جواب: بچے کو ناظرہ قرآن کی تکمیل کم و بیش 8 سے 10 سال کی عمر کے دوران کروا دینی چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ بچے کو اوائل عمری سے ہی تلاوتِ قرآن کی رغبت دلائیں اور ان کا قرآن سے قلبی لگاؤ اور طبعی ربط پیدا کریں، کیونکہ قرآن حکیم کی تلاوت کرنے سے سینے میں نور پیدا ہوتا ہے۔ اس سے قلب میں ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے پناہ اَجر و ثواب ملتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ کِتَابِ اللهِ، فَلَهٗ بِهٖ حَسَنَۃٌ، وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ أَمْثَالِھَا. لَا أَقُوْلُ الٓمٓ حَرْفٌ، وَلٰـکِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ، وَلَامٌ حَرْفٌ، وَمِیْمٌ حَرْفٌ.
ترمذی، السنن، کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فیمن قرأ حرفا
من القرآن مالہ من الأجر، 5: 175، رقم: 2910
بزار، المسند، 7: 192، رقم: 2761
ابن أبي شیبۃ، المصنف، 6: 118، رقم: 29933
بیهقی، شعب الایمان، 2: 342، رقم: 1983
جس نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک حرف پڑھا، اُس کے لیے اِس کے عوض ایک نیکی ہے اور یہ ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آلمٓ ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔
بچوں کی دینی و روحانی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ والدین اُنہیں قرآن حکیم کی تلاوت، اُسے حفظ کرنے، اُس میں تدبر اور فہم و ادراک پر استقامت کی ترغیب دیں۔ اُنہیں قرآن حکیم کے مطالعہ کا ایسا عادی بنائیں کہ جب وہ تلاوتِ قران کریں تو ان پر خشوع و خضوع کی کیفیت طاری ہو جائے۔ اس سے ان کا سینہ کشادہ ہو گا، دل بھی روشن ہو گا اور ان کی روح کو بھی تقویت ملے گی۔ یہاں یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ تلاوتِ قرآن کے ساتھ ساتھ بچوں کو آدابِ تلاوت سے بھی آگاہ کرنا چاہیے۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر معنی و مفہوم سمجھ کر تلاوت کریں اور اس کے اوامر پر عمل کریں اور نواہی سے بھی اجتناب کریں۔ یہ پہلو بھی پیشِ نظر رہے کہ تلاوتِ قرآن کے دوران ان کی ذہنی کیفیت منور اور معطر ہو اور ان کے خیالات میں انتشار اور پراگندگی نہ ہو۔
جواب: بچوں کو غسل کا مسنون اور مستحب طریقہ درج ذیل حدیث مبارکہ کی روشنی میں سکھایا جائے:
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب غسل کرتے تو پہلے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر استنجاء کرتے، اس کے بعد نماز کے وضو جیسا وضو کرتے، پھر پانی لے کر سر پر ڈالتے اور انگلیوں کی مدد سے بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچاتے۔ پھر جب دیکھتے کہ سر صاف ہو گیا ہے تو تین مرتبہ سر پر پانی ڈالتے، پھر تمام بدن پر پانی ڈالتے اور آخر میں پاؤں دھو لیتے۔
مسلم، الصحیح، کتاب الحیض، باب صفۃ غسل الجنابۃ، 1: 253، رقم:
316
بیھقي، السنن الکبری، 1: 173، رقم: 790
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کی روشنی میں غسل کا مستحب طریقہ یہ ہے:
1۔ غسل کی نیت کرے۔
2۔ بسم اللہ سے ابتداء کرے۔
3۔ استنجاء کرے خواہ نجاست لگی ہو یا نہ لگی ہو۔
4۔ اگر بدن پر نجاست لگی ہو تو اسے دھوئے۔
5۔ دونوں ہاتھوں کو کلائیوں تک دھوئے۔
6۔ پھر وضو کرے جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے۔ اگر ایسی جگہ کھڑا ہے جہاں پانی جمع ہو جاتا ہے تو پاؤں غسل کے بعد آخر میں دھوئے۔
7۔ تین بار سارے جسم پر پانی بہائے۔
8۔ پانی بہانے کی ابتدا سر سے کرے۔
9۔ اس کے بعد دائیں کندھے کی طرف سے پانی بہائے۔
10۔ پھر بائیں کندھے کی طرف پانی بہانے کے بعد پورے بدن پر تین بار پانی ڈالے۔
11۔ وضو کرتے وقت اگر پاؤں نہیں دھوئے تھے تو آخر میں دھو لے۔
جواب: والدین بچوں کو تیمم کا طریقہ سکھانے سے پہلے بتائیں کہ شریعت میں تیمم کا حکم اس وقت ہے جب نماز اور دیگر اُمور کی بجا آوری کے لیے پانی دستیاب نہ ہو۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ مِّنْهُ.
المائدۃ، 5: 6
اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی رفع حاجت سے (فارغ ہوکر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس (پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے) ہاتھوں کا مسح کر لو۔
پھر تیمم کا مسنون طریقہ بتائیں جو کہ درج ذیل ہے:
دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کشادہ کر کے زمین یا کسی ایسی چیز پر ماریں جو جنسِ زمین (اینٹ، پتھر، دیوار وغیرہ) میں سے کوئی پاک چیز ہو۔ پھر اس سے ہاتھ ہٹا لیں اور زیادہ گرد لگ جائے تو جھاڑ لیں۔ پھر دونوں ہاتھوں سے سارے چہرے کا مسح کریں۔ پھر دوسری دفعہ بھی ہاتھ زمین پر یا جنس زمین میں سے کسی پاک چیز پر مار کر دونوں ہاتھوں کا ناخنوں سے کہنیوں تک مسح کریں۔
جواب: نیت دل کے ارادہ کا نام ہے، اگرچہ صرف دل سے نماز کی نیت کر لینا کافی ہے لیکن اگر زبان سے کہہ لے تو بھی درست اور باعثِ ثواب ہے۔ فرض، واجب، سنت اور نفل نمازوں کی نیت بچوں کو درج ذیل طریقے سے سکھائی جائے:
میں نیت کرتا/کرتی ہوں چار رکعت فرض نماز ظہر کی، واسطے اللہ تعالیٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف (اگر با جماعت ہوں تو پھر کہا جائے پیچھے اس امام کے) اللهُ اَکْبَر۔
میں نیت کرتا/کرتی ہوں تین رکعت وتر واجب نماز عشاء کی، واسطے اللہ تعالیٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف کے، اللهُ اَکْبَر۔
میں نیت کرتا /کرتی ہوں چار رکعت سنت نماز ظہر کی، واسطے اللہ تعالیٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف کے، اللهُ اَکْبَر۔
میں نیت کرتا/کرتی ہوں دو رکعت نفل نماز عشاء کی، واسطے اللہ تعالیٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف کے، اللهُ اَکْبَر۔
جواب: بچہ جب سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز ادا کرنے کی تلقین کرنی چاہیے، کیونکہ تمام عبادات میں فرائض کی ادائیگی میں سب سے زیادہ زور نماز پر دیا گیا ہے۔ کلمہ توحید کے بعد دین اسلام کا دوسرا اہم رکن نماز ہی ہے ۔ یاد رہے کہ ایک مسلمان اس وقت کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک وہ پنج گانہ نماز کا پابند نہ ہو جائے۔
بچے گھر میں زیادہ تر اپنی ماں کے زیر سایہ رہتے ہیں۔ ماں انہیں جو سکھاتی ہے وہ جلد ہی سیکھ جاتے ہیں۔ اس لیے اچھی ماں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ چھوٹی عمر میں ہی بچے کو اپنے ساتھ نماز پڑھانا شروع کر دے اور جب وہ سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز پڑھنے کی تلقین کرے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی اسی کا حکم دیا ہے۔ حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ والد، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاۃِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِیْنَ.
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 187، رقم: 6756
أبو داود، السنن، کتاب الصلاۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ، 1: 133، رقم: 495
دار قطني، السنن، 1: 230-231، رقم: 1-3، 6
جب تمہاری اولاد سات سال کی ہوجائے تو اُسے نماز کا حکم دیا کرو۔
عبدالمالک بن ربیع بن سبرہ بواسطہ اپنے والد، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
عَلِّمُوا الصَّبِيَّ الصَّلَاۃَ ابْنَ سَبْعِ سِنِیْنَ.
ترمذی، السنن، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء متی یؤمر الصبي بالصلاۃ،
2: 259-260، رقم: 407
ابن خزیمۃ، الصحیح، 2: 102، رقم: 1002
دارمي، السن، 1: 393، رقم: 1431
حاکم، المستدرک، 1: 389، رقم: 948
سات سال کے بچے کو نماز سکھاؤ۔
ابن قدامہ فرماتے ہیں:
یَجِبُ عَلٰی وَلِيِّ الصَّبِيِّ أَنْ یُعَلِّمَهُ الطَّهَارَۃَ وَالصَّلَاۃَ إِذَا بَلَغَ سَبْعَ سِنِیْنَ وَیَأْمُرَهٗ بِهَا.
ابن قدامۃ، المغنی، 1: 616
بچے کے سرپرست پر واجب ہے کہ سات سال کی عمر میں اسے طہارت اور نماز کی تعلیم دے اور ان کو ادا کرنے کا حکم دے۔
امام بغوی فرماتے ہیں:
وَأَمَرَ الصَّبِيَّ بِالصَّلاۃِ ابْنَ سَبْعٍ حَتّٰی یَعْتَادَ.
بغوي، شرح السنۃ، 2: 406
سات سال کی عمر میں بچے کو نماز کا حکم دینے میں حکمت یہ ہے کہ وہ نماز کا عادی بن جائے۔
جواب: والدین اپنے بچوں کودرج ذیل مراحل سے گزار کر نماز کا پابند بنا سکتے ہیں:
بچوں کو نماز کا پابند بنانے کے لیے والدین باقاعدگی سے خود نماز پنج گانہ ادا کریں۔
بعد ازاں بچوں میں نماز پڑھنے کا شوق درج ذیل حدیث مبارکہ بیان کر کے پیدا کریں۔ نماز پنج گانہ کی فضیلت کے متعلق حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’تم گناہ کرتے ہو اور جب صبح کی نماز پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے۔ پھر گناہ کرتے ہو اور جب نمازِ ظہر پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے۔
پھر گناہ کرتے ہو اور جب نمازِ عصر پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے۔
پھر گناہ کرتے ہو اور جب نمازِ مغرب پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو دیتی ہے۔ پھر گناہ کرتے ہو لیکن جب نمازِ عشاء پڑھتے ہو تو وہ انہیں دھو ڈالتی ہے۔ پھر تم سو جاتے ہو اور بیدار ہونے تک تمہارا کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا۔‘
طبرانی، المعجم الصغیر، 1: 91، رقم: 121
والدین نماز پنج گانہ ادا کرتے وقت بچے کو اپنے ساتھ کھڑا کریں، کیونکہ بچہ جب پروان چڑھنے لگتا ہے تو وہ ہر عمل والدین کو دیکھ کر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا وہ جب نماز پڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو بھی وہ اپنے والدین کی ہی پیروی کرتا ہے اور وہی شکل و صورت اُس کے ذہن میں پوری طرح نقش ہو جاتی ہے۔ پھر وہ ساری زندگی اُسی کے زیر اثر رہتا ہے۔
والدین بچوں کو نماز پڑھنے کا مسنون طریقہ اور نماز کی ظاہری شرائط یعنی (1) طہارت، (2) ستر پوشی، (3) پابندیِ وقت، (4) تعینِ قبلہ اور (5) نیت کرنے کی تعلیم دیں اور ان کو یہ باور کروائیں کہ نماز کے مسنون طریقہ اور اس کی پانچ ظاہری شرائط کی پابندی کیے بغیر شرعی اعتبار سے نماز نہیں ہوتی۔ اس لیے ظاہری آداب پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے اور انہیں نماز کو توڑ دینے والے اُمور سے بھی آگاہ کریں۔
اِس مرحلہ میں والدین بچوں کو عملی طور پر نماز پڑھنے کا حکم دیں۔ نماز کی ادائیگی میں غفلت اختیار کرنے کی صورت میں ترکِ نماز پر درج ذیل قرآن ِ حکیم کی آیت اور حدیث بھی بیان کریں:
نماز جہاں ہر عمل سے افضل ہے، وہاں ترکِ نماز بڑا گناہ بھی ہے، جس طرح نماز انسان کو نیکی اور سعادت کی بلندیوں پر لے جاتی ہے، اسی طرح ترکِ نماز مسلمان کو کافر اور مشرک کے درجے تک بھی پہنچا دیتی ہے۔ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo
الروم، 30: 31
اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے مت ہو جاؤ۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے نماز ہی کو مسلمان اور کافر کے درمیان حدِ فاصل قرار دیا۔
حضرت بُریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ فَقَدْ کَفَرَ.
ابن حبان، الصحیح، 4: 323، رقم: 1463
جس نے (جان بوجھ) کر نماز ترک کی اس نے (گویا) کفر کیا۔
ایک اور مقام پر اسی مفہوم کی توضیح اس طرح فرمائی گئی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْعَھْدَ الَّذِی بَیْنَنَا وَبَیْنَھُمُ الصَّلَاۃُ، فَمَنْ تَرَکَھَا فَقَدْ کَفَرَ.
ابن حبان، الصحیح، 4: 305، رقم: 1454
یقینا ہمارے اور ان (کفار) کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے پس جس نے نماز کو ترک کیا (گویا) اس نے کفر کیا (عہد سے منہ موڑ لیا)۔
والدین اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کے لیے مساجد میں اپنے ساتھ لے جانے کی مشق کرائیں تاکہ بچوں میں باجماعت نماز ادا کرنے کی عادت پختہ ہو جائے۔
والدین اپنے بچوں کو مذکورہ بالا مراحل سے گزار کر نماز کا پابند بنا سکتے ہیں۔
جواب: بچوں کو نماز کے بعد مانگنے کے لیے درج ذیل دعائیں یاد کروانی چاہئیں:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ.
جواب: بچوں کو عربی میں درج ذیل دعائیں یاد کروانی چاہئیں:
1. رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo
البقرۃ، 2: 201
اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔
2. رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo
البقرة، 2: 127
اے ہمارے رب! تو ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے، بے شک تو خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔
3. رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِهٖ ج وَاعْفُ عَنَّاوقفہ وَاغْفِرْلَنَا وقفہ وَارْحَمْنَا وقفہ اَنْتَ مَوْلٰـنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰـفِرِیْنَo
البقرۃ، 2: 286
اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہماری گرفت نہ فرما، اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر اتنا (بھی) بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر اتنا بوجھ (بھی) نہ ڈال جسے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں اور ہمارے (گناہوں) سے درگزر فرما اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا کارساز ہے پس ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما۔
4. رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً ج اِنَّکَ اَنْتَ الْوَهَابُo
آل عمران، 3: 8
(اور عرض کرتے ہیں) اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں کجی پیدا نہ کر اس کے بعد کہ تو نے ہمیں ہدایت سے سرفراز فرمایا ہے اور ہمیں خاص اپنی طرف سے رحمت عطا فرما، بے شک تو ہی بہت عطا فرمانے والا ہے۔
5. رَبَّنَآ اِنَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِo
آل عمران، 3: 16
اے ہمارے رب! ہم یقینا ایمان لے آئے ہیں سو ہمارے گناہ معاف فرما دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
6. رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَo
المائدة، 5: 83
اے ہمارے رب! ہم (تیرے بھیجے ہوئے حق پر) ایمان لے آئے ہیں سو تو ہمیں (بھی حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لے۔
7. رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo
الأعراف، 8: 33
اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
8. رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَo
الأعراف، 8: 47
اے ہمارے ربّ! ہمیں ظالم گروہ کے ساتھ (جمع) نہ کر۔
9. رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَo
الأعراف، 8: 126
اے ہمارے رب! تو ہم پر صبر کے سرچشمے کھول دے اور ہم کو (ثابت قدمی سے) مسلمان رہتے ہوئے (دنیا سے) اُٹھا لے۔
10. رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً وَّھَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًاo
الکھف، 18: 10
اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بارگاہ سے رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں راہ یابی (کے اسباب) مہیا فرما۔
11. رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَo
المؤمنون، 23، 109
اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے ہیں پس تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو (ہی) سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے۔
12. رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَاِلَیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُo
الممتحنۃ، 60: 4
اے ہمارے رب! ہم نے تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور ہم نے تیری طرف ہی رجوع کیا اور (سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔
جواب: جی ہاں! اگر گھر میں کوئی بچہ بطور مہمان آیا ہوا ہو تو اس سے نرمی اور حکمت و شفقت سے نماز پڑھنے کی بازپرس کرنی چاہیے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَیْمُونَۃَ، فَجَائَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بَعْدَ مَا أَمْسٰی، فَقَالَ: أَصَلَّی الْغُـلَامُ؟ قَالُوْا: نَعَمْ، فَاضْطَجَعَ.
أبو داود، السنن، کتاب الصلاۃ، باب فی صلاۃ اللیل، 2: 45، رقم: 1356
میں نے ایک رات اپنی خالہ جان حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس گزاری تو شام ہونے کے بعد حضورنبی اکرم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: کیا بچے نے نماز پڑھ لی ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا: جی ہاں۔ پھر آپ ﷺ لیٹ گئے۔
جواب: نابالغ پر روزہ رکھنا لازم نہیں، لیکن اگر کم عمری میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو بچے کو روزہ رکھنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ یوں وہ روزہ رکھنے کی مشق کر سکے گا اور اس کا عادی بھی بن جائے گا۔ اس طرح بلوغت کے بعد اس کے لیے روزہ رکھنا قدرے آسان ہو گا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بچپن میں ہی اپنے بچوں کو روزے رکھوایا کرتے تھے۔
امام بخاری نے اپنی ’الصحیح‘ میں ’صوم الصبیان‘ کے عنوان سے باب قائم کیا ہے، اور اس میں یہ روایت درج کی ہے:
قَالَ عُمَرُ رضی الله عنه لِنَشْوَانَ في رَمَضَانَ: وَیْلَکَ، وَصِبْیَاتُنَا صِیَامٌ.
بخاری، الصحیح، کتاب الصوم، باب صوم الصبیان، 2: 692
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک نشئی شخص سے فرمایا: تجھ پر افسوس ہے (تو نے رمضان میں بھی شراب پی رکھی ہے) جب کہ ہمارے بچے بھی روزے سے ہیں۔
حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
أَرْسَلَ النَّبِيُّ ﷺ غَدَاۃَ عَاشُورَائَ إِلٰی قُرَی الْأَنْصَارِ: مَنْ أَصْبَحَ مُفْطِرًا فَلْیُتِمَّ بَقِیَّۃَ یَوْمِهٖ، وَمَنْ أَصْبَحَ صَائِمًا فَلیَصُمْ۔ قَالَتْ: فَکُنَّا نَصُوْمُهٗ بَعْدُ، وَنُصَوِّمُ صِبْیَانَنَا، وَنَجْعَلُ لَهُمُ اللُّعْبَۃَ مِنَ الْعِهْنِ، فَإِذَا بَکٰی أَحَدُهُمْ عَلَی الطَّعَامِ أَعْطَیْنَاهُ ذَاکَ حَتّٰی یَکُوْنَ عِنْدَ الإِفْطَارِ.
بخاری، الصحیح، کتاب الصوم، باب صوم الصبیان…، 2: 692، رقم:
1859
مسلم، الصحیح، کتاب الصیام، باب من أکل في عاشوراء فلیکف بقیۃ یومہ، 2: 798، رقم:
1136
بیھقی، السنن الکبری، 4: 288، رقم: 8191
حضور نبی اکرم ﷺ نے عاشورہ کی ایک صبح کو انصار کے کسی گاؤں میں پیغام بھیجا کہ جس نے روزہ نہیں رکھا وہ باقی دن اسی طرح پورا کرے اور جس نے روزہ رکھا ہوا ہے وہ روزے سے رہے۔ وہ فرماتی ہیں: اِس کے بعد ہم روزہ رکھتیں اور ہمارے بچے بھی روزہ رکھتے۔ ہم نے اُن کے (کھیلنے کے ) لیے روئی کی ایک گڑیا بنا دی تھی۔ جب اُن میں سے کوئی کھانے کے لئے روتا تو ہم اُسے (کھیلنے کے ) لیے وہی دیتے، یہاں تک کہ افطار کا وقت ہو جاتا۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے بچوں کو روزہ رکھوانے کا اہتمام کیا کرتے تھے اور صرف فرض ہی نہیں بلکہ نفلی روزے بھی رکھوایا کرتے تھے۔
مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
وَفِي الْحَدِیْثِ حُجَّۃٌ عَلٰی مَشْرُوْعِیَّۃِ تَمْرِیْنِ الصِّبْیَانِ عَلَی الصِّیَامِ، کَمَا تَقَدَّمَ، لِأَنَّ مَنْ کَانَ فِي مِثْلِ السِّنِّ الَّذِي ذُکِرَ فِي ہٰذَا الْحَدِیْثِ فَهُوَ غَیْرُ مُکَلَّفٍ.
ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 4: 201
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بطورِ مشق بچوں کو روزہ رکھوانا جائز ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل ذکر ہو چکا ہے، کیونکہ اس حدیث میں بچوں کی جو عمر درج ہے اُس عمر میں وہ شریعت کے اوصاف سے مزین نہیں ہوتے۔
ابن قدامہ لکھتے ہیں:
زیادہ بہتر یہی ہے کہ بچوں کو دس سال کی عمر میں روزوں کا پابند بنایا جائے۔
ابن قدامۃ، المغنی، 3: 153
جواب: بچپن کا دور سیکھنے اور اثر قبول کرنے کے حوالے سے بہترین زمانہ ہوتا ہے۔ اِس لیے اسلام نے والدین کو چھوٹی عمر ہی سے بچوں کی تربیت کے لیے بذات خود فرائض کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔
اگر بچوں کی جسمانی قوت و ساخت اور ان کی ہمت و برداشت روزہ رکھنے کے قابل ہو تو والدین درج ذیل طریقے اختیار کر کے بچوں کو روزہ کا عادی بنا سکتے ہیں:
1۔ بچے کو سحری کھانے کے لیے بیدار کیا جائے۔
2۔ بچے کو آدھے دن یا عصر تک روزہ رکھنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ وہ اسے برداشت کر لے اور اس کا عادی ہو جائے۔
3۔ سخت بھوک اور ناقابل برداشت پیاس کی صورت میں بچے کا روزہ کھلوا دیا جائے۔
4۔ ایک دن کا مکمل روزہ بچے کو رکھوایا جائے پھر ناغہ کیا جائے اور آہستہ آہستہ روزوں کی تعداد کو بڑھایا جائے۔
5۔ روزے کی حالت میں بچے کو زیادہ بھاگ دوڑ اور کھیل کود سے منع کیا جائے۔
جواب: جی ہاں! نابالغ بچے کو حج کروانا جائز ہے اور یہ حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
رَفَعَتِ امْرَأَۃٌ صَبِیًّا لَهَا. فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَلِهٰذَا حَجٌّ؟ قَالَ: نَعَمْ. وَلَکِ أَجْرٌ.
مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب صحۃ حج الصبي وأجر من حج بہ،
2: 974، رقم: 1336
ترمذي، السنن، کتاب الحج، باب ما جاء في حج الصبي، 3: 264، رقم: 924
نسائي، السنن الکبری، کتاب الحج، باب الحج بالصغیر، 2: 326، رقم: 3626
ابن ماجہ، السنن، کتاب المناسک، باب حج الصبي، 2: 971، رقم: 2910
ایک عورت نے اپنے بچے کو اُٹھا کر پوچھا: یا رسول اللہ! کیا اس کا بھی حج ہو جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! اور اس کا اَجر تمہیں بھی ملے گا۔
حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
حُجَّ بِي مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ، وَأَنَا ابْنُ سَبْعِ سِنِیْنَ.
بخاری، الصحیح، کتاب الإحصار و جزاء العید، باب حج الصبیان،
2: 658، رقم: 1759
أحمد بن حنبل، المسند، 3: 449، رقم: 15756
ترمذی، السنن، کتاب الحج، باب ماجاء في حج الصبي، 3: 265، رقم: 925
طبرانی، المعجم الکبیر، 7: 156، رقم: 6681
مجھے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کرایا گیا جبکہ میں اُس وقت سات سال کا تھا۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
أَقْبَلْتُ وَقَدْ نَاهَزْتُ الْحُلُمَ، أَسِیْرُ عَلٰی أَتَانٍ لِي، وَرَسُوْلُ اللهِ ﷺ قَائِمٌ یُصَلِّي بِمِنًی، حَتّٰی سِرْتُ بَیْنَ یَدَيْ بَعْضِ الصَّفِّ الْأَوَّلِ، ثُمَّ نَزَلْتُ عَنْهَا فَرَتَعَتْ، فَصَفَفْتُ مَعَ النَّاسِ وَرَاءَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ.
بخاری، الصحیح، کتاب الإحصار و جزاء الصید، باب حج الصبیان،
2: 657، رقم: 1758
أحمد بن حنبل، المسند، 1: 264، رقم: 2376
میں اپنی سواری پر سوار ہو کر آیا اور میں اس وقت بلوغت کے قریب تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کھڑے ہو کر منٰی میں نماز پڑھا رہے تھے۔ میں پہلی صف کے کچھ حصے کے آگے سے گزرا اور پھر سواری سے نیچے اُتر آیا۔ میں نے اُسے چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود رسول اللہ ﷺ کے پیچھے لوگوں کے ساتھ نماز میں شامل ہوگیا۔
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما خود بیان فرماتے ہیں کہ وہ نابالغ تھے لیکن اُنہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حج ادا کیا۔ تاہم نابالغ بچے کا ادا کیا گیا حج نفلی شمار ہوگا۔ بلوغت کے بعد اسے یہ حج کافی نہیں ہوگا بلکہ اگر وہ صاحب استطاعت ہو تو فرض کی ادائیگی کے لیے اسے دوبارہ حج کرنا ہوگا۔
جواب: والدین اِس بات کا خاص خیال رکھیں کہ اُن کے بچے بُری محفل میں نہ بیٹھیں، کیونکہ جن بچوں کو بُری محفل سے بچنے کی ترغیب نہیں دی جاتی وہ نہ صرف بُرے لوگوں کے اطوار سے متاثر ہوتے ہیں بلکہ اُنہی کا عملی روپ بھی اختیار کر لیتے ہیں۔
بچوں کی اسکول جانے کے دوران اور واپس آنے کے بعد نگرانی کی جائے کہ وہ کہاں اور کن کن لوگوں سے ملتے ہیں، تاکہ وہ غلط افراد کے درمیان وقت نہ گزاریں۔ اسی طرح جو والدین اپنے بچوں کو اخلاق سوز لٹریچر، غیر اخلاقی فلمیں اور ڈرامے دیکھنے کی اجازت دیتے ہیں توگویا وہ اپنی اولاد کو نہ صرف تباہی کے گڑھے میں خود دھکیلتے ہیںبلکہ ان میں بُری مجلس اختیار کرنے کی رغبت کا باعث بھی بنتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے موبائل اور ان کے دیکھے جانے والے ٹی وی چینلز پر کڑی نظر رکھیں اور ان کی کتب کی الماری اور بیگ کو بھی چیک کرتے رہیں تاکہ کہیں کتب میں اخلاق سوز رسالے یا کوئی ممنوعہ مواد تو موجود نہیں ہے۔
اولاد کو بری محفل سے بچانے کے لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری اور فرائض احسن طریقے سے سر انجام دیں۔ بچوں کو اچھی مجلس اور باکردار لوگوں سے میل جول رکھنے کی ترغیب دیں، کیونکہ اس سے بچوں کی بہترین اخلاقی تربیت ہوتی ہے۔ یوں اچھی صحبت کے فوائد سے مستفید ہو کر وہ معاشرے کے مفید اور مثالی شہری بنتے ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ بچوں کو اچھی مجلس اپنانے کی ترغیب دینے کے لیے ہفتہ یا پندرہ دن میں ایک مرتبہ نیک مجلس میں لے جایا کریں کیونکہ جب بچے دین کی باتیں سنیں گے تو وہ ان کے دل میں اُتریں گی۔ پھر ان اچھی باتوں اور نیک صحبت کی برکت سے بچوں کا ذہن بھی معطر ہو گا اور اُن میں اچھی مجلس میں جانے کی رغبت بھی پیدا ہو گی۔
جواب: حسد سے مراد دوسروں کو حاصل نعمتوں سے جلنا اور ان سے چھن جانے کی تمنا کرنا ہے۔ یہ معاشرتی بیماریوں میں سے ایک خطرناک مرض ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوںمیں جب ایسی کیفیات محسوس کریں، جن سے حسد کی آبیاری ہو رہی ہو تو ان کے منفی جذبات کو حکمت اور دانائی سے روکنے کی کوشش کریں، تا کہ بچوں کی اعلیٰ خطوط پر تربیت کی جا سکے۔
عام طور پر والدین کا غیر منصفانہ رویہ بچوں میں حسد اور سرکشی کے جذبے کو اُبھارتا ہے۔ ایک بچہ جب دیکھتا ہے کہ اس کے دوسرے بہن بھائیوں کو جو چیزیں، سہولتیں اور کھلونے میسر ہیں وہ اس کے پاس کیوںنہیں ہیں، تو وہ احساسِ کمتری سے دوچار ہو جاتا ہے اور یہی جذبہ پھر حسد اور بغض و کینہ کی کیفیت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ والدین کو بچوں کے مابین کھلونوں، دوسری چیزوں اور ہر معاملے میں عدل، انصاف اور مساوات سے کام لینا چاہیے تاکہ ان میں حسد کا جذبہ نہ پیدا ہو سکے۔ ان کے لباس، کھلونوں اور دیگر سہولتوں میں یکسانیت اور ہم آہنگی پیدا کریں۔ بچہ جب کسی دوسرے بچے کے پاس موجود چیز دیکھ کر اس کی خواہش کرے تو ممکن ہو سکے تو وہ چیزاُسے فراہم کریں تاکہ تمنا کے پوری نہ ہونے کی صورت میں حسد کی شکل اختیار نہ کر سکے اور اگر ممکن نہ ہو تو اسے تسلی بخش طریقے سے سمجھا دیا جائے۔
بعض اوقات جب گھر میں بچے کی ولادت ہوتی ہے تو وہ نومولود سب کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ ہر کوئی اس سے پیار کرتا، گود لیتا، چومتا اور کِھلاتا ہے۔ اِس سے بھی پہلے والے بچے کے دل میں حسد کا جذبہ جنم لیتا ہے۔ والدین اور گھر کے باقی افراد کو چاہیے کہ نئے بچے کی ولادت پر پہلے بچے کے ساتھ بھی محبت اور شفقت میں کمی نہ آنے دیں اور نہ ہی چھوٹے بچے کو یہ احساس ہونے دیں کہ اس کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی۔ مذکورہ بالا حکمت عملی سے بچوں کو حسد سے بچایا جا سکتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بڑے بچے کے دل میں بھی چھوٹے بچے کی محبت ڈالنی چاہیے، تاکہ دونوں میں پیار کا رشتہ پروان چڑھے۔
جواب: اسلام معاشرتی تعلق و روابط کی استواری پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ معاشرے میں باہمی اخوت و محبت اور یگانگت بیدار کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ معاونت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام مفلس، نادار اور مستحق افراد کی مالی مدد کی بہت ترغیب دیتا ہے تاکہ ضرورت مندوں کی حاجات پوری ہو سکیں۔
والدین اپنے بچوں کو صدقہ و خیرات کرنے کا عادی بنانے کے لیے اُن کے ہاتھ سے مستحق افراد کی معاونت کروائیں تا کہ بچوں کے دل میں بھی یہ احساس پیدا ہو کہ ان کے مال میں غرباء کا بھی حصہ ہے۔ اپنے بچوں کے دوستوں میں سے کسی کو مستحق جانیں تو اپنے بچوں کو اس کی غیر محسوس طریقے سے مدد کرنے کی ترغیب دیں تاکہ بچوں کے دل میں حضور نبی اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق ’دائیں ہاتھ سے خرچ کریں اور بائیں ہاتھ کو خبر بھی نہ ہو‘(1) کا جذبہ پیدا ہو۔ اس سے بچوں میں دوسروں کے مسائل سمجھ کر اُنہیں حل کرنے کا جذبہ پیدا ہو گا۔ اس سے ان میں خود غرضی کی کیفیات پیدا نہیں ہوں گی اور ہمدردی اور انسان دوستی کی خصوصیات بھی فروغ پائیں گی۔
بخاري، الصحیح، کتاب الجماعۃ والإمامۃ، باب من جلس فی المسجد
ینتظر الصلاۃ و فضل المساجد، 1: 234، رقم: 629
ترمذي، السنن، کتاب الزھد، باب ما جاء فی الحب فی اللہ ، 4: 598، رقم: 2391
مالک، الموطا، 2: 952، رقم: 1709
والدین بچوں کو ایسی آیاتِ قرآنی، احادیث مبارکہ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اولیائے کرام کے واقعات سنائیں تاکہ ان میں صدقہ اور خیرات دینے کی رغبت پیدا ہو۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ کَانَ فِي حَاجَۃِ أَخِیْهِ کَانَ اللهُ فِي حَاجَتِهٖ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَۃً فَرَّجَ اللهُ عَنْهُ کُرْبَۃً مِنْ کُرُبَاتِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.
بخاری، الصحیح،کتاب المظالم، باب لا یظلم المسلم المسلم ولا
یسلمہ، 2: 862، رقم: 2310
مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم، 4: 1996، رقم: 2580
أبو داود، السنن کتاب الأدب، باب المؤاخاۃ، 4: 273، رقم: 4893
ترمذی، السنن، کتاب الحدود، باب ما جاء فی الستر علی المسلم، 4: 34، رقم: 1426
جو شخص اپنے کسی (مسلمان) بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی مشکل حل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل فرمائے گا۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا یَزَالُ اللهُ فِي حَاجَۃِ الْعَبْدِ مَا دَامَ فِي حَاجَۃِ أَخِیْهِ.
طبرانی، المعجم الکبیر، 5: 118، رقم: 4802
ھیثمی، مجمع الزوائد، 8: 193
جب تک کوئی بندہ اپنے (مسلمان) بھائی کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے اُس بندے کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ مَشٰی فِي حَاجَۃِ أَخِیْهِ الْمُسْلِمِ حَتّٰی یُتِمَّهَا لَهٗ، أَظَلَّهُ اللهُ بِخَمْسَۃِ آلَافٍ (وفي روایۃ: بِخَمْسَۃٍ وَسَبْعِیْنَ أَلْفَ) مَلَکٍ، یَدْعُوْنَ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْهِ، إِنْ کَانَ صَبَاحاً حَتَّٰی یُمْسِي وَإِنْ کَانَ مَسَاءً حَتّٰی یُصْبِحَ؛ وَلَا یَرْفَعُ قَدَمًا إِلَّا کُتِبَتْ لَهٗ بِھَا حَسَنَۃٌ، وَلَا یَضَعُ قَدَماً إِلَّا حَطَّ اللهُ عَنْهُ بِھَا خَطِیْئَۃً.
طبراني، المعجم الأوسط، 4: 347، رقم: 4396
بیھقي، شعب الإِیمان، 6: 119، رقم: 7669
جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لیے چل پڑا یہاں تک کہ اُسے پورا کر دیا تو اللہ تعالیٰ اس پر پانچ ہزار - اور ایک روایت کے مطابق پچھتر ہزار - فرشتوں کا سایہ فرما دیتا ہے۔ اگر دن ہو تو رات تک اور اگر رات ہو تودن ہونے تک وہ فرشتے اُس کے لیے دعائیں کرتے اور اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں۔ اُس کے ہر اُٹھنے والے قدم کے بدلے اُس کے لیے نیکی لکھ دی جاتی ہے اور اُس کے (اپنے مسلمان بھائی کی مشکل کو حل کرنے کے لیے) ہر اُٹھنے والے قدم کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ بچوں کو دوسروں کی مدد کرنے اور مستحق افراد کے کام آنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ اس طرح بچوں کو شعور ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ و خیرات کرنے سے ان کے مال میں نہ صرف اضافہ ہوگا، بلکہ بے پناہ اجر و ثواب کے ساتھ اُن کے درجات میں بلندی بھی نصیب ہوگی اور دنیا و آخرت میں مراتب بھی بلند ہوں گے۔
جواب: بالغ بچوں کو غیر عورتوں کے ساتھ خلوت سے اس لیے روکا جائے کیونکہ اس سے فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ شریعت میں کسی بھی بالغ کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اکیلا کسی بھی غیر عورت کے ساتھ تنہائی میں ملے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِ اللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَـلَا یَخْلُوَنَّ بِامْرَأَۃٍ لَیْسَ مَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ مِنْهَا، فَإِنَّ ثَالِثَهُمَا الشَّیْطَانُ.
أحمد بن حنبل، المسند، 3: 339، رقم: 14692
جو شخص اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ ہرگز کسی ایسی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار نہ کرے جس کے ساتھ کوئی محرم رشتہ دار نہ ہو، کیونکہ (ایسی صورت میں) ان دونوں کا تیسرا (ساتھی) شیطان ہوتا ہے۔
جواب: جی ہاں! بچیوں کا وقتِ بلوغت پردہ کرنا ضروری ہے اور انہیں بے پردہ گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّـاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّط ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَـلَا یُؤْذَیْنَ.
الاحزاب، 33: 59
اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے۔
لہٰذا بچیوں کو بچپن سے ہی شرعی لباس پہننے اور سرڈھانپنے کی بھی ترغیب دی جائے اور بالغ ہونے پر باقاعدہ پردے کا اہتمام بھی کرایا جائے۔
جواب: جی نہیں! بچیوں کے لیے ناخن بڑھانا جائز نہیں ہے۔ مستحب و مستحسن عمل یہ ہے کہ ہر جمعہ کو ضرور ناخن کاٹے جائیں، بصورت دیگر ناخن کاٹنے میں چالیس دن سے زیادہ کا عرصہ گزارنے سے گریز کیا جائے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِیْمِ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَۃِ، أَنْ لَا نَتْرُکَ أَکْثَرَ مِنْ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً.
مسلم، الصحیح، کتاب الطھارۃ، باب خصال الفطرۃ، 1: 222، رقم:
258
أحمد بن حنبل، المسند، 3: 122، رقم: 12254
أبو داود، السنن، کتاب الترجل، باب فيأخذ الشارب، 4: 84، رقم: 4200
ترمذی، السنن، کتاب الأدب، باب فی التوقیت في تعلیم الأطفار وأخذ الشارب، 5: 92،
رقم: 2759
حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمارے لیے مونچھیں ترشوانے، ناخن کاٹنے، بغل کے بال اکھیڑنے، زیر ناف بال صاف کرنے کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن مقرر فرمائی ہے۔
جواب: بچوں کو ناخن کاٹنا درج ذیل طریقے سے سکھایا جائے:
دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے شروع کریں اور چھنگلی (چھوٹی اگلی) پر ختم کریں۔ پھر بائیں ہاتھ کی چھنگلی (چھوٹی اگلی) سے شروع کر کے انگوٹھے پر ختم کریں۔ آخر میں دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کا ناخن کاٹیں، یعنی دائیں ہاتھ سے شروع کریں اور دائیں پر ہی ختم کریں۔
پاؤں کے ناخن کاٹنے میں دائیں پاؤں کی چھنگلی (چھوٹی اگلی) سے شروع کر کے انگوٹھے پر ختم کریں پھر بائیں پاؤں کے انگوٹھے سے شروع کر کے چھنگلی (چھوٹی اگلی) پر ختم کریں۔
حصکفی، الدر المختار، 2: 250
جواب: بچے جب دس سال کے ہو جائیں تو اسلام ان کے بستر الگ الگ کرنے کا حکم دیتا ہے۔حدیث مبارکہ میں ہے:
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ اپنے والد، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاۃِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِیْنَ، وَاضْرِبُوْهُمْ عَلَیْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ، وَفَرِّقُوْا بَیْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ.
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 187، رقم: 6756
أبو داود، السنن، کتاب الصلاۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ، 1: 133، رقم: 495
دار قطني، السنن، 1: 230، رقم: 2-3
حاکم، المستدرک، 1: 311، رقم: 708
جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو اسے نماز کا حکم دیا کرو، جب وہ دس سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو (نماز کی پابندی نہ کرنے پر) انہیں تادیباً سزا دو اور (اس عمر میں) ان کے بستر الگ الگ کر دو۔
بچپن ہی میں بستر الگ کرنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ بچے بے راہ روی کا شکار نہ ہو سکیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved