جواب: زکوٰۃ اَرکانِ اِسلام کا ایک اَہم رکن ہے جسے صدقہ واجبہ بھی کہتے ہیں۔ شریعت میں صاحبِ نصاب کا اپنے مخصوص مال کو خاص شرائط کے ساتھ مصارفینِ زکوٰۃ کو دینا کہ ان کا حق ادا ہوجائے، زکوٰۃ کہلاتا ہے۔
جواب: زکوٰۃ کا لغوی معنی پاک ہونا، نشو و نما پانا اور بڑھنا ہے۔
لسان العرب، ابن منظور، 14: 358
لغوی اعتبار سے زکوٰۃ کا لفظ دو معنوں کا حامل ہے: اس کا ایک معنی پاکیزگی، طہارت اور پاک صاف ہونے یا کرنے کا ہے اور دوسرا معنی نشو و نما اور بالیدگی کا ہے جس میں کسی چیز کے بڑھنے، پھلنے پھولنے اور فروغ پانے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ زکوٰۃ کے پہلے معنی کی وضاحت میں - جو پاکیزگی و طہارت پر دلالت کرتا ہے - قرآن حکیم کا یہ اِرشاد محلِ غور و فکر ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَاo وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَاo
الشمس، 91: 9-10
بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)۔ اور بے شک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)۔
اس آیت کریمہ میں دنیوی و اُخروی کامیابی کے لیے طہارت و تزکیۂ نفس کا جو تصور پیش کیا گیا ہے اسے مدنظر رکھنے سے زکوٰۃ کا اطلاق راهِ خدا میں خرچ کیے جانے والے اُس مال پر ہوتا ہے جو دولت کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔
زکوٰۃ کا دوسرا مفہوم نشو و نما پانے، بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا ہے جیسے وہ کھیتی جو بہت بڑھ رہی ہو اور پھل پھول لا رہی ہو تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے:
زَکَا الزَّرْعَ.
کھیتی نے نشو و نما پائی۔
اس مفہوم کو پیشِ نظر رکھیں تو زکوٰۃ کا اطلاق اُس مال پر ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے اس میں کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ وہ مال اللہ کا فضل اور برکت شامل ہونے کی وجہ سے بڑھتا رہتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ.
البقرة: 2: 276
اور صدقات کو بڑھاتا ہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زیادہ کرتا ہے)۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ.
مسلم، الصحیح، کتاب البر و الصلة والآداب، باب استحباب العفو والتواضع، 4: 2001، رقم: 2588
صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔
جواب: صدقہ فطر سن دو ہجری میں مدینہ منورہ میں واجب ہوا اور زکوٰۃ کی باقی مدات بھی اسی سال واجب ہوئیں جبکہ اِجمالاً زکوٰۃ مکہ مکرمہ میں فرض ہوگئی تھی۔ جس طرح عام نمازوں کا آغاز اسلام کے ساتھ ساتھ ہوا اسی طرح زکوٰۃ یعنی عام مالی خیرات کا حکم بھی ابتداے اسلام میں ہی دیا گیا لیکن اس کا پورا نظام بتدریج فتح مکہ کے بعد قائم ہوا۔ آغازِ اِسلام میں زکوٰۃ کا لفظ صرف خیرات کے مترادف تھا۔ اس کی مقدار، نصاب پر سال گزرنے کی قید اور باقی احکامات جو زکوٰۃ کی حقیقت میں داخل ہیں، وہ بعد میں تدریجاً نافذ ہوئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی دعوت حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مشتمل ہے۔ حقوق اللہ کی ادائیگی کا مظہرِ اَعظم نماز ہے اور حقوق العباد کی جامع دلیل زکوٰۃ ہے۔ بعثت سے قبل حضور نبی اکرم ﷺ جس طرح تنہائی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے اسی طرح خاموشی سے غریبوں کی چارہ گری، مسکینوں اور یتیموں کی دست گیری اور بیواؤں کی خبر گیری بھی کیا کرتے تھے۔
سورۃ المزمل وحی کی ابتدائی سورتوں میں سے ہے جس میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا۔ اَحکامِ زکوٰۃ کی اصل آیت یہی ہے جس کے بعد تمام برگ و بار ظاہر ہوئے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ وَاَقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا ط وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللهِ ھُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًا ط وَاسْتَغْفِرُوا اللهَ ط اِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
المزمل، 73: 20
اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ کو قرضِ حسن دیا کرو، اور جو بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اُسے اللہ کے حضور بہتر اور اَجر میںبزرگ تر پا لوگے، اور اللہ سے بخشش طلب کرتے رہو، اللہ بہت بخشنے والا بے حد رحم فرمانے والا ہے۔
بعثت کے پانچویں سال جب حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ دیگر صحابہ کرام l کے ساتھ حبشہ ہجرت کرگئے اور نجاشی نے انہیں اپنے دربار میں بلا کر حقیقتِ اِسلام اور تعلیماتِ اِسلام دریافت کیں، تو انہوں نے کہا:
اَمَرَنَا بالصَّلٰوةِ وَالزَّکَاةِ وَالصِّیَامِ.
پیغمبر اسلام ﷺ ہمیں نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ عام زکوٰۃ اور مالی خیرات کا آغاز اسلام کی ابتداء ہی میں ہو چکا تھا۔ سن چھ ہجری میں جب ہرقل کے پاس حضور نبی اکرم ﷺ کا نامہ مبارک پہنچا تو اس نے ابوسفیان سے حضور نبی اکرم ﷺ کے پیغام اور آپ ﷺ کی تعلیمات کے بارے میں دریافت کیا۔ اگرچہ ابوسفیان اُس وقت تک نعمتِ اسلام سے مشرف نہ ہوئے تھے اس کے باوجود انہیں یہ کہنا پڑا کہ:
یَأْمُرُنَا بِالصَّلٰوةِ وَالزَّکَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ.
وہ ہمیں نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے، صلہ رحمی کرنے اور پاک دامن رہنے کا حکم دیتے ہیں۔
ان واقعات سے اچھی طرح ظاہر ہو جاتا ہے کہ اِجمالی طور پر زکوٰۃ پر عمل درآمد آغازِ اِسلام میں ہی شروع ہوگیا تھا۔
جواب: جی ہاں! قرآن و حدیث کی رُو سے ہر صاحبِ نصاب کا زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے اور جو شخص زکوٰۃ کی فرضیت کا منکر ہووہ کافر ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاٰتُوا الزَّکوٰةَ.
البقرة، 2: 83
اور زکوٰۃ دیتے رہنا۔
کسی حکم کی بار بار تاکید اس کی اَہمیت کی دلیل ہوتی ہے۔ قرآن حکیم میں بیاسی (82) مقامات پر زکوٰۃ کی ادائیگی کا تاکیدی حکم آیا ہے۔ اسی طرح احادیث میں بھی کثیر مقامات پر زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم ہے۔
1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلٰی خَمْسٍ: شَھَادَةِ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِیْتَاءِ الزَّکَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ.
اِسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: یہ گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
2۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
حَصِّنُوا أَمْوَالَکُمْ بِالزَّکَاةِ، وَدَاوُوْا أَمْرَاضَکُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَاسْتَقْبِلُوْا أَمْوَاجَ الْبَلَاءِ بِالدُّعَاءِ وَالتَّضَرُّعِ.
طبراني نے ’المعجم الأوسط (2: 274، رقم: 1963)‘ میں اسے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
اپنے مال و دولت کو زکوٰۃ کے ذریعے محفوظ بنا لو اور اپنی بیماریوں کا علاج صدقہ کے ذریعے کرو اور مصیبت کی لہروں کا سامنا دعا اور گریہ و زاری کے ذریعے کرو۔
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَدَّیْتَ زَکَاةَ مَالِکَ، فَقَدْ قَضَیْتَ مَاعَلَیْکَ.
ترمذی، الجامع الصحیح، أبواب الزکاة، باب ماجاء إذا أدّیت الزکاة فقد قضیت ما علیک، 3: 13، رقم: 618
جب تو نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی تو تو نے اپنا فرض ادا کردیا۔
4۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا تو ان کو یہ ہدایات دیں:
تم اہلِ کتاب کے پاس جا رہے ہو، سو ان کو اس گواہی کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں، اگر وہ بات کو تسلیم کر لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رات دن میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ اس حقیقت کو تسلیم کر لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک خاص صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے امیروں سے لیا جائے گا اور ان کے غریبوں پر صرف کیا جائے گا۔ خبردار! ان کے سب سے اعلیٰ قسم کے مالوں سے پرہیز کرنا اور مظلوم کی بددعا سے بچنا کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان (کوئی) پردہ نہیں ہوتا۔()
ابو داؤد، السنن، کتاب الزکاة، باب فی زکاة السائمة، 2: 18، رقم: 1584
جواب: زکوٰۃ کے فرض ہونے کی درج ذیل شرائط ہیں:
جواب: جی ہاں! ادائیگی زکوٰۃ کے لیے نیت ضروری ہے۔ زکوٰۃ مالی عبادت ہے اور اس کی صحت کے لیے نیت شرط ہے یعنی زکوٰۃ ادا کرنے کی نیت یہ ہو کہ وہ زکوٰۃ ادا کر رہا ہے، خواہ نیت مستحق کو زکوٰۃ دیتے وقت ہو یا زکوٰۃ کا مال دوسرے مال سے الگ کرتے وقت ہو۔
جواب: زکوٰۃ کا تعلق چونکہ اِقتصادیات سے ہے۔ اس لیے اسلام کے معاشی نظام میں اس کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔ ادائیگیِ زکوٰۃ کے حکم کے پیچھے بہت سی حکمتیں کار فرما ہیں، جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ادائیگیِ زکوٰۃ کے ذریعے پورے معاشرے کو ایسا معاشی نظام، طرزِ زندگی اور سماجی ڈھانچہ مہیا کرے جس سے حرام کمائی کے سارے ذرائع اور راستے ختم ہوجائیں اور رزقِ حلال کے دروازے خود بخود کھلتے چلے جائیں۔ اس طرح نہ صرف اَفراد کی کمائی حلال اور ان کا مال آلائشوں سے پاک ہوجائے گا بلکہ معاشرہ میں پائی جانے والی ناہمواریاں خود بخود ختم ہونے کے ساتھ ساتھ پوری معاشرتی زندگی حلال و حرام کی حدوں سے آشنا ہوجائے گی اور یوں اِجتماعی اَحوال و معاملات بھی سنور جائیں گے۔
جواب: اَرکانِ اسلام کا اَہم ترین رُکن ہونے کی حیثیت سے زکوٰۃ کی ادائیگی کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ احادیث مبارکہ کی روشنی میں جو شخص زکوٰۃ ادا کرتا ہے وہ جنتی ہے اور اس کے لیے جنت کی ضمانت ہے۔
1۔ حضرت عمیر اللیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا:
إِنَّ أَوْلِیَاءَ اللهِ الْمُصَلُّوْنَ، وَمَنْ یُقِیْمُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ الَّتِي کَتَبَهُنَّ اللهُ عَلٰی عِبَادِهٖ، وَیَصُوْمُ رَمَضَانَ، وَیَحْتَسِبُ صَوْمَهٗ، وَیُؤْتِي الزَّکَاةَ طَیِّبَۃً بِهَا نَفْسُهٗ یَحْتَسِبُھَا، وَیَجْتَنِبُ الْکَبَائِرَ الَّتِي نَهَی اللهُ عَنْهَا.
نمازی اللہ کے ولی ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر فرض کردہ پانچ نمازوں کی پابندی کرتا ہے، اَجر و ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے، خوش دلی سے حصولِ ثواب کے لیے زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور ان کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے (وہ بھی اللہ تعالیٰ کا ولی ہے)۔
2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے اردگرد بیٹھے لوگوں سے فرمایا: تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو، میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ (چھ چیزیں) کون سی ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
اَلصَّلَاةُ، وَالزَّکَاةُ، وَالأَمَانَةُ، وَالْفَرْجُ، وَالْبَطْنُ وَاللِّسَانُ.
طبراني، المعجم الأوسط، 5: 154، رقم: 4925
نماز و زکوٰۃ (کی ادائیگی)، امانت داری، شرم گاہ (کی حفاظت)، پیٹ (کو حرام سے بچانا) اور زبان (سے بری بات نہ کہنا)۔
3۔ ہر سال زکوٰۃ ادا کرنے والا ایمان کا ذائقہ چکھتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن معاویہ غاضری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ثَلاَثٌ مَنْ فَعَلَهُنَّ فَقَدْ طَعِمَ طَعْمَ الْإِیمَانِ: مَنْ عَبَدَ اللهَ وَحْدَهٗ وَأَنَّهٗ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَعْطٰی زَکَاةَ مَالِهٖ طَیِّبَۃً بِهَا نَفْسُهٗ رَافِدَۃً عَلَیْهِ کُلَّ عَامٍ.
ابو داؤد، السنن، کتاب الزکاۃ، باب فی زکاۃ السائمۃ، 2: 16، رقم: 1582
جس شخص نے تین کام کیے اس نے یقینا ایمان کا ذائقہ چکھ لیا: جس نے صرف ایک اللہ کی عبادت کی اور یہ جان لیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں اور ہر سال خوش دلی اور رغبت و تعاون کے ساتھ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی۔
4۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِیئَةَ کَمَا یُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ.
ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب الایمان، باب ما جاء فی حرمة الصلاة، 5: 13، رقم: 2616
صدقہ گناہوں کو بجھا (مٹا) دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے۔
جواب: زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کو قرآن حکیم و حدیث مبارکہ میں سخت وعید سنائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهٖ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْ ط بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ ط سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ط وَ ِﷲِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo
آل عمران، 3: 180
اور جو لوگ اس (مال و دولت) میں سے دینے میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کیا ہے وہ ہرگز اس بخل کو اپنے حق میں بہتر خیال نہ کریں، بلکہ یہ ان کے حق میں برا ہے، عنقریب روزِ قیامت اُنہیں (گلے میں) اس مال کا طوق پہنایا جائے گا جس میں وہ بخل کرتے رہے ہوں گے، اور اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا وارث ہے (یعنی جیسے اب مالک ہے ایسے ہی تمہارے سب کے مر جانے کے بعد بھی وہی مالک رہے گا)، اور اللہ تمہارے سب کاموں سے آگاہ ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ آتَاهُ اللهُ مَالًا، فَلَمْ یُؤَدِّ زَکَاتَهٗ، مُثِّلَ لَهٗ یَوْمَ الْقِیَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ، لَهٗ زَبِیْبَتَانِ، یُطَوِّقُهٗ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، ثُمَّ یَأْخُذُ بِلِهْزِمَیْهِ، یَعْنِي شِدْقَیْهِ، ثُمَّ یَقُولُ: أَنَا مَالُکَ، أَنَا کَنْزُکَ.
جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا لیکن اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی تو قیامت کے دن اس کا مال زہریلے گنجے سانپ کی شکل اختیار کرلے گا جس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے اور وہ اس کے گلے کا ہار ہوگا؛ وہ اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑے گا اور کہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔
جواب: سونا چاندی کی زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے لیے سخت وعید سنائی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
جس شخص کے پاس بھی سونا چاندی ہے اور وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کے لیے آگ کی چٹانوں کے پرت بنائے جائیں گے، دوزخ کی آگ میں ان کو گرم کیا جائے گا پھر ان پرتوں سے اس کے پہلوؤں، اس کی پیشانی اور اس کی کمر کو داغا جائے گا۔ پچاس ہزار سال کے دن میں بندوں کے فیصلے ہونے تک جب بھی ان پرتوں کو (اس کے بدن سے) دوزخ کی جانب پھیرا جائے گا، اس کو اس (کے جسم) کی طرف (تسلسل کے ساتھ) لوٹانے کا عمل جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ انسانوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا تو ہر شخص اپنا ٹھکانہ دیکھ لے گا کہ جنت میں ہے یا دوزخ میں۔
مسلم، الصحیح، کتاب الزکاة، باب إثم مانع الزکاة، 2: 680، رقم: 987
جواب: جو لوگ جانوروں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ان کے بارے میں بھی حدیث مبارکہ میں سخت وعید آئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
حضور نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا گیا: یا رسول اللہ! اونٹوں کا (حکم) کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو اونٹوں والا اونٹوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا، اُسے چٹیل کھلے میدان میں گرا دیا جائے گا، اونٹ پہلے سے زیادہ موٹے تازے اور کثیر تعداد میں ہوں گے، ان میں سے کوئی بچہ بھی غائب نہیں ہوگا۔ چنانچہ اونٹ اپنے مالک کو اپنے پاؤں تلے روندیں گے اور اپنے دانتوں کے ساتھ کاٹیں گے۔ جب اس پر سے پہلا دستہ گزر جائے گا تو اس پر سے دوسرا دستہ گزرے گا (یہ تسلسل اس روز تک قائم رہے گا) جس کی مدت پچاس ہزار سال کے برابر ہے (یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا) اور ہر شخص اپنے مقام کو ملاحظہ کرے گا کہ وہ جنت میں ہے یا دوزخ میں۔
اور جو بکریوں والا بکریوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرے گا اس کو چٹیل میدان میں گرا دیا جائے گا اور انتہائی فربہ جسم میں اس کی بکریاں ظاہر ہوکر اسے روندتی ہوئی چلی جائیں گی اور سینگوں سے اس کو ماریں گی اور جب بکریوں کا ایک ریوڑ اس کو روندتے ہوئے گزر جائے گا تو دوسرا ریوڑ آجائے گا۔ حتیٰ کہ اللہ اس دن اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کردے گا جو پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔ پھر وہ شخص اپنا راستہ دیکھ لے گا یا جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔
حضور نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا گیا: یا رسول اللہ! گھوڑوں کے بارے میں کیا (حکم) ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: گھوڑوں کی پیشانی سے قیامت تک خیر وابستہ رہے گی۔ اور فرمایا: گھوڑوں کی تین قسمیں ہیں: کسی شخص کے لیے گھوڑے اجر ہوں گے جبکہ بعض لوگوں کے لیے پردہ ہوں گے اور کسی کے لیے باعثِ وبال ہوں گے۔ … وبال اس شخص کے لیے ہیں جس نے ان کو ریا، فخر اور مسلمانوں کی عداوت کے لیے باندھا ہوا ہے۔
مسلم، الصحیح، کتاب الزکاة، باب إثم مانع الزکاة، 2: 680-681، رقم: 987
جواب: اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کا ہر نظامِ معیشت دراصل ’تصورِ ملکیت (concept of ownership)‘ ہی پر قائم ہے۔ تصورِ ملکیت سے اس کے اَساسی اُصول اور تفصیلات و جزئیات متعین ہوتی ہیں اور اسی سے اس کے نفاذ کی اثر انگیزی اور نتیجہ خیزی متحقق ہوتی ہے۔ لہٰذا تصورِ ملکیت کسی بھی نظامِ معیشت کی تشکیل میں سنگِ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔
کسی چیز کی ملکیت (ownership) درحقیقت اُس میں کسی شخص کے درج ذیل دو حقوق پیدا ہونے سے عبارت ہوتی ہے:
اِسی طرح جس شخص کو کسی چیز پر مذکورہ بالا حقوق حاصل ہو جائیں تو اسے چیز کا مالک (owner) اور اس چیز کو اس کی ملکیت (property) تصور کیا جائے گا۔ دراصل اسلام کا تصورِ ملکیت بھی یہ ہے کہ نفع اٹھاؤ اور اٹھانے دو۔
مذکورہ بالا بحث کے تحت ملکیت کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے:
جب کسی شخص کو کسی مال/شے پر اپنا قبضہ قائم رکھنے اور حسبِ منشاء تصرف کرنے کا حق حاصل ہو جائے تو اس حق کو ’ملکیت‘ کہتے ہیں۔
اِسلام کے تصورِ ملکیت میں اَموال پر قبضہ و تصرف (proprietary rights) کو کسی حد تک تو خالصتاً اِنفرادی حق تسلیم کیا گیا ہے، کوئی اس میں کسی کو شریک کرے یا نہ کرے شریعت اس سے تعرض نہیں کرتی۔ مگر اِنتفاع یعنی اَموال کی نفع بخشی اور سود مندی (usufructuary rights) میں محض اِنفرادی اور نجی حق شریعت کی رُو سے کلیتاً غیر اسلامی ہے۔ اس میں ہر شخص دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا پابند ہے۔ زکوٰۃ، صدقات اور اِنفاق کے تمام اَحکام اِس دعوے کے بیّن دلائل ہیں۔ اگر اشیاء اور اَموال کی ملکیت یعنی ان کے قبضہ و تصرف کی طرح ان کے منافع اور فوائد (usufructs) کی ملکیت کو بھی مطلقاً نجی اور انفرادی ضرورت تک مختص رکھنے کی اجازت ہوتی تو شریعت لوگوں کے کمائے ہوئے مال و دولت پر زکوٰۃ، صدقات اور اِنفاق کے وجوبی و لازمی اَحکام صادر نہ کرتی۔ یہ اَحکام مال کے قبضہ و تصرف میں شرکت کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ صرف ان کے حقِ اِنتفاع میں دوسروں کی شرکت کا مطالبہ کرتے ہیں، جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں مال (property) کے قبضہ و تصرف کی حیثیت اس کے اِنتفاع کی حیثیت سے مختلف ہے۔ اِنتفاع میں اِجتماعی حق جبکہ قبضہ اور تصرف میں بالعموم اِنفرادی حق زیادہ اہمیت کے ساتھ ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اس تصور کی تائید درج ذیل قرآنی آیات سے ہوتی ہے:
1. لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ کَثُرَ ط نَصِیْبًا مَّفْرُوَضًاo وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی والْمَسٰکِیْنُ فَارْزُقُوْھُمْ مِّنْهُ وَ قُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo
النساء، 4: 7-8
مردوں کے لیے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے۔ اور اگر تقسیمِ (وراثت) کے موقع پر (غیر وارث) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج موجود ہوں تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دو اور ان سے نیک بات کہو۔
2. یَقُوْلُ اَھْلَکْتُ مَالًا لُّبَدًاo اَ یَحْسَبُ اَنْ لَّمْ یَرَهٗٓ اَحَدٌo اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهُ عَیْنَیْنِo وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِo وَهَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِo فَـلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَo
البلد، 90: 6-11
وہ (بڑے فخر سے) کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال خرچ کیا ہے۔ کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اسے ( یہ فضول خرچیاں کرتے ہوئے) کسی نے نہیں دیکھا۔ کیا ہم نے اس کے لیے دو آنکھیں نہیں بنائیں؟ اور (اسے) ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دیے)؟ اور ہم نے اُسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیے۔ وہ تو (دینِ حق اور عملِ خیر کی) دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہی نہیں ہوا۔
الغرض اِسلام کا تصورِ ملکیت اپنے معنی و مفہوم اور روح کے اِعتبار سے اِنفرادی حیثیت کا حامل ہے اور اِسلام کے معاشی نظام کا وہ بنیادی پتھر ہے جو اس کی پوری ساخت و تشکیل کو دنیا کے دیگر معاشی نظاموں سے ممتاز و ممیز کرتا ہے اور انسانیت کی فلاح و بہبود کی ضمانت فراہم کرنے میں یقینی طور پر سرفہرست ہے۔
جواب: عام طور پر مال دار لوگ یہی خیال رکھتے ہیں کہ معاشی تعطل کے شکار اَفراد اپنی حاجت مندی کے ذمہ دار خود ہیں یا معاشرہ ہے، چاہے اَفراد کی اِضطراری حالت انہیں ضمیر فروشی، مصلحت کوشی اور عصمت فروشی پر ہی کیوں نہ مجبور کر رہی ہو۔ بالعموم مال دار لوگ یہی سوچتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے حوالے سے اُن پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ نتیجتاً وہ انہیں اسی حالت میں چھوڑ کر اپنی دین داری اور پارسائی کے تحفظ میں مصروف رہنا چاہتے ہیں۔ قرآن حکیم ایسے نام نہاد دین داروں اور پارسائوں کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر کہہ رہا ہے کہ جو شخص اپنی ذات اور انفرادی نیکیوں کے زعم میں محصور رہ کر معاشرے کے دیگر پریشان حال لوگوں کے معاشی تعطل کو رفع کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ انہیں اپنے حال پہ چھوڑ کر مستغنی اور بے نیاز رہنا چاہتا ہے تو وہ جان لے کہ اس کا یہ عمل ہرگز نیکی اور دین کی تصدیق نہیں بلکہ یہ دین کو جھٹلا دینے کے مترادف ہے۔
اِسی طرح اگر کوئی شخص اپنی کمائی اور منافع کے بارے میں یہ خیال رکھے کہ یہ اُس کی ذاتی ملکیت ہے، اس میں دوسروں کو کیوں شریک کروں؛ یا دولت کو صرف اپنی ضروریات اور آسائشوں تک محدود رکھا جائے اور ان سے دوسروں کو فائدہ نہ اٹھانے دیا جائے یعنی دوسرے مستحقین کے شرعاً تسلیم شدہ حقوق پورے نہ کیے جائیں تو اسے دولت کا جمع کرناکہا جائے گا اور یہ اَمر شریعت میں حرام بلکہ باعثِ عذابِ جہنم ہے باوجود اس کے کہ اس نے وہ ساری دولت اپنے جائز ملکیتی ذرائع سے کمائی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ اْلاَحْبَارِ وَالرُّھْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللهِ ط وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ لا فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍo یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُکْوٰی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْ ط هٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَo
التوبة، 9: 34-35
اے ایمان والو! بے شک (اہلِ کتاب کے) اکثر علماء اور درویش، لوگوں کے مال ناحق (طریقے سے) کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں (یعنی لوگوں کے مال سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور دین حق کی تقویت و اشاعت پر خرچ کیے جانے سے روکتے ہیں)، اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیں۔ جس دن اس (سونے، چاندی اور مال) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی پھر اس (تپے ہوئے مال) سے ان کی پیشانیاں اور ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی، (اور ان سے کہا جائے گا) کہ یہ وہی (مال) ہے جو تم نے اپنی جانوں (کے مفاد) کے لیے جمع کیا تھا سو تم (اس مال کا) مزہ چکھو جسے تم جمع کرتے رہے تھے۔
اِسی مضمون کو سورۃ الحشر میں یوں بیان کیا گیا ہے:
مَآ اَفَآءَ اللهُ عَلٰی رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ ط وَمَآ اٰتٰـکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ج وَاتَّقُواللهَ ط اِنَّ اللهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo
الحشر، 59: 7
جو (اَموالِ فَے) اللہ نے (قُرَیظہ، نَضِیر، فِدَک، خَیبر، عُرَینہ سمیت دیگر بغیر جنگ کے مفتوحہ) بستیوں والوں سے (نکال کر) اپنے رسول ( ﷺ ) پر لوٹائے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کے لیے ہیں اور (رسول ﷺ کے) قرابت داروں (یعنی بنو ہاشم اور بنو عبدالمطّلب) کے لیے اور (معاشرے کے عام) یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لیے ہیں (یہ نظامِ تقسیم اس لیے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے) اور جو کچھ رسول ( ﷺ ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو (یعنی رسول ﷺ کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو)، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔
جواب: جی ہاں! انسان کے مال کی بقا دوسروں کی فلاح و بہبود میں مضمر ہے لیکن اِس کے لیے اِسلام کے تصورِ ملکیت کو موجودہ معروضی صورت حال میں سمجھنا اَز بس ضروری ہے۔ ہمارے ذہن ملکیت کے جس تصور سے آشنا ہیں وہ سرمایہ دارانہ یا اشتراکی نظام ہاے معیشت سے اَخذ کردہ ہے۔ اِسلام کا اِقتصادی تصور سرمایہ دارانہ اور اِشتراکی فکر کی اساس پر استوار کیے گئے اِقتصادی تصورات سے یکسر مختلف ہے۔ خالقِ کائنات نے اس دنیا میں جو بھی پیدا کیا ہے وہ انسان کی فلاح و بہبود اور بہتری کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ گویا اَموال و اَملاک اور جائدادوں کی صورت میں جو کچھ بھی موجود ہے اس سے بنی نوع اِنسان کا فائدہ مقصود ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا.
البقرة، 2: 29
وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لیے پیدا کیا۔
اِس تصور کو - کہ ہر چیز کی تخلیق میں انسان کی منفعت مضمر ہے - ایک اور مقام پر قرآن حکیم ان الفاظ سے واضح فرماتا ہے:
وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی اْلاَرْضِ.
الرعد، 13: 17
اور البتہ جو کچھ لوگوں کے لیے نفع بخش ہوتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے۔
اِس آیۂ کریمہ سے یہ بات طے شدہ ہے کہ اس دنیا میں صرف وہی چیز باقی رہتی ہے جس میں لوگوں کے لیے نفع بخشی اور فیض رسانی ہو۔ گویا کسی شے کے باقی رہنے یا قائم رکھے جانے کا جواز قرآن حکیم کے فلسفہ کی رو سے صرف یہ ہے کہ اس سے کسی نہ کسی صورت میں انسان کے لیے سود مندی اور نفع بخشی کا پہلو وابستہ ہو۔
مغربی سائنس نے دنیا کو بقاے اَصلح (survival of the fittest) کا تصور دیا ہے جس کے مطابق صرف وہی چیز باقی رہتی ہے جو اپنے ماحول میں سب سے زیادہ سازگار اور مطابقت رکھنے والی ہو، اس کے علاوہ ہر چیز بقاے اَصلح کی اس رزم گاہ میں فنا کے گھاٹ اترجاتی ہے۔ اس تصور کے مقابلے میں اسلام کا پیش کردہ تصور اشیاء کی تخلیق اور بقا کے بارے میں اُن کی انسان کے لیے فائدہ مندی اور نفع بخشی سے متعلق ہے۔ اسلام کی پوری تاریخ اس پر شاہد ہے کہ صحابہ کرام l، تابعین، تبع تابعین اور قرونِ اولیٰ کے مسلمان شوکت و عزت اور تمکنت کی زندگی اس لیے بسر کرتے تھے کہ اس سے خلقِ خدا کو فائدہ پہنچے۔ اس میں ہر شخص اپنے ذاتی مفاد کو نظر انداز کرکے دوسروں کی بہتری کے لیے کوشاں رہتا تھا، حتیٰ کہ وہ دوسرے کی جان بچانے کے لیے اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کرتا تھا۔
تاریخِ اِسلام کا یہ واقعہ زبانِ زدِ عام و خاص ہے کہ جنگ یرموک میں چند جاں نثارانِ اِسلام جاں بہ لب تھے اور شدتِ پیاس کا یہ عالم تھا کہ ہر زبان پر اَلْعَطْش، اَلْعَطْش تھا۔ حضرت حذیفہ عدوی بیان کرتے ہیں کہ اُس معرکے میں ان کے چچا کے انتہائی زخمی بیٹے نے درد و اَلم سے کراہتے ہوئے انہیں پکارا تو وہ پانی اور برتن لے کر ان کی طرف لپکے۔ پانی ابھی پیالے اور لبوں کے سفر میں ہی تھا کہ دور سے کسی کے کراہنے کی آواز آئی۔ حذیفہ عدوی کے چچا زاد بھائی نے منہ پرے ہٹا کر انہیں اُس طرف جانے کا اشارہ کیا۔ حذیفہ عدوی وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بھائی ہشام بن العاص تھے۔ انہوں نے اُن سے پوچھا کہ پانی پیش کروں تو ہشام نے مثبت اشارہ کیا۔ زندگی کی آخری سانسیں لینے والے ہشام کے تشنہ لبوں تک پانی کا پیالہ پہنچنے نہیں پایا تھا کہ کسی اور کی کراہنے کی آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ ایثار کے اس پیکر نے رک کر حذیفہ عدوی کو اشارہ کیا کہ پہلے اُس طرف جاؤ۔ قبل اِس کے حذیفہ عدوی اُس تیسرے جاں نثار تک پہنچ پاتے وہ اُلوہی جنتوں کے سفر پر روانہ ہوچکے تھے۔ حذیفہ عدوی واپس ہشام بن العاص کے طرف لپکے تو دیکھا کہ وہ بھی دیدارِ اِلٰہی سے شرف یاب ہوچکے تھے۔ پھر وہ واپس اپنے چچا زاد بھائی کی طرف دوڑے تو دیکھا کہ ان کی روح بھی فرشتوں کے جھرمٹ میں محو پرواز تھی۔
ابن المبارک، کتاب الجهاد: 97، رقم: 116
اِس طرح عزم و استقلال اور ایثار و قربانی کے ان تینوں جاں نثاروں نے ایک دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہوئے جاں جانِ آفریں کے سپرد کردی لیکن کسی نے دوسرے بھائی سے پہلے ایک بوند پانی سے اپنے خشک حلق کو تر کرنا گوارا نہ کیا۔ گویا انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے درج ذیل قرآنی آیت کی عملی تفسیر پیش کردی:
وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ط وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo
الحشر، 59: 9
اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو، اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچا لیا گیا پس وہی لوگ ہی بامراد و کامیاب ہیں۔
اسلام نے مخلوقِ خدا کے لیے نفع بخشی کا جو اصول دیا وہ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی یکساں کار فرما تھا اور اس سلسلے میں تاریخِ اسلام سے ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے جو آبِ زر سے لکھنے کے قا بل ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں شہر مدینہ میں کسی کنویں کا پانی میٹھا نہ تھا۔ مدینہ منورہ سے چار میل کے فاصلے پر میٹھے پانی کا ایک کنواں کسی یہودی کی ملکیت تھا جو مہنگے داموں پانی بیچتا تھا۔ مسلمان بامرِ مجبوری چار میل کی مسافت طے کر کے مشقت اٹھاتے اور پانی خرید کر لاتے۔ پھر اس نے مسلمانوں کو پانی سے محروم کرنے کے لیے اپنے ہم مذہبوں کے مقابلے میں زیادہ دام وصول کرنا شروع کر دیے۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے یہودی کے ہاتھوں مسلمانوں کی حالتِ زار دیکھی تو آپ ﷺ نے اپنے جاں نثار صحابہ l کو جمع کیا اور فرمایا: ’تم میں سے کون ہے جو میرے ہاتھ سے جنت خریدنا چاہتا ہے؟‘ صحابہ کرام l میں سب سے مال دار صحابی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے دست بستہ عرض کیا: آقا! غلام حاضر ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’اگر تم اس یہودی سے آدھا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردو تو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس یہودی سے بارہ ہزار درہم کے عوض آدھا کنواں خرید کر مدینہ کے مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔ اب مسلمانوں کو اپنی ضرورت کے مطابق بغیر کسی روک ٹوک اور دشواری کے پانی میسر آتا اور ان کی ضرورت سے زائد پانی بچ رہتا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے مدینے کے یہودیوں کو دعوت دی کہ جب مسلمان اپنی ضرورت کا پانی لے لیا کریں تو تم بھی اس میں سے پانی بھر لیا کرو۔ چنانچہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی اس پیش کش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہودی سے پانی خریدنا بند کردیا اور مفت پانی بھرنے لگے۔ اس طرح یہودی کا کاروبار ماند پڑگیا۔ وہ شکوہ کناں آپ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: یا تو آپ یہودیوں کو پانی مفت دینا بند کردیں یا بقیہ کنواں بھی مجھ سے خرید لیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ہم یہودیوں کو مفت پانی دینا بند تو نہیں کرسکتے البتہ بقیہ آدھا کنواں خریدنے کی بات ممکن ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بقیہ کنواں بھی آٹھ ہزار درہم کے عوض خرید کر اَہلِ مدینہ کے لیے وقف کردیا۔
اِس واقعہ سے اِسلام کا تصورِ ملکیت بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اس کی تہہ میں مخلوقِ خدا کی بہتری اور فلاح کا فلسفہ مضمر ہے۔ جب تک مسلمانوں میں اس تصور کی کارفرمائی رہی وہ عظمت و شوکت کے بامِ عروج پر متمکن رہے اور دنیاے شرق و غرب ان کے زیر نگیں رہی۔ جب اس تصور کی گرفت ڈھیلی پڑگئی تو عزت و شوکت ان کے ہاتھ سے جاتی رہی اور نتیجتاً ان کی عظمت قصٔہ پارینہ بن کر رہ گئی۔
جواب: حاجاتِ اَصلیہ کا تعلق دراصل اِنسان کی شخصی ضرورت سے ہے، ان شخصی ضروریات میں زمانہ و مقام اور اَشخاص کے اِعتبار سے تفاوت عین فطرت ہے۔ معاشرے میں اِنفرادی اور اِجتماعی سطح پر حکمِ اِقتصاد کو نافذ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر شخص کے لیے صرفِ مال کی حدود بھی متعین کر دی جائیں اور ’نظامِ مصارف کی درجہ بندی‘ کے ذریعے ہر فرد اور ہر ادارے پر یہ واضح کر دیا جائے کہ اس کے لیے کس قدر مال خرچ کرنا جائز ہے اور کس قدر ممنوع؟ اَحکامِ شرعیہ میں فرائض و واجبات، مستحبات اور محرمات و مکروہات وغیرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے نظامِ مصارف کو حسبِ ذیل چھ درجات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
مصارف | شرعی حیثیت | حکم |
حاجات | فرض | اِجازت |
ضروریات | واجب | اِجازت |
تسہیلات | مستحب | اِجازت |
تزئینات و تحسینات | مباح | اِجازت |
اِسرافات | مکروہ | ممنوع |
تبذیرات | حرام | ممنوع |
حاجات سے مراد وہ ناگزیر مصارفِ حیات ہیں جن کے بغیر زندگی گزارنا ممکن نہیں۔ یہ ہر شخص کا بنیادی حق ہیں اور معاشرے کے ہر فرد تک ان کی فراہمی ریاست کا فرض ہے۔ بنیادی طور پر انسانی زندگی کی تین چیزیں حاجات کے زمرے میں آتی ہیں:
حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ان ضروریات کی اہمیت پر دلالت کرتاہے:
لَیْسَ لِابْنِ آدَمَ حَقٌّ فِي سِوَی هَذِهِ الْخِصَالِ: بَیْتٌ یَسْکُنُهٗ وَثَوْبٌ یُوَارِي عَوْرَتَهٗ، وَجِلْفُ الْخُبْزِ وَالْمَاءِ.
ابن آدم کے لیے سوائے اِن امور کے کوئی لازمی ی حق نہیں: رہنے کے لیے گھر، ستر ڈھانپنے کے لیے کپڑا اور ضرورت کی روٹی اور پانی۔
حاجات کے بعد دوسرا درجہ ضروریات کا ہے۔ انسانی زندگی کی ضروریات وہ اشیاء ہیں جن کے بغیر انسان زندہ تو رہ سکتا ہے لیکن یہ زندگی انتہائی تکلیف دہ اور کٹھن ہوگی۔ اس لیے اگر معاشرے میں ہر فرد کو حاجات میسر آجائیں تو ریاست کا فرض ہے کہ وہ سب کے لیے بنیادی ضروریات کا بھی بندوبست کرے۔ آج کے دور میں بجلی، پانی، گیس، تعلیم اور صحت ایسی بنیادی ضروریات ہیں جن کے بغیر انسانی زندگی بہت سی مصیبتوں اور پریشانیوں میں پھنس جاتی ہے۔ اس لیے یہ انسانی زندگی میں ’وجوب‘ کا درجہ رکھتی ہیں۔
تسہیلات سے مراد وہ مصارفِ حیات ہیں جو ایک پُرسکون زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں۔ ان سے زندگی میں راحت، سہولت اور آسائش میسر آتی ہیں۔ تسہیلات میں سواری (گاڑی، کار وغیرہ) اور ذرائعِ اِبلاغ (ریڈیو، ٹی وی وغیرہ) جیسی دیگر اشیاء شامل ہیں۔ اسلامی نظامِ حیات میں ان کو ’مستحب‘ کا درجہ حاصل ہوگا۔ لہٰذا اگر کوئی شخص رزقِ حلال سے ان تسہیلات کوحاصل کر سکے تو یہ اس کا حق ہے۔
یہ ایسے مصارفِ حیات ہیں جو انسانی زندگی میں محض آسائش اور آرائش کا باعث ہوتے ہیں، انسان کی بنیادی ضروریات کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص رزقِ حلال کے دائرہ میں رہتے ہوئے اور اپنے زیرِ کفالت تمام افراد کا حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ تزئینات و تحسینات اختیار کرے تو یہ اس کے لیے ’مباح‘ ہے۔
تزئینات و تحسینات کے بعد اگلا درجہ تعیشات و اِسرافات کا ہے۔ یہ وہ غیر ضروری مصارفِ حیات ہیں جو آسائش سے بڑھ کر محض تصنّع، نمود و نمائش، بے جا آرائش و زیبائش اور تکلّفات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے میں ایسی چیزوں کو ناپسندیدہ اور مکروہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی مثالیں مختلف سماجی تقریبات کے موقع پر فضول رسمیں اور ان پر کیا جانے والا بے تحاشہ خرچ ہیں۔ اسی طرح اسٹیٹس (status) کے نام پر دولت کی بے جا نمود و نمائش بھی اِس زُمرے میں آتی ہے۔
تبذیرات سے مراد وہ فضول خرچی، اسراف اور پرتعیّش تقریبات ہیں جو محض دولت کی نمائش اور عیش پرستی کے اظہار کے لیے منعقد کی جاتی ہیں۔ یہ درحقیقت عام صارف کی ضروریات و حاجات سے زائد وہ فاضل مال ہے جسے آقاے دو جہاں ﷺ نے شرعاً و قانوناً معاشرے کے محروم المعیشت اَفراد کا حق قرار دیا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی ان کی حق تلفی کرتے ہوئے یہ رقم اپنے تعیّش اور لہو و لعب میں ضائع کر دے تو اس کا یہ عمل ہرگز قابلِ معافی نہیں ہوگا کیونکہ شرعِ مبین نے ایسے عمل کو حرام قرار دیا ہے اور اس کا اِنسداد اِسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
غور کیا جائے کہ فقہاء کرام نے پیشہ وارانہ آلاتِ حرقہ، حفاظتی اسلحہ اور موسمی لحاظ سے سرد و گرم لباس، اَہلِ علم کے لیے اس کے موضوع کے مطابق کتب وغیرہ جنہیں حاجتِ اَصلیہ کے زمرے میں رکھا گیا ہے، ان کا تعلق شخصی اَحوال سے ہے۔ اس میں فرق کا پایا جانا فطری بات ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ ضروریاتِ زمانہ اور حالات کے لحاظ سے متغیر ہوتی رہیں گی۔ لباس و پوشاک کا معیار بدلے گا، سواری میں فرق ہوگا، رہائشی اور سکونتی مکان میں نقشہ اور سہولتوں کے لحاظ سے فرق ہوگا اور یہ ساری چیزیں حاجاتِ اَصلیہ میں داخل ہوں گی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ فقہاء نے ’حاجت اور تحسین و زینت‘ کے درمیان جو فرق کیا اس کا لحاظ رکھا جائے گا اور حرمتِ زکوٰۃ کا حکم متعین کرتے وقت اس کو ملحوظ رکھا جائے گا کہ زکوۃ کا مصرف فقراء و مساکین ہیں۔
پس حاجتِ اصلیہ کا دائرہ اتنا وسیع نہ ہو جائے کہ مرفہ الحال (روزی کی فکر سے آزاد) لوگ بھی مستحقینِ زکوٰۃ کی صف میں آجائیں۔
جواب: تملیک سے مراد ’مالک بنانا‘ ہے یعنی متعلقہ فرد یا جماعت کو زکوٰۃ کا مالک بنا دیا جائے تاکہ مالدار کا دینا اور حقدار کا لینا ثابت ہوجائے۔ یہ ایک تعبیری اور اجتہادی مسئلہ ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے صحیح ہونے کے لیے ’تملیک‘ کے لازمی شرط ہونے کے حوالے سے فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
فقہاے کرام کا ایک طبقہ ادائیگیِ زکوٰۃ کی صحت کے لیے ’تملیک شخصی‘ کو بنیادی رُکن اور شرط کا درجہ دیتا ہے۔ اس طبقہ کے مؤقف کے مطابق مالِ زکوٰۃ کو جب تک قرآن کے بیان کردہ مصارفِ زکوٰۃ، فقراء و مساکین، غربا و بیوگان اور یتامیٰ وغیرہ کی ذاتی ملکیت اور انفرادی تصرف میں کلیتاً نہ دے دیا جائے، زکوٰۃ کی ادائیگی درست اور جائز نہیں ہوتی اور نہ ہی مالکِ مال ادائیگیِ زکوٰۃ کے فریضہ سے عہدہ برآ ہو سکتا ہے۔ اس تصور کے پیشِ نظر لوگ اپنی زکوٰۃ کی رقم اپنے مستحق اَعزاء و اقرباء اور غریب گھرانوں میں دے دیتے ہیں۔ انہیں یہ خیال رہتا ہے کہ شاید قومی سطح پر اِجتماعی مقاصد و مصالح اور فلاحی منصوبوں کے لیے زکوٰۃ کا دیا جانا اَز روئے شریعت مقبول نہیں۔
شرطِ تملیک کے پیش نظر بعض فقہاے کرام نے بیان کیا ہے کہ خانقاہیں، مساجد، سرائے، پانی کی سبیلیں اور حوض بنانے، پلوں کی مرمت کرنے، مُردوں کی تکفین و تدفین جیسے نیکی کے کاموں میں زکوٰۃ کو صرف کرنا جائز نہیں کیونکہ ان میں تملیک (کسی کو مالک بنانا) بالکل نہیں پائی جاتی۔ اسی طرح کسی شخص نے مالِ زکوٰۃ سے طعام خریدا اور فقراء کو صبح و شام کھانا کھلایا لیکن عین طعام ان کے سپرد نہیں کیا تو زکوٰۃ کی ادائیگی درست نہ ہوئی کیونکہ اس صورت میں تملیک نہیں ہوئی۔ اسی طرح اگر صاحبِ نصاب نے مالِ زکوٰۃ سے کسی زندہ فقیر کا قرض اس کے حکم کے بغیر ادا کردیا تو یہ بھی جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں بھی فقیر کو مالک نہیں بنایا گیا۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے مالِ زکوٰۃ سے غلام خرید کر آزاد کردیا تو یہ جائز نہیں۔
اس کے برعکس بعض فقہاے کرام کا مؤقف ہے کہ ادائیگیِ زکوٰۃ میں تملیک ضروری نہیں کیونکہ اِنفرادی تملیک کا معنیٰ و مفہوم آیتِ مصارف کے سیاق و سباق سے اخذ ہوتا ہے نہ اِقتضاء النص سے واضح ہوتا ہے۔ قرآن و حدیث میں اس تاویل و تعبیر کی کوئی دلیل نہیں ملتی، نہ اَقوال و آثارِ صحابہ سے اس کی تائید ملتی ہے اور نہ ہی فقہاے کرام کی طرف سے بیان کردہ زکوٰۃ کا شرعی معنی تملیک کے تصور کو اُجاگر کرتا ہے۔
جواب: ادائیگیِ زکوٰۃ کے صحیح ہونے کے لیے تملیک کے شرط ہونے کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف کی وجہ آیتِ مصارفِ زکوٰۃ میں کلمہ ’لِ‘ میں مختلف معانی کا احتمال پایا جانا ہے۔ آیتِ مصارف ملاحظہ ہو:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللهِ ط وَاللهُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌo
التوبة، 9: 60
بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔
مندرجہ بالا آیت مصارف میں لِلْفُقَرَآئِ کی ’لِ‘ کی مقصدیت اور معنوی تحقیق و تعیین پر مفسرینِ کرام اور اَہلِ علم کے ہاں مسئلہ تملیک کا اِختلاف پیدا ہوا۔ اِس کی مختلف تشریحات و توضیحات پیش کی گئیں۔ عربی لغت میں لام درج ذیل مختلف معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے:
عام طور پر لام یعنی ’لِ‘ کا معنی ’کے لیے‘ کیا جاتا ہے، اِس ’کے لیے‘ سے کیا مراد ہے؟ اس کی تفسیر و تشریح میں جا کے مسئلہ پیچیدہ ہوگیا ہے۔ جو فقہاء ادائیگیِ زکوٰۃ کے صحیح ہونے کے لیے تملیک کو شرط قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک آیتِ مصارف میں ’لِ‘ برائے تملیک ہے اور جو فقہاء اور ائمہ تفسیر ’لِ‘ کو تملیک کے لیے نہیں مانتے ان کے نزدیک آیت میں ’لِ‘ دوسرے معانی یعنی تخصیص، اِستحقاق، اِنتفاع اور اِختصاص کے لیے استعمال ہوا ہے۔
پھر وہ علماء و فقہاء اور مفسرین کرام جنہوں نے مسئلہ زکوٰۃ میں ذرا سخت مؤقف اختیار کیا ہے اور ’لِ‘ کے معنیٰ کے تعین میں ’تملیک‘ کو خاص کیا ہے، ان کے ہاں بھی صرف درج ذیل پہلی چار مدات میں اِنفرادی و شخصی تملیک پائی جاتی ہے:
جبکہ درج ذیل چار مدات اِجتماعی مقاصد و مصالح کے لیے قرار دی جاتی ہیں:
بعض فقہا و مفسرین کے نزدیک پہلی لام - لِلْفُقَرَآءِ - سرے سے تملیک کے لیے ہے ہی نہیں۔ اِس موقف کے حامل فقہاء و مفسرین جملہ مصارفِ زکوٰۃ میں سے کسی میں بھی اِنفرادی طور پر مالِ زکوٰۃ کا مالک بنا دینے کو شرط قرار نہیں دیتے؛ البتہ اِنفرادی طور پر کسی کو مالِ زکوٰۃ دیں اور مالک بنائیں تو حرج نہیں۔ لہٰذا زکوٰۃ کسی قسم کی شرط کے بغیر بھی ادا ہو جائے گی۔
مختلف فقہاے کرام کے اِجمالی مؤقف سے بنیادی نکتہ بہرحال واضح ہوجاتا ہے کہ ادائیگی زکوٰۃ میں تملیک ذاتی شرط نہیں بلکہ اس میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور ادائیگی کے لیے بہت سے طریقے اپنائے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ یہ تصور کرنا کہ زکوٰۃ صرف انفرادی طور پر لوگوں کو دینے سے ہی ادا ہوگی، اجتماعی مقاصد و مصالح پر خرچ نہیں ہوسکتی، یہ تصور سرے سے کسی فقہی مذہب میں نہیں ہے؛ نہ احناف اور مالکیوں کا ہے، نہ شوافع اور حنابلہ کا یہ قول ہے۔
تمام فقہاے کرام کا یہ متّفقہ اُصول ہے کہ شریعتِ مطہرہ میں کسی قسم کی زیادتی، بلا دلیلِ شرعی قرآنی علوم کی تخصیص اور کسی مطلق کی تقییدو تشریط کا حق کسی فردِ بشر کو حاصل نہیں، جب تک کہ اس کی اصل شریعت میں موجود نہ ہو۔ چنانچہ اس قاعدے کے مطابق آیتِ مصارف میں زکوٰۃ و صدقات کی ادائیگی کے باب میں تملیک کی شرط عائد کرنا اور لِلْفُقَرَآئِ کے لام کو تملیک کے لیے خاص کرنا کتاب اللہ کے مطلق حکم کو مقید کرنا ہے، جبکہ اس کی تقیید کی کوئی اصل شریعت میں موجود نہیں ہے۔
آیتِ مصارف کے سیاق و سباق سے بھی اس مؤقف کی تائید ہوتی ہے کہ ’تملیک شخصی‘ شرط نہ ہو۔
وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ ج فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَاِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْهَآ اِذَا هُمْ یَسْخَطُوْنَo وَلَوْ اَنَّھُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰهُمُ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗ لا وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللهُ سَیُؤْتِیْنَا اللهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ رَسُوْلُہٗٓ لا اِنَّآ اِلَی اللهِ رَاغِبُوْنَo
التوبه، 9: 58-59
اور ان ہی میں سے بعض ایسے ہیں جو صدقات (کی تقسیم) میں آپ پر طعنہ زنی کرتے ہیں، پھر اگر انہیں ان (صدقات) میں سے کچھ دے دیا جائے تو وہ راضی ہو جائیں اور اگر انہیں اس میں سے کچھ نہ دیا جائے تو وہ فوراً خفا ہو جاتے ہیں۔ اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول ( ﷺ مزید) عطا فرمائے گا۔ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول ﷺ اسی کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے۔ اگر یہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا)۔
یہاں ان منافقین کا ذکر ہو رہا ہے، جو اپنے ذاتی نقصان کی وجہ سے حضور نبی اکرم ﷺ کے بارے میں سوئِ ظن رکھتے تھے کہ اگر ان کی خواہش کے مطابق صدقات میں سے دے دیا جاتا تو خوب تعریفیں کیا کرتے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو الزام تراشی کرتے کہ (معاذ اللہ) حضور نبی اکرم ﷺ نے جانب داری کا ثبوت دیا ہے۔
ان منافقین کے نفاق، طمع اور حرص کو واشگاف الفاظ میں بیان کرتے ہوئے انہیں متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تم زکوٰۃ و خیرات کے مستحق نہیں ہو بلکہ اس کے اصل حق دار تو فقراء و مساکین ہیں۔ چنانچہ آیت کا سیاق و سباق بھی اسی بات کا متقاضی ہے کہ یہ لام ’تملیک‘ کے لیے نہیں بلکہ اِختصاص ہی کے لیے ہے۔ سیاق و سباق سے یہی مفہوم واضح ہوتا ہے کہ یہاں مال کو کسی کی مِلک میں دینے کی کوئی صراحت نہیںبلکہ یہاں تو مستحقینِ زکوٰۃ و خیرات کی اَصناف کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنا مقصود ہے۔
احمد بن منیر اسکندری نے الکشاف کے حاشیہ میں اِس اَمر کی تصریح کی ہے کہ آیتِ مصارف کا سیاق تملیک کو بیان نہیں کرتا۔
لا یساعده السیاق، فإن الآیة مصدرة بکلمة الحصر الدالة علی أنّ غیرھم لا یستحق فیھا نصیباً؛ فھذا ھو الغرض الذی سبقت لهم فلا اقتضاء فیھا لما سواه، (والله أعلم).
ابن المنیر، الانتصاف علی الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، 2: 282
آیت کا سیاق بھی لامِ تملیک کے تصور کی موافقت نہیں کرتا کیونکہ آیت مبارکہ تو کلمۂ حصر - إِنَّمَا - سے شروع ہو رہی ہے۔ جو اس چیز پر دلالت کرتا ہے کہ اِن کے علاوہ کوئی حقدار نہیں۔ یہی وہ غرض ہے جس کی وجہ سے کلام کو لایا گیا ہے۔ سو اس مفہوم کو لینے کے لیے آیت میں کوئی تقاضا (دلیل) نہیں اور نہ ہی اس کے علاوہ کوئی اور قرینہ موجود ہے۔
دلائلِ قرآنیہ اور اَقوالِ اَئمہ و فقہاء کی روشنی میں ایک واضح مؤقف سامنے آتا ہے وہ یہ کہ لام برائے تملیک مراد لینا کسی صورت بھی درست نہیں ہے کیونکہ عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تملیک کی شرط نہ ہو۔ نیز ادائیگیِ زکوٰۃ کا مُدعا اور مقصد دلوں سے مال کی محبت کو کم کرنا ہے۔ اب اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے تملیک ضروری نہیں، خواہ یہ مقصد اِنفرادی طریق پر پورا ہو یا اِجتماعی پر؛ ہر طرح درست ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اگر کوئی مستحق مل جائے تو فبہا ورنہ اِجتماعی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر زکوٰۃ کا مال خرچ کیا جائے۔ یہ اسلام کے تقاضوں کے عین مطابق ہے کیونکہ اسلام صرف اِنفرادی عمل کا نہیں بلکہ اِجتماعی عمل کا دین بھی ہے۔
جواب: ادائیگیِ زکوٰۃ کا اَحسن طریقہ یہ ہے کہ قرآن حکیم کی رُو سے بتائے گئے آٹھ مصارف میں سے سب سے پہلے اپنے غریب و مستحق رشتہ داروں، پڑوسیوں، ملنے والوں، اپنے ہم پیشہ، اپنے شہر والوں اور بعد میں دوسروں لوگوں کو زکوٰۃ دی جائے۔ اسی طرح جو لوگ خود بڑھ کر سوال نہیں کرتے اور غربت کے باوجود خود دار اور غیرت مند ہوتے ہیں انہیں تلاش کر کے زکوٰۃ و صدقات دیے جائیں۔ اور اگر یہ افراد مندرجہ بالا مصارفین سے زیادہ ضرورت مند ہوں تو انہیں زکوٰۃ دینے میں مقدم رکھا جاسکتا ہے۔
علاوہ ازیں کسی خدمت یا کسی کام کی اُجرت کے طور پر زکوٰۃ دینا جائز نہیں، ہاں اگر مالِ زکوٰۃ سے فقیروں کے لیے کوئی چیز خرید کر ان میں تقسیم کر دی جائے تو جائز ہے۔
جواب: دینِ اسلام کے بالعموم ہر باب میں اِنفرادیت پر اِجتماعیت کو ترجیح دی گئی ہے کیونکہ اسلام صرف اِنفرادی عمل کا نہیں بلکہ اِجتماعی عمل کا دین بھی ہے۔ اِسلام کے پانچ اَرکانِ میں شہادتِ توحید و رسالت کے عقیدے کے علاوہ باقی چار اَرکان میں سے ہر ایک میں اِجتماعیت کے تصور کو ترجیح حاصل ہے۔ مثال کے طور پر:
نماز کے قائم کرنے میں باجماعت نماز کی ادائیگی اَجر و ثواب اور دیگر حکمتوں کے اعتبار سے اِنفرادی طور پر نماز ادا کرنے سے زیادہ افضل ہے حالانکہ اللہ کی عبادت میں جتنی یکسوئی بند کمرے میں پیدا ہوتی ہے اور اللہ کے ساتھ تعلق بندگی کے جتنے اِمکانات خلوت میں روشن ہوتے ہیں اتنے اِمکانات بظاہر کھلے بندوں، نمازیوں میں کھڑے ہو کر عبادت کرنے میں نہیں رہتے۔ تاہم اللہ رب العزت نے باجماعت نماز کو انفرادی نماز سے زیادہ باعثِ اجر و ثواب اور افضل قرار دیا ہے اور اِجتماعی عمل کو اِنفرادی عمل پر زیادہ فضیلت بخشی ہے۔ اسی طرح نماز جمعہ کی اجتماعیت کو ثواب کے اعتبار سے بڑھا دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے سال کے بعد عیدین کی نمازوں کی فضیلت کو اجتماعیت کے باعث بڑھا دیا۔ چنانچہ نماز کے عمل میں اِجتماعیت کو اِنفرادیت پر ترجیح دی گئی ہے۔
یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں فی نفسہٖ اِجتماعیت ممکن نہیں کیونکہ روزہ ہر شخص کا ذاتی اور انفرادی عمل لگتا ہے، مگر اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے اجتماعیت کو داخل فرما دیا ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں سب مسلمان اکٹھے ایک مقررہ وقت پر روزہ رکھتے اور افطار کرتے ہیں۔ نیز افطاری کروانے پر زیادہ اجر و ثواب کی نوید سنائی گئی ہے۔ پھر روزے کے بعد نمازِ تراویح کی صورت میں قیام اللیل کو حضور نبی اکرم ﷺ نے سنت بنا دیا۔ دن کو صیام اور رات کو قیام کی صورت میں اِنفرادی اور اِجتماعی دونوں عمل روزہ میں داخل ہوگئے۔ اس طرح روزہ میں بھی اللہ رب العزت نے کئی جہتوں سے اِجتماعیت کو پسند فرمایا۔
زکوٰۃ ایسی مالی عبادت ہے جس کی ادائیگی میں اِنفرادی اور اِجتماعی دونوں پہلو پائے جاتے ہیں لیکن ہر عمل اور عبادت میں اللہ تعالیٰ نے اِجتماعیت کو پسند فرمایا۔ لہٰذا اگر زکوٰۃ کی ادائیگی کو بھی انفرادی کی بجائے اِجتماعی منصوبہ بندی کے تابع کر دیا جائے تو اجتماعی طور پر معاشرتی سطح پر غربت اور تنگ دستی کی زندگی سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ ورنہ دس بیس سال پہلے جو گھرانہ زکوٰۃ لیتا تھا آج بھی وہ مستحق ہے۔ اُس اِنفرادی زکوٰۃ کا کیا مصرف ہوا کہ جس میں دین کا منشاء ہی سرے سے پورا نہیں ہوتا۔ پس دیگر عبادات کی طرح ادائیگیِ زکوٰۃ میں بھی اِنفرادیت کی بجائے اِجتماعیت کا پہلو غالب ہے۔
یہ سرا سر اِجتماعی عمل ہے، اِنفرادی طور پر ہوتا ہی نہیں۔ میدانِ عرفات میں اللہ رب العزت نے سب کو جمع فرما دیا۔ طوافِ کعبہ اِجتماعی طور پر ہو رہا ہے۔ صفا و مروہ کی سعی اِجتماعی ہو رہی ہے۔ مزدلفہ، عرفات اور مقامِ منٰی کا قیام اِجتماعی ہے۔ اسی طرح قربانی کا عمل لاکھوں افراد یک جا ہو کر سرانجام دے رہے ہیں اور لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کے ترانے بیک آواز گونج رہے ہیں۔ گویا اپنے گھر کی حاضری بھی اجتماعی شکل میں پسند فرمائی اور حکم دیا:
وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ.
الحج، 22: 27
اور تم لوگوں میں حج کا بلند آواز سے اعلان کرو۔
تاکہ لوگ اکٹھے ہو کر آئیں اور اللہ کے گھر کا طواف کریں اور مناسکِ حج ادا کریں۔
مذکورہ بالا اَرکانِ اِسلام کا بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ u نے تمام عبادات میں اِنفرادیت رکھی ہے مگر اس پر اِجتماعیت کا رنگ چڑھایا اور اِجتماعیت کو افضل بنا دیا اور بعض جگہوں پر اِنفرادیت رکھی ہی نہیں، ساری اِجتماعیت رکھ دی ہے۔
جواب: زکوٰۃ ادا کرنے کی دو صورتیں ہیں: ایک اِنفرادی اور دوسری اِجتماعی۔ زکوٰۃ کی ادائیگی انفرادی طور پر کی جائے یا اجتماعی منصوبہ بندی کے تحت کی جائے فائدہ دونوں صورتوں میں حاصل ہوتا ہے۔ لیکن دور رس نتائج کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اِجتماعی منصوبہ بندی کے تحت زکوٰۃ دینے کے فوائد زیادہ ہیں۔ مثلاً اِنفرادیت یہ ہے کہ کسی غریب کو زکوٰۃ دے دی جائے۔ اس پر تھوڑی سی اِجتماعیت یہ ہے کہ بجائے ایک فرد کو دینے کے پورے گھرانے کو زکوٰۃ دی جائے۔ اس طرح ایک ایک فرد کو تھوڑی تھوڑی زکوٰۃ دیتے رہیں گے تو وہ ہمیشہ منگتا بنا رہے گا۔ البتہ اگر کسی ایک مستحق گھرانے کو مالِ زکوٰۃ دے دیا تو اس گھرانے کے حالات سنور جائیں گے۔ لہٰذا ایک فرد پر مالِ زکوٰۃ خرچ کرنے کی بجائے پورے ایک گھرانے کے معاشی حالات سنوار دینا زیادہ افضل ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر اگر زکوٰۃ کسی بیت المال میں جمع کروائی جائے تو اجتماعی منصوبہ بندی کے تحت روزگار کا ایسا سلسلہ وضع کیا جاسکتا ہے کہ جس گھرانے پر یک مشت رقم خرچ کی جائے گی وہ گھرانہ آئندہ زکوٰۃ لینے والا نہیں رہے گا بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ زکوٰۃ دینے والا بن جائے۔ مثلاً مستحق گھرانوں کی خواتین کو سلائی کڑھائی کا کام سکھا دیں، پھر سلائی مشین وغیرہ خرید کر دیں، کچھ نقدی بھی دے دیں جس سے وہ اپنا کام کر سکیں۔ اس طرح وہ مائیں، بہنیں عزت کے ساتھ اپنا روزگار کما سکیں گی اور آئندہ اُن کے ہاتھ کسی کے آگے نہیں پھیلیں گے۔ اِسی طرح مائکرو فنانسنگ (micro financing) کے ذریعے لوگوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کرائے جاسکتے ہیں تاکہ وہ گھر بیٹھے اپنی روزی کما کر با عزت زندگی بسر کر سکیں۔
الغرض زکوٰۃ کو اِنفرادی طور پر دینے کی بجائے اِجتماعی منصوبہ بندی کے تابع کر دیں تو غریب گھرانوں کی دائمی تقدیر بدلنا شروع ہو جائے گی۔ اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے ہاں اور دینِ اسلام میں اِنفرادی اَعمال سے اِجتماعی اَعمال کو بلند رکھا گیا ہے۔ اِجتماعی عمل میں منصوبہ بندی ہوتی ہے اور اس منصوبہ بندی سے پوری قوم کے مستحق افراد کا مقدر بدل جاتا ہے، جیسے حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ زکوٰۃ دینے والے تو تھے مگر لینے والا کوئی نہ تھا۔ تاریخِ اِسلام کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ عہد نبوی، عہد خلفاے راشدین اور مابعد اَدوار میں زکوٰۃ کا institution ہمیشہ ریاست کے پاس رہا ہے جو مرکزی سطح پر زکوٰۃ کی collection اور distribution کا اِہتمام کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مالِ زکوٰۃ سے وسیع فوائد اور دور رس نتائج حاصل ہوتے تھے۔
جواب: مصارف مصرف کی جمع ہے۔ مصارفِ زکوٰۃ سے مُراد وہ مدّات ہیں جن پر مال خرچ کیا جا سکتا ہے؛ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے۔ حضرت زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أَمَّرَنِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلٰی قَومِي، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَعْطِنِي مِنْ صَدَقَاتِهِمْ. فَفَعَلَ وَکَتَبَ لِي بِذٰلِکَ کِتَابًا۔ فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَعْطِنِي مِنَ الصَّدَقَةِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ اللهَ لَمْ یَرْضَ بِحُکْمِ نَبِيٍّ وَلَا غَیْرِهٖ فِي الصَّدَقَاتِ، حَتّٰی حَکَمَ فِیْهَا هُوَ مِنَ السَّمَاءِ، فَجَزَّأَهَا ثَمَانِیَةَ أَجْزَائٍ، فَإِنْ کُنْتَ مِنْ تِلْکَ الْأَجْزَائِ أَعْطَیْتُکَ مِنْهَا.
رسول اللہ ﷺ نے مجھے میری قوم کا امیر مقرر فرمایا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے ان کے صدقات میں سے کچھ دیجیے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ایسا کیا اور مجھے اس کے متعلق تحریر عطا فرمائی۔ پھر ایک دوسرا شخص آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو اس نے بھی عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے مالِ زکاۃ میں سے کچھ دیجیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تبارک تعالیٰ زکوٰۃ کے سلسلے میں نبی یا کسی اور شخص کے (ذاتی) فیصلے کو پسند نہیں کرتا حتیٰ کہ اس نے آسمان سے فیصلہ نازل فرمایا۔ اس نے مالِ زکوٰۃ کو آٹھ قسم کے لوگوں میں تقسیم فرمایا ہے، اگر تم بھی ان میں سے ہو تو آؤ میں تمہیں اس میں سے دیتا ہوں۔
جواب: قرآن حکیم کی رُو سے مصارفِ زکوٰۃ آٹھ ہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللهِ ط وَاللهُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌo
التوبة، 9: 60
بے شک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کیے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لیے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔
آیت مبارکہ کی روشنی میں آٹھ مصارِف درج ذیل ہیں:
جواب: فقہاء کے نزدیک فقیر وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ کچھ مال ہوتا ہے مگر وہ نصاب سے کم ہو کہ اس کی بنیادی ضروریاتِ زندگی بھی پوری نہ ہوسکیں۔ یہ زکوٰۃ کا پہلا مصرف ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو ان کو ہدایت کی کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر زکوٰۃ فرض کی ہے، جو دولت مندوں سے لے کر فقراء کو دی جائے گی۔
بخاری، الصحیح، کتاب الزکاة، باب وجوب الزکاة، 2: 505، رقم: 1331
جواب: مسکین فقیر کی نسبت زیادہ تنگ دست اور خستہ حال ہوتا ہے۔ یہ زکوٰۃ کا دوسرا مصرف ہے۔ یہ بھی فقیر کی طرح دوسروں کے مالی تعاون کا محتاج ہوتا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں میں گھومتا رہتا ہے اور ایک لقمہ یا دو لقمے اور ایک کھجور یا دو کھجوریں لے کر چلا جاتا ہے۔ صحابہ کرام l نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر مسکین کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اس کی ضروریات سے اس کو مستغنیٰ کر دے اور نہ اس کے آثار سے مسکینی اور فقر کا پتا چلے تاکہ اس پر صدقہ کیا جائے اور نہ وہ لوگوں سے سوال کرتا ہو۔
بخاری، الصحیح، کتاب الزکاة، باب قول الله تعالی: لا یسئلون الناس إلحافًا، 2: 538، رقم: 1409
جواب: عاملین ایسے افراد جو حکومت کی طرف سے زکوٰۃ و عُشر وصول کرنے پر مامور ہوں۔ ان سب کو زکوٰۃ فنڈ سے اُجرت یا تنخواہ دی جائے گی خواہ امیر ہوں یا غریب اور یہ زکوٰۃ کا تیسرا مصرف ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن سعدی رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:
أَنَّهٗ قَدِمَ عَلٰی عُمَرَ فِي خِلَافَتِهٖ، فَقَالَ لَهٗ عُمَرُ: أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّکَ تَلِيَ مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا، فَإِذَا أُعْطِیْتَ الْعُمَالَةَ کَرِهْتَهَا؟ فَقُلْتُ: بَلٰی۔ فَقَالَ عُمَرُ: مَا تُرِیدُ إِلٰی ذٰلِکَ؟ فَقُلْتُ: إِنَّ لِي أَفْرَاسًا وَأَعْبُدًا، وَأَنَا بِخَیْرٍ، وَأُرِیدُ أَنْ تَکُونَ عُمَالَتِي صَدَقَۃً عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ. قَالَ عُمَرُ: لَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي کُنْتُ أَرَدْتُ الَّذِي أَرَدْتَ، فَکَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یُعْطِیْنِي الْعَطَاءَ، فَأَقُوْلُ: أَعْطِهٖ أَفْقَرَ إِلَیْهِ مِنِّي، حَتّٰی أَعْطَانِي مَرَّۃً مَالًا، فَقُلْتُ: أَعْطِهٖ أَفْقَرَ إِلَیْهِ مِنِّي، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: خُذْهُ، فَتَمَوَّلْهُ، وَتَصَدَّقْ بِهٖ، فَمَا جَائَکَ مِنْ هٰذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَیْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَإِلَّا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَکَ.
جب وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں اُن کے پاس حاضر ہوئے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُن سے فرمایا: کیا مجھ سے یہ بیان نہیں کیا گیا کہ تم لوگوں کا کام کرتے ہو اور جب تمہیں معاوضہ دیا جاتا ہے تو تم اُسے نا پسند کرتے ہو؟ پس میں نے کہا: ہاں! ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس سے تمہارا مقصد کیا ہے؟ میں عرض گزار ہوا کہ میرے پاس گھوڑے اور غلام ہیں اور میں مال بھی رکھتا ہوں، اس لیے چاہتا ہوں کہ میری اُجرت مسلمانوں پر خیرات ہوتی رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو کیونکہ میں نے بھی ایسا ہی ارادہ کیا تھا جو تم نے کیا ہے، جب رسول اللہ ﷺ مجھے مال عطا فرماتے تو میں عرض کرتا کہ فلاں کو دے دیجیے کہ وہ مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ نے مجھے ایک دفعہ مال عطا فرمایا تو میں نے عرض کیا کہ اسے کسی اور کو عطا فرما دیجیے جو مجھ سے بڑھ کر حاجت مند ہو۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اسے لے لو اور مال دار بن کر خیرات کرو۔ اگر مال تمہارے پاس اس طریقے سے آئے کہ تم اُس کے منتظر اور سائل نہ ہو تو اُسے لے لو ورنہ اپنے دل کو اُس کے پیچھے نہ چلائو۔
جواب: زکوٰۃ و عُشر کا چوتھا مصرف مؤلفۃ القلوب ہیں یعنی وہ لوگ جن کی تالیفِ قلب مقصود ہو۔ تالیف قلب کا مطلب ہے: دل موہ لینا، مائل کرنا، مانوس کرنا۔ اس حکمِ خداوندی کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں ان کی مالی مدد کرکے اسلام سے ان کی مخالفت ختم کی جاسکتی ہے۔ پھر ایسے غیر مسلم نادار لوگ بھی اس مد میں شامل ہیں کے جن کی مالی امداد کرکے انہیں اسلام کی طرف مائل کیا جاسکتا ہے تاکہ وہ اسلام کے قریب آکر اس میں داخل ہوجائیں۔ اس سے ان لوگوں کی مالی مدد بھی مراد ہے جو نئے نئے مسلمان ہوئے ہوں کہ اگر ان کی مناسب مالی مدد نہ کی گئی تو اندیشہ ہو کہ وہ اپنی غربت اور کمزوری کی بناء پر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے۔
حضرت صفوان بن اُمیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے جنگِ حنین کے دن مال عطا فرمایا حالانکہ اس وقت آپ میرے نزدیک مخلوق میں سب سے زیادہ قابل نفرت تھے۔ آپ ﷺ مجھے مسلسل عطا کرتے رہے یہاں تک کہ آپ میرے نزدیک مخلوق میں محبوب ترین ہوگئے۔
ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب الزکاة، باب ماجاء فی اعطاء المؤلفة قلوبهم، 3: 53، رقم: 666
ہمیں سیرتِ طیبہ میں بے شمار مثالیں ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ تالیفِ قلب کے لیے دیگر قبائل و خاندانوں کو مالی وظائف دیا کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ غَنَمًا بَیْنَ جَبَلَیْنِ، فَأَعْطَاهُ إِیَّاهُ. فَأَتٰی قَوْمَهٗ، فَقَالَ: أَیْ قَوْمِ! أَسْلِمُوا، فَوَاللهِ! إِنَّ مُحَمَّدًا لَیُعْطِي عَطَاءً مَا یَخَافُ الْفَقْرَ.
ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ سے دو پہاڑوں کے درمیان کی بکریاں مانگیں تو آپ ﷺ نے اسے وہ بکریاں عطا فرما دیں۔ پھر وہ اپنی قوم کے پاس گیا اور کہنے لگا: اے میری قوم! اسلام لے آؤ، کیونکہ خدا کی قسم! بے شک محمد ﷺ دل کھول کر عطیات دیتے ہیں اور فقر سے نہیں ڈرتے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی صرف دنیا کی وجہ سے مسلمان ہوتا تھا، پھر اسلام لانے کے بعد اس کو اسلام دنیا اور ما فیہا سے زیادہ محبوب ہوجاتا ہے۔
جواب: رِقاب کا معنی گردنیں چھڑانا یعنی غلام آزاد کرانے کا ہے۔ یہ زکوٰۃ کا پانچواں مصرف ہے یعنی زکوٰۃ کا مال غلام آزاد کرانے کے لیے بھی صرف کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
یُعْتِق مِنْ زَکَاةِ مَالِهٖ.
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 4: 185
(آدمی) اپنی زکوٰۃ (کے مال) سے غلام آزاد کر سکتا ہے۔
اسلام سے پہلے دنیا کے اکثر ممالک میں غلامی کا دور دورہ تھا۔ کمزور، نادار اور پس ماندہ انسانوں کو طاقت ور لوگ اپنا غلام بنا لیتے تھے۔ یونہی لڑائیوں اور جنگوں میں غالب قوم مغلوب قوم کو اپنا غلام بنا کر ان کے گھر، زمین، جائیداد حتی کہ کہ ان کی جانوں کی مالک بن جاتی تھی۔ اسلام نے انسانی غلامی کے بتدریج خاتمے کے لیے مناسب اقدامات کیے۔ جو صدیوں سے نسلاً بعد نسل غلام تھے ان کو قانوناً اور اخلاقاً کئی طریقوں سے آزاد کرنے کا دروازہ کھول دیا۔ نتیجتاً تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا اس لعنت سے پاک ہوگئی۔ جو مالک اپنے غلاموں اور لونڈیوں کو بلا معاوضہ آزاد کرنے پر آمادہ نہ تھے، انہیں مالی معاوضہ دے کر غلاموں کو آزادی دلائی گئی۔ مالک اپنے مملوک سے آزادی کے لیے جو مالی معاوضہ طلب کرتے اسے بدلِ کتابت کہا جاتا۔ غلام مطلوبہ رقم ادا کرکے آزادی سے ہم کنار ہوسکتا تھا اور وہ رقم مالِ زکوٰۃ سے ادا کی جاتی تھی۔
جواب: غارِم سے مراد قرض دار ہے اور یہ زکوٰۃ کا چھٹا مصرف ہے۔ یعنی مالِ زکوٰۃ سے قرض داروں کے قرض بھی ادا کیے جاسکتے ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إلَّا لِثَلاثَةٍ: لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ، أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ، أَوْ لِذِي دَمٍ مُوجِعٍ.
تین اشخاص کے علاوہ کسی کے لیے سوال کرنا درست نہیں: ایک وہ شخص جو خاک پر لٹا دینے والی محتاجی میں مبتلا ہو، دوسرا وہ جو سخت قرضے میں گھر گیا ہو یا وہ شخص جسے دیت کی ادائیگی کی مجبور ی ہو۔
حضرت قبیصہ بن مخارق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
تَحَمَّلْتُ حَمَالَۃً، فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَسْأَلُهٗ فِیهَا۔ فَقَالَ: أَقِمْ حَتّٰی تَأْتِیَنَا الصَّدَقَةُ فَنَأْمُرَ لَکَ بِهَا. قَالَ: ثُمَّ قَالَ: یَا قَبِیصَةُ! إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِأَحَدِ ثَـلَاثَۃٍ: رَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَۃً فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتّٰی یُصِیبَهَا، ثُمَّ یُمْسِکُ، وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ اجْتَاحَتْ مَالَهٗ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتّٰی یُصِیبَ قِوَامًا مِنْ عَیْشٍ، وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ حَتّٰی یَقُومَ ثَـلَاثَةٌ مِنْ ذَوِي الْحِجَا مِنْ قَوْمِهٖ، لَقَدْ أَصَابَتْ فُـلَانًا فَاقَةٌ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتّٰی یُصِیبَ قِوَامًا مِنْ عَیْشٍ. فَمَا سِوَاهُنَّ مِنَ الْمَسْأَلَةِ یَا قَبِیصَةُ، سُحْتًا یَأْکُلُهَا صَاحِبُهَا سُحْتًا.
مسلم، الصحیح، کتاب الزکاة، باب من تحل له المسأله، 2: 722، رقم: 1044
میں نے (دیت دینے کی) ذمہ داری قبول کی چنانچہ اس وجہ سے میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں آپ ﷺ سے دیت کے بارے میں تعاون کا طلب گار ہوا۔ آپ ﷺ نے حکم دیا: تم ہمارے ہاں قیام کرو، جب ہمیں صدقات ملیں گے تو ہم ان میں سے تمہارے بارے میں حکم دیں گے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: اے قبیصہ! سوال کرنا صرف تین افراد کے لیے درست ہے: ایک وہ شخص جس نے کسی کی ضمانت اٹھائی، دوسرا وہ شخص جسے آفت پہنچ جائے اور آفت نے اس کے مال کو ہلاک کر دیا ہو، اس کے لیے اس وقت تک سوال کرنا جائز ہے جب تک کہ اس کی ضرورت پوری نہ ہوجائے اور تیسرا وہ شخص جو فاقہ زدہ ہے اس کے قبیلہ کے تین ہوش مند انسان کھڑے ہوں اور (گواہی دیں کہ) فلاں انسان فاقہ زدہ ہے تو اس کے لیے اس وقت تک سوال کرنا جائز ہے جب تک اس کا فاقہ دور نہ ہو جائے۔ اے قبیصہ! ان کے علاوہ دیگر صورتوں میں سوال کرنا حرام ہے، اور (ان کے علاوہ کسی اور صورت میں) سوال کرنے والا حرام کھائے گا۔
جواب: ’فی سبیل اللہ‘ کا معنی ہے: اللہ کی راہ میں۔ یہ زکوٰۃ کا ساتواں مصرف ہے۔ فقہاء کے نزدیک فی سبیل اللہ کی مراد میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ امام کاسانی حنفی (م587ھ) فرماتے ہیں:
فی سبیل اللہ سے مراد نیکی کے وہ تمام کام ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہو۔ اس میں ہر وہ شحص شامل ہے جو اللہ کی اطاعت اور نیک کاموں میں تگ و دو کرے جب کہ (زکوٰۃ کا) حاجت مند ہو۔
کاسانی، بدائع الصنائع، 2: 45
جواب: ابن السبیل کا لفظی معنی ’راستے کا بیٹا‘ ہے۔ اس سے مراد مسافر ہے۔ یہ زکوٰۃ کا آٹھواں مصرف ہے۔ مسافر اپنے گھر میں خواہ مال دار ہی ہو، مگر سفر میں تنگ دست ہو جائے اور مالی تعاون کا محتاج ہو تو زکوٰۃ سے اس کی مدد کی جاسکتی ہے۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ إِلَّا فِي سَبِیلِ اللهِ أَوِ ابْنِ السَّبِیلِ، أَوْ جَارٍ فَقِیْرٍ یُتَصَدَّقُ عَلَیْهِ فَیُهْدِي لَکَ، أَوْ یَدْعُوْکَ.
صدقہ حلال نہیں ہوتا غنی کے لیے مگر اس صورت میں جب وہ جہاد کرے یا مسافر ہو۔ لیکن غریب ہمسائے کو صدقہ دیا جائے اور وہ تمہیں بطورِ ہدیہ دے یا تمہاری دعوت کر دے (تو جائز ہے)۔
امام کاسانی حنفی (م587ھ) ابن السبیل کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے وسائل و اسباب، گھر، ٹھکانہ اور مال سفر میں ہونے کی وجہ سے اس کی دسترس سے باہر ہو۔ مالِ زکوٰۃ سے اس کی مدد کی جاسکتی ہے خواہ ایسا شخص اپنے شہر میں امیر ہی ہو کیونکہ فی الحال وہ حاجت مند ہے۔
کاسانی، بدائع الصنائع، 2: 46
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved