جواب: والدین اپنے گھر کے نگہبان ہوتے ہیں۔ بچوں کا احتساب کرنے کا حق بھی انہی کا ہے اور روزِ قیامت انہی سے اَہلِ خانہ کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
الرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی أَهْلِ بَیْتِهٖ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهٖ.
مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے اور اُس سے اُس کے ماتحت اَفراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
اِسی حدیث مبارکہ میں عورت کے کردار کے حوالے سے ارشاد فرمایا:
وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی أَهْلِ بَیْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهٖ وَهِيَ مَسْؤُولَۃٌ عَنْهُمْ.
اور بیوی اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کے لیے نگران ہے اور اُس سے اُن کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
جن بچوں کے والدین نہیں ہوتے ان کی پرورش، دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کا فریضہ جو لوگ ادا کرتے ہیں مثلاً دادا، دادی، نانا، نانی اور قریبی رشتہ دار وغیرہ، وہ بھی موقع محل کے مطابق بچوں کا احتساب کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں تدریس کے اوقات میں یہی حق اساتذہ کو حاصل ہوتا ہے۔
جواب: والدین کی مار پیٹ کے بعد بچہ خوف، گھبراہٹ اور بے اطمینانی کے احساس سے دو چار ہو جاتا ہے بلکہ خود اعتمادی سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ مزید یوں سوچنے لگتا ہے کہ والدین اس سے بالکل محبت نہیں کرتے۔ وہ اس سے لاتعلقی اختیار کر چکے ہیں اور اس کا شمار اچھے بچوں میں نہیں ہوتا۔ اس کی حفاظت و نگہداشت کرنے والے والدین اس کے خلاف ہو چکے ہیں۔
یہ منفی احساسات بچے کو نفسیاتی دباؤ (depression) سمیت مختلف بیماریوں اور اپنی ذات میں محدودیت اور شرمندگی و خجالت کا باعث بنتے ہیں۔ مار پیٹ بچے کے دل میں خوف کا باعث بنتی ہے، جس کی وجہ سے وہ والدین سے کسی بھی معاملہ میں تبادلۂ خیال کرنے سے گھبراتا ہے۔
بعض اوقات والدین کی مار پیٹ بھی بچے کو سرکش بنا دیتی ہے۔ اس میں ضد، غصہ اور غضب کے جذبات جنم لیتے ہیں۔ وہ پٹنے کے احساس سے عاری اور والدین کے ڈر سے بے خوف ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً ان سے گستاخی اور نافرمانی کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنے غلط رویے پر ڈٹا رہتا ہے۔ لہٰذا بچے کو منفی احساسات و جذبات سے بچانے کے لیے والدین کو مار پیٹ سے گریز کرنا چاہیے۔
جواب: جی نہیں! بچے کی اصلاح کے لیے سزا دینا ضروری نہیں ہے لیکن بسا اوقات تادیب دینا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں تین تصورات پائے جاتے ہیں:
1۔ ایک طبقہ اس بات کا قائل ہے کہ بچے کے غلط فعل پر سخت رد عمل دینا بہت ضروری ہے۔ اس خیال کے حامی بعض اوقات سخت سزا کو بھی ناگزیر سمجھتے ہیں۔
2۔ دوسرا طبقہ بچے کے لیے اس قدر سخت رد عمل کو نہ صرف غیر ضروری بلکہ مضر سمجھتا ہے۔ ان کے خیال میں بچہ سزا سے سدھرنے کی بجائے بگاڑ کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اگر وقتی طور پر اس قدر سخت رد عمل سے بچے میں اصلاح و تبدیلی نظر آبھی جائے تو وہ اسے عارضی و وقتی خیال کرتے ہیں، جس کے پیچھے بغاوت اور ردِ عمل کے ناخوش گوار احساسات مخفی ہوتے ہیں جو مستقبل میں خطرناک نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
3۔ مندرجہ بالا دونوں منفی تصورات سے مختلف مثبت تصور یہ ہے کہ بچے کی اِصلاح ہمیشہ شفقت و محبت سے کی جائے۔ ناگزیر حالات میں مناسب تادیب بھی کی جاسکتی ہے مگر تادیب کے بعد حسنِ سلوک سے اس کی تلافی کی جائے تاکہ اس کے دل میں پھر کوئی خلش باقی نہ رہے۔ یہی اسلامی نظام تربیت کا تقاضا ہے۔
جواب: جی ہاں! بچوں کے غلط فعل پر تادیبی کارروائی کرنے سے پہلے والدین کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، کیونکہ جو والدین اپنے غصے پر قابو نہیں پاتے اور منفی ردِ عمل کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں گویا وہ اپنی فہم و فراست کو کھو دیتے ہیں۔ یہی والدین اگر پیچیدہ حالات میں غصے کی بجائے خود پر قابو پا لیں تو یقینا بچے کے طرزِ عمل میں اصلاح کا بہت بڑا حربہ اور تعمیری طریقہ ثابت ہوگا۔
تادیبی کارروائی کرنے سے پہلے والدین اپنی ہیجانی کیفیت اور بے بس بچے کے احساسات کا تصور کریں۔ اس کے بعد اپنے بچے کو عمدہ اَخلاق، جرأت، ہمدردی اور پیش قدمی کی بنیاد پر نشو و نما دینے کے لیے سود مند متبادل طریقہ کار اختیار کریں۔
تاہم والدین کے غصہ نہ کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ بچوں کی غیر پسندیدہ روش یا طرزِ عمل پر خاموش رہیں بلکہ اس سے مراد وہ طریقہ کار ہے جو غصے کے وقت بگاڑ اور تخریب کی بجائے تعمیر و اصلاح کا ضامن ہو۔
جواب: بچے کو تادیب کرنا ناگزیر ہو تو درج ذیل قواعد و ضوابط کو مد نظر رکھنا چاہیے:
1۔ بچے کو دوسروں بالخصوص مہمانوں اور دوستوںکے سامنے تادیب کرنا اس کی عزتِ نفس کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ جس طرح بڑے دوسروں کے سامنے رسوا ہونا پسند نہیں کرتے اسی طرح بچہ بھی دوسروں کے سامنے اپنی بے عزتی پسند نہیں کرتا۔
2۔ بچے کی غلطی پر جب تادیبی کارروائی کی جائے تو اسے لعن طعن بالکل نہ کیا جائے۔ عموماً والدین جب بچے کی غلطی پر تادیبی کارروائی کرتے ہیں تو کم بخت، نالائق، اَحمق، بیوقوف، کوڑھ مغز اور بدتمیز جیسے برے القابات سے بھی اسے نوازتے رہتے ہیں۔ بلکہ بعض والدین تو اپنے بچوں کو غلیظ گالیاں دینے سے بھی نہیں کتراتے۔ اگر والدین کا یہ رویہ بار بار سامنے آئے تو بچے کی نظر میں ان الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں رہتی اور الفاظ کی بے اثری کے ساتھ ساتھ تادیب بھی بے اثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس کے برعکس جو بچے الفاظ کا اثر لیتے ہیں ان کی ذہنی نشو و نما بری طرح متاثر ہوتی ہے اور وہ اِحساسِ کمتری کا شکار ہو کر آگے بڑھنے کا حوصلہ کھو بیٹھتے ہیں۔
3۔ تادیب کرنے کا ایک مؤثر طریقہ یہ بھی ہے کہ اگر بچہ سمجھانے سے نہ مانے تواسے دل چسپ مشاغل سے جدا کر دیا جائے۔ اس طرح کی تادیب کا بہت جلد اور خاطر خواہ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے کیونکہ بچہ ہر بات کو برداشت کر سکتا ہے مگر اپنے دل چسپ مشاغل سے محروم رہنا کبھی گوارا نہیں کرسکتا۔ تادیب کرنے کا یہ انداز دور رس بھی ہوتا ہے۔ بچہ اس خیال سے ہمیشہ غلطی کرنے سے باز رہتا ہے کہ اسے پھر دل چسپ مشاغل سے محروم کر دیا جائے گا۔ یہ تفریحی تادیب بچے کی تربیت میں زیادہ کارگر اور موثر ثابت ہوتی ہے۔
4۔ اگر بچہ غلطی کرنے کے بعد معافی مانگ لے یا آئندہ نہ کرنے کا عہد کرے تو والدین کو اسے معاف کر دینا چاہیے۔
5۔ تادیبی کارروائی کے بعد جب بچہ غلطی کرنا چھوڑ دے تو والدین کو چاہیے کہ اسے انعام دیں خواہ وہ ایک ٹافی ہی کیوں نہ ہو تاکہ بچے کے تعمیری پہلو کو تقویت حاصل ہو اور اس کے اندر آئندہ غلطی نہ کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ اس طرح اچھے کاموں اور بہتر کارکردگی پر انعامات دے کر بچے کی حوصلہ افزائی ضرور کی جانی چاہیے لیکن انعام کا اسے عادی نہ بنایا جائے کہ وہ ہر کام پرانعام کی آرزو کرتا رہے بلکہ انعام کی مقدار اور اوقات میں بھی اعتدال کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
6۔ بچے کی اصلاح اس انداز سے کرنی چاہیے کہ وہ آئندہ غلطی سے گریز کرے اور اس سے یہ توقع ہرگزنہ رکھی جائے کہ وہ تمام برائیوں سے یک لخت پاک ہو جائے گا۔
جواب: والدین کی مار پیٹ درج ذیل برے اثرات مرتب کرتی ہے:
1۔ مار پیٹ سے بچے کے اَعضاء کمزور ہو جاتے ہیں۔
2۔ مار پیٹ سے بچے میں غصے کا اِحساس پیدا ہو جاتا ہے اور وہ لاشعوری طور پر والدین سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ اس میں مثبت اور تعمیری اِحساسات فنا ہونے لگتے ہیں اور وہ پڑھائی میں دل نہ لگا کر والدین کو ذہنی تکلیف پہنچاتا ہے۔
3۔ والدین کی مار پیٹ سے بچے اور والدین کے مابین محبت اور عزت و اِحترام کا رشتہ برقرار نہیں رہتا بلکہ خوف اور بے اعتمادی کا تعلق قائم ہو جاتا ہے۔
4۔ مار پیٹ سے بچہ بصیرت اور دور اندیشی سے محروم ہونے لگتا ہے اور وہ ماتحتی اور ذہنی پسماندگی کا شکار ہو جاتا ہے جو اس کی شخصیت کو کمزور کرنے کا باعث ہے۔ وہ بڑا ہو کر آسانی سے اپنے بُرے ساتھیوں کی اندھی تقلید کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔
5۔ مار پیٹ بچے کی معیاری تربیت پر بُری طرح اثر انداز ہوتی ہے اور وہ حق و باطل اور صحیح و غلط کے مابین امتیاز کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ وہ ہر چیز کا فیصلہ خوف زدگی کی کیفیت میں کرنے لگتا ہے جو اسے خود اعتمادی سے کلیتاً محروم کر دیتی ہے۔
6۔ مار پیٹ والدین اور بچے کے درمیان تبادلہ خیالات، مکالمہ اور گفت و شنید کے سلسلے کو معطل کر دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ باہمی مفاہمت کے اِمکانات، بچوں کی ضروریات و نفسیات اور ان کے طرزِ عمل کے اَسباب و محرکات سمجھنے کے مواقع ضائع کرنے کا باعث بنتی ہے۔
7۔ مار پیٹ بچے کو خوش دلی پر مبنی اِقتداء اور پیروی کے عمل سے دور کر دیتی ہے اور جبری اِطاعت کا عادی بنا دیتی ہے۔
8۔ مار پیٹ بچے کی شخصیت سے متعلق اس کے ذاتی شعور اور احساس کو ختم کر دیتی ہے اور وہ اپنی ذات کے حوالے سے اِحساسِ کمتری کا شکارہو کر رہ جاتا ہے اور معاشرے میں اپنا کردار اَحسن طریقے سے ادا نہیں کر سکتا۔
9۔ مار پیٹ بچے کی بلند ہمتی اور کامیابی کے یقین جیسی اعلیٰ صلاحیتوں کے حصول کو مشکل بنا دیتی ہے۔ وہ معاشرتی اَخلاق و آداب میں ملکہ حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
10۔ مار پیٹ سے صرف بچے کے ظاہری رویے کا تدارک ہوتا ہے جب کہ اصل اور حقیقی تربیت نظر انداز ہو جاتی ہے کیونکہ مار پیٹ کے اثرات بالعموم عارضی ثابت ہوتے ہیں اور دائمی طور پر مؤثر نہیں ہوتے۔
11۔ مارپیٹ سے بچے کی فکر اور سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اور نہ اس سے بچے کا طرزِ عمل اِصلاح کی طرف مائل ہوتا ہے۔
12۔ مار پیٹ بچے میں اِخلاص اور صاف دلی کے اَوصاف ختم کرنے کا بھی باعث بنتی ہے اور اس کے دل میں لوگوں سے خوف جنم لیتا ہے۔ پھر وہ کسی بھی کام کو محض سزا کے خوف سے ترک کرتا اور خوف کی وجہ سے سرانجام دیتا ہے۔
جواب: گزشتہ صدی کے آخر اور موجودہ صدی کی سب سے بڑی انقلاب آفریں ایجاد کمپیوٹر ہے۔ کمپیوٹر کی ایجاد نے دنیا بھر میں ترقی کے کئی باب کھول دیے ہیں۔ اس سے فاصلے سمٹ گئے ہیں اور دنیا گلوبل ویلج کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔ کمپیوٹر نے جہاں کاروباری دنیا کے انداز بدل کر رکھ دیے ہیں، وہاں فکری انقلاب بھی اس انوکھی ایجادکے ساتھ آیا ہے۔ اس نے ہر طبقہ کے افراد کو متاثر کیا ہے۔ اس کی وجہ سے سب سے زیادہ جن کے افکار و اعمال میں تبدیلی آئی ہے وہ بچے اور نوجوان نسل ہے۔ بچے کمپیوٹر کے اتنے شوقین ہو چکے ہیں کہ سکول اوقات کے بعد ہر وقت کمپیوٹر پر بیٹھے نظر آتے ہیں، حالانکہ یہ عمر بچوں کی ہمہ تن اور یکسوئی کے ساتھ پڑھائی کی طرف متوجہ ہونے کی ہوتی ہے۔
کمپیوٹر نے بچوں کی اندرونِ خانہ (indoor) اور باہر کی (outdoor) مصروفیات کو ختم کر کے انہیں ایک کمرے میں تن تنہا بند ہونے پر مجبور کر دیا ہے، جس سے ان کی روحانی اور جسمانی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ والدین کو شعور ہونا چاہیے کہ اس وقت بچوں کو بہتر، مفید، بامقصد اور مہذب و شائستہ اقدار کی حامل تعلیم کی ضرورت ہے اور ہر اس مشغلہ یا مصروفیت سے گریز کرنا ہے، جو ان کے تعلیمی پروگرام پر اثر انداز ہوتا ہو۔ اگر غور کریں تو کمپیوٹر ہی وہ چیز ہے جو بچوں کی تعلیم پر نہ صرف اثر انداز ہوتا ہے بلکہ تعلیمی تنزل کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تباہی کا باعث بھی بنتا ہے۔
والدین کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ بچپن میں ہی بچوں کو مفید رہنمائی فراہم کریں اور انہیں کمپیوٹر سے جس قدر ممکن ہو دور رکھیں ، مگر ضرورت کے تحت سکول کی پڑھائی یا پریکٹیکل میں کمپیوٹر کے ذریعے ممکنہ حد تک بچوں کی بھرپور مدد کریں۔
جواب: انٹرنیٹ موجودہ زمانے کی سب سے اہم ایجاد ہے، جو انسان کی ترقی اور معلومات کی فراہمی کے لیے ناگزیر ہے۔ ہر چیز کا استعمال کارآمد تب ہی ہو سکتا ہے جب اسے استعمال کرنے والا اپنی استعداد اور اس کی افادیت کے اعتبار سے کام میں لائے۔ انٹرنیٹ کا مثبت اور تعمیری استعمال بلاشبہ مفید اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے بہت سے فوائد ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
انٹرنیٹ تیز ترین ذرائع مواصلات میں سے ایک ہے۔ اس کے ذریعے دنیا کے ایک حصے میں بیٹھا شخص سیکنڈ میں دنیا کے دوسرے کونے میں بیٹھے فرد سے دو ٹوک بات چیت کرسکتا ہے۔ اس کے ذریعے ہر فرد اپنے خیالات کا اشتراک اور دیگر ثقافتوں کو بھی دریافت کرسکتا ہے۔
انٹرنیٹ کا سب سے بڑا فائدہ معلومات کی فراہمی ہے، جس کے حصول میں صرف چند منٹ لگتے ہیں۔ انٹرنیٹ نہ صرف ہماری معلومات میں اضافہ کرتا ہے بلکہ ہمارا وقت بھی بچاتا ہے۔ اس کے ذریعے ای میل، تعلیم، اخبار و جرائد، بینکنگ، طب، سائنس، قرآن و حدیث، شریعت کے احکام و مسائل اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کی معلومات کو سمعی و بصری شکل میں حاصل کر سکتے ہیں۔
انٹرنیٹ تفریح کا بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے ذریعے بچوں کی من پسند گیمز اور کارٹون پروگرامز ڈاؤن لوڈ کیے جا سکتے ہیں۔
انٹرنیٹ آج کے دور کی ناگزیر ضرورت اور حصولِ علم کا اہم ذریعہ ہے۔ یہ جہاں اساتذہ کو دنیا بھر میں موجود طلباء سے کانفرنسنگ، آن لائن کورس بنا کر اپنے طلباء کو تحریری، صوتی اور تصویری شکل میں مواد بھیجنے اور ان کی رہنمائی کے مواقع فراہم کرتا ہے، وہاں طلباء کو دنیا بھر کے بہترین تعلیمی اداروں میں داخلہ لے کر گھر بیٹھے ڈگری حاصل کرنے کے قابل بھی بناتا ہے۔
انٹرنیٹ نے انسانی زندگی کو بہت سہل اور آسان بنا دیا ہے۔ اب آن لائن خدمات کے ساتھ آن لائن معاملات مثلاً کرنسی اور فنڈز کی منتقلی، ٹیکس اور ہر طرح کے بلز کی ادائیگی با آسانی کی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں انٹرنیٹ کے ذریعے ہر قسم کی سپر مارکیٹ، سٹور، ملبوسات، جیولری، گروسری اور جملہ شعبہ ہائے زندگی کی تقریباً تمام اشیاء قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی خریدی اور بیچی جاسکتی ہیں۔
دور حاضر میں انسان فیس بک، ٹویٹر، گوگل پلس، یوٹیوب اور یاہو کے بغیر آن لائن زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ، کیونکہ سوشل نیٹ ورک لاکھوں لوگوں کو ایک ساتھ مربوط کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
جواب: روز مرہ زندگی میں انٹرنیٹ کا استعمال جہاں انسان کو ترقی کی منازل طے کرنے میں مددگار اور معاون ثابت ہو رہا ہے، وہاں اس کا بے جا اور غلط استعمال اسے تنزلی اور انحطاط کا شکار کر رہا ہے۔ انٹرنیٹ کے جہاں بے شمار فوائد ہیں وہاں اس کے نقصانات بھی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
آن لائن بینک کاری، سوشل نیٹ ورکنگ یا دیگر خدمات کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کیا جاتا ہے، اس طرح کی ویب سائٹس کے ذریعے ذاتی معلومات کی چوری کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس طرح دوسرے لوگوں کی آپ کے ایڈریس اور کریڈٹ کارڈ نمبر وغیرہ تک رسائی حاصل ہوجاتی ہے۔ اس لیے اپنی ذاتی معلومات کی فراہمی احتیاط سے کی جانی چاہیے۔
انٹرنیٹ کی وجہ سے انسان معاشرے سے عملی طور پر کٹ جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ نیند میں کمی، ذہنی و جسمانی تھکاوٹ میں اضافہ اور تعلیمی استعداد میں کمی کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ جسمانی حالت کمزور ہونے کی وجہ سے جسم کی قوت مدافعت میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے ۔
انٹرنیٹ کا بے جا استعمال انسان کی شخصیت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ خاص طور پر سنِ بلوغت کے وقت بچوں میں مختلف چیزوں کے بارے میں تجسس پایا جاتا ہے اور اسی تجسس میں وہ اپنی پہچان اور حقیقی شخصیت کھو بیٹھتے ہیں۔ اس طرح ان کی شخصیت کی خصوصیات انٹرنیٹ کے ذریعے جاتی رہتی ہیں۔ اس کا ایک اور نقصان حب الوطنی میں کمی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ایسے افراد دوسروں کی ثقافتوں سے متاثر ہوکر اپنی روایات کو بھلا بیٹھتے ہیں اور آگے چل کر اپنے وطن سے غداری کے مرتکب بھی ہو سکتے ہیں۔
انٹرنیٹ کے بے جا استعمال سے بچے خود اعتمادی کے فقدان کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان میں عجیب و غریب اور غیر متوقع قسم کا برتاؤ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایسے افراد بہت جلد کسی کے ساتھ انٹرنیٹ دوست بن جاتے ہیں اور جلد ہی اس سے خفا بھی ہوجاتے ہیں۔ یہی کیفیت پھر ان کی حقیقی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
نو عمر بچے اور بچیوں کو انٹرنیٹ کے استعمال میں نہایت محتاط رہنا چاہیے کیونکہ اس عمر میں کم علمی اور سادگی کے باعث جرائم پیشہ افراد چیٹ روم میں دوست بن جاتے ہیں۔ اس دوستی میں ناسمجھ بچے اور بچیاں اپنے نجی راز، ذاتی ویڈیوز اور تصاویر اعتماد کے ساتھ ان کے حوالے کردیتے ہیں، جو بعد میںبدنامی کا باعث بنتی ہیں۔
الغرض انٹرنیٹ آج کے دور کی اگرچہ ناگزیر ضرورت اور حصول علم کا بہترین ذریعہ ہے اور اس سے دور رہنا بھی ممکن نہیں، تاہم اس کے استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے سے نہ روکیں بلکہ اس کے لیے ایک مخصوص وقت مقرر کر دیں۔ کمپیوٹر کو living room میں رکھیں جہاں بچوں کی تمام مصروفیات ان کے سامنے ہوں۔ بچوں کے پاس بیٹھ کر مطلوبہ معلومات ان کے ساتھ مل کر سرچ کریں۔ چیٹنگ جیسے فضول کام میں وقت برباد نہ کرنے دیں اور بچوں کو اسلامی ویب سائٹس پر موجود فہم قرآن اور فہم حدیث کے متعلق کتب پڑھنے کی طرف راغب کریں۔
جواب: کمپیوٹر زیادہ تر انٹرنیٹ چیٹنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کمپیوٹر پر انٹرنیٹ کے ذریعے بچے دوسرے لوگوں سے رابطہ کر کے دوستی کرتے ہیں اور پھر ہر وقت ان کے ساتھ باتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ چیٹنگ تین طرح سے ہوتی ہے:
1۔ ٹیکسٹ چیٹنگ (text chatting)
اس میں الفاظ لکھ کر دوسرے فرد کو بھیجے جاتے ہیں، اس طرح وہ بھی کمپوز کر کے چند الفاظ یا جملوں کی صورت میں اپنا جواب پہلے فرد کے پاس ٹیکسٹ (حروف و الفاظ کی صورت میں) بھیجتا ہے۔ یہ اس کا دوبارہ جواب دیتا ہے یوں یہ سلسلہ مسلسل چلتا رہتا ہے۔
2۔ وائس چیٹنگ (voice chatting)
اس میں ایک فرد ہیڈ فون کے ذریعے دوسرے فرد کی ٹیلی فون کی طرح آواز سنتا ہے اور پھر بغیر کسی رکاوٹ یا انتظار کے اسے جواب دیتا ہے۔
3۔ ویڈیو چیٹنگ (video chatting)
اس میں ایک فرد دوسرے فرد کو اپنے ساتھ کمپیوٹر کی سکرین پر گفتگو کرتے دیکھتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کیسے اس سے گفتگو کر رہا ہے۔ گویا دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے باہمی ملاقات اور گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ اس آمنے سامنے بیٹھ کر ہونے والی گفتگو میں اکثر کئی کئی گھنٹے یا ساری رات گزر جاتی ہے لیکن وقت گزرنے کا دونوں کو احساس تک نہیں ہوتا۔
چیٹنگ سے بچوں کی یادداشت اور جسمانی نشو و نما پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ ذہنی و نفسیاتی امراض اور بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کریں، انہیں چیٹنگ کا عادی ہونے سے بہر صورت بچائیں تا کہ کہیں وہ کسی ظالم کے شکنجے میں نہ پھنس جائیں۔ والدین کی غلط پلاننگ کی وجہ سے اگر بچہ انٹرنیٹ کلب پہنچ گیا تو وہاں بچے کی دوستی غلط افراد سے ہو جائے گی۔ یہ لوگ اسے کمپیوٹر کے غلط استعمال میں ماہر بنا دیں گے جس سے وہ اخلاقی طور پر تباہ ہو جائے گا۔
اگر بچے ضد کریں کہ وہ چیٹنگ تعلیمی ضرورت کی وجہ سے کرتے ہیں تو گھر میں کمپیوٹر موجود ہونے کی صورت میں والدین اپنی نگرانی میں بچوں کو مطلوبہ مقصد کے لیے کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت دیں اور جونہی مقصد پورا ہوجائے تو کمپیوٹر بند کردیں۔ گاہے بہ گاہے والدین کمپیوٹر چیک کرتے رہیں کہ ان کے بچوں کا کسی کے ساتھ چیٹنگ کے ذریعے رابطہ تو نہیں۔ ان تمام باتوں کی نگرانی اور بچوں کو رہنمائی کرنا والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔
جواب: جی ہاں! کہانیاں بچوں کی تربیت کا اہم ذریعہ ہوتی ہیں۔ والدین بچوں میں جو اوصاف پیدا کرنا چاہتے ہیں، کہانیاں وہ اوصاف بچے کو ذہن نشین کرانے کا بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ اچھے اخلاق، بہترین فضائل اور عمدہ عادتیں کہانی کے ذریعے بچوں میں بخوبی پیدا کی جاسکتی ہیں۔ یہ مذہبی تعلیم کا بہترین ذریعہ ہیں۔ احادیث رسول ﷺ ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دوسرے برگزیدہ اشخاص کے پاکیزہ حالات دلچسپ انداز میں سنائے جائیں تو بچے از خود اپنے لئے اچھائی کا راستہ متعین کر لیتے ہیں۔
یوں تو بچہ پیدائش کے وقت ہی سے خاص صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے لیکن والدین ان صلاحیتوں کی نشو و نما میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک بچہ کھلونوں کی مرمت کا شائق ہو تو والدین اس بچے کی صلاحیتوں کو پھلنے پھولنے کے مواقع دے کر اسے بہترین انجینئر بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر والدین چاہتے ہیں بچہ کسی خاص چیز میں دلچسپی لے مثلا والدین اسے پائلٹ بنانا چاہتے ہیں مگر بچے کو اس سے دلچسپی نہیں۔ اس صورت میں کہانیاں ترغیب کا بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ والدین جب پائلٹ کی زندگی کو دلچسپ کہانیوں کی صورت میں بچے کے سامنے پیش کریں گے تو وہ از خود اس زندگی میں دلچسپی لے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ بچے کو ایسی چیزیں بھی مہیا کی جانی چاہئیں جن سے وہ کہانی کے کرداروں کو بخوبی سمجھ سکے مثلا دینی زندگی بنانے کے لئے اسے مسجد کے ماحول میں لے جائیں۔ گھر کا ماحول دینی بنائیں اور بچے کو اسلامی کتابیں فراہم کریں۔
جدید طریقہ تعلیم میں نتیجہ خیز کہانی سنانے کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے بچوں کو دلچسپ، پاکیزہ اور سبق آموز کہانیاں خود منتخب کرکے فراہم کرنی چاہئیں۔ اس سے ان کی اخلاقی تربیت کرنے میں مدد ملتی ہے۔
جواب: ہرگز نہیں! بچوں کو عمر کے اس نازک اور حساس مرحلے پر موبائل استعمال کرنے کی اجازت ہر گز نہیں دینی چاہیے۔ کم عمری کا دور بچوں کی خصوصی نگہداشت اور تربیت کا تقاضا کرتا ہے۔ یہی وہ عمر ہوتی ہے جس میں کسی بھی بچے کے بگڑنے اور سدھرنے کے یکساں امکانات ہوتے ہیں۔
بچوں کی تفریح کے لیے والدین کو چاہیے کہ وہ موبائل کی بجائے بچوں کو tab اور iPAD لے کر دیں۔ اور اس میں ایسیApps اِنسٹال کریں جن پر بچے اچھی گیمز، معیاری کارٹون اور تاریخی فلمیں دیکھ سکیں۔ اس کے علاوہ بلاکس، عمارتیں اور دیگر تعمیراتی (Architectural) چیزیں مثلاً مساجد، گھر، دریا وغیرہ بنا سکیں۔ نیز tab اور iPAD کیApps کو پروفیشنلی بلاک کروا دیں تاکہ بچے لغویات بالکل نہ دیکھ سکیں۔
رات کو سونے سے پہلے والدین بچوں کا tab / iPAD وغیرہ اپنے پاس رکھیں اور بچوں کو اپنے ساتھ بیڈ روم میں لے جانے کی اجازت ہر گز نہ دیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved