جواب: والد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اولاد کے لیے ایک عظیم نعمت ہے۔ لفظ ’والد‘ کہنے کو تو چار حروف کا مرکب ہے لیکن اولاد کے لیے اپنے اندر ولایت، ایثار و وفا، الفت و شفقت، لطف و کرم، دانائی اور دستگیری سموئے ہوئے ہے۔ اگر اس کی عظمت و رفعت کا پاس کرتے ہوئے اولاد اس کی اطاعت، فرمانبرداری، خدمت اور تعظیم بجا لائے جو اُس کی رضا و خوش نودی کا باعث ہو تو یہ اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوش نودی کے حصول کا باعث ہوگا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
رِضَی الرَّبِّ فِي رِضَی الْوَالِدِ، وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ.
ترمذی، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین، 4: 274، رقم: 1899
اللہ تعالیٰ کی رضا باپ کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔
اِس گلشنِ انسانیت کی ابتداء باپ (حضرت آدم علیہ السلام) سے ہوئی اور انہی سے عورت (حضرت حوا علیہا السلام) کا وجود تیار کیا گیا ہے۔ والد کی عظمت کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ اولاد کے لیے یہ جنت کا وسطی دروازہ ہے۔ اولاد اس کی قدر و منزلت کا ادراک کرتے ہوئے اسے حاصل کر سکتی ہے۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
اَلْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، فَإِنْ شِئْتَ فَأَضِعْ ذٰلِکَ الْبَابَ أَوِ احْفَظْهُ.
أحمد بن حنبل، المسند، 6: 445، رقم: 27551
ترمذی، السنن، کتاب البر و الصلۃ، باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین، 4: 275، رقم:
1900
حاکم، المستدرک ، 2: 215، رقم: 2799
ابن حبان، الصحیح، 2: 215 ، رقم: 425
باپ جنت کا وسطی دروازہ ہے، اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ چاہے (والد کی نافرمانی کرکے) اس (دروازے ) کو ضائع کر دو یا (والد کے ساتھ بھلائی کر کے) اسے (اپنے لیے) محفوظ کر لو۔
والد ایک ثمر بار شجرِ سایہ دار کی مانند ہوتا ہے جو زمانے کی گرم ہواؤں کو خود سہتا ہے اور اولاد کو صرف پھل اور سایہ مہیا کرتا ہے۔ جس طرح سورج حدت کا منبع ہوتا ہے مگر اس کے نہ ہونے سے ساری دنیا اندھیروں میں ڈوب جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح والد کا پیار بھی اس کی ڈانٹ ڈپٹ اور سختی میں چھپا ہوتا ہے۔ ایثار و قربانی کا یہ پیکرِ مجسم اولاد کی بہترین تربیت اور روشن مستقبل کے لیے ہمیشہ سراپا دعا رہتا ہے، جس کی دعا کو اللہ تعالیٰ کبھی رد نہیں فرماتا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ثَـلَاثُ دَعَوَاتٍ یُسْتَجَابُ لَهُنَّ، لَا شَکَّ فِیْهِنَّ: دَعْوَةُ الْمَظْلُوْمِ وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ لِوَلَدِهٖ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب الدعاء، باب دعوۃ الوالد ودعوۃ المظلوم،
2: 1270، رقم: 3862
طیالسيِ، المسند، 1: 329، رقم: 2517
تین دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں، ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور باپ کی اپنی اولاد کے لیے دعا۔
جواب: لفظ ’کفالت‘ ذمہ داری، ضمانت اور بار اٹھانا کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی بنا پر کفالت سے مراد قبل از پیدائش سے بلوغت تک بچے کی بنیادی ضروریاتِ زندگی یعنی خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور علاج کی فراہمی کا اہتمام کرنا ہے۔
جواب: اولاد کی کفالت کرنا والد کی ذمہ داری ہے۔ قرآن مجید میں بچے کے نان و نفقہ کا ذمے دار والد کو قرار دیا گیا ہے۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ ط وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْهِ رِزْقُهٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰهُ اللهُ ط لَا یُکَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا مَآ اٰتٰهَا ط سَیَجْعَلُ اللهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًاo
الطلاق، 65: 7
صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہیے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا۔
اسی طرح حدیث مبارک کی رو سے بھی بچوں کی کفالت والد کے ذمہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
أَمَرَ النَّبِیُّ ﷺ بِالصَّدَقَةِ. فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، عِنْدِي دِیْنَارٌ. فَقَالَ: تَصَدَّقْ بِهٖ عَلٰی نَفْسِکَ. قَالَ: عِنْدِي آخَرٌ قَالَ: تَصَدَّقْ بِهٖ عَلٰی وَلَدِکَ. قَالَ عِنْدِي آخَرُ. قَالَ تَصَدَّقْ بِهٖ عَلٰی زَوْجَتِکَ، أَوْ قَالَ: زَوْجِکَ. قَالَ: عِنْدِي آخَرَ. قَالَ: تَصَدَّقَ بِهٖ عَلٰی خَادِمِکَ. قَالَ عِنْدِي آخَرُ. قَال: أَنْتَ أَبْصَرُ.
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 251، رقم: 7413
أبو داؤد، السنن، کتاب الزکاۃ، باب فی صلۃ الرحم، 2: 57، رقم: 1691
نسائی، السنن، کتاب الزکاۃ، باب تفسیر ذلک، 5: 45، رقم: 2535
ابن حبان، الصحیح، 8: 126، رقم: 3337
حاکم، المستدرک، 1: 575، رقم: 1514
حضور نبی اکرم ﷺ نے صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ایک شخص عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! میرے پاس ایک دینار ہے (اس کا کیا کروں)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اُسے اپنے اوپر خرچ کرو، وہ شخص عرض گزار ہوا: میرے پاس اور بھی ہے، فرمایا: اسے اپنی اولاد پر خرچ کرو۔ وہ پھر عرض گزار ہوا: میرے پاس اور بھی ہے۔ فرمایا: اسے اپنی بیوی پر خرچ کرو۔ عرض کیا: میرے پاس اور بھی ہے۔ فرمایا: اپنے خادم پر خرچ کرو، وہ پھر عرض گزار ہوا : میرے پاس اور بھی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم جہاں مناسب سمجھو (خرچ کرلو)۔
اُصولی طور پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی وہی صدقہ و خیرات پسندیدہ ہے جس کے بعد بچوں کی کفالت کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے اور خوش حالی بھی قائم رہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
خَیْرُ الصَّدَقَةِ مَا کَانَ عَنْ ظَهْرِ غِنًی، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ.
بخاری، الصحیح، کتاب الزکاة، باب الصدقة الا عن ظهر غنی…،2:
518، رقم: 1360
بخاری، الصحیح، کتاب النفقات، باب وجوب النفقة علی الأهل والعیال، 5: 2048، رقم: 5041
أبو داؤد، السنن، کتاب الزکاة، باب الرجل یخرج من ماله، 2: 125، رقم: 1676
بہترین صدقہ وہ ہے، جس کے بعد بھی خوش حالی برقرار رہے اور خرچ کی ابتدا ان سے کرو جو تمہارے عیال (گھر والے) ہیں۔
جواب: بچوں کی کفالت میں والد کے فرائض درج ذیل ہیں:
رحم مادر میں جنین کے تحفظ اور بہتر نشو و نما کے لیے حاملہ کا نان و نفقہ والد پر فرض ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاِنْ کُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْهِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ.
الطلاق، 65: 6
اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں۔
سورۃ البقرۃ میں ارشاد فرمایا:
وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَکِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ.
البقره، 2: 233
اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے۔
اولاد میں خواہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں، باپ پر ان کی کفالت کی ذمہ داری درج ذیل صورتوں میں عائد ہوتی ہے:
1۔ بیٹا محتاج ہو جس کا کوئی مال نہ ہو۔
2۔ عمرِ بلوغ کو نہ پہنچا ہو۔
3۔ اگر بالغ ہے اور کسی ایسی مصیبت میں مبتلا نہیں ہے جو اُسے روزی کمانے سے مانع ہو تو اُسے لازم ہے کہ کمائے اور اپنے اوپر خرچ کرے۔ بصورتِ دیگر اس کی کفالت اور نفقہ والد کے ذمہ رہے گا۔
4۔ اگر بیٹا تعلیم حاصل کر رہا ہے اور روزگار میسرنہیں ہے تو اس صورت میں اس کا نفقہ باپ پر ہوگا، اگرچہ لڑکا بالغ ہوگیا ہو۔
5۔ بیٹی خواہ نابالغ ہے یا بالغ، جب تک اُس کی شادی نہیں ہو جاتی اس کی کفالت اور نفقہ باپ پر واجب ہے۔
6۔ بیٹی اگر محتاج ہے تو اس کی کفالت اور نفقہ باپ پر واجب ہوگا، لیکن اگر مال کی مالک ہے تو اس کے مال سے اس پر خرچ کرنا واجب ہے۔
جواب: جو والد دنیاوی نمود و نمائش کے لیے، فلاحی و رفاہی کاموں میں اور اپنے دوستوں کے ساتھ عیش و عشرت کے لیے خوب خرچ کرے، لیکن اس کے برعکس اپنے بچوں کے حقوق کی ادائیگی سے غفلت برتتے ہوئے انہیں فاقہ کشی میں مبتلا رکھے تو ایسے شخص کے بارے میں حدیث مبارک میں سخت وعید آئی ہے:
وَمَنْ طَلَبَ الدُّنْیَا مُکَاثِرًا بِهَا حَلَالًا مُرَائِیًا، لَقِيَ اللهَ وَهُوَ عَلَیْهِ غَضْبَانُ.
ابن أبي شیبة، المصنف، کتاب البیوع والأقضیة، في التجارة
والرغبة فیها، 4: 467، رقم: 22186
بیهقی، شعب الایمان، 7: 298، رقم: 10374
إسحاق بن راھویہ، المسند، 1: 353، رقم: 352
اور جس نے حلال طریقے سے دنیا اس لیے کمائی کہ وہ دوسروں پر اس کی نمود و نمائش کرے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوگا۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کَفٰی بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ یُضَیِّعَ مَنْ یَقُوْتُ.
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 160، رقم: 6495
أبو داؤد، السنن، کتاب الزکاۃ، باب فی صلۃ الرحم، 2: 57، رقم: 1692
بزار، المسند، 6: 393، رقم: 2415
آدمی کے لیے یہی گناہ کافی ہے کہ وہ اپنی (حلال) روزی کو ضائع کر دے۔
جواب: اولاد کی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے خرچ کرنا محض دنیا داری نہیں بلکہ عین تقاضاے دین اور شریعت کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ احادیث مبارکہ میں سب سے پہلے اولاد پر خرچ کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور اسے بہترین صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَفْضَلُ الدِّیْنَارِ دِیْنَارٌ یُنْفِقُهُ الرَّجُلُ عَلٰی عِیَالِهٖ، وَدِیْنَارٌ یُنْفِقُهُ الرَّجُلُ عَلٰی دَابَّتِهِ فِي سَبِیْلِ اللهِ، وَدِیْنَارٌ یُنْفِقُهُ الرَّجُلُ عَلٰی أَصْحَابِهٖ فِي سَبِیْلِ اللهِ. قَالَ أَبُوْ قَـلَابَۃَ: بَدَأَ بِالْعِیَالِ ثُمَّ قَالَ: فَأَيُّ رَجُلٍ أَعْظَمُ أَجْرًا مِّنْ رَجُلٍ یُنْفِقُ عَلٰی عِیَالٍ لَهٗ صِغَارٍ، یُعِفَّهُمُ اللهُ بِهٖ وَیُغْنِیَهُمُ اللهُ بِهٖ.
ترمذی، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في النفقة علی الأھل، 4: 304، رقم: 1966
بہترین دینار وہ ہے جسے آدمی اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے، پھر وہ دینار جسے آدمی اللہ تعالیٰ کے راستے میں (زیر استعمال) اپنے چوپائے (سواری) پر خرچ کرے، پھر وہ دینار جسے کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے ساتھیوں پر خرچ کرے۔ ابوقلابہ فرماتے ہیں: آپ ﷺ نے اہل و عیال سے شروع فرمایا اور پھر فرمایا: اس شخص سے زیادہ اجر والا کون ہے کہ جو اپنے چھوٹے بچوں پر خرچ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس (عمل) کے سبب انہیں پاک دامن رکھتا ہے اور اس کے ذریعے انہیں غنی کرتا ہے!
حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
نَفَقَةُ الرَّجُلِ عَلٰی أَھْلِهٖ صَدَقَةٌ.
ترمذی، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء فی النفقة علی الأھل، 4: 303، رقم: 1965
آدمی کا اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔
جواب: حلال ذرائع سے روزی کما کر اپنے بچوں کی کفالت کرنے والے والد کا چہرہ روزِ قیامت چودھویں کے چاند کی طرح چمکے گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ طَلَبَ الدُّنْیَا حَلَالًا اسْتِعْفَافًا عَنِ الْمَسْأَلَةِ، وَسَعْیًا عَلٰی أَهْلِهٖ، وَتَعَطُّفًا عَلٰی جَارِهٖ، لَقِيَ اللهَ وَوَجْهُهٗ کَالْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ.
ابن أبي شیبہ، المصنف، کتاب البیوع والأقضیۃ، في التجارۃ
والرغبۃ فیھا، 4: 467، رقم: 22186
بیھقی، شعب الإیمان، 7: 298، رقم: 10374
اسحاق بن راھویہ، المسند، 1: 353، رقم: 352
جس شخص نے حلال ذرائع سے دنیا طلب کی تاکہ خود کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچائے رکھے اور اپنے اہل و عیال کے لیے روزی مہیا کرے اور اپنے ہمسایہ کے ساتھ حسن سلوک کرے تو وہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اُس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہا ہوگا۔
جواب: والد کا بچوں پر ناجائز دباؤ درج ذیل اثرات مرتب کرتا ہے:
1۔ ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ اور غصہ نہ صرف بچوں کی ذہنی و جسمانی نشو و نما پر اثر انداز ہوتا ہے، بلکہ والد اور بچوں میں دوری کا سبب بھی بنتا ہے۔ وہ کسی کو بھی اپنی بات سمجھانے سے قاصر رہتے ہیں۔
2۔ بچے والدین کا عکس ہوتے ہیں۔ اگر باپ بے جا غصہ اور رعب جمانے والا ہو تو بچوں کی عادات میں بھی وہی رنگ نظر آئے گا۔
3۔ بچے انتہائی خاموش اور سہمے سہمے سے رہتے ہیں۔ بچپن کا وہ چلبلا پن جو بچوں کی فطرت ہے وہ ان میں مفقود ہو جاتا ہے ۔
4۔ بچے جب اپنے جذبات کو مجروح ہوتا دیکھتے ہیں تو منفی احساسات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خود اعتمادی کے فقدان کے باعث وہ کسی بھی تعمیری کام میں حصہ لینے سے گھبراتے ہیں۔
5۔ بچوں کی مثبت صلاحیتیں منفی رخ اختیار کر لیتی ہیں جس کے نتائج نہ صرف گھر کے اندر خرابی کا باعث بنتے ہیںبلکہ پورے معاشرے کے لیے بھی وبال بن جاتے ہیں۔
جواب: بچوںکی بہترین ذہنی و جسمانی نشو و نما کے لیے والد اپنی محبت و شفقت، نرمی اور باہمی تعاون سے گھر کے ماحو ل کو درج ذیل طریقوں سے خوش گوار بنا سکتا ہے:
1۔ بچوں کو پیار کرنا، گود میں لینا ، کندھوں پر بٹھانا جہاں والدکے لیے خوشی اور طمانیت کا باعث بنتا ہے وہاں بچوں کے لیے بھی ذہنی آسودگی اور والدکے ساتھ محبت میں پختگی کا ذریعہ بنتا ہے۔
2۔ گھر کے ماحول کو پر سکون بنانے کے لیے والد کو چاہیے کہ وہ گھریلو اختلافات اور ازدواجی جھگڑوں سے جس قدر ممکن ہو گریز کرے۔ اختلاف ہونے کی صورت میں بچوں کے سامنے بحث و مباحثے سے اجتناب کرے۔
3۔ جس طرح والدین کے ساتھ اچھے تعلقات بچوں کے لیے گھر کا ماحول خوش گوار بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اُسی طرح دیگر اعزا و اقارب یعنی دادا، دادی، نانا، نانی، چچا، پھوپھی، ماموں، خالہ وغیرہ کے ساتھ والد کا مثبت اور محبت پر مبنی رویہ بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ وہ تمام افراد بچوں کے لیے فطری محبت کا جذبہ رکھتے ہیں اور والد کا ایسا رویہ بچوں میں اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ محبت اور قربت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
4۔ اپنے بچوں کے لیے گھر کے ماحول کو بہتر بنانے اور ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھارنے میں والد ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا والد کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو پر اعتماد، مؤدب اور معاملہ فہم بنانے کے لیے ان کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھے۔ ان کی ذہنی، جسمانی اور سماجی نشو و نما پر توجہ دے کیوں کہ بچوں میں بہت سی خامیاں ایسی ہوتی ہیں جن کا سد باب اگر اولین مراحل میں ہی کر لیا جائے توبچہ اپنی آئندہ زندگی میں بہت سی دشواریوں اور مشکلات سے بچ سکتا ہے۔
5۔ کھیلنا بچوں کا فطری حق ہے۔ ایک سال تک کے بچے رنگا رنگ کھلونوں میں دل چسپی لیتے ہیں۔ والد انہیں کھلونے مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی سرگرمیوں اور مصروفیات میں دلچسپی لے کر گھر کے ماحول کو خوش گوار بنا سکتا ہے۔
جواب: دورِ حاضر میں معاشی جد و جہد کی رفتار اتنی تیز ہوتی جا رہی ہے کہ خاندان کے افراد کے درمیان فاصلے پیدا ہو رہے ہیں، رزقِ حلال کمانے کی فکر اعصاب پر اس قدر مسلط ہے کہ والد کو اتنی فرصت بھی نہیں ملتی کہ وہ کچھ وقت اپنے بچوں کے ساتھ گزار سکے۔ وہ صبح سویرے بچوں کے بیدار ہونے سے پہلے کام پر چلا جاتا ہے اور رات کو اس وقت لوٹتا ہے جب بچے سوچکے ہوتے ہیں۔ نتیجتاً وہ اپنے بچوں کی بنیادی ضروریات مہیا کرنے میں تو کامیاب ہو جاتا ہے لیکن انہیں اپنے ساتھ مانوس کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے والد سے گھلنے ملنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں جس سے ان کو بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
والد اپنے بچوں کو درج ذیل طریقوں سے اپنے ساتھ مانوس کر سکتا ہے:
محبت اور شفقت کا رویہ بچوں کو امن، سکون اور اطمینان عطا کرتا ہے اور ان کی قدرتی اور فطری صلاحیتوں کو نکھارتا ہے۔ بچوں کے ساتھ محبت ہی انہیں محبت کرنے کے انداز اور ڈھنگ سکھاتی ہے اور ان کے مہر و محبت کے جذبہ کو بیدار کرتی ہے۔ والد اور بچوں کے مابین ربط و تعلق کو محفوظ طریقے سے پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ محبت کا یہ میلان ان کی نشو و نما کے ساتھ مزید بڑھتا ہے اور یہی وہ ہتھیار ہیں جن سے والد مضبوط اور طاقتور ہوتا ہے اور اپنے بچوں کو اپنے ساتھ مانوس کر سکتا ہے۔ محبت سے جہاں سکون اور اطمینان کی فصل اُگتی ہے وہاں اس سے رشتوں میں اِستحکام بھی پیدا ہوتا ہے۔
بچے اپنی حیثیت اُجاگر کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی اس ضرورت کی تکمیل کی خاطر باپ کا بچوں کے ساتھ وقت گزارنا ضروری ہے۔ اسے چاہیے کہ بچوں کے ساتھ مختلف طریقوں سے وقت گزارے مثلاً بچوں کو سیر و تفریح کے لیے کہیں لے جانا، ان کے ساتھ کھیلنا کودنا، بچوں کو خوش کر دینے والی من پسند اشیاء انہیں دینا بشرطیکہ حد سے تجاوز نہ ہو۔ یہ وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے والد بچوں کو اپنے ساتھ مانوس کر سکتا ہے، بچوں کو صرف یہ شعور ہو جائے کہ باپ کو ان سے پیار ہے۔ یہی احساس ان کی بہترین نشوونما کے لیے کافی ہے۔ جس سے ان کی بے شمار پوشیدہ صلاحیتوں کو پروان چڑھنے کا موقع مل سکتا ہے۔
والد کو معلوم ہونا چاہیے کہ بچے اس سے کیا چاہتا ہے، کیوں کہ وہ بچے کی پسند و نا پسند سے جس قدر واقف ہوگا اسی قدر وہ نہ صرف اس کی بہترین رہنمائی کرسکتا ہے بلکہ اسے اپنے ساتھ مانوس بھی کرسکتا ہے۔ ماہرین کے نزدیک بچے کے بنیادی مطالبات کی معرفت اور اس کے جذبات کی قدر کرنا ہی اس کا احترام ہے۔
بچوں کی بات کو توجہ سے سننا وہ اہم ترین ذریعہ ہے جو والد اور بچوں کے درمیان تعلق کو مضبوط کرتا ہے۔ چھوٹی عمر میں بچوں کو والد کی طرف سے ملنے والی یہ توجہ بڑھاپے کے وقت بچوں کو والد کے قریب رکھتی ہے۔
جواب: حضور نبی اکرم ﷺ کے اُسوۂ حسنہ کی روشنی میں والد کو اپنے بچوں کے ساتھ درج ذیل طریقوں سے پیش آنا چاہیے:
والد کو اولاد کی پیدائش پر معاشی تنگی، صحت کی خرابی یا اسے اپنے حق میں مصیبت سمجھنے کی بجائے خوشی کا اظہار کرنا چاہیے کیوں کہ یہ سنت رسول ﷺ ہے۔
روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک غلام ابو رافع رضی اللہ عنہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی ولادت کی خبر لے کر آئے تو بیٹے کی پیدائش کی خوشی میں آپ ﷺ نے اُنہیں غلامی سے آزاد فرما دیا۔
عبد الحق محدث دہلوی مدارج النبوة، 2: 773
اولاد خواہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں سب کے ساتھ یکساں رویہ رکھنا چاہیے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا اُسوۂ حسنہ والد کو مساوات اور عدل کا درس دیتا ہے۔ آپ ﷺ نے اولاد سے پیار و محبت میں کبھی فرق نہیں کیا اور بیٹیوں سے نفرت اور انہیں زندہ درگور کرنے والی قبیح رسم کا نہ صرف خاتمہ کیا بلکہ آپ ﷺ نے ان کی خصوصی دیکھ بھال اور تربیت کا اہتمام کرنے کا حکم فرمایا۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ کَانَتْ لَهُ أُنْثٰی فَلَمْ یَئِدْهَا، وَلَمْ یُهِنْهَا، وَلَمْ یُؤْثِرْ وَلَدَهٗ عَلَیْهَا. قَالَ: یَعْنِي الذُّکُورَ. أَدْخَلَهُ اللهُ الْجَنَّۃَ.
أحمد بن حنبل، المسند، 1: 223، رقم: 1957
أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب فی فضل من عال یتیما، 4: 375، رقم: 5146
ابن أبی شیبہ، المصنف، 5: 221، رقم: 25435
حاکم، المستدرک، 4: 196، رقم: 7348
جس شخص کی بیٹیاں ہوں سو وہ نہ تو انہیں زندہ درگور کرے، نہ ہی ان کی اہانت کرے اور نہ ہی بیٹوں کو ان پر ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا۔
حضور نبی اکرم ﷺ بچوں کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آتے لہٰذا والد کو اپنے بچوں کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آنا چاہیے۔
حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ یُصَلِّي، وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَۃَ بِنْتَ زَیْنَبَ بِنْتِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَلِأَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِیْعِ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ۔ فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا، وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا.
بخاری، الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب إذا حمل جاریۃ صغیرۃ علی عنقہ
في الصلاۃ، 1: 193، رقم: 494
مسلم في الصحیح، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب جواز حمل الصبیان في الصلاۃ، 1: 385،
رقم: 543
رسول اللہ ﷺ (نفلی) نماز ادا فرما رہے تھے اور آپ ﷺ نے حضرت اُمامہ بنتِ زینب بنتِ رسول اللہ ﷺ (یعنی اپنی نواسی) کو اُٹھایا ہوا تھا جو ابو العاص بن ربیع بن عبد شمس سے تھیں۔ جب آپ ﷺ سجدے میں جاتے تو اُسے بٹھا دیتے اور جب قیام فرماتے تو اُسے اُٹھا لیتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
قَدِمَ نَاسٌ مِنَ الْأَعْرَابِ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ. فَقَالُوْا: أَتُقَبِّلُوْنَ صِبْیَانَکُمْ؟ فَقَالُوْا: نَعَمْ. فَقَالُوْا: لٰـکِنَّا، وَاللهِ، مَا نُقَبِّلُ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: وَأَمْلِکُ إِنْ کَانَ اللهُ نَزَعَ مِنْکُمُ الرَّحْمَۃَ؟
بخاري، الصحیح، کتاب الأدب، باب رحمة الولد وتقبیله ومعانقته،
5: 2235، رقم: 5652
مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب رحمته ﷺ الصبیان والعیال وتواضعه وفضل ذلک، 4: 1808،
رقم: 2317
أحمد بن حنبل، المسند، 6: 56، رقم: 24336
ابن ماجه، السنن، کتاب الأدب، باب برّ الوالد والإحسان إلی البنات، 2: 1209، رقم:
3665
رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کچھ دیہاتی لوگ آئے، اور اُنہوں نے پوچھا: کیا آپ لوگ اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہیں؟ حاضرین نے کہا: ہاں! اُنہوں نے کہا: بخدا ہم تو اپنے بچوں کو بوسہ نہیں دیتے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل سے رحمت نکال لی ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں؟
حضور نبی اکرم ﷺ بچوں کی طبیعت سے بخوبی واقف تھے، اس لیے آپ ﷺ بچوں کے ساتھ ویسا ہی معاملہ فرماتے جیسے ان کی پسند ہوتی۔ حسنین کریمین کو حضور نبی اکرم ﷺ خوش کرنے کے لیے اپنے کندھوں پر سوار کرلیتے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ حَامِلَ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلٰی عَاتِقِهٖ، فَقَالَ رَجُلٌ: نِعْمَ الْمَرْکَبُ رَکِبْتَ یَا غُـلَامُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: وَنِعْمَ الرَّاکِبُ هُوَ.
ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین، 5: 661،
رقم: 3784
حاکم في المستدرک، 3: 186، رقم: 4794
مقدسي، ذخیرۃ الحفاظ، 1: 199، رقم: 19
رسول اللہ ﷺ ، حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو اپنے کندھوں پر اُٹھائے ہوئے تھے، ایک شخص نے کہا: اے لڑکے! تو کتنی اچھی سواری پر سوار ہے۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سوار بھی تو کیا ہی اچھا ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
دَخَلْتُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ وَھُوَ یَمْشِي عَلٰی أَرْبَعَةٍ، وَعَلٰی ظَھْرِهِ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ رضی اللہ عنهما، وَھُوَ یَقُوْلُ: نِعْمَ الْجَمَلُ جَمَلُکُمَا، وَنِعْمَ الْعِدْلَانِ أَنْتُمَا.
طبرانی، المعجم الکبیر، 3: 52، رقم: 2661
میں حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا تو آپ ﷺ گھٹنوں اور دونوں ہاتھوں کے بل چل رہے تھے، آپ ﷺ کی پشت مبارک پر حضرت حسن اور حضرت حسین d سوار تھے اور آپ ﷺ فرما رہے تھے: تم دونوں کا اونٹ کیا خوب اونٹ ہے اور تم دونوں کیا خوب سوار ہو۔
جواب: اگر ماں کسی وجہ سے اپنے بچے کو دودھ پلانے سے قاصر ہو تو اس صورت میں بچے کے دودھ پلانے کا انتظام کرنا اور اس کے اخراجات اٹھانا والدکے ذمہ واجب ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ط وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَکِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ.
البقره، 2: 233
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے۔
اگربچے کی ماں کی زوجیت برقرار نہ رہے تو اس صورت میں سابقہ شوہر کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اپنے شیر خوار بچے کی مدت رضاعت کی اجرت ادا کرے۔
جواب: جی ہاں! رضاعی ماں کاشوہر عزت و شرف میں بچے کے والد کے قائم مقام ہوسکتا ہے۔ اسلام کی رُو سے رضاعت ایک ایسا مقدس منصب ہے جس کی بنا پر حقیقی والدین کے نسب کے ذریعے جو رشتے حرام ہوجاتے ہیں وہ رشتے رضاعی والدین کی نسبت سے بھی برابر حرام ہو جاتے ہیں۔
اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
یَحْرُمُ مِنْ الرَّضَاعَةِ مَا یَحْرُمُ مِنْ الْوِلَادَةِ.
بخاری، الصحیح، کتاب النکاح، باب ما یحل من الدخول والنظر إلی
النساء في الرضاع، 5: 2007، رقم: 4941
مسلم، الصحیح، کتاب الرضاع، باب یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من الولادۃ، 2: 1068، رقم:
1444
رضاعت سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو پیدائش سے حرام ہوتے ہیں۔
اِس رشتے کی عزت و تکریم کا علم ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ کے اسوئہ حسنہ سے ملتا ہے۔
حضرت عمر بن السائب سے روایت ہے:
أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ جَالِسًا یَوْمًا، فَأَقْبَلَ أَبُوْهُ مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَوَضَعَ لَهٗ بَعْضَ ثَوْبِهٖ فَقَعَدَ عَلَیْهِ، ثُمَّ أَقْبَلَتْ أُمُّهٗ مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَوَضَعَ لَهَا شِقَّ ثَوْبِهٖ مِنْ جَانِبِ الْآخَرِ، فَجَلَسَتْ عَلَیْهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ أَخُوْهُ مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَقَامَ لَهٗ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَأَجْلَسَهٗ بَیْنَ یَدَیْهِ.
أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب في بر الوالدین، 4: 337،
رقم: 5145
ابن مفلح المقدسي، الآداب الشرعیۃ، 1: 440
رسول اللہ ﷺ ایک روز تشریف فرما تھے کہ آپ کے رضاعی والد تشریف لائے، آپ ﷺ نے اُن کے لیے اپنی چادر کا کچھ حصہ بچھا دیا تو وہ اُس پر تشریف فرما ہوگئے۔ پھر آپ ﷺ کی رضاعی والدہ تشریف لائیں تو آپ ﷺ نے اُن کے لیے بھی اپنی چادر کا دوسرا حصہ بچھا دیا، سو وہ بھی اُس پر بیٹھ گئیں۔ پھر آپ ﷺ کے رضاعی بھائی آئے تو آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر اُن کا استقبال کیا اور اُنہیں اپنے سامنے بٹھا لیا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کس قدر اپنے رضاعی رشتوں کا احترام کرتے تھے۔ گویا اُن کا احترام اُسی طرح ہے جس طرح حقیقی رشتوں کا احترام لازم ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved