والدین کے لیے اولاد کی مثال ان کی زندگی کے گلستان میں کِھلے ہوئے غنچوں کی سی ہے۔ اس حوالے سے لازم ہے کہ ان نونہالوں کی نگہداشت ماہر باغبانوں کی طرح کی جائے۔ باغبانوںکے لیے لازم ہے کہ انہیں مکمل آگاہی ہونی چاہیے کہ کون سی چیز ان کی متاعِ حیات کے لیے موافق ہے اور کون سی شے ان کے لیے ضرر رساں۔ انہیں چاہیے کہ وہ ماحول پر کڑی نظر رکھیں کہ آیا کہ ان کی فکری، روحانی اور علمی آبیاری درست انداز سے ہو رہی ہے یا نہیں؟ ان کے افکار کی کھیتی کو اسلامی افکار و نظریات کی کھاد باقاعدگی سے دی جا رہی ہے یا نہیں؟ کہیںان پر مادہ پرستی کی نحوست اور دنیاوی حرص و لالچ کی بیماریاں حملہ آور تو نہیں ہو رہیں؟ یاد رہے کہ انسان کی سب سے قیمتی متاعِ حیات اس کی اولاد ہے، اگر اس کی تعلیم و تربیت اسلامی بنیادوں پر ہوگی تو والدین کی دنیا بھی سنورے گی اور مرنے کے بعد بھی صدقہِ جاریہ کا ایک عظیم سلسلہ جاری رہے گا۔
اسلامی افکار کی بنیاد پر اولاد کی تعلیم و تربیت کرنا ہر ماں باپ کا بنیادی فریضہ ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثر والدین اس حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ اولاد کو دنیاوی تعلیم دلانے کے لیے تو بھاری فیسیں ادا کرتے ہیں، مگر ان کی زندگی میں اسلامی رنگ لانے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جاتا۔ یہ دورِ جدید کا بہت بڑا المیہ ہے جس پر توجہ دینا ہر صاحبِ اولاد پر لازم ہے۔
پندرھویں صدی ہجری کی تجدیدی تحریک منہاج القرآن نے ہر شعبۂ زندگی میں اَن مٹ روحانی نقوش چھوڑے ہیں۔ اسی عظیم سلسلے کی ایک کڑی حالیہ تصنیف بھی ہے۔ اس میں 11 سے 16 سال کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے۔ مذکورہ تصنیف کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے باب میں بچوں کی تعلیم اور کیرئیر کے انتخاب سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے مسائل اور ان کے حل پر بھی بات کی گئی ہے جو بچوں کو پیش آتے ہیں۔ اس ضمن میں طلبا کی علمی قابلیت کو بڑھانے، یادداشت کو تقویت پہنچانے، امتحانات کے خوف سے نکلنے، ناکامی کے خدشات سے بچنے، ناموافق حالات کا مقابلہ کرنے اور غلطیوں سے سبق سیکھنے جیسے مسائل کو قرآن و حدیث اور تاریخی شخصیات کی زندگیوں کی مثالیں پیش کرتے ہوئے دور کرنے کے لیے جد و جہد کی گئی ہے۔
دوسرے باب کا موضوع اخلاقی اور روحانی تربیت کی ناگزیریت ہے۔ اس حوالے سے ان عوامل پر غور کیا گیا ہے کہ نسلِ نو دین سے کیوں دور ہے اور وہ اعمال بھی واضح کیے گئے ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہوکر اخلاقی برائیوں سے بچا جا سکتا ہے۔
تیسرے باب میں قریب البلوغت کی نفسیاتی، جذباتی اور معاشرتی تربیت کے حوالے سے بحث کی گئی ہے۔ اس ضمن میں مضبوط بنیادوں پر بچے کی معاشرتی اور نفسیاتی تربیت پر زور دیتے ہوئے ان امور کو واضح کیا گیا ہے، جن سے بچوں کے مسائل کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے میں خاطرخواہ مدد ملتی ہے۔ یہاں اس پہلو پر بھی بات کی گئی ہے کہ جب نوجوان شباب کی وادی میں قدم رکھتے ہیں تو اس عمر میں انہیں معاشرے کے برے اثرات سے بچانے کے لیے اقدامات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
کہنے کو یہ ایک تصنیف ہے مگر بلا مبالغہ یہ ایک ایسی گائیڈ بک ہے جو ہر اُس گھر میں موجود ہونا لازم ہے جس میں اس عمر کے بچے موجود ہیں۔ اس تصنیف میں جہاں بچوں کی روحانی، نفسیاتی اور معاشرتی تربیت کے حوالے سے تمام پہلوئوں پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے، وہیں قرآن و سنت اور تاریخی حقائق کی روشنی میں تربیت فراہم کرنے کے خاطر خواہ امور بھی زیرِبحث لائے گئے ہیں۔ اس بابت اوراد و وظائف بھی تحریر کیے گئے ہیں۔ اپنی افادیت و اہمیت کے لحاظ سے یہ علمی و ادبی کاوش اردو ادب میں تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایک بہترین اضافہ ہے۔
یہ کتاب ’سلسلہ تعلیماتِ اِسلام‘ کی بارہویں کڑی ہے جب کہ بچوں کے حوالے سے تیسری کتاب ہے۔ FMRi کی لیڈی اسکالرز - محترمہ مسز فریدہ سجاد اور محترمہ طیبہ کوثر - کی اَن تھک محنت کا ثمر ہے۔ درحقیقت یہ کتاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہم العالی کے عظیم فیوض و برکات کی ایک روشن تجلی ہے۔ اس دورِ پرفتن میں ہر طرف چھائی مادہ پرستی، دین سے بیزاری اور دنیا داری کی ظلمتوں کو کچلنے کے لیے گنبدِخضریٰ کے انوار سے حاصل کی گئی ہے۔ یہاں حضرت شیخ الاسلام کے جذبات کی ترجمانی حکیم الامتؒ کے یہ اشعار کر رہے ہیں:
جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا! آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے
ربِ لم یزل سے دعا ہے کہ وہ اس کاوش کو قبول فرمائے اور اس کے طفیل نسلِ نو کو دینِ اسلام کو سمجھنے اور اس کی تعلیمات کو حرزِ جاں بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین بجاہِ سید المرسلین ﷺ)
(محمد فاروق رانا)
ڈائریکٹر
فریدِ ملّتؒ رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved