جواب: والدین اپنے بچوں کو درج ذیل طریقوں پر عمل کرتے ہوئے احساسِ کمتری سے بچا سکتے ہیں:
بچپن میں کچھ بچے انتہائی خاموش اور سہمے سہمے سے رہتے ہیں۔ بچپن کا شوخ اور چُلبلا پن جو بچوں کی فطرت ہے، ان میں مفقود ہوتا ہے۔ وہ کسی کے سامنے بولنے سے گھبراتے اور ہچکچاتے ہیں۔ وہ اپنے ہم عمر بچوں سے بھی صحیح طریقے سے بات نہیں کر پاتے۔ یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ وہ بچے احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں۔
عموماً بچوں میں یہ احساس اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انہیں مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے، مثلاً جب ایک بچے کو دوسرے پر ترجیح دی جاتی ہے۔ جب کسی دوسرے بچے کی طاقت اور ذہانت سے اس کا موازنہ کیا جاتا ہے اور اس کی کمزوری کا بھرپور اظہار کیا جاتا ہے۔ بچے کو بار بار یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ فلاں بچہ خوب صورتی، ذہانت اور قوت میں اس سے بڑھ کر ہے۔ اس طرح وہ بچہ اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلے میں کم زور اور کم تر سمجھنے لگتا ہے۔
والدین کو بچوں کا کسی بھی دوسرے بچے سے موازنہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔ اگر کسی بچے میں جسمانی نقص ہو یا وہ ذہنی طور پر کمزور ہو تو بجائے اس کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ معذور یا کمزور ہے، بلکہ اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اسے ایسے لوگوں کے واقعات سنانے چاہئیں، جنہوں نے معذوری اور کمزوری کے باوجود دنیائے علم میں اپنا نام پیدا کیا ہے۔
مثال کے طور پر ’’مقامات‘‘ عربی ادب کی ایک بے مثل کتاب ہے اس کے مصنف ابو تمام بظاہر خوبصورت نہیں تھے لیکن اپنے علمی کارنامے کی وجہ سے ان کی شخصیت کا یہ پہلو کسی کو نظر نہیں آیا اور آج تک ان کا نام عربی ادب میں احترام سے لیا جاتا ہے۔ اسی طرح مصر کے مشہور عالم، مصنف اور وزیر طٰہٰ حسین نابینا تھے۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبداللہ بن عبدالعزیز بن باز نابینا ہیں۔ بلب کے مؤجد مشہورسائنس دان اڈیسن بہرا تھا۔
احساس کمتری پیدا ہونے کی ایک وجہ حسد بھی ہے۔ بچہ جب کسی کو طاقتور دیکھتا ہے اور خود کوشش کے باوجود اتنی طاقت کا مظاہرہ نہیں کر سکتا، اسی طرح کسی کے اندر کوئی خوبی اپنے سے بڑھ کر دیکھتا ہے تو اس سے حسد کرنے لگتا ہے۔ یہیں سے احساسِ کمتری کی ابتدا ہوتی ہے۔
والدین کو چاہیے کہ بچے کو حسد سے بچانے کے لیے حکمت اور تدبر سے کام لیں اور انہیں ایسی آیات اور احادیث سنائیں جن میں حسد کی مذمت اور ممانعت کا ذکر ہو۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَدَّکَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ م بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا ج حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ مِّنْ م بَعْدِ مَاتَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ ج فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْاحَتّٰی یَاْتِیَ اللهُبِاَمْرِهٖ ط اِنَّ اللهَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo
البقرة، 2: 109
بہت سے اہلِ کتاب کی یہ خواہش ہے تمہارے ایمان لے آنے کے بعد پھر تمہیں کفر کی طرف لوٹا دیں، اس حسد کے باعث جو ان کے دلوں میں ہے اس کے باوجود کہ ان پر حق خوب ظاہر ہو چکا ہے، سو تم درگزر کرتے رہو اور نظرانداز کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے، بے شک اللہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔
حدیث مبارکہ میں ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِیَّاکُمْ وَالْحَسَدَ، فَإِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ.
حسد سے بچتے رہنا کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا تَنَافَسُوا وَلَا تَحَاسَدُوا.
مال و دولت کی حرص میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو اور نہ آپس میں حسد کرو۔
بچوں کو کچھ ایسے آزادانہ کام ضرور دیے جائیں، جن سے ان میں خود اعتمادی اور جرأت پیدا ہو۔ والدین کو ان کی قوت ارادی کو پروان چڑھانے کے لیے اگر تھوڑا بہت مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑے تو کر لینا چاہیے۔
مثال کے طور پر بچے کو کھلونے لا کر دیے جائیں۔ بچہ ان کھلونوں کو مختلف زاویوں سے دیکھتا ہے ان کے پیچ پرزے کھولتا اور اُن سے مختلف تجربات کرتا ہے۔ اس صورتِ حال میں والدین کو صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچے کو روکنے اور ٹوکنے کی بجائے اسے ایسا کرنے کی آزادی دینی چاہیے۔ اس سے بچے کی تجرباتی صلاحیت بھی پروان چڑھے گی۔ اگر اس وقت بچے کو ڈانٹ دیا جائے تو وہ وقتی طور پر رک جائے گا مگر اس کی خود اعتمادی مجروح ضرور ہو گی۔
اسی طرح بچوں میں کبھی کبھار احساس کمتری اس وجہ سے بھی پیدا ہوتا ہے کہ والدین حد سے زیادہ ان کے کاموں میں مداخلت کرتے ہیں اور انہیں آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں مل پاتا۔ اس وجہ سے آہستہ آہستہ بچوں کی عادت پختہ ہو جاتی ہے اور وہ کوئی کام تنہا نہیں کر پاتے۔ جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو ان کے پاس اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا حوصلہ نہیں ہوتا اور وہ دوسروں کے دست نگر اور محتاج ہوتے ہیں۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی نگرانی ضرور کریں، لیکن ان کے کام میں جہاں تک ممکن ہو خود کو دور رکھیں اور انہیں ترغیب دیں کہ وہ اپنا کام خود مکمل کریں۔ اس طرح ان میں خود اعتمادی بھی پیدا ہو گی اور وہ کوئی بھی کام کرتے وقت احساس کمتری کا شکار بھی نہیں ہوں گے۔
بعض بچے والدین کی محبت و شفقت سے محرومی کی بنا پر بھی احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے والدین سے بجا طور پر محبت کی توقع رکھتے ہیں اور جب ان کی توقع پوری نہیں ہوتی تو ان میں جھنجلاہٹ پیدا ہونا فطری بات ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ عملی زندگی میں انہیں پیار، محبت اور اپنے ساتھ ہونے کا یقین دلائیں۔
جواب: بچوں کو درج ذیل وجوہات کی بنا پر غصہ آتا ہے اور دی گئی ہدایات پر عمل کر کے ان کے غصے پر قابو پایا جا سکتا ہے:
1۔ بچوں کی شخصیت میں بگاڑ پیدا کرنے والی عادات میں سے ایک بچے کا غصہ کرنا ہے۔ عام طور پر بچے کو غصہ اس وقت آتا ہے جب وہ کچھ کرنا چاہتا ہے اور کوئی اس میں رکاوٹ ڈال دے۔ ایسی حالت میں بچہ جھنجلا جاتا ہے اور غصے کا اظہار کر کے اپنی شکست کا اعتراف کر لیتا ہے یا پھر اپنی بات منوانے کے لیے ضد کرنا شروع کر دیتا ہے۔
بچے کے غصے کو رفع کرنے کے لیے اسے وہ کام خوشی خوشی کرنے دینا چاہیے۔ اس سے بچے میں غصیلا پن پیدا نہیں ہو گا۔ اگر پھر بھی کسی بات پر بار بار بچے کو غصہ آئے تو اس کے محرکات کا پتا لگا کر انہیں دور کیا جائے اور بچے کو ہر ممکن پیار اور شفقت سے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔
2۔ بچے کو اس وقت بھی غصہ آتا ہے جب وہ کوئی بات کہنا چاہتا ہے مگر مخاطب اس کی بات سننا نہیں چاہتا یا پھر اسے سمجھ نہیں پاتا۔ ایسے مواقع پر بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تحمل اور بردباری سے کام لیں اور اس کی بات کو توجہ سے سن کر سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس سے بچہ غصہ کرنے سے گریز کرے گا۔
3۔ بعض اوقات بیماری یا کمزوری کی وجہ سے بھی بچے میں چڑ چڑا پن آ جاتا ہے۔ وہ طرح طرح کی خواہشات کا اظہار کرتا ہے جن کی تکمیل بعض اوقات اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ وہ معمولی سی بات پرخفا ہو جاتا ہے۔ دراصل بچہ تکلیف کی وجہ سے محبت کا زیادہ متمنی ہوتا ہے، اس لیے بچے کے ساتھ محبت سے پیش آنا چاہیے۔ اس سے بچے کے غصے اور چڑ چڑے پن پر جلد ہی قابو پایا جا سکتا ہے۔
اگر بچے کو کھیل کود کے بہتر مواقع میسر نہ آئیں، اسے اچھے دوستوں کا ساتھ نہ ملے تو بچہ اپنی ہی دنیا میں مگن رہنے لگتا ہے۔ پھر اسے اپنے معاملات میں دوسروں کی دخل اندازی ناگوار گزرتی ہے۔ ایسی صورت میں بچے کو کھیل کود کے مواقع، دلچسپ مشاغل اور دوست احباب فراہم کرنے چاہئیں تاکہ بچے کا ذہن محو بالذات ہونے کی بجائے دوسرے مشاغل میں مشغول رہے۔
جواب: بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے درج ذیل نکات مدد گار ثابت ہوتے ہیں:
1۔ بچے کو احساس دلایا جائے کہ وہ نہایت پیارا اور اچھا بچہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے اچھے کاموں کی توصیف و ستائش کی جائے۔ مثال کے طور پر جب وہ بھائی کو اپنے کھلونوں میں سے سب سے اچھا کھلونا کھیلنے کے لیے پیش کرتا ہے تو اس موقع پر یوں کہا جائے: ’’بیٹا! آپ بہت ہم درد، بلند ہمت اور باوقار ہیں۔‘‘
2۔ جہاں تک ممکن ہو سکے والدین اپنے بچے کے لیے خوبی اور نفاست کے اسباب مہیا کرنے کی کوشش کریں اور اسے یوں کہیں: ’’بیٹا! آؤ اور یہاں بیٹھ کر کھیلو۔‘‘ بجائے اس کے کہ اسے کہیں: ’’اپنے بھائی سے دور ہو کر بیٹھو۔‘‘
3۔ والدین بچے سے جب کسی مخصوص اور متعین کام میں معاونت چاہ رہے ہوں تو انہیں چاہیے کہ وہ اس کے سامنے اپنے مقصد کی خوب وضاحت کر دیا کریں۔ اسے یوں نہ کہیں کہ ’’کھلونوں سے راستہ بند ہو جاتا ہے‘‘ بلکہ اسے کہیں: ’’بیٹا! اپنے تمام کھلونوں کو اکٹھا کر کے راستے سے دور کسی خاص جگہ پر رکھ کر احسن انداز سے کھیلو۔‘‘
4۔ موقع کی مناسبت سے بچے کا شکریہ ادا کرنا بھی والدین کی ان کوششوں کو بار آور کرتا ہے، جو وہ بچے کے اعتماد کو مضبوط کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ اس طریقہ سے بچے میں فہم و فراست آتی ہے اور اسے دوسرے لوگوں کا شکریہ ادا کرنے کا فن آ جاتا ہے۔
5۔ بچہ قاعدے، قانون اور واضح نظم و ضبط کا محتاج ہوتا ہے تاکہ اسے تحفظ کا احساس رہے، لہٰذا والدین بچے سے جس قسم کے اخلاق و کردار اور معاملات کو پسند کرتے ہوں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اس کے لیے واضح حدود کا تعین کریں اور قواعد و ضوابط کے متعلق بچے کی خوب نگہداشت کریں تاکہ بچے کا ذہن انتشار کی طرف مائل نہ ہو سکے۔
6۔ بچے سے جب کوئی غلط کام صادر ہو جائے تو اسے ملامت نہ کیا جائے اور نہ اسے کسی بُرے لقب سے نوازا جائے۔اس کے غلط رویے پر تنقید ضرور کی جائے مگر اس کی عزت نفس ہرگز مجروح نہ کی جائے۔
7۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچے کوبتائیں کہ انسان غلطی کا پتلا ہے اور اپنے متعلق بھی یہ بتائیں کہ ہم سے بھی بعض اوقات غلطی صادر ہو سکتی ہے۔ وہ اس طرح کہ والدین بعض اوقات جلد بازی میں اپنے بچے کے کسی کام پر تنقید کرتے ہیں، حالانکہ وہ کام بچے نے نہیں کیا ہوتا تو والدین کو بچے کے سامنے اپنے اس فعل پر معذرت کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
جواب: خود اعتمادی سے بچے کی شخصیت کا ڈھانچہ کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ ذاتی اعتماد کا مطلب بچے کی صلاحیتوں کا اعتراف اور یقین ہوتا ہے۔ یہ اسلامی تربیت کی اہم ترین بنیاد ہے جس پر اعلیٰ اخلاقی اقدار کی عمارت قائم ہے اور ہر انسان اس کا اعتراف کرتا ہے۔ جو والدین اپنے بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں ان میں درج ذیل خصوصیات پیدا ہوتی ہیں:
جس بچے کو اپنے والدین کے اعتماد و یقین کا شعور حاصل ہو جاتا ہے، اس کا حوصلہ بلند ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اپنی دلیری اور بلند ہمتی کے ذریعہ سے اپنے آپ کو نمایاں کرنے کا طریقہ بھی سیکھ لیتا ہے۔
خود اعتمادی بچے کے اندر اپنی عزت و توقیر کا احساس اور خاندانی اقدار و روایات پر فخرکے جذبات کو پیدا کرتی ہے۔ عزت کا شعور بچے کے اندر ایک پس منظر کھڑا کر دیتا ہے جو بچے کو اصولوں پر قائم رہنے کی ترغیب دلانے کا باعث بنتاہے حتیٰ کہ وہ پورے فخر اور قوت کے ساتھ ان کا دفاع کرنے والا بن جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اسے اصولوں پر ثابت قدم رہنے اور بے راہ روی کی تمام ترغیبات کے مقابلے میں مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہی عزت و احترام بچے کو بے راہ روی کے افکار و نظریات کے سامنے حرفِ انکار کہنے کی جرأت سے ہم کنار کرتا ہے اور ان اصولوں کی خاطر قیادت اور قربانی کے جذبے سے بہرہ ور کرتا ہے، جسے وہ اپنی عزت اور قوت کا سرچشمہ تصور کرتا ہے۔
اعتماد اور یقین بچے کو ایک مستقل ذمہ داری کا احساس دلاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ مسلسل گرد و پیش سے ملنے والی عزت و توقیر کے تحفظ کی ذمہ داری کو اہمیت دینے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر سفر پر روانہ سے پہلے بچے کے لئے باپ کی طرف سے بولے جانے والے صرف ایک جملہ ’’بیٹا مجھے آپ پر مکمل اعتماد ہے اور اس کے ساتھ ہی مجھے آپ کے تمام معاملات پر بھی مکمل بھروسہ ہے‘‘ سے یہ مقابلتاً اس بچے سے بہت زیادہ اچھا معاملہ کرے گا جسے سینکڑوں خوف دلانے والی نصیحتوں اور دھمکیوں کا سامنا ہوتا ہے۔
جو بچہ اپنے خاندان کے اعتماد سے مالا مال ہوتا ہے وہ سچائی کا پیکر ہوتا ہے۔ وہ صاف اور واضح بات کو اپنی زندگی کے روز مرہ کا طرز عمل بنا لیتا ہے۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ سچائی ہی اسے اس کے ساتھ محبت کرنے والوں کا قرب عطا کرے گی اور کسی بھی وقت وہ ان سے دور نہ ہونے دے گی۔ نیز اسے یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ سچائی ہی والدین کے ہاں محبت اور پسندیدگی کا ذریعہ ہے جبکہ اس کے مدمقابل ایسا بچہ جسے اپنے والدین کا اعتماد حاصل نہیں ہوتا وہ ہر وقت غلط بیانی کا سہارا لیتا اور معاملات کو چھپانے پر مجبور ہوتا ہے۔
جو بچہ کسی خوف اور دباؤ کے بغیر گفتگو کرتا ہے صحیح معنوں میں اسے ہی اپنے احساسات و جذبات اور افکار کے بہتر اظہار کی قدرت حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اسے اپنے گرد و پیش کے افراد کی توجہ اور ان کا اعتماد حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ میل جول اور گفتگو کی بہترین مہارتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے۔
بچے کے متعلق دوسرے لوگوں کے سامنے مسلسل فخر اور اعزاز کے اظہار سے بھی بچے کا اعتماد مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے اور یہ اس کے لئے معاشرے کے ساتھ گھل مل جانے اورتعلق مضبوط کرنے کا ایک مثبت ذریعہ بن جاتا ہے۔ یہ یقینی بات ہے کہ جو بچہ اپنے خاندان کے اعتماد اوریقین سے بہرہ ور ہوتاہے وہی اپنے اچھے رویے اور اپنے گھر سے سیکھے گئے اعلیٰ اخلاقی اقدار کی روشنی میں معاشرے کے اعتماد اور یقین کو حاصل کرلیتا ہے۔
جواب: والدین کا کردار صرف اس حد تک محدود نہیں ہے کہ وہ بچے کو رہائش، کپڑے اور اس کی دیگر ضروریات فراہم کریں، بلکہ بچے کی نشو و نما کے مراحل میں اسے زندگی کے لیے درکار مناسب اور عمدہ معاملات کی فراہمی سے زیادہ محبت اور خاندان کے ساتھ نسبت اور ربط کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے کو اپنی قدر ومنزلت کا شعور بھی بہت حد تک اس کے خاندان کے ساتھ رشتے اور تعلق کی ضرورت کی تکمیل پر موقوف ہوتا ہے۔
بچے کی تربیت کے لحاظ سے خاندان سے ربط اور تعلق کو فروغ دینا ایک اہم انسانی ضرورت ہے جو بچپن سے ہی بچے کو لاحق ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے بچہ خود کو اپنے خاندان کا ایک ممبر تسلیم کیے جانے کا حق دار ٹھہرتا ہے۔
بچے کو جس قدر اپنے خاندان کے ساتھ ربط اور تعلق کا شعور حاصل ہوتا ہے وہ اسی قدر مطمئن رہتا ہے۔ یہ دین، وطن اور ان اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کے رشتے ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنے خاندان کے ذریعے سے ہی حاصل کرتا ہے۔
بچے کو اپنے اردگرد کی اشیاء کے ساتھ نسبت کا شعور اس کی پیدائش کے لمحے ہی سے ہو جاتا ہے اور یہ احساسات بتدریج اس کے علم و فہم کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ مضبوط، وسیع اور قوی ہو جاتے ہیں اس لیے کہ خاندان کے ساتھ ربط و تعلق کا شعور انسانی تخلیق کے اندر پیوستہ ہے۔
خاندان کے ساتھ ربط و تعلق کی ضرورت اس آسودگی کی وجہ سے ہوتی ہے جو بچے کو اپنے والدین سے نصیب ہوتی ہے۔ پھر بچہ خاندان سے ربط کے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں اور ہم نشینوں کو اپنے ساتھ شامل کرتا چلا جاتا ہے، پھر وہ معاشرے اور پوری انسانیت کو اپنے ساتھ جوڑ لیتا ہے۔ اس لیے کہ دوسروں کے ساتھ تعاون اور ہمدردی کے احساسات اسے بچپن سے ہی مل چکے ہوتے ہیں۔ بچے کے اندر اس کے مستقبل کے پائیدار تعلقات کے بیج شروع دن ہی سے بو دینے سے بچہ مطمئن رہتا ہے اور وہ سکون محسوس کرتا ہے۔
جواب: والدین کی محبت، تعریف اور حوصلہ افزائی بچوں کے دلوں میں اطمینان و آسودگی پیدا کرتی اور انہیں پسندیدہ اور محبوب ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ دن میں کتنے ہی چھوٹے چھوٹے ایسے کام ہوتے ہیں جس کی وجہ سے والدین بچوں سے محبت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پربات کرتے ہوئے لب و لہجہ مسکراہٹ آمیز بنانا، بچے کو نزدیک بلا کر پیار کرنا اور اس سے شیریں انداز سے محبت بھری باتیں کرنا وغیرہ شامل ہے۔ اس سے بچوں کو دن بھر والدین کی محبت کا احساس ہوتا رہتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ والدین بچوں کو باقاعدہ قریب بلا کر براهِ راست ان سے محبت کا برتاؤ کریں بلکہ وہ اپنے کسی بھی طرزِ عمل سے بچے سے اپنی محبت کا اظہار کر سکتے ہیں۔
ہر بچہ یہی چاہتا ہے کہ میرے والدین مجھ سے بے پناہ محبت کریں اور میرے ہر کام پر تعریف اور حوصلہ افزائی کریں۔ بچہ اپنی پرورش کی ابتدا ہی سے کسی نہ کسی کام کو سر انجام دینے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی وہ اس کوشش میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے اور کبھی وہ ناکام رہتا ہے، لہٰذا والدین کو بچوں کی ہر کوشش پر حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر ناکامی کو بھی ایک طرح کی کامیابی اور تکمیل کی طرف بڑھنے والا ایک قدم سمجھنا چاہیے۔ بچہ جس کام کے لیے کوشش کر رہا ہو تو اس دوران اس کی سعی کو رائیگاں نہیں قرار دینا چاہیے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں میں بے اعتمادی اور اپنی امیدوں میں ناکامی کے احساس میں مبتلا نہ ہو جائے۔ ناکامی درحقیقت کامیابی کی طرف بڑھتا ہوا قدم ہوتا ہے اور ناکامی سے بچے کو کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ضرور ملتا ہے۔
تعریف، حوصلہ افزائی اور محبت میں سب سے زیادہ اولیت بچوں کی کامیابیوں کو دی جانی چاہیے خواہ وہ کامیابی والدین کی نظر میں کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ وہ کامیابی بچے کی ذاتی صلاحیتوں کے اعتبار سے بہت بڑی ہوتی ہے۔ اگر والدین موقع کی مناسبت سے تعریف اور حوصلہ افزائی کا مظاہرہ کریں گے تو یہ حد درجہ بہترہو گی۔ اس لیے کہ کسی بھی کام کی تکمیل کا نظارہ عام طور پر اپنے ساتھ مسرت کے احساسات کو بیدار کر دیتا ہے۔ اس اعتبار سے بچے کو بامقصد کلمات کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے ان خصوصی لمحات کی بہت اہمیت ہوتی ہے تاکہ محبت اور حوصلہ افزائی کے ان کلمات کے ذریعے وہ اپنی پوری زندگی میں ایک نئے جذبے سے سرشار ہو سکیں۔
جواب: جی نہیں! تحائف بچوں کے لیے والدین کی محبت کا نعم البدل کبھی نہیں ہو سکتے۔ بچے کو مادی تحائف سے زیادہ والدین کی محبت و شفقت سے لبریز جذبات میں رچی بسی گرم جوشی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچہ چاہتا ہے کہ اسے والدین کی محبت، شفقت اور توجہ میسر ہو۔ وہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کے اور والدین کے جذبات و احساسات کا دو طرفہ تبادلہ ہو اور والدین اس کی خوشی سے اور وہ ان کی خوشی سے فرحت، اطمینان اور آسودگی محسوس کرے کیونکہ جہاں محبت سے سکون اور اطمینان کے ساتھ رشتوں میں استحکام پیدا ہوتا ہے وہاں بچے کے اپنے متعلق ناپسندیدہ ہونے کے خیالات اور اندیشوں کا بھی خاتمہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بچے کے لیے کسی قسم کے مادی تحائف والدین کی محبت کا نعم البدل قرار نہیں پا سکتے۔
جواب: جی ہاں! والدین کو اپنے بچوں سے محبت کا اظہار کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے بچوں کو اطمینان، راحت اور قلبی سکون نصیب ہوتا ہے۔ انہیں محبت کے کلمات یہ باور کراتے ہیں کہ وہ اس دنیا میں اکیلے نہیں ہیں۔ اس سے والدین بچوں کو اہمیت دیتے اور انہیں اپنی ذاتی عزت و وقار کی سربلندی کا احساس دلاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں راحت اور اطمینان سے آشنا کرتے ہیں۔
والدین کے پاس بہت سارے ایسے لمحات موجود ہوتے ہیں جن میں وہ اپنے بچوں سے محبت کا اظہار کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر گھر میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت، صبح سویرے، سونے سے پہلے اور اسی طرح اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھانے سے پہلے وغیرہ۔ جب والدین بچوں سے اپنی محبت کا اظہار کریں گے تو وہ حد درجہ خوش ہوں گے اور ان کے چہرے گلاب کی طرح کھل اٹھیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ اس کے بدلے میں والدین سے بھی محبت کریں گے اور اس جذبۂ محبت کے ذریعہ سے ان کی تربیت بھی با آسانی ہوگی۔
حدیث مبارکہ میں بچوں سے محبت کا اظہار کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
دَخَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ عَلٰی أَبِي سَیْفٍ الْقَیْنِ، وَکَانَ ظِئْرًا لِإِبْرَاهِیمَ e، فَأَخَذَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِبْرَاهِیمَ فَقَبَّلَهٗ وَشَمَّهٗ.
ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ابو سیف لوہار کے پاس گئے۔ وہ (آپ ﷺ کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم e کی دایہ کے شوہر تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے (اپنے شہزادے) حضرت ابراہیم e کو اٹھا کر بوسہ لیا اور سونگھا۔
بعض والدین یہ گمان کر کے غلطی کرتے ہیں کہ اگر وہ اپنے بچوں کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کریں گے یا ان کا بوسہ لے لیں گے تو ایسا کرنے سے ان کا اپنے بچوں کے ہاں مقام و مرتبہ گر جائے گا، نہ صرف یہی بلکہ ان پر گرفت بھی کمزور ہوجائے گی۔
بعض والدین اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں پیار اور بوسہ تو ضرور دیتے ہیں لیکن جیسے ہی ان کے بچوں کا شعور و ادراک بڑھنے لگتا ہے تو والدین ان کے سامنے محبت کی علامات مثلاً ان کو بوسہ دینے، گلے لگانے اور ان کے سامنے محبت کے زبانی اظہار سے کلیتاً رک جاتے ہیں۔
ان دونوں قسم کے والدین بہت زیادہ غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اس لیے کہ محبت کے اظہار سے والدین کا مرتبہ اپنے بچوں کے ہاں بلند سے بلند تر ہوتا ہے۔ والدین جب بچوں کو محبت کا احساس دلاتے ہیں تو بچے زیادہ فرمانبرداری کرنے اور انہیں راضی رکھنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔
حدیث مبارکہ کی روشنی میں بچوں سے محبت نہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہوجاتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
قَدِمَ نَاسٌ مِنَ الْأَعْرَابِ عَلٰی رَسُولِ اللهِ ﷺ ۔ فَقَالُوا: أَتُقَبِّلُونَ صِبْیَانَکُمْ؟ فَقَالُوا: نَعَمْ۔ فَقَالُوا: لٰکِنَّا، وَ اللهِ! مَا نُقَبِّلُ۔ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : وَأَمْلِکُ إِنْ کَانَ اللهُ نَزَعَ مِنْکُمُ الرَّحْمَۃَ؟
رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کچھ دیہاتی لوگ آئے اور انہوں نے عرض کیا: کیا آپ لوگ اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہو؟ حاضرین نے کہا: جی ہاں! انہوں نے کہا: بخدا! ہم تو اپنے بچوں کو بوسہ نہیں دیتے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل سے رحمت نکال لی ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں؟
بچوں کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے ان کے ساتھ محبت اور پیار بھری گفتگو کو ایک بنیادی تربیتی ضرورت کا درجہ حاصل ہے، جس کے ذریعے والدین بچوں کو منظم زندگی گزارنے کا فن سکھا سکتے ہیں۔
جواب: ہر خاندان کے بچوں کا آپس میں جھگڑنا فطری بات ہے اور گھر میں بچوں کے مابین ہونے والے جھگڑے میں کسی ایک کی حد سے زیادہ حمایت کرنا گھریلو ماحول کو خراب کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اس عمل سے دوسرے بچوں کے دل میں بیزاری اور نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر بچوں کے درمیان مسلسل رقابت نظر آئے تووالدین کو بچوں کے جھگڑوں کا احتیاط اور حقیقت پسندی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔ سب سے پہلے جھگڑے کے سبب کا پتہ لگانا چاہیے کہ جھگڑا کیوں اور کیسے ہوا؟ اگر اس سبب کو دور کر دیا جائے اور بچوں کو سمجھا دیا جائے تو جھگڑا ختم ہو سکتا ہے۔ عام طور پر بچوں کے جھگڑنے کے تین محرکات ہوتے ہیں:
1۔ فطری و قدرتی چلبلا پن جو بچے کو سکون سے بیٹھنے نہیں دیتا۔
2۔ نادانی کی بناء پر اپنی خوشی کی خاطر دوسرے بھائی یا بہن کی خوشی کی پروا نہ کرنا۔
3۔ بھولپن کی وجہ سے اپنے جذبات کو نہ چھپا سکنا اور اپنے غم، غصہ، خوشی، لالچ اور خواہش کا فوراً اظہار کر دینا۔
عام طور پر جھگڑا اس وقت شروع ہوتا جب دو بچے کھلونوں سے کھیل رہے ہوں تو ایک بچے نے دوسرے بچے سے کھلونا چھیننے کی کوشش کی یا ایک نے دوسرے کو منہ چڑا دیا۔ اس طرح دونوں میں لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ یوں دونوں رونے اور چیخنے لگتے ہیں۔
کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک بچے کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہو اور دوسرا اپنی چیز کھا چکا ہو۔ اب یہ بچہ اس سے لینا چاہتا ہے یا چھین لیتا ہے تو دونوں میں لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بچے ہاکی یا کرکٹ وغیرہ کھیل رہے ہوں تو ایک فریق جیتنے کا دعویٰ کرتا ہے جبکہ دوسرا فریق ہار تسلیم نہیں کر رہا ہوتا۔ اسی بات پر ان کا جھگڑا ہو جاتا ہے۔
بچوں کی ان لڑائیوں میں کینہ یا کدورت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ وہ لڑائی کے فوراً بعد مل کر کھیلنا شروع کر دیتے ہیں گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ اس لیے والدین کو بچوں کی لڑائی میں کسی ایک کی بے جا حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ انہیں احساس دلانا چاہیے کہ لڑنا جھگڑنا بری بات ہے۔ مثال کے طور پر اگر بچوںمیں لڑائی ہو تو یوں کہا جائے بیٹا! آپ اپنے بھائی سے لڑتے ہو، اسے مارتے ہو اور اسے اپنا کھلونا نہیں دیتے حالانکہ وہ آپ سے چھوٹا ہے اور آپ سے کھیل بھی رہا ہے۔ آپ کو تو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ بڑوں کا کام تو چھوٹوں کا خیال کرنا ہے اور چھوٹوں کو سمجھایا جائے کہ بڑوں کا احترام آپ پر واجب ہے۔ اس طرح دونوں کو سمجھا کر الگ کر دیا جائے۔ کچھ دیر بعد ان میں سے ہر ایک کو تنہائی میں بلا کر لڑنے کا سبب معلوم کیا جائے اور لڑائی کی مذمت ان پر واضح کی جائے اور وجۂ نزاع کو فوری طور پر دور کیا جائے۔ ان دونوں کو ایک ساتھ بٹھا کر پیار اور محبت سے مل جل کر رہنے اور کھیلنے کے فوائد بتائے جائیں اور انہیں اس پر عمل کرنے کی نصیحت کی جائے۔
آپس میں یا دوسرے بچوں سے لڑائی کی صورت میں بچوں کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔ نہ ہی ان کے اس فعل کو فخریہ طریقہ سے کہ’’میرے شیر بیٹے نے فلاں بچے کو کیا خوب مارا ! ‘‘ بیان کرنا چاہیے۔ والدین کا ایسا جملہ بچے کے بگاڑ کا مؤجب بنے گا۔ والدین کو بچے کے ذہن میں یہ بات راسخ کرنی چاہیے کہ لڑنے والوں سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں سے خوش ہوتے ہیں۔
بچوں کو سدھارنے کے لیے گھر کا ماحول خوش گوار رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ بچوں کے جھگڑوں میں والدین خود بھی شریک نہ ہو جائیں کہ جب بچے جھگڑ رہے ہوں تو غصے میں فوراً زور زور سے چیخنے چلانے اور انہیں مارنے کی بجائے صبر و ضبط کا دامن ہاتھ میں لے کر پیار اور محبت سے تلقین کریں۔ لڑائی کی تحقیق کریں کہ جس کی غلطی ہو اسے تنبیہ کریں اور دونوں کی آپس میں صلح کرائیں۔
والدین کو چاہیے کہ گھر کے سب افراد کے سامنے ہر بچے کی صلاحیتوں کا مثبت انداز میں تذکرہ کرتے رہا کریں۔ اس سے بہن بھائی ایک دوسرے سے محبت کرنے لگتے ہیں اور اپنے کاموں کے ساتھ ساتھ دوسرے بچوں کے کاموں کی قدر بھی کرنے لگ جاتے ہیں اور لڑائی جھگڑے کی نوبت نہیں آتی۔
جواب: بچے جب پریشان کن سوالات کریں یا والدین انہیں کسی الجھن کا شکار دیکھیں تو انتہائی حکمت و دانش اور دانائی سے ان کے سوالات کا جواب دیں۔ اگر جواب دینا مناسب نہ سمجھیں تو ڈانٹ ڈپٹ کی بجائے دل چسپ موضوع چھیڑ دیں تاکہ بچوں کا ذہن کسی اور طرف مبذول ہو جائے اور تجسس بھی پیدا نہ ہو۔ اس طرح ممکن ہے کہ وقتی طور پر بچے کے شوقِ تجسس کی تشفی ہو جائے۔
بچوں میں تجسس کے مادے کا انحصار گھر کی فضا اور ماحولیاتی تربیت پر ہوتا ہے۔ بچے الجھن کا شکار ہی اس وقت ہوتے ہیں جب والدین ٹی وی پر فحاشی پر مبنی پروگرام دیکھ رہے ہوتے ہیں اور بچے ان کے پاس بیٹھے اسکول کا ہوم ورک کرنے کے ساتھ ساتھ ٹی وی بھی دیکھتے ہیں۔ لامحالہ اس طرح ان کا ذہن برائی کی طرف راغب ہوتا ہے اور ان کے ذہنوں میں مختلف سوالات ابھرتے ہیں۔ پھر وہ معلومات حاصل کرنے کے لیے موبائل فون، آئی پیڈ اور کمپیوٹر وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔
والدین کو کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں کو خاص عمر کے حصے تک ان معلومات سے حکمت کے ساتھ اس طرح بچائیں کہ ان میں تجسس پیدا نہ ہو۔ ایسا دل و دماغ کے تزکیہ سے ہوتا ہے جو کہ گھر کے پاکیزہ ماحول کے بغیر ممکن نہیں۔ والدین بچوں کو دن بھر ایسا خوش گوار مذہبی اور علمی ماحول دیں جس سے ان کے ذہنوں میں اس طرح کے جرثومے ہی پیدا نہ ہوں کہ وہ ایسے سوالات کریں کہ جن کے بارے میں انہیں عمر کی خاص حد تک نہیں جاننا چاہیے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے والد گرامی حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادری نے آپ کی تربیت کس نہج پر کی۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں:
بچپن میں قبلہ ابا جی سال کے بیشتر ماہ مجھے گھر میں ہی فقہ پڑھاتے تھے اور جب چھٹیاں ہوتیں تو کچھ عرصہ گاؤں میں واقع دار العلوم قطبیہ بھیج دیتے۔ پورے سال میں جتنی کتب قبلہ ابا جی مجھے پڑھاتے تو اس میں فقہ کے مختلف موضوعات جیسے طہارت اور خواتین سے متعلقہ اَبواب و فصول آپ نے حکمتاً کبھی مجھے نہیں پڑھائے۔ جو حصہ وہ چھوڑتے تو میں پوچھتا کہ یہاں سے سبق شروع کرنا تھا، آپ نے چھوڑ دیا۔ قبلہ ابا جی فرماتے: بیٹا! یہ آپ کے اساتذہ آپ کو پڑھائیں گے۔ پھر اس انداز سے کوئی ایسا علمی موضوع چھیڑتے کہ میں سب کچھ بھول کر قبلہ ابا جی سے اس موضوع پر تبادلہ خیال شروع کر دیتا۔ یہ ماحولیاتی تربیت ہے، ایک محنت ہے، ایک جہاد ہے۔ اس انداز میں بچوں کی جب تربیت ہوگی تو بچوں کے ذہن پاکیزہ رہیں گے اور وہ والدین سے پریشان کن سوالات بھی نہیں کریں گے۔
جواب: جی نہیں! بچے کی ناجائز ضد کرنے پر اس کا مطالبہ ہر گز نہیں ماننا چاہیے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لاڈ پیار میں بچے کی ناجائز ضد اس کے چیخنے چلانے کی وجہ سے پورا کر دی جاتی ہے۔ اس سے بچے کی عادت بگڑ جاتی ہے اور بچہ یہ سمجھتا ہے کہ رونا اور ضد کرنا اپنا مطالبہ منوانے کا موثر طریقہ ہے۔
شیخ الاسلام نے اِسی ضمن میں کسی فیملی کا ایک واقعہ سنایا کہ گھر کی میز پر ٹشو باکس پڑا تھا اور دو سال کی بچی مسلسل ٹشو نکال کر خراب کر رہی تھی۔ میں نے اس کی بڑی بہن سے کہا: باکس اٹھا کر سائیڈ پر رکھ دیں۔ بچی رونے لگی تو اس کی بڑی بہن دوبارہ اسے ٹشو باکس دینے لگی۔ میں نے ٹشو باکس دینے سے منع کر دیا تاکہ بچی یہ سمجھ جائے کہ رو کر وہ اپنا ناجائز مطالبہ منوا نہیں سکتی۔ یہ حربہ ناکام ہے۔
پھر سمجھایا کہ بچی کو اس کی پسند کا کھلونا یا کوئی ایسی چیز دے دیں جس سے اس کی توجہ یک لخت اس طرف سے ہٹ کر دوسری طرف مبذول ہو جائے تاکہ وہ ناجائز ضد کرنا چھوڑ دے۔
جواب: لڑکے اور لڑکیوں کے ملبوسات کا انتخاب کرتے ہوئے والدین کو خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ بچہ خواہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔ ہر صورت بچے کو لڑکوں والا اور بچی کو لڑکیوں والا لباس پہنائیں، کیونکہ لباس بچوں کے اخلاق اور صحت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
لباس کی نعمت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے:
یٰـبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا.
الاعراف، 7: 26
اے اولادِ آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے۔
لباس کے بنیادی طور پر تین مقاصد و فوائد ہیں:
1۔ قابل شرم حصوں (private parts) کو چھپانا
2۔ موسمی اثرات سے حفاظت
3۔ جسم کی زیبائش و آرائش
مذکورہ بالا آیت مبارکہ کی روشنی میں والدین کو بچے اور بچی دونوں کے لیے ایسا لباس تیار کروانا چاہیے جو ان تینوں مقاصد کو پورا کرتا ہو۔ خصوصاً بچی کے لباس میں ماں اس بات کا خاص خیال رکھے کہ بچی کو جدید فیشن والے ناشائستہ لباس سے دور رکھے اور شروع سے ہی بچوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق لباس پہننے کا عادی بنایا جائے۔ یاد رہے کہ چست لباس صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے کیونکہ اس سے دوران خون متاثر ہوتا ہے۔ جسم کو ضروری مقدار میں تازہ ہوا نہیں ملتی اور جسم کے اندر اور باہر کا درجہ حرارت یکساں رہتا ہے، لہٰذا صحت و آرام کے لحاظ سے بچوں کا لباس قدرے ڈھیلا ڈھالا اور آرام دہ ہونا چاہیے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved