جواب: بچوں کی کفالت یعنی انہیں پالنے اور ان پر خرچ کرنے کو پرورشِ اولاد کہتے ہیں۔ اولاد کی اچھی یا بری تربیت کا دار و مدار والدین کی پرورش اور نگہداشت پر ہوتا ہے، جس میں اس کا تحفظ، صحت بخش غذا، صاف ستھرا لباس، پاکیزہ ماحول اور علاج معالجے کے ساتھ ساتھ ان کی صحیح خطوط پر ذہن سازی، اخلاق و کردار اور مناسب تعلیم و تربیت شامل ہے۔
جواب: فی زمانہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر بچوں کو عہد جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور ان کا معیار زندگی بلند کرنے کی خاطر جہاں ماں باپ دونوں ہی ملازمت کرتے نظر آتے ہیں، وہیں حصولِ معاش کی تگ و دو میں بچوں کی تربیت سے بری الذمہ ہوکر انہیں غیر تربیت یافتہ گھریلو ملازمین کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اس سے بچوں کی شخصیت پردرج ذیل منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں:
1۔ والدین کی بھرپور توجہ نہ پانے والے بچوں کی شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ ایسے بچے والدین کی محبت اور ان کی تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں۔
2۔ والدین اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باعث بچوں کی پرورش میں کوتاہی برتتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے بچے ڈرے، سہمے، عدمِ تحفظ کا شکار اور خود اِعتمادی سے محروم رہتے ہیں۔
3۔ والدین کی نگرانی سے محروم بچے اکثر صحت کے مسائل سے دو چار رہتے ہیں۔
4۔ ملازمت پیشہ والدین کے بچے اپنا زیادہ تر وقت ٹیلی ویژن دیکھنے اور وقت ضائع کرنے والی مختلف سرگرمیوں میں گزار دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ عملی زندگی میں ناکامی سے دوچار ہو تے ہیں۔
جواب: والدین کے آپس کے لڑائی جھگڑے، اِختلافات اور مسلسل کشمکش بچوں کی زندگی میں سکون و اطمینان مہیا کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں۔ اس سے بچوں پر شدید نوعیت کے درج ذیل منفی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں:
گھر میں موجود لڑائی جھگڑے اور تناؤ بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما پر منفی اثرات مرتب کرکے انہیں نفسیاتی امراض میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ جس سے ان کی قوتِ اظہار میں کمی واقع ہوتی ہے اور انہیں ذہانت کے موافق ماحول اور مواقع نہ ملنے پر ان کی صلاحیتوں کی ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔
بچوں کو پر سکون رہنے کے لئے بنیادی طورپر والدین کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب وہ خود انہیں غیر آسودہ اور تناؤ کا شکار دیکھتے ہیں تو وہ ذاتی اعتماد سے محروم ہو کر اطمینان و سکون کی نئی راہیں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ نتیجتاً بچے والدینسے دوری اختیار کر لیتے ہیں۔
مسلسل کشیدہ گھریلو ماحول میں بچے حسنِ اَخلاق سے عاری ہو جاتے ہیں اور ان کے لیے ایک باوقار شخصیت کا مالک بننا ممکن نہیں رہتا۔
والدین کے مابین مسلسل تصادم کی فضا میں پلنے والے بچے مایوسی اور اِحساسِ کمتری کا شکار رہتے ہیں۔
جواب: جی ہاں! ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کی شخصیت اندرونی اور بیرونی عوامل مثلاً والدین، تعلیم و تربیت، سازگار ماحول اور افرادِ معاشرہ سے مل کر تشکیل پاتی ہے۔ ان عوامل میں سب سے پہلے والدین کا کردار بچے کی شخصیت کو متأثر کرتا ہے۔ لہٰذا والدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی دینی و دنیوی لحاظ سے تربیت اس نہج پر کریںکہ اسے اپنی فطرت پر قائم رہنے میں مدد ملے جس پر اس کی پیدائش ہوئی ہے۔ نیز اسے ایسا سازگار ماحول فراہم کریں جس میں فطری طور پر ودیعت کیے گئے عقائد نشو و نما پاسکیں۔
اسی حقیقت کو حدیث مبارک میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ یُهَوِّدَانِهٖ، أَوْ یُنَصِّرَانِهٖ، أَوْ یُمَجِّسَانِهٖ.
بخاری، الصحیح، کتاب الجنائز، باب ماقیل في أولاد المشرکین، 1: 465، رقم: 1319
ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پس اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔
جواب: بچپن کا ابتدائی دور بچوں کی پرورش کے لحاظ سے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس میں ارد گرد کا ماحول مثلاً گھر، والدین، خاندان اور رشتے دار بچے پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس لیے والدین کو بہتر حکمت عملی اپناتے ہوئے بچوں کے سامنے اچھے الفاظ کا استعمال اور فضول گفتگو سے اجتناب کرنا چاہیے کیوں کہ وہ ان کے پہلے استاد بطور رول ماڈل ہوتے ہیں۔
اکثر والدین بچوں سے گفتگو ان کی (توتلی) زبان میں کرتے ہوئے خود بھی بچے بن جاتے ہیں اور ایسے مہمل الفاظ بولتے ہیں مثلاً پانی کو مانی، روٹی کو لوتی، پکڑو کو پتڑو وغیرہ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے حروف کا صحیح مخزن نہیں سیکھ پاتے اور غلط تلفظ ان کے ذہن میں نقش ہوجاتے ہیں۔ اس سے ان کا اندازِ گفتگو متاثر ہوتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو بچپن سے ہی درست تلفظ کے ساتھ الفاظ کی ادائیگی سکھائیں۔
جواب: والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ابتدائی عمر میں گھر کے اندر نقل و حرکت کی آزادی دیں تاکہ وہ اپنی ابھرتی ہوئی جسمانی اہلیتوں کو آزمانے اور ان کی مشق کرنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کرسکیں۔ یہ آزادی فراہم کرنے سے پیشتر ضروری ہے کہ گھر کے احاطے میں بیڈ روم، کچن، باتھ روم اور اسٹور وغیرہ جو خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، ان جگہوں کو ایسی اشیاء سے پاک رکھیں جو بچوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ والدین ان جگہوں کو بچوں کے لیے درج ذیل طریقوں سے محفوظ بنا سکتے ہیں:
1۔ بجلی کی تاریں، سوئچ بورڈ، برقی آلات، آتش گیر مواد، کانچ اور آسانی سے ٹوٹنے والی نوکیلی اشیاء کو محفوظ جگہ پر رکھا جائے۔
2۔ چھوٹی چھوٹی اشیاء جنہیں بچے آسانی سے نگل سکتے ہیں، خصوصاً پیپر پن (paper pin)، سوئی (needle)، بیڈز (beads) اور ادویات وغیرہ ان کی پہنچ سے دور رکھیں۔
3۔ ہلکی اور غیر متوازن اشیاء مثلاً کرسی، سٹول، فلور لیمپ، سٹینڈ، گملے وغیرہ بچوں کی کھیل کود کے مقام سے دور رکھی جائیں۔
4۔ گھٹنوں کے بل چلنے والے بچوں کے گرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کا گرنا اس وقت زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے جب وہ تنہا سیڑھیوں سے اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا سیڑھیوں کے سامنے کوئی رکاوٹ رکھ دی جائے یا ممکن ہو تو سیڑھیوں کو گیٹ لگوا کر بند کر دیا جائے۔
5۔ بچے کو اَز خود کبھی باتھ روم یا پانی کے ٹب میں داخل نہ ہونے دیا جائے اس ضمن میں دو سال سے کم عمر کے بچوں کے لئے خصوصی احتیاط برتی جائے۔
6۔ بچوں کو تنہا چھوڑنے سے گریز کیا جائے اور ہمہ وقت اپنی نگرانی میں رکھا جائے۔ یہ نہ ہو کہ آٹھ ماہ کے بچے کو تین سال کے بچے کے پاس تنہا چھوڑ کر مطمئن ہو جائیں۔
جواب: معمولی حادثات سے نبٹنے اور ان اثرات کا تدارک کرنے کے لئے والدین کو ابتدائی طبی امداد کے اصولوں سے واقفیت بھی حاصل ہونی چاہیے۔ گھر میں ابتدائی طبی امداد کے باکس میں درج ذیل دس اشیاء ضرور شامل ہونی چاہییں:
1۔روئی یا ٹشو پیپرز : زخم کو صاف کرنے کے لیے
2۔ سنی پلاس : زخم پر لگانے کے لیے
3۔ پٹیاں : زخم پُر کرنے کے لیے
4۔ بینڈیجز : پیٹیوں کو اپنی جگہ قائم رکھنے کے لیے
5۔ سفٹی پنز : بینڈیجز کو اپنی جگہ قائم رکھنے کے لیے
6۔ قینچی : پٹیاں اور بینڈیجز کاٹنے کے لیے
7۔ کریپ بینڈیج : موچ آنے کی صورت میں متاثرہ جوڑ کو سہارا دینے کے لیے
8۔ لمبی پٹی : بازو پر چوٹ لگ جانے کی صورت میں بازو کو گلے میں لٹکا کر سہارا دینے کے لیے
9۔ آئی اینڈ ائیر ڈراپس : آنکھیں اور کان صاف کرنے کے لیے
10۔ ٹھنڈا پائوڈر یا کریم: جھلسے زخموں، خشک جلد یا چھوٹے موٹے کیڑے کے کاٹنے سے ہونے والی سوزش کو آرام پہنچانے کے لیے
جواب: جی ہاں! جدید طبی تحقیقات کے مطابق بچوں کی صحت اور جسمانی نشو و نما کے لئے حفاظتی ٹیکے لگوانا نہایت ضروری ہے۔ حفاظتی ٹیکے بچوں کو پولیو، خناق، تشنج، کالی کھانسی، ٹی بی، خسرہ، نمونیا اور ہیپاٹائٹس جیسی کئی مہلک بیماریوں سے بچاتے اور ان میں معذوری اور اموات کی شرح کو کم کرتے ہیں۔ یہ بچوں کے جسم میں بیماری کے خلاف قوتِ مدافعت کو بڑھا دیتے ہیں۔اس لیے والدین کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ حفاظتی ٹیکوں کی اہمیت کے پیش نظرشیڈول کے مطابق بچے کی پیدائش پر بی۔ سی۔ جی کا ٹیکہ لگوائیں اور پولیو کے قطرے پلوائیں۔ نیز بعد ازاں اس کے بقیہ کورس کو بچے کی صحت اور جسمانی نشو و نما کے ساتھ ساتھ مکمل کروائیں۔ حفاظتی ٹیکوں کو صحت کی دیکھ بھال کی سب سے زیادہ مؤثر دریافت تصور کیا جاتا ہے جس سے لاکھوں بچوں کی زندگیاں بچائی جاتی ہیں۔
جواب: اینٹی بائیوٹکس کو انتہائی ناگزیر حالات میں ڈاکٹر کے تجویز کردہ نسخے کے بغیر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ادویات اگرچہ جسم میں موجود بیماریوں کے جراثیم کا خاتمہ تو کردیتی ہیں مگر ساتھ ہی ان ضروری بیکٹریا کو بھی مار دیتی ہیں جو ہمارے جسم کے لیے ضروری ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اینٹی بائیوٹکس کا ضرورت سے زائد یا غلط استعمال انسانی زندگی کو ناقابلِ تلافی نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔
جواب: اینٹی بائیوٹک ادویات کے انتخاب میں احتیاط ہی واحد طریقہ ہے جو بچوں کو سنگین نقصان سے بچا سکتی ہے۔ بلا شبہ والدین بیماری کی حالت میں بچوں کو جلد صحت یاب دیکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنے اس طرزِ عمل سے بچے کی صحت کو ناقابل تلافی نقصان سے بھی دوچار کر سکتے ہیں۔ بچے اس نقصان سے اسی وقت بچ سکتے ہیں جب والدین ڈاکٹروں کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ اینٹی بائیوٹک ادویات کے انتخاب میں والدین اور ڈاکٹروں کا رویہ درج ذیل نوعیت کا ہونا چاہیے:
1۔ والدین بچے کے لئے اینٹی بایوٹک دوا کے لئے اصرار نہ کریں اور ڈاکٹر کو مرض کی نوعیت کے اعتبار سے دوا تجویز کرنے دیں۔
2۔ بیش تر ڈاکٹر علاج میں کوئی کوتاہی کیے بغیر دس سے پچاس فیصد اینٹی بایئوٹک ادویات کی تجویز کم کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر نزلہ، زکام، کھانسی جیسی کئی بیماریوں میں اینٹی بائیوٹک کے بغیر بھی صحت یابی ممکن ہوتی ہے لیکن اس میں کچھ وقت لگتا ہے۔ لہٰذا اس عمل کو برداشت کیا جائے۔
3۔ اینٹی بایوٹک ادویات بذاتِ خود نقصان دہ ہونے کے باوجود فوائد کے لحاظ زیادہ اہمیت کی حامل ہیں لیکن ضروری ہے کہ معالج مرض کی نوعیت کے مطابق دوا کا انتخاب توجہ اور احتیاط سے کرے۔
4۔ والدین کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اینٹی بایوٹک ادویات صرف انفیکشنز کے لئے ہی مفید ہوتی ہیں۔ وبائی بیماریوں میں یہ کوئی کردار نہیں رکھتی ہیں۔ اینٹی بایوٹک دوا تصدیق کے بعد ہی دی جانی چاہیے۔
5۔ جب دوا کا استعمال شروع کیا جائے تو صحت یابی کے باوجود تجویز شدہ نسخے کے مطابق پانچ یا سات روز کا کورس مکمل کروایا جائے۔ دوا کی کم مقدار بیکٹیریا کے دوبارہ پروان چڑھنے کا سبب بن جاتی ہے۔
6۔ یہ بھی ممکن ہے دوا کے استعمال کے بعد منفی ردِ عمل سامنے آئے۔ اس صورت میں فوری طور پر معالج سے رابطہ کیا جائے۔
جواب: علاج کے لیے ادویات کا بے جا استعمال یا بیماری کو معمولی سمجھتے ہوئے بالکل نظر انداز کردینے کی دونوں صورتیں بچے کے لیے خطرناک ہے۔ والدین کے لیے ضروری ہے کہ اگر بچہ کسی بیماری یا تکلیف میں مبتلا ہے تو اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کریں اور نہ ہی خود معالج بن کر دوائی کا انتخاب کریں۔
بسا اوقات بچے کے بیمار ہونے کی صورت میں والدین بیماری کی تشخیص اور ڈاکٹر سے رجوع کیے بغیراز خود کوئی دوا دے دیتے ہیں مثلاً کھانسی میں کوئی سا شربت، بخار میں پینا ڈال یا بروفن سیرپ وغیرہ۔ والدین کا ایسا رویہ بچے کو مزید بیمار کرنے کا باعث ہوسکتا ہے۔
اسی طرح بعض والدین بیماری کو معمولی سمجھتے ہوئے ادویات کا استعمال یکسر نظر انداز کردیتے ہیں جیسا عموماً بچے کے دانت نکلنے کے دوران بچے کو بخار اور اسہال لاحق ہونے کو والدین معمولی سمجھتے ہیں کہ دانت نکلنے کا مرحلہ مکمل ہوجانے کے بعد بچہ تندرست ہوجائے گا۔ یہ نظریہ قطعی طور پر غلط ہے۔ بخار یا اسہال کا تعلق کسی طور پر بھی دانت نکلنے کے عمل کے ساتھ جڑا نہیں ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایسی صورتِ حال میں ان بیماریوں کے علاج کے لیے بروقت ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے تاکہ ان پر قابو پایا جاسکے۔
جواب: معذوری سے مراد جسمانی یا ذہنی نقص کا ہونا ہے جو موروثی، بیماری یا حادثہ کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ ایسے افراد جنہیں طویل المیعاد جسمانی، ذہنی یا حسیاتی کمزوری کی وجہ سے معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے میں رکاوٹ پیش آئے انہیں معذور کہا جاتا ہے۔
جواب: جسمانی اور ذہنی معذوری کے مختلف اسباب ہوتے ہیں جو درج ذیل ہیں:
1۔ دورانِ زچگی ماں کو کالی کھانسی، چیچک اور گردن توڑ بخار کی وجہ سے بچوں کو ذہنی معذوری لاحق ہوسکتی ہے۔
2۔ وقت سے پہلے بچے کی پیدائش (prem ﷺ ture delivery) بھی معذوری کا سبب بن سکتی ہے۔
3۔ پیدائش کے وقت بچے میں آکسیجن، آئیوڈین اور خوراک کی کمی بھی معذوری کا سبب بن سکتی ہے۔
4۔ حفاظتی ٹیکوں کا مکمل کورس نہ کروانے کی وجہ بھی معذوری کا سبب بن سکتی ہے۔
5۔ بول چال میں ہچکچاہٹ بعض اوقات دماغی چوٹ اور بسا اوقات دانتوں یا تالو کی ساخت میں تبدیلی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ عام طور پر کسی واضح طبیعی تشریح کے بغیر نفسیاتی کیفیت بھی بچے کے توتلے پن یا بول چال میں کسی دوسرے عیب کا سبب بن سکتی ہے۔
6۔ جسمانی نقص پٹھوں، ہڈیوں اور جوڑوں میں کسی نہ کسی خرابی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
جواب: معذوری کے اسباب کو درج ذیل تجاویز پر عمل کرکے ختم کیا جاسکتا ہے:
1۔ ایسے افراد جن کے خاندان میں ذہنی یا جسمانی معذوری پائی جاتی ہے، انہیں فیملی میںشادی کرنے یا نہ کرنے کا مشورہ ڈاکٹروں سے کرناچاہیے تاکہ آنے والی نسل کو معذوری سے بچایا جا سکے۔
2۔ بچوں کو پیدائشی نقائص سے بچانے کے لیے cousin marriage سے گریز کریں۔ اگرچہ شرعاً اس کی ممانعت نہیں ہے لیکن بعض صورتوں میں اس کے نتائج اچھے برآمد نہیں ہوئے۔ بایں وجہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
لَا تَنْکِحُوا الْقَرَابَةَ الْقَرِیْبَةَ، فَإِنَّ الْوَلَدَ یُخْلَقُ ضَاوِیًا.
ابن الأثیر، النهایۃ فی غریب الأثر، 3: 106
ابن حجر عسقلانی، تلخیص الحبیر فی تخریج أحادیث الرافعی الکبیر، 3: 146
غزالی، إحیاء علوم الدین، 2: 41
سبکی، طبقات الشافعیه الکبری، 6: 310
اپنے قریبی رشتہ داروں میں نکاح مت کرو، کیوں کہ اس طرح (بسا اوقات) تمہارے بچے ناقابلِ علاج بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔
یہ شرعی ممانعت نہیں ہے بلکہ بعض medical reasons کی بناء پر ایسی شادیوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بنو سائب کے لوگوں سے فرمایا:
قَدْ أَضْوَأْتُمْ فَانْکِحُوْا فِي النَّزَائِعِ.
دینوری، المجالسة وجواهر العلم: 249، رقم: 1437
ابن حجر عسقلانی، تلخیص الحبیر فی تخریج أحادیث الرافعی الکبیر، 3: 146
هندی، کنز العمال، 16: 208، رقم: 45626
تمہارے بچے ناقابلِ علاج بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، لہٰذا تم (ان اَمراض سے بچنے کے لیے) اپنے خاندان سے باہر کی عورتوں سے شادی کیا کرو۔
3۔ حمل کے دوران خواتین نشہ آور اشیاء کے استعمال سے پر ہیز کریں۔
4۔ حاملہ خواتین ڈاکٹر کے مشورہ کے بغیر کوئی دوا نہ لیں۔
5۔ طبی تحقیق کے مطابق عورت چالیس سال کے بعد حاملہ ہونے سے گریز کرے کیوں کہ اس عمر میں پیدا ہونے والے بچوں میں معذوری کی شرح بڑھنے کا اِحتمال ہوتا ہے۔
6۔ عورت کے لیے ضروری ہے کہ اگر ایک بچے میں پیدائشی نقص ہے تو دوبارہ حاملہ ہونے سے پہلے نقائص کی تحقیق کے لیے معائنہ کرائے۔
7۔ حمل کے دوران کوئی بیماری لاحق ہوجائے تو مستند ہسپتال، کلینک اور قابل ڈاکٹروں سے علاج کروایا جائے۔
8۔ بچے کو مجوزہ حفاظتی ٹیکے لگوانے چاہییں تاکہ بچوں کو معذوری سے بچایا جا سکے۔
9۔ زچگی کا عمل سند یافتہ کلینک، ہسپتال اور لیڈی ڈاکٹروں کے زیر نگرانی ہونا چاہیے۔
10۔ بچوں کو بخار یا دورے پڑنے کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
جواب: بچے میں پیدائش سے پہلے کسی قسم کی معذوری کا پایا جانا مادر زاد معذوری کہلاتا ہے۔ بعض اوقات پیدائش سے پہلے ظاہر ہونے والی موروثی علامتیں بھی مادر زاد معذوری میں ہی شمار کی جاتی ہیں۔ تاہم مادر زاد معذوری کی اکثریت موروثی نہیں ہوتی۔
حمل کے ابتدائی مہینوں میں ماں کو لاحق کسی خطرناک بیماری کے اثرات جنین (بچے) کو اس وقت ضرر پہنچا سکتے ہیں جب وہ اپنی نازک حالت کے اعتبار سے بڑی آسانی کے ساتھ ضرر اور اثر قبول کر سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بچہ مختلف مادر زاد نقائص مثلاََ دل کی بیماریاں، آنکھ میں موتیا یا بعض دوسری خلافِ معمول علامات ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔
جواب: پیدائشی معذوری وہ ہوتی ہے جو پیدائش کے وقت یا پیدائش کے عمل کے دوران رونما ہو۔ عموماً پیدائش کے وقت ڈاکٹر یا لیڈی ڈاکٹر کی بے احتیاطی یا حاملہ کا زیادہ صحت مند بچے کو جنم دینا بچے کو ضرر پہنچا سکتا ہے۔ نومولود کا وقت سے پہلے پیدا ہونا اس کے دماغ سے خون جاری ہو جانے کا سبب بن سکتا ہے کیوں کہ قبل از وقت پیدائش کے باعث بچے میں مطلوبہ قوتِ مدافعت کے فقدان کی وجہ سے خون کی نازک شریانیں بآسانی پھٹ جاتی ہیں۔
جواب: پیدائش کے بعد معذور کر دینے والی وجوہات بعد از پیدائش معذوری کہلاتی ہیں یہ کسی بھی وقت پیدا ہو سکتی ہیں۔ ان کے کئی اسباب ہیں جیسے حادثات کا ہونا، آگ میں جھلس جانایا فالج کا حملہ ہونا۔
جواب: بچوں میں معذوری دو اقسام کی ہوتی ہے:
ذہنی لحاظ سے کمزور بچے وہ ہوتے ہیں جن کی ذہنی صلاحیت ان کی عمرکے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ ایسے بچوں کی ذہنی نشو و نما یا تو رک جاتی ہے یا پھر اس تیزی سے نہیں ہوتی جتنی ان کی عمر کے مطابق ہونی چاہیے۔
ذہنی لحاظ سے معذور بچوں کی خاص علامات یہ ہوتی ہیں کہ ان کی ذہنی صلاحیت اپنے ہم عمر بچوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ وہ نشو و نما کے مدارج کافی دیر میں طے کرتے ہیں مثلا اٹھنا، بیٹھنا، کھڑا ہونا اور گفتگو کرنا وغیرہ ایک عام بچے کے مقابلے میں دیر سے شروع کرتے ہیں۔
غذا کی کمی اور علاج معالجہ کی ناکافی سہولیات بچوں میں جسمانی معذوری کا باعث بنتی ہیں۔ اندھا، گونگا، بہرہ پن وغیرہ جسمانی معذوری کے زمرے میں آتے ہیں علاوہ ازیں بعض بچے جزوی جسمانی معذوری کا شکار ہوتے ہیں مثلا بچوں کی کسی ایک ٹانگ کا پولیو زدہ یا کمزور ہونا۔ ایسے بچوں کو مصنوعی اعضاء اور مخصوص جوتوں وغیرہ کے استعمال سے کسی حد تک چلنے پھرنے کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔ جب کہ کچھ بچے مکمل جسمانی معذوری کا شکار ہوتے ہیں جن میں چلنے پھرنے کی سکت بالکل نہیں ہوتی اور وہ بستر پر پڑے رہتے ہیں۔ اس میں دونوں ٹانگوں کے علاوہ بعض اوقات سارے جسم کا مفلوج ہونا بھی شامل ہے۔ جسمانی معذوری کے باعث انہیں نفسیاتی عوارض بھی لاحق ہو جاتے ہیں۔
جواب: بچوں کی پرورش کرنا اور انہیں معاشرے میں بہتر تعلیم و تربیت سے اعلیٰ مقام پر پہنچانا ہر والدین کا دیرینہ خواب ہوتا ہے۔ لیکن بعض اوقات یہ خواب اس وقت ٹوٹتا محسوس ہوتا ہے جب والدین کو اپنے بچے کی کسی ذہنی یا جسمانی معذوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں وہ نہ صرف ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہراتے ہیں بلکہ قدرت سے بھی شاکی رہتے ہیں۔ حالاں کہ ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرانے کی بجائے اپنی موجودگی اور جذباتی وابستگی کا احساس دلائیں تو یہ چیز بچے کی بہتری کی جانب اولین قدم ثابت ہو سکتی ہے۔ زندگی میں میں مشکلات تو پیش آتی ہیں لیکن انہیں حکمت کے ساتھ دور کیا جاسکتا ہے۔
معذور بچوں سے غفلت برتنا سفاکی کی انتہاء ہے۔ ایسے بچے معاشرے کا عضو معطل بن کر رہ جاتے ہیں جس سے معاشرہ بے حد مالی اور ذہنی نقصان اٹھاتا ہے۔ مناسب پرورش، تعلیم اور تربیت سے محروم رہ کر معذور بچے یا تو معاشرے پر اِقتصادی بوجھ بن کر پڑے رہتے ہیں یا پھر خلافِ معاشرہ اور مجرمانہ مشاغل کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں معاشرہ ان سے غفلت شعاری کی سزا بھگتتا ہے۔
جواب: معذور بچے عام بچوں کی نسبت زیادہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے خاندان اور معاشرے کا باہمی تعاون خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔عموماً خاندان اور معاشرے کے دیگر افراد بھی ان بچوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جس کے باعث ایسے بچے بچپن سے ہی احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں جب کہ انہیں جذباتی اور معاشرتی تعاون کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ان بچوں کو نارمل بچوں کے ساتھ بٹھایا جائے اور انہی کی طرح تعلیم دی جائے تاکہ اس سے ان کی احساسِ محرومی دور ہو اور وہ نارمل زندگی گزارنے کی طرف راغب ہوسکیں۔کیوں کہ تھوڑی سے توجہ سے یہ بچے معاشرے کا فعال رکن بن کر کامیاب زندگی گزارنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔
حکومت اور معاشرے کا بھی فرض ہے کہ معذور بچوں کے متعلق رویوں کی بہتری کے لیے شعور اجاگر کیا جائے اور انہیں معاشرتی زندگی گزارنے کے مساوی حقوق دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اس فریضے کی انجام دہی کے لیے حکومت کے ساتھ پرائیویٹ سیکٹر کی مختلف تنظیموں کو بھی معذور بچوں کے لیے خصوصی ادارے کھولنے چاہییں۔ ان کی خصوصی تعلیم و تربیت کے لیے اساتذہ کا معقول اہتمام ہونا چاہیے اور اس تعلیم کے نشیب و فراز پر عبور حاصل کرنے کے لیے نفسیاتی تحقیقات، تجربات اور مشاہدات کے باضابطہ سلسلے شروع ہونے چاہییں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved