جواب: Abuse سے مراد بُرا سلوک کرنا، بُرا بھلا کہنا، فسق و فجور کرنا، گالی دینا، بے حرمتی کرنا اور ناجائز فائدہ حاصل کرنا وغیرہ ہے۔
جواب: اس کی درج ذیل اَقسام ہیں:
اِس سے مراد ہے کہ جب والدین یا نگران ایک بچے کو کسی بھی غیر حادثاتی جسمانی چوٹ پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔ اِس میں مارنا، ٹھوکر لگانا، طعنہ دینا، دھکا دینا یا کوئی اور ایسا عمل جو بچے کو زخمی کر دیتا ہے، شامل ہیں۔
جب والدین یا نگران ایک بچے کی ذہنی و سماجی ترقی کو نقصان پہنچاتے ہیں یا شدید جذباتی نقصان کا سبب بنتے ہیں تو یہ جذباتی اِستحصال کے زُمرے میں آتا ہے۔
اِسی طرح جب والدین یا نگران بچے کی مناسب اور مطلوبہ دیکھ بھال اور محبت نہیں کرتے تو اُس وقت بچہ نظر انداز ہو جاتا ہے، حالاں کہ اس نگرانی اور پیار کی بچے کی صحت، تحفظ اور بہبود کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بھی جذباتی اِستحصال ہوتا ہے۔
یہ اُس وقت ہوتا ہے جب بالغ اپنی تسکین کے لیے کسی بچے کا استعمال کرتا ہے یا بچہ خود اِس طرح کی کارروائیوں میں ملوث ہوتا ہے۔ ایک بڑی عمر کا بچہ یا زیادہ طاقتور بچہ کسی چھوٹے بچے کو اپنی ناجائز تسکین کے لیے استعمال کرے تو یہ بھی اِس میں شامل ہے۔
گزشتہ اَبواب میں بقیہ اَقسام پر تفصیلی بحث کرچکے ہیں۔ یہاں ہم صرف چوتھی قسم کی وضاحت کریں گے جو سب سے خطرناک اِستحصال ہے۔
1۔ کوشش کریں کہ بچوں کے بستر الگ الگ ہوں تاکہ جنسی احساس پیدا نہ ہو۔ شریعت نے اِسی لیے دس سال کی عمر کے بچوں کا بستر الگ کرنے کا حکم دیا ہے۔
2۔ بچوں کو تنہا دوسروں کے گھروں میں جانے سے روکیں کیونکہ اِس طرح کی صورت حال بالعموم وہیں پیدا ہوتی ہے جہاں زیادہ اعتماد ہوتا ہے۔ بچے اعتماد میں آکر دھوکہ کھا سکتے ہیں۔
3۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو چھوٹا سمجھ کر ان کے سامنے ایک دوسرے سے دل لگی نہ کریں کیونکہ بچے نقال ہوتے ہیں۔ ممکن ہے وہ موقع ملنے پر والدین کی پیروی کرنے کی کوشش کریں۔
4۔ بچوں اور بچیوں کو تنہا نہ کھیلنے دیں۔ تنہائی بھی بسا اوقات اس کا سبب بن سکتی ہے۔
5۔ فیشن کے نام پر ہونے والے بے حیائی سے بچوں کو دور رکھیں۔ فیشن میگزینز وغیرہ تک بچوں کی رسائی نہیں ہونی چاہیے۔
6۔ والدین ایسی جگہوں پر بچوں کو لے جانے سے احتراز برتیں جہاں فتنہ اور گناہ کا اندیشہ ہو۔
7۔ بچوں کی کمزور شخصیت بھی انہیں شکار بنا دیتی ہے۔ کیوں کہ کمزور شخصیت کے مالک بچے عموماً دھمکیوں کے زیر اثر آجاتے ہیں۔ اس لئے بچوں کو خطرناک حالات میں اپنا دفاع کرنا سکھائیں اور انہیں اس بات کا عادی بنائیں کہ جوں ہی کوئی دوسرا انہیں تکلیف دینے کی کوشش کرے تو کمزور نہ پڑیں، بلکہ سختی سے مزاحمت کریں۔
جواب: والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اِس طرح کے حالات سے محفوظ رکھنے کی مکمل تدابیر اِختیار کریں اور ایسی پُرخطر صورتِ حال سے نکلنے کے لیے بچوں کو مناسب شعور و آگہی دیں۔
بچوں کو بتایا جائے کہ کوئی غیر انہیں بے جا پیار کرے اور چومے تو اپنے والدین کو آگاہ کریں۔
بچوں کو رہنمائی دی جائے کہ ان کے جسم کے بعض حصے private parts ہیں جنہیں کوئی شخص چھو نہیں سکتا۔ اگر کوئی شخص ان کے private parts کو چھوتا ہے تو فورا اپنے والدین کو بتائیں۔
اگر کبھی انتہائی خطرناک صورت حال پیدا ہو اور کوئی شخص انہیں میلی آنکھ سے دیکھے تو فورا بھاگ کھڑے ہوں اور وہاں سے باہر نکل جائیں اور شور مچانا شروع کردیں۔ ایسی جگہ آجائیں جہاں زیادہ لوگ ہوں تاکہ محفوظ رہ سکیں۔ یعنی اگر ان کے ساتھ کوئی غلط اِرادے سے پیش آتا ہے تو بچوں کو چاہیے کہ دوسروں کو مدد کے لیے پکاریں۔
جواب: یہ بھی بچوں کے اِستحصال کی ایک شدید قسم ہے۔ عام لفظوں میں چائلڈ لیبر سے مراد نو عمر اور کم سن بچوں کو ان کے حق تعلیم و تفریح سے محروم کرکے انہیں چھوٹی عمر ہی میں جبری طور پر محنت، مزدوری اور ملازمت پر لگا دینا ہے۔
ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے ناطے ہمارے معاشرے میں چائلڈ لیبر عام ہے۔ ہمارے ہاں کم سن بچے کہیں چوراہوں اور بازاروں میں بوٹ پالش کی آواز بلند کرتے، کہیں ہوٹلوں پر برتن دھوتے، کہیں ٹریفک اشاروں پر اخبارات بیچتے اور گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے، ورکشاپس اور مکینک کی دکانوں پر اپنے ننھے مُنے ہاتھ کالے کرتے اور فیکٹریوں میں محنت مزدوری کرکے اپنی اور اپنے گھرانے کی زندگی کی گاڑی کو ہانکتے اور کہیں چوراہوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
اسی المیے کی ایک اور دردناک تصویر گھروں پر غریب گھرانوں کی چھوٹی چھوٹی بچیاں ہیں، جو گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہیں اور انہیں اکثر و بیشتر معاوضہ نہ ہونے کے برابر دیا جاتا ہے۔ ایسی ہزاروں نصیبوں جلی بچیوں کو پسماندہ علاقوں سے بڑی تعداد میں دوسرے علاقوں میںمنتقل کر دیا جاتا ہے۔ جہاں پر ان سے جبری طور پر کام لیا جاتا ہے۔ بعض اوقات مفلس اور نادار والدین صرف روٹی اور عمومی تعلیم کے بدلے میں اپنی مرضی سے خود اپنے ان جگر گوشوں کو امرا کی کوٹھیوں اور بنگلوں پر چھوڑ آتے ہیں۔ معصوم بچوں کی یہ کرب ناک تصویریں ہمارے معاشرے کی بے بسی اور بے کسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
جواب: چائلڈ لیبر ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے۔ ملک بھر میں قانونی پابندی کے باوجود چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا۔ قانونی پابندی کے باوجود چھوٹے بچوں سے نہ صرف غیر قانونی مشقت لی جاتی ہے بلکہ ان سے جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جاتا ہے۔ قابلِ افسوس بات ہے کہ جو بچے زمانے کی کڑی دھوپ کو برداشت کرنے کے قابل ہی نہیں ہوتے، معاش کا بوجھ اِن کے نازک کندھوں پرڈال دیا جاتا ہے۔ چائلڈ لیبر کے بہت سے اسباب ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
غربت چائلڈ لیبر کا سب سے بڑا سبب ہے عموماً جو والدین بچوں کی تعلیم کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے یا کسی وجہ سے خود کمانے کے قابل نہیں رہتے یا ان کی کمائی کم اور اخراجات زیادہ ہوتے ہیں تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بچوں کو چھوٹی عمر ہی میں کام پر لگا دیتے ہیں۔
والدین کی جہالت اورعلمی شعور میں کمی بھی چائلڈ لیبر کا سبب بنتی ہے۔ والدین کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ بچوں پر تعلیم کے اثرات کیا مرتب ہوتے ہیں۔ بعض والدین کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ تعلیم کا مقصد صرف روزگار کمانا ہے پس یہ والدین بچوں کو بچپن ہی سے کسی فیکٹری، موٹر مکینک یا کسی اور ہنر مند کے پاس چھوڑ دیتے ہیں تاکہ وہ جلداز جلد روزگار کمانے کے قابل ہو کر ان کا ہاتھ بٹا سکیں۔
چائلڈ لیبر کا سبب نااَہل حکمران بھی ہیں۔ چونکہ حکمرانوں کو عوام کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، اس لیے وہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کا مستقبل سنوارنے پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔ خواہ قوم کے مستقبل کے یہ معمار تعلیم حاصل کریں یا چھوٹی عمر ہی میں محنت مزدوری کریں، حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی؛ انہیں صرف اپنی نسلوں کے مستقبل کا خیال ہوتا ہے۔
معاشرے میں لوگوں کی بے حسی کا عنصر بھی چائلڈ لیبر کا بڑا سبب ہے۔ جہاں لوگ خود غرضی کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں یہ احساس ختم ہو جاتا ہے کہ ایک بچہ جس کی تعلیم حاصل کرنے کی عمر ہے وہ کسی مکینک کی دکان پر ہاتھ میں اوزار پکڑے گاڑی کی مرمت کیوں کر رہا ہے؟ اگر افراد میں احساس ہو تو حکومت تعلیم و تربیت کے اقدامات نہ بھی کرے تو بارسوخ لوگ تعلیم و تربیت کے لئے ادارے قائم کرکے مستحق طلبہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مالی ضروریات بھی پوری کرسکتے ہیں۔ جس معاشرے میں ہمدردی اور انسان دوستی کا جذبہ ختم ہو جائے تو وہاں چائلڈ لیبر جیسے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
جواب: چائلڈ لیبر کا خاتمہ درج ذیل صورتوں پر عمل کرنے سے ممکن ہے:
1۔ حکومت کے فرائض میں سے ایک یہ ہے کہ وہ بے سہارا اور نادار لوگوں کی کفالت کرے۔ یہ ذمہ داری مسلم حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر حکمران اپنے فرائض خوش اسلوبی سے سر انجام دیں اور بیت المال اور سرکاری خزانے سے ایسے بے سہارا خاندانوں کی مدد کریں، جن کا کمانے والا کوئی نہ ہو تو چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن ہے۔
2۔ بین الاقوامی تنظیمات تیسری دنیا کے ممالک میں غریب و مفلس افراد کی مدد کرکے ان کے مسائل کو حل کریں۔ اگرمعاشرہ، ملک اور بین الاقوامی برادری اپنے فرائض ادا کرے تو اضطراری حالات میں چائلڈ لیبر کے معاملہ کو مستقل طورپر حل کیا جا سکتا ہے۔
3۔ چائلڈ لیبر کوکنٹرول کرنے کے لئے حکومت کے علاوہ معاشرے کے ہر فرد کو اس مہم میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے، تاکہ ہر بچہ تعلیم حاصل کر سکے۔
4۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ غریب افراد کو روزگار دے تاکہ نابالغ بچوں کو مشقت نہ کرنی پڑے اور انہیں تعلیم کے مواقع میسر آئیں۔
5۔ حکومتی سطح پر غریب والدین کو اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کا پابند کیا جائے۔ انہیں قانونی طور پر مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجیں اور نہ بھیجنے والے والدین پر قانونی گرفت کی جائے۔ اگر غریب اور مجبور والدین اپنے بچوں کو سکول بھیجنا شروع کر دیں تو ایسے بچوں کو فی کس وظائف دیے جائیں۔ اس سے چائلڈ لیبر کے خاتمہ میں مدد ملے گی۔
6۔ معاشرے کی سطح پر اگر ہر آدمی اپنے پڑوسی اور رشتہ داروں میں سے غریب افراد کی امداد کرے تو چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن ہے کیونکہ ہر غریب فرد کسی نہ کسی کا پڑوسی یا رشتہ دار ضرور ہوتا ہے۔
جواب: تعلیمات اسلام کے مطابق بھیک مانگنا یا اسے اپنا ذریعہ روزگار بنانا انتہائی ناپسندیدہ اور مذموم عمل ہے۔ گداگری ایک لعنت ہے۔ معاشرتی امن کے لئے بھی اسے جڑ سے اکھاڑنا ضروری ہے۔
بچوں کے گداگر بننے کی وجوہات درج ذیل ہیں:
1۔ دورِ حاضر میں گداگروں کے سرغنہ جرائم پیشہ گروہ اور تخریب کاروں سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تخریب کار کم سن بچوں کو اغوا کر کے بھکاریوں کے سرغنہ کو فروخت کر دیتے ہیں۔ جو ان بچوں کو بھیک مانگنے کی تربیت دیتے ہیں۔ بعض ظالم اور سفاک دانستہ طور پر بچوں کے ہاتھ پائوں توڑ کر انہیں چلنے پھرنے سے معذور کر دیتے ہیں اور ایسے بچوں کو مختلف مزارات، درگاہوں، بس اسٹاپ، بازاروں اور دیگر مقامات پر بٹھا کر بھیک منگوائی جاتی ہے۔ گداگر گروہ کے کارندے ان معذور بچوں کو رات کے وقت تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور دن بھر بھیک منگوانے کے دوران ان کی مسلسل نگرانی کرتے ہیں اور حاصل ہونے والی تمام رقم اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں۔
2۔ کم سن بچوں کے علاوہ کم سن بچیوں کو بھی اغوا کر کے انہیں جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے اور بعد ازاں ان سے بھیک بھی منگوائی جاتی ہے۔ پھر یہ بچیاں گداگری کے ساتھ ساتھ بسوں اور دیگر پبلک ٹرانسپورٹ میں سوار ہو کر مسافر خواتین سے پرس، زیورات اور موبائل فون چوری کرنے کے فن سے بھی آشنا ہو جاتی ہیں۔
اسی طرح کم سن گداگر لڑکیاں بالعموم غیر مناسب لباس پہنے چھوٹے چھوٹے ننگ دھڑنگ بدن بہن بھائیوں کو بغل میں دبائے مردوں کے دائیں بائیں چکر لگاتی ہیں کبھی ان کا دامن اور آستین پکڑ لیتی ہیں اور بھیک لیے بغیر پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ان بچیوں کو چند ایسے مخصوص فقرے اور جملے یاد کروائے جاتے ہیں جن سے معصومیت، بے بسی اور کسمپرسی ٹپکتی ہے ۔ اس دردناک پکار کو سننے والوں کے دل پسیج جاتے ہیں اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی مالی مدد کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
3۔ غربت بھی بچوں کو گداگر بنانے کی بڑی وجہ ہے۔ والدین جب اپنے بچوں کی ضروریات زندگی پوری کر نہیں پاتے تو نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں بھکاری بنا دیتے ہیں۔ والدین کی خصوصی تربیت کے سبب کم عمری کے باوجود یہ بچے نفسیات کے ماہر ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کیسے جذبات پر حاوی ہو کر لوگوں سے پیسے نکلوائے جاتے ہیں۔ یہ لوگوں کی توجہ اور ہمدردیاں اپنی طرف مبذول کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ یوں بعض بچوں نے غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے گداگری کو اپنا پیشہ بنا لیا ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا صورتِ حال بہت پریشان کن ہے۔ چھوٹے بچے اور بچیاں جن کو اس عمر میں سکول ہونا چاہیے وہ دن رات گداگری کرتے نظر آتے ہیں۔
جواب: گداگر بچے مختلف طریقوں سے بھیک مانگتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
1۔ کچھ گداگر بچے معذور ہوتے ہیں خواہ پیدائشی ہوں یا کسی حادثے کی وجہ سے ہوئے ہوں۔ یہ فٹ پاتھ پر ایک جگہ بیٹھے رہتے ہیں اور اسی جگہ پر لوگ انہیں بھیک دیتے رہتے ہیں۔
2۔ بعض گداگر بچے نقلی معذور بنے ہوتے ہیں ان میں سے کچھ نابینا اور کچھ نے اپنے جسم پر مصنوعی طور پر زخم لگائے ہوئے ہوتے ہیں۔ بعض بھکاری بچوں نے بازو یا ٹانگ پر پٹی باندھی ہوتی ہے جسے دیکھ کر ہر ایک کا دل یقینا پسیج جاتا ہے۔
3۔ کچھ بھکاری بچے سگنلز پر کھڑے ہوتے ہیں اور یہ بھیک مانگنے کے فن سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں۔
4۔ بھکاری بچوں کی ایک قسم نوزائیدہ بچوں کی بھی ہے جو آنکھ کھولتے ہی بھیک مانگنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ لوگ ان کم سن بچوں پر ترس کھاتے ہوئے پیسے زیادہ دیتے ہیں۔
5۔ بعض بھکاری بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو بھوک و افلاس کا اس قدر واویلا کرتے ہیں کہ پتھر دل بھی موم ہو جاتا ہے اور لوگ انہیں بھیک دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
6۔ بھکاری بچوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو شاپنگ سنٹرز اور مارکیٹوں کے باہر گھومتے ہیں۔ یہ خریداری کے لیے آنے والی فیملیوں کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ پر بھی باز نہیں آتے۔ جب تک انہیں بھیک نہ دی جائے وہ لوگوں کا مسلسل تعاقب کرتے رہتے ہیں۔
جواب: جی ہاں! ذہنی و جسمانی کمزور بچے بھی بھکاری بنتے ہیں۔ ایسے کمزور بچوں کو والدین کم علمی یا کمزور عقیدے کے باعث بطور عقیدت مزار پر موجود بھکاری مافیا کے حوالے کر دیتے ہیں۔ وہ ان کے سروں پر ایک مخصوص ٹوپی نما شکنجہ چڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ان کے سروں کی نشوونما رک جاتی ہے بلکہ ان کی دماغی اور جسمانی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے ۔ اس پر یہ بچے ذہنی طور پر معذور ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد بھیک مانگنا رہ جاتا ہے۔ یہ بچے سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ایسے بچوں کا استحصال کرتے ہوئے نہ صرف ان سے شہر شہر اور گائوں گائوں بھیک منگوائی جاتی ہے بلکہ پیشہ ور بھکاری ان بچوں کو ماہانہ ٹھیکوں پر بھی لے جاتے ہیں۔ ان بچوں کا باقاعدہ کنٹریکٹ ہوتا ہے اور جب مدت ختم ہو جاتی ہے تو انہیں واپس دربار پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ان ذہنی معذور بچوںکے ذریعے درباروں پر منشیات کا کاروبار کرنے کے لیے پہلے انہیں منشیات کا عادی بنایا جاتا ہے، جس سے یہ دنیا سے بے نیاز، مدہوش اور بے خودی کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ وہ اس کیف و مستی کے عالم میں اپنے آپ کو کسی دربار کا مجاور ظاہر کرتے ہیں۔ معاشرے کی ایسی ستم ظریفی پر ارباب اختیار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ درحقیقت وہ خود اس فرسودہ نظام کا حصہ ہوتے ہیں۔ جب تک اس ظالمانہ نظام کے خلاف کوئی مؤثر حکمت عملی یا اقدامات نہ کیے گئے تو ذہنی اور جسمانی کمزور بچے یونہی بھکاری بنتے رہیں گے۔
جواب: پاکستان میں منشیات کے استعمال کا رجحان بہت تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے جس سے متاثر ہونے والوں میں سب سے زیادہ تعداد بچوں اور نوجوانوں کی ہے۔
بچوں کے منشیات کے عادی بننے کی وجوہات درج ذیل ہیں:
1۔ والدین کا اپنی اولاد کی صحیح تربیت نہ کرنے اور خصوصی توجہنہ دینے کے نتیجے میں بچے بری صحبت کے سبب غیرقانونی اور برے کاموں میں ملوث ہو رہے ہیں۔ اگرچہ ہمارے معاشرے میں تعلیم اور دولت عام ہوگئی ہے مگر ہم دردی، میل جول اور پیار و محبت کا جذبہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ نمود و نمائش کے ساتھ ساتھ تکبر اور غرور میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ نفسا نفسیکے عالم میں والدین کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ ان کے بچوں کا کس ماحول میں اٹھنا بیٹھنا ہے اور کن افراد سے ان کے مراسم ہیں۔ وہ کب گھر سے باہر جاتے، کب واپس آتے ہیں اور رات کا کتنا حصہ گھر سے غائب رہتے ہیں۔ والدین کی لاپرواہی کے سبب اکثر بچے منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں۔
2۔ دولت کا بے دریغ استعمال بھی بچوں کو منشیات کا عادی بنانے کا ایک سبب ہے۔ صاحب حیثیت والدین کی طرف سے بچوں کو بہت زیادہ جیب خرچ ملنے اور ان کی باز پرس نہ کرنے کی وجہ سے وہ بالکل آزاد ہو جاتے ہیں اور وہ اس گھناؤنی دلدل میں دھنس جاتے ہیں کہ اس سے باہر نکلنا زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔
3۔ بچوں کو منشیات کا عادی بنانے کا ایک بڑا سبب والد کا سگریٹ نوشی کرنا بھی ہے۔ بچے اپنے باپ کو سگریٹ پیتا دیکھ کر خود بھی چھپ چھپ کر سگریٹ پینا شروع کر دیتے ہیں اور بعد ازاں یہی عادت چلتے چلتے انہیں منشیات کا عادی بنا دیتی ہے۔
4۔ نشہ کرنے والے بچوں کی بڑی تعداد غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان غریب گھرانوں میں غربت کے علاوہ بہت سے ایسے عوامل ہوتے ہیں جو بچے کو گھر سے دور کر دیتے ہیں۔ یوںبچے باہر کے منفی اثرات جلد قبول کر لینے کی وجہ سے منشیات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
5۔ غربت کے ساتھ ساتھ جہالت اور بے روزگاری بھی منشیات کے عادی ہونے کا ایک سبب ہے۔ زوجین کی آپس میں چپقلش کی وجہ سے بچے ہی سب سے زیادہ والدین کے ناروا سلوک، منفی رویے اور طعن و تشنیع کے علاوہ تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ بچوں کو جب گھر سے خوشی، لذت اور تسکین نہیں ملتی تو وہ گھر سے باہر برے لوگوں سے مراسم بڑھا لیتے ہیں جو انہیں نشے کا عادی بنا کر ان کے ساتھ جنسی تشدد اور غیر اخلاقی کام لیتے ہیں اور بچے ان برائیوں میں لذت، سکون اور راحت محسوس کرتے ہوئے آہستہ آہستہ ان جرائم کے عادی ہو جاتے ہیں۔
جواب: منشیات کے پھیلاؤ کے اسباب درج ذیل ہیں:
دین کا فہم انسان میں اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ کسی برائی کو ترک کرنے کے لیے وہ دلائل نہیں مانگتا بلکہ اس کے لیے صرف اتنی بات کافی ہوتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اس کام سے منع فرمایا ہے۔ عصر حاضر میں بچے دین اسلام کی تعلیمات اور اس کے احکامات سے دوری کی وجہ سے منشیات جیسی برائیوں میں سکون تلاش کرتے ہیں۔
جو بچہ اپنی معاشی، معاشرتی اور سماجی حیثیت پر ہر وقت غیر مطمئن رہتا ہے اور لوگوں سے اپنا مقابلہ کر کے مزید پریشان ہو جاتا ہے۔ ایسا بچہ پھر ذہنی دباؤ اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے ۔ نتیجتاً نشہ آور ادویات کا سہارا لیتے ہوئے بالآخر منشیات کا عادی بن جاتا ہے۔
فراغت ایک ایسا مرض ہے جو نوجوان نسل کے لیے سراسر تباہی کا باعث ہے۔ وہ بچہ جسے ہر طرح کی آسائش حاصل ہو، کھانے پینے کی بے فکری اور کرنے کے لیے کوئی کام نہ ہو تو اسے برے ہم نشین منشیات کا رسیا بنا کر خود بھی اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اسے بھی کسی کام کا نہیں رہنے دیتے۔ اسی طرح فارغ البالی کے ہاتھوں تنگ آئے لوگ بھی ایسے لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو ایک طرف انہیں اچھی ملازمت کا جھانسہ دے کر منشیات فروشی کے دھندے میں ملوث کر دیتے ہیں اور دوسری طرف انہیں منشیات کا عادی بنا کر ان کی زندگی کو تباہ کر دیتے ہیں۔
گداگری کے پیشے میں منسلک افراد بھی منشیات کے دھندے میں ملوث ہوتے ہیں اور خود کو منشیات کا عادی بنا کر اپنی زندگی تباہ و برباد کر لیتے ہیں۔
گھریلو ناچاقی اور گھر میں خانہ جنگی کی کیفیت میں محبت کو ترسے ہوئے بچے اس ماحول کی تلخی کو نشے کی جھوٹی حلاوت سے دور کرنے کی کوشش میں اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ناکامی کامیابیوں کا زینہ ثابت ہوتی ہے لیکن ایسے بچے ناکامیوں سے مقابلہ کرنے کی بجائے اس کا غم مٹانے کے لیے نشے کا سہارا لیتے ہیں۔
سگریٹ نوشی بظاہر ایک معمولی نشہ ہے لیکن یہ نشے کا پہلا زینہ ہے۔ جو بچے سگریٹ نوشی کرتے ہیں وہ آہستہ آہستہ منشیات کے عادی بھی بن جاتے ہیں۔
جواب: بچوں کو منشیات سے روکنے کے لیے درج ذیل سطح پر اقدامات ہونے چاہئیں:
1۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ منشیات کی روک تھام کے لیے مستقل بنیادوں پر پالیسی وضع کرے اور ایسے اقدامات کرے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں۔ نیز منشیات کے اصل اسباب کا تدارک محض وعظ و تلقین پر نہ کرے بلکہ اس کے لیے سخت اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
2۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت اور نگرانی صحیح خطوط پر کریں اور بچوں کو دینی تعلیمات بالخصوص منشیات کے استعمال کے نقصانات سے ضرور آگاہ کریں۔
3۔ تعلیمی اداروں اور اساتذہ کے پاس بچے، ان کا کردار اور ان کا مستقبل بطورِ امانت ہوتا ہے لہٰذا اساتذہ اور تعلیمی اداروں کو بچوں کی مکمل رہنمائی کا اہتمام کرنا چاہیے اور اُن میں منشیات کے نقصانات کا شعور بیدار کرنا چاہیے۔
4۔ نصاب تعلیم میں سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر پیشہ ورانہ اداروں میں ایسے مضامین شامل کیے جائیں جو بچوں میں منشیات کے خلاف نفرت پیدا کریں۔
5۔ منشیات سے بچاؤ کی سب سے اہم ذمہ داری علماء کرام پر عائد ہوتی ہے۔ چونکہ علماء کرام کا دینی اور سماجی حلقوں میں ایک خاص مقام ہے۔ اس لیے علماء کرام کو چاہیے کہ وہ اسے دینی فریضہ سمجھتے ہوئے اپنے حلقہ کے مدارس، عامۃ الناس اور منبر و محراب کو اس لعنت سے چھٹکارے کے لیے بھر پور استعمال کریں۔
6۔ میڈیا اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد پر لازم ہے کہ وہ بھی منشیات کے خاتمے کے لیے اپنی حیثیت کو بھرپور طور پر استعمال کریں۔
7۔ اخبارات، ہفت روزہ اور ماہانہ رسائل منشیات کی تباہ کاریوں کو اجاگر کرنے اور اس سے بچوں کو بچانے کے لیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ منشیات فروشوں کو دی گئی سزاؤں کو شہ سرخیوں کے ساتھ شائع اور ان کے منفی پہلو اجاگر کیے جانے چاہئیں۔ اداریے، مضامین، انٹرویوز، مذاکرات، کارٹون اور سنجیدہ کالموں کے ذریعے منشیات فروشوں کی گرفت کی جا سکتی ہے۔
8۔ حکومت کی طرف سے شائع ہونے والے پوسٹ کارڈ، خطوط کے لفافے، بجلی، پانی، ٹیلی فون اور گیس کے بل وغیرہ پر نشہ کے خلاف کوئی پیغام یا سلوگن ضرور درج کیا جانا چاہیے۔
جواب: عام طور پر معذور بچے دو اقسام کے ہوتے ہیں:
1۔ ذہنی لحاظ سے معذور بچے
2۔ جسمانی لحاظ سے معذور بچے
جواب: ذہنی لحاظ سے کمزور بچے وہ ہوتے ہیں جن کی ذہنی صلاحیت ان کی عمرکے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کی ذہنی نشوونما یا تو رک جاتی ہے یا پھر اس تیزی کے ساتھ نہیں ہوتی جتنی کہ ان کی عمر کے مطابق ہونی چاہیے۔
جواب: ذہنی لحاظ سے معذور بچوں کی خاص علامات یہ ہوتی ہیں کہ ان کی ذہنی صلاحیت اپنے ہم عمر بچوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ وہ نشوونما کے مدارج کافی دیر میں طے کرتے ہیں مثلا بیٹھنا، کھڑا ہونا، گفتگو کرنا اور چلنا وغیرہ ایک عام بچے کے مقابلے میں دیر سے شروع کرتے ہیں۔
ذہنی پسماندگی کی صورت میں دس سال کے بچے کی سوچ، جذبات اور برتاؤ پانچ یا سات سال کے بچے کی طرح ہوتے ہیں۔ ایسے بچے اسکول میں پڑھائی پر اپنی توجہ مرکوز نہیںکرسکتے۔ انہیں کچھ بھی جلدی سمجھ میں نہیں آتا۔ کوشش کے باوجود انہیں سبق جلدی یاد نہیں ہوتا اور اگر یہ یاد کر بھی لیں تو جلد ہی بھول جاتے ہیں۔ گھریلو زندگی میں وہ واضح ہدایات پر عمل نہیں کر پاتے اور الٹی سیدھی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔
علامات کی شدت کے لحاظ سے ایسے بچوں کی درج ذیل اقسام ہیں:
معمولی کمزوری کے حامل بچے دیکھنے میں عام بچوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ یہ بچے ابتدائی تعلیم تو حاصل کرسکتے ہیں مگر اعلی تعلیم حاصل کرنا ان کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ یہ چھوٹے موٹے ہنر تو سیکھ سکتے ہیں لیکن ذہنی اور جسمانی انتشار کی صورت میں ان کو دوسروں کی رہنمائی کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔
ایسے بچے تعلیمی میدان میں کافی پیچھے رہتے ہیں۔ یہ اپنا خیال نہیں رکھ سکتے اور انہیں دوسروں کی مدد اور رہنمائی کی ضرورت رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان میں بعض جسمانی نقائص بھی ہوسکتے ہیں۔ بولنے میں الفاظ کے چناؤ اور ادائیگی میں مشکلات رہتی ہیں۔ ان بچوں کی نشوونما عام بچوں کے مقابلے میں سست رفتاری سے ہوتی ہے، اسی طرح وہ پڑھائی میں بھی بہت کمزور ہوتے ہیں۔
ایسے بچے اپنا خیال نہیں رکھ سکتے اور روزمرہ کے کاموں میں انہیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بچے بہت سی جسمانی اور اعصابی تکالیف میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایسے بچوں کے لئے چلنا، پھرنا، اٹھنا اور بیٹھنا بھی دشوار ہوتا ہے۔ عموماً ان کی عمر کم ہوتی ہے کیونکہ بیماریوں سے قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے اورآئے روز بیمار ہی رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے بچے اکثر بے معنی حرکتیں بھی کرتے ہیں مثلاً بلا وجہ بے چینی اور بے قراری، بے مقصد ہلتے رہنا، دیواروں سے سر ٹکرانا، خود کو اور دوسروں کو نقصان پہنچانا شامل ہے۔
اگرایسے بچوں کی شروع ہی میں تشخیص کرلی جائے تو علاج آسان ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ذہنی بیماری اگر ایک مرتبہ ہو جائے تو اسے جڑ سے بالکل ختم تو نہیں کیا جاسکتا، مگرباقاعدہ علاج سے بچہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ اپنی موجودہ ذہنی صلاحیتوں کو بہتر طور پر استعمال کر کے کسی حد تک عام لوگوں کی طرح زندگی گزار سکے۔
جواب: ذہنی لحاظ سے معذور بچوں کی تربیت کے لئے ان کی ذہنی سطح کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اُسے معمولی، درمیانی یا شدید کمزوری ہے۔ بعد ازاں بچے کی ذہنی، جسمانی، معاشی اور تعلیمی تربیت کا منصوبہ بنایا جاتا ہے اور یہ طے کیا جاتا ہے کہ اس بچے کو کس حد تک پڑھانا ممکن ہے۔ اس کی ذہنی و جسمانی نشوونما کس رفتار سے متوقع ہے اور اسے کس حد تک تربیت دی جائے کہ وہ اپنی روزی خود کما کر خود مختار اور باعزت زندگی گزار سکے اور دوسروں پر بوجھ نہ بنے۔ اگر ایسے بچوں کے لیے بروقت حقیقت پسندانہ فیصلے نہ کیے جائیں اور انہیں اندھا دھند آگے دھکیلنے کی کوشش کی جائے تو نہ صرف یہ بچے ناکام ہو جاتے ہیں بلکہ مزید ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایسے بچوں کی تعلیم و تربیت حقیقت پسندانہ ہونے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی اصولوں کے مطابق ہونی چاہیے۔
جب وہ دلچسپی سے مطالعہ کریں توان کی حوصلہ افزائی اور تعریف کی جائے اور انہیں کھانے، پینے اور تحائف کی شکل میں بطور انعام سے نوازا جائے۔ ان کی پڑھائی لازماً اپنی مادری یا قومی زبان ہی میں ہونی چاہیے۔ انہیں پہلے صرف روزمرہ کی چیزیں سکھانے کے لئے کوشش کرنی چاہیے مثلاً معمولی لکھنا پڑھنا اور آسان حساب کتاب۔
جواب: جسمانی لحاظ سے معذور بچوں میں درج ذیل علامات پائی جاتی ہیں:
نامناسب ماحول، غذا کی کمی اور علاج و معالجہ کی ناکافی سہولیات کے باعث بچوں میں اندھے پن کی بیماری عام ہے جس میں کالا موتیا، سفید موتیا وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں پیدائشی اندھا پن بھی ہوتا ہے اور بعض اوقات بالکل تندرست بچہ بیماری کے حملہ آور ہونے سے بھی اندھے پن کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ اندھا پن کلی بھی ہو سکتا ہے اور جزوی بھی۔ اسی طرح بعض بچوں میں تھوڑی بہت دیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے جسے مناسب علاج کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ہر عام بچے کو یہ سہولت میسر نہیں ہے۔ جزوی اندھے پن کا شکار بچے غیر مناسب ماحول، ماحولیاتی آلودگی، خوراک کی کمی اور ادویات کی عدم دستیابی کے باعث آہستہ آہستہ مکمل نا بینا ہو جاتے ہیں۔
قوت سماعت سے محروم بچے بھی دو اقسام کے ہوتے ہیں ایک مکمل اور دوسرے جزوی۔ مکمل بہرہ پن عمومی طور پر قوت گویائی سے محروم بچوں کو ہوتا ہے وہ بیک وقت گونگے اور بہرے ہوتے ہیں جبکہ جزوی طور پر بہرے بچے آلہ سماعت کے استعمال سے تھوڑا بہت سن سکتے ہیں۔
قوت گویائی سے محرومی قوت سماعت سے منسلک ہے۔ جب کوئی انسان کچھ سنے گا نہیں تو کیسے اورکیا بولے گا۔ لہٰذا قوت سماعت سے محرومی بھی قوت گویائی سے محرومی کا سبب ہوتی ہے۔ قوت گویائی سے محروم بچے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک جزوی گونگے، جو تھوڑا بہت بول لیتے ہیں اور اپنی بات دوسروں کو سمجھا لیتے ہیں۔ یہ بہتر انداز میں گفتگو نہیں کر پاتے اور اٹک اٹک کر بات کرتے ہیں، جبکہ مکمل طور پر گونگے بچے بالکل بات نہیں کر سکتے۔
جزوی جسمانی معذوری میں متاثرہ بچے با آسانی چل پھر سکتے ہیں۔ بعض بچوں کی ایک ٹانگ پولیو زدہ یا کچھ کمزور ہوتی ہے جس میں کچھ بچے بغیر سہارے کے بھی چل سکتے ہیں اور کچھ بچوں کو ہاتھ کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اکثر بیساکھی کا سہارا لیتے ہیں۔ متعدد متاثرہ بچے مصنوعی اعضاء اور مخصوص جوتوں وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔
مکمل جسمانی معذوری میں بچے چلنے پھرنے کی سکت نہیں رکھتے اور بستر پر ہی لیٹے رہتے ہیں۔ اس میں دونوں ٹانگوں کے علاوہ بعض اوقات سارے جسم کا مفلوج ہونا بھی شامل ہے۔ پولیو، فالج کا خطرناک حملہ اور ریڑھ کی ہڈی کا متاثر ہونا بھی اس کی اہم وجوہات ہیں۔ جسمانی معذوری کے باعث انہیں نفسیاتی عوارض بھی لاحق ہو جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ یہ بچے مجذوبی کیفیت تک پہنچ جاتے ہیں۔
جواب: جسمانی لحاظ سے معذور بچے قوم کی قیمتی امانت ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اندھے، گونگے، بہرے اور معذور بچے عام تعلیمی اور تربیتی اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انہیں شرفِ انسانیت سے محروم سمجھا جائے اور انہیں اپنی معذوری کا احساس دلا کر مایوسی کے اندھیروں میں بھٹکنے دیا جائے۔
قدرت نے اگر انہیں کسی ایک یا دو نعمتوں سے محروم کیا ہے تو ان میں اور بھی بہت سی صلاحیتیں پیدا کر دی ہیں۔ ضرورت ان صلاحیتوں سے کام لینے کی ہے۔ ایسے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے تاکہ وہ بھی اپنے اور معاشرے کے لئے مثبت کردار ادا کر سکیں۔
جسمانی لحاظ سے معذور بچوں کی تعداد کے مقابلے میں ایسے رفاہی ادارے تعداد میں بہت کم ہیں اور پھر انہیں بھی کئی مسائل کا سامنا ہے مثلا سرمایہ، ٹرانسپورٹ اور تربیت یافتہ اساتذہ کی کمی۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے ان اداروں کو سالانہ امداد دی جاتی ہے لیکن ایسے کام حکومت پر ہی نہیں چھوڑ دینے چاہئیں۔ مخیر افراد کو بھی اس نیک کام میں مالی معاونت کرنی چاہیے۔ اس طرح ان اداروں کی تعداد بڑھا کر ان کے مسائل بھی حل کیے جا سکتے ہیں۔
ان بچوں کی تربیت کے لئے ایسے ادارے قائم کیے جائیں جہاں انہیں سائنٹفک طریقوں سے تعلیم دی جائے اور مختلف کام بھی سکھائے جائیں، تاکہ یہ معذور بچے ان اداروں میں اچھی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف ہنر مثلاً قالین، چٹائیاں، کپڑا، دریاں بنانے اور کشیدہ کاری وغیرہ میں مہارت حاصل کرکے اپنی روزی کمانے کے قابل ہو سکیں۔ اس طرح یہ بچے کسی پر بوجھ بننے کی بجائے معاشی اور معاشرتی طور پر خود کفیل ہو کر قوم کی معاشی ترقی میں بھی مدد گار ثابت ہو سکیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved