ قول ہے کہ نصاب کی تکمیل کے لیے سونے کو چاندی سے اور چاندی کو سونے سے ملا کر نصاب کی مقدار پوری کی جائے گی اور اس کے لیے سامانِ تجارت وغیرہ بھی شامل کیا جائے گا۔ جمہور کا یہ قول نص سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ بکیر بن عبد اللہ اشج کا قول ہے:
مَضَتِ السُّنَّةُ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ بِضَمِّ الذَّهَبِ إِلَی الْفِضَّةِ، وَالْفِضَّةُ إِلَی الذَّهَبِ لِإِخْرَاجِ الزَّکَاةِ.
کاسانی، بدائع الصنائع، 2: 19
رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سنت رہی ہے کہ زکوٰۃ نکالنے کے لیے سونے کو چاندی میں اور چاندی کو سونے میں ضم کرکے تکمیلِ نصاب کرتے تھے۔
جواب: اگر کسی کے پاس سونا چاندی نہیں لیکن حوائجِ اَصلیہ کے علاوہ کرنسی وغیرہ ہے تو اُس پر زکوٰۃ لازم ہوگی کیونکہ عہد رسالت مآب ﷺ میں سونا چاندی ہی کرنسی کے طور پر استعمال ہوتا تھا اور عصر حاضر میں چونکہ سونا چاندی بطور کرنسی استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس کے عوض کاغذی روپے استعمال ہوتے ہیں، لہٰذا روپے کی تمام مالیت کو سونے یا چاندی میں سے جس کے ساتھ ملا کر زکوٰۃ دینے سے غرباء و مساکین اور دیگر جہات میں زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے، زکوٰۃ دینی چاہیے۔
زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ کار یہ ہے کہ جو شخص ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر کرنسی وغیرہ کا مالک ہے اور وہ اس کی حوائجِ اَصلیہ سے زائد ہو، اُس پر سال گزر جائے اور وہ شخص مقروض بھی نہ ہو تو اُس پر اڑھائی فی صد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔
جواب: امام اَعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک جو بھی فقراء کے لیے زیادہ سود مند ہو اس کے اعتبار سے حساب لگایا جائے گا۔(1) کیونکہ زکوٰۃ کا مقصد فقراء و مساکین کی ضروریات کی تکمیل ہے۔ لہٰذا وجوبِ زکوٰۃ کے لیے معیار اسے بنایا جائے گا جس میں فقراء کا فائدہ ہو اور فائدہ اُسی صورت میں ہوگا جب ایسی شے سے قیمت لگائی جائے جو نصاب کو پہنچ جائے۔ امام مرغینانی حنفی فرماتے ہیں کہ امام اَعظم رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے:
کاسانی، بدائع الصنائع، 2: 21
یُقَوِّمُهَا بِمَا أَنْفَعُ لِلْمَسَاکِیْنِ اِحْتِیَاطًا لِحَقِّ الْفُقَرَاءِ.
مرغینانی، الهدایة، 1: 105
اِحتیاطاً فقراء کا ان کا حق بہم پہنچانے کے لیے اس کی قیمت ایسی شے سے لگائی جائے جس میں مساکین کا زیادہ فائدہ ہو۔
اس کے بعد امام مرغینانی لکھتے ہیں:
وَتَفْسِیْرُ الْأَنْفَعِ: أَنْ یُقَوِّمَهَا بِمَا یَبْلُغُ نِصَابًا.
مرغینانی، الهدایة، 1: 105
اور زیادہ فائدہ سے مراد ہے کہ ایسی شے سے قیمت لگائی جائے جو نصاب کو پہنچ جائے۔
علامہ حصکفی حنفی لکھتے ہیں:
وَلَوْ بَلَغَ بِأَحَدِهِمَا نِصَابًا وَخُمُسًا وَبِالآخَرِ أَقَلَّ، قَوَّمَهُ بِالآخَرِ نَفْعًا لِلْفَقِیْرِ.
حصکفی، الدر المختار، 2: 299
اگر ایک کے ذریعے نصاب اور خُمس کو پہنچ جائے اور دوسرے کے ذریعے اس سے کم ہو تو اس کی قیمت ایسی شے سے لگائی جائے جس میں فقراء کا فائدہ ہو۔
یعنی اگر کسی کے پاس اتنی نقد رقم ہو جس سے نصاب کے برابر چاندی خریدی جاسکتی ہو، لیکن نصاب کے برابر سونا نہیں خریدا جاسکتا تو ایسے شخص پر یقینا زکوٰۃ واجب ہوگی۔
علامہ ابن ہمام حنفی فرماتے ہیں:
لَوْ کَانَ یُقَوِّمُهٗ بِأَحَدِ النَّقْدَیْنِ یَتِمُّ النِّصَابُ وَبِالآخَرِ لاَ، فَإِنَّهٗ یُقَوِّمُهٗ بِمَا یَتِمُّ بِهِ النِّصَابُ بِالْاِتِّفَاقِ.
ابن همام، شرح فتح القدیر، 2: 220
اگر اس کی قیمت نقدین میں سے ایک سے لگاتا ہو تو نصاب پورا ہوجاتا ہے اور دوسرے سے پورا نہیں ہوتا تو بالاتفاق اس شے سے قیمت لگائی جائے گی جس سے نصاب پورا ہوجاتا ہے۔
جواب: جی ہاں! وقت سے پہلے زکوٰۃ کی ادائیگی کی جاسکتی ہے اور یہ درست ہے۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا زکوٰۃ اپنے مقررہ وقت سے پہلے ادا ہوسکتی ہے؟ تو آپ ﷺ نے انہیں اس کی اجازت دی۔
أبو داؤد، السنن، کتاب الزکوٰة، باب فی تعجیل الزکوٰة، 2: 115، رقم: 1624
جواب: اس صورت میں زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی۔
جواب: سال گزرنے کے بعد اگر سارا مال خدا کی راہ میں دے دیا تو اس کی زکوٰۃ بھی معاف ہو جائے گی۔ اگر صاحبِ مال خود ہلاک کر دے تو ضامن ہوگا جیسا کہ امانت میں ہوتا ہے۔ یہ اَمر ذہن نشین رہے کہ قدرتی طور پر آفات و حادثات کے نتیجے میں ہلاک ہونے کی صورت میں ضمان نہیں بلکہ دانستہ ہلاک کرنے کی صورت میں ضمان ہے کہ اس کی تلافی کرنا پڑے گی۔
جواب: اگر کوئی شخص وفات پا جائے اور اُس پر زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہو تو اِس صورت میں میت کے ترکہ سے زکوٰۃ اُس وقت وصول کی جائے گی جب مرنے والے نے اس کی وصیت کی ہو۔ اگر مرنے والے نے وصیت نہیں کی تو اس کے ترکہ سے زکوٰۃ وصول نہیں کی جائے گی۔ البتہ اگر ورثاء وصیت کے بغیر ہی ترکہ میں سے زکوٰۃ ادا کر دیں تو بہتر ہے۔ گویا اِستحساناً ترکہ میں سے زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے۔
جواب: جی ہاں! اگر دورانِ سال کوئی صاحبِ نصاب تھوڑی تھوڑی رقم وقتاً فوقتاً زکوٰۃ کی نیت سے مستحقین کو ادا کرتا رہے تو سال کے اختتام پر تشخیص زکوٰۃ کے بعد پہلے سے ادا شدہ رقم کو وضع کرکے باقی رقم ادا کرے۔ اسی طرح مجموعی واجب الادا زکوٰۃ کی رقم بالاقساط بھی ادا کر سکتا ہے۔
جواب: زکوٰۃ بروقت ادا کرنا افضل ہے، تاہم اگر گزشتہ سال کی زکوٰۃ کسی کے ذمہ ہے تو اسے رواں سال کی زکوٰۃ کے ساتھ ملا کر دیا جاسکتا ہے۔
جواب: لاعلمی میں غیر مستحق کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے لیکن زکوٰۃ ادا کرنے سے قبل غور و فکر کرنا ضروری ہے یعنی اپنی طرف سے مستحق جاننے کی پوری کوشش کرے۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
قَالَ رَجُلٌ: لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ. فَخَرَجَ بِصَدَقَتِہٖ، فَوَضَعَهَا فِي یَدِ سَارِقٍ، فَأَصْبَحُوْا یَتَحَدَّثُونَ: تُصُدِّقَ عَلٰی سَارِقٍ. فَقَالَ: اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ، لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ. فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهٖ، فَوَضَعَهَا فِي یَدَي زَانِیَةٍ، فَأَصْبَحُوا یَتَحَدَّثُوْنَ: تُصُدِّقَ اللَّیْلَةَ عَلٰی زَانِیَةٍ. فَقَالَ: اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ، عَلٰی زَانِیَةٍ؟ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ. فَخَرَجَ بِصَدَقَتِہٖ، فَوَضَعَهَا فِي یَدَيْ غَنِيٍّ، فَأَصْبَحُوْا یَتَحَدَّثُوْنَ: تُصُدِّقَ عَلٰی غَنِيٍّ. فَقَالَ: اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ عَلٰی سَارِقٍ، وَعَلٰی زَانِیَةٍ، وَعَلٰی غَنِيٍّ. فَأُتِيَ، فَقِیلَ لَهٗ: أَمَّا صَدَقَتُکَ عَلٰی سَارِقٍ: فَلَعَلَّهٗ أَنْ یَسْتَعِفَّ عَنْ سَرِقَتِہٖ، وَأَمَّا الزَّانِیَةُ: فَلَعَلَّهَا أَنْ تَسْتَعِفَّ عَنْ زِنَاهَا، وَأَمَّا الْغَنِيُّ: فَلَعَلَّهٗ یَعْتَبِرُ، فَیُنْفِقُ مِمَّا أَعْطَاهُ اللهُ.
ایک آدمی نے کہا کہ میں ضرور صدقہ کروں گا۔ چنانچہ وہ صدقہ کرنے کی غرض سے (رات کو) مال لے کر نکلا اور اس نے ایک چور کو دے دیا۔ صبح لوگ باتیں کرنے لگے کہ چور پر صدقہ کیا گیا ہے۔ تو وہ عرض گزار ہوا کہ اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، میں ضرور پھر صدقہ دوں گا۔ وہ مال لے کر نکلا اور بدکار عورت کو دے دیا۔ صبح کے وقت لوگوں نے چرچا کیا کہ آج رات بدکار عورت پر صدقہ کیا گیا ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں۔ میں ضرور پھر صدقہ دوں گا۔ وہ مال لے کر نکلا تو ایک مال دار کو دے دیا۔ صبح کے وقت لوگ باتیں کرنے لگے کہ غنی پر صدقہ کیا گیا ہے۔ تو اس نے کہا: اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، (افسوس کہ) چور، بدکار عورت اور غنی پر صدقہ کر بیٹھا! پھر اُسے لایا گیا تو اس سے کہا گیا: تم نے چور کو جو صدقہ دیا تو شاید وہ چوری کرنے سے رک جائے اور بدکار عورت، شاید وہ بدکاری سے باز آجائے اور مال دار شاید عبرت حاصل کرے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرنے لگے۔
جواب: چار قسم کے اَموال پر زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہے:
جواب: زکوٰۃ میں درمیانے درجے کا مال دینا چاہیے یعنی نہ گھٹیا نہ بہترین۔ قبیلہ غاضرہ قیس کے حضرت عبد اللہ بن معاویہ غاضری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ثَـلَاثٌ مَنْ فَعَلَهُنَّ فَقَدْ طَعِمَ طَعْمَ الْإِیمَانِ، مَنْ عَبَدَ اللهَ وَحْدَهٗ وَأَنَّهٗ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَأَعْطٰی زَکَاةَ مَالِہٖ طَیِّبَةً بِهَا نَفْسُهٗ، رَافِدَةً عَلَیْهِ کُلَّ عَامٍ، وَلَا یُعْطِي الْهَرِمَةَ وَلَا الدَّرِنَةَ وَلَا الْمَرِیضَةَ وَلَا الشَّرَطَ اللَّئِیمَةَ، وَلٰـکِنْ مِنْ وَسَطِ أَمْوَالِکُمْ، فَإِنَّ اللهَ لَمْ یَسْأَلْکُمْ خَیْرَهٗ وَلَمْ یَأْمُرْکُمْ بِشَرِّہٖ.
تین کام ایسے ہیں کہ جو شخص انہیں سر انجام دے وہ ایمان کی حلاوت محسوس کرے گا: جو شخص یہ یقین رکھتے ہوئے ایک اللہ کی عبادت کرے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں؛ اپنے مال کی زکوٰۃ ہر سال خوش دلی اور فراخ دلی سے ادا کرے؛ بوڑھا، خارش زدہ، بیمار اور گھٹیا جانور زکوٰۃ میں نہ دے بلکہ درمیانہ مال دے کہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے تم سے نہ تو بہترین مال مانگا ہے اور نہ ہی برا مال دینے کا حکم دیا ہے۔
جواب: زکوٰۃ سے حرام مال پاک نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی مال حرام سے کیا گیا صدقہ اور صدقہ کرنے والے کی دعا قبول ہوتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ، وَلَا یَقْبَلُ اللهُ إِلَّا الطَّیِّبَ، وَإِنَّ اللهَ یَتَقَبَّلُهَا بِیَمِینِہٖ، ثُمَّ یُرَبِّیْهَا لِصَاحِبِهَا، کَمَا یُرَبِّي أَحَدُکُمْ فَلُوَّهٗ، حَتّٰی تَکُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ.
جس نے ایک کھجور کے برابر بھی حلال کمائی سے خیرات کی - اور اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا مگر حلال کمائی سے - تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے دستِ قدرت سے قبول فرماتا ہے۔ پھر خیرات کرنے والے کے لیے اس کی پرورش کرتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ نیکی پہاڑ کے برابر ہو جائے گی۔
امام مسلم کی بیان کردہ روایت کے آخر میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ، یُطِیلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، یَمُدُّ یَدَیْهِ إِلَی السَّمَاءِ: یَا رَبِّ! یَا رَبِّ! وَمَطْعَمُهٗ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهٗ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهٗ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذَلِکَ؟
مسلم، الصحیح، کتاب الزکاة، باب قبول الصدقة من الکسب الطیب وتربیتها، 2: 702، رقم: 1014
پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال غبار آلود ہیں، وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے: یا رب! یا رب! حالانکہ اس کا کھانا پینا حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے، اس کی غذا حرام ہے؛ تو اس کی دعا کیسے مقبول ہوگی!
اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَدَّیْتَ الزَّکَاةَ فَقَدْ قَضَیْتَ مَا عَلَیْکَ، وَمَنْ جَمَعَ مَالًا حَرَامًا ثُمَّ تَصَدَّقَ بِهٖ لَمْ یَکُنْ لَهٗ فِیْهِ أَجْرٌ، وَکَانَ إِصْرُهٗ عَلَیْهِ.
حاکم نے ’المستدرک (1: 547، رقم: 1440)‘ میں اسے صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تونے (اپنے مال کی) زکوٰۃ ادا کر دی تو تو نے اپنا فرض ادا کر دیا، اور جو شخص حرام مال جمع کرے پھر اسے صدقہ کردے اسے اس صدقہ کا کوئی ثواب نہیں ملے گا بلکہ اس کا بوجھ اس پر ہوگا۔
ان روایات سے معلوم ہوا کہ مالِ حرام سے صدقہ کرنا ناجائز ہے اور جس مالِ حرام کی حرمت قطعی ہو، جیسے سود کہ جس کا لینا اور دینا دونوں صورتیں حرام ہیں، اس سود کو فقراء پر صدقہ کرنا بھی ناجائز ہے۔ اگر کسی شخص نے کسی سے ناجائز مال لے لیا ہے اور اس مال سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس مال کے مالک یا اس کے ورثاء کو تلاش کرکے وہ مال پہنچا دے۔ اگر مالک یا اس کے ورثاء نہ ملیں تو مالک کی طرف سے اس مال کو فقراء پر صدقہ کر دے اور اپنے ذمہ سے برات کی نیت کرے۔ اس نیت کا ثواب ہوگا۔
جواب: گھٹیا مال بطور زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ ایسا عمل کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کھجوروں کے موسم میں انصار اپنی اپنی استطاعت کے مطابق کھجوروں کے خوشے لاکر مسجد نبوی کے ستونوں کے درمیان لٹکا دیتے جسے اَصحابِ صفہ اور فقراء و مساکین بھوک کے وقت کھا لیتے۔ کسی شخص نے غیر معیاری کھجوروں کا خوشہ لٹکا دیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِ ط وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌo
البقرة، 2: 267
اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے ( اللہ کی راہ میں) خرچ کیا کرو اور اس میں سے گندے مال کو ( اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے کا ارادہ مت کرو کہ (اگر وہی تمہیں دیا جائے تو) تم خود اسے ہرگز نہ لو سوائے اس کے کہ تم اس میں چشم پوشی کر لو، اور جان لو کہ بے شک اللہ بے نیاز لائقِ ہر حمد ہے۔
حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ہم میں سے ہر شخص بہتر سے بہتر چیز لاتا تھا۔
ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورة البقرة، 5: 203-204، رقم: 2987
جواب: مندرجہ ذیل افراد کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی:
1۔ مال دار یعنی وہ شخص جس پر خود زکوٰۃ فرض ہے یا نصاب کے برابر قیمت کا کوئی اور مال اس کے پاس موجود ہے اور اس کی حاجتِ اصلیہ سے زائد ہے۔ جیسے کسی کے پاس تانبے کے برتن روز مرہ کی ضرورت سے زائد رکھے ہوئے ہیں اور ان کی قیمت بقدرِ نصاب ہو تو اس کے لیے زکوٰۃ کا مال لینا حلال نہیں، اگرچہ خود اُس شخص پر ان برتنوں کی زکوٰۃ دینی واجب نہیں ہے۔
2۔ ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ
3۔ بیٹا، بیٹی، نواسا، نواسی، پوتا، پوتی وغیرہ
4۔ خاوند اپنی بیوی کو اور بیوی اپنے خاوند کو بھی زکوٰۃ نہیں دے سکتی۔
5۔ مال دار آدمی کی نابالغ اَولاد کیونکہ نابالغ اَولاد کے اَخراجات ولی کے ذِمّہ ہوتے ہیں۔
جواب: جسے زکوٰۃ دی جائے اُسے یہ بتانا ضروری نہیں کہ یہ مالِ زکوٰۃ ہے۔ بلکہ اگر انعام کے نام سے یا غریب بچوں کو عیدی کے نام سے دے دیں تب بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔
جواب: پہلے دور میں بنو ہاشم کو خُمس سے حصہ ملتا تھا اس لیے انہیں زکوٰۃ لینا جائز نہیں تھی۔ آج کے زمانے میں چونکہ خُمس ختم ہوچکا ہے اس لیے ان کے لیے زکوٰۃ لینا بھی جائز ہوگیا ہے۔ لہٰذا اگر بنو ہاشم مستحقِ زکوٰۃ ہوں تو انہیں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ سادات کا عزت و وقار مجروح نہ ہونے دیا جائے اور اَربابِ اِقتدار و اِختیار یعنی حاکمین اور اَعلیٰ عہدے داران سادات کرام کی اِعانت کا الگ اِنتظام و اِنصرام کریں۔
جواب: جی ہاں! فاسق و فاجر جب تک دائرہ اسلام میں داخل ہے اور مسلمانوں کے لیے باعثِ اذیت نہیں، اسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ کیونکہ جب نافرمانوں اور گناہگاروں سے زکوٰۃ وصول کر لی جاتی ہے تو یہ بھی یقینا جائز ہونا چاہیے کہ ان پر تقسیم کر دی جائے۔ مزید برآں فاسق اس حدیث کے عموم میں بھی شامل ہے کہ زکوٰۃ مسلمانوں کے اَغنیاء سے وصول کی جائے گی اور ان کے فقراء میں تقسیم کر دی جائے گی۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمانِ اَقدس ہے:
تُوْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِهِمْ وَتُرَدُّ فِی فُقَرَائِهِمْ.
أبو داؤد، السنن، کتاب الزکاة، باب فی زکاة السائمة، 2: 18، رقم: 1584
تاہم یہ یاد رہے کہ کسی ایسے فاسق کو زکوٰۃ نہ دی جائے جس کے متعلق یہ گمان غالب ہو کہ وہ اس مال کے ذریعے کوئی گناہ کا کام ہی کرے گا مثلاً یہ کہ وہ شراب پیتا ہے تو اسے زکوٰۃ دے دی جائے اور وہ زکوٰۃ کے مال سے مزید شراب پی لے۔ اسی طرح جوا کھیلنے والے یا نشہ کے عادی کی مثال ہے کیونکہ اس صورت میں اللہ کے مال کے ساتھ گناہ کے کام میں تعاون ہوجائے گا اور یہ شرعاً جائز نہیں۔
جواب: متأخر فقہاء کے نزدیک ایسے لوگوں کو عامل بنایا جاسکتا ہے جن پر زکوٰۃ و صدقہ حرام ہے کیونکہ وہ صدقہ و خیرات نہیں لے رہے وہ تو تنخواہ لے رہے ہیں۔
جواب: مصارفِ زکوٰۃ میں اللہ تعالیٰ نے ایک مصرف مؤلفۃ القلوب کا مقرر فرمایا ہے۔ حضورنبی اکرم ﷺ نے اس مد میں زکوٰۃ و عُشر کی آمدنی خرچ فرمائی اور کبھی اسے منسوخ نہ فرمایا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اُن تمام حضرات کے وہ وظائف بند کر دیے جو تالیفِ قلب کے طور پر وہ پہلے وصول کرتے تھے۔ بعض ائمہ کرام (جیسے احناف) کا مؤقف ہے کہ مؤلفۃ القلوب کا حصہ چونکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے روک لیا تھا اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے ایسا ہوا اور کسی نے اس پر اختلاف یا انکار نہیں کیا، لہٰذا اِس مصرف کے سقوط پر اِجماعِ صحابہ ہے اور اِجماع دلیلِ قطعی ہے۔ بعض ائمہ نے فرمایا کہ پہلے تالیفِ قلب کی ضرورت تھی تو یہ مصرف بحال رہا۔ جب اسلام کو قوت حاصل ہوگئی تو کسی کی تالیفِ قلب کی ضرورت نہ رہی۔ پس حکم جاتا رہا۔
ہمارے نزدیک تالیفِ قلب کی آج بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی اِبتداے اسلام میں تھی۔ آج بھی ضروری ہے کہ زکوٰۃ فنڈ سے غرباء و مساکین کی مدد کرکے ان کے عقیدہ و ایمان کو بچایا جائے۔ غیر مستقل مزاج لوگوں پر خرچ کرکے انہیں مخالفینِ اسلام کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچایا جائے۔ نومسلموں کی مالی اعانت کرکے انہیں اسلام کی طرف مائل و مانوس کیا جائے۔ مال کے خواہش مندوں کو مالی مدد دے کر اسلام پر کاربند کیا جائے۔ دشمن قوتوں کی مالی اعانت کرکے ان کے شر سے ملک و ملت کو بچایا جائے۔ جس طرح ایمان و عقائد خراب کرنے کے لیے لوگ رقم خرچ کرتے ہیں، اسی طرح اسلام بھی ان پر مال خرچ کر کے انہیں مسلمان ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ عام مال دار مسلمانوں اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ غیر مسلموں کو صرف وعظ و تلقین ہی نہ کریں بلکہ زکوٰۃ فنڈ سے ان کی مالی مدد بھی کریں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع اس پر ہوا تھا کہ اُس دور میں مؤلفۃ القلوب کی ضرورت نہ رہی تھی۔ آج بھی ضرورت نہ ہو تو لازم نہیں کہ مؤلفۃ القلوب کا مصرف پیدا کیا جائے۔ لیکن ضرورت ہو تو اس مد میں زکوٰۃ صرف کرسکتے ہیں۔ یہ قرآنی حکم کا نسخ نہیں بلکہ علت نہ ہونے سے حکم ختم ہوگیا۔ جس طرح تیمم اس وقت تک کر سکتے ہیں جب تک پانی استعمال کرنے کی قدرت نہ ہو۔ جونہی پانی پر قدرت حاصل ہوئی تو تیمم کا حکم ختم ہو جاتا ہے۔ حکم علت کے ساتھ رہا، ہمیشہ کے لیے منسوخ ہوا اور نہ ہر صورت میں نافذ۔
جواب: زکوٰۃ جس جگہ وصول کی جائے وہیں تقسیم کرنا افضل ہے لیکن ضرورت اور مصلحت کے تحت کسی دوسرے علاقے میں بھی زکوٰۃ کی رقوم خرچ کرنا جائز ہے۔ یعنی انفرادی طورپر تقسیم کرنے کی بجائے بیت المال میں جمع کرائی جائے تاکہ ان مستحق لوگوں پر خرچ کی جاسکے جو دوسرے علاقوں میں مقیم ہیں۔ اس کام کے لیے زکوٰۃ کی وصولی پر حکومت کی نگرانی ہونی چاہیے جیسا کہ عہدِ رسالت مآب ﷺ اور خلفاے راشدین کے دور میں رائج تھا۔ اس مؤقف کی دلیل وہ روایت بھی ہے جس میں مذکور ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یمن والوں سے کہا تھا کہ ’مجھے تم صدقہ میں جَو اور جوار کی جگہ سامان و اَسباب یعنی دھاری دار چادریں یا دوسرے لباس بھی دے سکتے ہو جس میں تمہارے لیے بھی آسانی ہوگی اور مدینہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے بھی بہتری ہوگی۔‘
بخاری، الصحیح، کتاب الزکاة، باب العرض فی الزکاة، 2: 525
دورِ حاضر کے جدید تقاضوں کے مطابق لوگوں کی اجتماعی معاشرتی و معاشی فلاح و بہبود کے لیے مختلف تنظیمیں مصروفِ کار ہیں۔ زکوٰۃ کی رقوم ان میں سے ایسی تنظیم کو دے جہاں اجتماعی سطح پر اَفرادِ معاشرہ کی کفالت کی جاسکتی ہے جو بہتر طریقے سے فلاح و بہبود کا فریضہ سرانجام دے رہی ہو۔ اس سے لوگوں کا معیارِ زندگی بلند ہوگا اور ایک ہی وقت میں ملک کے تمام علاقوں میں معاشرتی تعاون کی فضا پیدا ہوگی۔
جواب: مسافر کی بات تسلیم کرنے سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی آئے او وہ کہے کہ میں مسافر ہوں اور مجھے اپنے سفر کی تکمیل کے لیے اخراجات کی ضرورت ہے تو اس کی بات کو مان لیا جائے گا یا اس سے کوئی ثبوت طلب کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں امام قرطبی فرماتے ہیں:
دین کے متعلق تو ضروری ہے کہ وہ اسے ثابت کرے، البتہ دیگر صفات کے متعلق اس کا ظاہری حال ہی گواہ اور کافی ہے۔
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 4: 187-188
اس کی دلیل حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ ہے۔ آپ روایت کرتے ہیں: دن کے ابتدائی حصے میں ہم حضورنبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھے کہ کچھ لوگ آئے جو ننگے پاؤں، ننگے بدن، گلے میں چمڑے کی چادریں پہنے ہوئے، اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثر بلکہ سب قبیلہ مضر کے لوگ تھے۔ ان کے فقر و فاقہ کو دیکھ کر حضور ﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا۔ آپ ﷺ اندر تشریف لے گئے، پھر باہرتشریف لائے، پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اذان کہو۔ پھر تکبیر کہی اور نماز پڑھی اور خطبہ ارشاد فرمایا اور یہ آیت تلاوت فرمائی:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ج وَاتَّقُوا اللهَ ط اِنَّ اللهَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَo
الحشر، 59: 18
اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھتے رہنا چاہئیے کہ اس نے کل (قیامت) کے لیے آگے کیا بھیجا ہے، اور تم اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ اُن کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔
پھر لوگ صدقات لانا شروع ہوگئے۔ کسی نے دینار صدقہ کیا، کسی نے درہم دیا۔ کسی نے کپڑے، کسی نے ایک صاع(1) گندم اور کسی نے ایک صاع کھجور دی حتی کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کے پاس کھجور کی گٹھلی (کے برابر) بھی ہو (وہ بھی دے)۔ پھر انصار میں سے ایک شخص تھیلی لایا کہ اس کا ہاتھ تھکا جاتا تھا بلکہ تھک گیا تھا۔ پھر تو لوگوں کا تانتا بندھ گیا حتیٰ کہ میں نے خوراک اور کپڑے کے دو ڈھیر دیکھے یعنی اتنے صدقات جمع ہوگئے۔ حتی کہ میں نے دیکھا کہ حضورنبی اکرم ﷺ کا چہرہ مبارک چمکنے لگا، گویا سونے کا ہوگیا ہو جیسے کندن۔
مسلم، الصحیح کتاب الزکاة، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرة او کلمه طیبة، 2: 705، رقم: 1017
(1) مختلف علاقوں میں صاع کے لیے مختلف پیمانے اِستعمال کیے جاتے تھے۔ بایں وجہ علاقوں کے حساب سے صاع کا وزن بھی مختلف ہوتا تھا، جیسے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے نواح میں رائج ’صاعِ حجازی‘ کا وزن بغداد اور کوفہ کے مضافات میں رائج ’صاعِ عراقی‘ سے مختلف تھا۔ ’صاعِ عراقی‘ کو ’صاع بغدادی‘ بھی کہا جاتا تھا۔ اِسی طرح بعد ازاں ’صاعِ عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ ‘ اور ’صاعِ ہاشمی‘ بھی متعارف ہوئے۔ لیکن معروف و متداول پیمانے کے مطابق فی زمانہ نصف صاع گیہوں کا وزن 2.249 کلو گرام (تقریباً سوا دو کلو) جب کہ نصف صاع جَو کا وزن 2.320 کلو گرام ہے۔ اِس حساب سے ایک صاع گیہوں کا وزن 4.498 کلو گرام (تقریباً ساڑھے چار کلو) اور ایک صاع جَو کا وزن 4.64 کلو گرام ہے۔
اس حدیث پاک سے ثابت ہوا مسافر کے ظاہری حال پر ہی اکتفا کرنا چاہیے کیونکہ حضورنبی اکرم ﷺ نے بھی صرف ظاہری حال پر اکتفا کیا اور لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی۔ آپ ﷺ نے اُن سے کوئی دلیل طلب کی نہ ان سے یہ پوچھا کہ ان کے پاس مال ہے یا نہیں۔
جواب: زکوٰۃ کے واجب ہونے کی شرط یہ ہے کہ مال پر پورا قبضہ ہو، اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا عورت اپنے مہر پر قابض ہونے سے پہلے پورے طور پر اس کی مالک بھی تھی یا نہیں؟ اگر عورت کا مالِ مہر اس کے قبضہ میں نہیں آیا تو اس کی زکوٰۃ واجب نہیں۔
جواب: زوجین میں سے جو زیور کا حقیقی مالک ہوگا، وہی زکوۃ ادا کرنے کا پابند ہوگا؛ مثلاً اگر شوہر نے بیوی کو زیور صرف استعمال کرنے کے لیے دیے ہوئے ہیں اور اصلاً ملکیت شوہر کی ہے کہ وہی چاہے تو فروخت کرسکے تو ایسی صورت میں زکوٰۃ بیوی پر نہیں بلکہ شوہر پر واجب ہوگی۔ لیکن اگر بیوی اپنے زیور کی خود مالک ہے کہ وہ چاہے تو اپنی مرضی استعمال کرے یا فروخت کر دے تو ایسی صورت میں زکوٰۃ دینا بیوی پر لازم ہوگا۔
جواب: جی ہاں! طلاق یافتہ عورت کو اس کا سابقہ شوہر زکوٰۃ دے سکتا ہے۔
جواب: جی ہاں! کسی بھی مستحق مرد یا عورت کی شادی کے لیے اُسے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے لیکن یہ خیال رکھا جائے گا کہ زکوٰۃ کا مال اَسراف اور غیرشرعی رسوم کی ادائیگی میں نہ لگنے پائے۔
جواب: جی نہیں! میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔
جواب: والدین اور اولاد کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی کیونکہ جن قرابت داروں کا نفقہ آدمی کے ذمہ واجب ہے انہیں زکوٰۃ دینا جائز نہیں؛ مثلاً ماں، باپ، دادا، پڑدادا، بیٹا، پوتاوغیرہ اور بیوی۔ علاوہ ازیں باقی رشتہ داروں کو دے سکتے ہیں بلکہ رشتہ داروں میں بہن، بھائی، خالہ، پھوپھی، ماموں، چچا یا ان کی اولاد میں سے کوئی غریب ہے تو اسے صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ دینا بہ نسبت دوسرے غرباء کے افضل ہے کہ فرض بھی ادا ہو جاتا ہے اور صلہ رحمی بھی۔ انہیں زکوٰۃ دینے سے دوہرا اَجر ملتا ہے۔
جواب: جی نہیں! محتاج ماں باپ کو حیلہ کرکے زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ ماں باپ کی ویسے ہی مالی و جسمانی خدمت کرنا اولاد پر فرض ہے۔ لہٰذا اگر اولاد صاحبِ نصاب ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے اصل مال کے ذریعے اپنے محتاج ماں باپ کی مدد کرے۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! بلا شبہ میرے پاس مال اور اولاد (دونوں) ہیں اور میرا والد چاہتا ہے کہ وہ میرا مال اپنی ضروریات میں خرچ کرلے (اور میرے لیے کچھ نہ چھوڑے)۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
أَنْتَ وَمَالُکَ لِأَبِیکَ.
ابن ماجه، السنن، کتاب التجارات، باب ما للرجل من مال ولده، 3: 88-89، رقم: 2291
تم اور تمہارا مال دونوں تمہارے والد کی ملکیت ہیں۔
جواب: اگر زیور ان بچوں کے نام ہے اور ماں باپ بطور امین اس کی حفاظت کر رہے ہیں تو پھر جتنی دیر وہ نابالغ ہیں ان پر زکوٰۃ لاگو نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس اگر وہ زیورات ماں باپ کے نام ہی ہوں اور وہ ویسے ہی کہہ دیں کہ اتنا فلاں کا ہے، اتنا فلاں کا ہے تو پھر زکوٰۃ لاگو ہوگی۔
جواب: جی ہاں! ایسے تعلیمی ادارے جہاں طلباء سے فیس لی جاتی ہے یا نہیں لی جاتی دونوں صورتوں میں زکوٰۃ فنڈ جمع کرنا تاکہ نادار اور مستحق طلبہ کی ضروریات پوری کی جائیں بالکل درست، بلکہ مناسب تر ہے تاکہ طلباء کی بروقت امداد کی جائے اور وہ سکون و اطمینان سے علم حاصل کرسکیں۔
فقہاء کرام فرماتے ہیں:
طالب علم زکوٰۃ لے سکتا ہے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو علم پڑھانے اور پڑھنے کے لیے وقف کر رکھا ہے اور وہ رزق کمانے سے عاجز ہے۔ لہٰذا ضروریاتِ زندگی حاصل کرنے کی مجبوری اس (پر زکوٰۃ) کے جائز ہونے کا سبب ہے۔
حصکفی، الدر المختار، 1: 140
لہٰذا جامعات کی ضروریات بالخصوص مستحق طلبہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ اکثر و بیشتر مذہبی اور دیگر رفاہی ادارے زکوٰۃ پر ہی چل رہے ہیں۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ زکوٰۃ فنڈ سے نادار طلبہ کے اخراجات پورے کیے جائیں خواہ وہ کتب و اسٹیشنری کی صورت میں ہوں یا فیس و خوراک اور پوشاک و دوا وغیرہ کی صورت میں۔
جواب: اگر کسی نے حج کے لیے رقم جمع کر رکھی ہے اور نیت یہ ہے کہ اس رقم سے حج کرے گا تو وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ رقم حکومت کے پاس اِس مدّ میں جمع کرا دی ہے تو وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہو گی۔
جواب: اگر کوئی شخص قرض دار ہے تو وہ مال میں سے اتنا مال الگ کرلے جو اس کے قرض کے لیے کافی ہو اور باقی مال اگر نصاب کی حد کو پہنچتا ہو تو اُس پر زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے، لیکن اگر بقیہ مال نصاب کی حد تک نہ پہنچے تو اس پر کوئی زکوٰۃ نہیں۔
جواب: جی ہاں! اگر مقروض غریب و مفلس ہے اور صاحبِ نصاب نہیں تو بلا شبہ قرض کو زکوٰۃ سے بدلا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ غنی اور صاحبِ نصاب ہے تو اس کے لیے زکوٰۃ لینا جائز نہیں اور یہ قرض بطورِ زکوٰۃ اسے دینا بھی جائز نہیں۔ پہلی صورت میں یقینا وہ زکوٰۃ کا مستحق ہے، اسے کچھ بتانے کی بھی ضرورت نہیں۔ صرف یہ کہہ دیں کہ آپ میرے قرض سے سبک دوش ہیں، اب اس کی فکر نہ کریں؛ تاکہ اس کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔
جواب: اگر قیدی صاحبِ حیثیت ہے، جیسے بڑے بڑے مال دار، سرمایہ دار، جاگیردار، تاجر، ملازم وغیرہ؛ جو جرمانہ اپنے گھر سے دے دیتے ہیں اور رہائی پالیتے ہیں۔ مگر غریب اور نادار قیدی جرمانہ ادا نہیں کرسکتے اور مزید عرصہ قید بھگتتے ہیں، ایسے لوگوں کو مالِ زکوٰۃ دے کر آزاد کیا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ ’فقیر‘، ’مساکین‘ اور ’الرقاب‘، تینوں مصارف میں شامل ہیں۔ اگرچہ ’الرقاب‘ نزولِ قرآن کے وقت لونڈی/غلام کے معنوں میں استعمال ہوا مگر آج کے دور میں مفلس اسیروں کو بھی اس عام صنف میں شامل کر لیا جائے تو اس کی گنجائش موجود ہے۔
جواب: زکوٰۃ و صدقات کی ادائیگی ماہِ رمضان کے ساتھ مشروط نہیں بلکہ ان کی ادائیگی کسی بھی وقت مستحب و مشروع ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنے والے پر واجب ہے کہ اُسی وقت زکوٰۃ ادا کرے جب اس کے مال کا سال مکمل ہو جائے اور رمضان کا منتظر نہ رہے لیکن اگر رمضان قریب ہو مثلاً کسی شخص کا سال شعبان میں مکمل ہو رہا ہے اور وہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے رمضان کا انتظار کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر اس کی زکوٰۃ کا سال محرم میں پورا ہو رہا ہے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کو رمضان تک مؤخر کرے۔ البتہ یہ جائز ہے کہ محرم سے پہلے رمضان میں ہی سال مکمل ہونے سے پہلے زکوٰۃ ادا کر دے، اس میں کوئی حرج نہیں وقتِ وجوب سے تاخیر جائز نہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved