جواب: عمر کے ساتھ بچے کے جسم کی مختلف پیمائشوں سے بڑھنے کے عمل اور مجموعی طور پر بچے کی مختلف کام کرنے کی صلاحیت میں اضافے کو جسمانی نشو و نما کہتے ہیں۔ مثلاً وزن، قد کا بڑھنا، کھانا پینا، چلنا پھرنا، پڑھنا لکھنا وغیرہ۔
بچے کی جسمانی نشو و نما ایک ارتقائی عمل ہے جو پیدائش سے جوانی کے دور تک مسلسل جاری رہتا ہے۔ اس لیے بچوں کی جسمانی نشو و نما کے لیے ایسا غذائی پروگرام ترتیب دینا چاہیے، جو درج ذیل بنیادی سات غذائی اجزاء پر مشتمل ہو:
1۔ پروٹین (proteins)
2۔ چکنائی (fats)
3۔ نشاستہ (starch)
4۔ نمکیات (salts)
5۔ وٹامنز (vitamins)
6۔ فائبر (fibre)
7۔ پانی (water)
یہ غذائی پروگرام بچوں کے جسم اور ذہن کی ضروریات کو نہ صرف پورا کرتا ہے بلکہ انہیں متوازن صحت دینے میں بھی معاون و مددگار ہے۔
جواب: متوازن غذا سے مراد وہ خوراک ہے جس میں تمام غذائی اجزاء مثلاً پروٹین، چکنائی، کاربو ہائیڈریٹ، وٹامن، نمکیات اور پانی وغیرہ مناسب مقدار میں موجود ہوں، جو انسانی صحت کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوں اور جسم میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کریں۔ جس کی بنا پر بچہ صحت و تندرستی سے اپنے روز مرہ کے معمولات خوش اسلوبی سے سر انجام دے سکے۔
متوازن غذا درج ذیل بنیادی غذائی زمروں پر مشتمل ہے۔
1۔ روٹی اور اناج ہماری خوراک کا سب سے اہم جزو ہے۔ اگر روٹی اور اناج کی مناسب مقدار غذا میں شامل نہ ہو تو غذائی اجزاء کی قلت ہو جاتی ہے۔
2۔ ترکاریاں، سبزیاں اور پھل قدرتی غذائیں ہیں جن میں وہ تمام حیاتین و معدنیات موجود ہوتی ہیں جو جسم کی نشو و نما اور افعال کے لیے ضروری ہیں۔
3۔ دودھ، دہی اور پنیر کی مناسب مقدار خوراک کا اہم حصہ ہے مگر کم چکنائی دار ہو۔
4۔ گوشت، مرغی، مچھلی، انڈے اور دالیں متوازن غذا کا اہم حصہ ہیں اور روزانہ کھانے میں ان کی مناسب مقدار کا شامل ہونا ضروری ہے۔
جواب: 2 تا 4 سال کی عمر کے بچوں کے کھانے کی روٹین درج ذیل ہونی چاہیے:
بچوں کو صبح اچھی طرح ناشتہ کروانا چاہیے۔ آٹے کی روٹی، چکن، مچھلی، قیمہ، کباب، دودھ، دہی، انڈے، سبزی، سلاد اور پھل وغیرہ میں سے کسی بھی چیز کا ناشتہ کروانا چاہیے۔ 10 سے 11 بجے پھلوں کا جوس دینا چاہیے۔
ظہر کے وقت گوشت، روٹی، سبزی وغیرہ دی جائے اور دوپہر کے کھانے کی مقدار ناشتے سے کم ہو۔
عصر اور مغرب کے درمیان پھل، بسکٹ یا چائے میں سے کوئی بھی چیز دی جائے۔
رات کو دال روٹی اور سوتے وقت دودھ کا ایک گلاس دیا جائے اس کے علاوہ بچوں کی خوراک میں گھریلو پنیر، اُبلے ہوئے آلو، سبزیوں یا مرغی کا سوپ بھی دیا جاسکتا ہے۔ حراروں کی مقدار بچوں کی خوراک میں متعین ہو۔ نیز غذا میں شدید نظم و ضبط کی بجائے بچوں کی پسند کا بھی خیال رکھا جائے۔
جواب: ناشتہ بچوں کی غذائی عادات میں لازمی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے بچے سارا دن ذہنی اور جسمانی طور پر چاق و چوبند رہتے ہیں۔ ماہرین صحت و تعلیم اس بات سے متفق ہیں کہ ناشتہ کر کے اسکول جانے والے بچے بغیر ناشتہ کیے اسکول جانے والے بچوں کی نسبت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بچوں کو ناشتے میں رغبت دلانے کے لیے چند مؤثر طریقے درج ذیل ہیں:
بچوں کو ناشتے میں ہلکی پھلکی غذا مثلاً تازہ پھل، دودھ یا جوس وغیرہ فراہم کیے جائیں کیونکہ بچے زیادہ شوق سے یہی چیزیں کھاتے ہیں۔ ناشتے میں زیادہ چکنائی والی غذا دینے سے پرہیز کیا جائے کیونکہ اس سے بچوں میں سستی پیدا ہوتی ہے۔
بچوں کو ناشتہ دینے میں ان کی پسند کا خیال رکھا جائے۔ اگر آپ بچے کو پھل دینا چاہ رہے ہیں تو بچے کی پسند بھی پوچھ لی جائے اسی طرح اگر بچہ سادہ دودھ پینا پسند نہیں کرتا تو اسے رغبت دلانے کے لیے دودھ میں کوئی شربت وغیرہ ملایا جا سکتا ہے۔
بچے اگر صرف اپنی پسند کا ناشتہ کرنے کا معمول بنا لیں تو ان کی پسند میں خاطر خواہ تبدیلی ضرور لائی جائے۔ جن ضروری چیزوں کو کھانے میں دلچسپی ظاہر نہ کریں انہیں ان چیزوں کے فوائد سے ضرور آگاہی دی جائے تاکہ تمام چیزیں کھانے کا انہیں عادی بنایا جاسکے۔
بچوں کو صحت کی اہمیت کا شعور دیا جائے کہ ناشتے کے بغیر وہ صحت مند نہیں رہ سکتے۔ ناشتہ کرنے سے وہ جلدی بڑے ہوجائیں گے، ان کی ہڈیاں مضبوط ہوں گی اور اسکول کا کام بھی وہ بغیر تھکے اور جلدی مکمل کرلیں گے۔
بچوں کے ناشتے کا ہفتہ وار شیڈول بنا کر دیوار پر لٹکایا جائے اور بچوں کے کھانے کی چیزوں کے سامنے ان کی تصویریں اور صحت مند کارٹون وغیرہ لگا دئیے جائیں تاکہ انہیں کھانے میں رغبت ہو۔
بچوں کو ناشتے میں رغبت دلانے کے لیے کچن کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں بچوں سے مدد لی جائے مثلاً اپنے ساتھ بچوں کو بریڈ کے سلائس کاٹنے کو کہا جائے۔ انہیں کہا جائے کہ اپنا سلائس خود تیار کر کے کھائیں۔ اس سے ان میں اپنے ہاتھ سے کام کرنے اور کھانے کی رغبت بڑھے گی۔
والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کرے۔ اس سے بچوں میں والدین کی شفقت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور والدین کو ناشتہ کرتے دیکھ کر ان میں ناشتہ کرنے کی رغبت اور سلیقہ شعاری پیدا ہوتی ہے۔
جواب: جی ہاں! پھل بچوں کی غذائی عادات کا لازمی حصہ ہونے چاہئیں۔ کیونکہ پھل قدرت کی عطا کردہ خاص نعمت ہے۔ بڑھتے ہوئے بچوں کی غذائی ضرورت پوری کرنے کے لیے پھل ایندھن کا کام کرتے ہیں، کیونکہ پھلوں میں موجود وٹامنز، پروٹین فوری توانائی اور مضبوط صحت کی ضمانت ہیں۔ لہٰذا بچوں کی خوراک میں ابتداء ہی سے پھلوں کو شامل کرنا چاہیے۔ والدین خاص طور پر والدہ کو پھلوں کی افادیت اور نیوٹریشن سے متعلق وقتاً فوقتاً آگہی حاصل کرتے رہنا چاہیے۔
بچوں کو پھل کھلانے کے اہم فوائد درج ذیل ہیں:
1۔ پھلوں میں ایسے اہم غذائی عناصر ہوتے ہیں جو بچوں کو توانائی فراہم کر کے بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بڑھاتے ہیں۔
2۔ پھلوں میں گاجر کا جوس بچوں کی بینائی کی حفاظت کے لیے بہت ضروری ہے۔
3۔ تازہ پھل اور جوس بچوں کا I-Q Leavel بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
4۔ اگر بچوں کی غذائی عادات میں روزانہ دو سے تین پھل شامل ہوں تو اس معمول سے نہ صرف بچوں کو توانائی ملتی ہے بلکہ یہ سکول جانے والے بچوں کی بہتر اور کامیاب ذہنی نشو و نما کے لیے بھی نہایت ضروری ہے۔
الغرض پھل ہر لحاظ سے مثبت اثرات کے حامل ہوتے ہیں اور بچوں کو کم از کم دن میں تین مرتبہ پھل ضرور دینا چاہیے۔ بچے بہت حساس اور کمزور ہوتے ہیں اور ان کی اس حساس طبیعت کو نارمل، تندرست اور باوقار شخصیت بنانے میں تازہ پھل اور جوس بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نیز اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ بچوں کو دیے جانے والے پھل معیاری اور اچھی طرح صاف کیے گئے ہوں۔
جواب: جنک فوڈ (junk food) سے مراد ایسا کھانا ہے جو کم غذائی معیار کا حامل ہو۔اس میں وہ تمام مضرِ صحت اجزا شامل ہیں جن میں شکر، نمک، چکنائی یا کیلوریز حرارے زیادہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ زیادہ نمک یا زیادہ گھی میں بنی ہوئی چیزیں، کینڈی، چیونگم، تلی ہوئی فاسٹ فوڈ اور کاربونیٹڈ مشروبات سب جنک فوڈ (junk food) میں شامل ہیں۔
جواب: جنک فوڈ (junk food) بہت کم غذائیت مثلاً پروٹین، معدنیات اور وٹامن فراہم کرتی ہے دراصل جنک فوڈ (junk food) میں مصنوعی ذائقہ ڈال کر اسے مزیدار بنا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بچے اسے زیادہ سے زیادہ کھانا چاہتے ہیں جبکہ اس میں Saturated fat موجود ہوتی ہے جو نہ صرف خراب کولیسٹرول بڑھاتی ہے بلکہ اچھے کولیسٹرول کو بھی کم کرتی ہے۔ بچپن میں بے تحاشہ Saturated fat کا استعمال امراض قلب اور دیگر بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔
جنک فوڈ (junk food) سے طبیعت اس قدر سیر ہو جاتی ہے کہ کچھ اور کھانے کو دل نہیں چاہتا۔ جب جنک فوڈ (junk food) روز مرہ زندگی کا حصہ بن جائے تو یہ غذائی صحت میں مداخلت کرتی ہے۔ جیسے بچے چپس، چاکلیٹ، برگر اور بوتلیں پسند کرتے ہیں اگرچہ برگر اور چپس پروٹین فراہم کرتے ہیں مگر ان میں وٹامن اے اور ریشہ بہت کم ہوتا ہے اس کے برعکس ان میں سوڈیم اور حرارے زیادہ ہوتے ہیں جو مضرِ صحت ہیں۔اس طرح بہت سے کاربونیٹڈ مشروبات بھی صحت کے لیے مضر ہوتے ہیں کیونکہ ان میں فاسفورس ہوتا ہے۔ فاسفورس کی زیادہ مقدار جسم میں کیلشیم اور آئرن کے ضیاع کا باعث بنتی ہے۔ بچیاں اگر مشروبات کا کثرت سے استعمال کریں تو ان میں آسٹیو پورسس یعنی (ہڈیوں کی خستگی) ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ بہت سے سافٹ ڈرنکس میں ذائقے کو اُبھارنے کے لیے caffeine کی بہت زیادہ مقدار شامل کی جاتی ہے جس سے نیند کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور سستی لاحق ہو جاتی ہے۔
جنک فوڈ (junk food) کے زیادہ استعمال سے بچوں میں ہائی بلڈ پریشر، شوگر، بڑھا ہوا کولیسٹرول اور ایسی ہی دیگر خطرناک بیماریوں کا خدشہ رہتا ہے۔
جواب: بچوں کی کامل صحت و تندرستی اور متعدد اَمراضِ دنداں و معدہ وغیرہ سے بچاؤ کے لیے صبح و شام دانت صاف کرنا ضروری ہے۔ اس سے جہاں طہارت و نظافت حاصل ہوتی ہے وہاں دانت بھی مضبوط ہوتے ہیں۔ احادیث مبارکہ میں مسواک (دانت صاف کرنے) کی افادیت اور اہمیت پر بہت زیادہ ترغیب ملتی ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتی ہیں:
اَلسِّوَاکُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ، مَرْضَاةُ لِلرَّبِّ.
بخاری، الصحیح، کتاب الصوم، باب السواک الرطب والیابس للصائم،
2: 682 (ترجمة الباب)
أحمد بن حنبل، المسند، 6: 47، رقم: 24249
نسائي، السنن، کتاب الطهارة، باب الترغیب في السواک، 1: 10، رقم: 5
ابن ماجہ، السنن، کتاب الطهارة وسنتھا، باب السواک، 1: 106، رقم: 289
ابن أبي شیبہ، المصنف، 1: 156، رقم: 1792
طبرانی، المعجم الاوسط، 1: 91، رقم: 276
مسواک منہ کو صاف کرنے والی اور رب کو راضی کرنے والی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰی أُمَّتِي، أَوْ عَلَی النَّاسِ، لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاکِ مَعَ کُلِّ صَلَاةٍ.
بخاری، الصحیح، کتاب الجمعہ، باب السواک یوم الجمعۃ، 1: 303،
رقم: 847
مسلم، الصحیح، کتاب الطھارۃ، باب السواک، 1: 220، رقم: 252
أحمد بن حنبل، المسند، 4: 114، 116، رقم: 17073، 17089
أبو داؤد، السنن، کتاب الطھارۃ، باب السواک، 1: 12، رقم: 46
ترمذی، السنن، کتاب ابواب الطہارۃ، باب ماجاء في السواک، 1: 34، رقم: 22
ابن ماجہ، السنن، کتاب الطھارۃ وسنتھا، باب السواک، 1: 105، رقم: 287
اگر میں اپنی اُمت کے لیے مشقت نہ سمجھتا یا فرمایا: اگر میں لوگوں کے لیے مشقت شمار نہ کرتا تو میں انہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا۔
شریعت کا کوئی بھی حکم حکمت سے خالی نہیں۔ مسواک کی اس قدر ترغیب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں بہت زیادہ فوائد مضمر ہیں۔ لہٰذا بچوں کو صبح و شام مسواک (دانت صاف کرنے) کی پابندی کروانی چاہیے تاکہ بچے متعدد امراض سے محفوظ رہیں۔
جواب: مناسب نیند اور آرام بچوں کی نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی نشو و نماکے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ اگر بچے کی مناسب نیند اور آرام میں کمی ہو تو اس کی جسمانی و ذہنی نشو و نما متاثر ہوتی ہے۔ معدہ اور دماغ کمزور ہونے لگتا ہے۔ اعضاء اور اعصاب میں تناؤ کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچے کو بھرپور اور آرام دہ نیند دی جائے۔ اگر بچہ کسی بھی وجہ سے بھرپور نیند نہیں لے رہا یا نیند کے درمیان بار بار جاگ جاتا ہے تو بچے کی اس کیفیت کے اسباب و محرکات تلاش کر کے انہیں دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سونا اور آرام کرنا انسانی جسم کا حق ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما ہمہ وقت عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کو معلوم ہوا تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا:
یَا عَبْدَ اللهِ، أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّکَ تَصُوْمُ النَّهَارَ وَتَقُومُ اللَّیْلَ؟
اے عبد اللہ! مجھے بتایا گیا ہے کہ تم دن کو روزے رکھتے اور رات کو قیام کرتے ہو؟
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے عرض کیا: جی، یا رسول اللہ! ایسا ہی ہے۔ اِس پر آپ ﷺ نے انہیں ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:
فَـلَا تَفْعَلْ، صُمْ وَأَفْطِرْ، وَقُمْ وَنَمْ، فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقًّا، وَإِنَّ لِعَیْنِکَ عَلَیْکَ حَقًّا.
بخاری، الصحیح، کتاب الصوم، باب حق الجسم في الصوم، 2: 697،
رقم: 1874
مسلم، الصحیح، کتاب الصیام، باب النھي عن صوم الدھر لمن تضرر بہ أو فوت …، 2: 817،
رقم: 1159
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 194، رقم: 6832
نسائی، السنن الکبری، 2: 176، رقم: 2923
ایسا نہ کرو، بلکہ روزے رکھو اور چھوڑ بھی دیا کرو۔ قیام کرو اور سویا بھی کرو کیونکہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے۔
اِس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ سونا اور آرام کرنا ایک دینی امر ہے۔ انسان کے جسم اور آنکھ کا یہ حق ہے کہ اس کو آرام پہنچایا جائے۔
جواب: بچہ درج ذیل وجوہات کی بنا پر مناسب نیند نہیں لے پاتا:
1۔ بچے کی پرسکون نیند نہ لینے کی وجہ اس کے بستر کا گیلا ہونابھی ہو سکتا ہے اگر ماں بچے کو روتا دیکھے تو اس کا بستر چیک کرے۔ اگر وہ خراب یا گیلا ہو تو فوراً اُس پر صاف اور خشک بچھونا بچھا دے۔
2۔ بچے کی گہری اور اطمینان بخش نیند نہ لینے کی ایک وجہ بچے کو بھوک یا پیاس کا لگنا ہو سکتا ہے، بچے کو سلانے سے پہلے ماں کو اس کے لیے مناسب غذا کا اہتمام کرنا چاہیے۔
3۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بچہ جس کمرے میں سو رہا ہو اُس کا ماحول اور درجہ حرارت بچے کے لیے آرام دہ نہ ہو، ممکن ہے موسم کی مناسبت سے زیادہ گرم یا زیادہ سرد ہو۔ لہٰذا کمرے کے درجہ حرارت کو موسم کے مطابق آرام دہ بنایا جائے۔
4۔ بچے کے بار بار جاگنے کی وجہ بلند آواز اور شور و ہنگامہ بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا بچے کو پرسکون اور خاموشی والی جگہ پر سلانا چاہیے۔
جواب: ہر بچے کو بچپن میں کسی نہ کسی بیماری سے ضرور واسطہ پڑتا ہے۔ بیمار ہونے کی صورت میں بچہ جن تجربات سے دو چار ہوتا ہے وہ اس کی سمجھ سے بالا تر ہوتے ہیں۔ یہ صورت حال بچے اور والدین دونوں کے لئے تکلیف دہ اور پریشان کن ہوتی ہے۔ بچہ اسے برداشت نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی کو اپنی بیماری کا مطلب سمجھا سکتاہے اور وہ خوفزدہ ہو جاتا ہے۔
اس صورت حال میں والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ فوری کسی اچھے ماہر امراض اطفال سے رجوع کریں اور بچے کودلاسہ اور یقین دلائیں کہ انہیں اس کی تکلیف کا احساس ہے ان شاء اللہ اُسے جلد افاقہ ہو جائے گا۔ اس سے بچے کے لیے تکلیف کو برداشت کرنا آسان ہو جائے گا اور اسے یہ اطمینان ہو جائے گا کہ تکلیف کی حالت میں اس کی دیکھ بھال کرنے والے اس کے آس پاس موجود ہیں۔
والدین بیماریوں کے متعلق صحیح اور صحت مندانہ نقطہ نظر پیدا کرنے میں بچے کی مدد کریں۔اور اسے بیماری کو حقیقت پسندانہ نظر سے قبول کرنے کا عادی بنائیں کہ بیماری انہیں چیزوں میں سے ایک ہے جو اللہ کی طرف سے آتی ہیں اور اس کو شفا میں بدلنے والا بھی وہی ہے۔ تاکہ بچہ جب بیمارہو تو اُسے زندگی کا حصہ سمجھ کر قبول کرے اور اللہ تعالیٰ سے شفا کی امید رکھے۔
جواب: بچے کامل توجہ، محبت اور احتیاط کے متقاضی ہوتے ہیں۔ والدین کو بچوں کے معاملات میں بہت زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہوتی ہے، ان کی ذرا سی غفلت اور لاپرواہی بچے کے لیے بہت بڑی تکلیف اور مستقل بیماری کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ تاہم درج ذیل چند اہم معاملات ایسے ہیں جن میں بچوں کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔
بعض اوقات بچوں کے منہ سے غذا یا کھانے کی کوئی اور چیز پھسل کر سانس کی نالی میں چلی جاتی ہے اور بچے سے سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ وقتی طور پر اس کی سانس رک جاتی ہے اور اسے مسلسل کھانسی شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر خدانخواستہ کھانسی سے کوئی چیز باہر نہ نکلے اور بچے کی سانس میں خرخراہٹ پیدا ہو جائے تو یہ انتہائی تشویشناک صورت حال ہے۔ ایسی صورت میں والدین کو بلاتاخیر بچے کو ہسپتال لے جانا چاہیے۔
بچوں کے پیٹ میں ہلکے سے درد کا ہونا معمول کی بات ہے جو گھریلو ادویات یا چھوٹے موٹے ٹوٹکوں سے ہی دور ہو جاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات بچوں کو آنت میں سوزش اور ورم کی شکایت ہوجاتی ہے ایسی صورت میں اسے معمول کا درد نہ سمجھا جائے کیونکہ بعد میں یہ پیچیدگی کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا والدین کے لیے ضروری ہے کہ بچے کو فوری ہسپتال لے جائیں ورنہ تاخیر کی صورت میں تکلیف بڑھ بھی سکتی ہے۔
بچوں میں ہیضے کا مرض بہت عام ہے اور اس کا بڑا سبب غذا اور پانی میں جراثیم کی شمولیت ہوتی ہے۔ اگر ہیضے کے دوران اُلٹیاں آر ہی ہوں تو جسم میں پانی کی شدید کمی ہوجاتی ہے اس کمی کو والدین عموماً نمکول وغیر سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اگر بچے پر شدید نقاہت اور کمزوری طاری ہو جائے تو ایسی صورت میں بچے کو گھر پر رکھنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے لہٰذا والدین کو چاہیے کہ فوری طور پر بچے کو ہسپتال پہنچائیں تاکہ مرض پر کنٹرول کیا جا سکے۔
بعض اوقات گھروں میں گرم دودھ، چائے یا پانی سے بچے معمولی جل جاتے ہیں اور اس کا زیادہ تر علاج گھر میں موجود ’فرسٹ ایڈ باکس‘ سے ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر بچہ زیادہ جل جائے اور جلے ہوئے حصے پر چھالے پڑ جائیں تو ایسی صورت میں بچے کو ہسپتال لے جانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے تاکہ بروقت علاج شروع کیا جا سکے۔
جواب: جی ہاں! کھیل بچوں کی ذہنی و جسمانی نشو و نما کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ کھیل بچوں کی فطرت کا لازمی حصہ ہیں۔ بچوں میں کھیلنے کی شدید خواہش کا ہونا اور انسانی تاریخ میں کھیلوں کا تسلسل کے ساتھ موجود رہنا کھیلوں کی اہمیت کا واضح ثبوت ہے۔ قدرت نے کھیل کی شکل میں بچوں کو ایسی خوشگوار سرگرمی سے نوازا ہے جس میں وہ خوشی خوشی مصروف رہتے ہیں۔ بلاشبہ کھیل بچوں کی صلاحیتوں کو جلا بخشتے ہیں۔اگر بچوں کے لیے کھیلنے جیسی self-motivated سرگرمی نہ ہو تو بچے جسمانی مہارتیں بھی سیکھ نہ پائیں یہ کھیل بچے کو جسمانی مہارتیں بھی سکھاتے ہیں۔
بچہ جب چلنا سیکھ رہا ہوتا ہے تو اس وقت اس کا چلنا سوائے ایک کھیل کے کچھ نہیں ہوتا وہ کھیل کھیل میں کئی گھنٹے روزانہ چلتا ہے ۔اس مشق میں اسے مشقت کا ناگوار احساس قطعاً نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کھیل سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے۔
کھیل ہی کھیل میں وہ چلنے کی مہارت حاصل کرلیتا ہے۔ پھر اسی کھیل میں دوڑنے، اپنے جسم کا توازن برقرار رکھنے، چیزیں اٹھانے، پکڑنے، دھکیلنے، کھینچنے، جمپ لگانے، جھولا جھولنے اور بائی سائیکل چلانے جیسی مہارتیں بھی سیکھ جاتا ہے اس کے ہاتھ اور آنکھوں کی ہم آہنگی (coordination) بہتر ہو جاتی ہے۔ کھیل بچوں کے لیے اپنے اندر طاقت اور ترغیب رکھتے ہیں اس لیے بچہ خود بخود کھیلوں کی طرف راغب ہوتا ہے۔ جسمانی مہارتوں کے علاوہ کھیل بچوں کی ذہنی تربیت اور نشو و نما کا سامان بھی فراہم کرتے ہیں۔ بچے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کشتی لڑنے، بھاگنے اور پکڑنے جیسے کھیلوں میں مصروف ہوتے ہیں، کھیل کے دوران ان کے جذبات عروج پر ہوتے ہیں۔ لیکن کھیل ختم ہوتے ہی ان کے جذبات یکدم نارمل ہوجاتے ہیں اور وہ نارمل رویوں کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ یوں وہ جذبات پر قابو پانا سیکھتے ہیں۔ کھیلوں سے بچے خوف، پریشانی، ذہنی دباؤ اور دوسروں سے تنگ ہونا جیسے منفی جذبات سے نجات پاتے ہیںبلکہ اس سے طبیعت میں برداشت اور کشادگی پیدا ہوتی ہے۔
الغرض! کھیل بچوں کی ذہنی و جسمانی نشو و نما میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میں خود شناسی اور خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں اور یوں متوازن ذہنی و جسمانی نشو و نما میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
جواب: کھیل بچوں کا محبوب ترین مشغلہ ہی نہیں بلکہ زندگی کی علامت، نشو و نما میں معاون اور تعلیم و تربیت کا موثر ذریعہ ہیں۔ بچپن میں فطری طور پر بچے کھیل کود کے شوقین ہوتے ہیں جس سے ان کے جسمانی اعضاء کی ورزش ہوتی رہتی ہے جو ان کی بہتر نشو و نما کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ کھیل جہاں بچوں کی بہتر نشو و نما میں معاون ہوتے ہیں وہاں کھیلوں سے بچوں کو حقیقی مسرت بھی نصیب ہوتی ہے۔ ان کی الجھنیں اور پریشانیاں دور ہوتی ہیں، ان کے چہرے شگفتہ رہتے ہیں، ان کے جذبات کی تسکین ہوتی ہے اور بحیثیت مجموعی ان کی شخصیت کو ہم آہنگی کے ساتھ پروان چڑھانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ کھیلوں سے بچوں کو درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں:
کھیلوں میں جسم کو کافی حرکت دینی پڑتی ہے اور جسمانی محنت و مشقت کی ضرورت پیش آتی ہے اس لیے سانس کی آمد و رفت، دوران خون، نظام انہظام اور نظام اخراج میں باقاعدگی رہتی ہے۔ اعضاء اپنی جگہ ٹھیک کام کرتے ہیں اور اعصاب اور عضلات پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے۔ کھیلوں سے جسم میں توانائی اور امراض کا مقابلہ کرنے کے لیے قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے، صحت ٹھیک رہتی ہے اور نشو و نما اور بالیدگی میں مدد ملتی ہے۔
کھیلوں میں بچوں کو مختلف حالات میں، مختلف دوستوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان سب سے نمٹنے کے لیے انہیں سوچنے سمجھنے، بروقت فیصلہ اور اقدام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے تجربات و مشاہدات میں اضافہ ہوتا ہے۔
ڈرامائی کھیل میں جب بچہ کوئی بھی کردار ادا کرتا ہے تو وہ اس کے مطابق خود کو ڈھالتا ہے اور بولنے کی کوشش کرتا ہے، اس سے اس کی زبان دانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ کھیل کھیلتے ہوئے بچہ الفاظ، آوازوں اور جملوں کی مشق کرتا ہے اور کھیل میں ہی گرائمر سیکھ جاتا ہے۔
بچہ جب کھیلتا ہے تو اسے دوسروں کے ساتھ اشاروں کی مدد سے رابطہ رکھنا پڑتا ہے، اس طرح اُسے دوسروں کی سوچ کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ جب کھیل میں بچوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوتا ہے تو اس سے دوسروں کا نقطہ نظر سمجھنے اور صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ اجتماعی کھیلوں کے ذریعے بچے اپنے ساتھیوں کے ساتھ تعاون و ہمدردی، ضابطوں کی پابندی، مقابلہ و مسابقت میں اعتدال، اطاعت و قیادت اور اپنی باری کا انتظار کرنے کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ بچہ اپنے ساتھیوں کا لحاظ کرنا اور اپنی خواہشات و ذاتی دلچسپیوں کو اجتماعی مفاد پر ترجیح دینا بھی منظم کھیلوں سے سیکھتا ہے۔
جواب: چھوٹے بچے طرح طرح کی شرارتوں سے والدین کی برداشت کا خوب امتحان لیتے ہیں، بعض اوقات وہ اپنی شرارتوں سے والدین کو زچ بھی کر دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں والدین کو ہر حال میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور بچوں پر غصہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ شرارتی بچوں پر بھی شفقت فرماتے۔ بلکہ دوران نماز اگر وہ معصوم شرارتیں کرتے یا عبادت میں مخل ہوتے تب بھی حضور نبی اکرم ﷺ بے مثال صبر و برداشت کا مظاہرہ فرماتے۔
حضرت عبد اللہ بن شداد رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:
خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي إِحْدٰی صَلَاتَيِ الْعِشَائِ وَھُوَ حَامِلٌ حَسَنًا أَوْ حُسَیْنًا، فَتَقَدَّمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَوَضَعَهٗ، ثُمَّ کَبَّرَ لِلصَّلَاۃِ، فَصَلّٰی فَسَجَدَ بَیْنَ ظَهْرَانَي صَلَاتِهٖ سَجْدَۃً أَطَالَهَا. قَالَ أَبِي: فَرَفَعْتُ رَأْسِي وَإِذَا الصَّبِيُّ عَلٰی ظَهْرِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَھُوَ سَاجِدٌ فَرَجَعْتُ إِلٰی سُجُوْدِي، فَلَمَّا قَضٰی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الصَّـلَاۃَ، قَالَ النَّاسُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّکَ سَجَدْتَ بَیْنَ ظَهْرَانَي صَلَاتِکَ سَجْدَۃً أَطَلْتَهَا حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّهٗ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ، أَوْ أَنَّهٗ یُوْحٰی إِلَیْکَ۔ قَالَ: ذٰلِکَ لَمْ یَکُنْ، وَلٰـکِنَّ ابْنِي ارْتَحَلَنِي، فَکَرِھْتُ أَنْ أُعَجِّلَهٗ حَتّٰی یَقْضِيَ حَاجَتَهٗ.
أحمد بن حنبل، المسند، 3: 493، رقم: 16076
نسائي، السنن، کتاب التطبیق، باب ھل یجوز أن تکون سجدۃ أطول من سجدۃ، 2: 229، رقم:
1141
نسائي، السنن الکبری، 1: 243، رقم: 727
ابن أبي شیبۃ، المصنف، 6: 379-380، رقم: 32191
حاکم، المستدرک، 3: 181، رقم: 4775
طبراني، المعجم الکبیر، 7: 270، رقم: 7107
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ مغرب اور عشاء کی دونوں نمازوں میں سے کسی نماز کے لیے ہمارے پاس (حجرہ مبارک سے باہر) تشریف لائے۔ آپ ﷺ امام حسن یا حسین رضی اللہ عنہما (میں سے کسی ایک شہزادے) کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ آگے تشریف لا کر رسول اللہ ﷺ نے اُنہیں (اپنے پاس) بٹھا دیا۔ پھر نماز کے لیے تکبیر فرمائی اور نماز پڑھنا شروع کر دی، دورانِ نماز آپ ﷺ نے (خلافِ معمول) نہایت طویل سجدہ کیا۔ (راوی بیان کرتے ہیں: ) میرے والد نے بیان کیا: میں نے سر اُٹھا کر دیکھا کہ وہ بچہ رسول اللہ ﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہے اور آپ ﷺ حالت سجدہ میں ہیں۔ میں دوبارہ سجدہ میں چلا گیا۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے دورانِ نماز اتنا طویل سجدہ ادا فرمایا کہ ہم نے گمان کیا کوئی امرِ اِلٰہی واقع ہو گیا ہے یا آپ پر وحی نازل ہونے لگی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ایسی کوئی بات نہ تھی بلکہ مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لیے (سجدے سے اُٹھنے میں) جلدی کرنا اچھا نہ لگا جب تک کہ (میری پشت پر سواری سے) اس کا دل نہ بھر جائے۔
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ بچوں کی شرارتوں پر کمالِ ضبط کا مظاہرہ فرماتے حتی کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے سجدہ طویل فرما دیا تاکہ بچہ اپنے معصوم کھیل سے لطف اندوز ہوتا رہے۔
حضرت رافع بن عمرو الغفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
کُنْتُ غُـلَامًا أَرْمِي نَخْلَ الأَنْصَارِ، فَأُتِيَ بِي النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: یَا غُلَامُ، لِمَ تَرمِي النَّخْلَ؟ قَالَ: آکُلُ، قَالَ: فَـلَا تَرْمِ النَّخْلَ، وَکُلْ مِمَّا یَسْقُطُ فِي أَسْفَلِهَا۔ ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَهٗ فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ أَشْبِعْ بَطْنَهٗ.
أبو داؤد، السنن، کتاب الجھاد، باب من قال إنہ یأکل مما سقط،
3: 39، رقم: 2622
أحمد بن حنبل، المسند، 5: 31، رقم: 20358
ابن أبي شیبہ، المصنف، 4: 294، رقم: 20305
حاکم، المستدرک، 3: 502، رقم: 5874
طبرانی، المعجم الکبیر، 5: 19، رقم: 4459
جب میں بچہ تھا تو انصار کے کھجور کے درختوں پر پتھر پھینکا کرتا تھا۔ (ایک دن) انصار مجھے پکڑ کرحضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں لے گئے۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: بیٹا! تم کھجوروں کے درخت پر پتھر کیوں پھینکتے ہو؟ میں نے عرض کیا: کھجوریں (اُتار کر) کھاتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: درختوں کو پتھر نہ مارا کرو۔ جو کھجوریں درخت کے نیچے گری پڑی ہوں اُنہیں اُٹھا کر کھا لیا کرو۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور فرمایا: اے اللہ! تو اس کا پیٹ بھر۔
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم ﷺ نے کتنی محبت سے بچے کو سمجھایا اور سمجھانے کے بعد دعا بھی دی۔ آپ ﷺ کے اُسوۂ حسنہ کی روشنی میں والدین کو بچوں کی شرارتوں پر غصہ کرنے کی بجائے شفقت و محبت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ عموماً بچے جب شرارت کرتے ہیں تو والدین بچے کو مارنا اور ڈانٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی بجائے والدین کو چاہیے کہ بچے کو اعتماد میں لے کر اس سے شرارت کی وجہ پوچھیں پھر اسے محبت سے سمجھائیں کہ ایسی شرارت نہیں کرتے جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات مبارکہ کی روشنی میں والدین بچوں کی شرارتوں پر خوش مزاجی کا مظاہرہ کرکے ہی بچوں کی اچھی تربیت کرسکتے ہیں۔
جواب: جی نہیں! عادات کے لحاظ سے سب بچے ایک جیسے نہیں ہوتے بلکہ ہر بچے کا ایک منفرد مزاج ہوتا ہے جو کہ اسے دوسرے بچوں سے ممتاز کرتا ہے۔ بہت سے بچے ایسے ہوتے ہیں جو زندگی میں اچھائی اور برائی کا سامنا کرتے وقت ذہنی طور پر پریشان نہیں ہوتے وہ خوشگوار چیز سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور تکلیف دہ چیز کو ناپسند کرتے ہیں۔ ایسے بچے زندگی سے شاذ و نادر ہی مغلوب ہوتے ہیں لہٰذا اِن سے معاملہ کرنا آسان ہوتاہے اور ان کی تربیت کے حوالے سے استعمال ہونے والا ہر طریقہ ان پر قابل عمل ہوتا ہے۔
حساس طبیعت رکھنے والے بچوں کے لیے زندگی اتنی آسان نہیں ہوتی۔ اس قسم کے بچوں کے مزاج میں وقت کے ساتھ شدید قسم کی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں۔ جہاں ایک اوسط درجے کا بچہ ذرا سی تنگی محسوس کرتا ہے وہاں حساس طبیعت بچہ زیادہ پریشانی اور غصہ کا اظہار کرتا ہے اور اپنے اردگرد رہنے والوں کو بھی پریشان کرتا ہے۔ ان بچوں میں جذباتی رد عمل زیادہ شدید ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے بچوں کی حوصلہ افزائی اور نگرانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
اوسط درجے کا بچہ بعض معاملات میں والدین کے لیے مشکل کا باعث بنتا ہے، مثلاً بعض بچے ہوم ورک سے کتراتے ہیں یا اُنہیں صبح نیند سے بیدار کرنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن حساس بچہ ہر جگہ اور ہر میدان میں پریشانی کا باعث بنتا ہے اور اس کا ردعمل بھی عام بچوں سے زیادہ شدید ہوتا ہے۔ حساس بچے کے ساتھ پیش آنے کے لیے بہتر حکمت عملی اور قابل عمل نظم و ضبط پر مبنی پروگرام وضع کرنا چاہیے۔
جواب: اس عمر میں بچے میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور اس کی عادات میں واضح فرق محسوس ہوتا ہے۔ اس عمر میں بچے کی شخصی تعمیر و تشکیل کا کام اس کے والدین کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔ یوں تو بچے کی زندگی کا ہر دور والدین کے لیے بڑا صبر آزما ہوتا ہے لیکن اس عمر کا بچہ ایک لمحے میں ہی ناراض اور اگلے لمحے میں خوش ہو جاتا ہے۔ لہٰذا عمر کا یہ حصہ بچے کی ذہنی، نفسیاتی اور اخلاقی تربیت کے لیے انتہائی اہم ہے۔
اس عمر کا بچہ آسانی سے دوڑ سکتا ہے اور اپنی مرضی سے بھاگ اور رک سکتا ہے۔ دونوں پائوں اٹھا کر چھلانگیں لگا لیتا ہے، گیند کو ٹھوکر مار کر لڑھکا لیتا ہے، وہ سیڑھیوں پر بار بار چڑھتا اور اترتا ہے، دروازہ خود بخود بند کرتا اور کھولتا ہے اور مختلف چیزوں کو سارے گھر میں کھینچتا پھرتا ہے۔ قلم سے لائنیں لگا لیتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ بٹن بند کرنا، اپنی جرابیں، جوتے، کپڑے اتارنا، اپنے ہاتھ خود دھونا اور خشک کرنا بھی سیکھ جاتا ہے۔
اس عمر میں بچے کے بولنے کی قوت یعنی الفاظ سمجھنے اور ادا کرنے کی اہلیت میں نمایاں اور تیز رفتار اضافہ ہوتا ہے۔ بچے کے ذہن میں نئے الفاظ محفوظ ہو جاتے ہیں۔ وہ میں، تم، آپ جیسے کئی الفاظ ادا کر سکتا ہے اور کسی حد تک اپنا مطلب بھی بیان کر سکتا ہے۔ اس سے جتنی زیادہ گفتگو کی جائے گی وہ اتنے زیادہ الفاظ سیکھے گا اور زیادہ بولنے کی کوشش کرے گا۔ بچے کے بولنے کی قوت کو بہتر بنانے کے لیے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس سے ایسی باتیں کی جائیں جو اس کے ننھے سے ذہن کے لیے بہت زیادہ مشکل نہ ہوں اور اس کام سے متعلق ہوں جو اس مخصوص وقت میں اس کے پیش نظر ہے۔
اس عمر کا بچہ شروع میں تنہا کھیلنا پسند کرتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ دوستوں میں گھل مل جاتا ہے جب اس میں کچھ فیصلہ کرنے کی صلاحیت آ جاتی ہے تو وہ لڑنا، جھگڑنا بھی شروع کر دیتا ہے۔ نیز اس عمر میں والدین کی مرضی کے خلاف اکثر کچھ کر گذرنے کی کوشش کرتاہے اور اس میں منفی رویہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں والدین کو صبر و تحمل سے کام لے کر معاملہ ہینڈل کرنا چاہیے کیونکہ بچے کا ایسا رویہ تھکن، بیزاری اور بھوک کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔
اسی طرح بچہ کھانے کے اوقات میں مختلف رویے اختیار کر سکتا ہے۔ کبھی کھانے سے انکار کر دیتا ہے اور کبھی اتنی دیر لگا دیتا ہے کہ کھانا ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ ایسے لمحات میں بچوں سے زبردستی کا سلوک کرنا اور درشتگی سے ان پر اپنی مرضی ٹھونسنا ہرگز دانشمندی نہیں بلکہ محبت اور پیار سے بچے کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔
اس عمر میں بچے کی دور اور نزدیک کی بینائی تقریباً بڑوں کی طرح ہی ہوتی ہے۔ بچے کی بینائی کا باقاعدگی سے طبی معائنہ کروانا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح بچے کی سماعت کا بھی طبی معائنہ کرانا چاہیے۔
جواب: تین سال کی عمر کا بچہ خاصی مستحکم شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ بڑی محنت اور مستقل مزاجی سے کام لے کر وہ اپنے نگہداشت کرنے والے سے ایک خصوصی تعلق استوار کر چکا ہوتا ہے۔ مختلف اشیاء کے ساتھ اس کی واقفیت اور دلچسپی میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہوتا ہے۔ اس عمر میں بچہ اپنی ضد منوانا سیکھ جاتا ہے اسے اپنی اہمیت اور ضد کا احساس ہو جاتا ہے وہ اپنی مرضی اور خواہش بیان کر سکتا ہے۔
اس عمر کا بچہ اپنے والدین اور دوسرے اعزاء و اقارب کے لیے دل بہلانے والا ثابت ہوتا ہے۔ سب سے اپنی توتلی باتوں سے پیار سمیٹتا ہے۔ کھانے کے آداب سیکھ جاتا ہے، اپنے ہاتھ دھونا اور خشک کرنا اسے آ جاتا ہے۔ کھانا کم خراب کرتا ہے اور اپنے کپڑے بھی صاف رکھتا ہے، مل جل کے کھیلنا پسند کرتا ہے۔ اس کے دل میں فراخی پیدا ہوتی ہے اور کھلونوں میں اپنے دوستوں کو بھی شریک کرتا ہے۔
اِس عمر کا بچہ اپنی جسمانی صلاحیتوں اور مختلف النوع معلومات کے ذریعے مختلف چیزیں بنانا شروع کر دیتا ہے۔ ہلکی پھلکی ڈرائنگ کرنے کا آغاز اسی عمر میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بچہ مختلف چیزیں بنانا بھی سیکھتا ہے، مثال کے طور پر بلاکس سے کھیلتے ہوئے وہ اپنی سمجھ کے مطابق مختلف اُلٹی سیدھی چیزیں بناتا رہتا ہے۔ بچے کو تصویریں دکھا کر مختصر سی کہانی بھی سمجھائی جا سکتی ہے، اس سے بچے کی یادداشت میں اضافہ ہوتا ہے۔
روزمرہ کی سرگرمیوں میں بچے کا اعتماد بڑھتا ہے۔ وہ آسانی سے سیڑھیاں چڑھ اور اتر سکتا ہے، گول دائروں میں آسانی سے گھوم لیتا ہے، بڑی گیند کے ساتھ کھیل سکتا ہے، وہ ایک ٹرائی سائیکل بھی نہایت مزے سے چلا سکتا ہے نیز جھولوں میں اس کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔
اِس عمر کا بچہ دائیں اور بائیں ہاتھ کا استعمال سیکھ جاتا ہے۔ اگر کوئی بچہ بایاں ہاتھ استعمال کرے تو اسے نرمی اور پیار سے دائیں ہاتھ کے استعمال کا عادی بنانا چاہیے۔
اس عمر کے بچوں کے وزن اور قد میں اضافہ کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ بچوں کے دودھ کے دانت مکمل نکل آتے ہیں۔ اس عمر میں بچوں کے دانتوں کا وقتاً فوقتاً معائنہ کرواتے رہنا چاہیے نیز بچوں کی بینائی اور سماعت کا بھی معائنہ لازمی کروانا چاہیے۔
جواب: چار سال کی عمر کا بچہ بہت حد تک مختلف امور میں خود مختار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی ماں کے علاوہ کسی دیکھی بھالی جگہ یا شناسا شخص کے پاس بھی خوشی سے بہت سا وقت صرف کر لیتا ہے۔ وہ بڑی مہارت سے ٹرائی سائیکل چلا سکتا ہے اس کے پاس الفاظ کا ذخیرہ جمع ہو جاتا ہے جس سے وہ نئے نئے الفاظ اور جملے بنانے کی کوشش کرتا ہے اور اس میں کامیاب بھی رہتا ہے۔ وہ ہنسی مذاق اور تصوراتی کھیلوں سے خوش ہوتا ہے کہانیاں سنانا اور سننا پسند کرتا ہے۔
اس عمر کا بچہ نظمیں یاد کر لیتا ہے۔ اپنی ذہانت کے مطابق مختلف چیزوں کے متعلق سوالات پوچھتا ہے۔ اس عمر میں بچہ والدین کے ساتھ تعاون کرنا پسند کر تا ہے اور پُرجوش رویہ بھی اختیار کرتا ہے۔ لیکن بعض اوقات بالکل ہی بچگانہ اور سمجھ میں نہ آنے والا رویہ اختیار کرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سارے جوش و خروش کے باوجود یہ بچہ بڑی جلدی اُکتا جاتا ہے لہٰذا ایسے بچے کو والدین کی خصوصی توجہ درکار ہوتی ہے۔
اس عمر کا بچہ کھیلوں میں از حد رغبت رکھتا ہے۔ وہ فٹ بال اور اس طرح کے مختلف النوع کھیلوں میں دلچسپی سے حصہ لیتا ہے اور بھاگ دوڑ میں خوش رہتا ہے۔ یہ بچہ مختلف رنگوں کی آسانی سے پہچان کر سکتا ہے۔ اپنا نام اور پتہ آسانی سے بتا سکتا ہے۔ مختلف اشیاء کے نام بتا سکتا ہے، پنسل سے مختلف قسم کے خاکے اور انسانی تصویر بھی بنا سکتا ہے۔
اس عمر کا بچہ اپنی دیکھ بھال خود بھی کر سکتا ہے، چمچ سے کھانا آسانی اور صفائی سے کھا لیتا ہے، اپنے دانت مسواک یا برش سے خود صاف کر لیتا ہے۔ اپنا لباس خود پہن بھی لیتا ہے اور اتار بھی لیتا ہے لیکن سخت بٹن، تنگ آستین اور تسمے والے جوتے پہننے میں اسے والدین کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر کسی دوسرے فرد کو پریشان دیکھے تو خود بھی پریشان ہو جاتا ہے اور اپنی بھولی بھالی حرکتوں اور باتوں سے اسے خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح دوسروں کو خوش دیکھ کر خود بھی خوش ہوتا ہے۔ اپنے سے چھوٹے بہن بھائیوں کی بھی دیکھ بھال کر سکتا ہے لیکن مکمل طور پر اس عمر کے بچے پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اس عمر کے بچے کو ٹریفک کے قواعد و ضوابط سے آگاہی نہیں ہوتی لہٰذا والدین کو ایسی عمر کے بچے کو مصروف شاہراہ کے آس پاس چلنے پھرنے اور کھیلنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
اس عمر کا بچہ والدین کے بولنے کے انداز، ان کے لب ولہجہ کو اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا والدین کو اس عمر کے بچے کے ساتھ اپنی گفتگو اور لب ولہجہ کے اتار چڑھائو پر دھیان دینا چاہیے اور کسی بھی قسم کے لغو جملوں کے استعمال سے احتراز برتنا چاہیے۔
اس عمر میں بچہ کبھی کبھار گستاخی بھی کر جاتا ہے اور مخاطب کی کہی گئی بات اسے لوٹا دیتا ہے۔ اس طرح کی حرکات پر بچے کو پیار سے سمجھانا چاہیے کہ ایسی حرکات کو کوئی شخص بھی پسند نہیں کرتا اور نہ ہی ایسے بچوں سے کوئی پیار کرتا ہے۔ اسے احساس دلانا چاہیے کہ اس کا یہ رویہ ہرگز مہذب نہیں، جب پیار سے بچے کو سمجھایا جائے گا تو وہ اپنی ایسی عادات کی اصلاح کرے گا۔
اس عمر کا بچہ اپنا زیادہ وقت کھیل کود اور شرارتوں میں گزارتا ہے اور دن کے خاتمے پر تھکاوٹ سے چور ہو جاتا ہے۔ اس عمر کے بچے کے لیے مناسب غذا کا اہتمام لازمی امر ہے۔
جواب: بچہ پیدائشی طور پر کسی چیز سے خوف نہیں کھاتا بلکہ وہ اپنے گرد و پیش کی چیزوں کے معاملے میں یہ جانتا ہی نہیں کہ خوف کیا ہوتا ہے۔ خوف اس میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ماں بچے کے سامنے خوف کا مظاہرہ کرے۔ مثلاً بچہ کسی چیز سے کھیل رہا ہے تو ماں اس چیز کے ٹوٹنے یا خراب ہو جانے کے اندیشے سے وہ چیز بچے سے زبردستی چھین لیتی ہے اور اسے ڈانٹ دیتی ہے یا کسی ڈراؤنے خیال سے بچے کو ڈراتی ہے، جس کے نتیجے میں بچہ سہم جاتا ہے اور وہ ممنوعہ چیز ہی سے خوف کھانے لگتا ہے۔ ماں تو یہ سمجھتی ہے کہ اس نے ایک چیز کو خراب ہونے سے بچا لیا مگر بچے کی جذباتی زندگی خراب ہونے کا اسے احساس نہیں ہوتا۔
بعض اوقات ماں محض کسی چیز سے منع کرنے یا سلانے کے لیے بچے کو چڑیل، جن، دیو اور بھوت جیسی خوفناک چیزوں کے نام سے ڈرا کر زبردستی سلا دیتی ہے، مگر اسے احساس نہیں ہوتا کہ بچہ خوف سے سہم گیا ہے اور بچے کے اندر جرأت و دلیری کی بجائے خوف و دہشت کے اثرات قوی ہوگئے ہیں۔ اس بنا پر بچہ مستقبل میں مختلف قسم کی چیزوں سے خوف کا شکار ہو جاتا ہے۔
کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ بچہ اپنی والدہ کو کسی بھی چیز سے ڈرتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ خود بھی اس سے ڈرنے لگتا ہے۔ اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ماں بچے کے ساتھ کھیلتے ہوئے یہ کہہ کر لحاف میں منہ چھپالیتی ہے۔’’وہ بلی آگئی‘‘، ’’وہ جن آگیا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ خوف کا یہ مظاہرہ بھی بچے کے دل و دماغ پر ایک تاثر قائم کر دیتا ہے۔
ماں کا ایسا ناقص عمل بچے کے لیے مُضر ہے۔ بچپن میں بچے کے دل میں اگر خوف کا جذبہ پیدا ہو جائے تو وہ معمولی حادثات سے بھی ہمت ہار بیٹھے گا۔ بچے کو کم سنی میں ہی دلیر بنانے کے لیے ماں کو چاہئے کہ وہ بے خوفی کی بہترین مثال پیش کرے اور اسے یہ ذہن نشین کروائے کہ نفع و نقصان پہنچانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اس کے علاوہ تمام چیزیں بے بس ہیں۔ اس سے بچہ بہادر اورباہمت بن جاتا ہے اور ایسے بچے ہی آئندہ زندگی میں کارہائے نمایاں سرانجام دیتے ہیں۔
جواب: خوف ایک نفسیاتی حالت ہے یہ عادت بچوں کو ایک حد تک بہت سے حوادث سے بچانے کا ذریعہ بنتی ہے، لیکن اگر یہی خوف حد سے تجاوز کر جائے تو بچے میں نفسیاتی بے چینی پیدا ہوجاتی ہے جس کو دور کرنا بہت ضروری ہے وگرنہ مستقبل میں اس کی شخصیت پر اس کے بُرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
بچہ جن چیزوں سے خوف کھائے، جنہیں وہ اپنی بساط سے باہر محسوس کرے اُن کے بارے بچے کو یہ شعور دیا جائے کہ یہ چیزیں اس کی طاقت سے بالاتر نہیں ہیں۔ تھوڑی سی ہمت اور کوشش سے وہ ان پر قابو پا سکتا ہے اور ان کا استعمال کر سکتا ہے۔ اس طرح اُس کا خوف بڑی آسانی سے دور کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً بچہ اگر بڑی کرسی یا تھوڑی سے اُونچائی پر چڑھنے سے ڈر رہا ہے تو اُس کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اس پر بیٹھ سکتا ہے۔ اُسے ایک دو بار سہارا دے کر اُوپر چڑھنے کی مشق کروائی جائے تاکہ اُس کا خوف ختم ہو۔ پھر آہستہ آہستہ اُسے بغیر سہارا اس کی مشق کروائی جائے۔
بعض گھرانوں میں عموماً اندھیرے کمرے میں سونے کا معمول ہوتا ہے۔ سوتے وقت گھر کے افراد چھوٹے بچے کا دھیان کئے بغیر لائٹ آف کر کے لیٹ جاتے ہیں مگر اس وقت بچہ کھیلنے کا خواہش مند ہو تو اندھیرے میں کچھ نظر نہ آنے سے اس میں اضطراب اور مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ اس اضطراب اور مایوسی سے بچے میں خوف کی ابتداء ہوتی ہے۔ اس خوف کو بہر صورت دور کرنا چاہیے اس کے لیے ضروری ہے کہ سوتے وقت کمرے میں روشنی کا کوئی نہ کوئی انتظام ہو تاکہ بچہ بیدار ہو کر بھی کھیلنا چاہے تو کھیل سکے۔
لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ نقصان دہ اور مضر چیزوں سے بھی اُسے آگاہی نہ دی جائے۔ بچے کے ذہن کو خوف سے پاک کرنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ وہ ضرر رساں چیزوں سے بھی اجتناب نہ کرے۔ بچے کو ایسی چیزوں کے نقصانات سے نہایت پیار اور حکمت بھرے انداز میں آگاہ کرنا چاہئے تاکہ وہ کسی قسم کی تکلیف یا بڑے حادثے کا شکار نہ ہو جائے۔ اُسے یہ تربیت بھی دی جائے کہ وہ ضرر رساں چیزوں سے دور رہے مثلاً آگ، جلتا چولہا، بجلی اور گیس کی تنصیبات اور زہریلے جانور وغیرہ۔ مگر ان سے بچنے اور خوف کھانے کی بنیاد بھی لاعلمی پر نہیں ہونی چاہیے بلکہ بچے کے ذہن میں یہ بات ڈال دینی چاہیے کہ یہ چیزیں کس قدر نقصان دہ ہیں۔ اگر بچہ علم، مشاہدے یا تجربے کی بنیاد پرکسی چیز سے دور رہنے کا عادی ہو جائے تو یہ عادت اس میں بزدلی کی بجائے خود اعتمادی و بلند حوصلہ کا سبب بنتی ہے۔
جواب: بچوں کے انگوٹھا چوسنے کے بارے میں کئی نظریات ہیں۔ حتیٰ کہ ماہرین بھی وثوق سے نہیں بتا سکتے کہ یہ رجحان کیوں پیدا ہوتا ہے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر بعض بچوں میں انگوٹھا چوسنے کی عادت ہوتی ہے۔ اکثر یوں ہوتا ہے کہ ہاتھوں کی غیر ارادی حرکت کے دوران بچہ اتفاق سے اپنا انگوٹھا منہ میں ڈال لیتا ہے اور پھر بار بار وہ یہی عمل کرتا ہے، اس سے اسے تسکین ملتی ہے۔ اکثر وہ بچے جو ماں کا دودھ نہیں پیتے، انگوٹھا چوسنے کے عادی ہوتے ہیں۔ کچھ بچے مخصوص اوقات میں انگوٹھا چوستے ہیں مثلاً جب انہیں نیند آ رہی ہوتی ہے یا جب وہ سو رہے ہوتے ہیں۔
اسی طرح بعض بچے دباؤ کے وقت، بیماری میں، بھوک کی حالت میں، غیر محفوظ ہونے کی صورت میں، تھکن اور اکتاہٹ کی وجہ سے زیادہ انگوٹھا چوستے ہیں یعنی انگوٹھا چوسنے کا فطری عمل بچے کو تسکین پہنچاتا ہے۔
نفسیاتی پہلو سے انگوٹھا چوسنا اچھی عادت نہیں ہے۔ بچے کی انگوٹھا چوسنے کی عادت کو ختم کرنے کے لیے والدین اسے سختی سے منع نہ کریں بلکہ تحمل سے کام لیتے ہوئے ابتدائی مرحلے میں بچے کے انگوٹھے کو اس کے منہ سے نہایت آرام سے نکال کر اسے دوسری طرف متوجہ کر دیں۔ اس کے علاوہ ہاتھ میں کھلونا دے کر بھی بچے کی توجہ انگوٹھے سے ہٹائی جا سکتی ہے۔ اگر بچہ پھر بھی انگوٹھا چوسنے کے عمل سے باز نہ آئے تو اس کے انگوٹھے پر کوئی کڑوی چیز لگا دی جائے۔ جس سے بچہ انگوٹھا منہ میں لینے سے گریز کرے گا بصورت دیگر بچے کی عادت ختم نہ ہونے پر ماہر امراض اطفال سے رجوع کرنا چاہیے۔
جواب: بچوں کے لیے ڈے کئیر سنٹر کا انتخاب کرتے وقت والدین کو درج ذیل مختلف اُمور کا خیال رکھنا چاہیے:
1۔ ڈے کئیر سنٹر لائسنس یافتہ ہو۔
2۔ ڈے کئیر سنٹر کا اسٹاف تربیت یافتہ ہو۔
3۔ اسٹاف کا بچوں کے ساتھ رویہ دوستانہ ہو۔
4۔ ڈے کئیر سنٹر میں بچوں کی تعداد تسلی بخش ہو۔
5۔ ڈے کئیر سنٹر محفوظ ہو۔
6۔ ڈے کیئر سنٹر میں صفائی کا انتظام بہتر ہو۔
7۔ ڈے کئیر سنٹر میں ڈسپلن سکھایا جاتا ہو۔
8۔ ڈے کئیر سنٹر میں کھیل کے ذریعے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہو۔
9۔ بچوں کو کھانا اچھا فراہم کیا جاتا ہو۔
10۔ بچوں کے سونے کا انتظام اچھا ہو۔
11۔ انتظامیہ ڈے کئیر سنٹر کی آڑ میں کوئی اور کاروبار نہ کر رہی ہو۔
12۔ ڈے کئیر سنٹر کی ٹیوشن فیس مناسب ہو۔
جواب: بچوں کی نگہداشت کے لیے قائم کیے گئے ڈے کئیر سنٹر کے جہاں فوائد ہیں وہاں نقصانات بھی ہیں۔ اس عمر کے بچوں کی شخصیت جب تشکیل پا رہی ہوتی ہے تو اس موقع پر ان کا والدین کے قریب رہنا از حد ضروری ہوتا ہے۔ لیکن والدین اپنی ذمہ داری سے پہلوتہی کرتے ہوئے محض اپنی سہولت کی خاطر بچوں کی آزادی اور خواہشات کو سلب کر کے انہیں ڈے کئیر سنٹر میں چھوڑ جاتے ہیں۔ ان سنٹروں میں کام کرنے والی خواتین خواہ کتنی ہی تربیت یافتہ ہوں، کتنی ہی رحم دل ہوں، وہ والدین کا نعم البدل نہیں بن سکتیں۔ اس کے نتیجے میں بچوں کی زندگی میں بعض اوقات ایسا خلا رہ جاتا ہے جو عمر بھر پورا نہیں ہو سکتا۔
خصوصاً مغربی ممالک میں رہائش پذیر مسلمان والدین کے لیے ڈے کئیر سنٹر کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مسلمانوں کے اپنے ڈے کئیر سنٹرز نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو والدین اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے جاب کرتے ہیں اور اپنے بچوں پر توجہ نہیں دے سکتے توانہیں مجبوراً غیر ملکی سنٹرز کا سہارا لینا پڑتا ہے، جہاں تعلیم و تربیت غیر اسلامی انداز سے کی جاتی ہے۔ نتیجتاً بچہ اِسلامی اَقدار نہیں سیکھ پائے گا اور اس میں سارا قصور والدین کا ہے جنہیں شعور تک نہیں کہ وہ اپنی نسل کو تباہی کے کس دہانے تک لے جا رہے ہیں۔
جواب: گزشتہ دو عشروں کے درمیان پاکستان میں بچے کی باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے سے پہلے بچے کو دو سے اڑھائی سال کی عمرمیں مونٹیسوری سکول میں داخل کرا دیا جاتا ہے۔ مونٹیسوری سکول کا مقصد یہ ہے کہ چھوٹی عمر میں بچوں کی فطری صلاحیتوں اور رجحان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور کھیل اور دیگر دلچسپیوں کے ذریعے انہیں مہذب زندگی کی بالکل ابتدائی باتوں کی تعلیم اس طرح دی جائے کہ وہ ان پر بوجھ نہ بنے۔
اِسلام کی رُو سے اصل مونٹیسوری بچے کا گھر اور ماں کی گود ہوتی ہے، جہاں بچے کی زندگی میں سیکھنے کا عمل شروع ہوتا ہے اور وہ گھر کے ماحول، والدین کے کردار سے بہت کچھ اَخذ کرتا ہے۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ بچوں کے لیے گھر کا ماحول اِسلامی اور مثالی بنائیں تاکہ بچہ کی بہتر تربیت کا آغاز گھر سے ہو۔
جواب: مونٹیسوری نظام کی بنیاد اس مفروضے پر رکھی گئی کہ اس میں بچے کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے اس کی سیکھنے کی کوششوں میں معاونت کی جائے اور اسے ایک فرد کی حیثیت دی جائے۔ مونٹیسوری نے ان روایتی اسکولوں کے طریقے کو یکسر مسترد کر دیا ہے جہاں کلاس رومز میں بچوں کو ان کی جگہ پر مقید کردیا جاتا ہے۔ اس نظام میں استاد بچوں کے سامنے کھڑے ہو کر پڑھانے کی بجائے ان کے ساتھ مل کر اور ان میں شامل ہوکر انہیں ایک مرتب کردہ طریقے کے مطابق کھیل کی مدد سے سکھاتا ہے۔ اس نظام کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ خود بچوں کو حرکت و عمل (activity) کا موقع فراہم کیا جائے اور انہیں ان کے اپنے ماحول کے مطابق، کھیل، کھلونوں اور دیگر معاون اشیاء سے سیکھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ اس نظام میں بچے تعلیمی اشیاء سے خود بخود استفادہ کرنے لگتے ہیں اور وہ اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہوکر چوتھائی سے ایک گھنٹے تک تھکے بغیر مصروف رہتے ہیں۔
جواب: نرسری اسکول حقیقتاً کھیلوں کے گروپ ہوتے ہیںان کا مقصد بچوں کو تعلیم دینا نہیں بلکہ بچوں کو ایسے تجربے کروانا ہوتا ہے جن کی بچوں کو ضرورت ہوتی ہے اور جن سے بچے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں نیز ان تجربوں کا مقصد بچوں کی جسمانی اور جذباتی نشو و نما ہے۔
نرسری اسکول میں پہلے سے سال بھر کے لیے کسی مقصد اور منزل کا تعین نہیں کیا جاتا۔ کھیل کے ان گروپوں میں بچے کو مختلف قسم کی چیزیں اپنے کام میں لانے کے لیے دے دی جاتی ہیں جس میںبچے کو اجنبیت نہیں ہوتی اور اسے اطمینان بھی رہتا ہے کہ وہ یہاں ایسے افراد کے ساتھ رہے گا جس میں اس کے ساتھی اسے پسند کریں گے اور وہ یہ محسوس کرے گا کہ یہ اس کا کمرہ ہے، اس کے کھلونے ہیں اور وہاں موجود بچے اس کے دوست ہیں۔ یعنی بڑے اور بچے ساتھ ساتھ رہتے، کھیلتے اور کام کرتے ہیں۔ بڑے اس کے دوست بھی ہوتے ہیں اور ساتھ کھیلنے والے محافظ بھی۔ نرسری اسکول میں بچے کابہت خیال رکھا جاتا ہے کہ کہیں اسے چوٹ نہ لگ جائے نیز ایسا ماحول پیدا کیا جاتا ہے جس میںبچے پر کسی قسم کا بوجھ نہ پڑے اور بچہ تدریجی طور پر اپنی صلاحیتوں اور مہارتوں کو بڑھاتا رہے۔
دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے، ان کے ساتھ رہنے اور کام کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچہ مل جل کر کام کرنا سیکھ جائے۔ اس سے بچے کو فائدہ پہنچتا ہے اور اس کے نتائج گھر کی زندگی میںبھی ظاہر ہوتے ہیں۔
جواب: بچے کی زندگی میں گھر اور اسکول دو اہم مقامات ہیں۔ استاد اور والدین ایک دوسرے سے تعاون کر کے ہی بچے کو نت نئی چیزیں سکھانے اور آگے بڑھنے میں مدد کر سکتے ہیں، کیونکہ ان دونوں کی توجہات کا مشترک مرکز بچہ ہوتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بچہ صرف اسکول ہی میں تعلیم نہیں پاتا بلکہ گھر میں بھی بہت کچھ سیکھتا ہے۔ ان معلومات کو اگرچہ تعلیم کا نام نہیں دیا جاسکتا مگر پھر بھی گھر میں سیکھی گئی چیزوں کو اسکول کی تعلیم کا سنگِ بنیاد کہا جاسکتا ہے۔ بچے کے ہر نئے تجربے اور واقفیت کو اس کی تعلیم ہی کا جزو شمار کیا جاتا ہے۔ والدین کے لیے گھر میں تنہا بچے کی مدد کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا، لہٰذا بچے کو باقاعدہ تعلیم و تربیت کے لیے اسکول میں داخل کروایا جاتا ہے اس سے بچہ گھر اور اسکول کی زندگی کے درمیان ایک خلا محسوس کرتاہے۔ چنانچہ تعلیم کے ابتدائی چند برسوں میں بچے کو سکول اور گھر کے ماحول سے ہم آہنگ کرنے کے لیے والدین اور اساتذہ کے مابین مفاہمت کا ہونا بہت ضروری ہے۔
بعض اوقات بچے کو اسکول میں جو دقتیں پیش آتی ہیں ان کی وجہ طریقہ تعلیم نہیں بلکہ گھر کے حالات بھی ہو سکتے ہیں۔ جن کا اثر بچے کے ذہن اور مزاج پر پڑتا ہے اور اس کی تعلیمی زندگی کے راستے میں حائل ہوتا ہے۔ والدین فطری طور پر بچے کی ساری مشکلات کا الزام سکول پر ڈال دیتے ہیں۔ لیکن اگر والدین اور استاد ایک دوسرے سے ملتے رہیں اور والدین اور استاد کے مابین ہم آہنگی اور تعاون ہو تو والدین کو نہ صرف بچے کی مشکلات کے صحیح اسباب معلوم ہو سکیں گے بلکہ انہیں اپنے بچے میں ایسے اوصاف اور صلاحتیں بھی نظر آئیں گی جن کا اُنہیں گمان بھی نہ ہو گا۔
اکثر اوقات اسکول میں پرانے طریقے بدلنے اور نئے طریقے رائج کرنے سے والدین پریشان ہو جاتے ہیں اور نئے حالات سے مطابقت پیدا کرنے میں انہیں بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسکولوں کے طریقہ تعلیم میں تبدیلی کا مقصد والدین کو پریشان کرنا نہیں بلکہ والدین کو بچوں سے متعلق اپنے فرائض زیادہ بہتر طریقے سے انجام دینا ہوتا ہے۔ اساتذہ کی ہرگز یہ کوشش نہیں ہوتی کہ والدین کو ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی ادارہ خواہ وہ کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو بچے کی تعلیم و تربیت کو پوری کامیابی سے تنہا انجام نہیں دے سکتا، جب تک والدین کا تعاون حاصل نہ ہو۔
بچے کی شخصیت بنانے میں والدین جتنی زیادہ مدد کرتے ہیں اتنی ہی مدد اسکول اور استاد بھی کرتا ہے تاکہ بچہ حقیقی معنوں میں اچھا انسان بن سکے۔ لہٰذا والدین اور اساتذہ کے مابین ملاقات اور باہمی ہم آہنگی کا ہونا بہت ضروری ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved