جواب: اَفراد کے باہم رہن سہن اور مل جل کر زندگی بسر کرنے کو معاشرہ کہتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ اُس معاشرہ میں اَفراد کا تعلق ایک ہی قوم یا مذہب سے ہو، اُن کا تعلق مختلف اَقوام اور مذاہب سے بھی ہو سکتا ہے۔ جب کسی خاص قوم یا مذہب کے بارے میں بات کرنا مقصود ہو تو اُس کے ساتھ متعلقہ لاحقہ لگا دیا جاتا ہے، جیسے اِسلامی معاشرہ، مغربی معاشرہ وغیرہ۔
جواب: اسلام کے معاشرتی نظام کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے کہ دنیا کے تمام انسان ایک نسل سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے ایک انسانی جوڑا پیدا کیا اور اس سے ان تمام لوگوں کو پیدا کیا جو اس دنیا میں آباد ہیں۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآءً ج وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِیْ تَسَآئَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ ط اِنَّ اللهَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًاo
النساء، 4: 1
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقویٰ اختیار کرو)، بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے۔
اس تصور کی بنیاد پر اَولادِ آدم کو نسلی، وطنی، لسانی اور جغرافیائی اکائیوں میں تقسیم کرنے کی بجائے اِسلام ایک فکری، اخلاقی اور اصولی معاشرہ تعمیر کرتا ہے جس میں انسانوں کے باہم ملنے کی بنیاد ان کی جائے پیدائش نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور ایک اخلاقی ضابطہ ہوتا ہے۔ ہر وہ شخص جو ایک اللہ کو اپنا مالک و معبود اور حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت و رسالت پر ایمان رکھے اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت کو اپنا ضابطہ حیات مانے، وہ اس معاشرے میں شامل ہو سکتا ہے۔ خواہ وہ افریقہ کا رہنے والا ہو یا امریکہ کا، خواہ وہ سامی نسل کا ہو یا آریائی نسل کا، خواہ وہ کالا ہو یا گورا، خواہ وہ اُردو بولتا ہو یا عربی۔ جو افراد بھی اس معاشرے کا حصہ ہوں گے ان سب کے حقوق اور معاشرتی مراتب یکساں ہوں گے۔ ان کے درمیان کسی قسم کے نسلی، قومی یا طبقاتی امتیازات نہ ہوں گے۔ کوئی اپنی ذات اور پیشے کے لحاظ سے قابل تحقیر نہ گردانا جائے گا۔ اسلام میں چونکہ کوئی پاپائیت اور پیشوائیت نہیں ہے، لہٰذا کوئی بھی نسلاً یا موروثاً مراعات یافتہ نہیں ہوتا۔ اِس اُصول کی بنا پر کسی کو اپنی ذات، برادری یا حسب و نسب کی بنا پر کوئی مخصوص حقوق حاصل نہ ہوں گے۔ اس فکری اور اصولی قاعدے کی بنا پر اِسلامی معاشرے میں ہر وہ شخص برابر کے حقوق کے ساتھ شامل ہوگا جو ایک عقیدے یا اخلاقی ضابطے کو تسلیم کرے۔ جو اس عقیدے اور ضابطے کو نہ مانے تو یہ اِسلامی معاشرہ اسے اپنے دائرہ کار میں نہیں لیتا۔ لیکن انسانی برادری کا تعلق اس کے ساتھ قائم کرنے اور انسانیت کے حقوق اسے دینے کو تیار ہے؛ یعنی کسی آئینی اتحاد اور دستوری وفاق کی بنا پر وہ اُس قوم کا حصہ رہے گا۔
جواب: فرد اور معاشرہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ جس طرح کوئی عمارت اینٹ پتھر کے بغیر نہیں بنتی، اسی طرح کوئی بھی معاشرہ اَفراد کے بغیر معرضِ وجود میں نہیں آتا۔ معاشرے کی بنیاد دراصل افراد کے باہمی تعلق اور رشتے پر استوار ہوتی ہے؛ خواہ یہ تعلقات مذہبی ہوں یا سیاسی، سماجی ہوں یا ثقافتی، تجارتی ہوں یا اقتصادی، انہیں ہم معاشرتی تعلقات سے تعبیر کرتے ہیں۔ فرد اور معاشرے کا آپس میں اس طرح گہرا تعلق ہے کہ فرد کی شناخت معاشرہ متعین کرتا ہے اور معاشرہ افراد سے مل کر تشکیل پاتا ہے۔ الغرض دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہے۔
جواب: بچوں کی معاشرتی تربیت سے مراد انہیں بہترین شہری بنانے کے لیے وہ تمام امور سر انجام دینا ہے، جو معاشرے سے مطابقت رکھتے ہوں۔ یعنی بچوں کی معاشرتی تربیت میں رہن سہن کے طریقے، معاشرتی معاملات کو احسن انداز میں نبھانے کی تربیت اور مقاصدِ زندگی کو پورا کرنے کے لیے راہنمائی فراہم کرنا ہے۔
جواب: بچوں کی معاشرتی زندگی کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔ اس کے اثرات ان کی زندگی پر ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔ بچوں کی معاشرتی زندگی کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے تعلقات گھر والوں، دوستوں، اساتذہ اور افرادِ معاشرہ کے ساتھ کیسے ہیں اور خوشی، غمی اور غصے کی کیفیات میں ان کا طرزِ عمل کیسا رہتا ہے؟
بچوں کی معاشرتی ترقی کا دار و مدار خود ان کی صلاحیت اور والدین کی حوصلہ افزائی پر ہوتا ہے۔ انہیں اچھے تجربات، سوجھ بوجھ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر زندگی بسر کرنے کا سلیقہ سیکھیں۔ بچوں کو راہنمائی فراہم کرنے کی ذمہ داری والدین کے ساتھ اساتذہ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ معاشرتی تربیت کے لحاظ سے قدم قدم پر بچوں کو ان کی مدد کی اشد ضرورت ہوتی ہے تاکہ جسمانی اور ذہنی نشو و نما کے ساتھ ساتھ وہ معاشرتی پختگی بھی حاصل کر سکیں۔ چنانچہ والدین اور اساتذہ کو اس ضمن میں اپنے حصے کا کردار احساس ذمہ داری اور بھرپور دیانت داری سے سر انجام دینا چاہیے۔
جواب: گھریلو زندگی ہی بچوں کی معاشرتی نشو و نما کی بنیاد ہوتی ہے۔ وہ والدین جو خود دوسرے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں، ان کے حقوق کا احترام کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو طرح طرح کے معاشرتی تجربات سے متعارف کرواتے ہیں۔ گویا وہ اپنے بچوں کو معاشرتی پختگی حاصل کرنے کے بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں۔ تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے معاشرتی نظم و ضبط کا خیال رکھیں، رائج قوانین کا احترام کریں تاکہ انہیں معاشرتی اصولوں اور قوانین کی پابندی کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔
والدین درج ذیل اُمور پر عمل کر کے بچوں کی معاشرتی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں:
گھر ہی بچوں کا وہ پہلا معاشرتی ادارہ ہے جس میں وہ اپنے والدین کے زیر سایہ عمر کی مختلف منازل طے کرتے ہیں۔ اپنے والدین کو دیکھ کر وہ دوسرے افراد کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرتے اور آدابِ زندگی کے طریقوں سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ وہ سیکھتے ہیں کہ بڑے بہن بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے۔ یوں والدین کا معاشرے کے مختلف افراد سے اچھا طرز عمل بچوں کی معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
گھر کے کچھ مشترکہ معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کا برهِ راست بچوں سے تعلق ہوتا ہے۔ اگر والدین بچوں کی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے انہیں جمہوری طرزِ عمل سے حل کریں تو اس سے بچے فیصلہ کرنے، سمجھنے اور انہیں تسلیم کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
والدین بچوں کی معاشرتی زندگی بہتر بنانے کے لیے گھر کا ایسا ماحول بنائیں جس میں گھر کے تمام افراد یعنی والدین اور بہن بھائی ایک دوسرے کا خیال رکھیں، ایک دوسرے کے کاموں میں خوامخواہ مداخلت نہ کریں۔ دوسروں کے احساسات کا احترام کریں۔ جو بچے ایسے گھریلو ماحول میں نشو و نما پاتے ہیں وہ محبت اور دوستی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
والدین بچوں کی معاشرتی تربیت کے لیے انہیں گھر کے کاموں میں حصہ لینے کے مواقع فراہم کریں۔ بالخصوص کسی تقریب یا تہوار کے موقع پرجو انتظامات کیے جاتے ہیں، اس میں بچوں کو بھی شریک کرکے ہاتھ بٹانے کا موقع دیا جائے۔ اس سے انہیں دوسروں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ حاصل ہوتا ہے۔
خاندان ایک انتظامی اکائی ہے، جس میں رہتے ہوئے بچوں کو اعلیٰ صفات اور گھر کے حسن انتظام کی تعلیم ملتی ہے۔ اس میں والد سربراہ کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ دوسرے اراکین اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ انہی سے بچے اطاعت و فرماں برداری کا سبق حاصل کرتے ہیں۔ ابتداً بچے والدین کے اوصاف اور خوبیاں اپنانے کی کوشش کرتے ہیں، لہٰذا والدین جس قدر اعلیٰ اوصاف کے حامل ہوں گے ان کے بچے بھی انہی صفات سے متصف ہوں گے۔
والدین بچوں کو معاشرے کے رسم و رواج اور مختلف معاشرتی اداروں کی کارکردگی کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس سے انہیں ادب، علوم و فنون اور دیگر لطیف احساسات و جذبات کی کار فرمائیوں سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ ان کا ذہن ثقافتی سرمائے کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے دور کی تہذیب اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
جواب: جی ہاں! بچوں کی معاشرتی تربیت کے لیے انہیں محنت و مشقت کا عادی بنانا ضروری ہے۔ موجودہ صنعتی دور میں کامیابی اور ترقی تربیت یافتہ اور تجربہ کار افراد پر منحصر ہے۔ یہ افراد خواہ اعلیٰ انجینئر ہوں یا عام مزدور، ان کا محنت و مشقت کے اصولوں اور دستی کام کی عظمت سے بخوبی روشناس ہونا لازمی ہے۔ ایسے ہنر مند نوجوان اسی صورت میں مل سکتے ہیں جب بچپن سے ہی گھریلو سطح پر اور تعلیمی ادارہ جات میں جد و جہد کرنے، محنت کرنے اور دستی کام میں دلچسپی لینے کی عملی تربیت دی جائے۔ جن بچوں کو ابتدائی دور میں محنت و مشقت کی موزوں تربیت میسر آتی ہے وہ بڑے ہو کر اپنے مسائل کو سمجھنے اور اپنی مشکلات کا حل ڈھونڈنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
یہ ایک المیہ ہے کہ اکثر متمول گھرانوں کے بچوں کی تربیت میں اس بنیادی پہلو کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے؛ اس لیے کہ ان گھرانوں میں ملازمین کی بہتات ہوتی ہے اور بالغ افراد اپنا کام خود کرنے میں ہتک محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح چھوٹے بچے بھی بڑوں کی دیکھا دیکھی خادمین کے اس قدر محتاج ہو جاتے ہیں کہ ان میں اپنے ذاتی کام کرنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے۔ بچے ہر چھوٹا بڑا کام مثلاً جوتے صاف کرنا، چائے بنانا، بستر درست کرنا، کپڑے استری کرنا وغیرہ تک نوکروں سے کرواتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچے جب ملازمین کی نگہداشت سے نکل کر معاشرتی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں ماحول کے نئے تقاضوں سے مطابقت پیدا کرنے میں دقت محسوس ہوتی ہے۔ یوں جسمانی محنت و مشقت کا عادی نہ ہونے کی بنا پر بچے مایوسی اور محرومیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
بچوں کو محنت و مشقت اور جسمانی کام کی عظمت سے روشناس کرانے کے لیے گھریلو تربیت ہی کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے اسکول و کالج میں تعلیم کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ بچوں کے تعلیمی ادارے خالص کتابی ادارے ہی نہیں ہیں بلکہ ان کا کام بچوں کو زندگی کے تمام مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کرنا ہے۔ اگر تعلیم کو فقط درسی نصاب تک ہی محدود رکھا جائے تو اس سے طلبہ معاش کمانے کے قابل تو ہو سکتے ہیں مگر ان کی شخصیت اور کردار کے وہ بلند اوصاف کبھی اجاگر نہیں ہو سکتے، جو جامع اور متوازن زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ جو بچے محض کتب تک محدود رہتے ہیں، وہ معاشی میدان میں بھی خسارے میں رہتے ہیں۔ اس قسم کے کوتاہ بین بچے محض ان ملازمتوں کے لیے موزوں ثابت ہوتے ہیں جن میں خالص لکھائی پڑھائی درکار ہو نہ کہ محنت و مشقت۔
لہٰذا سکولوں اور کالجوں میں طلبہ اور اساتذہ مل کر ہفتہ وار جسمانی سرگرمیوں کا اہتمام کریں، جس میں تعلیم کے ساتھ ساتھ جسمانی محنت بھی درکار ہو۔ جیسے اسکول میں ایک چھوٹا سا با غیچہ لگا کر اس کی دیکھ بھال ان کے سپرد کی جا سکتی ہے۔ اسکولز اور کالجز میں ہونے والے مختلف پروگرامز کے انتظامی امور طلبہ کے سپرد کیے جا سکتے ہیں۔ کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ اپنے کلب، یونین اور کیفے ٹیریا وغیرہ کا انتظام خود سنبھال کر ملازمین پر غیر معمولی انحصار کی مذموم عادت سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ہاسٹل میں رہنے والے بچوں کی اپنے رہائشی کمروں کی صفائی میں ذاتی دلچسپی ان کی تربیت میں بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ کالج کے طلبہ اپنے ہوسٹل کے قیام و طعام کا انتظام اگر خود کریں تو وہ دستی محنت کی عظمت سے کافی حد تک آگاہی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس قسم کی غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے بچوں کو نہ صرف معاشرتی بلکہ ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی عملی تربیت بھی میسر آتی ہے۔
جواب: بلوغت میں قدم رکھتے ہی بچوں کی جسمانی نشو و نما کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ اس لیے ان کی اچھی صحت کے لیے متوازن غذا اور کھیل بہت ضروری ہیں۔ انہیں صحت مند اور چاق و چوبند رہنے کے لیے تمام غذائی اجزاء مثلاً پروٹین، لحمیات، وٹامن، معدنیات اور کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل متوازن غذا کھانے کی ضرورت ہوتی ہے جس سے ان کی قوتِ حافظہ تیز اور جسمانی اعضاء مضبوط ہوتے ہیں۔
متوازن غذا کی طرح کھیلوں کی سرگرمیاں بھی بچوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر فعال رکھتی ہیں اور انہیں تفریح فراہم کرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔ بچوں کی دن بھر کی مصروفیت ان کی ذہنی اور جسمانی تکان کا باعث بنتی ہے۔ کھیل ان کی جسمانی تھکن اور ذہنی تناؤ کو دور کر کے انہیں متحرک رکھنے کے لیے ضروری شغل ہے۔ بچے کھیل کے دوران نظم و ضبط، قوتِ برداشت اور چوکنا رہنے کی مہارت حاصل کرتے ہیں۔ کھیل کود سے خون کی گردش اور نظامِ انہضام میں بہتری آتی ہے۔ جو ان کی بہترین نشو و نما اور بھرپور توانائی کا پیش خیمہ ہے۔
جواب: صحت اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا تحفہ ہے۔ اگر بچے صحت مند اور توانا ہوں گے تو وہ دین اور دنیا دونوں کی خدمت کا فریضہ احسن انداز میں سر انجام دے سکیں گے۔ لیکن اکثر بچے اس نعمت کی قدر نہیں کرتے۔ حالانکہ حدیثِ مبارک میں صحت کو نعمت قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِیهِمَا کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ.
بخاری، الصحیح، کتاب الرفاق، باب ماجاء في الصحیحة والفراغ وأن لا عیش إلا عیش الآخرة، 5: 2357، رقم: 6049
دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ اُن کی قدر نہیں کرتے: وہ صحت اور فراغت ہیں۔
حفظانِ صحت اور تن درستی کے معاملے میں تعلیماتِ اسلام واضح ہیں۔ ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر بچے نہ صرف صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں بلکہ وہ بہت سی مہلک بیماریوں سے محفوظ بھی رہ سکتے ہیں۔ بچوں کی صحت کا دار و مدار محض ان کی جسمانی تن درستی و توانائی اور ظاہری نشو و نما پر نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ حفظانِ صحت کے اصولوں میں متوازن غذا، مناسب نیند، آلودگی سے پاک فضا اور طہارت و نظافت بھی شامل ہیں۔ ان پر عمل کر کے وہ صحت مند اور خوش گوار زندگی گزار سکتے ہیں۔
اسی طرح کھیل کا بھی اسلام سے گہرا تعلق ہے۔ اسلام ایسے بامقصد کھیل کھیلنے کی ترغیب دیتا ہے جو بچوں کو جسمانی لحاظ سے صحت مند اور چست بنائیں اور قویٰ و اعضاء میں سختی برداشت کرنے کی طاقت پیدا کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ایسا مومن زیادہ پسند ہے جو قوی اور طاقت ور ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے::
اَلْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَیْرٌ وَأَحَبُّ إِلَی اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیْفِ.
طاقت ور مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور مومن سے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے۔
حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت جابر بن عمیر انصاری رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
کُلُّ شَيئٍ لَیْسَ مِنْ ذِکْرِ اللهِ تعالیٰ فَھُوَ لَھْوٌ أَوْ سَھْوٌ إِلَّا أَرْبَعُ خِصَالٍ: مَشْيُ الرَّجُلِ بَیْنَ الْغَرَضَیْنِ، وَتَأْدِیْبُهٗ فَرَسَهٗ، وَمُلَاعَبَهٗ أَهْلِهٖ، وَتَعَلُّمُ السَّبَاحَةِ.
ہر وہ چیز جس میں اللہ کا ذکر نہیں وہ لغو ہے یا غفلت کا باعث ہے، سوائے چار کاموں کے: آدمی کا دو نشانوں کے درمیان چلنا، گھڑ سواری کی تربیت، اہل خانہ کے ساتھ کھیلنا اور تیراکی سیکھنا۔
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ قوت و توانائی کے لیے کھیل کود ضروری ہے۔ اس سے جسم میں تقویت آتی اور صحت بھی اچھی ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے بچے بہترین انداز میں عبادات کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں۔۔
جواب: بچوں کی ذہنی نشو و نما کے لیے درج ذیل چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
والدین کا بچوں کی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنا کافی نہیں ہوتا بلکہ ذہنی نشو و نما کے لیے انہیں والدین کی اپنائیت اور خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو انہیں نفسیاتی اور ذہنی اطمینان فراہم کرتی ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ اپنے نظام الاوقات میں بچوں کے لیے خصوصی وقت متعین کریں۔
بچوں کے وجود کو اہمیت دینا اور قبول کرنا ان کی ذہنی تربیت میں سے ایک اہم عمل ہے۔ والدین بچوں کو محبت دے کر انہیں اپنے خاص ہونے کا احساس دلائیں کہ گھر میں ان کی اپنی ایک انفرادی حیثیت ہے۔ اسی طرح انہیں ’تم‘ یا ’تو‘ کہنے کی بجائے آپ کہہ کر بلائیں۔ گھر کا ماحول اس طرح تشکیل دیں کہ بچے از خود محسوس کریں کہ ان کا اپنا ایک مقام ہے اور گھر کا ہر فرد انہیں عزت دے رہا ہے۔
بچوں کی ذہنی نشو و نما کے پیشِ نظر والدین کو چاہیے کہ ان سے گھریلو امور میں مشورہ لیں تاکہ اس کے ذریعے ان میں مسائل حل کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ وہ اپنے آپ کو فیملی کا فرد سمجھیں اور خود کو الگ تھلگ محسوس نہ کریں۔
بچوں کو چھوٹے چھوٹے ایسے کام دیے جائیں جنہیں وہ آسانی سے سرانجام دے کر کامیابی حاصل کر سکیں۔ ان کی تکمیل پر والدین موقع کی مناسبت سے محبت کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی بھی کریں۔ اس سے بچوں میں مسرت اور خوشی کے احساسات بیدار ہوں گے اور ان میں خود اعتمادی پیدا کرنے اور انہیں نئے جذبے سے سرشار کرنے کا باعث بنیں گے۔
بچوں کو ہمیشہ ایک اچھے دوست کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے بچوں کا اعزا و اقارب کے بچوں کے ساتھ دوستی کرنا اور کھیلنا ان کی ذہنی نشو و نما میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنائیں۔
جواب: ابلاغ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی پہنچانا کے ہیں۔ اس میں دینی یا دنیاوی، اچھی یا بری بات کی کوئی قید نہیں۔ کوئی پیغام، کوئی بات اور کوئی خبر بھی اس کا موضوع بن سکتی ہے۔ یہ انسان کی انفرادی اور معاشرتی ضرورت ہے۔ یہ انسانی معاشرے کی بقا کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ دیگر مادی ضروریات ہیں۔ انگریزی میں اس کے لیے communication کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کے معنی اشتراک پیدا کرنے کے ہیں۔ گویا ابلاغ/communication ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعہ کوئی خبر، اطلاع یا نظریہ ایک شخص سے دوسرے شخص یا کئی لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔
جواب: کوئی ذی شعور ذرائع ابلاغ مثلاًریڈیو، ٹی وی، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، کتب اور اخبارات کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ عصرِ حاضر کی تمام سائنسی ایجادات اور علمی تحقیقات کی ترقی کا ادراک انہی ذرائع کی بدولت ہواہے۔ اس کے ذریعے افکار و آراء کی ترویج اور ابلاغ کا دائرہ عمل وسیع تر ہو گیا ہے اور صاحبانِ علم و ہنر کے تعارف اور اثر پذیری میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ یہ صرف معلومات ہی کا نہیں بلکہ تفریح کا بھی ذریعہ ہے۔ آگہی کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے کسی حصہ میں کوئی واقعہ یا حادثہ رونما ہوتا ہے تو فوری طور پر ہر شخص اس سے واقف ہو جاتا ہے۔ اطلاعات اور معلومات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس سے ہر شخص متمتع ہو رہا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی اہمیت و افادیت جہاں اپنی جگہ مسلّم ہے وہیں اس کا منفی استعمال ایسا خطرناک پہلو ہے جسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ذرائع ابلاغ کا استعمال خواہ قومی سطح پر ہو یا بین الاقوامی سطح پر، یہ تعمیری مقاصد کے ساتھ ساتھ تخریبی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہو رہا ہے۔ لوگوں کی ذہنی تغسیل (brain washing) کے لیے ذرائع ابلاغ کو ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مخالف قوموں کے image کو نقصان پہنچانے کے لیے مہم چلائی جاتی ہے۔ اسی طرح ذرائع ابلاغ کو فحاشی و عریانی پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جو معاشروں کی عمومی اخلاقی فضا کو تباہ کرنے کے لیے ایک مہلک ہتھیار ہے۔ افراد کے مابین انتشار پیدا کرنا، اصل اور مطلوب اُمور و مسائل کی بجائے جزئیات اور غیر ضروری اُمور پر توجہ مرکوز کرانا یہ سب میڈیا کے منفی کردار کے ثبوت و مظاہر ہیں جو آئے روز عینی مشاہدات میں آتے رہتے ہیں۔
جواب: کسی بھی معاشرے کی مروجہ زبان بچوں کو سکھانے میں خاندان اور اسکول کے بعد ذرائع ابلاغ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ نے بچوں کی سماجی اور اخلاقی تربیت کے زاویے کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ بچے نہ صرف نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ اقدار کے زوال کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کا معیار بھی پست ہو رہاہے۔ ذرائع ابلاغ خواہ وہ اخبارات ہوں یا ریڈیو، ٹیلی ویژن ہو یا انٹرنیٹ، اس نے اردو زبان پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان ذرائع کی وجہ سے اردو زبان میں انگریزی، ہندی اور دیگر زبانیں مدغم ہو گئی ہیں اور اردو زبان کا مستقبل ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے۔
بالخصوص الیکٹرانک میڈیا اردو زبان کی مزید زبوں حالی کا ایک بڑا سبب بن رہا ہے۔ زبان کے قواعد و ضوابط کے اعتبار سے اردو کا غلط استعمال الیکٹرانک میڈیا پر عام ہے، جو یقینا آج کے بچوں کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ ٹی وی ڈراموں، اشتہارات، سیاسی و معاشرتی مباحثوں، خبروں اور مارننگ شوز وغیرہ میں غلط اردو کا استعمال عام ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں ایک انتہائی غیر معیاری اور غلط زبان وجود میں آرہی ہے۔ ٹی وی چینلز میں سیاسی و سماجی مسائل پر بے باک اور بے لاگ تبصرہ کرنے والے اور خبریں پڑھنے والے افراد کی اردو سے ناواقفیت بھی زبان و لسان کی اس زبوں حالی کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔ تذکیر و تانیث، تلفظ اور بنیادی قواعد کی غلطیاں عام ہو چکی ہیں۔ اس لیے آج کے بچے اردو درست انداز میں بول پاتے ہیں نہ کوئی مقامی زبان۔
اس قومی المیے کو سدھارنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اردو کو عام فہم زبان بنانے اور اس کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے لسانیات کے حوالے سے ایک الگ ادارہ قائم کرے۔ ذرائع ابلاغ کے مالکان کا یہ سماجی فریضہ ہے کہ وہ اپنے اداروں میں ایسے افراد کی خدمات حاصل کریں جو اردو زبان پر عبور رکھتے ہوں تاکہ کم از کم ان کے نمائندگان کی زبان کی اصلاح ہو سکے۔ علاوہ ازیں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (PEMRA) کو چاہیے کہ وہ تمام چینلز کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے اور عوامی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے اردو کے فروغ کے لیے کچھ پروگرام ضرور نشر کریں تاکہ نئی نسل میں معیاری اردو سننے اور سمجھنے کا ذوق پیدا ہوسکے۔
جواب: کسی بھی معاشرے کے سنورنے اور بگڑنے میں ذرائع ابلاغ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان ذرائع سے عوام کو جہاں تعلیم و تربیت، اصلاح و تبلیغ اور تہذیب و تمدن سے آگہی حاصل ہوئی ہے۔ وہیں اس کی بدولت ان کی اعتقادی، ایمانی اور اخلاقی اقدار زوال پذیر ہوئی ہیں۔ ان حالات میں ذرائع ابلاغ اسلام کے سنہری اصولوں کی روشنی میں درج ذیل طرق سے اپنا مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔
بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی تعمیرِ شخصیت کے لیے ضروری ہے کہ ذرائع ابلاغ قومی نشریات میں اہل مغرب کے غلط پراپیگنڈے کا جواب دیں۔ بچوں کو اسلامی معلومات فراہم کریں۔ ایسے پروگرامز مرتب کرنے کی طرف خاص توجہ دیں جس میں بچوں کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ، سیرتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، اُسوۂ اہل بیت اطہار f، ائمہ عظام اور مجاہدین اسلام کے کارنامے اور تاریخ اسلام کے سبق آموز واقعات دلکش اور دلنشین انداز میں پیش کیے جائیں۔ اس کے علاوہ نئی نسل کو بہادری، جفاکشی اور محنت کشی کی تربیت کے لیے بری، بحری اور فضائی افواج کی مشقوں پر مبنی پروگرامز بھی دکھائے جائیں۔
احترامِ انسانیت کے لیے درج ذیل حدیثِ مبارک ذرائع ابلاغ کو بنیاد فراہم کرتی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا یَظْلِمُهٗ وَلَا یُسْلِمُهٗ.
بخاری، الصحیح، کتاب المظالم، باب قول الله تعالی: …، 2: 862، رقم: 2310
ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے ظالم کے حوالے کرے۔۔
اسلامی نقطہ نظر سے ذرائع ابلاغ کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ طنز و تعریض، الزام تراشی، مذاق اڑانے اور عیب جوئی کا طریقہ اختیار کریں کیونکہ اسلام یکجہتی کی فضا قائم کرنے کا درس دیتا ہے۔ اس لیے کسی انسان کی عزتِ نفس کو مجروح کرنا کسی صورت بھی entertainment کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکراسلامی معاشرت کا بنیادی اصول ہے۔ جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ.
آل عمران، 3: 110
تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
اس وقت امتِ مسلمہ کے زوال کا سب سے بڑا سبب اسی فریضہ سے روگردانی ہے۔ نیکی کا فروغ اور بدی کا سدِباب اسلامی نصب العین کا حصہ رہا ہے۔ اسلامی ریاست میں ذرائع ابلاغ کی پوری پالیسی اسی اصول کے تابع ہونی چاہیے۔ ایسی خبریں، ڈرامے، تفریحی پروگرام اور ایسی تشہیر جو نیکی کے تصور کے خلاف اور بدی کے فروغ کا ذریعہ بنیں ناقابلِ قبول ہیں۔ اسلامی نظریہ ابلاغ میں نیکی کا فروغ وہ مضبوط چٹان ہے جس پر میڈیا کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے خبر کی صحت ابلاغ کی اولین شرط ہے۔ معلومات میں اگر صداقت اور ثقاہت کے عناصر موجود نہ ہوں تویہ خبریں ذہنی برائیوں اور کئی مسائل کا باعث بنتی ہیں۔ جب کہ اسلامی اصول ذرائع ابلاغ کو حق و صداقت کی نشانی بن کر معاشرے کی نمائندگی کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاo
الأحزاب، 33: 70
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو۔
ذرائع ابلاغ ہمیں جو معلومات فراہم کرتے ہیں وہ ایک طرح کی گواہی ہوتی ہے۔ گواہی کے سلسلے میں دو باتیں اہم ہیں: ایک یہ کہ گواہی سچ پر مبنی ہو اور دوسری یہ کہ گواہی کو چھپایا نہ جائے۔ ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری ہے کہ وہ سچی بات کی اشاعت کریں اور سچ کو چھپانے کا ارتکاب نہ کریں۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں واضح حکم ہے:
وَلَا تَکْتُمُوا الشَّھَادَةَ ط وَمَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّهٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُهٗ ط وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌo
البقرة، 2: 283
اور تم گواہی کو چُھپایا نہ کرو، اور جو شخص گواہی چُھپاتا ہے تو یقینا اس کا دل گنہگار ہے، اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب جاننے والا ہے۔
اسلامی ریاست کے ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا رہیں، بے بنیاد خبروں سے اجتناب کریں، سچائی پر مبنی خبریں اور پروگرام نشر کریں اور عوام کو صحیح صورتِ حال سے آگاہ کریں تاکہ معاشرے کو ہر قسم کی برائی سے پاک کیا جا سکے۔۔
کسی بھی خبر کو نشر کرنے سے پہلے اُس کی تحقیق و تفتیش کر لینا انتہائی ضروری ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے اس کا واضح حکم ارشاد فرمایا ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا م بِجَھَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَo
الحجرات، 49: 6
اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کیے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔
اگر کسی خبر کی تحقیق کیے بغیر اسے آگے پھیلا دیا جائے تو ایسے شخص کو حضور نبی اکرم ﷺ نے جھوٹا قرار دیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کَفٰی بِالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ.
کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو (بغیر تصدیق کے) آگے بیان کر دے۔
اسلامی ریاست میں ابلاغ کا یہ اُصول مدنظر رہے تو بہت سی برائیوں سے بچا جا سکتا ہے۔
اسلام بنی نوع انسان کی نجی زندگی (privacy) کو تحفظ فراہم کرتا اور اسے اس کا بنیادی حق قرار دیتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ افراد کی نجی زندگی کے بارے میں کھوج لگائیں، ان کے راز معلوم کریں اور ان کے افعال و کردار کی جاسوسی کریں کیونکہ ایسا کرنا اخلاقی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ اس سے معاشرے میں فساد پھیلتا ہے۔ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَکَرِهْتُمُوْهُ.
الحجرات، 49: 12
اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بے شک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔
جواب: فی زمانہ موسیقی ہر زاویے سے بچوں کی زندگی کو گھیرے ہوئے ہے۔ بچے جو سنتے ہیں، اسی کے مطابق ذہنی و جسمانی اور روحانی ردِ عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ بے مقصد، ہیجان انگیز اور عشقیہ موسیقی سننے کا نتیجہ دل و دماغ پر بوجھ اور مایوسی کی صورت میں نکلتا ہے۔ جو یادِ ماضی میں دھکیل کر مستقبل سے غافل کر دیتا ہے۔ جب کہ مثبت موسیقی جیسے تلاوتِ قرآن، نعت رسول مقبول ﷺ اور صوفیانہ کلام سننے سے قلب و ذہن کو توانائی اور روشنی عطا ہوتی ہے اور قدرت کے اسرار و رموز سمجھنے کی تحریک پیدا کرتی ہے۔ دونوں طرح کی موسیقی سننے کے نتیجے میں ظاہری و باطنی اثرات مختلف ہوتے ہیں۔ مثبت موسیقی شکست کو فتح میں تبدیل کر سکتی ہے۔ جب کہ منفی موسیقی کا انتخاب انسانی صلاحیتوں کو ناکارہ و مفلوج کر دیتا ہے۔ المیہ ہے کہ آج کے دور میں منفی، لغو اور بے مقصد موسیقی نوجوان نسل کا اوڑھنا بچھونا بن چکی ہے، جو ان کے کردار پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ٹی وی پروگراموں میں منفی موسیقی اور رقص و سرور کی مجالس کے ذریعے بھی بچوں پر ہونے والے درج ذیل منفی اثرات واضح ہیں:
جواب: فلمیں درحقیقت تصوراتی ماحول اور خوب صورت خیالات و احساسات کے ابلاغ کی نظیر پیش کرنے کا ایک ایسا فن ہے۔ جو دیکھنے والوں کے مزاجِ طبع اور ان کی نفسیات پر برهِ راست اثر ڈالتی ہیں۔ ماضی میں بننے والی فلمیں بچوں کے لیے نصیحت اور سبق آموز ہوا کرتی تھیں مگر دورِ حاضر میں بننے والی فلموں نے بچوں کی معصومیت کو چھین کر ان کے کردار پر درج ذیل منفی اثرات مرتب کیے ہیں:
جواب: جی نہیں! ٹین ایجرز غیر محرم لڑکے اور لڑکیوں کا باہمی اختلاط، اُن کا اکیلے پکنک وغیرہ پر جانا اور آپس میں ہاتھ ملانا قطعاً جائز نہیں ہے۔ یہ اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
اُمیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنِّي لَا أُصَافِحُ النِّسَاء.
میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔
بچوں کی تربیت میں والدین سے جو سب سے بڑی غلطی سرزد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بچپن ہی سے بچوں کے باہمی اختلاط کو نظر انداز کرنا ہے۔ اس لیے ٹین ایج میں ایسے بچے اور بچیاں باہمی اختلاط اور آپس میں ہاتھ ملانے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔ المیہ یہ ہے کہ عصرِ حاضر میں مغربی تہذیب کی نقالی میں ہاتھ ملانا وبائے عام کی شکل اختیار کر گیا ہے، جس کی وجہ سے اب بچے، بچیوں کے اختلاط میں لوگ کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ نتیجتاً اختلاط اور پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی برائیوں کا فتنہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ لہٰذا والدین کے لیے ضروری ہے کہ جب بچے بلوغت کی عمر کے قریب پہنچیں تو اُن کے باہمی اختلاط، تنہائی میں میل جول اور لڑکے لڑکیوں کے مخلوط کھیلوں کے مواقع کو حکمت سے کنٹرول کریں۔ بچوں کو بتایا جائے کہ اپنے cousins وغیرہ سے بھی سلام لیتے ہوئے ہاتھ ملانا ناجائز ہے چہ جائیکہ غیروں سے مصافحہ کیا جائے۔ صرف زبانی سلام لیا جائے اور ہاتھ ملانے سے اجتناب برتا جائے۔
شادی، بیاہ اور اس طرح کی دیگر تقریبات میں مرد و خواتین کے لیے الگ الگ باپردہ انتظام کریں اور قریب البلوغ بچے بچیوں کو بھی اس کا پابند بنائیں۔ اس عمر میں ایسے تعلیمی اداروں کا انتخاب کریں جہاں مخلوط نظامِ تعلیم نہ ہو اور تعلیم کے ساتھ اخلاقی و روحانی تربیت کا بھی مناسب انتظام موجود ہو۔
اختلاط کی بہت سی صورتیں ہیں جن کی شرعاً اجازت نہیں ہے، یہ سب ممنوع اور حرام ہیں۔ ان میں سے چند ٹین ایجرز کی عمر کے لحاظ سے پیش کی جا رہی ہیں:
بنابریں اختلاط کی مذکورہ صورتوں سے بچوں کو بچانے کے لیے والدین کو چاہیے کہ بچپن ہی سے بچوں کو اکٹھے کھیلنے اور ملنے جلنے کی بجائے انہیں الگ لگ مواقع فراہم کریں تاکہ بچے بُری صحبت سے بچیں۔ ٹین ایج میں بے لوث محبت کا جذبہ عروج پر ہوتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ ان کے اس جذبے کو خدمتِ خلق کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کریں اور اس کے مواقع فراہم کریں اور اختلاط کے مفاسد و خطرات سے بھی انہیں خبردار کریں تاکہ وہ ان سے بچنے کا اہتمام کریں۔
جواب: اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر دوسری مخلوقات سے ممتاز و ممیز کر کے اسے شرم و حیا کا پیکر بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فطرتاً پاکیزہ اور باحیا رہنا پسند کرتا ہے۔ لیکن اگر انسان میں حیا کی جگہ بے حیائی آجائے تو اس کا ایمان رخصت ہو جاتا ہے اور وہ ذلت و پستی میں گرنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتا ہے۔ جب کہ صفتِ حیاء کی وجہ سے وہ آنے والی تمام ابتلاء و آزمائش کے باوجود اپنے شرف انسانیت کی حفاظت کرتا رہتا ہے۔ حدیث مبارک میں حیا کو ایمان کی شاخ قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلْحَیَاءُ شُعْبَةٌ مِنْ الْإِیمَانِ.
حیا بھی ایمان کی ایک (اہم) شاخ ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا اخلاق و کردار تمام بنی نوع انسان کے لیے منفرد، بے مثال اور قابل تقلید ہے۔ آپ ﷺ میں شرم و حیا کی صفت اتنی نمایاں تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے تھے:
کَانَ النَّبِيُّ ﷺ أَشَدَّ حَیَاءً مِنَ الْعَذْرَاءِ فِي خِدْرِهَا.
حضور نبی اکرم ﷺ پردہ نشین کنواری لڑکیوں سے بھی بڑھ کر حیا دار تھے۔
حضور نبی اکرم ﷺ سے مروی درج ذیل احادیثِ مبارکہ سے جہاں حیا کی ترغیب ملتی ہے۔ وہاں بے حیائی کی مذمت بھی کی گئی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
الْحَیَاءُ مِنَ الإِیمَانِ، وَالإِیمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَالْبَذَاءُ مِنَ الْجَفَاءِ، وَالْجَفَاءُ فِي النَّارِ.
ترمذی، السنن، کتاب البر و الصلة، باب ماجاء في الحیاء 4: 365، رقم: 2009
حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جاتا ہے۔ بے حیائی ظلم ہے اور ظلم جہنم میں لے جاتا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
مَا کَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْئٍ إِلَّا شَانَهٗ، وَمَا کَانَ الْحَیَاءُ فِي شَيْئٍ إِلَّا زَانَهٗ.
بے حیائی جس چیز میں آتی ہے اسے عیب دار بناتی ہے اور حیا جس شے میں آتی ہے اسے مزین کر دیتی ہے۔
دنیوی و اخروی کامیابی کا راستہ شرم و حیا کو اختیار کرنے اور بے راہ روی و بے حیائی کو ترک کرنے میں مضمر ہے۔
جواب: تعلق کے درج ذیل تین درجے ہیں:
پسند ابتدائی مرحلہ ہے۔ محبت اس سے اوپر کا مرحلہ اور کشش انتہا درجے کی چیز ہے۔
تعلق کا پہلا درجہ پسند ہے۔ یعنی کسی کی اچھی صفات کی وجہ سے اس کا اچھا لگنا جیسے کھلاڑی کا اچھا لگنا، مقرر کا اچھا لگنا۔ اسے پسند کہتے ہیں۔ لڑکا ہو یا لڑکی اس کے ذہن میں پسندیدگی کسی کی بھی آسکتی ہے۔ جیسے علامہ اقبال کی شاعری پسند ہے، فلاں کا مضمون پسند ہے، فلاں کی کتاب پسند ہے۔ یہ سب likings (پسند) ہے جو ایک بالکل نارمل چیز ہے۔ جیسا کہ انسان کو بعض چیزیں اچھی لگتی ہیں۔
تعلق کا دوسرا درجہ محبت ہے، جوبہت مضبوط ہوتا ہے۔ دنیاوی محبت کا جذبہ ابتدائی طور پر محرم رشتوں کے لیے ہوتا ہے جیسے بہن، بھائی، باپ یا بیٹے سے محبت ہوتی ہے۔ اسی طرح دین کی محبتوں میں اللہ تعالیٰ سے محبت، حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت، صحابہ کرام l اور اہل بیت اَطہار f سے محبت، شیخ سے محبت وغیرہ۔ یہ تمام محبت کی مختلف قسمیں ہیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت اصل ہے۔ یہ محبت غیر مشروط اور لازم ہے۔ پھر اس محبت کی وجہ سے صحابہ کرام l، اہل بیت اَطہار f، علماء، اولیاء، صوفیاء اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے محبت کرنا ہی اصل محبت ہے۔
تعلق کا تیسرا درجہ کشش ہے۔ یہ تعلق زوجین کے مابین ہوتا ہے اور یہ بات لڑکا ہو یا لڑکی اسے ذہن نشین کروانی چاہیے کہ ایسا تعلق زوجین کے علاوہ کہیں بھی ہو گا تو انسان اللہ کا مجرم بنے گا۔ سو کوئی بھی انسان ہو - چاہے محرم ہو یا دین کے تعلق والا - اگر وہ ایسی کوئی بات کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی حد سے بڑھ رہا ہے۔
والدین پر لازم ہے کہ مذکورہ بالا تینوں تعلق الگ الگ بچوں اور بچیوں کے ذہن میں بٹھائیں تاکہ انہیں واضح پتا ہو کہ ان کا تعلق کس کے ساتھ کس قسم کا ہونا چاہیے۔۔
جواب: درج ذیل عوامل بچوں میں طفلانہ یعنی جنسی محبت کو جنم دینے میں کردار ادا کرتے ہیں:
جواب: بچوں میں اگر طفلانہ محبت پیدا ہو جائے تو والدین کو چاہیے کہ انہیں برا بھلا کہنے اور ان کے بارے میں سخت فیصلہ کرنے سے پہلے ان کی ذہنی کیفیات کا مشاہدہ کریں اور انہیں پیار اور حکمت سے سمجھائیں۔ ٹین ایج میں بچے بہت جوشیلے اور جذباتی ہوتے ہیں اور والدین کی ذرا سی بے احتیاطی اور غصہ انہیں انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر سکتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ ٹین ایج میں بچوں کو طفلانہ محبت سے بچانے کے لیے ان کی اخلاقی و روحانی تربیت پر خصوصی توجہ دیں۔ اس کے لیے کسی مستند روحانی شخصیت کی سنگت و صحبت انتہائی ضروری ہے۔
والدین برهِ راست اپنے خیالات اور احساسات ان سے شیئر کرتے رہیں اور ان کے احساسات اور خیالات جاننے کی کوشش کریں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ والدین قبل از وقت بلاوجہ بچوں کے ساتھ ان کی شادی کے موضوع پر بات چیت کرنے سے گریز کریں۔ والدین اپنے اعمال اور اخلاق کے ذریعے بچوں کے لیے رول ماڈل بنیں۔ اگر انہیں شروع سے ہی ایک اچھا رول ماڈل مل جائے تو ٹین ایج میں ان سے غلط فیصلوں کے امکانات کم ہوںگے۔
والدین کو چاہیے کہ بچوں کو نہ صرف گھریلو امور بلکہ سماجی سرگرمیوں میں مصروف رکھیں تاکہ ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہو اور وہ طفلانہ محبت میں مبتلا ہونے کی بجائے اپنی توانائیاں مثبت انداز سے صرف کرنے کے قابل ہو جائیں۔
جواب: بلوغت میں قدم رکھتے ہی بعض ٹین ایجرز کو مختلف قسم کی نفسیاتی بیماریاں لاحق ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ اس عمر میں وہ حساس اور جذباتی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ہر معاملے کو گہری سنجیدگی سے لیتے ہیں اور دوسروں سے مقابلہ بازی کرنا چاہتے ہیں۔ مگر جب ان کے مقاصد پورے نہیں ہوتے تو ان کا ذہن بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ان میں درج ذیل نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں:
اس بیماری میں مبتلا ٹین ایجرز میں مختلف علامات ظاہر ہوتی ہیں؛ مثلاً وہ جذباتی ہوتے ہیں، تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتے، بڑوں کی بات ان سنی کرتے ہیں اور اپنی باری کاانتظار کرنا، لائن میں لگنا ان پر گراں گزرتا ہے۔
اس بیماری میں مبتلا ٹین ایجرز میں بے پناہ غصہ ہوتا ہے اور غصے کی کیفیت میں وہ برتن توڑتے، چیزیں پھینکتے اور دوسروں سے لڑائی جھگڑا کرتے ہیں۔
یہ سب سے خطرناک بیماری ہے۔ اس میں ایک bipolar (دوقطبی) ہونا ہے. جو بچے bipolar ہوتے ہیں یعنی نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے ذہنی خلفشار کا شکار ہو جاتے ہیں، کبھی تو ان کا موڈ حد سے زیادہ خوش گوار ہو جاتا ہے اور کبھی اس میں شدت آجاتی ہے۔ ان میں دو انتہائیں پائی جاتی ہیں۔
اس بیماری کے لاحق ٹین ایجرز بچوں کی ذہنی نشو و نما نہیں ہوتی اور وہ زیادہ تر خاموش رہتے ہیں۔
ایسے بچوں میں ایک بیماری separation anxiety disorder ہوتی ہے جس میں انہیں گم ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ وہ والدین کے ساتھ چپکے رہتے ہیں کہ کہیں وہ اپنے والدین سے الگ ہو کر پیچھے نہ رہ جائیں، ایسے بچوں کو عموماً کھو جانے کا ڈر رہتا ہے۔
اس بیماری کے حامل ٹین ایجرز تنہائی پسند ہوتے ہیں اورلوگوں کے ساتھ میل جول اوران کے ساتھ بیٹھنے سے گریز کرتے ہیں۔
اس بیماری کا شکار ٹین ایجرز وہمی ہوتے ہیں مثلا اگر ہاتھ دھونا شروع کریں تو ہاتھ ہی دھوتے رہیں گے۔ وضو کرنے بیٹھیں تو آدھا گھنٹہ پانی چلتا ہی رہے گا مگر انہیں تسلی نہیں ہوگی۔ یہ وہمی بچے کہلاتے ہیں۔
کسی صدمہ، ذہنی و جذباتی دباؤ، چوٹ لگنے یا سخت نفسیاتی دھچکا لگنے کے سبب بچوں میں یہ بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔
ایسے بچوں کی طبیعت میں فکر اور پریشانی رہتی ہے۔ کوئی بات بھی کی جائے تو وہ فکر مند ہو جاتے ہیں۔
جواب: والدین کو چاہیے کہ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا اپنے بچوں کو علاج کے لیے بروقت ماہرِ نفسیات کے پاس لے کر جائیں اور اس کے ساتھ خود ان کے نفسیاتی علاج میں درج ذیل امور کو مدِ نظر رکھیں:
جواب: گھبراہٹ کسی ناخوشگوار واقعہ کے نتیجے میں ذہن میں پیدا ہونے والی کشمکش ہے۔ جو ہائی بلڈپریشر، تیز دھڑکن اور سانس لینے میں دشواری کا سبب بنتی ہے۔ اسی طرح روزمرہ زندگی کے واقعات میں پیدا ہونے والی ناخوشگوار تبدیلی جو انسان کی توقع کے برعکس یا معمول سے ہٹ کر بہتر کار کردگی کا مطالبہ کرتی ہو، یہ خوف میں مبتلا کر دیتی ہے۔ یہ ماحول کے خلاف وہ نفسیاتی ردِ عمل ہے جو برهِ راست جسم پر اثر انداز ہو کر پریشانی میں مبتلا کرتا ہے۔ اس کیفیت کا انسانی دماغ اور اعصابی نظام سے گہرا تعلق ہے۔
جواب: بچے درج ذیل طریقوں پر عمل کر کے غیر متوقع مسائل پر قابو پا سکتے ہیں:
خود اعتمادی بچوں کو مخصوص صورتحال میں خود کو پرکھنے، اس کا مقابلہ کرنے اور اس کے مطابق ڈھلنے کا ہنر سکھاتی ہے۔ کسی غیر متوقع یا ناخوش گوار صورتحال میں سب سے پہلا رابطہ خود اپنی ذات سے ہونا چاہیے۔ یہ خصوصیت خود اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کے ادراک اور ان کے اعتراف سے پیدا ہوتی ہے ۔ بچوں کو جن مسائل سے واسطہ پڑتا ہے ان میں اس صورت حال سے نپٹنے کی پوری صلاحیت موجود ہوتی ہے۔
بچوں کو چاہیے کہ صرف کامیابی پر یقین رکھیں۔ کسی بھی مسئلہ کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیںاوریہ بات ذہن نشین کر لیں کہ کسی بھی غیر متوقع یا ناخوش گوار صورتحال کا سامنا دو طرح کے خیالات پیدا کرتا ہے: مثبت اورمنفی۔ منفی خیالات خوف، گھبراہٹ اور اس طرح کے دیگر جذبات کو جنم دیتے ہیں۔ جبکہ مثبت خیالات سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کی پیداوار ہیں۔ ایسی صورتحال میں اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو پوری طرح بیدار رکھنے کی کوشش کریں تاکہ منفی خیالات جگہ نہ لے سکیں۔
بچوں کو چاہیے کہ وہ خود کو کم تر نہ سمجھیں۔ کیونکہ احساس کمتری ہی دراصل صلاحیتوں کو ناکارہ بنانے کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو یہ باور کروائیں کہ مجھ میں بہت سی خوبیاں ایسی ہیں جو دوسرے لوگوں میں نہیں۔ یہی اعتماد ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنا سکھاتا ہے۔
بچے اپنے والدین یا بڑے بہن بھائیوںسے اس طرح کا مضبوط تعلق قائم کریں کہ اگر کوئی ایمرجنسی یا پریشانی لاحق ہو تو اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر ان سے کھل کر بات کر سکیں۔ یہ رویہ انہیں نہ صرف گھبراہٹ سے دور کرے گا بلکہ ان سے ایک مضبوط رابطہ بھی بحال ہو جائے گا۔
ذہنی بیداری اور حاضر دماغی حالات کے مطابق درست فیصلہ کرنے کی قوت فراہم کرتی ہے۔ کسی بھی غیر متوقع صورتحال میں یہی خوبیاں بچوں کی تعمیرِ شخصیت کا اچھا تاثر قائم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔
قوت ارادی بچوں میں ہر قسم کے حالات سے نپٹنا اور ان پر قابو پانا سکھاتی ہے۔ یہ قوت اپنی صلاحیتوں کے ادراک سے پیدا ہوتی ہے اور گھبراہٹ، خوف اور ایسے ہی دیگر عوامل کو بے اثر بنا دیتی ہے۔
پر امیدی قدرت کی طرف سے عطا کیا گیا وہ تحفہ ہے جو بچوں کو ہر حال میں جینے اور ہرقسم کے حالات کا سامنا کرنا سکھاتا ہے۔ پر اُمیدی بچوں کو یقین کی دولت سے مزین کرتی ہے۔ اپنی ذات پر اعتماد و یقین ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔
جواب: جی ہاں! بچوں کی اچھی اور بہترین پرورش کے لیے والدین کو ان کی روزمرہ سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ انہیں علم ہونا چاہیے کہ بچوں کی گھر کے اندر اور باہر کی مصروفیات کیا ہیں؟ اکثر والدین بچوں پر اعتماد کرتے ہوئے اتنی آزادی دے دیتے ہیں کہ انہیں خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ بُرائی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی درج ذیل روزمرہ سرگرمیوں پر نظر رکھیں:
جواب: سن بلوغت میں بچوں کے رویوں میں غیر معمولی تبدیلیوں کا آنا اور بہت زیادہ حساس ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان کے جسم میں ہارمونز کی افزائش کا تیزی سے بڑھنا ہے۔ ان جسمانی اور نفسیاتی تبدیلیوں کا ایک نمایاں اثر یہ ہوتا ہے کہ اکثر بچوں میں جلد غصے میں آنے اور بحث میں الجھنے کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔ اگرچہ وہ اس عمر میں بالغ تو ہو جاتے ہیں لیکن ذہنی پختگی نہیں ہوتی۔ وہ والدین کی بے جا روک ٹوک کی وجہ سے ان سے گفتگو کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ صورتحال والدین کے لیے انتہائی پریشان کن ہوتی ہے، اکثر اوقات وہ اس پریشانی میں بچوں پر کڑی تنقید کرتے اور انہیں ڈانٹ ڈپٹ دیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے والدین سے دور ہو کر اپنے خول میں سمٹنے لگتے ہیں۔ والدین کو تنقید یا روک ٹوک سے کام لینے کی بجائے گھر کے ماحول کو ایسا بنانا چاہیے کہ بچے کسی خوف اور دباؤ سے آزاد ہو کر والدین سے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں۔
بالغ بچوں کے ساتھ والدین کو اپنے رویے میں درج ذیل چند باتیں مد نظر رکھنی چاہییں:
جواب: بچہ اگر کسی برائی کا مرتکب ہو جائے تو والدین صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پر چیخیں نہیں، لعنت نہ کریں، ان کو برا بھلا نہ کہیں، ان پر جسمانی تشدد نہ کریں اور نہ ہی ان کے ساتھ جنگ کی سی صورتِ حال پیدا کریں۔ جیسا کہ ارشادِ ہوتا ہے:
لَا یُحِبُّ اللهُ الْجَھْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ.
النساء، 4: 148
اللہ کسی (کی) بری بات کا بآوازِ بلند (ظاہراً و علانیتاً) کہنا پسند نہیں فرماتا۔
اس لیے والدین کو چاہیے کہ اپنی گفتگو کا انداز پہلے سے زیادہ ہمدردی اور محبت والا بنائیں۔ بچہ جو غلطی کر چکا ہے وہ لوٹائی تو نہیں جا سکتی۔ اس لیے والدین اپنے غصے پر قابو پائیں اور جب وہ اچھے موڈ میں ہوں تو انہیں علیحدگی میں برے کام کی خرابیوں کے بارے میں اچھے انداز سے سمجھائیں تاکہ بچہ نیکی کی طرف آجائے۔۔
جواب: ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جو بعض بچوں کو عموماً بچپن میں ہی لاحق ہو جاتی ہے۔ اس میں ذہنی دباؤ اتنا بڑھ جاتا ہے جو نہ صرف جسمانی و نفسیاتی صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ سونے جاگنے، کھانے پینے حتیٰ کہ سوچنے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر بچہ مسلسل پریشانی، فکر، بے یقینی اور اداسی کی کیفیت میں رہے جس سے اس کی روزمرہ زندگی متاثر ہونے لگے اور عام تدابیر سے افاقہ نہ ہو تو ایسی حالت کو ڈپریشن کہتے ہیں۔
جواب: نوجوان درج ذیل وجوہات کی بنا پر ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں:
جواب: ڈپریشن کے شکار نوجوان درج ذیل مسائل میں مبتلا ہو جاتے ہیں:
ڈپریشن میں مبتلا نوجوان مثبت سوچنے کی بجائے وہم اور وساوس پر یقین کرتے ہوئے مایوسی اور نا امیدی کی کیفیت سے دو چار ہو جاتے ہیں۔ اس کیفیت میں وہ کوئی کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے۔ کسی ناخوشگوار صورتحال کا نتیجہ اضطراب اور خوف کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ جس کے اثرات ان کے جسم کے تمام حصوں پر شدید ہو سکتے ہیں۔
ڈپریشن میں مبتلا نوجوان اپنی کامیابی اور ناکامی کا معیار اسی دنیا کو سمجھنے لگتے ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ فلاں شخص کے پاس اتنا کچھ ہے جب کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔ فلاں کتنا خوبصورت اور سمارٹ ہے، وہ کیوں نہیں ہیں۔ جب وہ ایسی باتیں سوچتے ہیں تو احساس کمتری کا شکار ہو کر دوسروں کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اعتماد سے بات نہیں کر سکتے اور بوکھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس بیماری کا اثر سب سے زیادہ نوجوانوں کی طبیعت پر پڑتا ہے۔ اس مرض کی وجہ سے ان کی طبیعت میں چڑ چڑا پن آجاتا ہے۔ معمولی باتوں پر غصہ کرنا اور لڑنا جھگڑنا ان کا معمول بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس کبھی کبھار ان کی طبیعت میں تذبذب اور ہچکچاہٹ کا عنصر اس قدر حاوی ہو جاتا ہے کہ وہ نہ تو کسی کے سامنے کچھ کر سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ کہہ سکتے ہیں۔ یہ رات بھر بے خوابی اور بے سکون رہنے کی وجہ سے مکمل نیند نہیں لے سکتے۔ جس کی وجہ سے صبح اٹھ کر خود کو تازہ دم محسوس نہیں کرتے اور وہ ذہنی جھنجھلاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔
ڈپریشن میں مبتلا نوجوانوں کے کھانے پینے کی روٹین تبدیل ہوتی رہتی ہے کبھی تو وہ بہت زیادہ کھانا کھانے لگتے ہیں اور کبھی ان کی کھانے میں دلچسپی ختم ہو جاتی ہے، انہیں بھوک بالکل نہیں لگتی۔ اس کی وجہ ڈپریشن کا ان ہارمونز پر اثر انداز ہونا ہے جو خوراک کی خواہش کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یوں ان کے جسمانی وزن میں اضافہ یا کمی ہونے لگتی ہے۔ جس کی وجہ سے سینے میں جلن، قبض، قے وغیرہ بھی ہوتی ہے۔
ڈپریشن کے باعث بننے والے ہارمونز جلد کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں اکثر نوجوان جِلد کے امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً کیل مہاسے، چنبل اور خارش وغیرہ۔ ایسے نوجوانوں کو ہر وقت بلاوجہ جسم میں کسی بھی جگہ درد کا احساس رہتا ہے۔
ڈپریشن میں مبتلا نوجوانوںمیں قوتِ فیصلہ کا فقدان ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ بہت سی الجھنوں کا شکار رہتے ہیں۔ انہیں چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔ حتیٰ کہ بعض اوقات وہ یہ فیصلہ بھی نہیں کر پاتے کہ انہیں چائے پینی ہے یا مشروب۔ کھانے میں کیا کھانا ہے۔ دوستوں، رشتہ داروں میں سے کس کو وقت دینا ہے۔ حتیٰ کہ ایسے نوجوان ڈاکٹر کے پاس جا کر اپنی تکلیف بتانے سے بھی قاصر ہوتے ہیں۔
ڈپریشن کے شکار نوجوانوں کو روزمرہ کے امور میں توجہ مرکوز کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ ان کی دلچسپی نہ صرف اپنے متعلقہ کاموں میں بلکہ معاشرتی سرگرمیوں میں بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس مرض میں مبتلا نوجوان اپنی زندگی سے بیزار نظر آنے لگتے ہیں۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آتی کہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور وہ کس لیے زندہ ہیں۔ بعض اوقات بغیر کسی وجہ کے ڈپریشن شروع ہو جاتا ہے اور وہ زندگی سے مایوس ہو جاتے ہیں۔
جواب: ڈپریشن قابلِ علاج بیماری ہے۔ اس بیماری میں مبتلا مریض کو جب اس بات کا ادراک ہو جائے کہ مجھے اس سے نجات حاصل کرنی ہے تو اس وقت اس کے لیے ڈپریشن سے نکلنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ ادویات کے علاوہ بہت سی ایسی تدابیر بھی ہیں جن کے ذریعے سوچ میں تبدیلی لا کر ڈپریشن کو دور کیا جا سکتا ہے مثلاً:
اَ لَا بِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُo
الرعد، 13: 28
جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
جواب: جب کوئی شخص کسی چیز کی خواہش کرے اور کسی وجہ سے وہ خواہش پوری نہ ہو سکے تو اس کے نتیجے میں دل و دماغ میں پیدا ہونے والے تلخ احساس کو مایوسی کہتے ہیں۔ درج ذیل وجوہات کی بنا پر نوجوانوں میں مایوسی جنم لیتی ہے:
جواب: والدین بچوں کو درج ذیل تجربات سے گزار کر ان میں خود اعتمادی پیدا کریں:
بچے اپنی عمر سے بڑھ کر بڑے کام کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ والدین ان کی خواہش کے مطابق مختلف کاموں میں ان سے مدد لے سکتے ہیں۔ جیسے والد اگر اپنے بچے سے باغیچے میں گھاس کاٹنے اور والدہ بیٹی سے روٹی پکانے میں مدد لیتی ہے تو بہت سی گھاس ادھر اُدھر بکھر جائے گی اور بہت سا آٹا بھی ضائع ہونے کا امکان ہے۔ مگر ان تجربات سے بچوں کو سیکھنے کا جو موقع ملے گا اس کی قدر و قیمت والدین کی اس تکلیف کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگی جو انہیں اس سلسلے میں اُٹھانا پڑے گی۔
سنِ شعور سے ہی بچوں میں اپنا ہر کام خود کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ وہ نئی نئی ذمہ داریاں قبول کر کے خوش ہوتے ہیں۔ مثلاً اپنے پڑھنے کا وقت خود مقرر کرنا، اپنے کپڑے اور یونیفارم پریس کرنا، اپنے جوتے پالش کرنا وغیرہ۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی نگرانی اور اعتدال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اختیارات ان میں منتقل کریں تاکہ وہ کسی کا محتاج بننے کی بجائے اپنے کام کی پلاننگ کرتے ہوئے اپنے اندر خوداعتمادی پیدا کر سکیں۔
یہ فطری امر ہے کہ والدین اپنے بچوں کو ایسی غلطیوں سے بچانا چاہتے ہیں جس سے انہیں جسمانی گزند پہنچنے اور ان کی خود اعتمادی متزلزل ہونے کا اندیشہ لاحق ہو۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کو اپنی ذمہ داریاں قبول کرنے اور اپنی الجھنوں کو خود سلجھانے کا تجربہ کروائیں، انہیں باور کروائیں کہ وہ ان سے محبت کرتے ہیں اور ضرورت کے وقت ان کی مدد کریں گے۔ اگر وہ غلطی کرتے ہیں تو انہیں اس کا احساس نہیں دلانا چاہیے کہ وہ قصور وار ہیں۔ بلکہ ان کی غلطیوں پر ان کے ساتھ مل کر غور کریں اور اس کے تدارک میں بچوں کے ساتھ شریک رہیں تاکہ وہ تجربات سے گزر کر خود اعتمادی کے ساتھ فیصلہ کر سکیں۔
بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ والدین بچوں کو مالی معاملات کنٹرول کرنا سکھائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین بچوں کو اپنی جیب خرچ سے کچھ پیسے بچا کر خیرات، زکوۃ، سالگرہ اور اسی طرح کے دیگر کاموں پر خرچ کرنے کی ترغیب دیں۔ بازار میں خریداری کے لیے ساتھ لے کر جائیں، چیزوں کے انتخاب اور کم بجٹ میں بہتر چیز خریدنے کا طریقہ سکھائیں۔ بچہ اگر بڑا ہو تو اسے پارٹ ٹائم کام کرنا سکھائیں تاکہ اس میں اعتماد کے ساتھ خود داری پیدا ہو۔
بچوں کو آزادی سے فیصلہ کرنے کا اختیار دیتے وقت والدین تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں کہ وہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ ایسا کوئی قاعدہ مقرر نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ ہر بچے کو کتنی آزادی اور ذمہ داری سے فیصلہ کرنے کی اجازت دی جائے۔ ہر بچے کی آزادی حاصل کرنے اور اسے برقرار رکھنے کی صلاحیت دوسروں سے جدا ہوتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ کسی معاملہ میں بچے سے فیصلہ کروانے سے پہلے اُسے اس کے مثبت اور منفی پہلو تفصیل سے سمجھا دئیے جائیں۔ پھر اُسے فیصلہ کرنے دیا جائے، اگر وہ صحیح فیصلہ کرتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کی جائے، لیکن اگر وہ غلط فیصلہ کرتا ہے تو جذباتی ہونے کی بجائے اُسے دلائل اور حکمت سے سمجھائیں کہ اُس کا فیصلہ غلط ہے۔ یوں مسلسل تجربات کے بعد اس میں درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔
بچوں میں خود اعتمادی بڑھانے میں سب سے بڑی تعمیری قوت والدین کی محبت ہوتی ہے جو انہیں ہر قسم کے خوف سے آزاد کر دیتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچہ جیسا بھی ہو، اس سے محبت کریں۔ اس کو جلد کامیابی سے ہمکنار دیکھنے کی بجائے اس کی ترقی کی چھوٹی چھوٹی علامات دیکھ کر اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس کی ہر چھوٹی کامیابی کو سراہیں۔ جب بچے کو والدین کی ایسی محبت اور تعریف و توصیف ملے گی تو اسے محسوس ہوگا کہ اس کے والدین اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ پھر خود اعتمادی کا یہ احساس اسے سیکھنے، نشو و نما پانے اور کامیاب ہونے کے لیے آزاد کر دیتا ہے اور دوسروں سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے میں بھی ممد ومعاون ثابت ہوتا ہے۔
جواب: بچے درج ذیل تجاویز پر عمل کر کے مایوسی کو ختم کر سکتے ہیں:
٭ مایوسی کو ختم کرنے کا سب سے اہم طریقہ یہ ہے کہ بچے اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل توکل اور قناعت کریں۔ کسی بھی مصیبت اور آزمائش پر دکھی ہونے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور یہ یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی تکلیف کو دور فرمانے والا ہے۔
جواب: بچے پیدائشی مجرم نہیں ہوتے بلکہ داخلی اور خارجی غیر موزوں ماحول بچوں کو مجرم بنانے کا باعث بنتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ یُهَوِّدَانِهٖ، أَوْ یُنَصِّرَانِهٖ، أَوْ یُمَجِّسَانِهٖ.
ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اُس کے ماں باپ اُسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔
ذیل میںچند ایسے عوامل کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ جن کی بناء پر بچے مجرم بنتے ہیں:
جواب:پاکستان کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ٹین ایجرز لڑکے موٹر سائیکلوں پر سوار سڑکوں پر ون ویلنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ کوئی بھی ہو وہ اپنی جان گنوانے کے ساتھ کئی قیمتی جانیں ضائع کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ والدین کے بڑھاپے کا سہارا ایسے نوجوان بے موت خون کی ہولی کھیلتے ہوئے اپنے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ انتہائی بھیانک نتائج کے باوجود ون ویلنگ کرنے والے نوجوانوں کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔
ٹین ایجرز لڑکوں کے ون ویلنگ کرنے کی چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
جواب: ٹین ایجرز لڑکوں کو ون ویلنگ سے روکنے کے لیے حکومت کو درج ذیل اقدامات کرنے چاہییں:
جواب: ٹین ایجرز میں سگریٹ نوشی کے اسباب درج ذیل ہیں:
جواب: سگریٹ نوشی ترک کرنا اگرچہ آسان کام نہیں مگر درج ذیل امور پر عمل کر کے ٹین ایجرز کو سگریٹ نوشی سے بچایا جا سکتا ہے:
جواب: نشہ کسی بھی شکل میں ہو انسانی صحت کے لیے مضر ہے، بعض نشہ آور اشیاء تو انسان کو موت کی وادی میں دھکیل دیتی ہیں، لہٰذا سگریٹ نوشی کے علاوہ درج ذیل نشہ آور اشیاء ایسی ہیں جن سے ٹین ایجرز کو بچانا چاہیے:
شیشہ کا استعمال دوسری نشہ آور اشیاء کی جانب پہلا قدم ہے۔ ٹین ایجرز شیشہ کیفے کو بطور فیشن اور گلیمر اپنی زندگی کا حصہ بنا رہے ہیں۔ شیشہ ذائقہ دار تمباکو کا نام ہے۔ جو حقہ کے ذریعے پیا جاتا ہے۔ شیشے میں استعمال تمام ذائقے مضر صحت کیمیکل سے تیار کیے جاتے ہیں۔ اس میں تمباکو کے علاوہ کاربن مونو آکسائیڈ، آرسینک اور دیگر خطرناک کیمیائی مادوں کا استعمال ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک گھنٹہ شیشہ کا استعمال سو سگریٹ پینے کے برابر ہے۔ لہٰذا اس کے مضر اثرات سے قبل از وقت آگاہی بچوں کو اس سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔
شراب کو ام الخبائث یعنی تمام برائیوں کی جڑ کہا گیا ہے۔ جو اس کا عادی ہو گیا وہ دیگر برائیوں کا بھی عادی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ٹین ایجرز کو اس کے نقصانات سے آگاہ کرنا چاہیے اور اس سے محفوظ رہنے کی تلقین کرنی چاہیے۔
نشہ آور اشیاء میں افیون بہت زیادہ خطرناک ہے۔ اس کو چائے، سگریٹ، حقہ میں ڈال کر پیا جاتا ہے۔ ثابت بھی نگلا جا سکتا ہے۔ یہ خشخاش کے کچے پھل سے نکلتی ہے۔ اس سے ادویات بھی بنتی ہیں۔ ان ادویات کا زیادہ استعمال افیون کا عادی بنا سکتا ہے۔ اس کا نشہ بھی انسانی ذہن کو مفلوج کر دیتا ہے۔ گو اس سے انسان وقتی سکون محسوس کرتا ہے لیکن اس کے نقصانات کا ازالہ ممکن نہیں۔
نشہ آور اشیاء میں سے ہیروئین سب سے مہنگی اور خطرناک چیز ہے۔ یہ بھورے یا سفید رنگ کا پاؤڈر ہوتا ہے جو افیون سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ یہ سگریٹ میں بھر کر پی جاتی ہے یا ناک سے سونگھ کر اس کا نشہ کیا جاتا ہے۔ اس کے استعمال سے انسان کا ذہن اور جسمانی اعضاء مفلوج ہو جاتے ہیں، خاص طور پر جگر اور پھیپھڑے شدید متاثر ہوتے ہیں اور بالآخر انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
چرس جسے حشیش بھی کہا جاتا ہے، بھنگ کے پودے کے رس سے بنتی ہے۔ یہ سیاہ، بھورے یا کالے رنگ کی ہوتی ہے اور سگریٹ کے ذریعے پی جاتی ہے۔ سگریٹ نوشی کرنے والے افراد آسانی سے اس نشہ کا شکار ہو سکتے ہیں، لہٰذا بچوں کو اس سے آگاہی دی جائے۔
کینابس بھنگ کے پودے کے خشک پتوں اور پھول دار کونپلوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ یہ خاکستری سبز یا سبز بھورے رنگ کی ہوتی ہے اور اس کی بدبو تیز اور ناگوار ہوتی ہے۔
کوکا نامی پودے کی پتیوں سے حاصل ہونے والی کوکین ہائیڈرو اور مکلورائیڈ کہلاتی ہے۔ یہ بہت خطرناک نشہ آور چیز ہے۔ یہ سفید رنگ کی ہوتی ہے اور اس کی مہک نہیں ہوتی۔ راک بھی کوکین کی ایک قسم ہے جو سونگھی جاتی ہے اور بعض اوقات اس کا انجکشن بھی لگوایا جاتا ہے۔ فری بیس اور کریک بھی کوکین کی اقسام میں شامل ہیں۔ فری بیس سفید رنگ میں اور کریک چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں پائی جاتی ہے۔
حشیش کیف اور قنب ہنری کے مادہ پودے کے پھولوں اورپتوں سے تیار ہوتی ہے۔ اسے ٹین ایجرز بطورِ نشہ استعمال کرتے ہیں۔ بھنگ اورچرس بھی اسی پودے سے حاصل ہوتی ہے۔
جواب: نشہ آور اشیاء سے ٹین ایجرز کی صحت پر درج ذیل منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں:
جواب: کسی بھی مقصد کی تکمیل کے لیے اہداف کا متعین کرنا ازحد ضروری ہے۔ اسی سے خواہشات حقیقت کا روپ دھارتی ہیں۔ اس لیے بچوں کو چاہیے کہ مقاصد میں کامیاب ہونے کے لیے اپنے اہداف ضرور مقرر کریں۔ اہداف مقرر کرنے کے لیے درج ذیل طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں:
جواب: والدین اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے لیے درج ذیل اقدامات اختیار کر سکتے ہیں:
والدین بچوں کی پہلی درس گاہ ہوتے ہیں۔ ان کی اچھی تعلیم و تربیت کے پیشِ نظر والدین کا کردار مثالی ہونا چاہیے۔ باعمل، باکردار اور بااخلاق والدین کے زیرِ سایہ پلنے والے بچے ہی حسن اخلاق کے پیکر اور کردار کے غازی ہوتے ہیں۔
والدین اگر اپنے بچوں کی سیرت و کردار کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو اُن کے لیے ضروری ہے کہ تربیت کی بنیاد شریعت مطہرہ اور حضور نبی اکرم ﷺ کے اُسوۂ حسنہ پر رکھیں۔ اس سے اُن کی طبیعتوں میں پاکیزگی اور نکھار آئے گا۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو اسلامی ماحول اور ایمانی تربیت فراہم کریں تاکہ وہ معاشرہ میں حقیقی اور باعمل مسلمان بن کر اُبھریں۔
بچوں کی متوازن شخصیت بنانے میں والدین کو برابری کا سلوک روا رکھنا چاہیے۔ ایک بچے کو دوسرے پر ترجیح نہیں دینی چاہیے؛ محبت کے معاملے میں اور نہ ہی روزمرہ زندگی کے معاملات میں۔ مساوات قائم رکھنے والے والدین ہی بچوں کو کامیاب افراد بنانے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔
والدین کی محبت، تعریف اور حوصلہ افزائی بچوں کے دلوں میں اطمینان اور آسودگی پیدا کرتی ہے۔ بچوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے والدین ان کے ہر کام کی تعریف کریں۔ اس لیے وہ کسی نہ کسی کام کو سر انجام دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کامیابی کی صورت میں والدین کو ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، خواہ وہ کامیابی ان کی نظر میں کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی ناکامی کو کامیابی اور تکمیل کی طرف بڑھنے والا ایک قدم سمجھنا چاہیے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں میں بے اعتمادی اور اپنی امیدوں میں ناکامی کے احساس میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے لیے والدین کا رویہ ہمیشہ محبت بھرا ہونا چاہیے۔ اس سے بچوں کو اطمینان، راحت اور قلبی سکون نصیب ہوتا ہے اور وہ بآسانی اپنے تمام معاملات والدین سے شیئر کرتے ہیں۔ والدین کے محبت سے لبریز کلمات انہیں یہ باور کراتے ہیں کہ وہ اس دنیا میں اکیلے نہیں ہیں۔ والدین بچوں کو اہمیت دیتے اور انہیں اپنی ذاتی عزت و وقار کی سربلندی کا احساس دلاتے ہیں۔ یوں بچے پُراعتماد اور منظم زندگی گزارنے کا فن سیکھتے ہیں۔
بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے پیشِ نظر والدین کو چاہیے کہ ان کے لیے ایسی سرگرمیوں کا انعقاد کریں جن سے انہیں سیکھنے کے مواقع فراہم ہوں تاکہ وہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔
جواب: زوجین جب والدین کے منصب پر فائز ہوتے ہیں توان کی تمام تر توجہ کا مرکز و محور ان کے بچے ہوتے ہیں۔ جن کی اچھی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کماحقہ پورا کرنا ان کا اہم فریضہ ہوتا ہے۔ مگر بہت سے والدین اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرنے میں ناکام رہتے ہیں، جس کی چند وجوہات درج ذیل ہیں:
بعض والدین بچوں کو نت نئے تجربات کرنے سے روکتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایسا کرنے سے ان کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ یہ روک ٹوک بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور انہیں خوابیدہ صلاحیتوں کی بیداری سے محروم کر دیتی ہے۔ وہ حد سے زیادہ نازک مزاج اور ڈرپوک بن جاتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں کچھ نہ کر سکنے کا خوف مختلف پیچیدگیوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جو آئندہ زندگی میں کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔
بچوں کو معیاری وقت نہ دینا والدین کی بہت بڑی کوتاہی ہے۔ وہ اپنی بے جا دنیاوی مصروفیات کے باعث ان کی اچھی تعلیم و تربیت سے لاپرواہ اور غافل ہو جاتے ہیں۔ ان کی سرپرستی میں رہنمائی میسر نہ آنے کی وجہ سے بچوں کا بگڑنا، خود سر ہونا اور احساسِ محرومی کا شکار ہونا یقینی ہو جاتا ہے۔
عصرِ حاضر میں آزادی کا رجحان غلط سمت اختیار کر گیا ہے۔ اکثر والدین یہ سمجھتے ہیں کہ آزادی بچوں کا حق ہے۔ اس لیے وہ ان کے معاملات میں مداخلت کرنا پسند نہیں کرتے۔ بچوں کی سرگرمیاں کیا ہیں، ان کی سوچ کے دھارے کس سمت بہہ رہے ہیں، کون سی چیزیں ان کے زیرِ استعمال ہیں۔ ان تمام امور میں وہ بچوں کو مکمل آزادی دے دیتے ہیں اور اسی آزادی کا غلط استعمال کر کے بہت سے بچے بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اکثر والدین بچوں کی خود انحصاری پر اعتماد نہیں کرتے۔ اگر بچے کسی مشکل یا پریشانی کا شکار ہو جائیں تو وہ فوراً ان کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ حالانکہ مصائب کا سامنا کرنے اور مشکلات کو برداشت کرنے سے بچوں کی پوشیدہ صلاحیتیں کھل کر سامنے آتی ہیں اور ان میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ والدین کی جذباتی، سماجی یا مالی مدد کی وجہ سے نہ تو بچوں میں خود اعتمادی آتی ہے اور نہ ہی وہ مشکلات سے نمٹنے کا ہنر سیکھ پاتے ہیں۔ یوں ان کی تربیت میں ایک ایسی خلیج حائل ہو جاتی ہے جو انہیں کامیاب انسان نہیں بننے دیتی۔ یہ اس وقت زیادہ نقصان کا باعث بنتی ہے جب بچے والدین کے بعد تنہا رہ جاتے ہیں۔
والدین کے قول و فعل میں تضاد بھی بچوں کی اچھی تربیت میں ناکامی کی ایک اہم وجہ ہے۔ مثلاً والدین اپنے بچوں کو سگریٹ نوشی سے منع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ صحت کے لیے مضر ہے۔ مگر خود بچوں کے سامنے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح بچوں کو جھوٹ بولنے سے تو منع کرتے ہیں مگر ان کے سامنے اسی برائی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسے دیگر بے شمار عوامل ہیں جو روزمرہ زندگی میں والدین سے سرزد ہوتے ہیں۔ جن میں واضح طور پر تضاد پایا جاتا ہے۔ اس سے بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
بعض والدین اپنی اولاد کے ساتھ یکساں سلوک روا نہیں رکھتے۔ ایک بچے کے ساتھ زیادہ شفقت اور پیار کا رویہ رکھتے ہوئے دوسرے بچے کی حق تلفی کرتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے اس بچے میں ضد، ہٹ دھرمی اور خود سری کے جذبات جنم لیتے ہیں۔ جبکہ دوسرا بچہ احساس کمتری کاشکار ہوکر منفی سوچتا ہے اور اس میں حسد کا جذبہ بڑھتا ہے۔
والدین کا بچوں پر اپنی مرضی مسلط کرنا ان کی اچھی پرورش میں ناکامی کی اہم وجہ ہے۔ مثلاً ایک بچہ ڈاکٹر بننا چاہتا ہے مگر اس کے والدین اسے پائلٹ بنانا چاہتے ہیں۔ حاکمانہ اور جابرانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اسے زبردستی پائلٹ بننے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بچہ اپنے والدین سے متنفر ہو جاتا ہے اور اس میں ضد اور نفرت جیسی خصلتیں جنم لینے لگتی ہیں۔
جواب: اگر بچے بد زبانی، ترش روی اور اکھڑ پن کا شکار ہوں تو ایسی صورت میں والدین کو درج ذیل وظائف کرنے چاہییں۔ ان کی برکت سے ان کی اصلاح ہوجاتی ہے اور وہ نافرمانی سے باز آجاتے ہیں:
جواب: اگر والدین کو گمان ہو کہ ان کی اولاد کے بگڑنے کی وجہ جادو ٹونا ہے تو ایسی صورت میں انہیں ’مسبعاتِ عشرہ‘ کا وظیفہ کرنا چاہیے، جو نہایت مفید اور موثر ہے:
ز ’مسّبعاتِ عشرہ‘ بعد نمازِ فجرطلوعِ آفتاب سے پہلے اور بعد نماز عصرغروبِ آفتاب سے پہلے پڑھنے کے فضائل اور خصوصاً حل مشکلات، جادو و سحر اور دفعِ شرّ و جنّات کے لیے فوائد و تاثیرات زیادہ ہیں۔
’مسبّعاتِ عشرہ‘ کا وظیفہ درج ذیل ہے:
أَعُوْذُ بِاللّٰهِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ رَبِّ أَعُوْذُبِکَ مِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَ أَعُوْذُ بِکَ رَبِّ أَنْ یَحْضُرُوْنِ. (1 مرتبہ)
اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِo بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo {اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo هْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَo}
اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِo {اللهُ لَآ إِلٰهَ إِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لاَ نَوْمٌ ط لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ إِلَّا بِإِذْنِهٖ ط یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ إِلَّا بِمَا شَآءَ وَسِعَ کُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَا یَؤُوْدُهٗ حِفْظُھُمَا وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُo}
(البقرة، 2: 255)
اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِo {أَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَo وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَo الَّذِیْ أَنْقَضَ ظَھْرَکَo وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَo فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاo إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاo فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْo وَإِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْo}
اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِO {اِنَّآ أَنْزَلَنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرO وَ مَآ أَدْرٰکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِO لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍO تَنَزَّلُ الْمَلَآئِکَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْھَا بِإِذْنِ رَبِّھِمْ مِّنْ کُلِّ أَمْرٍO سَلٰمٌقف ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِO}
اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمO {قُلْ یٰٓاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَO لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَO وَ لَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُO وَ لَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْO وَ لَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُO لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَ لِیَ دِیْنِO}
اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِO {اِذَآ جَآءَ نَصْرُ اللهِ وَ الْفَتْحُO وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللهِ اَفْوَاجًاO فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ اسْتَغْفِرْهُ ط اِنَّهٗ کَانَ تَوَّابًاO}
اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِO {تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّO مَآ اَغْنٰی عَنْهُ مَالُهٗ وَمَا کَسَبَO سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَھَبٍO وَّامْرَاَتُهٗط حَمَّالَةَ الْحَطَبِO فِیْ جِیْدِھَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍO}
اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِO {قُلْ ھُوَ اللهُ اَحَدٌo اللهُ الصَّمَدُO لَمْ یَلِدْ5 وَ لَمْ یُوْلَدْO وَ لَمْ یَکُنْ لَّهٗ کُفُوًا اَحَدٌO}
اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِO {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِO مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَO وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَO وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِO وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَO}
اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِO {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِO مَلِکِ النَّاسِO اِلٰهِ النَّاسِO مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِO الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِO مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِO}
أللَّھُمَّ صَلِّ أَفْضَلَ صَلَوَاتِکَ عَلَی أَسْعَدِ مَخْلُوْقَاتِکَ سَیِّدِنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ الْأُمِّیِّ وَ عَلَی آلِهِ وَ صَحْبِهِ وَ سَلِّمْ عَدَدَ مَعْلُوْمَاتِکَ وَ مِدَادَ کَلِمَاتِکَ کُلَّمَا ذَکَرَکَ الذَّاکِرُوْنَ وَ غَفَلَ عَنْ ذِکْرِکَ الْغَافِلُوْنَ.
جواب: جادو ٹونا اور تعویذ دونوں فی نفسہ ایک دوسرے سے کلیتاً مختلف عمل ہیں۔ شرع کی رو سے نہ جادو ٹونا کرنے کا ارادہ کیا جائے اور نہ ہی جادو کرنے والے شخص کی پیروی کی جائے۔ ایسا کرنا کفار کا شیوہ ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
مَنْ أَتٰی کَاھِنًا فَصَدَّقَهٗ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ بَرِیَٔ مِمَّا أُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ ﷺ.
طبرانی، المعجم الأوسط، 6: 387، رقم: 6670
جو شخص کاہن کے پاس آیا اور اس کی باتوں کی تصدیق کی۔ وہ اس چیز (شریعت اسلامیہ) سے بری ہوگیا جو حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل فرمائی گئی۔
تعویذ کے بارے میں درج ذیل دو طرح کے احکامات ہیں:
1۔ اگر تعویذ کا مقصد حصولِ برکت، شفا اور حفاظت ہو اور اس تعویذ پر مسنون دعائیں یا قرآنی آیات لکھی گئی ہوں تو ایسا تعویز پہننا اور لکھوانا جائز ہے۔ اس کی تائید درج ذیل حدیثِ مبارک سے ثابت ہے:
حضرت عمرو بن شعیب کے والد ماجد نے ان کے جد امجد سے روایت کی ہے کہ:
أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ کَانَ یُعَلِّمُهُمْ مِنْ الْفَزَعِ کَلِمَاتٍ أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ وَأَنْ یَحْضُرُونِ وَکَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ یُعَلِّمُهُنَّ مَنْ عَقَلَ مِنْ بَنِیهِ وَمَنْ لَمْ یَعْقِلْ کَتَبَهُ فَأَعْلَقَهُ عَلَیْہ.
ابو داؤد، السنن، کتاب الطب، باب کیف الرقی، 4: 12، رقم: 3893
رسول اللہ ﷺ پریشانی کے وقت کہنے کے لئے یہ کلمات سکھایا کرتے: پناہ لیتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کی اس کے غضب سے اور اس کے بندوں کی برائی سے اور شیطانوں کے وسوسوں سے اور اس سے کہ وہ میرے پاس آئیں۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو یہ دعا اپنے ان بیٹوں کو سکھایا کرتے جو سمجھدار ہوتے اور جو ناسمجھ ہوتے ان کے گلوں میں لکھ کر لٹکا دیا کرتے۔
2۔ تعویز پر کفریہ کلمات لکھوا کر اپنے مخالف دشمن کو شکست یا نقصان پہنچانا حرام اور کفریہ فعل ہے۔
جواب: جی ہاں! اسلام میں کسی بھی نیک عمل کے لیے آیاتِ قرآنیہ، اسمائے حسنیٰ، اسمائے نبویہ ﷺ اور مسنون دعاؤں پر مشتمل وظائف سے وظیفہ کرنا جائز ہے۔ بے شک بیماری اور شفاء اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس نے دوا اور علاج کا حکم دیا ہے اور اس میں شفا رکھی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
مَا أَنْزَلَ اللهُ دَاءً إِلَّا أَنْزَلَ لَهٗ شِفَاءً.
اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نازل نہیں کی مگر اس کی شفا بھی اتاری ہے۔ (یعنی دنیا میں ہر بیماری کے لیے سامانِ شفا موجود ہے)۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دُعاء اور دم میں بھی شفاء کا اثر رکھا ہے۔ قرآن و حدیث میں موجود پاک کلام سے وظیفہ کرنے سے کسی بھی بیماری میں مبتلا مریض کے شفایاب ہونے کی قوی امید کی جا سکتی ہے۔ بیماری میں دَم کرنا درج ذیل حدیثِ مبارک سے ثابت ہے۔۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
کَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا أَوٰی إِلٰی فِرَاشِهٖ، نَفَثَ فِي کَفَّیْهِ بِقُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ وَبِالْمُعَوِّذَتَیْنِ جَمِیعًا، ثُمَّ یَمْسَحُ بِهِمَا وَجْهَهٗ، وَمَا بَلَغَتْ یَدَاهُ مِنْ جَسَدِهٖ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَمَّا اشْتَکٰی کَانَ یَأْمُرُنِي أَنْ أَفْعَلَ ذٰلِکَ بِهٖ.
بخاری، الصحیح، کتاب الطب، باب النفث فی الرقیة، 5: 2169، رقم: 5416
رسول اللہ ﷺ جب اپنے بستر پر تشریف لے جاتے تو سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھ کر اپنی ہتھیلیوں پر دم کرتے۔ پھر انہیں اپنے چہرہ انور پر ملتے اور جہاں تک جسم اطہر پر ہاتھ پہنچتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ j نے فرمایا کہ جب حضور ﷺ بیمار ہوتے تو آپ مجھے ویسے ہی دم کرنے کا حکم فرماتے۔
جواب: اسلامی تعلیمات نے جہاں والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کو بیان کیا ہے، وہاں اولاد کے حقوق بھی متعین کیے ہیں۔ اسلام کی معاشرتی زندگی یک رخی نہیں بلکہ ہمہ گیر ہے۔ اسلام نے بچوں کو وہ سماجی اور معاشرتی حقوق عطا کیے جن کا زندہ درگور کرنے والے عرب معاشرے میں تصور بھی ناممکن تھا۔ والدین کو بچوں کے درج ذیل حقوق پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے:
اولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جن کو زندگی کا تحفظ دینا والدین کا اہم فریضہ ہے۔ کجا یہ کہ انہیں غربت کے خوف سے قتل کردیا جائے۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ط نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَاِیَّاھُمْ.
الأنعام، 6: 151
اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)۔
بچے کی پیدائش کے بعد اللہ تعالیٰ نے عورت پر لازم کیا ہے کہ وہ اپنے بچے کو پورے دو سال دودھ پلائے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ مدت ہر طرح سے بچے کی صحت کے لیے ضروری ہے۔ بچے کے اسی حق کا تذکرہ قرآن حکیم میں یوں ملتا ہے:
وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ ط وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَکِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ط لاَ تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلاَّ وُسْعَهَا ج لاَ تُضَآرَّ وَالِدَةٌ م بِوَلَدِهَا وَلاَ مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ ج فَاِنْ اَرَادَا فِصَالاً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْهِمَا ط وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْآ اَوْلاَدَکُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط وَاتَّقُوْا اللهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo
البقرة، 2: 233
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے، (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضا مندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھنے والا ہے۔
بچے کا یہ حق ہے کہ اُس کا پیارا سا نام رکھا جائے۔ اسلام سے قبل عرب اپنے بچوں کے عجیب و غریب نام رکھتے تھے۔ جنہیں حضور نبی اکرم ﷺ نا پسند فرماتے اور اچھا نام رکھنے کا حکم دیتے تھے۔
حضرت ابوسعید خدری اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ وُلِدَ لَهٗ وَلَدٌ، فَلْیُحْسِنِ اسْمَهٗ وَأَدِّبْهُ، فَإِذَا بَلَغَ فَلْیُزَوِّجْهُ، فَإِنْ بَلَغَ وَلَمْ یُزَوِّجْهُ فَأَصَابَ إِثْماً فَإِنَّمَا إِثْمُهٗ عَلَی أَبِیْهِ.
بییقی، شعب الإیمان، 6: 401، رقم: 8666
جس شخص کے ہاں بیٹا پیدا ہو تو وہ اس کا اچھا نام رکھے اور اُسے ادب سکھائے، پھر جب وہ بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کر دے۔ اگر اس کے بالغ ہوجانے کے بعد اس (کے والد) نے اس کی شادی نہ کی اور اس (کے بیٹے) سے گناہ سر زد ہو گیا تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہو گا۔
بچوں کی اچھی تربیت کر کے انہیں اچھا، ذمہ دار اور مثالی مسلمان بنانا والدین کی ذمہ داری ہے۔ ان کی تربیت کے مختلف مراحل کا ذکر کرتے ہوئے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
مُرُوْاْ أَبْنَائَکُمْ بِالصَّلَاةِ لِسَبْعِ سِنِیْنَ، وَاضْرِبُوْهُمْ عَلَیْھَا لعَشْرِ سِنِیْنَ، وَفَرِّقُوْا بَیْنَھُمْ فِي الْمَضَاجِعِ.
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 187، رقم: 6756
اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی ہو جائے، اور جب وہ دس سال کی ہو جائے تو (نماز نہ پڑھنے پر) اُس پر سختی کرو اور (دس سال کی عمر میں) انہیں الگ الگ سلایا کرو۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔ انہوں نے ایک شخص سے کہا:
أَدِّبِ ابْنَکَ فَإِنَّکَ مَسْؤُوْلٌ عَنْ وَلَدِکَ مَاذَا أَدَّبْتَهٗ وَمَاذَا عَلَّمْتَهٗ، وَأَنَّهٗ مَسْؤُوْلٌ عَنْ بِرِّکَ وَطَوَاعِیَتِهٖ لَکَ.
بیهقی، السنن الکبری، 3: 84، رقم: 4877
تم اپنے بیٹے کی اچھی تربیت کرو کیونکہ تم اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے بارے میں جواب دہ ہو اور وہ تمہارے ساتھ حسنِ سلوک اور اطاعت کے باب میں جواب دہ ہے۔
اولاد کا حق ہے کہ والدین تمام اولاد سے یکساں سلوک رواں رکھیں، کسی سے زیادہ کسی سے کم کی زیادتی نہ کریں۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ تَعَالٰی یُحِبُّ أَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ حَتّٰی فِي الْقُبَلِ.
هندي، کنز العمال، 16: 185، رقم: 45350
بے شک اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو یہاں تک کہ بوسہ لینے میں بھی۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
سَوُّوْا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ فِي الْعَطِیَّةِ.
اپنی اولاد میں تحائف کی تقسیم میں برابری رکھا کرو۔
وراثت اولاد کا حق ہے۔ اسلام میں بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کو بھی جائیداد میں حصہ دار بنایا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
یُوْصِیْکُمُ اللهُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ق لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ.
النساء، 4: 11
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔
جواب: قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر عقیدۂ توحید، ایمانیات، اطاعتِ الٰہی اور اطاعتِ رسول ﷺ کے بعد والدین کے حقوق کا بکثرت ذکر کیا گیا ہے، جن کو ادا کرنا ہر شخص پر فرض قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ معاشرتی زندگی کی اکائی خاندان ہے اور خاندان کا قیام و استحکام والدین کے احترام کے بغیر ممکن نہیں۔ بچوں کو والدین کے درج ذیل حقوق پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے:
والدین سے حسنِ سلوک کو اسلام نے اپنی اساسی تعلیم قرار دیا ہے۔ اُن کے ساتھ مطلوبہ سلوک بیان کرنے کے لیے ’احسان‘ کی جامع اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ جس کے معانی کمال درجہ کا حسنِ سلوک ہے۔ والدین سے حسنِ سلوک کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا ط وَاِنْ جَاهَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِهٖ عِلْمٌ فَـلَا تُطِعْهُمَا ط اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo
العنکبوت، 29: 8
اور ہم نے انسان کو اس کے والدین سے نیک سلوک کا حکم فرمایا اور اگر وہ تجھ پر (یہ) کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کی اطاعت مت کر‘ میری ہی طرف تم (سب) کو پلٹنا ہے سو میں تمہیں ان (کاموں) سے آگاہ کر دوں گا جو تم (دنیا میں) کیا کرتے تھے۔
حدیثِ مبارک میں والدین سے حسنِ سلوک کو اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا: کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نماز اپنے وقت پر پڑھنا۔ عرض کیا: پھر کون سا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
ثُمَّ بِرُّ الْوَالدَیْنِ.
والدین کے ساتھ نیک سلوک روا رکھنا۔
بڑھاپے میں والدین کی دل آزاری کرنے کی بجائے ان کے ساتھ نرم دلی سے پیش آنے کے بارے میںقرآن حکیم میں جامع انداز میں ارشاد ہوتاہے:
وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً ط اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ کِلٰهُمَا فَـلَا تَقُلْ لَّهُمَا اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا کَرِیْمًاo وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاo
الإسراء، 17: 23-24
اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’اُف‘ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔ اور ان دونوں کے لیے نرم دلی سے عجزوانکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے رہو اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔
والدین کی خدمت عمر کے ہر حصے میں واجب ہے - بوڑھے ہوں یا جوان؛ لیکن بڑھاپے کا ذکر خصوصیت سے کیا گیا ہے کیونکہ اس عمر میں والدین بعض اوقات چڑچڑے ہو جاتے ہیں اور ان کی عقل و فہم بھی جواب دینے لگتی ہے۔ انہیں طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ وہ خدمت کے محتاج ہو جاتے ہیں تو ان کی خواہشات و مطالبات بھی کچھ ایسے ہو جاتے ہیں جن کا پورا کرنا اولاد کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے قرآن حکیم میں والدین کی دلجوئی اور راحت رسانی کے احکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانہ طفولیت یعنی بچپن کا زمانہ یاد دلایا کہ کسی وقت تم بھی اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس قدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں۔ جس طرح انہوں نے اپنی راحت و خواہشات کو اُس وقت تم پر قربان کیا اور تمہاری بے عقلی کی باتوں کو پیار کے ساتھ برداشت کیا۔ اب جبکہ ان پر محتاجی کا یہ وقت آیا ہے تو عقل و شرافت کا تقاضا ہے کہ ان کے احسان کا بدلہ ادا کرو۔۔
حدیثِ مبارک میں والدین کے بڑھاپے میں ان کی خدمت نہ کرنے والے شخص کی مذمت کی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
رَغِمَ أَنْفُهٗ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُهٗ، ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُهٗ.
اس کی ناک غبار آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو (یعنی وہ ذلیل و رسوا ہو)۔
کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَدْرَکَ وَالِدَیْهِ عِنْدَ الْکِبَرِ، أَحَدَهُمَا أَوْ کِلَیْهِمَا، ثُمَّ لَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّةَ.
مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلة والآداب، باب رغم أنف من أدرک أبویه۔۔۔، 4: 1978، رقم: 2551
جس نے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے والدین کی اطاعت و فرمانبرداری اور خدمت کرنے کو جہاد سے افضل قرار دیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں شریکِ جہاد ہونے کی اجازت لینے کے لیے حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں! زندہ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
فَفِیهِمَا فَجَهِدْ.
تم ماں باپ کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو (یعنی ان کی خدمت سے ہی تمہیں جہاد کا ثواب مل جائے گا)۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے والدین کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کوئی شخص اپنے والدین پر بھی لعنت کر سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
یَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ، فَیَسُبُّ أَبَاهُ، وَیَسُبُّ أُمَّهٗ فَیَسُبُّ أُمَّهٗ.
بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب لا یسب الرجل والدیه، 5: 2228، رقم: 5628
کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور کوئی شخص کسی کی ماں کو گالی دے اور وہ (بدلے میں) اس کی ماں کو گالی دے (تو یہ اپنے والدین پر لعنت کے مترادف ہے)۔
والدین کا حق ہے کہ جب وہ بڑھاپے کی حالت کو پہنچ جائیں تو ان کے حق میں اپنے رب سے یہ دعا مانگی جائے:
قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاo
الإسراء، 17: 24
(اللہ کے حضور) عرض کرتے رہو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔
حقوق والدین کا تصور قرآنِ حکیم میں بیان کی گئی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا سے بھی ملتا ہے::
رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُo
ابراهیم، 14: 41
اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بخش دے) اور دیگر سب مومنوں کو بھی، جس دن حساب قائم ہوگا۔
نماز میں دعا والدین کا بنیادی حق ہے۔ ضروری نہیں کہ والدین کے لیے دعا ان کے انتقال کے بعد ہی کی جائے بلکہ ان کی زندگی میں بھی ان کے لیے صحت و سلامتی اور مغفرت کی دعا مانگی جائے۔ والدین کے لیے دعائے مغفرت کرنا سنتِ انبیاء f ہے۔
اولاد کے مال میں سب سے زیادہ حق اُن کے والدین کا ہے۔ حدیث نبوی کی روشنی میں والد اپنے بیٹوں کے مال میں اُن کی اجازت کے بغیر تصرف بھی کر سکتا ہے۔ وفات کے بعد بھی اولاد کی میراث میں والدین کا حصہ رکھا گیا ہے۔ اولاد کے ورثہ میں والدین کے حق کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَلِاَبَوَیْهِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَهٗ وَلَدٌ ج فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَهٗٓ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ.
النساء، 4: 11
اور مورث کے ماں باپ کے لیے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مورث کی کوئی اولاد ہو، پھر اگر اس میت (مورث) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کے لیے تہائی ہے (اور باقی سب باپ کا حصہ ہے)۔
والدین اگر کمانے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں تو اولاد پر فرض ہے کہ وہ ان کے نان و نفقہ کا انتظام کریں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ط وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللهَ بِهٖ عَلِیْمٌo
البقرة، 2: 215
آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حقدار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔
حدیثِ مبارک میں ہے کہ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں::
إِنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ لِي مَالًا وَوَلَدًا، وَإِنَّ وَالِدِي یَحْتَاجُ مَالِي، قَالَ: أَنْتَ وَمَالُکَ لِوَالِدِکَ، إِنَّ أَوْلَادَکُمْ مِنْ أَطْیَبِ کَسْبِکُمْ، فَکُلُوا مِنْ کَسْبِ أَوْلَادِکُمْ.
ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور اس نے عرض کیا: یارسول اللہ! میرے پاس مال اور اولاد ہیں اور میرے والد میرے مال کے محتاج ہیں (میںکیا کروں؟) آپ ﷺ نے فرمایا: تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کے ہیں۔ (پھر فرمایا:) یقینا تمہاری اولاد تمہاری پاکیزہ کمائی ہے، لہٰذا اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ۔
جواب: بچوں کو تعلیماتِ اسلام کی روشنی میں رشتہ داروں کے حقوق سے روشناس کروایا جائے۔ اسلام رشتہ داروں کے ساتھ احسان اور اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ خاص طور پر خونی رشتوں یعنی والدین اور بہن بھائیوں سے صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ قرآن حکیم میں رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی گئی ہے:
اِنَّ اللهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ ج یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَo
النحل، 16: 90
بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو۔
خونی رشتوں کے متعلق حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
قَالَ اللهُ: أَنَا الرَّحْمٰنُ، وَهِيَ الرَّحِمُ، شَقَقْتُ لَهَا اسْمًا مِنَ اسْمِي، مَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهٗ وَمَنْ قَطَعَهَا بَتَتُّهٗ.
أبو داود، السنن، کتاب الزکاة، باب في صلة الرحم، 2: 133، رقم:1694
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرا نام رحمن ہے اور یہ رَحِم ہے، میں نے اِس کا نام اپنے نام سے مشتق کیا ہے۔ جو اسے (یعنی رحم سے بننے والے خونی رشتوں کو) جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا اور جو اسے توڑے گا میں اسے توڑوں گا۔
بچوں کو بتایا جائے کہ وہ رشتہ دار جو مفلس و محتاج ہوں اور کمانے کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو حسبِ استطاعت ان کی مالی مدد کرتے رہنا، ان کی خوشی و غمی میں ہمیشہ شریک رہنا، صلہ رحمی کرنا اور کبھی ان کے ساتھ قطع تعلق نہ کرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔
قرآن حکیم اور احادیثِ مبارکہ میں رشتہ داروں کے معاشی حقوق پر بھی زور دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ط وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللهَ بِهٖ عَلِیْمٌo
البقرة، 2: 215
آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حقدار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔
حدیث مبارک میں حضور نبی اکرم ﷺ نے غریب رشتہ داروں کی معاشی بحالی پر زور دینے کے ساتھ ساتھ کمزور اقرباء کے حقوق کی ادائیگی کی بھی تلقین فرمائی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
یہ (باغ) اپنے غریب اقارب کو دے دو، انہوں نے وہ باغ حضرت حسان اور حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہما کو دے دیا (جو ان کے چچا زاد بھائی تھے)
بخاری، الصحیح، کتاب الوصایا، باب إذا وقف أو أوصٰی لأقاربهٖ ومن الأقارب، 3: 1011، رقم: 2601
خونی رشتوں سے قطع تعلقی کرنے والے کے لیے سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ.
قطع رحمی کرنے والا کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
بعض اوقات دنیا میں انسان کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ کسی خونی رشتہ دار سے صلہ رِحمی کرنا چاہتا ہے مگر دوسرا قطع تعلقی کو ترجیح دیتا ہے۔ اسلام میں اس معاملے پر بھی تعلیم فراہم کی گئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِيئِ، وَلٰـکِنِ الْوَاصِلُ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهٗ وَصَلَهَا.
بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب لیس الواصل بالمکافئ، 5: 2233، رقم: 5645
اچھائی کا بدلہ اچھائی سے دینے والا صلہ رِحمی کرنے والا نہیں ہوتا بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ اُس سے رشتہ توڑا جائے، مگر وہ پھر بھی اسے بھلائی کے ساتھ جوڑے رکھے۔
والدین اپنے والدین، بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کے حقوق کا خصوصی خیال رکھیں۔ اُن کا یہ عمل بچوں کی تربیت میں معاون ہو گا۔
جواب: بچوں کو بتایا جائے کہ گھر سے باہر کی سماجی زندگی میں قریب ترین تعلق ہمسائیگی کا ہے۔ یہ رشتہ نہ صرف شرعی اعتبار سے بلکہ اخلاقی اور معاشی لحاظ سے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ جس کو ادا کرنا ہر مرد و عورت کے لیے لازم اور ضروری قرار پایا ہے۔ درج ذیل قرآنی آیت اور احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں بچوں کو ہمسایوں کے حقوق سے روشناس کروایاجائے۔
قرآن حکیم میں ہمسائے کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ط اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاo
النساء، 4: 36
اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بے شک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو۔
مذکورہ بالا آیت میں تین طرح کے ہمسایوں کا ذکر آیا ہے۔ ایک وہ جو ہمسائے بھی ہوں اور رشتہ دار بھی۔ دوسرے وہ جو گھر کے قریب تو رہتے ہوں مگر رشتہ دار نہ ہوں۔ تیسرے وہ جو سوسائٹی سے متعلق ہوں مثلاً وہ دوست احباب جو ایک جگہ مل بیٹھتے ہوں یا کسی جگہ اکٹھے کام کرتے ہوں اور اکثر میل ملاقات رہتی ہو۔ ان سب سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمسائے کے حقوق کی ادائیگی کو ایمان کا حصہ قرار دیا۔ حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
وَاللهِ لَا یُؤْمِنُ، وَاللهِ لَا یُؤْمِنُ، وَاللهِ لَا یُؤْمِنُ. قِیْلَ: وَمَنْ یَارَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: الَّذِي لَا یَأْمَنُ جَارُهٗ بَوَائِقَهٗ.
بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب إثم من لا یأمن جاره بَوَائِقَهٗ، 5: 2240، رقم: 5670
اللہ کی قسم وہ ایمان والا نہیں، اللہ کی قسم وہ ایمان والا نہیں، اللہ کی قسم وہ ایمان والا نہیں۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کون؟ فرمایا کہ جس کا ہمسایہ اس کی ایذا رسانی سے محفوظ نہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمسائے کے حقوق کی اتنی زیادہ اہمیت بیان فرمائی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خدشہ لاحق ہوا کہ شاید وراثت میں بھی ہمسائیوں کا حق ہے۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا::
مَازَالَ جِبْرِیْلُ یُوْصِیْنِيْ بِالْجَارِ، حَتّٰی ظَنَنْتُ أَنَّهٗ سَیُوَرِّثُهٗ.
بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب الوصاءة بالجار، 5: 2239، رقم: 5669
جبریل ہمیشہ مجھے ہمسائے کے متعلق حکم پہنچاتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید اسے وارث بنا دیا جائے گا۔
آپ ﷺ نے ہمسائے کی عزتِ نفس اور اس کے گھر کے تقدس کا احترام کرنے کا بھی حکم فرمایا ہے۔ ہمسائے کے حقوق بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے اس امر کی وضاحت بھی فرما دی کہ کس ہمسائے کے حقوق کو دوسروں کے حقوق پر فوقیت حاصل ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک بار میں عرض گزار ہوئی: یا رسول اللہ! میرے دو ہمسائے ہیں۔ میں ان میں سے کس کے لیے تحفہ بھیجا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
إِلٰی أَقْرَبِهِمَا مِنْکِ بَابًا.
بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب حق الجوار فی قرب الأبواب، 5: 2241، رقم: 5674
ان میں سے جو دروازے کے لحاظ سے تمہارے زیادہ قریب ہے۔
جواب: بچوں کو بتایا جائے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اسے عقل و شعور سے نوازا ہے، پھر انسانوں کی ہی خدمت اور بلا واسطہ یا بالواسطہ فائدہ و آزمائش کے لیے مختلف حیوانات کو پیدا فرمایا ہے۔ حیوانات کی بھی ضروریات اور حقوق ہیں اور اُن کے ساتھ انسانوں کو کس قسم کا سلوک و برتاؤ کرنا چاہیے اس کا عملی مظاہرہ حضور نبی اکرم ﷺ کے اُسوہ حسنہ سے ملتا ہے۔ حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
إِنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: إِنِّیْ أَنْزِعُ فِیْ حَوْضِي، حَتّٰی إِذَا مَلَأْتُهُ لِأَهْلِیْ، وَرَدَ عَلَيَّ الْبَعِیْرُ لِغَیْرِیْ فَسَقَیْتُهُ، فَهَلْ لِّیْ فِیْ ذٰلِکَ مِنْ أَجْرٍ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: فِیْ کُلِّ ذَاتِ کَبِدٍ حَرَّائَ أَجْرٌ.
احمد بن حنبل، المسند، 2: 298، رقم: 7094
ایک آدمی نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں اپنے حوض میں پانی بھرتا ہوں، یہاں تک کہ جب میں اپنے گھر والے (جانوروں وغیرہ) کے لیے حوض بھر لیتا ہوں، تو کسی کا اونٹ حوض پر آجاتا ہے، اور میں اسے پانی پلا دیتا ہوں، کیا میرے لیے اس میں اجر و ثواب ہو گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک ہر پیاسے جاندار کو پانی پلانے میں اجر و ثواب ہے۔
مذکورہ بالا حدیث مبارک سے بچوں کو ترغیب ملتی ہے کہ اگر کسی پیاسے جانور کو پانی پلا دیا جائے یا وہ خود سے پانی پی لے اور اس کو پانی سے منع نہ کیا جائے تو اس میں بھی اجر و ثواب ہے۔۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
بَیْنَمَا کَلْبٌ یُطِیفُ بِرَکِیَّةٍ، کَادَ یَقْتُلُهُ الْعَطَشُ، إِذْ رَأَتْهُ بَغِیٌّ مِنْ بَغَایَا بَنِي إِسْرَائِیلَ، فَنَزَعَتْ مُوقَهَا، فَسَقَتْهُ فَغُفِرَ لَهَا بِهِ.
بخاری، الصحیح، کتاب الأنبیاء، باب حدیث الغار، 3: 1279، رقم: 3280
ایک کتا کسی کنویں کے گرد گھوم رہا تھا قریب تھا کہ وہ پیاس سے مر جائے۔ اچانک اسے بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت نے دیکھ لیا۔ اس نے اپنا موزہ اتارا اور اس سے پانی نکال کر کتے کو پلا دیا۔ اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کی مغفرت فرما دی گئی۔
جانوروں پر ظلم کرنے اور ان کی حق تلفی پر حدیثِ مبارک میں عذاب کی وعید بھی سنائی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ حَبَسَتْهَا حَتّٰی مَاتَتْ جُوْعًا، فَدَخَلَتْ فِیْهَا النَّارَ۔ قَالَ: فَقَالَ: وَاللهُ أَعْلَمُ، لَا أَنْتِ أَطْعَمْتِهَا وَلَا سَقَیْتِهَا حِیْنَ حَبَسْتِهَا، وَلَا أَنْتِ أَرْسَلْتِهَا فَأَکَلَتْ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ.
بخاری، الصحیح، کتاب المساقاة، باب فضل سقي الماء، 2: 834، رقم: 2236
ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا۔ اس نے اس بلی کو قید کر دیا تھا یہاں تک کہ وہ بھوکی مر گئی۔ وہ عورت اس کی وجہ سے دوزخ میں داخل ہوئی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے، جب تو نے اسے قید کیا تو تُو نے نہ اسے کھلایا نہ پلایا اور نہ ہی اسے کھلا چھوڑا کہ وہ (خود) زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔
حضرت ابو دَرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَوْ غُفِرَ لَکُمْ مَا تَأْتُوْنَ إِلَی الْبَھَائِمِ لَغُفِرَ لَکُمْ کَثِیْرًا.
بهیقی، شعب الإیمان، 4: 302، 303، رقم: 5188
اگر تمہاری ان چیزوں (یعنی زیادتیوں اور گناہوں) کو معاف کر دیا گیا، جو تم جانوروں کے ساتھ کرتے ہو، تو بلاشبہ تمہاری بہت بڑی مغفرت کر دی گئی۔
بچوں کو بتایا جائے کہ جانوروں کے حقوق کی خلاف ورزی اور اُنہیں اذیت دینا اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سبب ہے۔ لہٰذا اُنہیں مکمل حقوق دیے جائیں اور اُن کی ضروریات کا مکمل خیال رکھا جائے۔ حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ایک انصاری شخص کے باغ میں تشریف لے گئے۔ وہاں موجود ایک اُونٹ نے آپ ﷺ کو دیکھ کر رونا شروع کر دیا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ آپ ﷺ اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس کے سر پر دستِ شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: اِس اُونٹ کا مالک کون ہے، یہ کس کا اُونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میرا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔
جواب: بچوں کو درج ذیل احادیث مبارکہ کی روشنی میںپرندوں کے حقوق سے روشناس کروایا جائے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷺ بیان کرتے ہیں:
کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي سَفَرٍ فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِهٖ، فَرَأَیْنَا حُمَّرَۃً مَعَهَا فَرْخَانِ، فَأَخَذْنَا فَرْخَیْهَا، فَجَائَتِ الْحُمَّرَةُ، فَجَعَلَتْ تَفْرُشُ. فَجَاءَ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: مَنْ فَجَّعَ هٰذِهٖ بِوَلَدِهَا، رُدُّوْا وَلَدَهَا إِلَیْهَا. وَرَأَی قَرْیَةَ نَمْلٍ قَدْ حَرَّقْنَاهَا، فَقَالَ: مَنْ حَرَّقَ هٰذِهٖ؟ قُلْنَا: نَحْنُ. قَالَ: إِنَّهٗ لَا یَنْبَغِي أَنْ یُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ.
أبو داود، السنن، کتاب الجهاد، باب في کراهیة حرق العدو بالنار، 2: 406، رقم: 2675
ایک سفر میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے تو ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ دو بچے تھے۔ ہم نے اس کے بچے پکڑ لیے تو چڑیا پر بچھانے لگی۔ حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لے آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: کس نے اسے اس کے بچوں کی وجہ سے تڑپایا ہے؟ اس کے بچے اسے لوٹا دو۔ آپ ﷺ نے چیونٹیوں کا ایک بل دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے کس نے جلایا ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ) ہم نے، آپ ﷺ نے فرمایا: آگ کے ساتھ عذاب دینا، آگ کے پیدا کرنے والے رب کے سوا کسی کے لیے مناسب نہیں ہے۔
اس حدیث مبارک سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ حیوانات اور پرندوں کے بچوں کو اُن سے چھیننا اور اُنہیں قید کرنا جائز نہیں ہے۔ نہ ہی غیر مضر حشرات کو مارنا اور اُنہیں جلانا جائز ہے۔۔
حضرت شرید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
مَنْ قَتَلَ عُصْفُورًا عَبَثًا عَجَّ إِلَی اللهِ عَزَّ وَجَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ یَقُولُ: یَا رَبِّ، إِنَّ فُـلَانًا قَتَلَنِي عَبَثًا وَلَمْ یَقْتُلْنِي لِمَنْفَعَةٍ.
نسائی، السنن، کتاب الضحایا، باب من قتل عصفورا بغیر حقها، 7: 170، رقم: 4446
جس نے کسی چڑیا کو بلا وجہ مار ڈالا تو وہ چڑیا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے چلائے گی اور عرض کرے گی: اے اللہ! فلاں شخص نے مجھے بلا وجہ قتل کیا تھا، اور اس نے مجھے کسی فائدہ کے لیے قتل نہیں کیا تھا۔
حضرت ہشام بن زیاد کا بیان ہے:
دَخَلْتُ مَعَ أَنَسٍ عَلَی الْحَکَمِ بْنِ أَیُّوبَ، فَرَآی غِلْمَانًا، أَوْ فِتْیَانًا، نَصَبُوا دَجَاجَۃً یَرْمُوْنَهَا، فَقَالَ أَنَسٌ: نَهَی النَّبِيُّ ﷺ أَنْ تُصْبَرَ الْبَهَائِمُ.
بخاری، الصحیح، کتاب الذبائح والصید، باب ما یکره من المثلة والمصبورة والمجثمة، 5: 2100، رقم: 5194
میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ حکم بن ایوب کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے چند لڑکوں یا نوجوانوں کو دیکھا کہ ایک مرغی کو باندھ کر اس پر تیر چلا رہے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ نے جانوروں کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا ہے۔
بچوں کو بتایا جائے کہ شریعت کی ہر تعلیم فطرت کے مطابق اور اعتدال پر مبنی ہے۔ اس میں پرندوں کو بے جا تکلیف پہنچانے یا بغیر کسی وجہ اور عذر کے مارنا جائز نہیں ہے۔
جواب: ٹین ایجرز کو بتایا جائے کہ اسلام کی رو سے کسی پرندے کو بلا وجہ قید کرنا جائز نہیں۔ البتہ پرندوں کو کسی ضرورت کے تحت پالنے، ذبح کرنے یا ان کی نسل بڑھانے کی غرض سے انہیں بطور پالتو جانور اپنے گھر میں رکھنا جائز ہے۔ لیکن اس صورت میں اُن کے حقوق کی ادائیگی مکمل طور پر اُنہیں گھر میں رکھنے والے شخص کے ذمہ ہے، اُسے چاہئے کہ ان پرندوں کے کھانے، پینے، گرمی، سردی اور راحت کا پورا خیال رکھے۔ اُنہیں حرام کاموں جیسے جوا وغیرہ کھیلنے میں استعمال نہ کرے، نہ ہی اُنہیں آپس میں لڑانے کے لیے پالے۔
پرندوں کو پالنے اور گھر میں رکھنے کا جواز ہمیں درج ذیل احادیث مبارکہ سے ملتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ یَدْخُلُ عَلَیْنَا، وَکَانَ لِي أَخٌ صَغِیرٌ، وَکَانَ لَهٗ نُغَرٌ یَلْعَبُ بِهٖ، فَمَاتَ نُغَرُهُ الَّذِي کَانَ یَلْعَبُ بِهٖ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ ذَاتَ یَوْمٍ فَرَآهُ حَزِیْنًا، فَقَالَ لَهٗ: مَا شَأْنُ أَبِي عُمَیْرٍ حَزِیْنًا؟ فَقَالُوا: مَاتَ نُغَرُهُ الَّذِيْ کَانَ یَلْعَبُ بِهٖ، یَا رَسُولَ اللهِ ﷺ، فَقَالَ: أَبَا عُمَیْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَیْرُ؟
أحمد بن حنبل، المسند، 3: 288، رقم: 14103
رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لاتے تھے اور میرا ایک چھوٹا بھائی تھا اور اس کے پاس ایک نغیر (مخصوص چڑیا) تھی جس سے وہ کھیلتا تھا۔ ایک دن وہ نغیر (چڑیا) مر گئی، جس کے ساتھ وہ کھیلتا تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ ایک دن تشریف لائے تو اسے غمگین دیکھ کر فرمایا: ابو عمیر غمگین کیوں ہے؟ گھر والوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی وہ نغیر (چڑیا) مر گئی ہے جس کے ساتھ یہ کھیلا کرتا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابو عمیر! نغیر (چڑیا) کا کیا ہوا۔
اس چڑیا سے کھیلنے کا مطلب جانور کو تکلیف پہنچانا نہیں تھا بلکہ اس سے بچے کا لطف اندوز ہونا اور دل بہلانا تھا۔۔
امام بیہقی حضرت ہشام سے روایت کرتے ہیں:
کَانَ أَمِیْرُ الْمُوْمِنِیْنَ یَعْنِيْ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَیْرِ بِمَکَّةَ تِسْعَ سِنِیْنَ وَأَصْحَابُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ یَقْدُمُوْنَ فَیَرَوْنَھَا فِی الأَقْفَاصِ الْقُبَّارَی وَالْیَعَاقِیْبَ.
بیهقی، السنن الکبری، 5: 333، رقم: 9994
امیر المومنین یعنی حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مکہ میں نو سال قیام پذیر رہے، رسول اللہ ﷺ کے صحابہ مکہ میں تشریف لاتے تو وہ مکہ میں پنجروں کے اندر چنڈول (چڑیا سے بڑے، لمبی چونچ اور سر پر تاج والے خوش آواز پرندے) اور چکور (کبوتر کی طرح سرخ چونچ والے خوبصورت پرندے) دیکھتے تھے۔
الغرض! ٹین ایجرز کو بتایا جائے کہ کسی ضرورت و مصلحت مثلاً وحشت دور کرنے اور پرندوں اور ان کی حرکات و آواز سے لطف اندوز ہونے کے لیے اُنہیں پنجروں میں رکھنا جائز ہے بشرطیکہ فخرو تفاخر پیشِ نظر نہ ہو اور کسی جوے وغیرہ میں بھی اُن کو استعمال نہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ بچے پرندوں کے تمام حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کریں۔ مثلاً پرندے کی جسامت کے لحاظ سے پنجرہ اتنا کشادہ ہو کہ اس میں اسے تکلیف نہ ہو۔۔
پرندے اپنے دکھ درد، تکلیف اور ضرورت کا پوری طرح اظہار نہیں کر سکتے۔ اس لیے پرندے کے مزاج کے مطابق اس کی بود و باش اور خوارک و آسائش کا انتظام کیا جائے۔ پرندے کے لیے اُس کی مرغوب غذا کا بھی اہتمام کیا جائے مثلاً جو پرندے پھل رغبت سے کھاتے ہیں اُن کے لیے حسبِ حیثیت وہ پھل مہیا کیے جائیں اور جو پرندے دانہ، تنکا یا گھاس پھوس رغبت سے کھاتے ہیں ان کے لیے اس کا انتظام کیا جائے۔
جواب: اچھا دوست زندگی میں کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ یہ ہر غرض سے پاک ایک ایسا خوبصورت اور انمول رشتہ ہے جس میں محبت، اعتبار، بے تکلفی، خلوص اور احترام شامل ہے۔ لیکن بعض دوستیاں انسان کو گمراہی کے راستے پر بھی ڈال دیتی ہیں، لہٰذا دوست بناتے وقت بچوں کو درج ذیل اُمور مدِنظر رکھنے چاہییں۔
بچوں کو ایسے دوست بنانے چاہییں جن کا کوئی مقصدِ حیات ہو، کوئی goal اور کوئی aim ہو، جس کو achieve کر کے وہ دوسروں کا سہارا بن سکیں اور ان کی ذات دوسروں کے لیے باعثِ نفع ہو۔
دوستوں کا انتخاب کرتے وقت اس بات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ ان کے افکار و خیالات دین اور ایمان کے تقاضوں کے عین مطابق ہوں۔ کیوں کہ ان کے جذبات، خیالات، رجحانات اور ذوق دیگر دوستوں کی شخصیت پر اثر انداز ہوں گے۔
بچوں کو ایسے دوست بنانے چاہییں جو ان کے ہم عمر ہوں تاکہ وہ باآسانی ایک دوسرے سے علمی و عملی فائدے حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی درپیش مسئلہ پر بے تکلفی سے تجزیہ کر کے اپنی رائے دے سکیں۔
بچوں کو ایسے دوست بنانے چاہییں جو ان کی تعمیرِ شخصیت میں اہم کردار ادا کر سکیں۔ ان کے اچھے کام کو سراہیں اور غلطی کرنے پر اُن کی اصلاح کریں۔ ان کی ترقی اور عزت کو اپنی عظمت سمجھیں، ان کی ناکامی کو اپنی ناکامی سمجھ کر انہیں کامیاب کرانے میں مددگار ثابت ہوں۔
بچوں کو ایسے مخلص اور باکردار دوست بنانے چاہییں جو کسی قیمت پر بھی ان کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔ تنگی ہو یا آسانی، ہر حال میں اس مقدس رشتے کو مستحکم بنائیں۔ ہر مشکل میں ان کا ساتھ نبھانے والے ثابت ہوں۔
بچوں کو چاہیے کہ وہ عقل مند کو اپنا دوست بنائیں کیوں کہ احمق اپنے دوست کو فائدہ تو پہنچانا چاہتا ہے مگر اپنی جہالت اور کم علمی کی وجہ سے نقصان پہنچا دیتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ بے وقوف دوست سے عقل مند دشمن بہتر ہے۔
جواب: بچوں پر دوستوں کے درج ذیل حقوق لازم ہیں:
جواب: خوشی اور غمی زندگی کے وہ پہلو ہیں جن سے ہر انسان کا واسطہ پڑتا ہے۔ اس کی زندگی میں نشیب و فراز وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ صحت کے ساتھ بیماری، سکھ کے ساتھ دکھ، راحت کے ساتھ رنج، تنگی کے ساتھ فراخی پیوست ہے۔
خوشی و غمی میں بچوں کا رویہ ان کی شخصیت کا اہم ترین جزو ہے۔ اسلامی تعلیمات دونوں طرح کے حالات میں ان کی مکمل رہنمائی کرتی ہیں کہ اگر کامیابی و کامرانی حاصل ہو جائے تو ان کا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟ اور اگر کبھی ناکامی، دکھ، تکلیف، بیماری اور تنگی آ جائے تو انہیں ان حالات کا سامناکیسے کرنا چاہیے؟ اس سے متعلق درج ذیل حدیث مبارک سے رہنمائی ملتی ہے۔
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ. إِنَّ أَمْرَهٗ کُلَّهٗ خَیْرٌ. وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ۔ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَکَرَ، فَکَانَ خَیْرًا لَهٗ. وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ، فَکَانَ خَیْرًا لَهٗ.
مسلم، الصحیح، کتاب الزهد والرقائق، باب المؤمن أمره کله خیر، 4: 2295، رقم: 2999
مومن کی (اس) شان پر خوشی کرنی چاہیے کہ اس کے ہر معاملہ میں خیر ہے۔ یہ مقام مومن کے سوا اور کسی کو حاصل نہیں۔ اگر وہ نعمتوں کے ملنے پر شکر کرے تو اس کو اجر ملتا ہے اور اگر وہ مصیبت آنے پر صبر کرے تب بھی اس کو اجر ملتا ہے۔
بچوں میں چونکہ قوتِ برداشت کم ہوتی ہے۔ خوشی ملنے پر وہ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور تکلیف یا غم کے موقع پر واویلا کرتے ہیں۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی اس اندازسے تربیت کریں کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر اور خوشی کا اظہار کریں اور مصیبت کے وقت صبر کریں۔ جب بیماری آئے تو اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرنے کی بجائے اس کی بارگاہ میں صحت یابی کی دعا کریں۔ اگر کسی پریشانی میں مبتلا ہو جائیں تو اس پر نظر رکھنے کی بجائے راحت و آرام میں بسر کی ہوئی زندگی کے بارے میں سوچیں۔ کیونکہ نعمتوں پر نظر رکھنے سے بچوں کے دل میں شکر بجا لانے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اللہ سے شکوہ کرنے سے محفوظ رہتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved