جواب: پیدائش کے وقت بچہ اگرچہ بے بس اور لاچار ہوتا ہے لیکن دنیا میں پہلا سانس لیتے ہی اس کے چند ایسے جسمانی نظام متحرک ہو جاتے ہیں جو شکم مادر میں غیر فعال اور جامد تھے؛ مثلاً عملِ تنفس، عملِ اِنہضام و اِخراج وغیرہ۔ پیدائش سے دو ماہ کے بچے کی عادات درج ذیل ہوتی ہیں:
1۔ ابتدائی ایام میں بچے کی بیداری کا دورانیہ فی گھنٹہ محض دو تین منٹ پر محیط ہوتا ہے، اس دوران وہ مستعد نظر آتا ہے، بصورت دیگر سویا رہتا ہے۔
2۔ وہ بے آرام ہونے پر رو کر فوری ردِ عمل کا اظہار کرتا ہے۔ اس دورانیے میں وہ بغیر کسی رد عمل کے اَز خود سوتے اور جاگتے میں مسکراتا ہے۔
3۔ اس عمر میں کوئی ایک کیفیت زیادہ دیر قائم نہیں رہتی۔ عین ممکن ہے کہ سوتے میں وہ اچانک رونا شروع کر دے یا یک دم چپ ہو کر سو جائے۔
4۔ وہ اکثر اپنے ہاتھ کی مٹھیاں بند رکھتا ہے۔ ان میں اگر کوئی چیز تھمائی دی جائے تو وہ اسے خاصی مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے لیکن اسے دیکھنے اور اس کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کرتا۔
5۔ وہ جسم کو حرکت دینے سے قاصر ہوتا ہے لیکن ایک ماہ کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اپنے جسم کو حرکت دینے کے ساتھ ساتھ سر کو کسی وقت دائیں بائیں گھمانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔
6۔ اس عمر میں بچے کی گردن سر کا بوجھ نہیں اٹھا پاتی جس کی وجہ سے اس کا سر ڈھلک جاتاہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اٹھاتے وقت اس کے سر کو سہارا دیا جائے تاکہ گردن کے غیر متوقع جھٹکے سے بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
7۔ بعض بچے غیر معمولی طور پر حساس طبیعت کے ہوتے ہیں اور ماحول یا جسمانی پوزیشن میں کوئی غیر متوقع تبدیلی (سوتے میں ڈرنا، کسی تیز آواز کو سن کر کانپ جانا وغیرہ) انہیں یک دم چونکا دیتی ہے۔ بچے کی یہ حساسیت اور اس کے زیرِ اثر رونما ہونے والے ردِ عمل قدرتی ہیں؛ لیکن اگر بچہ بار بار بغیر کسی وجہ کے اس کیفیت سے گزرے تو فوری معالج سے رابطہ کرنا چاہیے۔
جواب: اس عمر کا بچہ گرد و پیش کے ماحول میں خاصی دلچسپی لینا شروع کر دیتا ہے۔ رات بھر سونا اور دن کو جاگنا اس کا معمول بن جاتا ہے۔ عمر کے اس حصے میں بنیادی اہلیت اور صلاحیتیں پوری طرح بیدار نہ ہونے کی بنا پر اس کے سیکھنے کا عمل محدود رہتا ہے، تاہم اس کی عادات میں رونما ہونے والی تبدیلیاں درج ذیل نوعیت کی حامل ہوتی ہیں:
1۔ اس دوران وہ اپنے سر کو سنبھالنے اور کھڑا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے دائیں بائیں گھمانے کے قابل ہو جاتا ہے، یہ صلاحیت اسے بتدریج حاصل ہوتی ہے۔ اس کے بازوؤں اور سر کی پوزیشن کے درمیان پایا جانے والا ربط بہت حد تک اس کے اختیار میں آجاتا ہے۔ اس دورانیے میں پشت کے بل لیٹے ہوئے اکثر سر اور ٹانگوں کو بیک وقت اٹھانے کی کوشش کرتاہے۔ سیکھنے کا یہ عمل اس کی جسمانی قوت میں نمایاں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔
2۔ اس عمر میں بچہ کافی حد تک انسانی چہروں سے شناسائی حاصل کر لیتا ہے۔ اکثر و بیشتر وہ اپنے والدین اور گھر میں موجود دیگر افراد کو خوش کن مسکرا ہٹوں سے نوازتا رہتا ہے۔
3۔ عمر کے اس دور میں بچہ کوئی کام مشین کی طرح خود کار انداز میں انجام نہیں دیتا بلکہ اس کی حرکات و افعال کے پس پردہ اس کی لاشعوری وابستگی کار فرما ہوتی ہے، مثلاً اپنے چہرے پر کسی چیز کے لمس کے احساس سے وہ تھوڑی دیر کے لئے ساکت ہو جاتا ہے اور پھر فوری چھونے والی چیز کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
4۔ اس عمر میں بچے کی بصارت میں بھی اضافہ ہوتا ہے، وہ چھ سے بارہ انچ کے فاصلے تک کسی بھی چیز پر نظر جما کر اس کی ننھی ننھی جزئیات کا اندازہ لگا نے کے قابل ہو جاتا ہے۔ قریب یا دور پڑی چیز کا تعاقب کر کے اس پر نگاہ مرتکز کر سکتا ہے اور ایسی شوخ اور رنگین چیزوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو مناسب فاصلے پر مناسب رفتار سے حرکت کر رہی ہوں۔ وہ مسلسل کئی کئی منٹ اپنے ہاتھوں کو دیکھنے میں مگن رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ہاتھوں کو نزدیک لانا، انہیں ایک دوسرے سے ملانا اور ایک ہاتھ کی مدد سے دوسرے ہاتھ کو محسوس کرنا سیکھ جاتا ہے۔
5۔ اس کے وزن میں اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ پہلے سے زیادہ مضبوط دکھائی دیتا ہے۔
جواب: عمر کا یہ دور بچے کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس عمر کے بچے میں درج ذیل عادات پائی جاتی ہیں:
1۔ بچے کی دنیا پہلے سے زیادہ وسیع ہو جاتی ہے۔ عمر کے اس حصے میں اس کے جسمانی تحرک اور جوش و خروش میں متاثر کن حد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔ اکثر وبیشتر اس کا وقت ہنستے کھیلتے گزرتا ہے۔
2۔ اس عمر میں بچے کے عضلات (جسمانی پٹھے) پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ دائیں بائیں پہلو بدلنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ پیٹ کے بل لیٹے ہوئے وہ اپنے سر کو عموداً اٹھائے رکھنے اور آس پاس کے ماحول کا جائزہ لینے کی کوشش کرتاہے۔
3۔ اس دور میں ہاتھ اور آنکھ کا باہمی ربط اور سرگرمیاں مکمل استحکام حاصل کر کے بچے کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔ وہ چیزوں کی طرف ہاتھ بڑھانے اور انہیں گرفت میں لے کر قریب لانے کا کام بھی بڑی مہارت سے انجام دیتا ہے جب وہ اپنے ہاتھوں کے ذریعے مختلف چیزوں کو چھونے اور محسوس کرنے کے مشغلے میں منہمک ہوتا ہے تو اس وقت اس کا ارتکاز بہت گہرا اور طاقتور ہوتا ہے۔
4۔ اس عمر میں بچہ لیٹے یا بیٹھے ہوئے سر کو اِدھر اُدھر گھماسکتا ہے۔ اور مختلف آوازوں میں دلچسپی لیتے ہوئے انھیں غور سے سنتا ہے، مثلاََ انسانی، میوزیکل کھلونوں اور جانوروںکی آوازیں وغیرہ۔ اس کا زیادہ تر وقت جسمانی عضلات کی ورزش اور اپنی حسیات کے استعمال کی مشق میں صرف ہوتاہے۔ ہاتھوں کی انگلیوں کو کھولنا اور بند کرنا، دیکھنا، سننا اور چھو کر محسوس کرنا اس کے معمولات کا حصہ ہوتے ہیں۔
5۔ ارد گرد کے ماحول میں گہری دلچسپی لے کر ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے۔ جو افراد اس کی دیکھ بھال کرنے اور اس کی ضروریات پوری کرنے کا فریضہ ادا کرتے ہیں ان کے ساتھ وہ مضبوط رشتہ استوار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ نئے چہروں کو دیکھ کر مسکرانا اور اپنائیت کا اظہار کرنا بھی اس کے مشاغل میں شامل ہوتا ہے۔
6۔ اس عمر میں قوتِ سامعہ اور قوتِ باصرہ یعنی سننے اور دیکھنے کی حسیات کے درمیان ہم آہنگی اور ربط پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ آوازوں کو سن کر ان کی سمت دیکھنا اور ان سے کوئی نہ کوئی تصور وابستہ کرنا سیکھ جاتا ہے۔ اس اہلیت میں روز بروز بہتری پیدا ہوتی ہے۔
جواب: چار سے چھ ماہ کے دوران درج ذیل دو امور خصوصی توجہ کے حامل ہوتے ہیں:
1۔ قوتِ سامعہ کے ممکنہ مسائل
2۔ بچے کا دانستہ رونے کا عمل
یہ دونوں امور اپنی جگہ انتہائی اہم اور نازک حیثیت رکھتے ہیں ان میں سے ایک کا تعلق بچے کی جسمانی اور دوسرے کا نفسیاتی پہلو سے ہے۔
بچے کی سماعت کی نشو و نما پر مسلسل نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ تیسرے مہینے میں بچہ مختلف آوازوں میں دلچسپی کا اظہار کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ دلچسپی آگے چل کر اس کی قوتِ گویائی یعنی بولنے کی طاقت کی صحت مندانہ تعمیر کا باعث بنتی ہے۔ سماعت کے ذریعے وہ نہ صرف بولنا سیکھتا ہے بلکہ اس کی ذہانت کی نشو و نما اور سماجی روابط کی استواری بھی اسی وسیلے سے ہوتی ہے۔
سماعت کے مسائل موروثی بیماری، کسی انفیکشن یا والدین کی لاپرواہی کی وجہ سے پیدا ہو سکتے ہیں۔ عمر کے پہلے دو سالوں کے دوران بیماریوں کے خلاف بچے کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔ اگر فوری اور مناسب توجہ نہ دی جائے تو ایسے مسائل بچے کی سماعت کو نہ صرف متاثر کر سکتے ہیں، بلکہ خدانخواستہ ختم بھی کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ ایسے مسائل کا ابتداء سے ہی سدباب کیا جائے۔
بچے کی سماعت کو پرکھنے کے لیے جب وہ کسی دیگر مصروفیت میں مگن نہ ہو تو چھ سے دس فٹ کے فاصلے پر اس کی نگاہ کے دائرے سے باہر کھڑے ہو کر اسے نارمل آواز میں پکارا جائے۔ چند سیکنڈ کے اندر بچہ رکے گا اور پھر فوری آواز کی جانب رخ کرے گا۔ عموماً ایسے میں وہ مسکراتا بھی ہے۔ تھوڑی دیر بعد کسی دوسرے زاویے پر کھڑے ہو کر یہی عمل دہرایا جائے اس عمل کو مزید چند دن مختلف اوقات میں دہرایا جائے لیکن اگر اس دورانیے میں وہ آواز پر مناسب ردِ عمل کا اظہار نہیں کرتا تو پھر اسے کان کے اسپیشلسٹ کے پاس لے جایا جائے۔ اس ضمن میں معمولی غفلت کا مظاہرہ بچے کی سماعت کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
بعض بچوں میں دانستہ رونے کا عمل عموماً ساڑھے تین ماہ سے شروع ہوتا ہے اور پھر روز بروز اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں والدین کو تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ان کی ذرا سی غفلت بچے کے وقت بے وقت رونے کے عمل کو عادت میں بھی منتقل کر سکتی ہے۔
لہٰذا والدین بچے کے لیے ایسی دلچسپیاں اور سرگرمیاں فراہم کریں جن میں منہمک ہو کر وہ اپنا وقت اچھے طریقے سے گزار سکے۔ اسے چھوٹے چھوٹے کھلونے فراہم کیے جائیں جس سے اسے اپنی جسمانی اہلیت و صلاحیت کی مشق کرنے اور گرد و پیش کے ماحول کو بنظر غور دیکھنے میں دلچسپی پیدا ہو اور وقتاً فوقتاً گھر کے باہر کے ماحول سے آشنائی حاصل کرنے کے لیے اسے گھمانے پھرانے بھی لے جایا جائے۔ اس سے بچے کو رونے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی اور وہ بگڑنے سے بھی محفوظ رہے گا۔ لیکن اگر بچے کے رونے کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہو اور وہ کسی طور بہلتا نظر نہ آئے تو اسے کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس لے جایا جائے۔
جواب: چھ سے آٹھ ماہ کے بچے کو اپنے جسم پر تقریباً پورا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ اس کی قوتِ سماعت اور بصارت میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کا تجسس بھی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اس عمر کے بچے میں درج ذیل عادات پائی جاتی ہیں:
1۔ ہاتھوں اور آنکھوں کے افعال اس دور میں بچے کی توجہ کے حامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ وہ چلنے کے قابل نہیں ہوا ہوتا تاہم ہاتھوں اور پاؤں کے بل چلنے یا لڑھکنے کی کوشش کرنا اس کی جسمانی سرگرمیوں کا ایک نمایاں حصہ ہوتا ہے۔ اس طرح اس کے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان ہم آہنگی اور ربط پیدا ہوتا ہے۔ اس عمر کے بچے کا فطری تجسس اسے ہر چیز کھوجنے پر مجبور کرتا ہے۔وہ کھلونے پکڑنے اور پھینکنے میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس طرح اس کی جسمانی صلاحیتوں کی مشق ہوتی ہے جو اس کی ذہانت کی نشو و نما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
2۔ جذباتی حوالے سے اس دور کے پہلے نصف حصے میں بچے کا مزاج عموماً خوش گوار رہتا ہے اور وہ مختلف آوازوں سے اپنی خوشی کا اظہار کرتاہے۔ آشنا چہروں کے ساتھ بہت اپنائیت کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ اجنبی چہروں سے بھی خوش مزاجی برتتا ہے۔ البتہ جب اس کے دانت نکلنا شروع ہوں تو خاصا چڑچڑا ہو جاتا ہے۔ بہرحال جسمانی تکلیف سے قطع نظر اس دور کا بچہ بہت ملنسار اور خوش مزاج ہوتا ہے اور ہر ملنے والے کا دل جیت لیتا ہے۔
3۔ چھ ماہ کی عمر گزرنے کے بعداس کے سماجی رویوں میں غیر معمولی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ پہلے وہ ہر چہرے کو - خواہ اپنا ہو یا بیگانہ - دیکھ کر مسکراتا تھا لیکن چھ ماہ کی عمر کے بعد اجنبی چہروں کو دیکھ کر اس کے انداز میں سرد مہری سی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ تبدیلی صرف نئے آنے والوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ ایسے افراد بھی اس کی زد میں آتے ہیں جن سے بچے کا واسطہ کبھی کبھار پڑتا ہے؛ مثلاً چند دنوں کے وقفے سے ملنے کے لیے آنے والے عزیز اور رشتہ دار وغیرہ۔ اگر ایسے افراد غیر متوقع طور پر اسے گود میں لینے یا پکڑنے کی کوشش کریں تو بچہ اچانک خوف زدہ بھی ہوجاتا ہے۔ بچے کی مزاجی کیفیت میں آنے والی یہ تبدیلی عموماً دو ماہ تک برقرار رہتی ہے۔
4۔ اس دور کی ابتداء میں بچہ آوازوں پر ردِ عمل کا اظہار تو کرتا ہے لیکن ان سے کسی طرح کے معانی اخذ کرنے سے قاصر ہوتا ہے تا ہم آٹھ ماہ میں وہ چند سادہ الفاظ مثلاََ اﷲ، ماما، بابا یا امی، ابو وغیرہ کو سمجھنے اور ان کے درست معانی اخذ کرنے کی اہلیت حاصل کرلیتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد وہ اپنے نام کو بھی پہچاننے لگتا ہے۔ عموماً اس عمر کے بچے کا ذخیرہ الفاظ بڑا منفرد اور یکتا ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو اپنی محدود اہلیت اور فہم کے مطابق ایک نام دیتا ہے۔
جواب: بچے کی ذہانت کے بنیادی ارتقا کا آغاز ساڑھے پانچ ماہ کی عمر سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اس ارتقا کے تین درجے ہوتے ہیں:
ذہانت کے ارتقا کا پہلا درجہ بچے کا جذبہ تجسس ہے۔ وہ ہر چیز کی بناوٹ، جسامت اور اس کے بارے میں ہر حوالے سے جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اس جذبے کی تسکین کی خاطر وہ مختلف حرکات بھی سر انجام دیتا ہے مثلاََ کبھی اپنے سامنے پڑی ہوئی کسی شے کو گرانے، اسے منہ میں ڈالنے، اس میں انگلی پھنسانے یا اسے گھسیٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں اپنی جسمانی صلاحیتوں کو وہ مختلف اشیاء پر آزماتا ہے اور یہی اشیاء اس کی توجہ کا خاص مرکز بنی رہتی ہیں اور یہ آزمائش اس کی ذہانت کے ارتقا کی نشاندہی کرتی ہے۔
ذہانت کے ارتقا کا دوسرا درجہ بچے کی قوتِ مشاہدہ ہے۔ وہ کسی چیز کو گرانے کے بعد اسے نظر انداز نہیں کرتا بلکہ بغور اس کا جائزہ لیتا ہے اور مختلف عمل کر کے ان کے ردِ عمل کا مشاہدہ کرتا ہے۔ عمر کے اس حصے میں عمل کرنے کے ضمن میں اس کی جسمانی اہلیت محدود ہوتی ہے۔ چنانچہ ایسے کھلونے جو آواز پیدا کرتے ہوں یا جن کا میکنزم اس قسم کا ہو کہ کسی ایک حصے کو دبانے سے آواز بھی پیدا ہو، بچے کی دلچسپی کا خصوصی مرکز بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دوسروں کو مار کر یا کاٹ کر ان کے ردِ عمل کا مشاہدہ کرنے میں بھی دلچسپی ظاہر کرتا ہے۔ جوں جوں بچے کا مشاہدہ گہرا ہوتا ہے اسی اعتبار سے گرد و پیش کے متعلق اس کی ذہانت بڑھتی جاتی ہے۔
ذہانت کے ارتقا کا تیسرا درجہ بچے کی یادداشت ہوتی ہے۔ سات سے آٹھ ماہ کی عمر کے دوران بچے میں قلیل مدتی یادداشت کی تعمیر شروع ہوتی ہے۔ یعنی وہ مختلف یادوں کو ایک مختصر وقفے تک کے لیے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ عمل اور ردِعمل کے مختلف تجربات سے حاصل ہونے والی معلومات کو بچے کا ذہن کم از کم چوبیس گھنٹے تک کے لیے محفوظ رکھتا ہے لیکن ان تجربات کو بار بار دہرانے سے یہ معلومات ہمیشہ کے لیے اس کی شعوری یادداشت کا حصہ بن جاتی ہیں۔
جواب: بچے کی ذہنی صلاحیتوں کی مختلف سطحیں ہوتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی نشو و نما کا طریقہ کار علیحدہ ہوتا ہے۔ اگرچہ ایسی کاوشوں کا فوری ردِ عمل ظاہر نہیں ہوتا لیکن کچھ عرصے کی محنت کے بعد ان کے ثمرات سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس ضمن میں چند ضروری اقدامات درج ذیل ہیں:
1۔ اس عمر کے بچوں کو عمل اور ردِ عمل کے سلسلے سے دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر والدین بچے کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا کے اس کے سامنے لائٹ کا سوئچ دو چار مرتبہ آن آف کریں اور چند مرتبہ یہ عمل دہرائیں تو جلد ہی وہ بھی اس سوئچ سے کھیلنے میں دلچسپی لینا شروع کر دے گا۔ اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی کے بٹن دبانے میں بھی اسے خصوصی دلچسپی پیدا ہوجائے گی لیکن چونکہ ایسی چیزوں سے بچوں کو محفوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے، اس لئے بہتر ہوگا کہ اس کے لئے مارکیٹ سے ایسے کھلونے خریدے جائیں جو عمل اور ردِعمل کے اصول پر تیار کیے گئے ہوں مثلاً جو بٹن دبانے سے چلنے یا بولنے لگیں۔
2۔ بسا اوقات اس عمر کا بچہ کسی قابلِ توجہ چیز کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر کوئی رکاوٹ راستے میں آجائے تو اسے ہٹا کر خوشی محسوس کرتا ہے۔ اگر ایسی رکاوٹیں بار بار اس کی راہ میں آتی رہیں تو وہ جلد ہی انہیں ہٹانے میں ماہر ہوجاتا ہے۔ اس چھوٹے سے کھیل سے بچے کی ذہنی صلاحیتوں کی نشو و نما میں واضح بہتری آتی ہے۔
3۔ تمام تر حفاظتی تدابیر پر کار بند رہتے ہوئے بچے کو از خود نقل و حرکت کی آزادی فراہم کی جانی چاہیے۔ اس طرح اس کے فطری تجسس کی تسکین کے ساتھ ساتھ اس کی دلچسپی بھی بڑھتی رہے گی۔ بچے کے لئے نقل و حرکت کا بہترین ذریعہ واکر اور crawling ہے جس کے ذریعے نہ صرف بچے کو ٹانگوں کی ورزش کرنے کا موقع ملتا ہے بلکہ اس طرح اس کے کھڑے ہونے اور چلنے میں بھی آسانی پیدا ہوتی ہے۔
جواب: آٹھ ماہ کے بچے کی نگہداشت میں والدین کو مختلف النوع مشکلات پیش آتی ہیں۔ مثلاً:
1۔ بعض بچوں کی نیند کا معمول درست نہیں ہوتا جس کی وجہ سے نہ صرف والدین کی نیند بلکہ روزمرہ کے معاملات بھی متاثر ہوتے ہیں۔
2۔ بعض بچوں کے دانت وقت سے پہلے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں تو وہ اپنی تکلیف سے مجبور ہو کر خاصے چڑچڑے اور بیمار ہو جاتے ہیں جو والدین کے لئے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔
3۔ اس عمر کے بچے ہاتھوں اور پاؤں کے بل crawling کی اہلیت حاصل کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے بچوں کو سنبھالنا اور ان کی دیکھ بھال کرنا نسبتاً زیادہ کٹھن ہوتا ہے۔
4۔ اس عمر کے بچے توجہ حاصل کرنے اور والدین کی گود میں چڑھنے کے لئے رونے کا ہتھیار استعمال کرنا معمول بنا لیتے ہیں اور پھر والدین کو پریشان کرتے ہیں۔
الغرض اس عمر کے بچوں کی نگہداشت کے حوالے سے بہت سی پریشانیوں کا سامنا والدین کو کرنا پڑتا ہے۔ ان کی ذمہ داری پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ بچے کی اس عمر میں والدین کے فرائض میں صرف اس کی جسمانی ضروریات کا خیال رکھنا ہی نہیں رہتا بلکہ انہیں بچے کو ان خطرات سے بھی بچانا ہوتا ہے جو وہ لاعلمی اور معصومیت کے عالم میں اپنے لیے پیدا کرتا رہتا ہے۔ بچے کی اہلیت کو نکھارنے کے حوالے سے والدین کی ذرا سی غفلت بچے کی نشو و نما کو متاثر کرنے کا موجب بن جاتی ہے۔
لہٰذا والدین پریشانی کے ظہور کا سبب بننے والے عوامل پر آغاز سے ہی توجہ دے کر ان کے تدارک کے لئے اقدامات کریں۔ والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسے بچے کو چاہے جانے کا احساس دلاکر اسے ضد کرنے کی عادت نہ پڑنے دیں۔ کھیل ہی کھیل میں بچے کی مختلف چیزوں کی طرف دلچسپی بڑھا کر اسے زیادہ سے زیادہ سیکھنے کا موقع دیں۔ بچے کو ایسی متنوع اور رنگا رنگ دلچسپیاں فراہم کریں کہ اس کی توجہ بٹی رہے۔ اس کے لئے والدین کا بچوں کی ذہنی و جسمانی ارتقا کے مراحل سے بخوبی واقف ہونا بھی ضروری ہے تاکہ پیش آمدہ مشکلات پربر وقت قابو پانے کی تدابیر اختیارکی جا سکیں۔ بصورت دیگر نشوونما کی ارتقائی منازل کو حاصل کرنے میں کسی قسم کی کمی بچے کی آئندہ زندگی میں جذباتی عوارض کو جنم دے سکتی ہے۔
جواب: بچے کی عمر کا یہ دورانیہ نہ صرف اس کی سماجی بلکہ ذہنی بالیدگی کے اعتبار سے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس دوران تجربات سے گزر کر اس کی شخصیت، عادات اور عمومی مزاج تشکیل پاتے ہیں۔ والدین سے ملنے والی موروثی خصوصیات کے علاوہ ان کی براہِ راست صحبت بھی بچوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس عمر کا بچہ درج ذیل عادات کا حامل ہوتا ہے:
1۔ اگرچہ بچہ عمر کے چھٹے مہینے سے ہی مختلف الفاظ پر ردعمل کا اظہار کرنا شروع کردیتا ہے تاہم اصلاً الفاظ کے مفہوم سے آشنائی حاصل کرنے کے عمل کا آغاز ساتویں اور آٹھویں مہینے کے دوران ہوتا ہے۔ بارہ ماہ تک کا بچہ عموماً پانچ سے دس الفاظ کے معانی سمجھنے اور چند سادہ ہدایات مثلاً ’بیٹھ جاؤ‘، ’نہیں کرو‘ اور ’کھڑے ہو جاؤ‘ وغیرہ پر عمل کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
بچے کی قوتِ گویائی اس کی اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کی نشان دہی کرتی ہے۔ اگر وہ اپنی پہلی سالگرہ تک دو دو الفاظ کے جملے بنانے لگے اور پچاس کے لگ بھگ الفاظ اس کے ذخیرہ الفاظ میں شامل ہو جائیں تو یہ غیر معمولی ذہانت کی نشانی ہے۔
2۔ اس عمر کے بچے کا گرد و پیش اور اپنی جسمانی قابلیتوں سے ایک ابتدائی تعارف ہوتا ہے اور وہ مختلف افعال و حرکات کا تجزیہ کر کے ان سے آشنائی حاصل کرتا ہے۔ اسی دور میں بچے کی ذہانت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
3۔ اس عمر کا بچہ ناقابل یقین حد تک متجسس ہوتا ہے۔ جب وہ خود چلنے پھرنے کے قابل ہو جاتا ہے تو اردگرد کی ہر شے کا مشاہدہ کرتا اور اپنے تجسس کی درست خطوط پر حوصلہ افزائی کا متمنی ہوتا ہے۔
4۔ اس دوران بچہ سماجی تعلقات کے حوالے سے ارتقاکے مراحل میں ہوتا ہے اس کی سماجی زندگی کا دار و مدار دیکھ بھال کرنے والے کئی افراد مثلاً ماں باپ، بہن بھائی پر ہوتا ہے۔ ان میں سے ماں وہ واحد ہستی ہوتی ہے جو اس کا مرکز و محور قرار پاتی ہے کیونکہ اس عمر میں وہ اپنی ماں کے ساتھ مضبوط تعلق استوار کرتا اور اس کے مزاج سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد اس کے موڈ کو پہچاننا سیکھ جاتا ہے۔
5۔ اس عمر کا بچہ گھٹنوں کے بل چلنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ قدم اٹھانے کابھی آغاز کر دیتا ہے۔ کھیل یعنی گیند کو پکڑنا اور پھینکنا، کھلونوں کو توڑنا، پھر ان کو جوڑنے کی کوشش کرنا؛ اس عمل سے وہ لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر اسے دف کے ساتھ نعت یا ردھم اور ترنم کی صورت میں نظم سنائی جائے تو وہ اس سے محظوظ ہوتا ہے۔
جواب: بچوں کو جسمانی نشو و نما میں بہت سے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے بعض بچوں میں عمر کے اوسط وزن کی نسبت چربی کی بڑی مقدار ذخیرہ ہوجاتی ہے جسے طبی نقطہ نظرمیں موٹاپا کہا جاتا ہے۔ درج ذیل چند عوامل ایسے ہیں جنہیں بچپن میں موٹاپے کا سبب قرار دیا جاسکتا ہے:
1۔ دوران حمل ماں کا مختلف بیماریوں کی صورت میں ادویات کا استعمال مثلاً: شوگر کی وجہ سے انسولین اور جسمانی کمزوری کے باعث ڈرپ اور ملٹی وٹامنز کا استعمال بچوں کے موٹاپے کا باعث بنتا ہے۔
2۔ بعض بچے اپنے جینیاتی عوامل کی وجہ سے بھی موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں۔
3۔ غذا موٹاپے کے اہم ترین عوامل میں سے ایک ہے۔ حراروں کی مقدار بڑھانے میں وقت بے وقت کھانا کھلانا یا چپس کا ضرورت سے زیادہ استعمال شامل ہے جو موٹاپے کا باعث بنتے ہیں۔
4۔ زیادہ تر میٹھی غذائیں اور مشروبات دینے سے بھی بچے موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں۔
5۔ بچوں کو صحت مند بنانے کی فکر میں لاحق والدین انہیں ضرورت سے زیادہ ملٹی وٹامنز اور ڈبے کا دودھ دیتے ہیں جو صحت مند بنانے کی بجائے ان کے لیے موٹاپے کا باعث بنتے ہیں۔
جواب: بچوں میں موٹاپا ایک طبی اصطلاح ہے۔ عموماََ یہ خیال کیاجاتا ہے کہ بچے صحت مند ہو رہے ہیں لیکن وہ تیزی سے فربہی کی جانب مائل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بعد میں آنے والی زندگی میں بچے صحت کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں بچوں کو موٹاپے سے روکنے کے لیے والدین کو ان کے diet plan میں بھر پور عملی کردار ادا کرنا چاہیے۔ درج ذیل اقدامات پر عمل کر کے بچوں کو موٹاپے سے روکا جائے:
1۔ بچے کی صحت اور وزن کو برقرار رکھنے کے لیے اسے دودھ اور ٹھوس غذا کی مقدار ضرورت سے زیادہ دینے سے پرہیز کیا جائے۔ فارمولا دودھ کی بجائے مدر فیڈنگ موٹاپے کو روکنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
2۔ اسے شیڈول کے مطابق بر وقت غذا فراہم کی جائے کیونکہ بھوک لگنے کی صورت میں اس کا زیادہ کھانا بھی موٹاپے کا باعث بن سکتا ہے۔
3۔ کوشش کی جائے کہ بچے کی غذا میں زیادہ تر پھل اور سبزیاں شامل ہوں اوربچے کو گھر میں کھلائی جانے والی ٹھوس غذا تلنے کی بجائے بھاپ میں تیار کی جائے۔
4۔ میٹھے مشروبات اور زیادہ تلی ہوئی اشیاء بچے کو دینے سے پرہیز کیا جائے۔
5۔ بچے کو ڈاکٹر کے مشورہ کے مطابق ہلکی پھلکی ورزش کروائی جائے اور زیادہ وقت گود میں اٹھانے کی بجائے اپنی نگرانی میں کھیلنے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ وہ موٹاپے کا شکار نہ ہو سکے۔
جواب : بچوں کے چلنے پھرنے کی اوسط عمر تقریباً تیرہ ماہ ہوتی ہے لیکن عموماً بچے بارہ سے اٹھارہ ماہ کے درمیان چلنا شروع کر دیتے ہیں جب کہ کچھ بچے وقت سے پہلے اور کچھ تاخیر سے چلتے ہیں۔
عموماً آٹھ ماہ تک زیادہ تر بچے سہارا لے کر اپنا بوجھ اپنے پاؤں پہ اٹھا لیتے ہیں۔ اگر بچہ ذرا مشکل محسوس کرے تو اسے ’بے بی واکر‘ میں بٹھا کر اپنا بوجھ اٹھانے کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔ اکثر بچے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر کسی کے سہارے سے آگے بڑھنا پسند کرتے ہیںانہیں سہارا دے کر اور پکڑ کر آگے بڑھنے اور اپنے پاؤں پر وزن ڈالنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
ابتدائی عمر میں بچوں کو ہلکی پھلکی ورزش کروانے سے یا واکر میں بٹھا کر چلانے سے جسمانی پٹھوں کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ وہ جلدی چلنا بھی شروع کر دیتے ہیں جبکہ اس کے برعکس موٹے، کمزور یا زیادہ گود میں اٹھانے کی وجہ سے بچے اکثر تاخیر سے چلنا شروع کرتے ہیں۔
جواب:
ٹیکہ | پیدائشی خوارک | پہلی خوراک | دوسری خوراک | تیسری خوراک | پہلا بوسٹر | دوسرا بوسٹر |
بی سی جی | وقتِ پیدائش | / | / | / | / | / |
پولیو کے قطرے | وقتِ پیدائش | ڈیڑھ ماہ | اڑھائی ماہ | ساڑھے تین ماہ | ڈیڑھ سال سے دو سال | پانچ سال |
ڈی پی ٹی کا ٹیکہ | / |
ڈیڑھ ماہ |
اڑھائی ماہ | ساڑھے تین ماہ | ڈیڑھ سال سے دو سال | پانچ سال (صرف DT کا ٹیکہ) |
ہیپاٹائٹس بی کا ٹیکہ | وقتِ پیدائش | ڈیڑھ ماہ | چھ ماہ | / | پانچ سال | |
ڈی پی ٹی + ہیپاٹائٹس بی (مشترک) | / | ڈیڑھ ماہ | اڑھائی ماہ | ساڑھے تین ماہ | ڈیڑھ سال | 5 سال (صرف ڈی ٹی) |
ہیب کی بیماریاں | / | ڈیڑھ ماہ | اڑھائی ماہ | ساڑھے تین ماہ | / | / |
خسرہ |
/ |
9 ماہ سے ایک سال کی عمر | / | / | / | / |
ہیپاٹائٹس اے | / | ایک سال | ڈیڑھ سال | دو سال | / | / |
جواب: بچے مختلف خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں ان کی بہترین پرورش کے لیے ان کی نفسیات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اگرچہ پیدائش سے لے کر بلوغت کے مسائل تک بچوں کو سمجھنا ایک صبر آزما کام ہے، تا ہم والدین بالخصوص ماں ان کی ذہنی کیفیات، حرکات و سکنات اور ان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بغور جائزہ لے کر درج ذیل طریقوں سے ان کی نفسیات کو سمجھ سکتی ہے:
بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہوئے ان کا اچھی طرح مشاہدہ کرنے سے ان کی پسند نا پسند کو جاننے میں مدد ملتی ہے کہ کن افراد کے ساتھ وہ اپنائیت کا اظہار کرتے ہیں اور کن افراد کے ساتھ گھلنے ملنے میں وقت لیتے ہیں۔ اس طرح ماں بچوں کے مزاج، طبیعت اور ان کے رجحانات کا اندازہ لگا کر ان کی شخصیت کی کردار سازی کر سکتی ہے۔
بچوں کے ساتھ دوستانہ اور خوش گوار رویہ ان کی نفسیات کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ بعض والدین ملازمت کرنے کی وجہ سے اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار پاتے اور انہیں میڈ (maid) کے سپرد کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ والدین کو بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہیے تاکہ ان کی نفسیات کو سمجھ کر ان کی نشو و نما کا جامع لائحہ عمل تیار کر سکیں۔
بچے کی پرورش کے ساتھ ساتھ اسے اس کی دلچسپی کی چیزیں بھی فراہم کی جائیں اور اس کے ساتھ کھیلا جائے۔ اسے گھمانے کے لیے باہر لے جایا جائے۔ اس طرح بھی بچے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
جواب: بولنے کا عمل ہر بچے میں مختلف ہوتا ہے۔ عموماً بچے پیدائش سے ایک سال کے دوران چھوٹے چھوٹے الفاظ بولنا شروع کردیتے ہیں اور جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے ان کی قوت گویائی کی صلاحیت میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ لیکن بعض اوقات صحت مند اور چاق و چوبند ہونے کے باوجود کچھ بچے دیر سے بولنا شروع کرتے ہیں۔ اس کی درج ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں:
1۔ اگر ماں اور باپ دونوں ہی ملازمت کرتے ہوں، بچوں کی مکمل دیکھ بھال میڈ (maid) کے سپرد ہو یا ان کی پرورش ڈے کیئر سنٹر (day care centre) میں ہو تو ایسے بچے تاخیر سے بولتے ہیں اور الفاظ کی ادائیگی میں انہیں مشکل پیش آتی ہے
2۔ بچوں کی جسمانی اور دماغی کمزوری بھی تاخیر سے بولنے کا سبب ہے۔
3۔ بسا اوقات والدین بچوں کے بولنے پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کرتے اور اپنی مصروفیت میں انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کے بولنے اور سیکھنے کی صلاحیت میں کمی رہ جاتی ہے۔
4۔ اس عمر میں کسی گہری چوٹ کی وجہ سے بھی بچوں کوبولنے میں مشکل پیش آتی ہے۔
5۔ بعض اوقات پیدائشی نقص جیسے لکنت یا ہکلاہٹ کی وجہ سے بھی بچے تاخیر سے بولتے ہیں۔
جواب: بچوں کو متوازن اور ٹھوس غذا کھانے کی طرف راغب کرنا اور اس کا عادی بنانا ایک تدریجی عمل ہے۔ ایسے بچوں کو کھانے کی طرف درج ذیل طریقوں سے مائل کیا جاسکتا ہے:
1۔ بچوں کو کھانے کی رغبت دلانے میں خصوصاََ ماں کی مکمل توجہ اور رویہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ اسے پیار سے بہلا کر کھانے کا عادی بنائے۔
2۔ مخصوص غذاؤں کا کثرت سے استعمال انہیں کھانے سے متنفر کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے مثلاََ دن بھر ٹھوس غذا دینے سے لاپرواہی برتتے ہوئے صرف دودھ پر انحصار کرنا۔
3۔ بچوں کی پسند و ناپسند کو جانچنے کے لیے انھیں مختلف اوقات میں مختلف النوع غذائیں دی جائیں مثلاََ کھچڑی، دلیہ، کسٹرڈ، دہی، فرنی، سوجی کا حلوہ، آلو کی چپس وغیرہ تاکہ بعد ازاں مرغوب غذاؤں کو ان کے مینیو میں شامل کیا جا سکے۔
4۔ تازہ جوس، ملک شیک اور پھلوں اور سبزیوں کا استعمال مثلاَ کیلا، سیب، آم، امرود، گاجر وغیرہ بچوں کو کھانے کی طرف راغب کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
جواب: والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو ایسا لباس پہنائیں جس میں وہ زیادہ خوبصورت اور پرکشش نظر آئیں۔ اس کے علاوہ لباس ایسا ہو جسے دیکھ کر دوسرے اچھے تبصرے کریں۔ جب کہ ایک سال کے بچوں کا لباس ایسا ہونا چاہیے جو بچوں کے لیے آرام دہ اور موسم کے حوالے سے اس کی جسمانی ضروریات کے مطابق ہو، کیوں کہ لباس کی خوبصورتی کی حیثیت ثانوی ہے۔ لباس کے حوالے سے اس کی ضروریات درج ذیل ہیں:
1۔ لباس ڈھیلا ڈھالا اور آرام دہ ہو۔
2۔ اسے پہنانا اور اتارنا آسان ہو۔
3۔ اسے دھونا اور خشک کرنا آسان ہو۔
4۔ لباس بہت زیادہ بھاری نہ ہو اور موسم کی مناسبت سے ہو۔
5۔ بچوں کو بہت زیادہ چست کپڑے نہیں پہنائے جانے چاہییں۔
6۔ ایسے لباس سے خصوصی طور پر احتراز برتنا چاہیے جو گردن پر تنگ ہو۔
7۔ بچوں کو ایسے کپڑے نہیں پہنانے چاہییں جو آسانی سے آگ پکڑ لیتے ہوں۔
8۔ بچے کے لباس کا بہت حد تک انحصار درجہ حرات پر ہوتا ہے۔ بعض اوقات گرمیوں میں گرم اور سردیوں میں ہلکے پھلکے کپڑے پہنانے کی ضرورت پیش آسکتی ہے کیونکہ گھر کا درجہ حرات مخصوص سطح پر رکھنا والدین کے اختیار میں ہوتا ہے۔
جواب: پیدائش سے ایک سال کے بچے کی نشو و نما کے تناسب کا سرسری جائزہ درج ذیل ہے:
1۔ پیدائش سے کچھ ہفتوں کے بچے کو الٹا لٹانے سے وہ اپنا چہرہ دائیں بائیں گھما نے، نرمی سے گرفت کرنے اور روشنی پہ آنکھیں جما نے کا اہل ہو جاتاہے۔ اس عمر کے بچے کو ہر ایک سے دو گھنٹہ میں مدر فیڈنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔
2۔ ایک سے دو ماہ کا بچہ چیزوں کو بغور دیکھنا شروع کردیتا ہے۔ افرادِ خانہ کی آوازوں پر متوجہ ہوکر مسکراتا اور سر اوپر اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ روشن چیز کی حرکت کا پیچھا کر سکتا ہے۔
3۔ دو سے تین ماہ کا بچہ ماں کی آغوش میں سکون محسوس کرتا ہے، از خود اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو حرکت دینے کے قابل ہو جاتا ہے اس عمر میں مدر فیڈ نگ کے ساتھ ساتھ گرائپ واٹر چمچ کے ساتھ پی سکتا ہے۔
4۔ تین سے پانچ ماہ کا بچہ اونچی آواز سے ہنستا اور مانوس چہروں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ ماں اور دوسرے افراد میں تمیز کر سکتا ہے۔ اٹھنے اور بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ سر اور کمر بستر سے اٹھا سکتا ہے۔ ہاتھ کے انگوٹھے یا انگلی کو چوستا اور چیزوں کو مضبوط گرفت سے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اور آواز دینے والے کھلونوں سے کھیلتا ہے۔ اس عمر میںبچہ ماں کے دودھ کے ساتھ ٹھوس غذائیں مثلاََ کیلے کا ملک شیک، ابلا ہو آلو، cerelac وغیرہ لینے کے قابل ہو جاتا ہے۔
5۔ چھ سے سات ماہ کی عمر سے دانت نکلنے کا آغاز ہو جاتا ہے اس لیے بچہ چیزوں کو پکڑتا اور منہ میں ڈالتا ہے۔ ماں کی آواز پر متوجہ ہوتا اور قریبی افراد سے اپنائیت کا مظاہرہ کرتا ہے جبکہ اجنبیوں کے پاس جانے سے کتراتا ہے۔ چند الفاظ مثلاــ اللہ، بابا اور اماں بول سکتا ہے۔
6۔ آٹھ سے نو ماہ کا بچہ اپنا نام سن کر متوجہ ہوتا ہے۔ماں کے نظر انداز کرنے یا منظرِ عام سے غائب ہونے پر روتا ہے۔ گھٹنوں کے بل آگے بڑھنے کی کوشش کرتا اور کسی کا سہارا لے کر کھڑا ہوسکتا ہے۔ اس عمر کا بچہ پھل، روٹی، چاول وغیرہ کھانے کے قابل ہو جاتا ہے۔
7۔ دس سے بارہ ماہ کا بچہ سادہ کھلونوں سے کھیلتا ہے،ہاتھ پکڑ کر چل سکتا ہے اور کھڑا ہوکر قدم بڑھانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے الفاظ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ باتوں کو سمجھنے بھی لگتا ہے۔ اس عمر میں بچے کے کئی دانت بھی ظاہر ہو جاتے ہیں۔ اس عمر کے بچے کے غذائی شیڈول میں چاول، روٹی، گوشت کے باریک ریشے اور مچھلی وغیرہ شامل ہیں۔
جواب: بچوں کی نشو و نما متاثر کرنے والے عوامل میں بیماریاں اہم ترین ہیں۔ ان کی صحت مند پرورش کے لیے والدین کو بنیادی حقائق کا علم ہونا ضروری ہے۔ ذیل میں بچوں کو لاحق ہونے والی چند بیماریوں کا تذکرہ اوران کا علاج تجویز کیا جا رہا ہے:
نارمل صحت مند بچے کے جسم کا درجہ حرارت 98.6Fo یا 37Co ہوتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے درجہ حرارت بڑھ جائے تو اسے بخار کہا جاتا ہے۔ اس حالت میں بچے کا جسم گرم اور نبض کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔ اگر خدانخواستہ بچے کا درجہ حرارت 101Fo یا اس سے بڑھ جائے تو درجہ حرارت کم کرنے کے لیے فوری طور پر اس کو نارمل پانی سے نہلایا جائے یا اس کے ماتھے، چہرے، پائوں اور ہاتھوں پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کی جائیں اور پانی یا لیکوڈ اشیاء پینے کو دی جائیں تاکہ جسم میں پانی کا تناسب ضروری سطح پر برقرار رہے اور ایمرجنسی کی صورت میں ہسپتال یا ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔
بچوں میں قوت مدافعت کی کمی، موسم کی تبدیلی اوربے احتیاطی کی وجہ سے مختلف وائرس اور جراثیم ان پر جلد حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس سے وہ نزلہ اور زکام کا شکار ہو جاتے ہیں اور والدین کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں بچوں کو چکن سوپ اورنیم گرم پانی میں تھوڑا سا شہد ملا کر دن میں دو سے تین بار پلایا جائے۔ کھٹی اور ٹھنڈی چیزوں سے پرہیز کیا جائے۔ اس کے علاوہ بچے کو بھاپ بھی دی جائے۔ نزلہ و زکام کی زیادتی سے ناک سرخ ہو جاتا ہے جو بچے کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے، اس حالت میں ماں کو چاہیے کہ وہ بچے کے ناک پر کولڈ کریم یا سرسوں کا تیل لگائے۔ اس سے نہ صرف نتھنے نرم رہیں گے بلکہ بچہ سوزش اور جلن سے بھی محفوظ رہے گا۔ علاوہ ازیں بچے کے زیرِ استعمال رومال اور تولیہ وغیرہ کو بھی الگ رکھا جائے۔
بچوں میں کھانسی عام طور پر بیکٹریا یا وائرس کی انفیکشن، موسم کی تبدیلی یا کھٹی اور ٹھنڈی اشیاء دینے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ تاہم اس عمر کے بچوں کو گلے کی خرابی کی شکایت بہت کم لاحق ہوتی ہے۔ سونے سے قبل نیم گرم زیتون یا سرسوں کے تیل سے بچے کے گلے کا نرمی سے مساج کرنے سے تکلیف کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے اور کھانسی کی صورت میں شہد کے چند قطرے بطور علاج چٹائے جا سکتے ہیں اگر زیادہ پیچیدگی محسوس ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔
چھوٹی عمر میں عموماً بچوں میں قبض کی شکایت عام ہوتی ہے۔ قبض کا اندازہ بچے کی رفع حاجت کی روٹین کی تاخیر سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس حالت میں بھوک میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ پیٹ کے درد سے بچہ بے چین رہتا ہے اور رفع حاجت میں دشواری محسوس کرتا ہے۔ ان علامات کے پیشِ نظر ماں کو چاہیے کہ وہ بچے کے پیٹ کے دائیں بائیں تیل کی مالش کرے۔ کھانا بروقت کھلانے کے ساتھ پانی اور تازہ جوس کا استعمال کروائے اور ڈبے کے دودھ کی بجائے مدر فیڈ کو ترجیح دے۔ اور افاقہ نہ ہونے کی صورت میں قریبی ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔
بچوں میں ڈائریا بیکٹریائی انفیکشن، پیٹ کے کیڑے، بچے کو ضرورت سے زائد کھلانے اور زہر خورانی (food poisoning) سے ہوجاتا ہے۔ اس کی علامات میں بچے کا روٹین سے زیادہ موشن کرنا، قے کرنا، نبض کی رفتار میں کمی، حلق کا خشک ہونا اور کمزوری کے باعث جسم کا ٹھنڈا ہونا شامل ہیں۔ اس حالت میں بچے کے جسم میں بڑی تیزی سے پانی اور دوسرے اجزاء کی کمی ہوجاتی ہے۔
اس بیماری میں بچہ چڑچڑا اور بے سکون رہتا ہے۔ اس صورت حال میں بچے کو زود ہضم غذا مثلاً کھچڑی، دہی، دلیہ، کیلا، ORS اور اسی طرز کا پیڈیٹرال وقفے وقفے سے دیا جائے اور صفائی کا خاص خیال رکھا جائے۔ اگر صورت حال قابو میں نہ آئے تو بچے کو فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جایا جائے۔
جواب: بچوں کی بہترین نگہداشت والدین کا سب سے اہم فریضہ ہے۔ اس میں بچوں کی خوراک کا خیال رکھنا، ان کی جسمانی ضرورتوں کے مطابق متوازن غذائی پروگرام ترتیب دینا، سردی اور گرمی کے موسم کی مناسبت سے حفاظتی اقدامات کرنا، انھیں لاحق ہونے والے مختلف عوارض کا مکمل علاج کروانا اوران کی دیکھ بھال کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ ایک سال کے بچوں کی نگہداشت کے لیے ذیل میں دی گئی چند احتیاطی تدابیر کے ذریعے والدین اپنے فریضے کو احسن انداز میں سر انجام دے سکتے ہیںـ:
1۔ بچے کے سر کے نیچے نرم اور ہموار تکیہ رکھا جائے اور ایسا تکیہ استعمال کرنے سے پرہیز کیا جائے جس سے بچے کی گردن میں بل آنے کا خطرہ ہو۔
2۔ نہلانے سے قبل بچوں کے جسم پر زیتون یا خالص سرسوں کے تیل کی نرم ہاتھوں سے مالش کی جائے۔ نہلاتے وقت موسم کی مناسبت سے ضرورت سے زیادہ ٹھنڈے اورگرم پانی کے استعمال میں احتیاط برتی جائے اوراس دوران ماں اپنے ہاتھوں کی گرفت مضبوط رکھے۔
3۔ شیر خوار بچوں کی جلد بہت نازک اور حساس ہوتی ہے۔ زیادہ دیر ڈائپر پہنائے رکھنے اور کئی کئی گھنٹوں تبدیل نہ کرنے کی وجہ سے بچے کی جلدپر ریش اور سرخ دانے بن جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں بچے کی پیٹھ کو اچھی طرح پانی سے دھو کر خشک کرلیں اور متاثرہ حصے پر ریشنل کریم اور سرسوں کے تیل کا استعمال کیا جائے۔ نیز زیادہ دیر ڈائپر پہنائے رکھنے سے گریز کیا جائے۔
4۔ بچوں کو ٹھوس غذا نرم اور چھوٹے چھوٹے لقموں کی صورت میں دی جائے تاکہ سخت اجزاء بچے کے گلے میں نہ پھنس سکیں۔ اگر خدانخواستہ ایسی کوئی شے پھنس جائے تو بچے کو الٹا کر اس کی پشت اور کمر کو آہستہ آہستہ سہلایا جائے تاکہ اٹکی ہوئی چیز نکل آئے۔ بصورت دیگر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔
5۔ اس عمر میں بچہ مکمل کرالنگ (crawling ) اور کسی حد تک چلنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا بچوں کو نقصان پہنچانے والی اشیاء مثلاً جلتا ہوا لیمپ، گرم پانی کی بوتل، قینچی، چھری، چاقو، اینٹ کے ٹکڑے یا ایسی تمام چیزیں جنہیں وہ پکڑ کر منہ میں ڈال سکتا ہے، اس کی پہنچ سے دور رکھی جائیں۔ اس کے علاوہ اسے باتھنگ ٹب اور کچن یا چولہے کے پاس بھی اکیلا نہ چھوڑا جائے۔
6۔ اگر بچے کو پرام میں باہر لے جانا ہو تو بیلٹ ضرور باندھیں تاکہ ناہموار جگہ پر چلنے سے گرنے کا احتمال نہ رہے۔ علاوہ ازیںبچے کو کسی صورت بھی تنہا نہ چھوڑا جائے۔
جواب: بچے اپنی اہمیت چاہتے ہیں اور اگر گھر کے افراد ان سے غافل ہوجائیں تو ان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ضد کرنے لگتے ہیں۔ ایسے بچوں کو سنبھالنا ماں کے لیے بھی بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ درج ذیل صورتیں بچوں کو ضدی بناتی ہیں:
1۔ ان کی دلچسپی کے کام میں رکاوٹ کا پیدا ہونا یا انہیں نظر انداز کیا جانا۔
2۔ انہیں بروقت دودھ اور غذا کا نہ ملنا۔
3۔ والدین کا بےجا لاڈ پیار۔
4۔ بعض اوقات بیماری اور کمزوری بھی بچوں میں چڑچڑا پن کا باعث بنتی ہے۔
5۔ بچہ پیار اور محبت کا طلب گار ہوتا ہے۔ اگر اسے پیار نہ ملے تو بھی وہ ضدی ہوجاتا ہے۔
6۔ بعض بچے ضدی اور ہٹ دھرم ہوتے ہیں۔ والدین کوچاہیے کہ ان کی اس خصلت پر نفرت اور بیزاری کا اظہار کرنے کی بجائے اسے حکمت کے ساتھ ختم کرنے کی کوشش کریں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved