جواب: جی ہاں! بچے کی تربیت پر والدین کے اخلاق و عادات بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ بچے کی تربیت میں سب سے اہم کردار والدین ادا کرتے ہیں۔ والدین ہی بہترین تربیت کر کے بچے کو کامیاب اور بااخلاق انسان بناتے ہیں یا غلط تربیت کر کے یا تربیت سے غفلت کے مرتکب ہو کر اس کی کج روی کا سبب بنتے ہیں۔
امام غزالی اسی نکتے پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَالصِّبْیَانُ أَمَانَةٌ عِنْدَ وَالِدَیْهِ، وَقَلْبُهُ الطَّاهِرُ جَوْهَرَةٌ نَفِیسَةٌ سَاذَجَةٌ خَالِیَةٌ عَنْ کُلِّ نَقْشٍ وَصُورَةٍ، وَهُوَ قَابِلٌ لِکُلِّ مَا نُقِشَ، وَمَائِلٌ إِلٰی کُلِّ مَا یُمَالُ بِهٖ إِلَیْهِ، فَإِنْ عُوِّدَ الْخَیْرَ وَعُلِّمَهٗ نَشَأَ عَلَیْهِ وَسَعِدَ فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، وَشَارَکَهٗ فِي ثَوَابِهٖ أَبَوَاهُ وَکُلُّ مُعَلِّمٍ لَهٗ وَمُؤَدِّبٍ، وَإِنْ عُوِّدَ الشَّرَّ وَأُهْمِلَ إِهْمَالَ الْبَهَائِمِ شَقِيَ وَهَلَکَ، وَکَانَ الْوِزْرُ فِي رَقَبَۃِ الْقَیِّمِ عَلَیْهِ وَالْوَلِيِّ لَهٗ، وَقَدْ قَالَ اللہُ تَعَالَی: {یٰٓـاَیَّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَهْلِیْکُمْ نَارًا}.
التحریم، 66: 6
غزالی، إحیاء علوم الدین، 3: 72
بچہ والدین کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اس کا دل ایک عمدہ، صاف اور سادہ آئینہ کی مانند ہے جو بالفعل اگرچہ ہر قسم کے نقش و صورت سے خالی ہے لیکن ہر طرح کے نقش و اثر کو فوری قبول کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔اُسے جس چیز کی طرف چاہیں مائل کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس میں اچھی عادتیں پیدا کی جائیں اور اسے علم نافع پڑھایا جائے تو وہ عمدہ نشو و نما پا کر دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کر لیتا ہے۔ یہ ایک ایسا کارِ خیر ہے جس میں اس کے والدین، استاد اور مربی وغیرہ سب حصہ دار ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر اُس کی بری عادتوں سے صرفِ نظر کیا جائے اور اسے جانوروں کی طرح کھلا چھوڑا جائے تو وہ بد اخلاق ہو کر تباہ ہو جاتا ہے جس کا وبال اس کے ولی اور سرپرست کی گردن پر پڑتا ہے۔ اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ‘اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اَہل و عیال کو آگ سے بچاؤ‘۔
لہٰذا والدین بچوں کی اچھی تربیت کر کے اور انہیں اچھے آداب و تہذیب سکھا کر برائی سے بچا سکتے ہیں۔ اگر بچے کو والدین کی توجہ و نگہداشت، ان کی سرپرستی و راہنمائی حاصل نہ ہو تو بچے کا بگڑ جانا یقینی بات ہے، ایسا بچہ کیونکر نیک اور اچھا انسان بن سکتا ہے۔
اسی طرح اگر والدین کے باہمی تعلقات استوار نہ ہوں، ان میں رنجش اور چپقلش رہے تو ان کے بچے مختلف نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں چنانچہ ایسے بچے میں خیر کی بجائے بگاڑ کے جراثیم ہی پیدا ہوں گے۔ والدین کے تعلقات کا اثر بچے کے ذہن و دماغ پر شعوری اور غیر شعوری دونوں طرح سے ہوتا ہے لہٰذا والدین کی یہ پہلی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنائیں اور اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی خاطر باہمی تلخیوں اور جھگڑوں کو خیر باد کہہ دیں۔
والدین کو تربیتی ذمہ داریوں کی ترغیب حضور نبی اکرم ﷺ کی حدیث مبارکہ سے بھی ملتی ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَکْرِمُوْا أَوْلَادَکُمْ وَأَحْسِنُوْا أَدَبَهُمْ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب الأدب، باب برالولد والإحسان إلی البنات،
2: 1211، رقم: 3671
قضاعی، مسند الشهاب، 1: 389، رقم: 665
دیلمی، مسند الفردوس، 1: 67، رقم: 196
اپنی اولاد کی عزت افزائی کیا کرو اور اُنہیں اچھے آداب سکھایا کرو۔
لہٰذا والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کو معمولی تصور نہ کریں بلکہ اس سلسلے میں اپنے فرائض خلوص و لگن کے ساتھ سر انجام دیں۔ ان کے اندر اچھے آداب و صفات پروان چڑھائیں، ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جلا بخشیں ان میں کجی اور سطحیت پیدا نہ ہونے دیں۔ ان کے اندر وسعت قلبی، صداقت و دیانت، صبر و استقامت، ایثار و قربانی، ہمدردی و غم گساری، تواضع و انکساری اور مہمان نوازی و فیاضی کی صفات پیدا کریں۔ نیز گالی گلوچ، غیبت، چغل خوری، کذب، خوف، بزدلی جیسے رذائل اخلاق سے بچائیں۔
جواب: بچوں میں حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت اور اطاعت پیدا کرنا والدین کا شرعی فریضہ ہے اور یہ حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَدِّبُوْا أَوْلَادَکُمْ عَلٰی ثَـلَاثِ خِصَالٍ: حُبِّ نَبِیِّکُمْ وَحُبِّ أَهْلِ بَیْتِهٖ وَقِرَائَۃِ القُرْآنِ.
سیوطی، الجامع الصغیر، 1: 25، رقم: 311
بوصیری، إتحاف الخیرۃ المھرۃ، 10: 386، رقم: 10101
ھندی، کنز العمال، 16: 189، رقم: 45409
اپنی اولاد کو تین چیزیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبت، حضور نبی اکرم ﷺ کے اہل بیت اطہار علیہم السلام کی محبت اور قرآن کی تلاوت۔
بچوں میں حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت اور اطاعت پیدا کرنے کے لیے درج ذیل مؤثر طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔
1۔ بچوں کو حضور نبی اکرم ﷺ کے احترام، ادب اور عزت و توقیر کی ترغیب دیں۔
2۔ بچوں کو سیرتِ رسول ﷺ کے واقعات سنائے جائیں۔
3۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی بچوں کے ساتھ محبت و شفقت کے واقعات سنائے جائیں۔
4۔ والدین اپنے بچوں کے دل میں حبِ نبی ﷺ پیدا کرنے کے لیے رات کو سونے سے پہلے یا فارغ اوقات میں حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی سیرت مطہرہ پر لکھی گئی مختلف کتب سے حضور نبی اکرم ﷺ کے فضائل و کمالات، حسن و جمال اور اخلاق حسنہ پر مبنی منتخب واقعات و عبارات پڑھ کر سنائیں۔
5۔ والدین بچوں کو درود و سلام پڑھنا سکھائیں اور اس کے اجر و ثواب کی اہمیت کو اُجاگر کریں۔
6۔ بچوں کو بتائیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ کا نام مبارک لیا جائے تو ’صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ کہا جائے۔
7۔ والدین زیادہ سے زیادہ ایسی محافل کا انعقاد کریں جن میں تذکارِ سیرت و رسالت ہوں۔
8۔ نعت کی سماعت حضور نبی اکرم ﷺ سے فروغ محبت کا بڑا پُر اثر ذریعہ ہے چنانچہ بچوں کو نعتیں سماعت کرنے اور پڑھنے کی ترغیب دی جائے اور ایسی محافل نعت کا انعقاد کیا جائے جن میں بچوں کو بھی نعت پڑھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
9۔ مائیں گھروں میں بچوں کو حضور نبی اکرم ﷺ کے پسندیدہ کھانوں کی پیار بھرے انداز میں ترغیب دیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسے کھانے خود کھا کر ان کی حوصلہ افزائی کریں۔
والدین جب بچوں میں اوائل عمری سے ہی حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ یک گونہ ذہنی و جذباتی وابستگی پیدا کرنے کے لیے انہیں اس طرح کا ماحول دیں گے تو باشعور ہونے تک ان کے قلوب و اذہان میں حضور ﷺ کی محبت، تعظیم و توقیر اور اطاعت و اتباع کے پہلو راسخ ہو چکے ہوں گے۔
جواب: والدین کا فرض ہے کہ جب بچے میں قوت گویائی آجائے اور زبان سے کلمات ادا کرنے لگے تو سب سے پہلے اسے کلمہ طیبہ سکھائیں اور اس کے ننھے منھے دماغ میں اس کا مطلب بھی راسخ کر دیں کہ کلمہ ہی اسلام کی بنیاد ہے۔
احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے تلقین فرمائی کہ بچہ جب بولنے لگے تو اسے کلمہ طیبہ سکھایا جائے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِفْتَحُوْا عَلٰی صِبْیَانِکُمْ أَوَّلَ کَلِمَةٍ بِلَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ.
بیهقی، شعب الایمان، 6: 398، رقم: 8649
دیلمي، مسند الفردوس، 1: 71، رقم: 207
بچہ جب بولنا سیکھنے لگے تو اُسے سب سے پہلے لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ یاد کرواؤ۔
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَفْصَحَ أَوْلَادُکُمْ، فَعَلِّمُوْھُمْ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللہُ، ثُمَّ لَا تُبَالُوْا مَتٰی مَاتُوْا.
ابن السني، عمل الیوم واللیلة، 1: 373، رقم: 423
جب تمہاری اولاد بولنے لگے تو ان کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ سکھاؤ پھر ان کی موت آنے تک فکر مت کرو (یعنی شروع میں جب عقیدہ ٹھیک کر دیا اور اسلام کا عقیدہ اس کو سکھا دیا تو اب کوئی ڈر نہیں۔ ایمان کی پختگی اسے ایمان ہی پر زندہ رہنے دے گی اور اسی پر ان شاء اللہ اس کی موت آئے گی)۔‘‘
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں:
کَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا أَفْصَحَ الْغُـلَامُ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْمَطَّلِبِ عَلَّمَهٗ ھٰذِهِ الْآیَۃَ: {وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّهٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّهٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْهُ تَکْبِیْرًاo}
بنی اسرائیل، 17: 111
ابن السني، عمل الیوم واللیلۃ، 1: 374، رقم: 424
قرطبی، الجامع الأحکام القرآن، 10: 345
زمخشری، الکشاف، 2: 656
بیضاوی، أنوار التنزیل وأسرار التأویل، 1: 473
حضور نبی اکرم ﷺ (کا یہ طریقہ تھا کہ) جب عبدالمطلب کی اولاد میں سے کوئی بچہ بولنے لگتا تھا تو اسے یہ آیت سکھاتے تھے: ’اور فرمائیے کہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے نہ تو (اپنے لیے) کوئی بیٹا بنایا اور نہ ہی (اس کی) سلطنت و فرمانروائی میں کوئی شریک ہے اور نہ کمزوری کے باعث اس کا کوئی مدد گار ہے (اے حبیب!) آپ اسی کو بزرگ تر جان کر اس کی خوب بڑائی (بیان) کرتے رہیے۔‘
اِس آیت میں خالصتاً توحید کا بیان ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بارے میں جو عقائد ہونے چاہئیں وہ بیان کیے گئے ہیں۔ لہٰذا بچے کو بالکل شروع سے کلمہ طیبہ کے ساتھ اس آیت کی تعلیم دینا اسی لیے ہے کہ کوئی بھی مسلمان بچہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے متعلقہ عقائد سے جاہل و غافل نہ رہے اور موت آنے تک صحیح مسلمان بنا رہے۔
جواب: ماں جب نماز کے لیے وضو کرنے لگے تو بچوں کو پاس کھڑا کرے۔ پھر اُن کے سامنے وضو کر کے انہیں بتائے کہ وضو اس طرح کرتے ہیں کیونکہ عملی صورت میں بچے جلدی سیکھ سکتے ہیں۔ وضو کا مسنون طریقہ درج ذیل ہے:
سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے والد گرامی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے وضو کا پانی طلب فرمایا۔ میں نے وضو کا پانی لا کر حاضر خدمت کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے وضو فرمانا شروع کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے قبل دونوں ہاتھوں کو تین دفعہ دھویا۔ اس کے بعد تین مرتبہ کلی فرمائی اور تین دفعہ ناک صاف فرمائی بعد ازاں آپ نے منہ کو تین دفعہ دھویا پھر آپ نے دائیں ہاتھ کو کہنی تک تین مرتبہ دھویا پھر بائیں ہاتھ کو اسی طرح دھویا پھر آپ نے اپنے سر مبارک پر ایک دفعہ مسح فرمایا۔ اس کے بعد دائیں پاؤں کو ٹخنوں تک تین دفعہ دھویا پھر ایسے ہی بائیں پاؤں کو دھویا۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور دوبارہ پانی لانے کا حکم صادر فرمایا۔ میں نے برتن جس میں وضو کا بچا ہوا پانی تھا، حاضر خدمت کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے کھڑے کھڑے اس سے پانی پی لیا۔ میں حیران ہوا تو انہوں نے ارشاد فرمایا: حیران نہ ہو کیونکہ میں نے آپ کے نانا جان کو ایسے ہی کرتے ہوئے دیکھا ہے جیسے آپ مجھے کرتا دیکھ رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ اسی طرح وضو فرماتے اور آپ وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پیتے تھے۔
نسائی، السنن، کتاب الطھارۃ، باب صفۃ الوضوء، 1: 69، رقم: 95
نسائي، السنن الکبری، 1: 84، رقم: 100
مقدسي، الأحادیث المختارۃ، 2: 51، رقم: 431
جواب: اگرچہ ماحول، علاقہ، خاندان اور صحت کے اعتبار سے بچے مختلف عمر میں قرآنی تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ لیکن کوشش کرنی چاہیے کہ بچہ جب تین سال کا ہو جائے تو اس کی قرآنی تعلیم کا آغاز ہو جانا چاہیے۔ کیونکہ اس عمر میں بچہ بہت حد تک ہر چیز کی سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔ صاف آواز میں جملے بول سکتا ہے۔ اسی عمر میں ہی بچے کی قرآنی تعلیم و تربیت کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ کیونکہ صاف شفاف کپڑے کی طرح بچے کا ذہن خالی ہوتا ہے۔ صاف کپڑا ہر رنگ کو قبول کرتا ہے۔ جبکہ رنگین کپڑے کو رنگنا دشوار ہوتا ہے۔ یہی کیفیت بچوں کی تعلیم و تربیت کی ہے۔ جب آغاز سے ہی بچے کو قرآن کی تعلیم دی جائے گی تو اس کے دل میں قرآن حکیم کا ادب، اس کو سیکھنے اور پڑھنے کا شوق پیدا ہو گا۔ قرآن کی تعلیم سے اس کے سینے میں نور پیدا ہو گا۔ دل میں ایمان کی جڑیں مضبوط ہوں گی۔ اس صورت میں وہ بڑا ہو کر ایک بہترین انسان بن کر اپنی زندگی احسن اور مثالی انداز میں گزارے گا۔
امام غزالی احیاء علوم الدین میں بچوں کی تعلیم کے متعلق فرماتے ہیں:
بچے کو قرآن حکیم، احادیث نبویہ، نیک بچوں کے واقعات اور دینی احکام کی تعلیم دی جائے۔
غزالی، إحیاء علوم الدین، 1: 279
جواب: بچوں کی عمر اور ذہنی معیار کا لحاظ رکھتے ہوئے انہیں اِس عمر میں درج ذیل سورتیں اور ماثورہ دعائیں ضرور سکھائی جائیں:
اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo مٰـلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ لا عَلَیْهِمْo غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَo
الفاتحة، 1: 2-7
سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے۔ نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے۔ روزِ جزا کا مالک ہے۔ (اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اِنعام فرمایا۔ ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا۔
سورۃ الکوثر
اِنَّآ اَعْطَیْنٰـکَ الْکَوْثَرَo فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْo اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُo
الکوثر، 108: 1-3
بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے۔ پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریںاور قربانی دیا کریں (یہ ہدیۂ تشکرّہے)۔ بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہوگا۔
سورۃ الاخلاص
قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌo اللہُ الصَّمَدُo لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْo وَلَمْ یَکُنْ لَّهٗ کُفُوًا اَحَدٌo
الإخلاص، 112: 1-4
(اے نبی مکرّم!) آپ فرما دیجیے: وہ اللہ ہے جو یکتا ہے۔ اللہ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔
لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ.
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
دوسرا کلمہ شہادت
اَشْهَدُ اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّا اللہُ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْکَ لَهٗ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ.
اورمیں گواہی دیتا ہوںکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور گواہی دیتا ہوںکہ حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔
درودِ پاک
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَولَانَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ.
اے اللہ! ہمارے سردار اور ہمارے آقا محمد ﷺ، آپ ﷺ کی آل علیہم السلام اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر رحمتیں، برکتیں اور سلامتی نازل فرما۔
جواب: حضور نبی اکرم ﷺ نے دائیں ہاتھ سے کام کرنے کو نہ صرف پسند فرمایا بلکہ اس کا حکم بھی دیا ہے اس لیے بچوں کو کھانے، پینے، لکھنے، کوئی چیز لینے اور بھلائی کے ہر کام میں دائیں ہاتھ سے کام کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یُحِبُّ التَّیَمُّنَ مَا اسْتَطَاعَ فِي شَأْنِهٖ کُلِّهٖ فِي طُهُورِهٖ وَتَرَجُّلِهٖ وَتَنَعُّلِهٖ.
بخاري، الصحیح، کتاب اللباس، باب ببدأ بالفعل الیمنی، 5: 2200،
رقم: 5516
مسلم، الصحیح، کتاب الطھارۃ، باب التیمن في الطھور وغیرہ، 1: 226، رقم: 268
أحمد بن حنبل، المسند، 6: 147، رقم: 25187
أبو داؤد، السنن، کتاب اللباس، باب في الانتعال، 4: 70، رقم: 4140
ترمذي، السنن، کتاب الصلاۃ، باب ما یستحب من التیمن فی الطھور، 2: 506، رقم: 608
حضور نبی اکرم ﷺ حتی الامکان اپنے تمام کاموں میں دائیں جانب سے ابتدا کرنے کو پسند فرماتے طہارت(وضو)، کنگھی کرنے اور جوتے پہننے میں بھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے:
کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَحِبُّ التَّیَمُّنَ، یَأْخُذُ بِیَمِیْنِهٖ، وَیُعْطِي بِیَمِیْنِهٖ، وَیُحِبُّ التَّیَمُّنَ فِي جَمِیْعِ أَمْرِهٖ.
نسائی، السنن الکبری، 5: 411، رقم: 9321
حضور نبی اکرم ﷺ دائیں ہاتھ کے استعمال کو پسند فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ دائیں ہاتھ کے ساتھ پکڑتے اور دائیں ہاتھ کے ساتھ دیتے اور آپ ﷺ اپنے تمام کاموں میں دائیں ہاتھ کا استعمال ہی پسند فرماتے تھے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَکَلَ أَحَدُکُمْ فَلْیَأْکُلْ بِیَمِیْنِهٖ، وَإِذَا شَرِبَ فَلْیَشْرَبْ بِیَمِیْنِهٖ، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ یَأْکُلُ بِشِمَالِهٖ وَیَشْرَبُ بِشِمَالِهٖ.
مسلم، الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب آداب الطعام والشراب وأحکامھما،
3: 1598، رقم: 2020
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 8، رقم: 4537
أبو داؤد، السنن، کتاب الأطعمۃ، باب الأکل بالیمین، 3: 349، رقم: 3776
ترمذي، السنن، کتاب الأطعمۃ، باب ما جاء في النھي عن الأکل والشرب بالشمال، 4: 257،
رقم: 1799
ابن ماجہ، السنن، کتاب الأطعمۃ، باب الأکل بالیمین، 2: 1087، رقم: 3266
جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو دائیں ہاتھ سے کھائے، جب تم میں سے کوئی شخص پیئے تو دائیں ہاتھ سے پیئے، کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے۔
سو معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہر کام میں دائیں ہاتھ کا استعمال فرماتے تھے۔ یہی آپ ﷺ کی سنت اور یہی آپ کا حکم ہے، لہٰذا بچوں کو بھی دائیں ہاتھ کے استعمال کی ترغیب دینی چاہیے اور اس بات کا پابند بنانا چاہیے کہ روزمرہ کے کاموں اور معاملات میں اپنے دائیں ہاتھ کا استعمال کریں۔
جواب: بچوں کو پانی پینے کے درج ذیل آداب سکھائے جائیں:
حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: یَا غُـلَامُ، سَمِّ اللهَ.
بخاری، الصحیح، کتاب الأطعمۃ، باب التسمیۃ علی الطعام والأکل
بالیمین، 5: 2056، رقم: 5061-5063
مسلم، الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب آداب الطعام والشراب وأحکامہما، 3: 1599، رقم:
2022
ابن ماجہ، السنن، کتاب الأطعمۃ، باب الأکل بالیمین، 2: 1087، رقم: 3267
نسائی، السنن الکبری، 4: 175، رقم: 6759
آپ ﷺ نے (مجھے کھانے کے آداب سمجھاتے ہوئے) فرمایا: بیٹے! (پہلے) بسم اللہ پڑھو۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَکَلَ أَحَدُکُمْ فَلْیَأْکُلْ بِیَمِیْنِهٖ، وَإِذَا شَرِبَ فَلْیَشْرَبْ بِیَمِیْنِهٖ.
مسلم، الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب آداب الطعام والشراب وأحکامھما،
3: 1598، رقم: 2020
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 8، رقم: 4537
أبو داؤد، السنن، کتاب الأطعمۃ، باب الأکل بالیمین، 3: 349، رقم: 3776
جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو دائیں ہاتھ سے کھائے، جب تم میں سے کوئی شخص پیئے تو دائیں ہاتھ سے پیئے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں:
أَنَّهٗ نَهَی أَنْ یَشْرَبَ الرَّجُلُ قَائِمًا.
مسلم، الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب کراھیۃ الشرب قائما، 3: 1600،
رقم: 2024
أحمد بن حنبل، المسند، 3: 118، رقم: 12206
أبو داؤد، السنن، کتاب الأشربۃ، باب في الشرب قائما،3: 336، رقم: 3717
ترمذی، السنن، کتاب الأشربۃ، باب ماجاء في النھي عن الشرب قائما، 4: 300، رقم: 1879
طبرانی، المعجم الکبیر، 2: 267، رقم: 2124
حضور نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع فرمایا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ یَتَنَفَّسُ ثَـلَاثًا.
بخاري، الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب الشرب بنفسین أو ثلاثۃ، 5:
2133، رقم: 5308
مسلم، الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب کراھۃ النفس في نفس الإناء واستحباب التنفس ثلاثا
خارج الإناء، 3: 1602، رقم: 2028
ترمذی، السنن، کتاب الأشربۃ، باب ماجاء في التنفس في الإناء، 4: 302، رقم: 1884
ابن ماجہ، السنن، کتاب الأشربۃ، باب الشرب بثلاثۃ أنفاس، 2: 1131، رقم: 3416
حضور نبی اکرم ﷺ پیتے وقت (برتن سے باہر) تین مرتبہ سانس لیا کرتے تھے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا تَشْرَبُوا وَاحِدًا کَشُرْبِ الْبَعِیرِ، وَلٰـکِنِ اشْرَبُوا مَثْنَی وَثُـلَاثَ، وَسَمُّوا إِذَا أَنْتُمْ شَرِبْتُمْ، وَاحْمَدُوا إِذَا أَنْتُمْ رَفَعْتُمْ.
ترمذی، السنن، کتاب الأشربة، باب ماجاء في التنفس في الإناء، 4: 302، رقم: 1885
اونٹ کی طرح ایک ہی سانس سے نہ پیو بلکہ دو یا تین مرتبہ (سانس لے کر) پیو۔ پانی پیتے وقت بسم اللہ پڑھو اور فراغت پر الحمد ﷲ کہو۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهٰی عَنِ النَّفْخِ فِي الشُّرْبِ. فَقَالَ رَجُلٌ: الْقَذَاةُ أَرَاهَا فِي الإِنَائِ؟ قَالَ أَهْرِقْهَا.
ترمذی، السنن، کتاب الأشربۃ، باب ماجاء في کراھیۃ النفخ في الشراب، 4: 303، رقم: 1887
حضور نبی اکرم ﷺ نے پانی میں پھونکنے سے منع فرمایا۔ ایک آدمی نے عرض کیا: اگر برتن میں تنکا وغیرہ دیکھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے گرا دو۔
6۔ پانی پینے کے دوران پانی میں سانس نہیں لینا چاہیے بلکہ برتن کو دور کر کے سانس لینا چاہیے۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا شَرِبَ أَحَدُکُمْ فَـلَا یَتَنَفَّسْ فِي الإِنَاءِ.
بخاري، الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب النھي عن التنفس في الإناء،
5: 2133، رقم: 5307
مسلم، الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب کراھۃ التنفس في نفس الإناء واستحباب التنفس ثلاثا
خارج الإناء، 3: 1602، رقم: 267
أحمد بن حنبل المسند، 4: 383، رقم: 19438
ترمذي، السنن، کتاب الأشربۃ، باب ما جاء في کراھیۃ التنفس في الإناء، 4: 304، رقم:
1889
ابن ماجہ، السنن، کتاب الأشربۃ، باب التنفس في الإناء، 2: 1133، رقم: 3427
جب تم میں سے کوئی پانی پیئے تو برتن میں سانس نہ لے۔
7۔ پانی پینے کے بعد الحمد للہ کہنا چاہیے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
وَسَمُّوا إِذَا أَنْتُمْ شَرِبْتُمْ، وَاحْمَدُوا إِذَا أَنْتُمْ رَفَعْتُمْ.
ترمذی، السنن، کتاب الأشربۃ، باب ماجاء في التنفس في الإناء، 4: 302، رقم: 1885
پانی پیتے وقت بسم اللہ پڑھو اور فراغت پر الحمد ﷲ کہو۔
جواب: بچے کی شخصیت کی تعمیر میں کھانے پینے کی ابتدائی تربیت کا بڑا عمل دخل ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق کھانے پینے کے آداب سے روشناس کروائیں۔ کھانا کھانے کے دوران بچہ اگر ناشائستہ طریقہ اختیار کرے تو اسے نہایت محبت اور پیار سے سمجھائیں۔
بچوں کو کھانا کھانے کے درج ذیل آداب سکھائے جائیں:
1۔ کھانا کھانے سے قبل اور بعد میں ہاتھ دھوئے جائیں۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
بَرَکَةُ الطَّعَامِ الْوُضُوْءُ قَبْلَهٗ وَالْوُضُوءُ بَعْدَهٗ.
أحمد بن حنبل، المسند، 5: 441، رقم: 23783
أبو داؤد، السنن، کتاب الأطعمۃ، باب في غسل الید قبل الطعام، 3: 345، رقم: 3761
ترمذی، السنن، کتاب الأطعمۃ، باب ما جاء فی الوضوء قبل الطعام، 4: 281، رقم: 1846
بزار، المسند، 6: 486، رقم: 2519
’کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا برکت کا باعث ہے۔‘
2۔ ہاتھ دھونے کے بعد کپڑے سے خشک نہ کیے جائیں۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
ولا یمسح یده قبل الطعام بالمندیل لیکون أثر الغسل باقیًا وقت الأکل.
الفتاوی الهندیه، 16: 32
کھانے سے پہلے دھوئے ہاتھ کسی کپڑے سے خشک مت کرو تاکہ ہاتھوں کی صفائی کھانے کے دوران قائم رہ سکے۔
3۔ دو زانو یا چار زانو بیٹھ کر کھانا کھایا جائے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
بَعَثَنِي النَّبِيُّ ﷺ فَرَجَعْتُ إِلَیْهِ فَوَجَدْتُهٗ یَأْکُلُ تَمْرًا وَهُوَ مُقْعٍ.
أحمد بن حنبل، المسند، 3: 180، رقم: 12883
أبو داؤد، السنن، کتاب الأطعمۃ، باب ما جاء في الأکل متکئاً، 3: 348، رقم: 3771
حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے ایک کام بھیجا۔ جب میں واپس حاضر بارگاہ ہوا تومیںنے آپ کو حالتِ اقعاء میں (دو زانو بیٹھ کر) کجھوریں کھاتے ہوئے پایا۔
4۔ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا جائے۔
5۔ دائیں ہاتھ سے کھایا جائے۔
6۔ اپنے سامنے سے کھانا کھایا جائے۔
حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
کُنْتُ غُـلَامًا فِي حُجْرِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَکَانَتْ یَدِي تَطِیْشُ فِي الصَّحْفَۃِ. فَقَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: یَا غُـلَامُ، سَمِّ اللهَ، وَکُلْ بِیَمِیْنِکَ وَکُلْ مِمَّا یَلِیْکَ. فَمَا زَالَتْ تِلْکَ طِعْمَتِي بَعْدُ.
بخاری، الصحیح، کتاب الأطعمة، باب التسمیة علی الطعام والأکل
بالیمین، 5: 2056، رقم: 5061-5063
مسلم، الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب آداب الطعام والشراب وأحکامهما، 3: 1599، رقم:
2022
ابن ماجه، السنن، کتاب الأطعمة، باب الأکل بالیمین، 2: 1087، رقم: 3267
نسائی، السنن الکبری، 4: 175، رقم: 6759
بیهقی، السنن الکبری، 7: 277، رقم: 14389
میں لڑکپن میں حضور نبی اکرم ﷺ کے زیرکفالت تھا (آپ ﷺ کے ساتھ کھانا کھاتے وقت) میرا ہاتھ پیالے میں ہر طرف چلتا رہتا تھا۔ (ایک مرتبہ جب میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ دسترخواں پر بیٹھا تھا) تو آپ ﷺ نے (مجھے سمجھاتے ہوئے) فرمایا: بیٹے! (پہلے) بسم اللہ پڑھو، پھر دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھایا کرو۔ اس کے بعد ہمیشہ میں اسی طریقہ سے کھاتا ہوں۔
7۔ کھانا کھانے کے دوران ٹیک لگانے سے اجتناب کیا جائے۔
حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَمَّا أَنَا فَـلَا اَکُلُ مُتَّکِئًا.
ترمذی، السنن، کتاب الأطعمۃ، باب ما جاء في کراھیۃ الأکل متکئا،
4: 273، رقم: 1830
نسائی، السنن الکبری، 4: 171، رقم: 6742
بیہقی، السنن الکبری، 7: 49، رقم: 13103
ابن ابی شیبہ، المصنف، 5: 140، رقم: 24521
طبرانی، المعجم الأوسط، 7: 84، رقم: 6924
میں تکیہ لگا کر کھانا نہیں کھاتا۔
8۔ کھڑے ہو کر کھانے پینے سے اجتناب کیا جائے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں:
أَنَّهُ نَهٰی أَنْ یَشْرَبَ الرَّجُلُ قَائِمًا.
حضور نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہوکر پانی پینے سے منع فرمایا۔
حضرت قتادہ کہتے ہیں: ہم نے پوچھا کہ کھڑے ہوکر کھانا کیسا ہے؟ تو فرمایا:
ذَاکَ أَشَرُّ أَوْ أَخْبَثُ.
مسلم، الصحیح، کتاب الأشربۃ، باب کراھیۃ الشرب قائما، 3: 1600،
رقم: 2024
ترمذی، السنن، کتاب الأشربۃ، باب ما جاء في النھي عن الشرب قائما، 4: 300، رقم: 1879
احمد بن حنبل، المسند، 3: 131، رقم: 12360
یہ زیادہ برا اور خراب ہے۔
9۔ کھانے پینے میں اسراف نہ کیا جائے۔
اس کی ممانعت کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ط اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَo
الأعراف، 7: 31
کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
جواب: حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق بچوں کو درج ذیل سونے کے آداب سکھائے جائیں۔
1۔ بستر پر لیٹنے سے قبل اس کو اچھی طرح جھاڑ لیا جائے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَوٰی أَحَدُکُمْ إِلٰی فِرَاشِهٖ فَلْیَنْفُضْ فِرَاشَهٗ بِدَاخِلَۃِ إِزَارِهٖ، فَإِنَّهٗ لَا یَدْرِي مَا خَلَفَهٗ عَلَیْهِ، ثُمَّ یَقُوْلُ: بِاسْمِکَ رَبِّي وَضَعْتُ جَنْبِي وَبِکَ أَرْفَعُهٗ، إِنْ أَمْسَکْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا، وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهٖ عِبَادَکَ الصَّالِحِیْنَ.
بخاری، الصحیح، کتاب الدعوات، باب التعوذ والقرائۃ عند النوم،
5: 2329، رقم: 5961
مسلم، الصحیح، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب ما یقول عند النوم وأخذ
المضجع، 4: 2084، رقم: 2714
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 283، رقم: 7798
أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب ما یقال عند النوم، 4: 311، رقم: 5050
جب تم میں سے کوئی اپنے بستر پر جانے لگے تو اسے چاہیے کہ اپنے بستر کو اپنی ازار کے اگلے زائد حصے سے صاف کرے کیونکہ اسے کیا معلوم کہ اس کے بعد کیا چیز اندر آ گئی۔ پھر کہے: اے اللہ! تیرے نام کے ساتھ میں اپنا پہلو بستر سے لگاتا ہوں اور تیری عنایت سے اُٹھاتا ہوں۔ اگر تو میری روح قبض فرمائے تو اس پر رحم کرنا اور اس کی حفاظت فرمانا جیسے تو نے نیک بندوں کی حفاظت فرمائی۔
2۔ دائیں کروٹ پر دایاں ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ کر سویا جائے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا أَوٰی إِلٰی فِرَاشِهٖ نَامَ عَلٰی شِقِّهِ الْأَیْمَنِ.
بخاری، الصحیح، کتاب الدعوات، باب النوم علی الشق الأیمن، 5: 2327، رقم: 5956
حضور نبی اکرم ﷺ جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو دائیں کروٹ پر سوتے تھے۔
3۔ سونے سے قبل مسنون دعائیں پڑھی جائیں۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهٗ مِنَ اللَّیْلِ، وَضَعَ یَدَهٗ تَحْتَ خَدِّهٖ، ثُمَّ یَقُولُ: اللّٰهُمَّ بِاسْمِکَ أَمُوتُ وَأَحْیَا.
بخاری، الصحیح، کتاب الدعوات، باب وضع الید الیمنی تحت الخد الیمنی، 5: 2327، رقم: 5955
حضور نبی اکرم ﷺ رات کے وقت جب خواب گاہ میں جاتے تو اپنا ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ لیتے پھر کہتے: اے اللہ! میں تیرے نام کے ساتھ سوتا اور جاگتا ہوں۔
4۔ سورۂ اخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ایک ایک مرتبہ پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں پر پھونکیں اور پھر دونوں ہاتھ پورے جسم پر مل لیں۔ یہ عمل تین مرتبہ کیا جائے۔ یہ سورتیں اگر بچے کو یاد ہوں تو وہ خود پڑھے بصورت دیگر بچے کی ماں پڑھ کر اس پر پھونکے اور اسے یاد کروائے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ إِذَا أَوٰی إِلٰی فِرَاشِهٖ کُلَّ لَیْلَةٍ، جَمَعَ کَفَّیْهِ ثُمَّ نَفَثَ فِیْهِمَا، فَقَرَأَ فِیْهِمَا: قُلْ هُوَ اللہُ أَحَدٌ. وَقُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ وَقُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ. ثُمَّ یَمْسَحُ بِهِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِهٖ، یَبْدَأُ بِهِمَا عَلٰی رَأْسِهٖ وَوَجْهِهٖ، وَمَا أَقْبَلَ مِنْ جَسَدِهٖ، یَفْعَلُ ذٰلِکَ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ.
بخاري، الصحیح، کتاب فضائل القرآن، باب فضل المعوذات، 4: 1916،
رقم: 4729
ترمذي، السنن، کتاب الدعوات، باب ما جاء فیمن یقرأ القرآن عند المنام، 5: 473، رقم:
3402
نسائي، السنن الکبری، 6: 197، رقم: 10624
طبراني، المعجم الاوسط، 5: 201، رقم: 5079
حضور نبی اکرم ﷺ اپنے بستر پر آرام فرما ہوتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو جمع کر کے ان پر سورۂ اخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھ کر دم کرتے، پھر انہیں اپنے سارے جسم اطہر پر پھیرتے جہاں تک ہو سکتا۔ آپ اپنے سر اقدس اور چہرۂ مبارک سے ابتدا فرماتے اور جسم انور کے سامنے کے حصے پر غرض تین مرتبہ ایسا ہی کرتے۔
جواب: بچوں کو چھینک اور جمائی کے آداب سکھائے جائیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ اس کے بارے میں دین کے احکامات کیا ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْعُطَاسَ وَیَکْرَهُ التَّثَاؤُبَ، فَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللهَ فَحَقٌّ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ سَمِعَهٗ أَنْ یُشَمِّتَهٗ، وَأَمَّا التَّثَاؤُبُ فَإِنَّمَا هُوَ مِنَ الشَّیْطَانِ فَلْیَرُدَّهٗ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِذَا قَالَ: هَا ضَحِکَ مِنْهُ الشَّیْطَانُ.
بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب ما یستحب من عطاس وما یکرہ
من التثاؤب، 5: 2297، رقم: 5869
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 265، رقم: 7598
أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في التثاؤب، 4: 306، رقم: 5028
ترمذی، السنن، کتاب الأدب، باب ماجاء إن اللہ یحب العطاس ویکرہ التثاؤب، 5: 87، رقم:
2747
بیشک اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند اور جمائی کو نا پسند فرماتا ہے۔ پس جب کسی کو چھینک آئے تو وہ اَلْحَمدُ ِﷲ کہے اور ہر مسلمان پر حق ہے کہ جو اسے سنے تو یَرْحَمُکَ اللہ کہے۔ جمائی شیطان کی طرف سے ہے، لہٰذا جہاں تک ہو سکے اسے روکنا چاہیے، کیونکہ جمائی لینے والا جب ’ہا‘ کہتا ہے تو شیطان ہنستا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا عَطَسَ أَحَدُکُمْ فَلْیَقُلِ: الْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَلْیَقُلِ لَهٗ أَخُوهُ أَوْ صَاحِبُهٗ: یَرْحَمُکَ اللہُ. فَإِذَا قَالَ لَهٗ: یَرْحَمُکَ اللہُ، فَلْیَقُلْ: یَهْدِیکُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ.
بخاري، الصحیح، کتاب الأدب، باب إذا عطس کیف یشمت، 5: 2298،
رقم: 5870
أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في تشمیت العاطس، 4: 307، رقم: 5033
ترمذي، السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء کیف تشمیت العاطس، 5: 83، رقم: 2741
ابن ماجہ، السنن، کتاب الأدب، باب تشمیت العاطس، 2: 1224، رقم: 3715
جب تم میں سے کوئی شخص چھینکے تو {اَلحَمْدُ ِﷲِ} کہے، اور اس کا بھائی یا دوست (جو بھی سنے) وہ جواباً {یَرْحَمُکَ اللہُ} کہے۔ جب اس کا بھائی {یَرْحَمُکَ اللہُ} کہے تو پھر وہ کہے: {یَھْدِیْکُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ} ’اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت دے اور تمہارے حالات کو سنوارے۔‘
جواب: بچوں کو قضائے حاجت کے درج ذیل آداب سکھائے جائیں:
1۔ قضائے حاجت کے وقت اپنے آپ کو چھپایا جائے اور اپنے ستر کی حفاظت کی جائے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ إِذَا أَرَادَ حَاجَۃً لَا یَرْفَعُ ثَوْبَهٗ حَتّٰی یَدْنُوَ مِنَ الْأَرْضِ.
أبو داؤد، السنن، کتاب الطھارۃ، باب کیف التکشف عند الحاجۃ،
1: 4، رقم: 14
ترمذی، السنن، کتاب الطھارۃ، باب ما جاء في الاستتار عند الحاجۃ، 1: 21، رقم: 14
دارمي، السنن، کتاب الطھارۃ، باب حدثنا عمرو بن عون، 1: 178، رقم: 666
ابن أبي شبیہ، المصنف، 1: 101، رقم: 1139
طبرانی، المعجم الأوسط، 5: 213، رقم: 5118
حضور نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو جب تک زمین کے نزدیک نہ ہو جاتے اُس وقت تک کپڑا نہ اُٹھاتے۔
2۔ قضائے حاجت کے دوران باتیں نہ کی جائیں۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
لَا یَخْرُجْ الرَّجُلَانِ یَضْرِبَانِ الْغَائِطَ کَاشِفَانِ عَوْرَتَهُمَا یَتَحَدَّثَانِ، فَإِنَّ اللهَ تعالیٰ یَمْقُتُ عَلٰی ذٰلِکَ.
أحمد بن حنبل، المسند، 3: 36، رقم: 11328
أبو داؤد، السنن، کتاب الطھارۃ، باب کراھیۃ الکلام عند الحاجۃ، 1: 4، رقم: 15
ابن خزیمۃ، الصحیح، 1: 39، رقم: 71
حاکم، المستدرک، 1: 260، رقم: 560
جو دو آدمی قضائے حاجت کے لیے نکلیں اور اپنے ستر کھول کر آپس میں گفتگو کرتے رہیں تو اللہ تعالیٰ اس بات سے ناراض ہوتا ہے۔
3۔ راستے میں، سائے کے نیچے اور لوگوں کے جمع ہونے کی کسی جگہ پر قضائے حاجت نہ کی جائے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: لعنت کرنے والوں سے بچو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! لعنت کرنے والے کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
الَّذِي یَتَخَلّٰی فِي طَرِیْقِ النَّاسِ أَوْ فِي ظِلِّهِمْ.
مسلم، الصحیح، کتاب الطھارۃ، باب النھي عن التخلي في الطرق
والظلال، 1: 226، رقم: 269
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 372، رقم: 8840
جو شخص لوگوں کے راستہ یا ان کے سائے کی جگہ میں قضاء حاجت کرے (یعنی یہ فعل لعنت ملامت کا سبب بنے گا)۔
4۔ ساکن (ٹھہرئے ہوئے) پانی میں پیشاب نہ کیا جائے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا یَبُوْلَنَّ أَحَدُکُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ.
بخاری، الصحیح، کتاب الوضوء، باب البول فی الماء الدائم، 1:
94، رقم: 236
مسلم، الصحیح، کتاب الطھارۃ، باب النھي عن البول فی الماء الراکد، 1: 235، رقم: 282
أبو داؤد، السنن، کتاب الطھارۃ، باب البول فيالماء الراکد، 1: 18، رقم: 69
ترمذي، السنن، کتاب الطھارۃ، باب ما جاء فی کراھیۃ البول فی الماء الراکد، 1: 100،
رقم: 68
نسائی، السنن الکبری، 1: 75، رقم: 55
تم میں سے کوئی شخص ہرگز ٹھہرے ہوئے (یعنی ساکن) پانی میں پیشاب نہ کرے۔
5۔ قبلہ رخ ہو کر پیشاب نہ کیا جائے۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَتَیْتُمُ الْغَائِطَ، فَـلَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَۃَ وَلَا تَسْتَدْبِرُوْهَا.
بخاری، الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب قبلۃ أھل المدینۃ وأھل الشام
والمشرق لیس في المشرق ولا في المغرب، 1: 154، رقم: 386
مسلم، الصحیح، کتاب الطھارۃ، باب الاستطابۃ، 1: 224، رقم: 264
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 247، رقم: 7362
ترمذی، السنن، کتاب الطھارۃ، باب فی النھي عن استقبال القبلۃ بغائط أو بول، 1: 13،
رقم: 8
جب تم قضائے حاجت کے لیے جائو تو قبلے کی طرف منہ نہ کرو اور نہ پیٹھ کرو۔
6۔ بائیں ہاتھ سے استنجاء کیا جائے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
فَإِذَا أَتٰی أَحَدُکُمُ الْغَائِطَ، فَـلَا یَسْتَقْبِلْ الْقِبْلَۃَ وَلَا یَسْتَدْبِرْهَا، وَلَا یَسْتَطِبْ بِیَمِینِهٖ.
أبو داؤد، السنن، کتاب الطھارۃ، باب کراھیۃ استقبال القبلۃ
عند قضاء الحاجۃ، 1: 3، رقم: 8
ابن ماجہ، السنن، کتاب الطھارۃ وسنتھا، باب کراھیۃ مس الذکر بالیمین والاستنجاء بالیمین،
1: 113، رقم: 312
ابن حبان، الصحیح، 4: 288، رقم: 1440
جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لیے بیٹھے تو قبلہ کی جانب منہ یا پیٹھ نہ کرے اور دائیں ہاتھ سے استنجا نہ کرے۔
7۔ پیشاب کے چھینٹوں سے کپڑوں کو بچایا جائے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
مَرَّ النَّبِيُّ ﷺ بِقَبْرَیْنِ، فَقَالَ: إِنَّهُمَا لَیُعَذَّبَانِ وَمَا یُعَذَّبَانِ فِي کَبِیْرٍ. أَمَّا أَحَدُهُمَا فَکَانَ لَا یَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ یَمْشِي بِالنَّمِیْمَۃِ. ثُمَّ أَخَذَ جَرِیْدَۃً رَطْبَۃً فَشَقَّهَا نِصْفَیْنِ، فَغَرَزَ فِي کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَۃً. قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، لِمَ فَعَلْتَ هٰذَا؟ قَالَ: لَعَلَّهٗ یُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ یَیْبَسَا.
بخاري، الصحیح، کتاب الجنائز، باب الجرید علی القبر، 1: 458،
رقم: 1295
مسلم، الصحیح، کتاب الطھارۃ، باب الدلیل علی نجاسۃ البول ووجوب الاستبراء منہ، 1: 241،
رقم: 292
أحمد بن حنبل، المسند، 1: 225، رقم: 1980
أبو داؤد، السنن، کتاب الطھارۃ، باب الاستبراء من البول، 1: 6، رقم: 20
ابن ماجہ، السنن، کتاب الطھارۃ وسنتھا، باب التشدید في البول، 1: 125، رقم: 247
حضور نبی اکرم ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں (قبر والوں) کو عذاب ہو رہا ہے اور انہیں کسی کبیرہ گناہ کے باعث عذاب نہیں ہو رہا۔ بلکہ ان میں سے ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا بہت چغلیاں کھایا کرتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے ایک سبز ٹہنی لی اور اس کے دو حصے کر کے ہر قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں گی تو ان کے عذاب میں کمی ہوتی رہے گی۔
8۔ قضائے حاجت کے بعد ہاتھوں کو اچھی طرح دھو کر پاک کیا جائے۔
جواب: بچوں کو آدابِ مجلس سے روشناس کروانا والدین کا فرض ہے تاکہ ان کے بچے جس مجلس میں بھی جائیں وہاں ادب کا مظاہرہ کریں نہ کہ نادانی کی وجہ سے مجلس میں کسی نازیبا حرکت کے مرتکب ہوں۔
بچوں کو درج ذیل آدابِ مجلس سکھائے جائیں:
1۔ مجلس میں جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائیں، تاخیر سے پہنچ کر لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جانے کی کوشش نہ کی جائے۔
حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
کُنَّا إِذَا أَتَیْنَا النَّبِيَّ ﷺ جَلَسَ أَحَدُنَا حَیْثُ یَنْتَهِي.
أحمد بن حنبل، المسند، 5: 98، رقم: 20967
أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في التحلق، 4: 258، رقم: 4825
ترمذی، السنن، کتاب الاستئذان، باب (9)، 5: 73، رقم: 2725
ابن حبان، الصحیح، 14: 345، رقم: 6433
جب ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تو جہاں مجلس ختم ہو رہی ہوتی وہیں بیٹھ جاتے۔
2۔ جب کسی مجلس میں دو آدمی بیٹھے ہوں تو بلا اجازت ان کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہیے۔
حضرت عمرو بن شعیب بواسطہ اپنے والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا یُجْلَسْ بَیْنَ رَجُلَیْنِ إِلَّا بِإِذْنِهِمَا.
أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب فی الرجل یجلس بین الرجلین
بغیر إذ نھما، 4: 262، رقم: 4844
خطیب البغدادي، الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، 1: 178، رقم: 272
منذری، الترغیب والترہیب، 4: 26، رقم: 4649
دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھو۔
3۔ مجلس سے کسی شخص کو اُٹھا کر اس کی جگہ پر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَنَّهٗ نَهٰی أَنْ یُقَامَ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسِهٖ وَیَجْلِسَ فِیْهِ آخَرُ، وَلٰـکِنْ تَفَسَّحُوا وَتَوَسَّعُوا.
بخاري، الصحیح، کتاب الاستئذان، باب {إِذَا قِیلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوا
فِی الْمَجْلِسِ فَافْسَحُوا یَفْسَحْ اللہُ لَکُمْ وَإِذَا قِیلَ انْشِزُوا فَانْشِزُوا
} (المجادلۃ، 58: 11) 5: 2313، رقم: 5915
مسلم، الصحیح، کتاب السلام، باب تحریم إقامۃ الإنسان من موضعہ المباح الذي سبق إلیہ،
4: 1714، رقم: 2177
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 16-17، رقم: 4659
ابن حبان، الصحیح، 2: 344، رقم: 586
حضور نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی دوسرے کو اُٹھا کر اُس کی جگہ پر بیٹھے، بلکہ کھل جایا کرو اور اپنی مجالس میں کشادگی پیدا کیا کرو۔
جواب: بچوں کو بڑوں کا ادب سکھانے اور خوش گفتار بنانے کے لیے ہمیشہ ان سے ادب سے بات کی جائے۔ اپنا لہجہ نرم رکھا جائے تاکہ وہ بھی بڑوں کے ساتھ ادب کا مظاہرہ کریں۔ کیونکہ والدین جس طرح بولیں گے بچہ بھی بالکل اسی طرح بولنا سیکھے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ گھر میں جس طرح بچے کو مخاطب کر کے بات کی جائے گی وہی انداز بچے کی عادت میں شامل ہو جائے گا۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ گھر میںـ’’ تو‘‘ اور ’’تم‘‘ کے الفاظ سے بچے کو مخاطب کیا جائے اور بچے سے یہ توقع رکھی جائے کہ وہ بڑوں کے ساتھ یا اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے تم اور تو کی بجائے ’’آپ‘‘ کے لفظ سے مخاطب ہو۔ اس لیے والدین کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ خود بھی اور گھر کے باقی افراد کو بھی اس بات کی طرف توجہ دلائیں کہ جب بھی وہ بچے کے ساتھ گفتگو کریں یاکسی دوسرے سے مخاطب ہوں تو ہمیشہ ادب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ’’آپ‘‘ کا لفظ استعمال کریں۔
بچوں کی تربیت میں بڑوں کا ادب و احترام کرنے کی تعلیم کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ اُنہیں سکھایا جائے کہ جب وہ بڑوں کے ساتھ چلیں تو ان کے آگے نہ چلیں۔ جب وہ بڑوں کے ہمراہ ہوں تو بڑوں سے پہلے گھر میں داخل نہ ہوں۔ بڑوں سے مراد صرف گھر کے بڑے افراد اور والدین نہیں بلکہ اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو عمر میں بچے سے بڑا ہو۔ والدین تو عظیم ہوتے ہیں ان کا احترام کرنا، ان کا ادب کرنا اور ان کا حکم ماننا تو بچوں کا فرض ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی بھی بڑا بزرگ ہو اس کا بھی ادب و احترام بچوں کو کرنا چاہیے۔ سکول میں اکثر معمر افراد ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا چاہیے۔ ہمسایوں میں ایسے افراد رہتے ہیں ان کے ساتھ بھی اخلاق اور ادب و احترام سے پیش آنا چاہیے۔ کوئی بھی بڑا بزرگ ہو اس کے ساتھ بچوں کو ادب اور تعظیم سے پیش آنا چاہیے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے بڑوں کے ساتھ ادب، عزت اور تعظیم سے پیش آنے کی تلقین فرمائی ہے اور بڑوں کا یہ حق قرار دیا کہ بچے اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کا احترام کریں اور ان کے مرتبے کا خیال رکھیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا وَیَرْحَمْ صَغِیْرَنَا.
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 207، رقم: 6937
أبو یعلی، المسند، 6: 191، رقم: 3476
طبراني، المعجم الأوسط، 5: 107، رقم: 4812
جو ہمارے بڑوں کی توقیر نہ کرے اور ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے بزرگوں کی عزت و تکریم کو اجلالِ الٰہی کا حصہ قرار دیا ہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللهِ إِکْرَامَ ذِي الشَّیْبَةِ الْمُسْلِمِ.
أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في تنزیل الناس منازلھم،
4: 261، رقم: 4843
ابن أبی شیبۃ، المصنف، 4: 440، رقم: 21922
بزار، المسند، 8: 74، رقم: 3070
طبرانی، المعجم الأوسط، 7: 22، رقم: 6736
عمر رسیدہ مسلمان کی تعظیم کرنا اللہ تعالیٰ ہی کی تعظیم کا ایک حصہ ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا أَکْرَمَ شَابٌّ شَیْخًا لِسِنِّهٖ إِلَّا قَیَّضَ اللہُ لَهٗ مَنْ یُکْرِمُهٗ عِنْدَ سِنِّهٖ.
ترمذی، السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في إجلال الکبیر،
4: 372، رقم: 2022
طبرانی، المعجم الأوسط، 6: 94، رقم: 5903
قضاعی، مسند الشھاب، 2: 20، رقم: 802
جو نوجوان کسی عمر رسیدہ شخص کی اُس کی بزرگی کے باعث عزت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اُس کے بڑھاپے میں اُس کی عزت کرتا ہے۔
جواب: غیر محسوس انداز سے بچوں کے اندر بہت سی اچھی اور بُری عادات جنم لیتی ہیں۔بچے کے اردگرد کاماحول اخلاقی لحاظ سے پاکیزہ ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر صحیح عقائد و تصورات، نیک اور صالح سیرت و کردار کے حامل افراد سے بچے کا میل جول ہے تو اُس میں پاکیزہ صفات پروان چڑھتی ہیں جن کا ذہنی و نفسیاتی اثر بچے کی شخصیت پر پڑتا ہے۔
یہ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ بچہ اپنے بڑوں کو سچ بولتے، نماز پڑھتے اور برائی سے بچتے دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں پاکیزہ خیالات آتے ہیں۔ نیک عادات اور حسن سلوک کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔
اس کے برعکس اگر بچے کے ارد گرد فاسد افکار و عقائد رکھنے والے اور بری عادات و اطوار کے حامل افراد رہتے ہوں تو ماحول کی اخلاقی گراوٹ بچے کو متاثر کرتی ہے۔ اس کے اندر بُری عادتیں پنپنے لگتی ہیں اور پھر یہ بُری عادات و اطوار نہ صرف اس کے دل و دماغ پر اثر ڈالتی ہیں بلکہ اسے مہلک روحانی امراض میں مبتلا کر دیتی ہیں۔
جب بچہ اپنے والدین، بزرگوں اور بڑے بہن بھائیوں کی غلط عادات مثلاً ان کو جھوٹ بولتے، فلموں اور ڈراموں کی باتیں کرتے، ہیجان خیز گانے سنتے اور بچوں کو ڈانس کرتے دیکھ کر خوش ہوتے دیکھتا ہے تو ایسے ماحول میں غیر محسوس انداز سے بچے میں بہت سے خرابیاں جڑ پکڑ لیتی ہیں وہ بہت سی ذہنی اور غیر اخلاقی عادات کا شکار ہو جاتا ہے۔
الغرض والدین، بزرگ اور بڑے بہن بھائی بچے کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بچے میں سیرت کی پاکیزگی تبھی پیدا ہو سکتی ہے جب یہ افراد اپنے قول و فعل پر نگاہ رکھیں اور بچے کو پاکیزہ ماحول فراہم کریں۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ وہ کس قسم کی مثال قائم کر رہے ہیں۔
جواب: بچے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے عظیم نعمت ہیں۔ کسی بھی ماں کے لیے بیک وقت جڑواں بچوںکی پرورش اور تربیت کرنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جڑواں بچوں کا رویہ عام بچوں کی نسبت مختلف ہوتا ہے لہٰذا ان کی تربیت میں ماں کو خصوصی توجہ سے کام لینا ہوتا ہے۔ جڑواں بچوں کے رویے میں تبدیلی اس لیے ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور ان کا یہ رویہ والدین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں والدین کو مل جل کر بچوں پر یکساں توجہ دینی چاہیے اور کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے ایک بچہ یہ سمجھنے لگے کہ اس کے جڑواں بھائی کو اس پر فوقیت حاصل ہو رہی ہے، اس سے بچوں کے درمیان مقابلے کی فضا قائم ہو جائے گی اور یوں رد عمل کے طور پرکسی ایک بچے کے رویے میں خرابی کا پیدا ہونا لازم ہے۔ ماں درج ذیل اُمور کا خاص خیال رکھ کر جڑواں بچوں کی تربیت بہتر انداز میں کر سکتی ہے:
1۔ جب جڑواں بچوں میں سے ایک بچہ دوسرے کو زیادہ پریشان کر رہا ہو تو اس کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ تنگ کرنے والا بچہ سمجھ رہا ہو کہ ماں اس کو توجہ کم دے رہی ہے اور دوسرے بچے کی طرف داری کر رہی ہے۔ اِس صورت میں ماں کو چاہیے کہ دونوں بچوں کو محبت سے یہ یقین اور احساس دلائے کہ دونوں بچے اس کے لیے یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔
2۔ جڑواں بچوں کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کے لیے ماں ایک جیسے اُصول لاگو نہ کرے بلکہ دونوں بچوں کے لیے الگ الگ اُصول اور طریقے اختیار کرے۔
3۔ عموماً جڑواںبچے ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہوتے ہیں لہٰذا ماں اُن کی ایک دوسرے کے ذریعے تربیت کا اُصول بھی اختیار کر سکتی ہے۔ مثلا اگر ایک بچہ صبح جلدی بیدار ہوتا ہے لیکن دوسرا دیر تک سوتا ہے تو ماں جلدی اُٹھنے والے کو تاکید کرے کہ وہ اپنے بھائی یا بہن کو بھی صبح جلدی جاگنے کی ترغیب دے۔
4۔ دونوں بچوں کو یہ احساس ذمہ داری دلانا اور انہیں سمجھانا ماں کا فرض ہے کہ ہر بچے کو اپنا کام خود کرنا چاہیے مثلا ایک بچہ اسکول کا ہوم ورک کر لیتا ہے جبکہ دوسرا اپنا کام کرنے میں سستی کا مظاہرہ کرکے دوسرے سے اپنا کام کروا لیتا ہے تو ماں کو پیار سے سمجھانا چاہیے کہ اپنا کام خود کرنے سے انسان سیکھتا ہے۔ لیکن اگر کوئی دوسرا کام کر دے تو خود سیکھنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ لہٰذا دوسروں کے برابراپنا مقام حاصل کرنے کے لیے اپنا کام خود کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اس طرح وہ بچہ دوسروں سے پیچھے رہ جانے کے احساس سے اپنا ہوم ورک خود کرنے لگے گا۔
یوں جڑواں بچوں میں مقابلے کے مثبت رجحان اور تعمیری مسابقت کے عنصر کو اُبھار کر اُن کی تربیت اور شخصیت سازی کی جا سکتی ہے کہ جس سے نہ تو ایک بچے کو احساس برتری کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی دوسرا خود کو محروم محسوس کرتا ہے بلکہ دونوں بچے یہ محسوس کرتے ہیں کہ اُن کی والدہ نہ صرف یکساں طور پر اُن سے پیار کرتی ہے بلکہ اُن دونوں کو برابری کے اصول پر اہمیت دیتی ہے۔
جواب: جی نہیں! والدین کو بچوں کے سوالات ہرگز نظر انداز نہیں کرنے چاہئیں بلکہ بچوں کے سوالات کے جواب آسان اور عام فہم انداز میں اس طرح دینے چاہئیں کہ اُنہیں بات سمجھ آ جائے۔
یہ قدرتی امر ہے کہ بچہ جب شعور کی منازل طے کرتا ہے اور اپنے گرد و پیش میں نت نئی چیزیں مثلاً چاند، سورج، آسمان اور ستارے دیکھتا ہے، رات، دن، صبح و شام کی تبدیلی اور موسموں کا بدلنا دیکھتا ہے تو اِن تمام چیزوں کی حقیقت جاننے کی خواہش اس میں جنم لیتی ہے۔ وہ بار بار اپنے والدین سے ان چیزوںکے بارے میں پوچھتا ہے۔ ایسے موقع پر والدین کو چاہیے کہ بچے کے اس قدرتی جذبہ سے فائدہ اُٹھا کر اس کی سمجھ کے مطابق ہر چیز کی حقیقت کے بارے میں اسے شعور دیں۔ اُسے بتائیں کہ چاند کیا ہے، سورج کیا ہے، صبح کس طرح ہوتی ہے، شام کس طرح ہوتی ہے، رات ہوتے ہی سورج کہاں چلا جاتا ہے۔ اندھیرا کیوں چھا جاتا ہے۔ اس طرح سوال جواب سے بچے کے علم میں جو اضافہ ہوتا ہے وہ بچہ کبھی نہیں بھولتا۔ یوں وہ بہت سی چیزوں کے بارے میں معلومات حاصل کر لیتا ہے۔
اگر والدین کو بچوں کے کسی سوال کا صحیح جواب نہ آتا ہو تو بچوں سے ٹال مٹول نہیں کرنی چاہیے بلکہ انہیں صاف صاف کہہ دینا چاہیے کہ آپ مطالعہ کر کے یا کسی عالم سے پوچھ کر اس کا جواب دیں گے۔ بچوں کے ذہنوں میں اُنہی باتوں کے نقوش پیدا کرنے چاہئیں جو ان کی زندگی کو کامیاب بنائیں۔ اس سلسلہ میں والدین کو یہ اُصول بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ بچے کو حکم یا تنبیہ کرنے کی بجائے مثال اور دلیل سے سمجھایا جائے۔
جواب: بچے معصوم اور ناسمجھ ہوتے ہیں، لہٰذا ماں بچوں کو سختی سے کوئی کام کرنے پر مجبور نہ کرے۔ بچوں سے بات منوانے کے لیے ماں سختی اور زبردستی کی بجائے اُنہیں ہلکی پھلکی باتیںکر کے مانوس کرے۔ پھر جس بات پر آمادہ کرنا ہو اس بات کی خوبیاں بچوں کو بتائے، بچوں کو کسی بھی بات پر آمادہ کرنے کے لیے ماں کو یہ اُصول یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا انداز حاکمانہ نہ ہو بلکہ ترغیب دینے والا ہو۔ یعنی اس کام کو کرنے کے فوائد اور نہ کرنے کے نقصانات بچوں کی ذہنی استعداد کے مطابق اُنہیں سمجھائے جائیں۔
مثلاً اگر بچے کو ٹیوشن بھیجنا ہو تو اسکول سے آتے ہی ٹیوشن کا نہ کہیں بلکہ پہلے بچے سے اس بارے میں پوچھیں کہ اسکول میں اس کا وقت کیسے گزرا، پھر اسے پیار سے ٹیوشن جانے کے لیے کہیں۔
اسی طرح ماں بچے سے یہ مت کہے کہ کھیل کود چھوڑو اور پڑھائی کرو، پڑھائی بہت اہم ہے۔ بلکہ یوں کہے: اگر آپ نے آج پڑھائی جلدی مکمل کر لی تو میں آپ کے ساتھ کھیلوں گی یا اس کام کے کرنے کا حوالہ دے جو بچے کو پسند ہو۔
بچہ اگر چاکلیٹ بہت زیادہ کھاتا ہو توماں بچے کو ڈانٹ ڈپٹ سے منع کرنے کی بجائے پیار سے کہے کہ بیٹا! چاکلیٹ زیادہ کھانے سے دانتوں میں کیڑا لگ جائے گا۔ میں نے آپ کو دن میں ایک بار چاکلیٹ کھانے کی اجازت اس لیے دی ہے کہ میں جانتی ہوں آپ بہت سمجھدار ہو۔ اپنے دانتوں کی صفائی کا بہت خیال رکھتے ہو۔
اسی طرح بچہ اگر دیوار پر نقش و نگار بنا کر اسے خراب کر رہا ہو تو ماں اسے یہ مت کہے کہ دیوار پر نقش و نگار بنا کر اسے گندا مت کرو بلکہ یوں کہے: بیٹا! آپ کاغذ پر نقش و نگار بناؤ۔ جب آپ یہ بنا لو گے تو ہم اسے دیوار یا فریج پر سجائیں گے۔
بچے میں دانت صاف کرنے کی عادت ڈالنے کے لیے ماں بچے سے یوں نہ کہے کہ ُاٹھو اور دانت برش کرو، میں تمہیں حکم دے رہی ہوں، بلکہ یوں کہے کہ میں آپ سے خوش ہوں اس لیے کہ آپ ہمیشہ میرے کہے بغیر دانت صاف کر لیتے ہو۔
اسی طرح بچہ اگر کپڑے تبدیل نہیں کر رہا تو ماں اسے یوں کہے کہ بیٹا! جو بچے گندے کپڑے پہنے ہوئے ہوتے ہیں لوگ انہیں اچھا نہیں سمجھتے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہوتے ہیں کہ جب اس نے انہیں اچھے کپڑے دیئے ہیں پھر یہ کیوں استعمال نہیں کرتے۔
بچہ اگر بائیں کروٹ سوتا ہو تو ماں بچے سے یوں نہ کہے کہ بائیں کروٹ مت سویا کرو بلکہ یوں کہے: ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ نے سکھایا ہے کہ ہم دائیں کروٹ سویا کریں۔ اسی طرح اگر بچہ سو نہیں رہا تو سختی سے چیختے چلاتے ہوئے سو جاؤ، جلدی سو جاؤ ورنہ بھوت آجائے گا کہنے کی بجائے اسی کے بستر میں ماں بیٹھ جائے اور اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے پیار سے کہے: بیٹا! اگر آپ جلدی سو جائیں گے تو صبح تازہ دم ہو کر جاگیں گے اور اسکول میں آپ کو نیند بھی نہیں آئے گی اور آپ چاق و چوبند بھی رہیں گے۔ پھر بچے سے پوچھیں: بیٹا! آپ کو نیند کیوں نہیں آ رہی؟ اب بچہ ضرور بتا دے گا کہ امی جان مجھے بھوک لگ رہی ہے یا مچھر کاٹ رہے ہیں یا گرمی لگ رہی ہے وغیرہ۔ پھر ماں وجہ جاننے کے بعد اس کا حل تلاش کرے۔ اس طرح کرنے سے بچے کے دل میں ماں کی محبت بھی بڑھے گی اور وہ آئندہ ماں کی بات فوراً ماننے کی کوشش کرے گا۔ الغرض! ماں پیار اور محبت کا رویہ اختیار کر کے بچے سے ہر بات منوا سکتی ہے۔
جواب: جی ہاں! والدین کو بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق انہیں معاملہ کرنا چاہیے۔ بچوں کی ذہنی سوچ محدود ہوتی ہے اس لیے ان سے بات بھی سادہ انداز میں کرنی چاہیے۔ عموماً والدین بچے سے کوئی بات کرتے ہیں اور اگر بچے نہ سمجھ پائیں تو ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں یہ طریقہ درست نہیں۔ بچوں کو سمجھ نہ آنے پر مشفقانہ انداز، آسان الفاظ میں اور ان کی ذہنی سطح کے مطابق بات کرنی چاہیے۔ کسی بھی فرد کی ذہنی سطح کے مطابق بات کرنا حضور نبی اکرم ﷺ کی حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أُمِرْتُ أَنْ نُکَلِّمَ النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ.
دیلمي، مسند الفردوس، 1: 398، رقم: 1611
غزالي، إحیاء علوم الدین، 1: 99
مقدسي، الآداب الشرعیۃ، 2: 149
سخاوي، المقاصد الحسنۃ، 1: 164، رقم: 180
مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم (انبیاء کرام علیہم السلام ) لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کیا کریں۔
جواب: جھوٹ بچے کی فطرت و جبلت میں شامل نہیں ہے۔ جھوٹ کا سبب بچے کی بچپن کی غلط اور ناقص تربیت ہے۔ کوئی بھی بچہ پیدائشی طور پر جھوٹا نہیں ہوتا، بلکہ وہ اس دنیا میں ارد گرد کے ماحول سے اثر قبول کر کے جھوٹ بولنا سیکھتا ہے۔ والدین بچے کو معصوم سمجھ کر یا یہ خیال کر کے کہ اسے جھوٹ، سچ کی تمیز نہیں ہے، اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ آہستہ آہستہ جھوٹ بولنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ بچے میں جھوٹ بولنے کی عادت کا سب سے بڑا سبب اس کے والدین، بڑے بہن بھائی یا قریبی رشتہ داروں کا اس کے سامنے بڑی بے تکلفی سے جھوٹ بولنا ہے۔ مثلاً گھر میں والد صاحب سے کوئی شخص ملنے آتا ہے اور والد صاحب اس سے ملنا نہیں چاہتے۔ لہٰذا وہ بچے سے کہتے ہیں: جاؤ اُنہیں کہہ دو کہ والد صاحب گھر پر نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں والد نے بچے میں جھوٹ بولنے کی عادت کی بنیاد رکھ دی۔
اِسی طرح اگر پڑوسن کوئی چیز مانگنے آتی ہے اور بچوں کی والدہ اسے وہ چیز نہیںدینا چاہتی، اس کی کئی معقول وجوہ ہو سکتی ہیں۔ لیکن صاف انکار کرنے کی بجائے وہ چیز کہیں چھپا دیتی ہیں اور پڑوسن سے بچوں کے سامنے جھوٹ بولتی ہیں کہ یہ چیز تو ہمارے گھر میں موجود نہیں۔ اب بچہ جب یہ دیکھتا ہے کہ دوسروں کو جھوٹی بات پر آسانی سے یقین آجاتا ہے تو وہ بھی اپنی بعض مشکلات اور مسائل کا حل جھوٹ بولنے میں ڈھونڈنے لگتا ہے۔ مثلاً کسی دن وہ اسکول نہیں جانا چاہتا تو وہ جھوٹا بہانا تراش لیتا ہے کہ میرے سر میں درد ہے یا کسی اور تکلیف کا کہہ دیتا ہے۔
بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ ماں کے ہاتھ سے کوئی قیمتی چیز ٹوٹ جاتی ہے اور وہ خاوند کے غصے سے بچنے کے لیے کہہ دیتی ہے کہ بلی نے یہ چیز توڑ دی ہے۔ بچہ جب ماں کو جھوٹ بولتے دیکھتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح جھوٹ بولنا کار آمد ہے۔ اسی طرح بعض اوقات بچے کو بہلانے پھسلانے کے لیے کسی چیز کا لالچ دیا جاتا ہے لیکن وہ چیز اسے نہیں دی جاتی بلکہ مقصد وقت ٹالنا یا بچے کو چپ کرانا یا اس سے کوئی کام لینا ہوتا ہے۔ یہ بات بھی بچے کے دل میں جھوٹ کی طرف رغبت پیدا کرتی ہے۔
گھر میں ایک دوسرے کے جرم کو چھپانے کے لیے بھی بچوں کے سامنے جھوٹ بولا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں بچے اپنے ساتھیوں کے جرم چھپانے کے لیے جھوٹ بولنے لگتے ہیں۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بچے سخت سزا اور لالچ کے باوجود اپنے ساتھیوں کے خلاف گواہی دینے سے انکار کر دیتے ہیں بلکہ بسا اوقات ان کی حمایت میں بے دریغ جھوٹ بھی بولتے ہیں۔
الغرض! اسی طرح کے بے شمار اسباب ہیں جو بچوں کو جھوٹ بولنے پر اُبھارتے ہیں۔ مثلاً بعض اوقات بچوں پر بہت زیادہ سختی کی جاتی ہے، اکثر ڈانٹ ڈپٹ اور مارپیٹ بھی کی جاتی ہے ایسی صورت میں بچے سے جب کوئی غلطی سرزد ہو جاتا ہے تو وہ سزا کے خوف سے اپنی غلطی ماننے سے صاف انکار کر دیتا ہے یا کوئی ایسا جھوٹ تراش لیتا ہے جس پر سامنے والے شخص کو یقین آجاتا ہے۔ اسی طرح گھر میں کسی شخص کو باتیں بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کی عادت ہو تو بچہ اس کا اثر بھی قبول کرے گا اور دوسروں کے سامنے ایسی مبالغہ آمیزی سے کام لے گا جو صاف جھوٹ پر مبنی ہو گی۔ یوں بچے کی تربیت میں بنیاد جب جھوٹ پر ہو گی تو جھوٹ بول بول کر بچے کا حوصلہ بڑھے گا اور اگر کبھی کبھار جھوٹ کی قلعی کھل جائے تو وہ جھوٹ بولنے میں اتنی مہارت حاصل کر چکا ہوتا ہے کہ زیادہ فراست اور دور اندیشی سے کام لینے لگتا ہے۔ اسی لئے اسلام میں سب سے بُری خصلت جھوٹ کو قرار دیا گیا ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی جھوٹ کی قباحت و مذمت کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ مذاق میں بھی جھوٹ بولنے کی ممانعت آئی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے بچوں سے مصلحتاً یا مذاقاً جھوٹ بولنے سے بھی منع فرمایا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَالَ لِصَبِيٍّ: تَعَالَ هَاکَ؛ ثُمَّ لَمْ یُعْطِهٖ فَھِيَ کِذْبَةٌ.
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 452، رقم: 9835
ھیثمی، مجمع الزوائد، 1: 142
جس شخص نے بچے سے کہا: ’آجاؤ، میں تمہیں یہ چیز دوں گا‘ اور پھر اسے کچھ نہ دیا تو یہ بھی جھوٹ ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أَتَانَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي بَیْتِنَا، وَأَنَا صَبِيٌّ. قَالَ: فَذَهَبْتُ أَخْرُجُ لِأَلْعَبَ. فَقَالَتْ أُمِّي: یَا عَبْدَ اللهِ، تَعَالَ أُعْطِکَ. فَقَالَ لَهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: وَمَا أَرَدْتِ أَنْ تُعْطِیَهٗ؟ قَالَتْ: أُعْطِیْهِ تَمْرًا. قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَمَا إِنَّکِ لَوْ لَمْ تَفْعَلِي کُتِبَتْ عَلَیْکِ کَذْبَةٌ.
أحمد بن حنبل، المسند، 3: 447، رقم: 15740
أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في التشدید في الکذب، 4: 298، رقم: 4991
ابن أبي شیبۃ، المصنف، 5: 236، رقم: 25609
بیھقی، السنن الکبری، 10: 198، رقم: 20628
میرے بچپن میں ایک روز حضور نبی اکرم ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے۔ حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں کھیلنے کے لیے گھر سے باہر جانے لگا تو میری والدہ نے مجھے بلاتے ہوئے کہا: ادھر آؤ، میں تمہیں کچھ دیتی ہوں۔ یہ سن کر حضور نبی اکرم ﷺ نے میری والدہ سے فرمایا: تم اسے کیا دینا چاہتی ہو؟ اُنہوں نے عرض کیا: میں اِسے کھجور دوں گی۔ حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم اُسے کچھ نہ دیتیں تو تمہارے نامہ اعمال میں ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔
جواب: جھوٹ بولنا ایسی عادت ہے جسے ہر مذہب اور معاشرے میں برا سمجھا جاتا ہے۔ اسلام نے جھوٹ کو نہایت ہی گھناؤنا فعل بلکہ ہر برائی کی جڑ قرار دیا ہے اور ہر حال میں اس سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ بچے میں جھوٹ بولنے کی عادت کے ذمہ دار بڑی حد تک والدین اور دیگر اہل خانہ ہوتے ہیں اور یہ عادت چھڑانے کی ذمہ داری بھی والدین اور گھر کے باقی افراد پر عائد ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ گھر کا ماحول جھوٹ سے پاک رکھا جائے۔ بڑوں کی کسی بات یا کسی عمل میں جھوٹ کا شائبہ تک نہ ہو۔ کسی واقعہ یا بات کو دلچسپ بنانے کے لیے اس میں ذرا بھی رنگ آمیزی نہ ہو۔ بچہ اگر جھوٹ بولتا ہے تو اس کے جھوٹ بولنے کے اسباب کا پتا لگایا جائے، نفسیاتی تجزیہ کیا جائے اور اسباب کی تشخیص کے بعد حسب حال تدبیر کی جائے۔
بچے کے دل میں یہ یقین پیدا کیا جائے کہ وہ ہر حال میں سچ بولے گا تو اسے کوئی سزا نہیں ملے گی۔ یہ یقین پیدا کرنے کے لیے اپنے مزاج میں تحمل اور ضبط پیدا کرنا ہو گا۔ اگر بچہ جرم کا اعتراف کر لے تو اسے سزا نہ دی جائے کیونکہ اعترافِ جرم ہی اصلاح کا آغاز ہے۔ نیز ایسے موقع پر ڈانٹ ڈپٹ نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ بچے کو جب اعتماد اور تعاون ملے گا تو وہ آئندہ جھوٹ بولنا چھوڑ دے گا۔
نیز والدین کو چاہیے کہ بچوں کو قرآنی تعلیمات اور حضور نبی اکرم ﷺ کی اخلاق سنوارنے والی پیاری پیاری باتیں بتائیں اور ہر معاملے میں سچ بولنے کے لیے رہنمائی فراہم کریں۔ بچوں کو ایسے اسلامی واقعات سنانے کا معمول بنا لیں جن سے ان کو جھوٹ سے نفرت اور سچ بولنے کی ترغیب ملے تاکہ وہ زندگی میں ہمیشہ سچ کا دامن تھامے رکھیں اور جھوٹ سے ہر ممکن اجتناب کریں۔ بچوں کو ان قرآنی آیات سے آگاہ کیا جائے جن میں جھوٹ کی مذمت اور سچ بولنے کی ترغیب ملتی ہے۔
جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّ اللهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌo
المؤمن، 40: 28
بے شک اللہ اسے ہدایت نہیں دیتا جو حدسے گزرنے والا سراسر جھوٹا ہو۔
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo
البقرۃ، 2: 42
اور حق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو اور نہ ہی حق کو جان بوجھ کر چھپائو۔
وَیْلٌ لِّکُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍo
الجاثیۃ، 45: 7
ہر بہتان تراشنے والے کذّاب (اور) بڑے سیاہ کار کے لیے ہلاکت ہے۔
اسی طرح احادیث مبارکہ سچ بولنے کے ضمن میں بچوں کی تربیت میں بہترین معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔مثلاً:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الصِّدْقَ یَهْدِي إِلَی الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ یَهْدِي إِلَی الْجَنَّۃِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَصْدُقُ حَتّٰی یَکُوْنَ صِدِّیْقًا. وَإِنَّ الْکَذِبَ یَهْدِي إِلَی الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُوْرَ یَهْدِي إِلَی النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَکْذِبُ، حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللهِ کَذَّابًا.
بخاري، الصحیح، کتاب الأدب، باب قول اللہ تعالی: {یا أیھا
الذین آمنو اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقین}، 5: 2261، رقم: 5743
مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب قبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ، 4: 2013،
رقم: 2607
أحمد بن حنبل، المسند، 1: 432، رقم: 4108
أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في التشدید في الکذب، 4: 297، رقم: 4989
ترمذی، السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في الصدق والکذب، 4: 347، رقم: 1971
بیشک سچائی، بھلائی کی طرف لے جاتی ہے اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے، آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ صدیق ہو جاتا ہے اور جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم میں لے جاتے ہیں اور آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہحضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَرَکَ الْکَذِبَ، وَهُوَ بَاطِلٌ، بُنِيَ لَهٗ فِي رَبَضِ الْجَنَّۃ.
ترمذي، السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في المراء، 4:
358، رقم: 1993
ابن ماجہ، السنن، المقدمۃ، باب اجتناب البدع والجدل، 1: 19، رقم: 51
جو شخص جھوٹ کو باطل سمجھ کر ترک کرے گا اُس کے لیے جنت کے اطراف میں محل تیار کیا جائے گا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا کَذَبَ الْعَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْهُ الْمَلَکُ مِیْلًا، مِنْ نَتْنِ مَا جَائَ بِهٖ.
ترمذي، السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في الصدق والکذب،
4: 348، رقم: 1972
طبراني، المعجم الأوسط، 7: 245، رقم: 1972
جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتے اس کی بُو کی وجہ سے اس آدمی سے ایک میل دور چلے جاتے ہیں۔
جواب: ابتدائی عمر میں بچے میں چوری کا جذبہ نہیں ہوتا، کیونکہ چھوٹا بچہ ایک سفید کاغذ کی مانند ہوتا ہے، جو کچھ اس پر تحریر کیا جائے وہی ثبت ہو جاتا ہے۔ اُس پر جس چیز کا عکس ڈالا جائے اُسی کا اثر قبول کرتا ہے۔
چھوٹے بچوں میں چوری کی عادت کے درج ذیل اسباب ہو سکتے ہیں:
1۔ بچہ ہمسائے یا کسی رشتہ دار کے گھر جائے اور اُسے وہاں کوئی چیز پسند آجائے تو اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کسی طرح اس چیز کو حاصل کر لیا جائے۔ چنانچہ وہ دوسروں کی نظروں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے اس چیز کو چھپا کر اپنے گھر لے آتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کی ایسی حرکتوں کا کوئی نوٹس نہیں لیتے بلکہ بعض مائیں تو بچے کی ایسی حرکات کا برا بھی نہیں مناتیں، اس سے بچے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
2۔ اکثر اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ بچے اپنے ہم عمر ساتھی کا خوبصورت کھلونا چھین کر اسے واپس کرنے سے صاف انکار کر دیتے ہیں۔ کسی چیز سے ایسا جذباتی تعلق بھی اُس چیز کی چوری کا محرک بن جاتا ہے۔
3۔ بعض اوقات غربت و افلاس کے باعث والدین بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرنے سے قاصر ہوتے ہیں تو اس سے بھی بچوں کے اندر احساسِ محرومی جنم لیتا ہے اور وہ اپنی پسندیدہ چیز یا کھلونے کو حاصل کرنے کے لیے چوری کرتے ہیں۔
4۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں بچوں کی نگرانی نہ کی جانے کی صورت میں بھی بچوں میں چوری کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً ایک گھر میں دو خاندان ہیں۔ کسی ایک بچے کے پاس کوئی اچھا کھلونا آجائے تو دوسرا بچہ خاموشی سے اس کو چرا کر چھپائے گا۔ اسی طرح کوئی کھانے کی چیز ایک بچے کو مل گئی اور دوسرے کو نہیں ملی تو دوسرا کسی طریقے سے اسے چپکے سے اُٹھانے کی کوشش کرے گا۔ یہاں سے چوری کی ابتداء ہوتی ہے۔
جواب: چوری کرنا ایسا فعل ہے جسے کسی بھی معاشرے میں پسند نہیں کیا جاتا۔ بچے میں اگر چوری کی عادت پڑ جائے تو والدین ابتدائی مواقع پر اصل محرکات سے آگہی حاصل کر کے اس عادت کا انسداد کر سکتے ہیں۔
والدین کا فرض ہے کہ اگر بچے کو چوری کی عادت پڑ جائے تو اس کو ختم کرنے کے لیے بچے پر کڑی نظر رکھیں۔ بچے کے پاس اگر کوئی ایسی چیز نظر آئے جس کے بارے میں علم نہ ہو کہ یہ چیز بچے کے پاس کہاں سے آئی ہے تو اس کے بارے میں اپنی ذمہ داری محسوس کر کے فوراً بچے سے پوچھیں کہ یہ چیز کہاں سے لی ہے؟ اور پوری تسلی کی جائے کہ بچہ جھوٹ تو نہیں بول رہا۔ اگر غلطی سے بچہ کسی کی چیز اُٹھا کر گھر لے آیا ہو تو اس سے ہرگز چشم پوشی نہ کی جائے اور سختی کے ساتھ بچے سے اس کو واپس کروایا جائے۔
بچے کی چوری کی عادت ختم کرنے میں والدہ بہترین کردار ادا کر سکتی ہے۔ والدہ کو چاہیے کہ وہ بچے کو صبر اور قناعت کرنا سکھائے۔ دوسرے بچوں کی چیزیں دیکھ کر بچے میں اُن کے حصول کے لیے جو لالچ پیدا ہوتا ہے اس کو ختم کرنے کے لیے اچھے طریقے سے تربیت کر کے بچے میں محرومی کا احساس پیدا نہ ہونے دے۔ جب ماں بچے کی اچھی تربیت کرے گی تو وہ کبھی بھی کسی چیز کے حصول کے لیے چوری جیسا غلط طریقہ اختیار نہیں کرے گا۔
والدین کو چاہیے کہ وہ بچے کی حرکات پر نگاہ رکھیں۔ اُسے اچھائی اور برائی کے درمیان تمیز کرنے کا شعور دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا خوف اس کے دل میں بٹھایا جائے۔ چوری کے برے انجام سے ڈرایا جائے تو یقینا بچے میں چوری کی عادت ختم ہو سکتی ہے۔
نیز والدین بچوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کروائیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ چوری کرنا بُرا فعل ہے اور چوری کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔
ذیل میں آیت و احادیث بیان کی جاتی ہیں جو بچوں میں چوری کی عادت ختم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں:
قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیْھُمَا.
المائدة، 5: 38
اور چوری کرنے والا (مرد) اور چوری کرنے والی (عورت) سو (تمام تر ضروری عدالتی کارروائی کے بعد) دونوں کے ہاتھ کاٹ دو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَعَنَ اللہُ السَّارِقَ.
بخاري، الصحیح، کتاب الحدود، باب لعن السارق إذا لم یسم، 6:
2489، رقم: 6401
مسلم، الصحیح، کتاب الحدود، باب حد السرقۃ ونصابھا، 3: 1314، رقم: 1687
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 253، رقم: 7430
ابن ماجہ، السنن، کتاب الحدود، باب حد السارق، 2: 862، رقم: 2583
اللہ تعالیٰ نے چوری کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا یَسْرِقُ السَّارِقُ حِیْنَ یَسْرِقُ وَھُوَ مُؤْمِنٌ.
بخاري، الصحیح، کتاب الأشربۃ، 5: 2120، رقم: 5256
مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان نقصان الإیمان بالمعاصي، 1: 76، رقم: 57
ترمذي، السنن، کتاب الإیمان، باب ما جاء لا یزني الزاني وھو مؤمن، 5: 15، رقم: 2625
ابن ماجہ، السنن، کتاب الفتن، باب النھي عن النھبۃ، 2: 1298، رقم: 3936
مسلمان جب چوری کرتا ہے تو اس کے اندرایمان باقی نہیں رہتا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved