جواب: ہر بچہ مختلف فطری صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے، لیکن ان فطری صلاحیتوں کی تکمیل اور جلا کے لیے رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے لیے معاشرے میں سکول کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جاتا ہے جہاں بچہ معاشرتی مطابقت پیدا کرنے اور اپنے آپ کو سماجی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کے لیے اپنی خصوصیات اور صلاحیتوں کو ترقی دیتا ہے۔
اگرچہ سکول کا سارا انتظام و انصرام ہی بچے کے لیے مددگار ہوتا ہے، لیکن اس کے لیے اہم پلیٹ فارم کلاس روم ہے جہاں بچہ تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعے ذہنی نشو و نما کے عمل سے گزرتا ہے۔ استاد ہر بچے کی مقیاسِ ذہانت (IQ Level) کی سطح اور اس کے رحجانات و میلانات کا لحاظ رکھتے ہوئے راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ مؤثر تدریس کے لیے کلاس روم کے ماحول کا سازگار ہونا ضروری ہے، کیونکہ دورانِ تدریس کلاس روم میں مختلف واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات کلاس روم کا ماحول پیچیدہ بھی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا استاد کو کوئی ایسا جارحانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرنا چاہیے جو طلباء کو تعلیمی عمل سے بغاوت پر اُکسائے۔
جواب: تعلیمی نظام میں استاد کا کردار اعلیٰ درجے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ملت کا معمار اور طلبہ کا روحانی باپ ہوتا ہے۔ آئندہ نسلوں کی کردار سازی استاد کے ذمہ ہی ہوتی ہے چنانچہ مستقبل کے شہریوں کا بننا اور بگڑنا بہت حد تک استاد کی فکر اور کاوشوں پر منحصر ہوتا ہے۔ اس اہم منصب کے لحاظ سے استاد کو اعلیٰ اوصاف اور اچھی سیرت و کردار کا حامل ہونا چاہیے۔ اس میں علمی قابلیت اور تدریسی صلاحیت کے ساتھ ساتھ بچوں کی نفسیات اور طریق تعلیم سے آگاہی بھی ہونی چاہیے۔ اس میں صبر و تحمل، معاملہ فہمی، قوتِ فیصلہ، طلبہ سے فکری لگاؤ کے ساتھ کام میں نظم و ضبط، ہمدردی اور اصلاح کے جذبہ میں اخلاص کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔
تعلیمی مقاصد میں خاطر خواہ کامیابی کے حصول کے لیے استاد کو درج ذیل بنیادی باتوں کا خیال رکھنا چاہیے:
استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ کلاس روم میں تدریس کا آغاز مستحکم انداز سے کرے، کیونکہ طلبہ استاد کے احساسات کا اندازہ اس بات سے لگاتے ہیں کہ استاد کلاس روم میں ان پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے اورکیا رویہ اختیار کرتا ہے۔ لہٰذا تدریس کے آغاز میں استاد کو اپنا رویہ اتنا نرم اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ طلبہ آزادی محسوس کرتے ہوئے اسے استاد ہی تصور نہ کریں اور سیکھنے کے عمل میں سنجیدہ رویہ اختیار نہ کر سکیں۔
اُستاد بطور منصف تمام طلبہ سے مساوی برتاؤ اختیارکرے۔ رنگ، نسل، زبان، مذہب اور قوم کی بنیاد پر تعصب کا مظاہرہ نہ کرے۔ بلکہ غیر جانبداری سے کام لے کر بچوں میں مصالحت کروائے تاکہ ان کی باہمی چپقلش ان کی معاشرتی زندگی کو متاثر نہ کرے۔
عزت نفس کے معاملے میں بچے بدرجہا حساس ہوتے ہیں لہٰذا استاد ساری کلاس کے سامنے کسی ایک بچے کی شخصیت سے متعلق تضحیک آمیز رویہ اختیار کرنے سے گریز کرے تاکہ اس بچے کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔
اُستاد کا انداز بیان پُرجوش ہونا چاہیے تاکہ طلبہ کی توجہ سبق کی طرف مبذول ہوسکے۔ اُستاد کو پر اُمید رہتے ہوئے ہرنئے سبق میں کمزور طلبہ کو انفرادی توجہ دے کر زیادہ محنت سے پڑھانا چاہیے۔
اُستاد کو قواعد و ضوابط کا پابند ہونا چاہیے۔ اُستاد کے لیے استقامت کا دامن تھامنا بہت ضروری ہے تاکہ طلبہ کو بھی احساس ہو کہ جو کام انہیں سونپا گیا ہے اس کو پورا کرنا ضروری ہے۔ اس سے ان میں سماجی نظم و ضبط اختیار کرنے میں مدد ملے گی۔ استاد موقع شناس ہو تاکہ حالات کی مناسبت سے کمرہ جماعت کا نظم و ضبط قائم رکھ سکے۔
اُستاد کے لیے جہاں کلاس روم میں تدریس کے آغاز میں غیر معمولی رویہ اختیار کرنے سے احتراز لازم ہے وہاں اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ طلبہ کی توجہ اور دلچسپی سبق کے آغاز سے اختتام تک برقرار رکھے کیونکہ موثر تدریس کے لیے سبق میں طلبہ کا انہماک ضروری ہے۔
جواب: بچے کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ماں درج ذیل اُمور کو ملحوظِ خاطر رکھے:
1۔ ماں بچے کی تعلیمی سرگرمیوں پر مکمل توجہ دے۔ ساری ذمہ داری اسکول یا اُستاد پر نہ ڈالے، بچے کی ڈائری روزانہ چیک کرے اور بچے کے کیے ہوئے ہوم ورک پر نظر ثانی ضرور کرے۔ اس سے ماں کے علم میں ہوگا کہ بچے کو کس طرح سے کام کروایا جاتا ہے تاکہ وہ جب بچے کو امتحان کی تیاری کروائے تو سارا نصاب اُسے سمجھ میں آجائے۔
2۔ ماں بچے کو شروع سے ہیپڑھنے اور لکھنے کی عادت ڈالے۔ اس سے بچے کو پڑھنے اور لکھنے میں ہجوں، جملوں اور لفظوں کی پہچان ہوتی ہے۔ بچے کے تلفظ کی درستگی پر شروع سے توجہ دی جائے کیونکہ بچپن میں سیکھی ہوئی باتیں تا عمر یاد رہتی ہیں۔
3۔ ماں بچے کو روزانہ کا سبق بار بار یاد کروا کے اچھی طرح ذہن نشین کرائے، اِس سے دہرانے کا عمل جاری رہے گا، اور ہر بات اچھی طرح ذہن نشین ہوتی جائے گی، کیونکہ اگر کوئی بچہ مطالعے کے بعد اس کو دہراتا نہیں تو اس کی یاداشت اتنی موثر نہیں ہوگی جتنی دہرانے کے عمل سے ہوتی ہے۔
4۔ ماں کو چاہیے کہ وہ بچے کے سبق میں سے مختلف سوالات پوچھے اور بچے کو بھی اس بات کی ترغیب دلائے کہ جو سوالات اسے نہیں آتے وہ ماں سے پوچھا کرے، تاکہ جس چیز کی اسے سمجھ نہیں آ رہی ماں اسے وہ چیز سمجھا دے اور ذہن میں لگی گرہیں خود بخود کھل جائیں۔
5۔ ماں کو چاہیے کہ بچے کے کلاس ورک پر روزانہ نظر رکھے تاکہ اسے علم ہو سکے کہ اس کا بچہ تعلیمی معیار کے حوالے سے کس درجے پر ہے۔
6۔ امتحانات سے پندرہ دن قبل ماں بچے کی تمام کاپیاں اچھی طرح چیک کرے اور پھر نصاب سے ملائے۔ اگر امتحان کے حوالے سے کوئی کام اہمیت رکھتا ہو اور نا مکمل ہو تو ماں استاد کے تعاون سے مکمل کروا لے تاکہ امتحانات میں بچے کو کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
جواب: بچوں کی تعلیمی قابلیت کو بہتر بنانے میں ماں کی بے جا سختی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے جبکہ تھوڑی بہت سختی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے، چونکہ ماں وہ تمام ذرائع استعمال کرتی ہے جس سے بچہ مہذب بن سکے۔ گھر کے بعد اس کی نظر میں تعلیم و تربیت کا اہم ذریعہ اسکول ہوتا ہے اور وہ بچے کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنانے میں سرتوڑ کوشش کرتی ہے۔ اس میں اگر اسے کبھی کبھار ہلکی سی سرزنش یا سزا کی ضرورت پڑے، تو وہ یہ طریقہ استعمال کرتی ہے۔
اس کے برعکس یوں بھی ہوتا ہے کہ ماں پہلے ہی سے ایک سانچہ بنا لیتی ہے اور چاہتی ہے کہ اس کا بچہ اس کی پسند کے مطابق ڈھل جائے اور اگر بچہ فطری طور پر ان صلاحیتوں سے محروم ہو تو پھر ماں کی بچے پر بے جا سختی شروع ہو جاتی ہے۔ ہر بچہ دوسرے بچے سے جذباتی، ذہنی اور فطری طور پر مختلف ہوتا ہے۔ اُس کاLevel IQ مختلف ہوتا ہے یعنی بچوں کی ذہنی استعداد، قابلیت اور میلانات ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ معاملہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
بعض مائیں بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں جنونی ہو جاتی ہیں اور ان کا رویہ بچوں کے ساتھ تکلیف دہ ہو جاتا ہے، ان کی شدت پسندی کے پیچھے مختلف عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ مشترکہ خاندانی سسٹم کی صورت میں گھر میں رہنے والی دیگر خواتین کے بچے کے ساتھ اپنے بچے کی پڑھائی میں مقابلہ یا پڑوس کے بچوں کے ساتھ پوزیشنز میں مقابلے کی فضاء قائم ہو جاتی ہے اور اگر بچے ایک ہی کلاس میں ہوں اور قریب رہنے کی وجہ سے ایک ہی اسکول میں جاتے ہوں تو مقابلے کی فضا مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہ مقابلہ جب تک مثبت عوامل پر مشتمل رہے، اچھے طریقے سے چلتا ہے۔ لیکن جب حد سے تجاوز کر جائے تو بچے کی شخصیت پر منفی اثرات ڈالتا ہے۔ کیونکہ کلاس میں پہلی پوزیشن لینا بچے سے زیادہ ماں کے لیے باعث فخر ہوتا ہے۔ جب بچے کے امتحانات شروع ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ماں کے بھی امتحانات شروع ہو چکے ہیں اس دوران ماں بچے کا جینا دوبھر کر دیتی ہے اور اسے مختلف دھمکیاں دیتی ہے کہ تم نے کلاس میں پوزیشن لینی ہے یا اگر کلاس میں پہلی پوزیشن نہ لی تو آپ کے پاپا آپ کی پٹائی کریں گے۔ ماں بچے پر ہر طرح سے دباؤ ڈالتی ہے جس کی وجہ سے بچہ پڑھائی سے گھبرا جاتا ہے۔ وہ سنجیدہ اور خوفزدہ نظر آنے لگتا ہے۔
بعض اوقات بچے کے ساتھ ماں کا رویہ اس حد تک تکلیف دہ ہو جاتا ہے کہ پوزیشن نہ لینے یا کم نمبر لانے پر وہ بچے کو سزا دیتی ہے۔ اسے برا بھلا کہنے لگتی ہے جس کی وجہ سے بچہ بہت اذیت محسوس کرتا ہے۔ ماں کے اس ہتک آمیز رویے سے اس میں بیزاری اور چڑ چڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ پڑھائی سے اس کا دل اچاٹ ہو جاتا ہے وہ دن بدن احساس کمتری کا شکار ہوکر بدمزاج ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ہر بچہ اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق ہی کام کر سکتا ہے پھر اُس سے یہ اُمید رکھنا کہ وہ ہمیشہ ہی پوزیشن لے یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ اس کی بجائے ماں پڑھائی میں بچے کی قابلیت بہتر بنانے کے لیے سختی کی بجائے پیار سے اس کی مدد کرے تاکہ وہ تعلیم میں اپنی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے اچھی کارکردگی دکھائے۔
جواب: بہت سے بچے ہوم ورک زیادہ ہونے کی شکایت کرتے ہیں لیکن میسر اوقات سے استفادہ کرتے ہوئے درج ذیل طریقے سے وہ اپنا ہوم ورک بہتر انداز میں کر سکتے ہیں مثلاً:
1۔ روز مرہ کے ایک جیسے اور آسان ہوم ورک کو (مثلاً محض سوالات جوابات کاپی پر اُتارنا) اسکول کے خالی پیریڈز اور ہاف ٹائم میں کر لیں۔
2۔ اسی طرح کچھ آسان کام دورانِ سفر سکول سے گھر آتے ہوئے یا ٹی وی دیکھتے ہوئے بھی کرسکتے ہیں۔
3۔ زیادہ مشکل یا یاد کرنے والا کام گھر جا کر آرام سے کریں۔
4۔ بچوں کا لکھنے کا کام زیادہ ہوتا ہے جسے بعد میں یاد کرنا بچوں کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں بچوں کو چاہیے کہ جو کچھ وہ لکھیں اسے اچھی طرح سمجھ کر لکھیں تاکہ جب بعد میں وہ اس کام کو یاد کریں تو جلدی اور آسانی سے انہیں یاد ہو جائے۔
جواب: ذہین بچے وہ ہوتے ہیں جن میں کوئی تعمیری کام کرنے کی خاص صلاحیت موجود ہو اور وہ اپنی اس خاص صلاحیت اور استعداد سے دوسروں کو بہت زیادہ متاثر کر سکیں۔ مثلاً سات سال کا ایک بچہ الجبرے کے سوالات حل کرنے کی اہلیت رکھتا ہو یا دس سال کا ایک شاعر بچہ اپنی نظموں کی اشاعت کا اہتمام کر رہا ہو۔
ذہانت کے مدارج کے لحاظ سے غیر معمولی اور عام بچوں کے درمیان کوئی اہم خط تقسیم نہیں کھینچا جاسکتا، لیکن ماہرین تعلیم کا خیال ہے کہ جن بچوں کی ذہانت 130 درجے سے زیادہ ہو وہ خداداد قابلیت کے مالک ہوتے ہیں۔ بچوں کی ذہانت معلوم کرنے کے لیے ماہرین نفسیات نے نفسیاتی امتحانات مقرر کر رکھے ہیں۔ ان امتحانات کے ذریعے بچوں کی ذہنی استعداد معلوم ہو سکتی ہے۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک بچے کی ذہنی اور اصلی عمر میں کیا نسبت ہے مثلاً دس سال کا ایک بچہ مسائل کو سمجھنے میں اگر بارہ سال کے بچے کے معیار پر پورا اترتا ہے تو اس کی ذہنی عمر بارہ سال ہو گی۔
ذہنی استعداد معلوم کرنے کے لیے بچے کی ذہنی عمر کو سو سے ضرب دی جاتی ہے اور حاصلِ ضرب کو بچے کی اصل عمر پر تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ مثلا ایک بچے کی اصل عمر 10 سال اور ذہنی عمر 12 سال ہے۔ بارہ کو سو سے ضرب دی جائے تو حاصلِ ضرب 1200 ہوگا۔ اس حاصلِ ضرب کو 10 پر تقسیم کیا جائے تو جواب 120 ہوگا جو کہ اس بچے کی ذہنی استعداد ہے۔ جس بچے کی ذہنی استعداد 120 درجے یا اس سے زیادہ ہو، وہ ذہین کہلانے کا مستحق ہے۔
جواب: غیرموزوں نصاب تعلیم اور تدریس بچوں کی ذہنی صحت بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس سے بچوں میں علم سے لگاؤ پیدا کرنے کی بجائے بیزاری کے جذبات اُبھرتے ہیں۔ جب بچے کو کوئی مضمون غیر دلچسپ اور مشکل نظر آتا ہو اور استاد اس کی تدریس بھی موزوں انداز میں نہ کرے توبچہ اس میں مسلسل ناکامیوں کا شکار ہونے لگتا ہے جبکہ جبراً اس کا مطالعہ جاری رکھا جاتا ہے۔ یہ دونوں صورتیں بچے کی ذہنی صحت کے لیے ناسازگار ہیں۔ کسی ایک سمت میں مسلسل ناکامیوں کے باعث زندگی کی کئی اور سمتوں میں بھی تلخیوں کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔ جس سے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کی مناسب نشو و نما کو ٹھیس پہنچتی ہے اور اس کی زندگی تلخی اور محرومیتکا شکار ہو جاتی ہے۔
مختلف عمر اور استعداد کے بچوں کے لیے موزوں نصاب وضع کرنا اور پھر اُس کی موزوں تدریس کرنا ایک ایسا لطیف اور دقیق عمل ہے جسے مسلسل مشاہدہ، مطالعہ اور تحقیق کے ذریعے سے ہی سر انجام دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہر طالب علم کو ایک ہی قسم کے چند مخصوص مضامین پڑھنے پر مجبور کر دینا ذہنی صلاحیتوں کو کھو دینے کے مترادف ہے۔ مثلاً بعض طلبہ مشینوں اور پرزوں کے جوڑ توڑ کی طرف خصوصی طور پر مائل ہوتے ہیں ایسے طلبہ کے لیے نصاب تعلیم میں اس قسم کے مضامین کا اہتمام ہونا چاہیے جنہیں پڑھ کر ان کی مشینوں اور پرزوں وغیرہ میں دلچسپی اور بصیرت بڑھے۔ اسی طرح ادب اور شعر و شاعری سے خصوصی شغف رکھنے والے طلبہ کو اپنے فطری رحجانات کے منافی مضامین پڑھنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ جن طلبہ کو ان کی فطری دلچسپی اور صلاحیتوں کے عین مطابق مضامین پڑھائے جاتے ہیں وہ اپنی تعلیم کے دوران بہت دل چسپی اور مسرت محسوس کرتے ہیں، وہ پڑھائی کی مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے مخصوص حلقہ علم و ہنر میں بڑا نام پیدا کر لیتے ہیں۔
نصاب کے مضامین کے علاوہ معلم کا طریق تدریس بھی بچوں کی ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ موزوں تدریس سے بچے مشکل سے مشکل مواد بھی بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ اسباق کے مختلف نکات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے بحث و تقریر کے دلچسپ مقابلوں کااہتمام کر کے بھی اُستاد اپنی تدریس کو موثر بنا سکتا ہے۔ استاد تدریس کے لیے جدید طریقے استعمال کرے تاکہ بچے تعلیم کو بوجھ سمجھنے کی بجائے اس میں مسرت اور لذت محسوس کریں اور ان کے ذہن میں اسکول اور اس کے علمی اور تمدنی مشاغل سے دلچسپی اور محبت کا جذبہ بیدار ہو۔
جواب: ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ پڑھ لکھ کر قابل انسان بن جائے۔ بعض بچے ذرا سی توجہ سے اچھے نتائج حاصل کر لیتے ہیں مگر کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اچھے اسکول میں پڑھنے اور بہترین ٹیوشن سنٹر سے ٹیوشن حاصل کرنے کے باوجود پڑھنے لکھنے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایسے بچوں پر اگر والدین خصوصی توجہ دیں تو وہ دوسرے ذہین بچوں کی طرح بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں مگر عموما دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ کند ذہن بچوں پر خصوصی توجہ دینے کی بجائے ان کے والدین یا اساتذہ انہیں مختلف منفی قسم کے القابات سے مزید کند ذہن بنا دیتے ہیں۔ مثلاً یہ بچہ تو لاپرواہ ہے، نہ جانے اس کا دھیان کہاں رہتا ہے، کھیل کود میں کسی سے پیچھے نہیں مگر پڑھائی میںبہت نالائق ہے۔ یہ بہت نکما ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسی باتیں کرنے والے والدین یا اساتذہ کا خیال ہوتا ہے کہ اس طرح ڈانٹ ڈپٹ سے ان کا بچہ کچھ اثر لے گا اور پڑھائی کی طرف راغب ہوگا مگر یہ سب ان کی خام خیالی ہوتی ہے۔ ان باتوں کا بچے کی شخصیت پر منفی اثر ہوتا ہے۔ وہ جذباتی اور عدم تحفظ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے اندر منفی صلاحیتیں اُجاگر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ وہ تنہائی پسند اور چڑچڑا ہو جاتا ہے۔
اگر بچہ کند ذہن ہو تو بچے کو قصور وار ہرگز نہیں ٹھہرانا چاہیے کیونکہ وہ پوری کوشش کے باوجود وہ کچھ نہیں کر پاتا جو آپ چاہتے ہیں۔ ایسے بچے میں سیکھنے کی عدم صلاحیت قدرتی طور پر رکاوٹ بنتی ہے اورجو چیز بچے میں قدرتی طور پر کم پائی جاتی ہو اُسے مختلف طریقوں سے بڑھایا تو جا سکتا ہے لیکن کامل طور پر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
ایسے بچے کی صلاحیتوں کو بہتر کرنے کے لیے سب سے پہلے والدین اور اساتذہ کو اُس کے ساتھ اپنے رویے میں درج ذیل تبدیلیاں پیدا کرنی چاہئیں:
1۔ ایسے بچے کا کسی دوسرے بچے سے موازنہ نہ کریں۔
2۔ ایسے بچے کو ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ نہ کریں۔
3۔ ایسے بچے سے طنزیہ یا نفرت آمیز لہجہ اختیار نہ کریں اور خاص طور پر اس کی شخصیت کو ہر گز نظر انداز نہ کریں۔
نیز ایسے بچے کا کسی اچھے ماہر نفسیات سے معائنہ کروانا چاہئے اور دین دار، تجربہ کار بزرگ یا عالم دین سے مشورہ کے بعد اُس کی دشواریوں کو خصوصی تراکیب کی مدد سے کم کیا جاسکتا ہے۔ والدین اور اساتذہ کی تھوڑی سی توجہ سے یہ بچہ بھی دوسرے بچوں کی طرح تعلیمی مراحل بھر پور طریقے سے طے کرکے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ لہٰذا والدین اور اساتذہ کند ذہن بچے کی تعلیم سے ہرگز غفلت نہ برتیں بلکہ کوشش کر کے اورحکمت عملی سے کام لے کر اس کو علم کی طرف راغب کریں۔ اس کے سامنے مختلف قسم کی چیزیں پیش کریں، ان کے متعلق سوالات کر کے اس کی خوبیاں اور کمزوریاں بیان کریں۔ اسے تھوڑا سا سبق دیں اور اس کو اچھی طرح ذہن نشین کروائیں اور جب تک وہ سبق بچے کو پختہ اور ازبر نہ ہو جائے اسے آگے نہ پڑھائیں۔ ممکن ہے یہ بچہ آگے چل کر ذہین بن جائے لہٰذا نا اُمید ہو کر بچے کی تعلیم کو موقوف نہ کریں۔
جواب: بچے کی اچھی تربیت کے لیے کوئی بھی طریقہ حتمی نہیں ہوتا۔ یہ طریقے حالات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے جو وسائل کام میں لائے جاتے ہیں وہ بھی بدلتے رہتے ہیں۔ لہٰذا کوئی ایسا مخصوص طریقہ نہیں جو ہر نسل اور ہر زمانے میں یکساں طور پر تجویز کیا جا سکے۔ اس لیے ہر زمانے میں حالات پر غور و فکر کر کے ضرورت کے مطابق رہنمائی اور تربیت کا موثرطریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔
جواب: تعطیلات میں بچوں کی تربیت، انفرادی اصلاح، گھر کے ماحول کی بہتری، اور بچوں کی کردار سازی کے لیے باقاعدہ منصوبہ بنا کر ایک مربوط شیڈول ترتیب دینا چاہیے تاکہ بچے فرصت کے ان لمحات کو بہترین انداز میں صرف کر سکیں۔ سکولوں میں ہر سال گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیاں آتی ہیں ان کی آمد جہاں طالب علموں، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے کارکنان کے لیے باعثِ مسرت ہوتی ہیں وہاں گھریلو خواتین کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں انہیں بچوں کی تربیت کے لیے درج ذیل نکات پر عمل کرنا چاہیے:
1۔ پہلا مرحلہ شب و روز کے لیے نظام الاوقات کا تعین ہے، بچوں کی عمر، تعلیم اور مصروفیات کو مدنظر رکھ کر بچوں سے مشاورت کر کے سونے اور جاگنے کے اوقات کا تعین کر لیا جائے اور اس پر کاربند بھی رہا جائے۔
2۔ بچوں سے دن کا آغاز نمازِ فجر سے کروایا جائے۔ یہ بہترین اور بابرکت وقت بچوں کو سونے کی نذر نہ کرنے دیا جائے۔ عام طور پر تعطیلات کا آغاز ہوتے ہی بچوں کا رات دیر تک جاگنا اور صبح دیر سے اُٹھنا معمول بن جاتا ہے جو کہ نامناسب اور خلافِ فطرت ہے۔ الله تعالیٰ نے رات آرام و سکون کے لیے اور دن کام کے لیے بنایا ہے۔ اس لیے والدین خود بھی صبح اُٹھ کر نماز ادا کریں اور اسی طرح بچوں کو بھی نماز کی عادت ڈالیں۔
3۔ نمازِ فجر ادا کر کے جلد از جلد سونے کی غیر فطری روایت انسانی روح کا حسن غارت کر دیتی ہے۔ نمازِ فجر کے بعد سونا ناگزیر ہو تو بھی دوبارہ اٹھنے کا وقت مقرر کیا جائے۔
4۔ فجر کی نماز کے لیے بر وقت اُٹھنے اور ادائیگی نماز کی حوصلہ اِفزائی کے لئے انعام بھی دیا جا سکتا ہے ہر بہن اور بھائی کی فجر کے وقت باری باری اُٹھانے کی ذمہ داری والدین لگائیں تاکہ سب کو ذمہ داری کا احساس ہو اور ایک دوسرے کے درمیان مروت اور نیکی میں تعاون کا جذبہ پیدا ہو۔
5۔ والدین بچوں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے سے قرآن حکیم کی تلاوت سنیں۔ چاہے دو آیات ہی کیوں نہ ہوں۔ اجتماعی مطالعے کی ایک مختصر نشست بھی ہو سکتی ہے جس میں چند آیات کی مختصر تفسیر، ایک حدیث کا مطالعہ یا اسلامی لٹریچر سے کچھ انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ عملی رہنمائی کے طور پر روز مرہ کی دعائیں، نماز اور اس کا ترجمہ، نمازِ جنازہ، مختصر سورتیں وغیرہ تھوڑی تھوڑی کر کے یاد کروائی جائیں۔
6۔ والدین، بچے اور گھر کے سب افراد اپنی اہم مصروفیات کے بارے میں ایک دوسرے کو آگاہ کریں۔ اپنے کام کے سلسلے میں ایک دوسرے سے مشورہ طلب کریں اور تعاون کریں۔ نیز گزشتہ کل کا بھی جائزہ لیں کہ اپنے آج کو کل سے کیسے بہتر بنایا جائے۔ اس طرح اپنا جائزہ و احتساب اور مشورہ دینے اور قبول کرنے کی تربیت بھی ہو گی۔
7۔ چھٹیوں میں سب اہل خانہ ناشتہ اور دونوں وقت کا کھانا اکٹھے کھائیں اس سے باہمی محبت میں اضافہ ہو گا۔
8۔ والدین بچوں کے ساتھ مل کر ہر ہفتے کا شیڈول ترتیب دیں، بچوں کے ذہن اور دلچسپیوں کے مطابق ذمہ داریاں بانٹیں۔
9۔ والدین بچوں کے اسکول کے ہوم ورک کی مرحلہ وار تقسیم کرکے اپنی نگرانی میں روزانہ تھوڑا تھوڑا کام کروائیں۔
10۔ بچوں میں ذوقِ مطالعہ پروان چڑھانے کے لیے اچھی اچھی کتب اور رسائل پڑھنے کو فراہم کریں۔ بچوں کو کہانی سننا اچھا لگتا ہے۔ لہٰذا والدین دلچسپ انداز میں بچوں کو کہانی سنائیں۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر کہانی پڑھیں پھر اس پر بات چیت کریں۔
11۔ بچوں میں مطالعے کا ذوق بڑھانے کے لیے والدین انہیں اچھی لائبریری کا تعارف کروائیں اور معیاری کتب منتخب کر کے انہیں فراہم کریں اس طرح اسلامی لٹریچر اور علم کی ایک وسیع دنیا تک ان کی رسائی ہو سکتی ہے۔
12۔ گھر میں اگر لان یا کیاری کی جگہ ہو تو بچوں کو پودے اُگانے اور ان کی نگہداشت کرنا سکھائیں۔
13۔ بچوں کی ضروریات ہی پورا کرنا کافی نہیں ہے بلکہ انہیں وقت اور توجہ کی ضرورت بھی ہوتی ہے لہٰذا والدین اپنی مصروفیات میں سے بچوں کے لیے وقت متعین کریں یہ بچوں کا حق ہے جو اُنہیں ملنا چاہیے۔ والدین کی شفقت سے محرومی کے نتیجے میں بچے احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
14۔ والدین بچوں کے دوستوں کو گھر بلوائیں، ان کی عزت کریں، انہیں توجہ دیں تاکہ ان کا اعتماد بڑھے۔ بچوں کے دوستوں کے گھر والوں سے بھی تعلقات بہتر رکھیں۔ اگر والدین ان کے گھر کے ماحول سے مطمئن نہیں تو بچے کو بُرا بھلا نہ کہیں بلکہ حکمت و تدبر سے کام لیں تاکہ والدین اور بچوں کے درمیان اعتماد کے رشتے کو ٹھیس نہ پہنچے۔
15۔ ہفتے میں چند احادیث بچوں کو ضرور یاد کروائیں۔ الله تعالیٰ کی طرف سے انعامات اور محبت کے مظاہر یاد کرواتے رہیں تو بہترین نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔
16۔ والدین اپنی نگرانی اور توجہ سے بچوں کو یہ احساس دلائیں کہ وہ گھر میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوںکے لیے راعی (نگہبان) ہیں۔ لہٰذا انہیں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ شفقت و محبت اور تحمل و بردباری سے کام لینا چاہیے۔
17۔ لڑکوں کو باجماعت نماز کی عادت پختہ کروانا والد کا فرض ہے۔ گھر میں فیملی کے ساتھ بھی کبھی کبھار باجماعت نماز ادا کی جا سکتی ہے اس طرح چھوٹے لڑکوں کو امامت کے آداب سکھائے جا سکتے ہیں۔
18۔ جمعہ کے دن کو خاص اہمیت دی جائے والدین سب بچوں کے ساتھ مل کر سورۂ الکہف کی تلاوت کر کے سعادت و برکت حاصل کریں۔ ہر فرد ایک رکوع کی تلاوت کر کے ثواب میں حصہ دار ہو سکتا ہے۔ والد لڑکوں کو جمعہ کی جماعت کے لیے مسجد میں لے جائے اس سے جمعہ کی تربیتی اہمیت بھی اُجاگر ہو گی اور دین کا فہم اور فکری غذا بھی میسر آئے گی نیز ایک تسلسل سے ہفتہ وار تربیت کا عمل جاری رہے گا۔
19۔ بچوں کے ساتھ صبح یا شام جیسے ممکن ہو کسی پارک میں، نہر کے کنارے یا ساحل سمندر پر پیدل چلنے کی عادت ڈالی جائے۔ فجر کے بعد کھلی فضا میں چہل قدمی کا لطف اُٹھانا حسن خالق کائنات کے قریب کرنے کا موجب ہو گا۔ نیز بچوں میں کائنات پر غور و فکر کی سوچ پیدا کریں۔
20۔ چھٹیوں میں والدین بچوں کو مختلف ہنر سکھا سکتے ہیں۔ مثلاً خوش خطی، مضمون نویسی، تجوید، آرٹ کے کام، بچیوں کو سلائی کڑھائی، کپڑوں کی مرمت، مہندی کے ڈیزائن وغیرہ۔ والدین اپنے تجربات و مشاہدات کو آپس میں زیر بحث لا سکتے ہیں۔
21۔ بچوں کی تربیت اور کھانے کے عمل میں ماحول بہت اہمیت کا حامل ہے۔ تزکیہ و تربیت میں دعوتِ دین کی سرگرمیاں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ والدین اگر بچوں کے ساتھ دروس قرآن میں شرکت، دوست احباب کو دعوت دینے، لٹریچر تقسیم کرنے، خدمتِ خلق کے تحت مستحق افراد کی مدد کرنے اور امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کو اپنا معمول بنا لیں تو یہ عمل بغیر کسی نصیحت اورتلقین کے بچوں کو خود بخود سکھانے کا ذریعہ بن جائے گا۔
الغرض فرصت کے لمحات خصوصاً تعطیلات میں بچوں کی تربیت کے پیش نظر انہیں توجہ دینا ان کا بنیادی حق اور تربیت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ دو اڑھائی ماہ کی طویل چھٹیوں میں والدین بچوں کے لیے مذکورہ بالا نکات پر عمل کر کے ان کی بہترین انداز میں تربیت کر سکتے ہیں۔
جواب: تخلیقی صلاحیتوں سے مراد کسی بھی فرد کی وہ صلاحیتیں ہیں جن کی بدولت وہ نئے نئے خیالات تخلیق کرتا ہے۔ اس کی خیالی تصویر بنانے کی قوت بہت تیز ہوتی ہے۔ وہ جمالیات کی حس کا مالک ہوتا ہے۔ یہ تمام باتیں نہ صرف بڑے بلکہ چھوٹے بچوں میں بھی موجود ہوتی ہیں۔ وہ ہر چیز اور ہر کام کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں۔ ان میں جستجو کا مادہ ہوتا ہے۔ وہ چھوتے ہیں، سونگھتے ہیں، سوچتے ہیں اور کھلونوں سے باتیں کر کے اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک چیز میں کئی چیزیں ڈال کر دیکھتے ہیں کہ اس سے اب کیا بنے گا۔ ایک رنگ میں کئی رنگ ملاتے ہیں۔ وہ چیزوں کو کبھی علیحدہ رکھتے ہیں اور کبھی ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ کبھی تقسیم کرتے ہیں تو کبھی چھپا دیتے ہیں۔ یعنی تمام امکانات پر غور کرتے ہیں گویا ہر بچے میں تخلیق کا مادہ ہوتا ہے۔
اگر والدین بچوں میں تجسس، جوش و خروش اور کام میں لگن پیدا کریں، ان کو آزاد ماحول فراہم کریں جس میں بچے خود اپنے تجربات کے ذریعے ماحول سے آگاہی حاصل کریں تو ان کی تخلیقی صلاحیتیں مزید نشو و نما پاتی ہیں۔ اِس ضمن میں آرٹس اینڈ کرافٹس (arts and crafts) کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس میں بچے خاص دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس سے بچوں کے سوچنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے، اُنہیں رنگوں کی پہچان ہوتی ہے اور وہ رنگوں کا بہتر استعمال کرنا سیکھتے ہیں۔
اِسی طرح بچوں میں ذوقِ مطالعہ پیدا کرنے کے لیے والدین بچوں کو سوتے وقت قصص الانبیاء، حکایات اور دلچسپ سبق آموز کہانیاں سنا کر اس رحجان کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ بچوں کے ذوق اور سمجھ کے مطابق کتب سے کہانیاں پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ بچوں کو دکان پر لے جا کر کتب خرید کر دے سکتے ہیں، امتحانات یا کامیابی کے مواقع پر بطور انعام کتاب دے کر، بچے کا لائبریری سے تعلق پیدا کر کے، بچوں کی کتاب دوستی کو بتدریج مضبوط کر سکتے ہیں۔
اسی طرح والدین بچوں کو بزمِ ادب کی طرز پر پروگرام میں شریک کر سکتے ہیں۔ جن میں بچوں کی صلاحیت اور رحجان کے مطابق کوئز مقابلے کی تیاری کے لیے کتب کی طرف رجوع کروا کر اُن میں کتب بینی کا شوق بڑھا سکتے ہیں۔ ایسی تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لینے سے بچوں کی شخصیت میں پوشیدہ تخلیقی صلاحیتیں اُجاگر ہو سکتی ہیں۔
مستقبل کی تیاری کے پیش نظر اور بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لیے والدین گھریلو ذمہ داریوں کو بچوں میں تقسیم کر کے ان کی صلاحیتوں کا امتحان لے سکتے ہیں۔ مثلاً نو عمر بچوں کے ساتھ کبھی یہ تجربہ کریں کہ ایک دن والدین گھر میں اپنی ذمہ داریاں اپنی جگہ بچوں کو سونپ کر خود بچے بن جائیں۔ بچوں کو باری باری ایک دن کی ذمہ داری دے کر ان کے چھپے ہوئے جوہر سامنے لائے جا سکتے ہیں۔
نوعمر بچوں کو جج بنا کر گھر میں چھوٹے موٹے خاکے کھیل کے طور پر پیش کیے جائیں تاکہ ان کو انصاف کرنے اور فیصلہ کرنے کی تربیت دی جا سکے۔ کیونکہ جب نوعمر بچوں سے ذمہ دار اور قابل اعتماد ہستی کے طور پر برتاؤ کیا جاتا ہے تو ان کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔
جواب: بچے قوم کا مستقبل ہیں۔ بچوں کی تربیت صحیح نہج پر کر کے ہی روشن مستقبل کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ اس کے برعکس بچوں کی غلط تربیت ان کی سیرت و کردار پر برے اثرات مرتب کرتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے بچوں کی تربیت کو بہت اہمیت دی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ آج والدین بچوں کی تربیت سے غافل ہوگئے ہیں اور ان کی جگہ میڈیا نے لے لی ہے۔ ٹی وی اور کیبل - جسے والدین اپنے بچوں کے لیے تفریح اور تعلیم کا ذریعہ سمجھتے ہیں - یہ دراصل اُن کی تباہی کا ذریعہ بن چکا ہے۔ آج کل بلا مبالغہ تین سے چار سال کے بچے بھی اس کام میں ماہر ہوتے ہیں کہ ٹی وی کو کس طرح آن کرنا ہے اور کیسے چینل تبدیل کرنا ہے۔ چونکہ اکثر بچے والدین کی مدد کے بغیر یہ کام خود ہی کرلیتے ہیں اس لیے کارٹون چینلز لگانے کے دوران وہ کوئی بھی چینل دیکھ لیتے ہیں اور والدین کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ وہ آکر دیکھیں کہ بچے ٹی وی پر کیا دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا بذریعہ ٹی وی اور کیبل ذہنی تفریح کے نام پر بری عادات بچوں کی معصومانہ سوچ کا حصہ بننا شروع ہو جاتی ہیں، کیونکہ اس عمر میں بچوں کے سیکھنے کا عمل سب سے زیادہ دیکھنے اور سننے کے ذریعے ہوتا ہے۔ انہی ذرائع سے وہ زیادہ اثرات قبول کرتے ہیں۔ بچوں پر ٹی وی اور کیبل کے درج ذیل برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں:
1۔ ٹی وی اور کیبل کے زیادہ استعمال سے بچے اخلاقی اقدار سے دور ہو رہے ہیں۔
2۔ بچوں کی صحت مندانہ ذہنی اور جسمانی نشو و نما میں کمی آ رہی ہے۔
3۔ بچوں کی پڑھائی متاثر ہو رہی ہے۔
4۔ بچوں کی کھیل کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے اِن ڈور اور آؤٹ ڈور کھیلوں کے دوران بچے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے جوہر نہیں دکھا سکتے۔
5۔ جرائم پر مبنی پُرتشدد فلمیں، مار دھاڑ پر مبنی ویڈیو گیمز اور اخلاق سے گری ٹیلی ویژن سیریز سے بچوں میں ناراضگی، غصہ اور ہر وقت انکار کرنے والا رویہ اور برے اخلاق جنم لے رہے ہیں۔
6۔ بچوں میں ٹی وی اور کیبل کے زیادہ استعمال سے اکھڑ مزاجی، چڑ چڑا پن، ہٹ دھرمی اور بدتمیزی والے رویے پیدا ہوگئے ہیں۔
7۔ بچوں کی نشو و نما کی رفتار سست ہوگئی ہے کیونکہ زیادہ ٹی وی دیکھنے والے بچوں کی خوراک کم ہوجاتی ہے۔
8۔ بچوں کی نیند کے اوقات بہت بری طرح متاثر ہوتے ہیں ان کی نیند خلل کا شکار رہتی ہے اور وہ رات کو صحیح طرح سو نہیں پاتے۔
یہ امر بہت تشویش ناک ہے۔ والدین کو سنجیدگی سے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ٹی وی اور کیبل سے بچانے کے لیے دیگر سرگرمیوں کی طرف مشغول کریں۔ ٹی وی اور کیبل پر صرف اسلامی پروگرام بچوں کو دیکھنے کی اجازت دیں اور اس کے لیے بھی مناسب وقت متعین کریں۔ اِس دوران والدین خود بچوں کے ساتھ بیٹھ کر وہ پروگرام دیکھیں تاکہ بچے بے راہ روی کا شکار نہ ہو سکیں۔
جواب: تربیت کے لحاظ سے والدین اپنے بچوں کو سی ڈیز / ڈی وی ڈیز وغیرہ کے ذریعے اسلامی و تعلیمی اور ملی پروگرامز دکھائیں۔ مثلاً The Message، امام ابو حنیفہ، امام بخاری، صلاح الدین ایوبی، میجر عزیز بھٹی شہید، راشد منہاس شہید، قیامِ پاکستان، قائد اعظم، علامہ محمد اقبال اور تحریک پاکستان کے دیگر ہیروز کی ڈاکومنٹری وغیرہ بچوں کو دکھائی جائیں۔ اس کے علاوہ اسلامی تعلیمات کے پروگرام، علمی و روحانی شخصیات کی اصلاحی و روحانی گفتگو جو بچوں کی ذہنی صلاحیت کے مطابق ہو، بھی دکھائی جا سکتی ہے۔
والدین بچوں کو یہ اختیار ہر گز نہ دیں کہ وہ جب چاہیں جیسا چاہیں پروگرام چلائیں اور دیکھیں، کیونکہ اس طرح بچوں کے بگڑنے کا اندیشہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس امر کا بھی خصوصی خیال رکھنا چاہیے کہ بچے چھوٹے اور ناسمجھ ہوتے ہیں، انہیں فضول اور لغو مصروفیات سے بچا کر ان کی اسلامی تربیت کریں۔ بچوں کو ہر وقت کمپیوٹر کے ساتھ مصروف نہ رہنے دیں بلکہ ان کے لیے ایک ٹائم ٹیبل متعین کریں جس میں وہ بیٹھ کر اسلامی پروگرام دیکھ سکیں اور والدین بچوں کو ان چیزوں کا استعمال اس طرح کرنا سکھائیں جو بچوں کی دنیوی اور اُخروی کامیابی کا ضامن بن جائے۔
جواب: بچوں میںفکری مہارت پیدا کرنے کے لیے درج ذیل مختلف تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں:
1۔ بچہ جب کوئی بھی کام کرنے لگے تو بسم اللہ سے اس کا آغاز کرے۔ اسے اس بات کا یقین دلایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے ساتھ وہ یہ کام ضرور کر سکتا ہے، ساتھ ہی اسے اس کام کے کرنے کا طریقہ کار بھی وضاحت سے سمجھا دیا جائے۔
2۔ بچوں کے لیے غیر نصابی سرگرمیاں بھی اختیار کرنی چاہئیں۔ مثلاً ایک نقشہ اسکول سے گھر تک کے راستے کا بنایا جائے اور بچے کو راستہ سمجھایا جائے، تاریخی واقعات کے بارے میں ایک نقشہ بنایا جائے اور پھر بچے کو سمجھایا جائے، کوکنگ کی کلاس لی جائے جس میں بچے کو درجہ حرارت اور چیزوں کی مقدار کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں۔
3۔ والدین کو چاہیے کہ جب وہ اپنے بچے کو بازار لے جائیں تو وہاں موجود تمام چیزوں کی پہچان کروائیں مثلاً روپے کی اہمیت، چیزوں کے اوزان وغیرہ۔
4۔ بچے سے سوالات پوچھتے وقت حاکمانہ رویہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ اپنے لہجے اور انداز کو نرم رکھنا چاہیے تاکہ وہ اس کو اچھی طرح سمجھ جائے۔ بچے کو جواب کے لئے سوچنے کا وقت دینا چاہیے اور اس کو اپنے الفاظ میں وضاحت کرنے کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔ بعد ازاں بچے کا جواب صحیح یا غلط ہونے کی وجہ بتانی چاہیے۔
5۔ والدین کو بچے کے سوالات پر اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور اس کے سوالات کے جوابات کے لیے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار رکھنا چاہیے۔
6۔ بچے کے برے عمل کے مقابلے میں اس کے اچھے عمل کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اور اس کی کامیابی اور ناکامی کے اسباب کی وضاحت کرنی چاہیے۔ بچے کی کامیابی پر اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
7۔ بچے کو اس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ وہ خود ہی اپنی غلطیاں تلاش کرے۔ بعد میں والدین اس کی اصلاح کرنے میں اس کی مدد کریں۔
مذکورہ بالا تدابیر اختیار کر کے بچوں میں فکری مہارت پیدا کی جاسکتی ہے۔
جواب: بچوں کو کھیل کود کے مواقع فراہم کرنا اس لیے ضروری ہیں کہ ذہنی و جسمانی نشو و نما کے لیے کھیل بچے کے لیے لازمی امر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کھیل سے جسم چست اور پھرتیلا ہوتاہے۔ کھیلنے کودنے سے اعضاء کھلتے ہیں۔ اعصاب مضبوط اور کشادہ ہوتے ہیں۔ کھیل سے بچپن میں وہ نہ صرف چاق و چوبند رہتے ہیں بلکہ ان میں سیکھنے کی صلاحیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے
حضرت عمرو بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
عرامة الصبي في صغرة، زیادة في عقله في کبره.
حکیم ترمذی، نوادر الأصول فی أحادیث الرسول ﷺ، 2: 344
صنعاني، التنویر شرح الجامع الصغیر، 7: 223، رقم: 5395
بچے کا بچپن میں کھیل کود کرنا بڑے ہو کر اس کے عقلمند ہونے کی دلیل ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نہ صرف بچوں سے کھیلا کرتے بلکہ ان کو کھیل کود کے مواقع بھی فراہم کرتے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کان الحسن والحسین رضی الله عنهما یصطرعان بین یدي رسول الله ﷺ.
أبو یعلی، المعجم، 1: 171، رقم: 194
امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما رسول الله ﷺ کے سامنے کشتی لڑا کرتے تھے۔
امام غزالی اسی نکتے پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
وینبغي أن یؤذن له بعد الانصراف من الکتاب أن یلعب لعبا جمیلا، یستریح إلیه من تعب المکتب بحیث لا یتعب في اللعب، فإن منع الصبي من اللعب وإرھاقه إلی التعلم دائما یمیت قلبه ویبطل ذکائه وینغص علیه العیش، حتی یطلب الحیلة في الخلاص منه رأسا.
غزالي، إحیاء علوم الدین، 1: 280
بچے کو مکتب و مدرسے سے واپس آنے کے بعد ایسے اچھے کھیل کود کی اجازت دے دینی چاہیے جس کے ذریعے مکتب و مدرسے کی تکان اُتر جائے۔ لیکن اس حد تک کہ وہ کھیل کود میں اتنا مشغول نہ ہو کہ اس میں بھی وہ تھکن سے چور چور ہوجائے۔ اس لیے کہ بچے کو کھیل سے روکنا اور اس کو ہمیشہ تعلیم میں مشغول رہنے پر مجبور کرنا بچے کے دل کو مردہ، ذہانت کو ماند اور زندگی کو بے مزہ کردیتا ہے اور پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ تعلیم سے ہی چھٹکارا پانے کی کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے۔
والدین کو چاہیے کہ بچوں کی پڑھائی کے مخصوص اوقات میں ان کو کھیلنے کی اجازت نہ دیں کیونکہ اس سے وقت ضائع ہوتا ہے اور مطلوبہ مقصد بھی حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن جونہی بچے سکول کے کام سے فارغ ہوں تو انہیں کھیل کود اور طبیعت ہلکی پھلکی کرنے کا سامان بہم پہنچائیں۔ نیز والدین بچوں کے ساتھ کبھی کبھار کھیل میں شریک ہو کر اُن کی خوشی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ جیت اور ہار کی دونوں کیفیات میں صحیح طرز عمل کی تلقین سے بچوں کی جذباتی تربیت اور ان کی غلطیوں کی اصلاح بھی کر سکتے ہیں۔
جواب: اسلام بچوں کو تیر اندازی، گُھڑ سواری، دوڑ اور تیراکی جیسے کھیل کھیلنے کی ترغیب دیتا ہے اور یہ کھیل حضور نبی اکرم ﷺ کی احادیث مبارکہ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی روایات اور طرزِ عمل سے ثابت ہیں۔
حضرت جابر بن عبد الله اور حضرت جابر بن عمیر انصاری رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کُلُّ شَيئٍ لَیْسَ مِنْ ذِکْرِ اللهِ تعالیٰ فَھُوَ لَھْوٌ أَوْ سَھْوٌ إِلَّا أَرْبَعُ خِصَالٍ: مَشْيُ الرَّجُلِ بَیْنَ الْغَرَضَیْنِ، وَتَأْدِیْبُہٗ فَرَسَہٗ، وَمُلَاعَبَہٗ أَھْلِہٖ، وَتَعَلُّمُ السَّبَاحَۃِ.
نسائي، السنن الکبری، 5: 303، رقم: 8940
طبراني، المعجم الکبیر، 2: 193، رقم: 1785
بیھقي، السنن الکبری، 10: 15، رقم: 19525
ہر وہ چیز جس میں الله کا ذکر نہیں وہ لغو ہے یا غفلت کا باعث ہے، سوائے چار کاموں کے: آدمی کا دو نشانوں کے درمیان چلنا، گھڑ سواری کی تربیت، اہل خانہ کے ساتھ کھیلنا اور تیراکی سیکھنا۔
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
مَرَّ النَّبِيُّ ﷺ عَلٰی نَفَرٍ مِنْ أَسْلَمَ یَنْتَضِلُوْنَ۔ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: ارْمُوا بَنِي إِسْمَاعِیْلَ، فَإِنَّ أَبَاکُمْ کَانَ رَامِیًا، ارْمُوا وَأَنَا مَعَ بَنِي فُـلَانٍ۔ قَالَ: فَأَمْسَکَ أَحَدُ الْفَرِیْقَیْنِ بِأَیْدِیْهِمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا لَکُمْ لَا تَرْمُونَ۔ قَالُوْا: کَیْفَ نَرْمِي وَأَنْتَ مَعَهُمْ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: ارْمُوا فَأَنَا مَعَکُمْ کُلِّکُمْ.
بخاري، الصحیح، کتاب الجھاد والسیر، باب التحریض علی الرمي…،
3: 1042، رقم: 2743
حاکم، المستدرک، 2: 103، رقم: 2445
بیهقی، السنن الکبری، 10: 17، رقم: 19539
حضور نبی اکرم ﷺ قبیلہ اسلم کے بعض لوگوں کے پاس سے گزرے تو وہ تیر اندازی کر رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے بنی اسماعیل! تیر اندازی کرو کیونکہ تمہارے باپ (حضرت اسماعیل) تیر انداز تھے۔ تم تیر اندازی کرو اور میں بنی فلاں کے ساتھ ہوں۔ راوی بیان کرتے ہیں: ایک فریق نے اپنے ہاتھ روک لیے تو رسول الله ﷺ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا جو تیر اندازی نہیں کرتے؟ اُنہوں نے عرض کیا: ہم کس طرح تیر اندازی کریں جبکہ آپ فریق ثانی کے ساتھ ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم تیر اندازی کرو میں تم سب کے ساتھ ہوں۔
حضرت انس ﷺ سے روایت ہے:
کَانَ لِلنَّبِيِّ ﷺ نَاقَۃٌ تُسَمَّی الْعَضْبَاءَ، لَا تُسْبَقُ، قَالَ حُمَیْدٌ: أَوْ لَا تَکَادُ تُسْبَقُ، فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ عَلٰی قَعُوْدٍ فَسَبَقَهَا، فَشَقَّ ذٰلِکَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ حَتّٰی عَرَفَہٗ، فَقَالَ: حَقٌّ عَلَی اللهِ أَنْ لَا یَرْتَفِعَ شَيْئٌ مِنَ الدُّنْیَا إِلَّا وَضَعَہٗ.
بخاري، الصحیح، کتاب الجھاد والسیر، باب ناقۃ النبي ﷺ …، 3:
1053، رقم: 2717
أحمد بن حنبل، المسند، 3: 103، رقم: 12029
أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في کراھیۃ الرفعۃ في الأمور، 4: 253، رقم: 4802
نسائی، السنن الکبری، 3: 42، رقم: 4429
حضور نبی اکرم ﷺ کی اُونٹنی مبارک کا نام عضباء تھا۔ دوڑ میں کوئی اُونٹنی اُس سے سبقت نہیں لے جا سکتی تھی۔ حمید راوی بیان کرتے ہیں: بلکہ سبقت لے جانے کے قریب بھی نہ پھٹکتی تھی۔ ایک دفعہ ایک ناقہ سوار اعرابی آیا تو اُس کی اونٹنی دوڑ میں عضباء سے آگے نکل گئی۔ مسلمانوں پر یہ حرکت بڑی شاق گزری۔ حتی کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو بھی اُن کی ناراضگی کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہے کہ جب وہ دنیا میں کسی کو بلند کرتا ہے تو پھر اسے نیچے بھی گراتا ہے (یعنی کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے)۔
حضرت ابو قلابہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
عَلِّمُوْا أَوْلَادَکُمْ: الْعَوْمَ وَالرِّمَایَۃَ.
ابن أبي الدنیا، العیال، 2: 579، رقم: 398
تم اپنی اولاد کو تیراکی اور تیر اندازی (جیسے عملی فنون) سکھایا کرو۔
علاوہ ازیں ایسے کھیل کھیلنے کی ترغیب دینی چاہئے جو بچوں کو جسمانی لحاظ سے صحت مند اور چست بنائیں اور قویٰ و اعضاء میں سختی برداشت کرنے کی طاقت پیدا کریں، کیونکہ الله تعالیٰ کو ایسا مومن زیادہ پسند ہے جو قوی اور طاقت ور ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَیْرٌ وَأَحَبُّ إِلَی اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیْفِ.
مسلم، الصحیح، کتاب القدر، باب في الأمر بالقوۃ وترک العجز…،
4: 2052، رقم: 2444
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 344، رقم: 8777
ابن ماجہ، السنن، کتاب الزھد، باب التوکل والیقین، 2: 1395، رقم: 4148
طاقت ور مومن الله تعالیٰ کے نزدیک کمزور مومن سے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے۔
جواب: جی ہاں! حضور نبی اکرم ﷺ بچوں کے ساتھ کھیلتے بھی تھے اور کھیلنے والوں کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کا بچوں کے ساتھ کھیلنا احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
دَخَلْتُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ یَمْشِي عَلٰی أَرْبَعَۃٍ، وَعَلٰی ظَهْرِهِ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ رضی الله عنهما، وَهُوَ یَقُوْلُ: نِعْمَ الْجَمَلُ جَمَلُکُمَا، وَنِعْمَ الْعِدْلَانِ أَنْتُمَا.
طبرانی، المعجم الکبیر، 3: 52، رقم: 2441
ھیثمي، مجمع الزوائد، 9: 182
میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ ہاتھوں اور پاؤں کے بل چل رہے تھے، آپ ﷺ کی پشت مبارک پر امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما سوار تھے اور آپ ﷺ یہ فرما رہے تھے: تمہارا یہ اونٹ بہترین اونٹ ہے اور تم دونوں کا جوڑا بہترین جوڑا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن الحارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
کان رسول الله ﷺ یَصُفُّ عبدَ الله وعُبَیْدَ الله وکَثیراً من بني العباس، ثم یقول: مَنْ سَبَقَ إِليَّ فَلَہٗ کذا وکذا، قال: فیستبقون إلیه، فیقعون علی ظهره وصدره، فیقبّلھم، وَیَلْزَمُھُمْ.
أحمد بن حنبل، المسند، 1: 214، رقم: 1834
ھیثمی، مجمع الزوائد، 5: 243
حضور نبی اکرم ﷺ حضرت عبد اللہ اور حضرت عبید اللہ اور حضرت کثیر بن العباس lکو ایک لائن میں کھڑا کر کے فرماتے تھے: تم میں سے جو میرے پاس سب سے پہلے پہنچے گا اسے فلاں فلاں چیز ملے گی۔ راوی کہتے ہیں: سب ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے (دوڑ کر) ایک دوسرے سے آگے بڑھتے اور آپ کی کمر اور سینے پر گر پڑتے۔ آپ ﷺ اُنہیں چومتے اور سینے سے لگالیتے۔
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
کُنْتُ أَلْعَبُ مَعَ الصِّبْیَانِ. فَجَاءَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَتَوَارَیْتُ خَلْفَ بَابٍ. قَالَ: فَجَاءَ فَحَطَأَنِي حَطْأَةً. وَقَالَ: اذْهَبْ وَادْعُ لِي مُعَاوِیَۃَ.
مسلم، الصحیح، کتاب البر و الصلۃ والآداب، باب من لعنہ النبي
ﷺ أو سبہ أو دعا علیہ …، 4: 2010، رقم: 2404
أحمد بن حنبل، المسند، 1: 240، رقم: 2150
میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، اچانک حضور نبی اکرم ﷺ آ گئے، میں (جھجک کی وجہ سے) دروازے کے پیچھے چھپ گیا، آپ ﷺ نے میرے پاس آ کر میرے شانوں کے درمیان تھپکی دی (یعنی حوصلہ افزائی کی) اور فرمایا: جائو، اور معاویہ ( رضی اللہ عنہ ) کو میرے پاس بلا لاؤ۔
الغرض حضور نبی اکرم ﷺ کا اسوہ حسنہ ہر لحاظ سے بہترین نمونہ ہے۔ آپ ﷺ بچوں کے ساتھ نہ صرف کھیلتے بلکہ مزاح فرماتے اور کھیل میں اُن کی حوصلہ افزائی بھی فرماتے۔
جواب: جی ہاں! بچوں کی ذہنی نشو و نما کے لیے ویڈیو گیمز کا کھیلنا بھی ضروری ہے کیونکہ ویڈیو گیمز ایسی تفریح ہے جس سے بچوں کی بصری اور ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ویڈیو گیمز اگر بچے کی ذہنی سطح، عمر اور شعور کو مدنظر رکھ کر کھیلنے دی جائیں تویہ ذہنی اور جسمانی کارکردگی کے لیے بے حد مفید ثابت ہوتی ہیں۔ ویڈیو گیمز کھیلنے والے بچے ریاضی، جغرافیے اور زبانیں سیکھنے میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں۔ ان میں سوچ اور تخلیق کا ملکہ بڑھنے لگتا ہے۔ اسی دوران وہ بہت سے مسائل حل کرنے کے لیے تجزیاتی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ گیمز میں تیزی سے تبدیل ہونے والے حالات اور ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ جس سے ان میںمسئلہ کو خود حل کرنے کی مہارت پیدا ہوتی ہے اور ان میں سوچنے کی صلاحیت بھی تیز ہو جاتی ہے۔
لیکن اس میں بھی اعتدال و توازن کی ضرورت ہے۔ اگر بچے اپنا بیشتر وقت ویڈیو گیمز کھیلنے میں صرف کریں گے تو یہ پہلو بچوں کی صحت کے لیے مضر ہے۔ کیونکہ مسلسل گیمز کھیلنے میں مصروف رہنے والے بچوں کے دماغ کے ساتھ ان کی نظر بھی کمزور ہو جاتی ہے اور وہ نفسیاتی مریض بھی بن جاتے ہیں۔ اس سے بچے جھگڑالو، بد اخلاق، تند خو اور چڑچڑے بن جاتے ہیں۔ ان کے جسم کمزور، نحیف اور لاغر ہوجاتے ہیں۔ سوتے وقت یا اندھیرے میں ڈرنے اور کانپنے لگتے ہیں۔ بہت زیادہ گیمز کھیلنے سے بچوں کے ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہو جاتا ہے ہڈیوں اور عضلات کی تکلیف لاحق ہوجاتی ہے۔
ایسی صورت میں والدین کا فرض ہے کہ ویڈیو گیمز کے لیے گھر میں قاعدے اور ضابطے مقرر کریں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ گیمز پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ سنجیدگی اور ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچوں کو مؤثر ویڈیو گیمز کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کو کھیلنے کا مخصوص وقت دیں تاکہ اس سے ان کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہو۔
جواب: کارٹون کا انتخاب بچوں کی ذہنی نشو و نما میں بیک وقت مثبت اور منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ معیاری کارٹون چینلز کے انتخاب سے بچوں کو سائنسی آلات سے آگاہی ملتی ہے۔ وہ نئے خیالات سے آشنا ہوتے ہیں ان میں بچوں کے لیے تفریح کے ساتھ عام معلومات اور بنیادی انسانی اخلاقی تعلیم بھی ہوتی ہے جو بچے خوشی خوشی سیکھتے ہیں۔
جبکہ غیر معیاری کارٹون چینلز کے انتخاب سے بچوں کے ذہن پر مثبت اثرات کی بجائے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بچے غیر اخلاقی کارٹونزمیںجو دیکھتے ہیں عملی زندگی میں ویسا ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ویسے ہی نتائج برآمد ہونے کے منتظر رہتے ہیں جو انہوں نے پردہ اسکرین پر مشاہدہ کیا تھا، لیکن حقیقت میں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ کارٹون پروگرام میں وہ سب کچھ پیش کیا جاتا ہے جن کا حقیقی اور عملی زندگی سے دور کا تعلق نہیں ہوتا۔ بچے حقیقی زندگی میں دنیا کا مقابلہ کرنے کی بجائے جادوئی، طلسماتی، جنوں، پریوں، دیوتائوں اور تخیلاتی پرستان کی شہزادیوں اور ٹام اینڈ جیری کے کارٹونوں والی دنیا کے اسیر ہو جاتے ہیں۔
کارٹون کے اسیر بچے اسکول سے آتے ہی بستہ پھینک کر کارٹون چینل آن کر دیتے ہیں۔ کھانا وہیں کھاتے ہیں۔ ہوم ورک وہیں کرتے ہیں۔ کپڑے وہیں تبدیل کرتے ہیں۔ تعلیمی معیار میں خرابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بچوںکا دھیان کارٹون نیٹ ورک میں ہوتا ہے اور ہاتھ ہوم ورک کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہوم ورک تو ہو جاتا ہے مگر مقصدیت سے خالی۔ بچے جسمانی و ذہنی نشو و نما کو فروغ دینے والے کھیل اور سرگرمیوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
والدین اپنی مصروفیات میں مگن بچوں کی ضد اور رونے سے بچنے کے لیے غیر شعوری طور پر ایسے کارٹون چینل لگا دیتے ہیں، لیکن اُنہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ مسلسل غیر معیاری کارٹون دیکھنے سے بچوں کے ذہن پرکیا منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین بچوں کو ایسے کارٹون پروگرام دکھائیں جو معیاری اور بامقصد ہوں، جو بچوں کی ذہنی و جسمانی صحت پر مثبت اثرات مرتب کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ مناسب وقت کا تعین بھی ضروری ہے۔
جواب: اسلامی منہج کی رو سے ایمانی تربیت بچے کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں اصل اور بنیاد کا درجہ رکھتی ہے۔ ایمان کی ضرورت سے کوئی بھی بچہ بے نیاز نہیں رہ سکتا بلکہ یہ تو باقی تمام ضروریات کے لیے راہنما کی حیثیت رکھتی ہے اور اُن میں پاکیزگی اور نکھار لاتی ہے۔ ایمان کی طلب ایک انسانی ضرورت ہے جو اسے باقی تمام مخلوقات سے منفرد اور ممتاز بناتی ہے۔
وہ وجوہات جن کی بناء پر بچوں کی ایمانی تربیت ضروری ہے درج ذیل ہیں:
1۔ انسانی زندگی کے لیے ایمان لازم، ضروری اور عظیم ترین شے ہے، یہ وہ عظیم حقیقت ہے جس کی تائید مختلف تہذیبوں کی تاریخ کے نفسیاتی و فلسفیاتی مطالعہ سے ہوتی ہے۔
2۔ دورِ حاضر میں انسانی اقدار اور اخلاق حسنہ سے دوری کی وجہ سے تہذیب برائیوں میں گھری نظر آتی ہے جو عقیدے کی کمزوری اور ایمان کی طرف میلان نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔
3۔ عصر حاضر میں معاشرہ اخلاقی انحطاط اور دینی و روحانی کمزوریوں کا شکار ہو چکا ہے۔ محبت، تعاون، معاشرتی اتحاد و یکجہتی اور اخلاق حسنہ کی کمی کی وجہ سے دینی معاملات میں سستی، غفلت اور لاپرواہی در آئی ہے۔
4۔ فطرت کی حفاظت و نگہداشت کے لیے بھی ایمانی تربیت ضروری ہے وہی فطرت جس پر انسان کی پیدائش ہوئی ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ.
بخاري، الصحیح، کتاب الجنائز، باب ما قیل فی أولاد المشرکین،
1: 445، رقم: 1319
مسلم، الصحیح، کتاب القدر، باب معنی کل مولود یولد علی الفطرۃ …، 4: 2047، رقم: 2458
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 233، رقم: 7181
أبو داؤد، السنن، کتاب السنۃ، باب في ذراي المشرکین، 4: 229، رقم: 4714
ترمذي، السنن، کتاب القدر، باب ما جاء کل مولود یولد علی الفطرۃ، 4: 447، رقم: 2138
ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔
بچے کو جیسا ماحول اور تربیت میسر آئے گی بچہ اسی رخ پر چلے گا۔ لہٰذا پیدائش کے ساتھ ہی صحیح، موزوں سمت اور بے عیب فطرت کی طرف ایمانی تربیت نہایت ضروری ہے۔ اگر بچے کو اسلامی ماحول اور ایمانی تربیت میسر آئے گی تو وہ یقینا معاشرہ میں حقیقی با عمل مسلمان بن کر اُبھرے گا۔
جواب: اسلامی نقطہ نظر سے بچوں کی بنیادی ضروریات کو درج ذیل پانچ درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے:
زندگی کی بقاء کے لیے بچے کو جن بنیادی ضروریات سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان میں کھانا، پینا اور رہائش شامل ہیں۔ بچے کو اگر بھوک و پیاس کا احساس ہوتا ہے تو وہ اس مادی ضرورت کو حاصل کرنے کے لیے رونے اور چیخنے چلانے کا سہارا لیتا ہے۔ اس اعتبار سے رونا بھی ایک زبان ہے جس کے ذریعے سے بچہ اس خاص ضرورت کے متعلق اظہار کرتا ہے۔
بچہ خوف اور خطرات سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے جو بھی کوشش کرتا ہے اس میں وہ اپنی اسی ضرورت کو بیان کرتا ہے۔ بچہ بھی اپنی ذاتی حفاظت کے پیشِ نظر بہت سے رویوں کا سہارا لیتا ہے۔
معاشرے کے ساتھ ربط و تعلق اور قوم کا ایک فرد ہونے کا شعور بچے کی ذاتی اور معاشرتی ضرورت ہے۔ طبعی طور پر بچہ زندگی میں میل جول اور روابط بڑھانے کو پسند کرتا ہے اور یہی فطرتی رغبت اسے دوسروں سے تعلقات قائم کرنے کی طرف مائل کرتی ہے۔ اس طرح وہ دوسروں کے ساتھ محبت، اخلاص اور تعاون پر مبنی تعلقات کا رشتہ قائم کرتا ہے۔
بچے کو اپنے متعلق یہ شعور رکھنا ضروری ہے کہ وہ اچھے اعمال سر انجام دے سکتا ہے اوراپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو نبھانے کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہے یعنی اسے اپنے بارے میں خود مختاری کا شعور ہوتا ہے۔
بچے کو یہ ضرورت بھی لاحق ہوتی ہے کہ وہ اپنی مختلف قسم کی مہارتوں اور صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھا کر کامیابیوں کے حصول میں ہر ممکن کوشش کرے اور ان کے ذریعے اپنی خوش قسمتی کو سچا کر دکھائے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں بھی ہے:
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کُلٌّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہٗ.
بخاري، الصحیح، کتاب التوحید، باب قول الله تعالی ولقد یسرنا
القرآن لذکر…، 4: 2745، رقم: 7112
مسلم، الصحیح، کتاب القدر، باب کیفیۃ الخلق الآدمي في بطن أمہ وکتابۃ رزقہ وأجلہ وعملہ
وشقاوتہ وسعادتہ، 4: 2041، رقم: 2449
أبوداؤد، السنن، کتاب السنۃ، باب في القدر، 4: 228، رقم: 4709
ترمذی، السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ ھود، 5: 289، رقم: 3111
ہر شخص کے لیے وہ منزل آسان کر دی جاتی ہے جس کے لیے اس کی تخلیق کی گئی ہے۔
جواب: جی ہاں! والدین کو اپنے تمام بچوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے کیونکہ اولاد کے درمیان مساوات قائم رکھنا بھی تربیت کا ایک اصول ہے۔ والدین کوچاہیے کہ وہ سب بچوں کو ایک ہی طرح کی چیز دیں، ایک ہی طرح کا ان سے سلوک کریں اور سب سے ایک جیسی محبت کریں۔
کسی بھی بچے کو متوازن شخصیت کا حامل بنانے میں اس کے والدین کا کردار اہم ہے۔ یہ اُس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب وہ اپنی تمام اولاد کے ساتھ برابری کا سلوک کریں۔ ایک بچے کو دوسرے پر ترجیح نہ دیں، محبت کے معاملے میں اور نہ ہی روز مرہ کے معمولات زندگی یعنی خوراک، تعلیم اور پرورش وغیرہ کے معاملے میں۔ جو والدین یہ مساوات قائم رکھنے میں کامیاب ہوگئے گویا وہ اپنے بچوں کو کامیاب افراد بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ احادیث مبارکہ میں بھی بچوں کے درمیان برابری کا سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
سَوُّوْا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ فِي الْعَطِیَّۃِ.
طبرانی، المعجم الکبیر، 11: 354، رقم: 11997
بیھقی، السنن الکبری، 4: 177، رقم: 11780
حارث، مسند الحارث، 1: 512، رقم: 454
اپنی اولاد میں تحائف کی تقسیم میں برابری رکھا کرو۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
فَاتَّقُوا اللهَ، وَاعْدِلُوْا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ.
بخاری، الصحیح، کتاب الھبۃ و فضلھا باب الإشھاد في الھبۃ، 2: 914، رقم: 2447
اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ تَعَالٰی یُحِبُّ أَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ حَتّٰی فِي الْقُبَلِ.
هندي، کنز العمال، 14: 185، رقم: 45350
بے شک اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو یہاں تک کہ بوسہ لینے میں بھی۔
الغرض حضور نبی اکرم ﷺ کی کئی احادیث مبارکہ سے اولاد کے درمیان عدل و مساوات اور ان سے ایک جیسی محبت کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ لہٰذا والدین کو اپنی اولاد کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے۔
جواب: اگر والدین اپنے بچوںسے یکساں سلوک نہ کریں تو ان کے اس غیر مساوی رویے سے بچے اخلاقی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بچوں کے دلوں میں حسد اور نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ خوف اور رونے کی عادات پیدا ہوجاتی ہیں اس سے بچے گستاخ، باغی، جھگڑالو اور نافرمان بن جاتے ہیں۔ پھر بچے رات کو اکثر ڈرتے ہیں اور اعصابی امراض کے علاوہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا والدین کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ اگر وہ اپنے بچوں کے مابین پیار اور محبت میں مساوات سے کام نہیں لیں گے تو جس بچے نے یہ محسوس کر لیا کہ اس پر کم توجہ دی جارہی ہے اور اس کی نسبت اس کے دوسرے بہن بھائیوں سے زیادہ پیار کیا جا رہا ہے تو وہ مذکورہ بالا بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی اس بات کو پسند نہیں فرمایا کہ والدین اپنے بچوں کے مابین یکساں سلوک نہ کریں اور اولاد کے درمیان انصاف قائم نہ کریں۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے منبر پر بیان فرمایا:
أَعْطَانِي أَبِي عَطِیَّۃً. فَقَالَتْ عَمْرَۃُ بِنْتُ رَوَاحَۃَ: لَا أَرْضٰی حَتّٰی تُشْهِدَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، فَأَتٰی رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَقَالَ: إِنِّي أَعْطَیْتُ ابْنِي مِنْ عَمْرَۃَ بِنْتِ رَوَاحَۃَ عَطِیَّۃً. فَأَمَرَتْنِي أَنْ أُشْهِدَکَ، یَا رَسُوْلَ اللهِ. قَالَ: أَعْطَیْتَ سَائِرَ وَلَدِکَ مِثْلَ ہٰذَا؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَاتَّقُوا اللهَ، وَاعْدِلُوْا بَیْنَ أَوْلَادِکُمْ. قَالَ: فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِیَّتَہٗ.
بخاری، الصحیح، کتاب الھبۃ وفضلھا، باب الإشھاد في الھبۃ، 2:
914، رقم: 2447
مسلم، الصحیح، کتاب الھبات، باب کراھۃ تفضیل بعض الأولاد في الھبۃ، 3: 1242، رقم:
1423
أبو داؤد، السنن، کتاب الإجارۃ، باب في الرجل یفضل بعد ولدہ في النحل، 3: 292-293،
رقم: 3542-3545
میرے والد نے مجھے کچھ عطیہ دیا (میری والدہ) عَمْرَہ بنت رَواحہ نے (میرے والد یعنی اپنے شوہرسے) کہا: میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی جب تک آپ اس پر رسول اللہ ﷺ کو گواہ نہ بنائیں۔ لہٰذا وہ (یعنی میرے والد) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے: میں نے اپنے بیٹے کو جو عَمْرَہ بنت رواحہ سے ہے ایک عطیہ دیا ہے۔ یا رسول اللہ! وہ مجھ سے کہتی ہے کہ میں آپ کو گواہ بناؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کو ایسا ہی عطیہ دیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو۔ راوی کہتے ہیں: پس وہ واپس لوٹ آئے اور اپنا عطیہ واپس لے لیا (شاید ان کے پاس اس وقت سب کو برابر دینے کی مالی استطاعت نہ تھی۔ اس لیے اس عمل کو اگلے وقت پر مؤخر کر دیا ہو)۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
کَانَ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ رَجُلٌ، فَجَاءَ ابْنٌ لَہٗ، فَقَبَّلَہٗ وَأَجْلَسَہٗ عَلٰی فَخِذِہٖ، ثُمَّ جَائَتْ بِنْتٌ لَہٗ، فَأَجْلَسَهَا إِلٰی جَنْبِہٖ. قَالَ: فَهَلَّا عَدَلْتَ بَیْنَهُمَا.
طحاوي، شرح معانی الآثار، 4: 89
بیھقی، شعب الایمان، 4: 410، رقم: 8700
تمام رازی، الفوائد، 2: 237، رقم: 1414
ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 13: 394
ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر تھا کہ اس شخص کا بیٹا اس کے پاس آیا۔ اس شخص نے اسے چوما اور اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ پھر اس کی بیٹی آئی تو اس نے اسے پہلو میں بٹھا لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے ان دونوں کے درمیان عدل کیوں نہ کیا۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے یہاں بچوں کے درمیان پیار کے اظہار میں بھی غیر مساویانہ رویے کو ناپسند فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اپنی اولاد کے درمیان ہر معاملے میں عدل وانصاف قائم کرو۔
جواب: بچوں کی نفسیاتی تربیت کے متعدد معانی ہیںجو درج ذیل ہیں:
1۔ نفسیاتی تربیت سے مراد زندگی کے مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بچے کی تربیت اس انداز میں کرنا ہے کہ اس میں ہمدردی، اچھے روابط اور محبت کے جذبات فروغ پائیں۔
2۔ بچے میں موجود مثبت اور خیر وبھلائی کی صفات کو اس طرح نکھارنا کہ وہ ممکن حد تک کمال کا درجہ حاصل کر لیں۔
3۔ بچے کی کامل شخصیت کی تعمیر کے لیے اس کے عمل اور کردار کی مسلسل اصلاح کرتے رہنا۔
4۔ بچے کے قدرتی اور فطرتی اوصاف کی نگہداشت کرنا اور اس کی حفاظت اور ترقی کے لیے جدوجہد کرنا۔
5۔ بچے کو فرائض کی عمدہ طریقے سے ادائیگی کے لیے ایسے قوانین اور قواعد و ضوابط کا عادی بنانا جو اس کی تربیت اور پرورش میں ممد و معاون ثابت ہوں۔
6۔ کائنات، زندگی اور دنیوی اُمور سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں بچے کے ذہنی و نفسیاتی رحجانات و میلانات کی تعمیر کرنا۔ اس کے اندر وہ شعور اور احساس پیدا کرنا جو اسے حق و باطل، درست و غلط اور پسندیدہ و ناپسندیدہ کے مابین امتیاز اور فرق سے آشنا کر دے۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللهَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَاناً.
الأنفال، 8: 29
اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لیے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا۔
7۔ نیکی اور بھلائی کے اُمور میں پیش قدمی کے لیے بچے کو جرات اور ہمت کی ترغیب دینا اور اس سلسلے میں انعام کے ذریعے حوصلہ افزائی کرنا۔
8۔ بچے کی قدرتی اور فطرتی عادات کو اسلامی اصولوں کے مطابق اس طرح نکھارنا کہ ان عادات کو نہ تو بالکل کچل دیا جائے اور نہ ہی اسے مطلق آزادی دی جائے۔
الغرض بچے کی نفسیاتی تربیت سے مراد اس کی شخصیت کی تعمیراور اس کے ذاتی و نفسیاتی اوصاف کی تکمیل ہے جو کہ ترقی، رہنمائی اور ہدایت کے تمام پہلوؤں پر مشتمل ہے۔
جواب: بچوں کی نفسیاتی تربیت کا دار و مدار ان کی ضروریات اور حاجات کو ملحوظ رکھنے پر ہوتا ہے۔ لہٰذا اچھی پرورش اور بہتر نگہداشت کے عمل کو شروع کرتے وقت درج ذیل ضروریات اور حاجات کو اہمیت دی جائے۔
بچے کی اہم ترین ضرورت جس کا نفسیاتی تربیت کے ساتھ گہرا تعلق ہے وہ سکون و اطمینان ہے۔ یہی ضرورت اس کے اندر وہ جذبہ اور رحجان پیدا کر دیتی ہے جسے بچے کے اقدامات اور ترجیحات میں ایک قائدانہ حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا بچے کو سکون مہیا کرنے اور اس کے اندر اسی جذبہ کو بیدار کرنے کے لیے والدین کے کردار کو بنیادی درجہ حاصل ہے۔
محبت کا شعور بچے کی بنیادی ضرورت ہے جو بچے کو امن و سکون اور اطمینان مہیا کرتی ہے اور اس کی قدرتی و فطرتی ضروریات کو پورا کرتی ہے جو الله تعالیٰ نے اس کے اندر رکھ دی ہیں۔ والدین کی محبت ہی بچے کو محبت کرنے کا انداز سکھاتی ہے اور پھر محبت کا یہ میلان اس کی نشو و نما کے ساتھ مزید بڑھتا چلا جاتا ہے۔ بچوں کے ساتھ عمدہ برتاؤ اور حسنِ سلوک سے دو طرفہ محبت اور نفسیاتی اطمینان میسر آتا ہے اور یہی چیز بچے کے لیے والدین کی محبت کی حقیقی اور مثالی تعبیر ہے۔ اسی کے ذریعے بچہ اپنے ساتھ محبت کرنے والے افراد کی اُلفت کا ہمہ جہتی جائزہ لیتا ہے۔
بچے کی نفسیاتی تربیت کا میل جول پر مبنی مشترکہ زندگی اور خاندان کے تعلق کی ضرورت سے گہرا تعلق ہے۔ بچے کو باشعور ہوتے ہی اپنے خاندان کے ساتھ تعلق اور نسبت کا شعور آ جاتا ہے اور یہ انسانیت کا اولین جذبہ ہے جو اس کے لیے نسبت کے حق کو ثابت کرتا ہے۔ اس کی تکمیل اس کے ساتھ محبت کے اظہار اور خاندان کے اندر اس کے لیے امن و سکون کی فضا مہیا کرنے کے ذریعے سے ہوتی ہے۔
بچہ ہمیشہ اپنے خاندان کی گرم جوشی اور شفقت و پیار کے ذریعے ہی سے محبت کا جوہر حاصل کرتا ہے۔ والدین اور خاندان کے دیگر افراد کی بچے کے ساتھ محبت ہی اسے محبت کا انداز سکھاتی اور اس کے محبت کے جذبہ کو بیدار کرتی ہے اور بچے کے اندر ربط و تعلق کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
بچے کو احترام و تکریم کی ضرورت ہوتی ہے جس کا نفسیاتی تربیت کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ احترام و تکریم کا شعور بچے کے اندر ایک پس منظر کھڑا کر دیتا ہے جو بچے کو اصولوں پر قائم رہنے کی ترغیب دلانے کا باعث بنتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ پوری عزت اور فخر کے ساتھ ان کا دفاع کرنے والا بن جاتا ہے۔ عزت و تکریم بچے کو بے راہ روی کے افکار و نظریات کے سامنے حرفِ انکار کہنے کی جرات سے ہمکنار کرتی ہے۔
بچے کی ذہانت اور سمجھداری کو پروان چڑھانے اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لیے اسے آزادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے کو اپنی آزادی و خود مختاری اور اس سلسلے میں ماحول کی طرف سے اس کی حوصلہ افزائی کا جس قدر زیادہ شعور حاصل ہوتا ہے اسی قدر اسے اپنے پسندیدہ ہونے کا شعور نصیب ہوتا ہے۔
دوسروں کے ہاں مقبول اور پسندیدہ ہونے کی خواہش بچے کی ذاتی ضرورت ہے۔ اِس ضرورت کو پورا کرنے سے بچے کی مثبت صفات کو فروغ ملتا ہے اور وہ بہت سے ایسے منفی رویوں سے بھی محفوظ ہو جاتا ہے جو اسے اپنے آپ کو پسندیدہ بنانے کی راہ میں لاحق ہوتے ہیں۔ ان منفی رویوں سے بچے کو محفوظ رکھنا والدین کی طرف سے مخصوص تربیتی کردار کا تقاضا کرتا ہے تاکہ بچے کی دوسروں کے ہاں قبولیت اور پسندیدگی کی ذاتی ضرورت مستحکم ہو۔
کامیابی بچے کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے ساتھ زندگی کی مشکلات اور مستقبل کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ بچے کی استعداد خواہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو وہ اس کے ذریعے اپنی ذاتی حیثیت اور نشو و نما کے مراحل کے مطابق کامیابی حاصل کرتا ہے۔ بڑے افراد کی نظر میں جو چیز معمولی ہوتی ہے وہ بچوں کی سمجھ کے مطابق کامیابی کہلاتی ہے۔ لہٰذا جب بچے کی کامیابیوں کو تسلیم کیا جائے تو اس سے اسے بہت خوشی حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا بچے کو کامیابی کے مواقع اور لمحات فراہم کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔
الغرض یہ تمام ضروریات بچے کے لیے ضروری ہیں تاکہ اسے معاشرے میں گھل مل جانے کی تربیت حاصل ہوتی رہے اور بچہ بے چینی سے آزاد، مطمئن اور بھرپور شخصیت کا حامل بن سکے۔ ان ضروریات کا تقاضا یہ ہے کہ والدین میں خاطر خواہ اصلاح اور ان کو بروئے کار لانے کی حد درجہ مہارت ہو اس کے بعد ہی وہ قواعد و ضوابط کی روشنی میں اور مکمل توازن کے ساتھ ان ضروریات کے ذریعے بچے کی شخصیت کی تعمیر کر سکتے ہیں۔
جواب: والدین بچوں کے انداز و اطوار کے اسباب و محرکات اور ان کی ذاتی و بنیادی ضروریات کو سمجھ کر ہی ان کی نفسیات سمجھ سکتے ہیں۔ ان اُمور کو سمجھے بغیر سرسری و سطحی انداز میں معاملہکرنا بالعموم بچوں کے طرزِ زندگی کو پیچیدہ اور مشکل بنا دیتا ہے۔ خواہ وہ بچپن کے مرحلہ میں ہوں یا نشو و نما کے دیگر کسی مرحلہ میں۔
یہ حقیقت نفسیاتی و تربیتی تحقیقات کی رو سے ثابت ہے، اور اس سے پہلے حضور نبی اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں ہمارے دین اسلام نے اس کی توثیق فرمائی ہے کہ ہر طرزِ عمل کا کوئی نہ کوئی محرک ضرور ہوتا ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ، وَإِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیٍٔ مَا نَوٰی.
بخاری، الصحیح، کتاب بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي…، 1:
3، رقم: 1
مسلم، الصحیح، کتاب الإمارۃ، باب قولہ: إنما الأعمال بالنیۃ وأنہ یدخل فیہ الغزو
وغیرہ من الأعمال، 3: 1515، رقم: 1907
أبوداؤد، السنن، کتاب الطلاق تفریع أبواب الطلاق، باب فیما عني بہ الطلاق والنیات،
2: 242، رقم: 2201
ابن ماجہ، السنن، کتاب الزہد، باب النیۃ، 2: 1413، رقم: 4227
بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔
بچوں کی ذاتی اور بنیادی ضروریات اپنا وجود رکھتی ہیں۔ ہر بچہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا۔ ان کی ضرورت محسوس کرتا ہے اگر بچے کی ان بنیادی ضروریات کو پورا نہ کیا جائے اور لاپرواہی برتی جائے تو پھر بچہ اپنی حاجات کو اکثر غلط اور ناپسندیدہ طریقوں سے پورا کرنے کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔
بچے کی بنیادی ضروریات سے لاپرواہی اور عدم توجہی کے نتیجے میں بچے کو درج ذیل صورتیں لاحق ہو سکتی ہیں:
1۔ بچہ حد سے زیادہ حساسیت کی وجہ سے ذمہ داریوں سے گریز، پہلوتہی اور اپنی ذات میں سمٹائو جیسے عوارض کا شکار ہو جائے گا اور یہ عوارض اس کی مستقبل کی شخصیت کو بے جان کر دینے کا باعث بن سکتے ہیں۔
2۔ بچہ اپنی ضروریات کو حاصل کرنے کے لیے تشدد اور جارحیت کا راستہ اپنا سکتا ہے۔ بچے کا اپنے خاندانی حلقے اور اپنے والدین کے خلاف اختیار کردہ ردِ عمل انتقام کی کئی شکلیں اختیار کر سکتا ہے اور اس کی مختلف علامات ہو سکتی ہیں مثلاً بغض و عناد اور تشدد و جارحیت کے طریقوں کو اپنانا وغیرہ۔
لہٰذا والدین کو اپنے بچے کی نشو و نما کے طریقوں اور اس کی ذاتی ضروریات کی جس قدر معرفت حاصل ہو گی اُسی قدر وہ بچے کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے اپنے بچے کی صحیح اور محفوظ رہنمائی کر سکیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ بچہ اپنے انداز و اطوار اور روزمرہ کے رویوں میں بہت حد تک اپنے گھر اور قرب و جوار کے ماحول سے متاثر ہوتا ہے۔ جو اس کی نشو و نما اور پرورش میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں، تاہم بچے کے انداز و اطور میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا اکثر تعلق خود اس کی اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ جب والدین کو بچے کی ذاتی ضروریات اور اس کی نشو و نما کے مختلف مراحل کی خصوصیات کی پہچان ہو جاتی ہے تو انہیں بچے کے خاموش کلام کی سمجھ آجاتی ہے اور بچے کے طرزِ عمل میں پیدا ہو جانے والے بگاڑ پر بھی انہیں کنٹرول حاصل ہو جاتا ہے۔
بچے کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے والدین کا وہ خوف بھی ختم ہو جاتا ہے جو اچھی تربیت اور عمدہ رہنمائی کے سلسلے میں انہیں لاحق رہتا ہے اور وہ بچے کے ساتھ تناؤ سے لبریز رویے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ معرفت والدین کو اپنے بچوں کی مہارت اور ان کی صلاحیتوں کو کچلنے کی بجائے ترقی اور فروغ دینے پر آمادہ کرتی ہے اور بچے کی قدرتی اور فطری صلاحیتوں کے ظاہر ہونے اور پھر انہیں ترقی دینے کی راہوں کو آسان کرتی ہے۔
جواب: ہر بچے کی کوئی نہ کوئی ذاتی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی شخصیت اور اس کے کردار پر اثر انداز ہوتی ہے۔ بچے کے ساتھ برتاؤ کرنے کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کی بہتر رہنمائی اور عمدہ نشو و نما کی خاطر اس کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
بچہ جس وقت روحانی اور جسمانی نشو و نما کے مراحل طے کر رہا ہوتا ہے اس وقت اس کی اولین ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں سے اپنی حیثیت و اہمیت منوائے اور اس کااظہار بھی کرے۔ یہ اس کی خود مختاری، خود اعتمادی اور ذاتی صلاحیتوں کے شعور و ادراک پر مبنی رحجان کا پہلا اظہار ہوتا ہے۔ اس کے لیے بچہ مختلف قسم کے رویے اپنانے پر مجبور ہو تاہے۔ بعض اوقات اس کے یہ رویے والدین کی بے قراری اور پریشانی کا موجب بنتے ہیں جبکہ بچے کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس کے والدین اسے نظر انداز نہ کریں۔ بلکہ ایک مستقل شخصیت کے طور پر اس کا اعتراف کریں اور اس کے نمایاں وجود کو تسلیم کریں۔ جب والدین بچے کی نفسیات کو سمجھ نہیں پاتے تو انہیں بچے کے درج ذیل رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے:
بچہ ضد اور انکار کے ذریعے والدین کی خواہش و آرزو کی کھلم کھلا مخالفت کرتا ہے۔ والدین کی بات کو توجہ سے نہیں سنتا اور بیماری کے بہانے بھی بنانے لگتا ہے۔
جب والدین بچے کو سمجھ نہیں پاتے تو وہ توجہ حاصل کرنے کے لیے ارد گرد کی اشیاء کو توڑنے پھوڑنے لگتا ہے۔
بچہ کھانا کھانے سے انکار کر کے والدین کو بے چین کر کے ان کی توجہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
بچہ روزمرہ کے معمولات میں اپنی بات منوانے کے لیے شور و غل کا سہارا لیتا ہے۔
بچہ والدین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے گھر آئے ہوئے مہمانوں کا بھی لحاظ یا خیال نہیں کرتا بلکہ ان کے سامنے چیختا چلاتا ہے۔ پھر والدین بھی مہمانوں کے سامنے پریشان کن ردِ عمل اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
بچہ اپنی حیثیت منوانے کے لیے جھوٹ بول کر ایسے کارناموں کو سر انجام دینے کا دعویٰ کرتا ہے جن کا سرے سے کوئی وجود نہیں ہوتا۔
الغرض بچہ والدین کو متوجہ کرنے کے لیے مختلف پریشان کن رویے اختیار کرتا ہے۔ بچے کے اس طرح کے طرزِ عمل کو دیکھتے ہی والدین کے متنبہ ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے سب سے پہلے بچے کے ان رویوں کا جائزہ لے کر ان کے نفسیاتی اسباب و محرکات کا سدِ باب کیا جائے تاکہ بچے کے ان منفی رویوں میں زیادہ شدت پیدا نہ ہو۔
جواب: والدین کے مابین اختلافات، لڑائی جھگڑے، مسلسل کشمکش اور تناؤ بچوں کی زندگی میں سکون و اطمینان کو ختم کر دیتے ہیں۔ بچے اگرچہ چھوٹے ہوتے ہیں مگر ان کی یاداشت بہت تیز ہوتی ہے۔ جب والدین آپس میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں تو بچے اپنے کسی لازمی رد عمل سے انہیں محسوس تو نہیں ہونے دیتے مگر وہ سن رہے ہوتے ہیں اور ان کی یاداشت پر وہ منظر ثبت ہو رہا ہوتا ہے۔ جس سے بچوں پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ وہ اپنے ذہن میں سوچتے ہیں کہ ہمارے والدین کے آپس کے جھگڑے تو ختم نہیں ہوتے۔ خوامخواہ ہم پر رعب ڈالتے ہیں۔ جب ماں بچوں پر کسی وجہ سے ناراض ہو رہی ہوتی ہے تو وہ دل میں کہتے ہیں کہ والد کی ناراضگی کا غصہ ہم پر نکال رہی ہیں۔ اسی طرح جب باپ غصے میں بچوں سے بات کرتا ہے تو وہ سوچتے ہیں کہ امی ابو کی بات نہیں مانتیں تو ابو غصہ ہم پر نکال رہے ہیں۔ یوں بچوں کو جب والدین کے درمیان دائمی جھگڑوں کی بدولت سکون نصیب نہیں ہوتا تو ان میں مخالفت اور سرکشی جنم لیتی ہے اور ان کی شخصیت کبھی بھی مکمل نہیں ہو پاتی۔
لہٰذا اگر والدین کے مابین کبھی لڑائی جھگڑے یا اختلاف کی نوبت آجائے تو انہیں چاہیے کہ بچوں کے سامنے اس کا اظہار نہ کریں بلکہ آپس میں ہی اس معاملے کو حل کر لیں۔ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی نظر میں اپنی بیوی کو قابلِ احترام بنائے۔ مثلاً جب بھی وہ بچوں کے پاس بیٹھے تو کہے: بچو! اپنی والدہ کی بات غور سے سنا کرو اور ان کا ادب کیا کرو۔ اسی طرح بیوی کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی نظر میں اپنے شوہر کا احترام پیدا کرے۔ ماں بچوں کے ساتھ جب اکیلی ہو تو ان کو سمجھائے کہ اپنے والد کی بات مانا کرو اور ان کا احترام کیا کرو۔ جب دونوں میاں بیوی اس اُصول کو اپنا لیں گے تو بچے ماں اور باپ دونوں کی باتوں پر عمل کریں گے اور اسی طرح ان کی اچھی تربیت ہو سکے گی۔
جواب: والدین کو چاہیے کہ بچہ اگر غلطی یا کوتاہی کرے تو اس کو اس انداز سے نہ ٹوکیں کہ اسے برا محسوس ہو یا اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچے بلکہ اس کے لیے کسی مناسب موقع کا انتظار کر کے مجموعی طور پر اس بچے کا نام لیے اور مخاطب کیے بغیر اس کوتاہی یا غلطی کی طرف اشارہ کرنا چاہیے۔ اس سے ایک تو غلطی کرنے والے کو خود احساس ہو جاتا ہے اور وہ اسے ترک کر دیتا ہے اور اسے یہ بھی محسوس نہیں ہوتا کہ یہ بات خاص طور پر اسے کہی جا رہی ہے۔ دوسرا باقی سب بچوں کو بھی تنبیہ ہو جاتی ہے۔ ہاں اگر انفرادی تنبیہ زیادہ بہتر ہو تو انفرادی طور پر تنہائی میں تنبیہ کر دینی چاہیے لیکن مثبت انداز میں۔ کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے اُسوۂ حسنہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ انفرادی طور پر متنبہ کرنے کی بجائے کسی مجمع کو خطاب کرتے ہوئے اس کوتاہی کی طرف اشارہ فرما دیتے لیکن اگر کبھی اس بات کی ضرورت محسوس فرماتے کہ غلطی پر براہ راست متنبہ کر دیا جائے تو تنہائی میں نہایت محبت سے سمجھاتے تاکہ مخاطب کسی قسم کی احساس کمتری کا شکار بھی نہ ہو اور وہ اپنی اصلاح بھی کر لے۔
جیسا کہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
کُنْتُ غُـلَامًا فِي حُجْرِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَکَانَتْ یَدِي تَطِیْشُ فِي الصَّحْفَۃِ. فَقَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: یَا غُـلَامُ، سَمِّ اللهَ وَکُلْ بِیَمِیْنِکَ وَکُلْ مِمَّا یَلِیْکَ. فَمَا زَالَتْ تِلْکَ طِعْمَتِي بَعْدُ.
بخاری، الصحیح، کتاب الأطعمۃ، باب التسمیۃ علی الطعام والأکل
بالیمین، 5: 2054، رقم: 5041، 5043
مسلم، الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب آداب الطعام والشراب وأحکامھما، 3: 1599، رقم: 2022
ابن ماجہ، السنن، کتاب الأطعمۃ، باب الأکل بالیمین، 2: 1087، رقم: 3247
میں لڑکپن میں حضور نبی اکرم ﷺ کے زیر کفالت تھا (آپ ﷺ کے ساتھ کھانا کھاتے وقت) میرا ہاتھ پیالے میں ہر طرف چلتا رہتا تھا۔ (ایک مرتبہ جب میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھا تھا) تو آپ ﷺ نے (مجھے سمجھاتے ہوئے) فرمایا: بیٹے! پہلے بسم اللہ پڑھو، پھر دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھایا کرو اس کے بعد ہمیشہ میں اسی طریقہ سے کھاتا ہوں۔
والدین کو چاہیے کہ بچے کو کسی بھی غلطی پر سمجھاتے ہوئے نرمی سے ٹوکیں کیونکہ غلطی پر نرم رویہ اصلاح کی قوی تاثیر پیدا کر ے گا اور آئندہ کے لیے بچے کو اس کا ضمیر اس غلطی پر متنبہ کرے گا اور وہ اس غلطی کو دہرانے سے گریز کرے گا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے سمجھانے کا اندازِ مبارک بھی اسی طرح تھا کہ غلطی میں کوئی بھلائی کا پہلو ہوتا تو پہلے اس کے ذریعہ حوصلہ افزائی فرماتے پھر غلطی نہ دہرانے کی نصیحت فرماتے۔
ایک مرتبہ حضرت ابی بکرۃ رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے جماعت ہو رہی تھی، لوگ رکوع میں تھے ان صحابی نے وہیں سے نماز کی نیت باندھ لی اور رکوع میں شامل ہو گئے تاکہ رکعت نہ چھوٹے اور پھر آہستہ آہستہ چل کر صف میں شامل ہو گئے۔ نماز کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ کو اطلاع دی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا:
زَادَکَ اللهُ حِرْصًا وَلَا تَعُدْ.
بخاری، الصحیح، کتاب صفۃ الصلاۃ، باب إذا رکع دون الصف، 1:
271، رقم: 750
أحمد بن حنبل، المسند، 5: 42، رقم: 20452
أبو داؤود، السنن، کتاب الصلاۃ، باب الرجل یرکع دون الصف، 1: 182، رقم: 483
نسائي، السنن الکبری، 1: 302، رقم: 943
الله تعالیٰ تمہاری حرص زیادہ کرے لیکن دوبارہ ایسا نہ کرنا۔
حالانکہ بڑی عمر کے صحابی تھے مگر پھر بھی حضور نبی اکرم ﷺ نے کس طرح پیار اور محبت سے ان کو سمجھایا۔
اِسی طرح حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
بَیْنَا أَنَا أُصَلِّي مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ. إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ. فَقُلْتُ: یَرْحَمُکَ اللهُ، فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ. فَقُلْتُ: وَا ثُکْلَ أُمِّیَاهْ، مَا شَأْنُکُمْ؟ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ. فَجَعَلُوا یَضْرِبُوْنَ بِأَیْدِیْهِمْ عَلٰی أَفْخَاذِهِمْ. فَلَمَّا رَأَیْتُهُمْ یُصَمِّتُوْنَنِي. لٰـکِنِّي سَکَتُّ. فَلَمَّا صَلّٰی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي، مَا رَأَیْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَہٗ وَلَا بَعْدَہٗ أَحْسَنَ تَعْلِیْمًا مِنْهُ. فَوَاللهِ، مَا کَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي. قَالَ: إِنَّ ہٰذِهِ الصَّلَاۃَ لَا یَصْلُحُ فِیْهَا شَيْئٌ مِنْ کَلَامِ النَّاسِ. إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِیْحُ وَالتَّکْبِیْرُ وَقِرَائَۃُ الْقُرْآنِ.
مسلم، الصحیح، کتاب الصلاة، باب تحریم الکلام في الصلاة ونسخ
ما کان من إباحة، 1: 381، رقم: 537
نسائي، السنن الکبری، 198، رقم: 554
بیھقي، السنن الکبری، 2: 249، رقم: 3145
میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز میں شریک تھا کہ جماعت میں کسی شخص کو چھینک آئی، میں نے کہا ’یرحمک الله‘ لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا: ’کاش یہ مر چکا ہوتا تم مجھے کیوں گھور رہے ہو!‘ یہ سن کر انہوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنا شروع کر دیا، جب میں نے سمجھا وہ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں تو میں خاموش ہو گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، میںنے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے بہتر کوئی سمجھانے والا نہیں دیکھا۔ خدا کی قسم! آپ ﷺ نے مجھے جھڑکا نہ برُا بھلا کہا، نہ مارا، نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: نماز میں باتیں نہیں کرنی چاہئیں، نماز میں صرف تسبیح، تکبیر اور تلاوت کرنی چاہیے۔
لہٰذا والدین کے لیے بھی ضروری ہے کہ چھوٹے بچوں کو اُسوۂ حسنہ کی روشنی میں موقع محل کے مطابق پیار اور محبت کے ساتھ غلطی پر یوں سمجھائیں کہ ان کا اس طرح سے سمجھانا بچوں کی اصلاح کا ذریعہ بنے۔
جواب: والدین بچوں میں ارکانِ ایمان کی تخم ریزی حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ کی اقتداء، آپ ﷺ کے اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اولاد کے ساتھ برتاؤ کے طریقے کی پیروی سے کر سکتے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں تربیت کی بنیادیں اور ان کو مضبوط و مستحکم کرنے کے طریقے درج ذیل ہیں جن سے والدین بچوں کے قلوب و اذہان میں اَرکانِ ایمان کی تخم ریزی کر سکتے ہیں:
1۔ اسلام نے نومولود بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کو اس کی پیدائش کے فوراً بعد مشروع کیا ہے، تاکہ سب سے پہلے اس کے کان میں پاکیزہ کلام ذکر الله جائے اور الله کا نام بچے کو ذہن نشین کرایا جائے۔ اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ نومولود کے کان کے ساتھ سب سے پہلے اذان کے کلمات ٹکرائیں جن کے اندر توحید اور شہادت کا کلمہ موجود ہے۔ جسے دین اسلام میں داخل ہونے کے لیے سب سے پہلے ادا کیا جاتا ہے۔
2۔ والدین بچے کے ذہن میں الله تعالیٰ کی وحدانیت کے عقیدے کو مضبوط اور اس کے ساتھ محبت کے تعلق کو مستحکم کریں۔ بچہ سب سے پہلے تعلق اور محبت میں مہارت حاصل کرتا ہے۔ اِس لیے الله تعالیٰ کی محبت کو اپنی اولاد کے نفوس میں پیوست کرنا عقیدہ توحید کے لیے اساس کی حقیقت رکھتا ہے۔ بچہ قدرتی طور پر اپنے ساتھ حسنِ سلوک کرنے والے کے ساتھ محبت کا تعلق قائم رکھتا ہے۔ جب اسے یہ معرفت نصیب ہو جائے کہ اس کا خالق و رازق صرف الله تعالیٰ ہے اور وہی اسے کھلاتا اور پلاتا ہے تو اُس کی محبت مزید بڑھ جائے گی اور اپنے خالق سے محبت کی بنیاد پر وہ قرآن حکیم اور ان احکامات و اخلاق سے شغف رکھے گا جنہیں الله تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے پسند فرمایا ہے۔
3۔ والدین بچوں میں الله تعالیٰ کی اطاعت و فرما نبرداری راسخ کریں۔ بچے کے ذہن میں یہ بات مضبوط و مستحکم کریں کہ خود اسے اور آسمانوں اور زمین کے درمیان ہر چیز کو پیدا کرنے والی ذات صرف الله تعالیٰ کی ہے۔ وہ ان کی باتوں کو سنتا، انہیں دیکھتا اور ان کے ظاہری و پوشیدہ حالات کو جانتا ہے۔ وہ اکیلا و یکتاہے، اس کا کوئی شریک کار نہیں اس کی کوئی حاجت نہیں جبکہ ساری مخلوق اس کی حاجت مند ہے۔ لہٰذا خالص اسی کی عبادت کی جائے۔ وہ ہر شے کا نگران ہے تو اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے تمام پوشیدہ و ظاہری اُمور میں اس کے خوف کو نصب العین بنایا جائے۔
4۔ والدین بچوں کا الله تعالیٰ سے تعلق مضبوط کریں، کیونکہ ایمانی تربیت کی اساس اور بنیاد یہ ہے کہ انسان اور اس کے پروردِگار کے مابین کبھی نہ ٹوٹنے والا تعلق قائم ہو۔ اس سلسلے میں الله تعالیٰ کی عبادت بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ چنانچہ عبادت میں استقامت بچے کو یہی شعور عطا کرتی ہے کہ اس کا رشتہ الله تعالیٰ کے ساتھ جڑا ہوا ہے، وہ اسی سے ہدایت کا طلب گار اور مدد کا خواستگار ہوتا ہے۔ صرف الله تعالیٰ ہی اس کی دعا اور پکار کو قبول فرماتا ہے۔ جب بچہ نماز، روزہ اور قرآن حکیم کی تلاوت کو اپنا معمول بنا لیتا ہے تو اس سے بچے اور الله تعالیٰ کے مابین تعلق مضبوط ہو جاتا ہے۔
5۔ مسلمان ہونے کے ناطے اور بحیثیت والدین یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ ایمان اور حب رسول ﷺ کی یہ وراثت اپنی اولاد میں منتقل کر دیں، تاکہ محبت کا یہ پیغام اگلی نسلوں تک پہنچتا رہے۔ اس طرح چراغ سے چراغ جلنے کا عمل جاری رہے۔ اس فریضہ سے سبکدوش ہونے کے لیے والدین بچوں کے سامنے آپ ﷺ کے حسن و جمال اور خوبصورتی و رعنائی کا تذکرہ قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ کی روشنی میں خوبصورت اور دلکش انداز میں کریں۔ آپ ﷺ کے خصائل، فضائل اور کمالات کے بارے میں بچوں کو بتائیں کہ آپ ﷺ جامع کمالات انبیاء ہیں اور آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس میں تمام انبیاء و رسل کے محامد و محاسن اور معجزات و کمالات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ والدین بچوں کے قلوب و ارواح میں حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت کو مضبوط اور پختہ کریں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی پاکیزہ سنتوں کی پیروی اور آپ ﷺ کے اَقوال و اَفعال کی اقتدا کی ترغیب دیں۔ بچوں کے ذہن میں راسخ کریں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا اُسوۂ حسنہ ہی قابل تقلید ہے۔ یہی وہ آئینہ ہے جس میں آپ ﷺ کی سنت، سیرت اور خلق عظیم کا پرتو جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح انفرادی اور اجتماعی سطح پر آپ ﷺ کی تعلیمات اور ان کی روشنی میں متعین کردہ اقدار سے والدین بچوں کی بہترین تربیت کر سکتے ہیں۔
6۔ فرشتوں پر ایمان لانے کے بارے میں والدین بچوں کو سادہ تشریح کر کے بتائیں کہ فرشتے الله تعالیٰ کی معزز مخلوق ہیں جو الله تعالیٰ کی قطعاً نافرمانی نہیں کرتے بلکہ وہی کام کرتے ہیں جس کاانہیں حکم دیا جاتا ہے۔ یہ معرفت و ادراک بچوں کو مختلف تربیتی خیالات سے روشناس کرائے گا مثلاً فرشتوں سے حیاء کا احساس پیدا ہو گا جو اعمال کی کتابت کے لیے مکلف بنائے گئے ہیں۔ نیز بچوں کو شعور ملے گا کہ فرشتے ذکرِ الٰہی کی مجالس اور نمازوں کے اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں۔
7۔ والدین بچوں کو الله تعالیٰ کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے کے ساتھ، کتب، رسالت اور نبوت کے معانی و مطالب سے روشناس کروائیں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اہم کتابوں مثلاً توریت، زبور، انجیل اور صحفِ ابراہیم سے انہیں مختصراً متعارف کرائیں پھر اس کے بالمقابل قرآن حکیم کے حوالے سے تفصیلاً بتائیں جو اسے باقی کتابوں سے ممتاز کر دے۔ بچوں کو بتایا جائے کہ الله تعالیٰ کی طرف سے قرآن حکیم تمام آسمانی کتابوں میں بیان شدہ تعلیمات کے سلسلے کی آخری آسمانی کتاب ہے جس میں ہر شے کی اجمالاً تفصیل موجود ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت کا موجب ہے۔
8۔ والدین بچوں میں یومِ آخرت پر ایمان رکھنے کا شعور راسخ کریں کہ اس دنیا کے فنا ہونے کے ساتھ ہی یومِ آخرت کی ابتدا ہو جائے گی۔ اس کائنات کی ہر چیز فنا ہو جائے گی اور زمین و آسمان بدل جائیں گے۔ اس حوالے سے بچوں کے اذہان میں بہت سے سوالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ وہ زمین، سورج، ستارے اور اجرامِ سماویہ کے وضع اور ساخت کے متعلق دریافت کر سکتے ہیں۔ ایسے لمحات میں یومِ آخرت کے مفہوم کو ذہن میں پختہ کرنے کی ابتداء کی جائے اور یومِ آخرت کے متعلق قرآن حکیم کی منظر کشی اور اس کے مختلف ناموں (یوم البعث، یوم القیامۃ، یوم التلاق، یوم التناد، الحاقۃ، الغاثیۃ، الواقعہ) کے معانی و مطالب کو بھی بیان کیا جائے۔
9۔ والدین بچوں کو تقدیر کے اچھے اور برے پہلو پر ایمان لانے کے ساتھ قضاء و قدر کے مسائل اور ان کے مطالب و مفاہیم کو ان کی فہم و فراست کے مطابق بیان کریں۔ تاکہ ان کے اذہان میں کوئی ابہام پیدا نہ ہو۔
10۔ والدین بچوں کو قرآن حکیم اور سنت نبویہ کی تعلیم دیں۔ بچوں کو قرآن حکیم کی بعض سورتوں اور بعض ایسی احادیث نبویہ یاد کروائیں جن کا تعلق معاملات اور اخلاقیات کے ساتھ ہو۔
الغرض! صحیح عقیدہ ہی وہ بنیاد ہے جس سے باقی تمام سرگرمیاں جنم لیتی ہیں۔ اسی لیے دین میں عقیدے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
جواب: بچوں کو کھانا کھانے سے پہلے کی درج ذیل دعا یاد کروانی چاہیے:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جب کھانا کھاؤ تو پڑھو:
بِسْمِ اللهِ وَبَرْکَۃِ اللهِ.
حاکم، المستدرک، 4: 120، رقم: 7084
طبرانی، المعجم الاوسط، 2: 344، رقم: 2247
طبرانی، المعجم الصغیر، 1: 125، رقم: 185
شروع کرتا ہوں الله کے نام اور الله کی برکت سے۔
جواب: بچے اگر کھانا کھانے سے قبل بِسْمِ اللهِ پڑھنا بھول جائیں تو انہیں درج ذیل دعا یاد کروانی چاہیے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی کھانا کھانے سے قبل بِسْمِ اللهِ پڑھنا بھول جائے تو وہ کہے:
بِسْمِ اللهِ فِي أَوَّلِهٖ وَآخِرِهٖ.
أحمد بن حنبل، المسند، 4: 143، رقم: 25149
أبوداؤد، السنن، کتاب الأطعمۃ، باب التسمیۃ علی الطعام، 3: 347، رقم: 3747
ترمذي، السنن، کتاب الأطعمۃ، باب ما جاء في التسمیۃ علی الطعام، 4: 288، رقم: 1858
ابن ماجہ، السنن، کتاب الأطعمۃ، باب التسمیۃ عند الطعام، 2: 1084، رقم: 3244
الله کے نام سے شروع کرتا ہوں اِس کے اوّل میں بھی اور اس کے آخر میں بھی۔
جواب: بچوں کو کھانا کھانے کے بعد درج ذیل دعا یاد کروانی چاہیے:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب کھانے سے فارغ ہو جاتے تو فرماتے:
الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِینَ.
أحمد بن حنبل، المسند، 3: 32، 98، رقم: 11294، 11953
أبو داؤد، السنن، کتاب الأطعمۃ، باب ما یقول الرجل إذا طعم، 3: 344، رقم: 3850
ترمذي، السنن، کتاب الدعوات، باب ما یقول إذا فرغ من الطعام، 5: 508، رقم: 3457
ابن ماجہ، السنن، کتاب الأطعمۃ، باب ما یقال إذا فرغ من الطعام، 2: 1092، رقم: 3283
سب تعریفیں الله تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا اور ہمیں مسلمان بنایا۔
جواب: بچوں کو پانی پیتے وقت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھنا سکھایا جائے۔
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
سَمُّوا إِذَا أَنْتُمْ شَرِبْتُمْ.
ترمذی، السنن، کتاب الأشربۃ، باب ماجاء في التنفس في الاناء،4:
302، رقم: 1885
طبراني، المعجم الکبیر، 11: 144، رقم: 11378
پانی پینے سے قبل {بِسْمِ اللهِ} پڑھو۔
جواب: بچوں کو دودھ پینے کی درج ذیل دعا یاد کروانی چاہیے:
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص دودھ پیئے تو وہ کہے:
اللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْهِ وَزِدْنَا مِنْهُ.
أحمد بن حنبل، المسند، 1: 225، رقم: 1978
أبو داؤد، السنن، کتاب الأشربۃ، باب ما یقول إذا شرب اللبن، 3: 339، رقم: 3730
ترمذي، السنن، کتاب الدعوات، باب ما یقول إذا أکل طعاماً، 5: 504، رقم: 3455
ابن ماجہ، السنن، کتاب الأطعمۃ، باب اللبن، 2: 1103، رقم: 3322
اے الله ! ہمیں اس میں برکت دے اور ہمیں یہ زیادہ عطا فرما۔
جواب: بچوں کو لباس پہننے کی درج ذیل دعا یاد کروانی چاہیے:
حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص لباس پہنے تو وہ یوں کہے:
الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي کَسَانِي هٰذَا الثَّوْبَ وَرَزَقَنِیْهِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّۃٍ.
أبو داؤد، السنن، کتاب اللباس، باب ما یقول إذا لبس ثوباً
جدیداً، 4: 42، رقم: 4023
أبو یعلی، المسند، 3: 42، رقم: 1488
حاکم، المستدرک، 1: 487، رقم: 1870
طبرانی، المعجم الکبیر، 20: 181، رقم: 389
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ کپڑا پہنایا اور میری طاقت و قوت کے بغیر مجھے مرحمت فرمایا۔
جواب: لباس اتارتے وقت بِسْمِ اللهِ پڑھنی چاہیے۔ حضرت بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
إِنَّ سَتْرَ مَا بَیْنَ عَوْرَاتِ بَنِي آدَمَ وَبَیْنَ أَعْیُنِ الْجِنِّ وَالشَّیَاطِیْنِ أَنْ یَقُوْلَ أَحَدُکُمْ إِذَا وَضَعَ ثِیَابَہٗ: بِسْمِ اللهِ.
ابن أبي شیبۃ، المصنف، 4: 93، رقم: 29735
بنو آدم کی پردہ پوشی اور جن و شیاطین کے اس کا ستر دیکھنے کے درمیان یہ چیز حائل ہے کہ جب بھی کوئی شخص کپڑے اُتارے تو وہ بِسْمِ اللهِ پڑھ کر اُتارے۔
جواب: بچوں کو سونے سے پہلے کی درج ذیل دعا یاد کروانی چاہیے:
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب بستر پر تشریف لے جاتے تو یہ دعا فرماتے:
اللّٰهُمَّ بِاسْمِکَ أَمُوْتُ وَأَحْیَا.
بخاری، الصحیح، کتاب الدعوات، باب وضع الید الیمنی تحت الخد
الیمنی، 5: 2327، رقم: 5955
أحمد بن حنبل، المسند، 5: 385، رقم: 23319
أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب ما یقال عند النوم، 4: 311، رقم: 5049
ترمذی، السنن، کتاب الدعوات، باب منہ (8)، 5: 481، رقم: 3417
اے اللہ! میں تیرے نام کے ساتھ سوتا اور جاگتا ہوں۔
سوال 90: نیند سے بیدار ہونے کے بعد کی کون سی دعا یاد کروانی چاہیے؟
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب بیدار ہوتے تو فرماتے:
الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَیْهِ النُّشُوْرُ.
بخاری، الصحیح، کتاب الدعوات، باب وضع الید الیمنی تحت الخد
الیمنی، 5: 2327، رقم: 5955
مسلم، الصحیح، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب ما یقول عند النوم وأخذ
المضجع، 4: 2083، رقم: 2711
أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب ما یقال عند النوم، 4: 311، رقم: 5049
الله تعالیٰ کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں مرنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔
جواب: بچوں کو بیت الخلاء میں جانے کی درج ذیل دعا یاد کروانی چاہیے:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو فرماتے:
اَللّٰهُمَّ، إِنِّي أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ.
بخاری، الصحیح، کتاب الوضوء، باب مایقول عند الخلاء، 1: 44،
رقم: 142
مسلم، الصحیح، کتاب الحیض، باب ما یقول إذا أراد دخول الخلاء، 1: 283، رقم: 375
أبو داؤد، السنن، کتاب الطھارۃ، باب ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء، 1: 2، رقم: 4
ابن ماجہ، السنن، کتاب الطھارۃ وسنتھا، باب ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء، 1: 109،
رقم: 298
اے اللہ! میں ناپاکوں او رناپاکیوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
جواب: بچوں کو بیت الخلاء سے نکلتے وقت کی درج ذیل دعا یاد کروانی چاہیے:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب بیت الخلاء سے باہر تشریف لاتے تو فرماتے:
الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنِّي الْأَذٰی وَعَافَانِي.
ابن ماجہ، السنن، کتاب الطھارۃ وسنتھا، باب ما یقول إذا خرج
من الخلاء، 1: 110، رقم: 301
ابن أبي شیبۃ، المصنف، 1: 12، رقم: 4
طبراني، الدعاء، 1: 134، رقم: 372
الله تعالیٰ کا شکر ہے کہ جس نے مجھ سے تکلیف دور کر دی اور مجھے عافیت بخشی۔
جواب: سیڑھیاں چڑھتے وقت بچوں کو الله اکبر کہنا سکھانا چاہیے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
کُنَّا إِذا صَعِدْنَا کَبَّرْنَا.
بخاری، الصحیح، کتاب الجھاد والسیر، باب التسبیح إذا ھبط وادیا،
3: 1091، رقم: 2831
نسائی، السنن الکبری، 4: 139، رقم: 10374
بیھقی، السنن الکبری، 5: 259، رقم: 10144
جب ہم بلندی پر چڑھتے تو تکبیر پڑھتے تھے۔
بلندی سے مراد کوئی بھی بلند جگہ ہے جیسے پہاڑ، سیڑھیاں، اونچائی وغیرہ اور تکبیر سے مراد الله اکبر ہے۔
جواب: بچوں کو سیڑھیاں اُترتے وقت سُبْحَانَ اللهِ کہنا سکھانا چاہیے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
إِذَا نَزَلْنَا سَبَّحْنَا.
بخاری، الصحیح، کتاب الجھاد والسیر، باب التسبیح إذا ھبط وادیا، 3: 1091، رقم: 2831
جب ہم کسی (بلندی سے) نیچے اُترتے تو تسبیح پڑھتے۔
تسبیح سے مراد سُبْحَانَ اللهِ ہے۔
جواب: بچوں کو گھر سے نکلتے وقت کی درج ذیل دعا یاد کروانی چاہیے:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: گھر سے باہر جاتے وقت یہ کلمات کہے جائیں:
بِسْمِ اللهِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللهِ.
أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب ماجاء فیمن دخل بیتہ مایقول،
4: 325، رقم: 5095
ترمذی، السنن، کتاب الدعوات، باب ما یقول إذا خرج من بیتہ، 5: 490، رقم: 3424
ابن حبان، الصحیح، 3: 104، رقم: 822
اللہ تعالیٰ کے نام سے (باہر نکلتا ہوں)، میں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا، نیکی کرنے اور برائی سے باز رہنے کی طاقت اسی (کی توفیق) سے ہے۔
جواب: بچوں کو گھر میں داخل ہوتے وقت کی درج ذیل دعا یاد کروانی چاہیے:
حضرت ابو مالک الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہو تو وہ دعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ، إِنِّي أَسْأَلُکَ خَیْرَ الْمَوْلَجِ وَخَیْرَ الْمَخْرَجِ، بِسْمِ اللهِ وَلَجْنَا وَبِسْمِ اللهِ خَرَجْنَا وَعَلَی اللهِ رَبِّنَا تَوَکَّلْنَا.
أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء فیمن دخل بیتہ ما
یقول، 4: 325، رقم: 5094
طبرانی، المعجم الکبیر، 3: 294، رقم: 3452
اے الله ! میں تجھ سے (گھر میں) بھلائی کے ساتھ داخل ہونے اور بھلائی کے ساتھ باہر نکلنے کا سوال کرتا ہوں ۔ الله کے نام کے ساتھ ہم داخل ہوئے اور الله کے نام کے ساتھ ہم نکلے اور اپنے رب الله پر ہم نے بھروسہ کیا۔
جواب: بچوں کو مسجد میں داخل ہونے کی درج ذیل دعا یاد کروانی چاہیے:
حضرت ابو اسید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو یہ دعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ.
مسلم، الصحیح، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب مایقول إذا
دخل المسجد، 1: 494، رقم: 713
أحمد بن حنبل، المسند، 5: 425، رقم: 2354
أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاۃ، باب فیما یقولہ الرجل عند دخولہ المسجد، 1: 124، رقم:
445
ابن ماجہ، السنن، کتاب المساجد والجماعات، باب الدعاء عند دخول المسجد، 1: 254، رقم:
772
اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔
جواب: بچوں کو مسجد سے نکلتے وقت کی درج ذیل دعا یاد کروانی چاہیے:
حضرت ابو اسید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مسجد سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھیں:
اَللّٰھُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ.
مسلم، الصحیح، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب مایقول إذا
دخل المسجد، 1: 494، رقم: 713
أحمد بن حنبل، المسند، 5: 425، رقم: 2354
أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاۃ، باب فیما یقولہ الرجل عند دخولہ المسجد، 1: 124، رقم:
445
ابن ماجہ، السنن، کتاب المساجد والجماعات، باب الدعاء عند دخول المسجد، 1: 254، رقم:
772
اے اللہ! میں تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں۔
جواب: بچوں کو نظر بد سے بچنے کی درج ذیل دعا یاد کروانی چاہیے:
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نظرِ بد سے حفاظت کے لیے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما پر درج ذیل وظیفہ سے دم فرمایا کرتے تھے:
أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَهَامَّۃٍ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ.
بخاری، الصحیح، کتاب الأنبیاء، باب یزفون النسلان في المشي،
3: 1233، رقم: 3191
أبو داؤد، السنن، کتاب السنۃ، باب في القرآن، 4: 235، رقم: 4737
ترمذي، السنن، کتاب الطب، باب ما جاء في الرقیۃ من العین، 4: 394، رقم: 2040
ابن ماجہ، السنن، باب الطب، کتاب ما عوذ بہ النبي ﷺ وما عوذبہ، 2: 1144، رقم: 3525
میں الله تعالیٰ کے مکمل کلمات کی پناہ مانگتا ہوں ہر شیطان (کے شر) سے، اور موذی جانوروں اور حشرات سے اور ہر نظر بد سے۔
جواب: بچوں کو علم میں اضافے کی درج ذیل دعا یاد کروانی چاہیے:
رَبِّ زِدْنِی عِلْمًاo
طه، 20: 114
اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دےo
جواب: بچوں کو سفر کی درج ذیل دعا یاد کروانی چاہیے:
حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب کہیں سفر پر جانے کے لیے اونٹ پر سوار ہو جاتے تو تین بار الله اکبر فرماتے اور پھر یہ دعا پڑھتے:
سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ وَإِنَّا إِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ.
الزخرف، 43: 13-14
مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب مایقول إذا رکب إلی سفر الحج وغیرہ، 2: 978، رقم: 1342
أبو داؤد، السنن، کتاب الجھاد، باب ما یقول الرجل إذا سافر، 3: 33، رقم: 2599
ترمذی، السنن، کتاب الدعوات، باب ما یقول إذا رکب الناقۃ، 5: 501، رقم: 3447
پاک ہے وہ ذات جِس نے اِس کو ہمارے تابع کر دیا حالاں کہ ہم اِسے قابو میں نہیں لا سکتے تھے۔ اور بے شک ہم اپنے رب کی طرف ضرور لوٹ کر جانے والے ہیں۔
جواب: بچوں کو وضو کی درج ذیل دعائیں یاد کروانی چاہئیں:
یہ تمام دعائیں علامہ ہندی نے ’کنز العمال (9: 204، رقم: 24991)‘ میں اور ابن عابدین شامی نے ’رد المحتار علی الدر المختار (1: 127)‘ میں بیان کی ہیں:
بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ، أَعِنِّيْ عَلٰی تِـلَاوَۃِ الْقُرْآنِ وِذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ.
الله کے نام سے شروع کرتا ہوں، اے الله ! تلاوتِ قرآن، تیرے ذکر، تیرے شکر اور احسن طریقے سے تیری عبادت کی ادائیگی میں میری مدد فرما۔
بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ، أَرِحْنِيْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ وَلَا تَرِحْنِيْ رَائِحَۃَ النَّارِ.
الله کے نام سے شروع کرتا ہوں، اے الله ! مجھے جنت کی خوشبو عطا فرما اور جہنم کی بدبُو سے محفوظ فرما۔
بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ، بَیِّضْ وَجْهِیْ یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ.
الله کے نام سے شروع کرتا ہوں، اے الله ! اس دن میرا چہرہ سفید رکھنا جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض چہرے سیاہ ہوں گے۔
بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ، أَعْطِنِيْ کِتَابِيْ بِیَمِیْنِيْ وَحَاسِبْنِيْ حِسَابًا یَسِیْرًا.
الله کے نام سے شروع کرتا ہوں، اے الله ! میرا نامہ اعمال میرے دائیں ہاتھ میں دینا اور میرا حساب آسان فرمانا۔
بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ، لَا تُعْطِنِیْ کِتَابِیْ بِشِمَالِیْ وَلَا مِنْ وَّرَاءِ ظَهْرِیْ.
الله کے نام سے شروع کرتا ہوں، اے الله ! میرا نامہ اعمال مجھے بائیں ہاتھ میں اور پیٹھ کے پیچھے سے نہ دینا۔
بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ، أَظِلَّنِيْ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِکَ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّ عَرْشِکَ.
الله کے نام سے شروع کرتا ہوں، اے الله ! اس دن مجھے اپنے عرش کے سائے میں رکھنا جس دن تیرے عرش کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔
بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ، اجْعَلْنِيْ مِنَ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ أَحْسَنَہٗ.
الله کے نام سے شروع کرتا ہوں، اے الله ! مجھے ان لوگوں میں سے کر دے جو تیری بات کو غور سے سنتے ہیں اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں۔
بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ، أَعْتِقْ رَقَبَتِي مِنَ النَّارِ.
الله کے نام سے شروع کرتا ہوں، اے الله ! میری گردن کو جہنم کی آگ سے آزاد رکھنا۔
بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ، ثَبِّتْ قَدَمِيْ عَلَی الصِّرَاطِ، یَوْمَ تَزِلُّ الْأَقْدَامُ.
الله کے نام سے شروع کرتا ہوں، اے الله ! اُس دن پل صراط پر مجھے ثابت قدم رکھنا جب (کچھ لوگوں کے) قدم پھسلیں گے۔
بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ، اجْعَلْ ذَنْبِيْ مَغْفُوْرًا وَسَعْیِیْ مَشْکُوْرًا وَتِجَارَتِيْ لَنْ تَبُوْرَ.
الله کے نام سے شروع کرتا ہوں، اے الله ! میرے گناہ بخش دے، میری کوشش قبول فرما اور میری تجارت کو نقصان سے بچا۔
جواب: بچوں کو درج ذیل سورتیں حفظ کروانی چاہئیں جنہیں چاروں قل بھی کہتے ہیں:
قُلْ یٰٓـاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَo لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَo وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُo وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْo وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُo لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِo
الکافرون، 109
آپ فرما دیجیے: اے کافرو!۔ میں ان کی عبادت نہیں کرتا جنہیں تم پوجتے ہو۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ اور نہ (ہی) میں (آئندہ کبھی) ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی تم پرستش کرتے ہو۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ (سو) تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے۔
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِo مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَo وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَo وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِo وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَo
الفلق، 113
آپ عرض کیجیے کہ میں (ایک) دھماکے سے انتہائی تیزی کے ساتھ (کائنات کو) وجود میں لانے والے رب کی پناہ مانگتا ہوں۔ ہر اُس چیز کے شر (اور نقصان) سے جو اس نے پیدا فرمائی ہے۔ اور (بالخصوص) اندھیری رات کے شر سے جب (اس کی) ظلمت چھا جائے۔ اور گرہوں میں پھونک مارنے والی جادوگرنیوں (اور جادوگروں) کے شر سے۔ اور ہر حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِo مَلِکِ النَّاسِo اِلٰهِ النَّاسِo مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ5 الْخَنَّاسِo الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِo مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِo
الناس، 114
آپ عرض کیجیے کہ میں (سب) انسانوں کے رب کی پنا ہ مانگتا ہوں۔ جو (سب) لوگوں کا بادشاہ ہے۔ جو (ساری) نسل انسانی کا معبود ہے۔ وسوسہ انداز (شیطان) کے شر سے جو ( الله کے ذکر کے اثر سے) پیچھے ہٹ کر چھپ جانے والا ہے۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ خواہ وہ (وسوسہ انداز شیطان) جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔
جواب: بچوں کو درج ذیل ماثورہ دعائیں حفظ کروانی چاہئیں:
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاهِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ. اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.
اے الله ! رحمتیں نازل فرما حضرت محمد ﷺ اور آپ کی آل پر، جس طرح تو نے رحمتیں نازل کیں ابراہیم e اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔ اے الله ! تو برکتیں نازل فرما حضرت محمد ﷺ پر اور آپ کی آل پر جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم e اور ان کی آل پر بے شک تو تعریف کا مستحق بزرگی والا ہے۔
سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ ِﷲِ وَلَآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَاللهُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِیْم.
اللہ تعالیٰ پاک ہے، اللہ تعالیٰ کے لیے ہی تمام تعریفیں ہیں، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اللہ سب سے بڑا ہے اور قدرت و طاقت صرف اللہ عظیم و برتر کے لیے ہی ہے۔
لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَحْدَہٗ لَا شَرِ یْکَ لَہٗ، لَهُ الْمُلْکُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، یُحْیٖ وَیُمِیْتُ، وَھُوَ حَيٌّ لَا یَمُوْتُ أَبَدًا أَبَدَا، ذُوالْجَلَالِ وَاْلِاکْرَامِ ط بِیَدِهِ الْخَیْرُ ط وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ.
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہی ہے، وہی لائق ستائش ہے، وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ وہ زندہ ہے اور اُسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ وہ صاحبِ عظمت و جلال اور صاحبِ انعام و اکرام ہے۔ اسی کے قبضہ میں بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
أَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ أَذْنَبْتُہٗ عَمَدًا أَوْ خَطَاءً، سِرًّا أَوْ عَلَانِیَۃً، وَّأَتُوْبُ إِلَیْهِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ أَعْلَمُ وَمنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ لَا أَعْلَمُ، إِنَّکَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ وَسَتَّارُ الْعُیُوْبِ وَغَفَّارُ الْذُنُوْبِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِیْمِ.
میں اپنے پروردگار اللہ رب العزت سے اپنے ہر اُس گناہ کی معافی مانگتا ہوں جو میںنے جان بوجھ کر کیا یا بھول کر کیا، در پردہ کیا یا کھلم کھلا کیا، اور میں اُس کے حضور اپنے ہر اُس گناہ سے توبہ کرتا ہوں جو مجھے معلوم ہے یا مجھے معلوم نہیں۔ (اے میرے رب!) بیشک تو غیبوںکا جاننے والا اور عیبوں کا چھپانے والا ہے۔ بے شک تُو ہی گناہوں کو بخشنے والا ہے اور گناہوںسے بچنے کی طاقت دینے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو کہ نہایت بلند رتبہ اور عظمت والا ہے کی توفیق کے بغیر نیک کام کرنے کی طاقت اور قوت (کسی میں) نہیں۔
اَللّٰھُمَّ إِنِّي أَعُوْذُبِکَ مِنْ أَنْ أُشْرِکَ بِکَ شَیِائً وَّأَنَا أَعْلَمُ بِہٖ وَاسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَآ اَعْلَمُ بِہٖ، تُبْتُ عَنْهُ، وَتَبَرَّأْتُ مِنَ الْکُفرِ وَالشَّرِکِ وَالْکِذْبِ وَالْغِیْبَۃِ وَالْبِدْعَۃِ وَالْنَّمِیْمَۃِ وَالْفَوَاحِشِ وَالْبُھْتَانِ وَالْمَعَاصِي کُلِّھَا، وَأَسْلَمْتُ وَأَقُوْلُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ.
اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں کسی شے کو جان بوجھ کر تیرا شریک بناؤں اور معافی مانگتا ہوں تجھ سے اس (شرک) کی جسے میں نہیں جانتا۔ میں نے اِس (شرک) سے توبہ کی اور بیزار ہوا کفر، شرک، جھوٹ، غیبت، بدعت، چغلی سے، بے حیائی کے کاموںسے، بہتان لگانے سے اور باقی ہر قسم کے گناہوں سے، میں اسلام لایا اور میں کہتا ہوںکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
اٰمَنْتُ بِاللهِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اللهِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ.
میں ایمان لایا اللہ پر، اُس کے فرشتوں پر، اُس کی کتابوں پر، اُس کے رسولوں پر، قیامت کے دن پر، اِس پر کہ اچھی اور بری تقدیر اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور موت کے بعد (زندہ) اُٹھائے جانے پر۔
اٰمَنْتُ بِاللهِ کَماَ هُوَ بِاَسْمَآئِہٖ وَصِفَاتِہٖ وَ قَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِهِٓ اِقْرَارٌ بِالِلَّسانِ وَتَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ.
میںایمان لایا اللہ پر جیسا کہ وہ اپنے اسماء اور اپنی صفات کے ساتھ ہے اور میںنے اس کے تمام احکام کو قبول کیے، زبان سے اقرار کرتے ہوئے اور دل سے تصدیق کرتے ہوئے۔
اَللّٰھُمَّ، إِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ، وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ، وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ، وَنَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکَ، اَللّٰھُمَّ إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُ وَإِلَیْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ، وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخْشٰی عَذَابَکَ إِنَّ عَذَابَکَ بِالْکُفَّارِ مُلْحِقٌّ.
اے اللہ! ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں، اور تجھ ہی سے مغفرت طلب کرتے ہیں، تجھ پر ہی ایمان رکھتے ہیں اور تجھ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں، ہم تیری اچھی تعریف بیان کرتے ہیں، ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے، اور جو تیری نافرمانی کرے ہم اُس سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کرتے ہیں۔ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور خالص تیرے لیے ہی نماز ادا کرتے، ہم تیرے حضور ہی سر بسجود ہوتے ہیں اور تیری ہی ذات کی طرف دوڑتے (ہوئے رجوع کرتے) ہیں اور (تیری بارگاہ میں) حاضری دیتے ہیں۔ ہم تیری ہی رحمت کی اُمید رکھتے ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بے شک تیرا عذاب کفار کو پہنچنے والا ہے۔
اللهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ج الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ج لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ ط لَـہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ط یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ج وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآءَ ج وَسِعَ کُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ج وَلَا یَؤُوْدُہٗ حِفْظُھُمَا ج وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُo
البقرة، 2: 255
الله ، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے (سارے عالم کو اپنی تدبیر سے) قائم رکھنے والا ہے، نہ اس کو اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند، جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے، کون ایسا شخص ہے جو اس کے حضور اس کے اِذن کے بغیر سفارش کر سکے، جو کچھ مخلوقات کے سامنے (ہو رہا ہے یا ہو چکا) ہے اور جو کچھ ان کے بعد (ہونے والا) ہے (وہ) سب جانتا ہے، اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جس قدر وہ چاہے، اس کی کرسئ (سلطنت و قدرت) تمام آسمانوں اور زمین کو محیط ہے، اور اس پر ان دونوں (یعنی زمین و آسمان) کی حفاظت ہرگز دشوار نہیں، وہی سب سے بلند رتبہ بڑی عظمت والا ہے۔
اذان سننے کے بعد پہلے درود شریف اور پھر یہ دعا پڑھی جائے:
اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِهِ الدَّعْوَۃِ التَّامَۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ آتِ مُحَمَّدَ نِالْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَالدَّرَجَۃَ الرَّفِیْعَۃَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَّحْمُودَ نِالَّذِيْ وَعَدْتَّہٗ وَارْزُقْنَا شَفَاعَتَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ط اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَۙادَ.
اے اللہ! اس دعوتِ کامل اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی نماز کے رب! تو محمد ﷺ کو وسیلہ اور فضیلت اور بلند درجہ عطا فرما اور ان کو اس مقام محمود پر فائز فرما جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے، اور ہمیں روزِ قیامت ان کی شفاعت سے بہرہ مند فرما۔ بے شک تو اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔
جواب: والدین بچے کو درج ذیل طریقے سے نماز سکھائیں:
نماز پڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ جسم، کپڑے اور جگہ پاک ہو اور نماز کا وقت ہو گیا ہو، پھر با وضو قبلہ کی طرف دونوں پائوں کے درمیان چار انگلیوں کا فاصلہ کر کے کھڑا ہو اورجو نماز پڑھنی ہے اس کا دل سے ارادہ کرے۔ زبان سے کہنا مستحب ہے، مثلاً وہ یوں کہے: میں نیت کرتا/کرتی ہوں چار رکعت فرض نماز ظہر کی، اللہ جل جلالہٗ کیلئے، منہ طرف کعبہ شریف کے۔ اگر امام کے پیچھے ہو توکہے: پیچھے اس امام کے۔ اس کے بعد تکبیر تحریمہ ’ الله اکبر‘کہتے ہوئے دونوں ہاتھ اپنے کانوں تک لے جائے۔ اس طرح کہ ہتھیلیاں قبلہ رُو ہوں اور انگلیاں نہ کھلی ہوں نہ ملی ہوں بلکہ اپنی نارمل حالت پر ہوں۔ پھر ہاتھ نیچے لائے اور ناف کے نیچے اس طرح باندھ لے کہ دائیںہتھیلی بائیںکلائی کے سرے پر ہو، درمیان والی تین اُنگلیاں بائیں کلائی کی پشت پر، انگوٹھا اور چھوٹی انگلی کلائی کے گرد ہوں اور نظر سجدہ کی جگہ رہے۔ پھر ثناء پڑھے۔
یہ نماز پڑھنے کا طریقہ مردوںکے لیے ہے۔ عورتوں کے لیے چند باتوں میں فرق ہے۔ عورت تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کندھوں تک اُٹھائے گی، قیام میںسینے پر ہاتھ باندھے گی اور ہتھیلی پر ہتھیلی رکھے گی۔ رکوع میںکم جھکے گی اور گھٹنوں کو جھکائے گی اور ہاتھ گھٹنوں پر رکھے گی مگر ان کو پکڑے گی نہیں اور انگلیاں کشادہ نہ رکھے گی۔ رکوع و سجود سمٹ کر کرے گی۔ سجدہ میں پیٹ ران سے اور ران پنڈلی سے ملائے گی اور ہاتھ زمین پر بچھا دے گی۔ التحیات میں بیٹھتے وقت دونوں پائوں داہنی طرف نکال کر بیٹھے گی اور انگلیاں ملا کر رکھے گی۔ باقی سب کچھ اُسی طرح کرے گی۔
اللهُ اَکْبرُ۔ ’اللہ سب سے بڑا ہے۔ ‘
تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے نمازی کا الله تعالیٰ کے حضور کھڑے ہو کے تعوذ، تسمیہ، فاتحہ اور قرآنِ حکیم کی کوئی صورت پڑھنے کا نام ہے۔ لیکن نماز باجماعت کی صورت میں مقتدی تسمیہ، فاتحہ اور کوئی صورت نہیں پڑھے گا بلکہ وہ خاموش کھڑا رہے گا۔
سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَا اِلٰهَ غَیْرُکَ.
ترمذی، السنن، کتاب الصلاۃ، باب ما یقول عند افتتاح الصلاۃ، 1: 283، رقم: 243
اے الله ! ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں، تیری تعریف کرتے ہیں، تیرا نام بہت برکت والا ہے، تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
اگر جماعت کے ساتھ امام کے پیچھے نماز شروع کرے تو ثناء پڑھ کر خاموش رہے اور امام کی قرأت سُنے۔ اگر تنہا ہو تو ثناء کے بعد تعوذ، تسمیہ، سورۃ الفاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھے۔
أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ.
میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتا/مانگتی ہوں۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.
الله کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔
اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo مٰـلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَo
الفاتحۃ، 1: 1-7
سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے۔ نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے۔ روزِ جزا کا مالک ہے۔ (اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھ۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا۔ ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا۔
قُلْ ھُوَ اللهُ اَحَدٌo اللهُ الصَّمَدُo لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْo وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌo
الإخلاص، 112: 1-4
(اے نبی مکرّم!) آپ فرما دیجئے: وہ الله ہے جو یکتا ہے۔ الله سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے. نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے.اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے.
پھراللهُ اَکْبَرکہتے ہوئے رکوع میں جائے۔ ہاتھوں سے گھٹنوں کو مضبوط پکڑے اور اتنا جھکے کہ سر اور کمر برابر ہو جائے۔
رکوع میں تین بار پڑھے:
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ.
ترمذی، السنن، کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود، 1: 300، رقم: 241
میرا پروردگار پاک اور عظمت والا ہے۔
رکوع سے اُٹھتے وقت کہے:
سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهٗ.
الله تعالیٰ نے اس بندے کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی۔
لیکن اگر جماعت کے ساتھ ہے تو پھر امام ہی تسمیع کہے، جبکہ مقتدی تحمید کہے۔
تسمیع کے بعد کہے:
رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ.
مسلم، الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب إثبات التکبیر فی کل خفض ورفع فی الصلاۃ، 1: 293، 294، رقم: 392
اے ہمارے پروردگار! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں۔
تنہا نماز پڑھنے والا تسمیع اور تحمید دونوں کہے۔
پھر اللہ اکبر کہتا ہوا سجدہ میںجائے۔ اس طرح کہ پہلے گھٹنے پھر دونوں ہاتھ زمین پر رکھے، پھر ناک اور پیشانی خوب جمائے اور چہرہ دونوں ہاتھوںکے درمیان رکھے، مرد بازؤں کو کروٹوں سے، پیٹ کو رانوں سے اور رانوں کو پنڈلیوں سے جُدا رکھے۔ کہنیاں زمین سے اُٹھی ہوئی ہوںاور دونوں پائوں کی اُنگلیوں کے پیٹ قبلہ رُخ زمین پر جمے ہوئے ہوں۔
پھر سجدہ میںتین بار پڑھے:
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلٰی.
أبو داؤد، السنن، کتاب الصلاۃ، باب مقدار الرکوع و السجود، 1: 337، رقم: 884
میرا پروردگار پاک اور بلند ترہے۔
اس سے مراد وہ وقفہ ہے جو پہلے سجدہ سے اٹھ کر دوسرے سجدہ جانے سے پہلے کیا جاتا ہے۔
الله اکبر کہتا ہوا سجدہ سے اس طرح اُٹھے کہ پہلے پیشانی، پھر ناک، پھر ہاتھ اُٹھیں۔ پھر بایاں قدم بچھا کر اس پر بیٹھے اور داہنا قدم کھڑا کر کے رکھے کہ اس کی انگلیاں قبلہ رُخ ہوں، دونوں ہاتھ رانوں پر گھٹنوں کے قریب یوں رکھے کہ اُن کی انگلیاںبھی قبلہ رُخ ہوں۔ اس مقام پر کچھ توقف کرنا ضروری ہے۔
پھر اللہ اکبر کہتا ہوا اُسی طرح دوسرا سجدہ کرے اور پھر اللہ اکبر کہتا ہوا کھڑا ہو جائے۔
دوسری رکعت کے دونوں سجدوں سے فارغ ہو کر بیٹھ کر تشہد پڑھے۔
التَّحِیَّاتُ ِﷲِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبَاتُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللهِ وَبَرَکَاتُهُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللهِ الصّٰلِحِیْنَ. أَشْھَدُ أَنْ لَّا اِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُہٗ.
ترمذی، السنن، کتابالدعوات، باب فی فضل لَا حَول ولا قوۃ إلَّا بِاللهِ، 5: 542، رقم: 3587
تمام قولی، فعلی اور مالی عبادتیں الله ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور الله کی رحمت اور برکتیں ہوں، ہم پر اور الله کے تمام نیک بندوں پر بھی سلام ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
جب تشہدمیں کلمہ لَا پر پہنچے تو داہنے ہاتھ کے بیچ کی اُنگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنائے اور چھنگلی اور اس کے پاس والی انگلی کو ہتھیلی سے ملا دے اور لفظ لَا پر شہادت کی اُنگلی اُٹھائے او ر اِلاّ پر گرا دے اور سب اُنگلیاں فورا ً سیدھی کر لے۔
اگر دو رکعت والی نماز ہے تو تشہد کے بعد درود ابراہیمی اور دُعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔
اگر چار رکعت والی نماز ہے تو تشہد کے بعد اللہ اکبر کہہ کر کھڑا ہو جائے اور دونوںرکعتوں میں اگر فرض ہوں تو صرف تسمیہ اور سورۃ الفاتحہ پڑھ کر رکوع و سجود کرے۔ اگر سُنت و نفل ہوں تو تسمیہ اور سورۃ الفاتحہ کے بعد کوئی اور سورۃ بھی پڑھے، لیکن امام کے پیچھے مقتدی تسمیہ اور فاتحہ نہیںپڑھے گا وہ خاموش رہے گا، پھر چار رکعتیں پوری کرکے بیٹھ جائے اور تشہد، درود ابراہیمی اور دُعا پڑھے اور سلام پھیر دے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاهِیْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِیْمَ، إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِیْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِیْمَ، إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.
بخاری، الصحیح، کتاب الأنبیاء، باب النسلان فی المشی، 3: 1233، رقم: 3190
اے الله! رحمتیں نازل فرما حضرت محمد ﷺ پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے رحمتیں نازل کیں حضرت ابراہیم e پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔
اے الله! تو برکتیں نازل فرما حضرت محمد ﷺ پر اور ان کی آل پر، جس طرح تونے برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم e پر اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کا مستحق بڑی بزرگی والا ہے۔
دورد کے بعد یہ دعا پڑھے:
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِo رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُo
إبراھیم، 14: 40-41
اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لےo اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو (بخش دے) اور دیگر سب مومنوں کو بھی، جس دن حساب قائم ہوگا۔
اگر چاہے تو قرآن و حدیث میں مذکور کوئی اور ماثورہ دعا بھی پڑھ سکتا ہے۔
پھر اس کے بعد داہنی طرف منہ پھیرے اور کہے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللهِ.
تم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو۔
اِسی طرح بائیں طرف منہ پھیر کر یہی کلمات دُہرائے۔
نوٹ: نماز کے مسائل تفصیلی دلائل کے ساتھ جاننے کے لئے ہماری کتاب ملاحظہ کریں: ’’سلسلہ تعلیماتِ اِسلام 5: ’طہارت اور نماز‘۔ ‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved