جواب: بچے کے لیے الله تعالیٰ کی طرف سے حسین تحفہ ماں ہے۔ لفظ ’ماں‘ کہنے کو تین حروف کا مجموعہ ہے لیکن عملاً ماں اپنے اندر پیار، محبت، ایثار، قربانی، دعا، وفا، پاکیزگی، اخلاص، ہمدردی جیسے اَن گنت اوصاف و خصوصیات سموئے ہوتی ہے۔ ماں کی عظمت اور بڑائی کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمت کا عکس ماں میں نظر آتا ہے۔
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ ِﷲِ مِائَةَ رَحْمَةٍ، أَنْزَلَ مِنْهَا رَحْمَۃً وَاحِدَۃً بَیْنَ الْجِنِّ وَالإِنْسِ وَالْبَهَائِمِ وَالْهَوَامِّ، فَبِهَا یَتَعَاطَفُوْنَ، وَبِهَا یَتَرَاحَمُوْنَ، وَبِهَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلٰی وَلَدِهَا، وَأَخَّرَ اللهُ تِسْعًا وَتِسْعِیْنَ رَحْمَۃً یَرْحَمُ بِهَا عِبَادَهٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.
مسلم، الصحیح، کتاب التوبة، باب في سعة رحمة الله تعالی وأنها
سبقت غضبه، 4: 2108، رقم: 2752
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 434، رقم: 9607
ترمذي، السنن، کتاب الدعوات، باب خَلَقَ الله مائة رحمة، 5: 549، رقم: 3541
ابن ماجہ، السنن، کتاب الزھد، باب ما یُرْجی من رحمۃ الله یوم القیامۃ، 2: 1435، رقم:
4293
اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں، اُس نے اُن میں سے ایک (حصۂ) رحمت کو جن و انس، حیوانات اور حشرات الارض کے درمیان رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر شفقت اور رحم کرتے ہیں، اُسی (رحمت کی وجہ) سے وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں (اپنے پاس) محفوظ رکھی ہیں، جن سے قیامت کے دن وہ اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔
ماں وہ ہستی ہے جس کی آغوش میں دنیا بھر کا سکون ملتا ہے، کیوں کہ اس کے جذبوں اور اولاد سے محبت میں غرض نہیں ہوتی۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اس کے پاؤں تلے جنت رکھی ہے۔
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
اَلْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ.
قضاعي، مسند الشھاب، 1: 102، رقم: 119
ابن حیان، طبقات المحدثین بأصبھان، 3: 568، رقم: 497
ذھبي، الکبائر: 42
المناوي، التیسیر بشرح الجامع الصغیر، 1: 490
جنت تمہاری ماؤں کے قدموں تلے ہے (لہٰذا تم اُن کے ساتھ حسنِ سلوک کرکے اُس کے مستحق بن جاؤ)۔
ماں بہترین تحفہ خداوندی ہے اس لیے اولاد کو چاہیے کہ اس کی قدر کرتے ہوئے اس کے ساتھ حسنِ سلوک روا رکھے۔ اس کا حکم حدیث مبارک سے بھی ملتا ہے۔
3۔ حضرت بہز بن حکیم رضی اللہ عنہ بطریق اپنے والد اپنے دادا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول الله ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا:
مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ أُمَّکَ. قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ أُمَّکَ. قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: أُمَّکَ. قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أَبَاکَ، ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ.
أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في بر الوالدین، 4: 336،
رقم: 5139
ترمذی، السنن، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء في بر الوالدین، 4: 309، رقم: 1897
حاکم، المستدرک، 4: 166، رقم: 7242
میں کس کے ساتھ اچھا سلوک کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی ماں سے۔ پوچھا: پھر کس سے؟ فرمایا: اپنی ماں سے۔ پوچھا: پھر کس سے؟ فرمایا: اپنی ماں سے۔ عرض کیا: پھر کس سے؟ فرمایا: اپنے باپ سے۔ پھر حسبِ مراتب قریبی رشتہ داروں سے۔
ماں احسانات کا وہ بے مثال مجموعہ ہے جو اولاد کے سکون کی خاطر سارے زمانے کے حالات اور موسم کی سختیاں خود سہتی ہے۔ اس پیکرِ مہر و وفا کو ایک نظر پیار سے دیکھ لینے سے ایک حج کا ثواب ملتا ہے۔
4۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ وَلَدٍ بَارٍّ یَنْظُرُ إِلٰی وَالِدَیْهِ نَظْرَةَ رَحْمَةٍ إِلاَّ کَتَبَ اللهُ لَهٗ بِکُلِّ نَظْرَةٍ حَجَّۃً مَبْرُوْرَۃً. قَالُوْا: وَإِنْ نَظَرَ کُلَّ یَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، اللهُ أَکْبَرُ وَأَطْیَبُ.
بیہقي، شعب الإیمان، 6: 186، رقم: 7856
أبو بکر الإسماعیلي، معجم شیوخہ، 1: 320، رقم: 7
خطیب التبریزي، مشکاۃ المصابیح، 3: 1383، رقم: 4944
ھندي، کنز العمال، 16: 199، رقم: 45535
جو صالح بیٹا بھی اپنے والدین کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھے گا تو الله تعالیٰ ہر نظر کے عوض اس کے لیے مقبول حج کا ثواب لکھ دے گا۔ صحابہ کرام l نے عرض کیا: (یا رسول الله!) چاہے وہ دن میں سو بار دیکھے (تب بھی اُسے یہ اجر ملے گا)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! کیوں کہ الله تعالیٰ سب سے بڑا ہے اور وہ سب (عیوب) سے پاک ہے (کہ اُس کے خزانوں میں عنایات کی کوئی کمی نہیں ہے)۔
ماں کے بارے میں لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ ماں ایک ایسا سمندر ہے جس کی گہرائیوں کا اندازہ بھی کرنا انسانی عقل سے بالاتر ہے۔ ہر شے کی محبت کو الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے مگر ماں کی محبت ناقابلِ بیان ہے۔
جواب: ماں کی گودبچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے جس کا کام انسانیت کی بقاء کے لیے اسے اچھا انسان بنانا ہے۔ چونکہ بچے کا ذہن شفاف آئینہ کی مانند ہوتا ہے، اس لیے والدہ اگر بچے کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کرتی ہے تو بچہ بڑا ہو کر اسلامی معاشرے کا مفید رکن بن سکتا ہے اور معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار بہتر طور پر ادا کرسکتا ہے۔ لہٰذا اس مقصد کے حصول کے لیے ایک اچھی ماں بننے کے تقاضے درج ذیل ہیں:
بچوں کے لئے ماں کے جذبۂ محبت و شفقت کا اِظہار انہیں اِعتماد اور ذہنی آسودگی فراہم کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اُسے چاہیے کہ وہ اس جذبہ کا اظہار کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کرے اور انہیں یہ یقین دلائے کہ وہ ان سے غیر مشروط محبت کرتی ہے۔
بچوں کے معاملات میں دلچسپی لے اور ان کی بات کو توجہ سے سنے اور ان کی زندگی میں خود کو شریک رکھے۔ اگر بچے کسی الجھن یا پریشانی کا شکار ہیں تو ان کی پریشانی کو دور کرنے اور انہیں مطمئن کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔
وہ بچوں کو تحفظ کا احساس فراہم کرتے ہوئے گھر میں نظم و نسق کو قائم کرے۔ ہر کام کے لیے وقت کا تعین کرے مثلاً بچوں کو سلانے کا وقت، کھلانے کا وقت، کھیل کود کا وقت تاکہ بچے بچپن ہی سے وقت کی قدر کرنا سیکھیں اور نظم و ضبط کے مطابق زندگی گزارنے کے عادی ہو سکیں۔
بچوں کے اچھے عمل پر ان کی خوب تعریف اور حوصلہ افزائی کرے۔ بچوں کا موازنہ دوسرے بچوں خصوصاً بہن بھائیوں کے ساتھ نہ کرے، کیوں کہ ہر بچہ منفرد اور جدا اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ انہیں یہ احساس دلائے کہ منفرد و جدا ہونا اچھی بات ہے۔ موازنہ کرنے سے بچے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
بچوں پر بلا وجہ تنقید اور نکتہ چینی کرنے سے احتراز برتا جائے۔ اگر بچے کسی ناپسندیدہ فعل کے مرتکب ہو بھی جائیں تو انہیں پیار سے سمجھائے کہ ایسا رویہ ناقابلِ قبول ہے۔ ملامتی جملے مثلاً ’تم بہت برے ہو‘، ’میری نظروں سے دور ہو جاؤ‘ وغیرہ استعمال نہ کرے۔ انہیں دوسروں کے سامنے شرمندہ نہ کرے بلکہ علیحدہ لے جاکر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرے اور پیار سے سمجھائے۔
والدہ بچوں کو جس سانچے میں ڈھالنا چاہتی ہے اس کے لیے صرف زبانی نصیحت پر اکتفا نہ کرے بلکہ ان کے سامنے خود کو بطور نمونہ پیش کرے، کیوں کہ انہیں ایک ایسے رول ماڈل کی ضرورت ہوتی ہے جسے وہ عملی طور پر دیکھ سکیں۔ بچے خود جو دیکھتے اور سنتے ہیں اس کا اثر جلدی قبول کر کے اسے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ رول ماڈل بچوں کے لیے ماں سے بہتر کوئی پیش نہیں کر سکتا۔
جواب: بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت اور کردار سازی کے لیے والدہ کا بہترین کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ نپولین نے کہا تھا:
تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔
علامہ اقبال کا کہنا ہے:
قوموں کی تاریخ اور ان کا ماضی و حال ان کی ماؤں کا فیض ہے۔
اگر ہم تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں ہر عظیم شخصیت کے پیچھے ماں کا کردار کار فرما نظر آئے گا مثلاً امام حسن و حسین d اور سیدہ زینب و سیدہ اُم کلثوم d جنہوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی ان کی شخصیت سازی میں ان کی والدہ سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ انہوں نے بچوں کی تربیت بے مثال کی اور معاشرے کو ایسے باکمال افراد پیش کیے کہ جن میںسے ہر کو ئی عالم، عابد، شجاع اور اعلیٰ و ارفع کردار سے مزین، انسانی اقدار کا حامل اور معاشرے کے لیے مفید اور مؤثر ثابت ہوا۔
شیخ عبد القادر جیلانی کے مقامِ غوثیت پر فائز ہونے میں والدہ کی تربیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جنہیں علم سے فیض یاب کروانے کے لیے ماں اس نصیحت کے ساتھ سفر پر روانہ کرتی ہے کہ زندگی کے کسی بھی مقام پر سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔ ماں کے اس سبق کا امتحان آغازِ سفر میں ہی پیش آجاتا ہے جب آپ قافلے کے ہمراہ سفر کر رہے تھے تو رہزنوں نے قافلے پر حملہ کیا اور تمام مال و اسباب لوٹ لیا۔ آپ نے بھی اپنی والدہ سے کیے گئے وعدہ کو نبھاتے ہوئے اپنی متاع رہزنوں کے سردار کو دے دی۔ سردار آپ کی صدق گوئی سے اس قدر متاثر ہوا کہ فوراً اپنے گناہوں سے تائب ہوگیا۔ اس کو دیکھ کر دیگر راہزن بھی آپ کے ہاتھ پر تائب ہوئے اور اپنے رب سے گناہوں کی معافی طلب کی۔
محمد بن یحییٰ، قلائد الجواہر: 9
اسی طرح حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری - جو ولایت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوئے اور عوام و خواص ان سے آج تک فیوض و برکات حاصل کر رہے ہیں - کو اس درجہ ولایت تک پہنچانے میں والدہ کی تربیت کے پہلو کو فراموش نہیں کیا جاسکتا جو ہمیشہ اپنے فرزند کو باوضو دودھ پلاتی تھیں۔
علامہ اقبال کے نام سے کون واقف نہیں۔ آپ کی والدہ صالح اور خدا ترس خاتون تھیں۔ انہی کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپ شاعر مشرق بنے جن کی شاعری نے مسلمانوں کو ایک نیا ولولہ و شعور اور بیداری عطا کی۔
مذکورہ واقعات کی روشنی میں آج بھی ماؤں کو چاہیے کہ اپنی اولاد کی تربیت انہی عظیم ہستیوں کے نقوش پر کریں۔ یوں ان کی نسلیں بھی تاریخ کے صفحات کا روشن باب بن سکیں گی اور ملتِ اسلامیہ کے لیے حتمی گوہر کی طرح اندھیروں میں روشنی کی کرن بن کر جگمگائیں گی۔
جواب: اگر کسی خاتون کا شوہر فوت ہو جائے تو شریعت اسے دوسری شادی کی مکمل اجازت دیتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگر کوئی عورت اپنی خواہشات اور جذبات کو مسترد کرکے اپنے بچوںکے بہتر مستقبل، ان کی بہترین تعلیم و تربیت اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیتی ہے اور شرعی اجازت ہونے کے باوجود دوسری شادی نہیں کرتی تو ایسی عورت کے لیے قیامت کے روز حضور نبی اکرم ﷺ کی معیت کی بشارت ہے۔
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
أَنَا وَامْرَأَۃٌ سَفْعَاءُ الْخَدَّیْنِ کَهَاتَیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَجَمَعَ بَیْنَ أُصْبُعَیْهِ السَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی، امْرَأَۃٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، آمَتْ مِنْ زَوْجِهَا، حَبَسَتْ نَفْسَهَا عَلٰی أَیْتَامِهَا حَتّٰی بَانُوْا أَوْ مَاتُوْا.
أحمدبن حنبل، المسند، 6: 29، رقم: 24052
أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في فضل من عال یتیمًا، 4: 338، رقم: 5149
بخاري، الأدب المفرد: 62، رقم: 141
طبراني، المعجم الکبیر، 18: 56، رقم: 103
بیہقي، شعب الإیمان، 6: 406، رقم: 8682
میں اور سیاہ رخساروں والی خاتون (سخت محنت و مشقت کی وجہ سے جس کے رخساروں کا رنگ تبدیل ہوجائے) قیامت کے دن اِس طرح ہوں گے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے (اشارہ فرماتے ہوئے) اپنی اُنگشتِ شہادت اور درمیانی اُنگشت کو ملایا۔ وہ خاتون جس کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ (بلند دنیاوی) منصب اور حسن و جمال کی حامل ہو لیکن اپنے یتیم بچوں کی (پرورش کی) خاطر (دوسری شادی سے) رُکی رہے (اور اپنی جوانی کا دور بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے وقف کر دے) یہاں تک کہ اس کے بچے جوان ہو جائیں یا وفات پا جائیں۔
جواب: ماں کا دودھ بچے کے لیے قدرت کا انمول تحفہ ہے جو نہ صرف جسمانی غذا ہے بلکہ اسلامی نقطہ نگاہ سے یہ بچے کے قلب و روح، جذبات و احساسات اور اخلاق و کردار پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔ یہ بچے کو صرف صحت بخش خوراک ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ اس کے ذریعے ماں اپنے پاکیزہ خیالات، رجحانات، اعلی جذبات اور پسندیدہ اخلاق بھی اس کے جسم و جان میں منتقل کرتی ہے جس کے باعث تا دمِ آخر بچے کے دل میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور دین کی محبت جاگزیں رہتی ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ انسان انہی صفات پر قائم رہ کر عمر رسیدہ ہوتا ہے جن پر وہ نشو و نما پاتا ہے اور بچہ قدرتی طور پر ان اثرات کو زیادہ اور جلدی قبول کرتا ہے۔
شیخ عبد القادر جیلانی کے حوالے سے ایک واقعہ منقول ہے کہ آپ کی والدہ حضرت فاطمہ ام الخیر بیان فرماتی ہیں:
لما وضعت ابنی عبد القادر کان لا یرضع ثدیا فی نهار رمضان، وغم علی الناس هلال رمضان، فأتوني وسألونی عنه. فقلت لھم: لم یلقم الیوم ثدیا. ثم اتضح أن ذلک الیوم کان من رمضان، واشتھر ذلک ببلاد جیلان أنه ولد للأشراف ولد لا یرضع فی نهار رمضان.
محمد بن یحییٰ، قلائد الجواهر: 3
جب میرے بیٹے عبد القادر کی ولادت ہوئی تو وہ ماہ رمضان میں دن بھر میرے سینے سے دودھ نہیں پیتا تھا۔ ایک دفعہ لوگوں کو رمضان کے چاند کی رؤیت نہ ہوسکی تو وہ میرے پاس آئے اور مجھ سے چاند کے بارے میں پوچھا۔ میں نے انہیں کہا: آج میرے بیٹے نے میرا دودھ نہیں پیا۔ پھر لوگوں پر یہ واضح ہوگیا کہ وہ دن رمضان المبارک کا ہی تھا۔ پھر جیلان کے علاقے میں یہ خبر عام ہوگئی کہ سادات کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان المبارک میں دن بھر ماں کا دودھ نہیں پیتا۔
حضرت فاطمہ ام الخیر نہایت متقی، نیک اور پارسا خاتون تھیں اور مدر فیڈنگ کے ذریعے ان کی نیک صفات شیخ عبد القادر جیلانی میں منتقل ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ والدہ کی عبادت اور ریاضت و مجاہدہ کے طفیل انہوں نے اپنے زمانہ رضاعت میں بھی رمضان المبارک کے آداب کو ملحوظ رکھا اور جمیع اَولیاء کرام کے سردار کے منصب پر فائز ہوئے۔
جواب: بچہ ہو یا بچی، دونوں کو دو برس تک دودھ پلایا جائے گا۔ اس کا حکم قرآن مجید میں ہے:
وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ ط وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَکِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ط لاَ تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلاَّ وُسْعَهَا ج لاَ تُضَآرَّ وَالِدَۃٌ م بِوَلَدِهَا وَلاَ مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِہٖ وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ ج فَاِنْ اَرَادَا فِصَالاً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْهِمَا ط وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْآ اَوْلاَدَکُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط وَاتَّقُوْا اللهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ.
البقرة، 2: 233
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے، (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضا مندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور الله سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بے شک جو کچھ تم کرتے ہو الله اسے خوب دیکھنے والا ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ ج حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰی وَهْنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ ط اِلَیَّ الْمَصِیْرُo
لقمان، 31: 14
اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں (نیکی کا) تاکیدی حکم فرمایا، جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں (اپنے پیٹ میں) برداشت کرتی رہی اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے (اسے یہ حکم دیا) کہ تو میرا (بھی) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ (تجھے) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
علامہ ابوبکر علاؤ الدین الکاسانی فرماتے ہیں:
قَالَ أَبُو حَنِیفَۃ: ثَلَاثُونَ شَهْرًا وَلَا یُحَرِّمُ بَعْدَ ذٰلِکَ سَوَاءٌ فُطِمَ أَوْ لَم یُفْطَمْ. وَقَالَ أَبُو یُوسُفَ وَمُحَمَّد: حَوْلَانِ لَا یُحَرِّمُ بَعْدَ ذٰلِکَ فُطِمَ أَوْ لَمْ یُفْطَمْ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِیِّ.
کاسانی، بدائع الصنائع، 4: 6
امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک مدتِ رضاعت تیس مہینے ہے، اس کے بعد حرمت ثابت نہیں ہوتی چاہے بچے کا دودھ چھڑا لیا گیا ہو یا نہ چھڑایا گیا ہو۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک یہ مدت دو سال ہے، اس کے بعد حرمت ثابت نہیں ہوتی چاہے دودھ چھڑایا گیا ہو یا نہ چھڑایا گیا ہو۔ نیز امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔
جمہور ائمہ کے نزدیک مدتِ رضاعت دو سال، جب کہ امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک اڑھائی سال ہے۔ امام اعظم کا موقف احتیاط کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہے۔
جواب: طبی نقطہ نگاہ سے ماں کا دودھ بچے کی جسمانی و نفسیاتی تقاضوں کے پیش نظر نہایت ضروری ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق اس کے درج ذیل فوائد ہیں:
1۔ ماں کا دودھ بچے کے لیے ایک مکمل اور بھرپور غذا ہے، اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔
2۔ یہ بچے کی بہترین نشو و نما کا ضامن ہے، اس سے بچے کی مجموعی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
3۔ اس میں موجود پروٹین کی خاص مقدار انفیکشن کو کنٹرول کرتی ہے، جو بچے کو انفیکشن اور الرجی سے بچانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
4۔ ڈبے کا دودھ پینے والے بچوں کی نسبت اِن بچوں کی نمو زیادہ اچھی ہوتی ہے کیوں کہ یہ ایک معقول درجہ حرارت رکھتا ہے اور بچے کو طاقتور اور صحت مند بناتا ہے۔
5۔ Mother feeding کے دوران بچے میں تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ جو ماں اور بچے کے درمیان ایک خوبصورت تعلق کی بنیاد بنتا ہے۔
6۔ ماں کے دودھ میں شامل وٹامنز اور غذائی عناصربچے کی جسمانی ضروریات کے مطابق ہوتے ہیں جو بچے کی ضرورت کے مطابق دن بدن بڑھتے رہتے ہیں۔ یہ اجزاء بچوں کے نظامِ ہضم کو بہتر بنانے میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔
جواب: بچے کو دودھ پلانے سے ماں کی صحت پر درج ذیل مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں:
1۔ حمل کے زمانے میں جو وزن بڑھتا ہے وہ دودھ پلانے کی وجہ سے جلد پیدائش سے پہلے والے وزن کی طرف واپس آتا ہے۔
2۔ دودھ پلانے والی عورتوں کی ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں۔
3۔ بیضہ دانی اور چھاتی کے کینسر سے محفوظ رہتی ہیں۔
4۔ عورت کے لیے منعِ حمل میں ایک طبعی عامل کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ اُن سب مشکلات اور نقائص سے محفوظ رہتی ہے جو منع حمل کے لیے گولیاں یا انجکشن وغیرہ استعمال کرنے سے پیدا ہوتی ہیں۔
5۔ جدید تحقیق کے مطابق مدر فیڈ کے باعث ماں ذیابیطس کی بیماری سے یقینی طور پر محفوظ رہتی ہے۔
جواب: اپنے بچوں کو دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے ایک جان کو زندگی بخشنے کے برابر اجر ہے۔
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْمُسْلِمَةَ إِذَا حَمَلَتْ کَانَ لَهَا أَجْرُ الْقَائِمِ الصَّائِمِ الْمُحْرِمِ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِیْلِ اللهِ، حَتّٰی إِذَا وَضَعَتْ فَإِنَّ لَهَا بِأَوَّلِ رَضْعَةٍ تُرْضِعُهٗ أَجْرَ حَیَاۃِ نَسَمَةٍ.
أبو یعلی المسند، 4: 345، رقم: 2460
عسقلانی، المطالب العالیۃ، 8: 552، رقم: 1763
بے شک مسلمان عورت جب حاملہ ہوتی ہے تو اس کے لیے قیام کرنے والے، روزہ رکھنے والے، حج کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد کے برابر ثواب ہے۔ یہاں تک کہ بچے کو پلائے گئے دودھ کے پہلے گھونٹ کے بدلے اُسے ایک جان کو زندگی بخشنے کے برابر اجر و ثواب ملتا ہے۔
جواب: والدہ جب یہ محسوس کرے کہ دودھ پلانے کے باوجود بچہ سیر نہیں ہو رہا اور وہ بھوک کی وجہ سے اکثر و بیشتر اپنا انگوٹھا یا مٹھیاں چوستا ہوا نظر آئے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اب محض دودھ بچے کی بھوک مٹانے یعنی اس کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ یہ عموماً چھ ماہ کی عمر میں ہوتا ہے۔ اس عمر سے شیر خوار کی ایسی ٹھوس غذا شروع ہوجانی چاہیے جس میں تمام غذائی اجزاء مناسب مقدار میں موجود ہوں۔ یہ اجزاء نشاستہ، فائبر، وٹامن، نمکیات اور خصوصی طور پر فولاد پر مشتمل ہونے چاہییں تاکہ جسم کسی جزو کی کمی کا شکار نہ ہو۔
جواب: بچوں کی نشو و نما اور صحت میں حائل ایک بڑی رکاوٹ انہیں ناقص غذا دینا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ غذا اور غذائیت سے متعلق بنیادی معلومات سے آگہی کا فقدان ہے۔ یہی حال بچوں کو اضافی ٹھوس غذا بروقت نہ دینے کا ہے۔ بسا اوقات اس کا انتخاب بھی خاصہ غیر موزوں ہوتا ہے۔ ناقص غذا بچوں کی صحت پر درج ذیل منفی اثرات مرتب کرتی ہے:
1۔ ذہنی و جسمانی نشو و نما رک جاتی ہے۔
2۔ جسم خون کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے۔
3۔ بھوک نہیں لگتی۔
4۔ کمزوری کے باعث جسم دبلا پتلا ہو جاتا ہے۔
5۔ وٹامن ڈی کی کمی پیدا ہو جاتی ہے۔
6۔ شکم سوجن کا شکار ہوجاتا ہے۔
7۔ جلد کی بیماریوں سے دو چار رہتا ہے۔
8۔ نقاہت کے باعث سست رہتا ہے۔
9۔ متعدی بیماریاں آئے دن حملہ آور ہوتی رہتی ہیں۔
جواب: بچے کی جسمانی نگہداشت میں والدہ کا کردار نہایت اہمیت کاحامل ہے کیوں کہ بچپن میں زیادہ تر جسمانی نگہداشت ہی سے سابقہ رہتا ہے۔ اس عہد کی مناسب دیکھ بھال آئندہ کی صحت مند نشو و نما کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ ذیل میں چند اُصول بیان کیے جارہے ہیں جو بچے کی بہترین جسمانی نگہداشت میں ایک ماں کے لیے معاون و مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔
1۔ بچے کو دودھ پلانے اور ٹھوس غذا فراہم کرنے کے اوقات مقرر کیے جائیں۔
2۔ متوازن غذا کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ ناقص غذا یا غذائی قلت کی وجہ سے بچہ کی نشو و نما متاثر نہ ہو۔
3۔ بچے کی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جائے تاکہ وہ صحت مند رہے اور بیماریوں سے محفوظ رہ سکے۔
4۔ بچے کا لباس ہلکا پھلکا، ڈھیلا، صاف ستھرا، آرام دہ اور موسم کی مناسبت سے ہو۔
5۔ بچے کو پابندی سے نہلایا جائے کیوں کہ یہ حفظانِ صحت کے اُصولوں میں سے ہے۔ اس سے بچہ صحت مند رہے گا اور اسے صاف ستھرا رہنے کی عادت بھی پیدا ہوگی۔
6۔ بچے کی بہترین جسمانی نگہداشت کے لیے جہاں دیگر عوامل ضروری ہیں وہاں اس کے لیے بھرپور نیند لینا بھی ضروری ہے۔ والدہ کو چاہیے کہ بچے کے آرام کے اوقات مقرر کرے اور اس کے آرام کا مکمل خیال رکھے تاکہ اس کی جسمانی نگہداشت اچھی ہو سکے۔
7۔ کھیلنا کودنا بچوں کا فطری حق ہے۔ شیرخوار بچے کے لیے کھیل کود یہی عمل ہوتا ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے ہاتھ پاؤں اور ٹانگوں کو حرکت دے سکے۔ بعض لوگ بچوں کو مکمل طور پر کپڑے میں لپیٹ کر جکڑ دیتے ہیں جو اس کی جسمانی صحت کے لحاظ سے درست نہیں۔ ضروری ہے کہ اُسے مناسب کپڑے پہنا کر اعضاء کو حرکت دینے کی آزادی دی جائے۔ اِس عمل سے دماغ اور عضلاتی نظام بیدار رہتا ہے، دورانِ خون صحیح رہتا ہے اور غذا سرعت سے ہضم ہوتی ہے۔
8۔ روشنی بچوں کی صحت کے لیے بہت ضروری ہے کیوں کہ یہ بچوں کو وٹامن ڈی فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہے اس لیے انہیں کچھ وقت کے لیے دھوپ میں رکھا جائے۔ دھوپ کی شعاعیں انسانی جسم کے لیے وٹامن ڈی کی فراہمی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس قدرتی عمل سے شیر خوار بچوں کو ضرور مستفید کرنا چاہیے تاکہ ان کی جسمانی نگہداشت اچھی ہو سکے۔
جواب: جی ہاں! چوسنی کا استعمال بچوں کی صحت کے لیے مضر ہے جب کہ مائیں اپنی سہولت کی خاطر بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے ان کے ہاتھ میں چوسنی تھما دیتی ہیں یا ڈوری کے ساتھ اسے گلے میں لٹکا دیتی ہیں۔ بچہ رونے کی صورت میں چوسنی منہ میں ڈال لیتا ہے اور مطمئن ہو جاتا ہے۔ اسے baby soothers کہتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق ایسا بچہ تندرست نہیں رہ سکتا کیوں کہ چوسنی کبھی جراثیم سے پاک نہیں ہوتی اوربظاہر بچوں کو سکون یا اطمینان دلانے والا یہی ذریعہ درحقیقت بچے کے گلے اور پیٹ میں انفیکشن کا باعث بنتا رہتا ہے اور بچے مسلسل کھانسی، گلے کی خرابی،پیٹ درد اور اسہال جیسی بیماریوں کا شکار رہتے ہیں۔
جواب: اگر فیڈر کو مکمل طور پر جراثیم سے پاک نہ رکھا جائے تواس کا استعمال بچوں کی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ فیڈر سے دودھ پلانا غیر محفوظ ہوتا ہے اور جتنی بھی احتیاط برتی جائے اسے جراثیم سے محفوظ نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ اس طرح بچے کے بیمار ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
چھ ماہ کی عمر تک بچے کی جسمانی اور غذائی ضروریات میں اضافہ ہوجاتا ہے اور دودھ کے علاوہ اس کے کھانے میں ٹھوس غذا بھی شامل ہو جاتی ہے لیکن ٹھوس غذا لینے کے ابتدائی دور میں بعض بچے نئے ذائقوں کو آسانی سے قبول نہیں کرتے اور انہیں اس کا عادی بنانے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ مائیں جب یہ دیکھتی ہیں کہ وہ کچھ نہیں کھا رہے تو انہیں زبردستی دودھ یا ملک شیک فیڈر میں ڈال کر دیتی ہیں۔ سوتے میں اس کے منہ میں فیڈر دیا جاتا ہے جب کہ فیڈر کی چوسنی اور اس کا اندرونی حصہ جراثیم کے اہم مراکز ہونے کی وجہ سے بچے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
اگر چہ فیڈر کو صاف رکھنے کے لیے اُسے پانی میں اُبالنے کا طریقہ بھی درست ہے مگر اس عمل میںفیڈر کے نپل کا ربڑ خراب ہوجاتا ہے۔ کیمیائی جراثیم کش ادویہ سے بھی فیڈر صاف ہوسکتا ہے، مگر ان کا جسم میں جانانقصان دہ ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ فیڈر صرف بحالت مجبوری دیا جائے اور آغاز سے ہی بچے کو کپ، گلاس یا چمچ کے ساتھ دودھ پلانے کی کوشش کی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے سویاں،کسٹرڈ، کارن فلور، دلیہ وغیرہ دیا جائے جس میں دودھ کے ساتھ ٹھوس اور مقوی غذائیں بھی شامل ہوتی ہیں۔
جواب: انگوٹھا چوسنا بچے کی جبلت کا حصہ ہے وہ اپنی ذات کو تسکین اور آرام پہنچانے کے لیے انگوٹھا چوستا ہے۔ رحم مادر سے ہی اس کا یہ عمل شروع ہو جاتا ہے۔ چھ ماہ کی عمر میں اس کا یہ احساس پختہ ہو جاتا ہے اور اسے کرنے میں وہ ایک خوشی محسوس کرتا ہے۔ انگوٹھا چوسنے کا عمل ہاتھ کے انگوٹھے کے علاوہ پیر کے انگوٹھے سے بھی انجام پاتا ہے۔
اسے صرف ایک فطری داعیہ ہی نہ مانا جائے بلکہ اس کے مختلف اسباب و محرکات بھی ہوسکتے ہیں مثلاً کبھی وہ بھوک کی وجہ سے انگوٹھا چوستا ہے۔ اگر اسے پوری غذا بروقت ملے تو یہ عادت ختم ہوسکتی ہے۔ کبھی کسی سستی یا تکان کا شکار ہو جائے تو راحت و سکون حاصل کرنے کے لیے وہ یہ عمل اختیار کر سکتا ہے۔ اسی طرح ذہنی کشمکش میں مبتلا بچہ بھی انگوٹھا چوس کر عارضی طور پر آرام محسوس کرتا ہے۔ ان حالات میں اسباب و محرکات کا سراغ لگا کر سدِ باب کیا جانا چاہیے۔
جواب: انگوٹھا چوسنے کے بارے میں ماہرین کی دو آراء ہیں:
ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ انگوٹھا چوسنا قدرتی عمل ہے۔ یہ کوئی بری عادت نہیں ہے۔ ایک معینہ وقت پہ بچے خود ہی انگوٹھا چوسنا چھوڑ جاتے ہیں۔ زبردستی یہ عادت چھڑانے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے ورنہ فائدہ کی بجائے نقصان کا احتمال ہوتا ہے۔
دوسرا نظریہ بہت حد تک درست ہے کہ بچے کے ہاتھ عموماً میلے اور گندے ہوتے ہیں۔ انگوٹھا چوسنے سے میل کچیل پیٹ میں چلی جاتی ہے جو مختلف بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق انگوٹھا چوسنے والے بچے عموماً ذہنی الجھنوں کا شکار رہتے ہیں اور ان میں خود اعتمادی بھی پیدا نہیں ہوتی۔
جواب: طبی اور نفسیاتی پہلو سے انگوٹھا چوسنے کی عادت کو بہرحال نقصان دہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ شیر خوار کو اس عادت سے باز رکھنے کے لیے والدہ کو بہتر حکمت عملی اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تحمل اور صبر سے کام لیتے ہوئے پیار سے بچے کو اس عمل سے باز رکھے اور اس کو کچھ ایسے کھلونے فراہم کرے جن میں مشغول ہو کر بچہ انگوٹھا چوسنا ترک کر دے۔
جواب: صاف ستھرے بچے دوسروں کی نہ صرف توجہ حاصل کرتے ہیں بلکہ صفائی ستھرائی ان کی آئندہ زندگی پر بھی مثبت نتائج مرتب کرتی ہے۔ اس لیے ماں کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی مصروفیات کے باوجودبچے کی جسمانی صفائی سے غافل نہ ہو اور درج ذیل اُمور کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بچوں کی صفائی کا خیال رکھے:
1۔ اپنے ہاتھوں اور ناخنوں کو صاف ستھرا رکھے تاکہ بچے جراثیم سے محفوظ رہیں۔ زیادہ تر جراثیم ہاتھوں کے ذریعے ہمارے جسم تک پہنچتے ہیں، اس لیے پانی اور صابن سے ہاتھ دھونا بہت سی بیماریوں سے بچاتا ہے۔
2۔ ماں بچے کو دودھ پلانے یا ٹھوس غذا دینے سے پہلے اور اس کا ڈائپر تبدیل کرنے یا اسے ٹوائلٹ سے لے کر آنے کے بعد ہمیشہ اپنے ہاتھ صابن سے اچھی طرح دھوئے۔
3۔ بچے کی جسمانی صفائی کا خاص خیال رکھتے ہوئے دن میں کم از کم دو بار صابن سے بچے کے ہاتھ اور چہرہ دھونے کی عادت ڈالے اور روزانہ اس کا لباس تبدیل کرے۔
4۔ ڈائپر یا پیمپر جیسے ہی خراب ہو، فوراً تبدیل کرے۔ طویل دورانیے تک ایک ہی ڈائپر پہنائے رکھنے سے بچے کی جلد متاثر ہوتی ہے اور یہ خارش کا سبب بھی بنتا ہے۔
5۔ بچے کے ناخن باقاعدگی سے تراشے۔ بہتر ہوگا کہ ناخن تراشنے کا کام بچے کے سونے کے دوران انجام دیا جائے۔
6۔ بچے کے بستر کی باقاعدگی سے صفائی کی جائے اور وقتِ ضرورت اُسے دھویا جائے۔
7۔ بچے کے کھلونوں کو باقاعدگی سے صاف کرے، کیوں کہ کھیل کے دوران کھلونے بار بار نیچے گرتے ہیں اور بچہ انہیں منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کھلونوں کی صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو اس سے بچے کے بیمار ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
8۔ بچے کو گھریلو جانور مثلا بلی، کتا، پرندے وغیرہ سے بچائے۔ بچے کو الرجی ہونے کا امکان ہو سکتا ہے۔
جواب: چھوٹے بچوں کی نسبت نوزائیدہ بچوں کو نہلانا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے انہیں روزانہ نہلانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر کپڑوں کی تبدیلی کے دوران اور بچوں کو دودھ پلانے اور ٹھوس غذا کھلانے کے بعد مناسب صفائی کر دی جائے تو ہفتے میں دو تین بار نہلانا ہی کافی ہوتا ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب موسم سرد نہ ہو۔ سردی کے موسم میں ہفتے میں ایک سے دو بار نہلانا بھی کافی ہو جاتا ہے۔ نہلاتے وقت درج ذیل پہلو مدِ نظر رکھنے چاہییں:
1۔ پانی صاف ستھرا اور مناسب درجہ حرارت پر ہونا چاہیے۔
2۔ سرد موسم میں جس کمرے یا باتھ روم میں بچے کو نہلائیں وہ بھی مناسب حد تک گرم ہونا چاہیے۔ بچے کے جسم سے اس وقت لباس اُتاریں جب نہلانے کی تمام تیاری مکمل ہو چکی ہو۔
3۔ بچے کو نہلانے کا عمل طویل نہیں ہونا چاہیے۔
4۔ نہلانے کے بعدبچے کو خشک کرنے کے لیے صاف ستھرا تولیہ استعمال کریں۔
5۔ نہلانے کے بعد بچے کے کان کا بیرونی حصہ روئی یا نرم کپڑے سے صاف کرنا چاہیے، اندرونی حصے کو ہلکا سا صاف کر لینا چاہیے لیکن رگڑ کر بہت سختی سے صاف نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ میل نما جو مواد وہاں نظر آتا ہے وہ بچے کے کانوں کی حفاظت کرتا ہے۔
6۔ بچوں کو نیم گرم پانی سے غسل کے بعد سرسوں کے تیل سے ان کی مالش کرنی چاہیے۔ اس سے ان کی جلد کو تقویت ملے گی۔
جواب: ہر موسم میں بچوں کی دیکھ بھال نہایت ضروری ہے کیوں کہ موسم کے اُتار چڑھاؤ بچوں پر بہت جلد اثر انداز ہوتے ہیں۔ بچے کی صحت کی حفاظت ماں کی ذمہ داری ہے اور ممکنہ حد تک وہ بچے کو صحت مند دیکھنا چاہتی ہے۔ شدید سردی اور گرمی دونوں ایسے موسم ہیں جو بچوں کو بڑوں کی نسبت جلد متاثر کرتے ہیں کیوں کہ بچوں میں بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت کم ہوتی ہے۔ خاص طورپر نوزائیدہ بچوں کے لیے پہلی گرمی اور سردی زیادہ اہم ہوتی ہے۔ اس میں بچوں کے بیمار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
بچے نازک، معصوم اور پھولوں کی مانند ہوتے ہیں، ذرا سی بے احتیاطی انہیں مرجھا دیتی ہے۔ موسم سرما کی آمد کے ساتھ کئی طرح کے امراض مثلاً نزلہ، زکام، کھانسی اور بخار ان پر حملہ آور ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ناک بند ہونا، الرجی، خارش اور نمونیا جیسے امراض میں بہت شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ نوزائیدہ بچے موسم کی سختی کو برداشت نہیں کر پاتے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بچوں کو ہونے والی سردی کی شکایت عارضی ہوا کرتی ہے اور وہ کچھ دنوں میں ٹھیک بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن کچھ بچوں کو سینے اور کانوں کے انفیکشن کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ لہٰذا والدین اور بالخصوص ماں کو چاہیے کہ خاص طور پر بچوں کے پاؤں، سر اور سینے کو گرم کپڑوں سے ڈھانپ کر رکھے۔
موسم گرما میں جہاں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہیں اس گرمی سے بہت سارے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں، خصوصاً بچوں کے مختلف امراض کی وباء پھوٹ پڑتی ہے۔ ان بیماریوں سے بچائوکے لیے ماں کو حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔ اس موسم میں بچوں کو ہونے والی بیماریوں میں چکن پاکس، خسرہ، یرقان اور ٹائی فائیڈ اہم ہیں۔ یہ بیماریاں آلودہ پانی، صفائی کے ناقص انتظام اور ناقص غذا کے استعمال سے پھیلتی ہیں۔ ان کا علاج نہایت ضروری ہے۔ باقاعدگی سے حفاظتی ٹیکے لگوانے، صاف پانی اور متوازن غذا کے استعمال اوربیماری کی صورت میں بروقت ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنے سے ان امراض سے بچا جا سکتا ہے۔
موسم گرما میں گرمی کی شدت کی وجہ سے نوزائیدہ بچوں کو دوپہر بارہ بجے سے سہ پہر چار بجے تک باہر دھوپ میں لے جانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ انہیں ڈھیلا ڈھالا اور ہلکے رنگوں والا لباس پہنانا چاہیے۔ ایسا رنگ جو گرمی کو جذب کرکے بچے کو پرسکون احساس مہیا کرے۔ سورج کی براهِ راست تپش سے بچانے کے لیے بچوں کو سر پر ٹوپی پہنائی جائے اور sunscreen cover استعمال کرنا چاہیے جو انہیں سورج کی گرمی سے بچا سکے۔ اس موسم میں مکھیاں اور مچھر بکثرت ہوتے ہیں، ان سے بچاؤ کے لیے بچوں کو جس کمرے میں رکھا جائے وہاں صفائی کا اچھا انتظام ہونا چاہیے اور وقتاً فوقتاً insect killers کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ مچھر، مکھیاں اور دیگر کیڑے مکوڑے ختم ہو سکیں۔
جواب: شیر خوار بچوں کے رونے کی درج ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں:
اگر بچہ ٹانگیں سکیڑ کر اچانک رونا شروع کر دے، تھوڑی دیر چپ ہوجائے اور کچھ دیر بعد پھر ایسا ہی کرے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ پیٹ کی تکلیف میں مبتلا ہے۔ اِس صورت میں اسے سینے سے لگا کر ڈکار دلا دی جائیں کیوں کہ دودھ پلانے کے بعد بعض دفعہ ڈکار نہ دلانے کی وجہ سے وہ اس تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے اور ڈکار دلانے پر فوراً چپ ہو جائے گا۔
بصورتِ دیگر سرسوں کا تیل نیم گرم کرکے دائروں کی شکل میں بچے کے پیٹ پر مالش کرنی چاہیے۔ اس طرح اسے درد سے آرام مل جائے گا۔ لیکن اگر ایسا کرنے کے باوجود بچہ چپ نہ ہو اور مسلسل روتا رہے تو پھر معالج کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
بعض مائیں بچوں کو سارا دن پیمپر کیے رکھتی ہیں۔ اس سے جلد متاثر ہوتی ہے اور اس پر خارش یا انفیکشن ہو سکتی ہے۔ اس سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ مائیں دن کا اکثر حصہ بچوں کو بغیر پیمپر کے رکھیں اور نیپی ریش پاؤڈر یا لوشن استعمال کریں۔
اکثر اوقات بچہ بھوک کی وجہ سے روتا ہے، بعض مائیں یہ جان نہیں پاتیں کہ بچہ کیوں تنگ کر رہا ہے۔ اگر بچے کی عمر چھ ماہ سے زیادہ ہے تو صرف دودھ سے اس کا پیٹ نہیں بھرے گا۔ اسے دودھ کے ساتھ ہلکی پھلکی ٹھوس غذا بھی دینی چاہیے تاکہ بچہ پر سکون نیند لے سکے۔
نوزائیدہ اور شیر خوار بچے کے لیے مناسب اور پرسکون نیند از حد ضروری ہے۔ اس کے لیے بھی اُسے پر سکون ماحول درکار ہوتا ہے۔ اگر بچے کو نیند آرہی ہو اور اردگرد شور ہو یا اسے زبردستی جگایا جائے تو بھی وہ رونا شروع کر دیتا ہے۔
بچہ تنہائی میں ڈر کر یا اُکتا کر رونا شروع کر دیتا ہے۔ ایسی صورت میں بچے کو گود میں لے کر بہلانے سے فوراً چپ ہو جاتا ہے۔
بچے زیادہ سردی یا گرمی میں بھی والدین کو بہت پریشان کرتے ہیں۔ اس صورت میںانہیں چاہیے کہ موسم کی مناسبت سے بچوں کو کپڑے پہنائیں۔
چھوٹے بچوں کو چونکہ اپنی تکلیف بتانا نہیں آتی، لہٰذا والدین کو ان کی حرکات و سکنات سے اندازہ لگانا چاہیے کہ بچے کو کیا تکلیف ہے۔ وہ اس وقت کیا محسوس کر رہا ہے۔ یہ حرکات و سکنات ہی اس کی زبان ہوتی ہیں۔ عموماً بچے نزلہ، زکام اور کھانسی میں زیادہ پریشان ہوتے ہیں، لہٰذا اگر بچہ کھانستے وقت روئے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی پسلیوں میں درد ہے۔ اگر بچہ اپنا ہاتھ بار بار کان کی طرف لے جائے تو یقینا اسے کان میں درد ہے اور اگر بچے کے پیشاب کی رنگت سرخ ہو جائے تو یہ بخار کی علامت ہے۔ ایسی صورت میں ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
جواب: نوزائیدہ بچوں کو ڈایا فرام (پیٹ میں موجود ایک جھلی) میں سوزش یا حرکت کی وجہ سے ہچکیاں آتی ہیں۔ ایسا دودھ پیتے وقت ہوتا ہے یا بسا اوقات بلاوجہ ہی شروع ہو جاتی ہیں۔ چھوٹے بچوں کی ہچکیاں مکمل طور پر روکنا بہت مشکل ہے کیوں کہ ان کی ہچکیوں کی اصل وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ تاہم ذیل میں دئیے گئے طریقے ہچکی روکنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں:
1۔ دودھ پلانے یاکوئی ٹھوس غذا کھلانے کے بعد کچھ دیر کے لیے بچے کو سیدھا رکھا جائے اور انہیں اوپر نیچے جھلانے یا اچھالنے سے گریز کیا جائے۔
2۔ بچوں کو دودھ پلاتے ہوئے اگر ہچکیاں آئیں تو انہیں دودھ پلانے کی بجائے ڈکار دلایا جائے کیوں کہ پیٹ میں پیدا ہونے والی گیس ہچکیوں کا باعث بنتی ہے۔ ماہرین دودھ پینے والے بچوں کو ہر دو یاتین اونس دودھ پلانے کے بعد ڈکار دلانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
3۔ اگر بچے ہچکیوں سے پریشان ہوں تو انہیں گرائپ واٹر پلایا جائے۔ گرائپ واٹر جڑی بوٹیوں اور پانی سے مل کربنتا ہے اور پیٹ کی تکالیف دور کرنے کے لیے بہترین علاج ہے۔
4۔ ایک سال کی عمر ہونے تک بچوں کی ہچکیوں میں واضح کمی ہو جاتی ہیں لیکن اگر ایک سال کی عمر کے بعد بھی تواتر سے ہچکیاں جاری رہیں اور بچے اس سے پریشان ہوں تو ڈاکٹر کو ضرور بتایا جائے تاکہ ان کی صحیح وجہ جان کر علاج کو یقینی بنایا جا سکے۔
جواب: نوزائیدہ بچے کی حرکات کسی عادت کی وجہ سے نہیں ہوتیں بلکہ اضطراراً سرزد ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض حرکات کو وہ پسند کرنے لگتے ہیں اور انہیں بار بار کرنا انہیں تسکین دیتا ہے۔ یوں مسلسل دہرائی جانے والی حرکات ان کی عادات بن جاتی ہیں۔
شیر خوار بچے نئی عادتیں بہت جلد اختیار کر لیتے ہیں۔ اس دوران اگر وہ کوئی بری عادت سیکھ لیں تو وہ بعد میں اچھی تربیت کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں۔ اس زمانے میں اختیار کی گئی عادات اتنی راسخ ہو جاتی ہیں کہ وہ بعد کی زندگی میں جبلت معلوم ہوتی ہیں۔ شیر خوارگی میں درج ذیل عادات ایسی ہیں جو بچوں کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہیں:
شیر خوار بچوں کی ایک عادت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی دست رس میں مختلف چیزوں کو منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عموماََ پانچ چھ ماہ تک کی عمر میں بچہ ہر چیز منہ میں لے جاتا ہے، وہ تمام حواس سے کام لیتے ہوئے ہر چیز کو سمجھ لینا چاہتا ہے۔ عمر کے اس حصے میں بچے کو اگر مناسب توجہ نہ دی جائے تو ہر چیز منہ میں لے جانا اس کی عادت بن جاتی ہے جو بچوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
چوسنی کی عادت بھی بچہ کے لیے بڑی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ اس سے بچے کے پیٹ میں گیس کا مسئلہ رہتا ہے۔ چوسنی کے ساتھ جسم میں جراثیم کا داخل ہونا آسان ہو جاتا ہے جس سے بچے کا معدہ اور پیٹ خراب رہنے کا اندیشہ رہتا ہے۔
بچے کو ہر وقت گود میں لیے رکھنے یا جھولے میں ڈالے رکھنے سے وہ اس بات کا عادی ہو جاتا ہے۔ پھر اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وقت کا زیادہ تر حصہ ماں یا کوئی بڑا اسے اٹھائے رکھے یا جھولے میں ڈال کر اسے جھولے دیتا رہے۔ اگر بچہ اس عمل کا عادی ہو جائے تو پھر ماں کے لیے کام کرنا دشوار ہو جاتا ہے اور بچہ اپنے اعضاء کو تقویت نہیں دے سکتا۔ کیوں کہ اگر گود میں رہنا اس کی عادت نہ بنے تو وہ ان اوقات میں سہارا لے کر اٹھنے بیٹھنے کی کوشش کرے گا، کروٹ بدلے گا، وغیرہ۔ اگر گود میں بیٹھے رہنے کا عادی ہوگیا تو پھر جسمانی اعضاء کو بروقت تقویت دینے والا عمل مفقود ہو جائے گا۔
شیر خوارگی کی عمر ایسی ہوتی ہے کہ مائیں بچوں کو اپنی سہولت کی خاطر ڈائپر پہنا کر اس ذمہ داری سے آزاد ہو جاتی ہیں کہ بچوں کو مخصوص وقت میں رفع حاجت کی عادت ڈالنی ہے۔ عموماً مائیں چوبیس گھنٹے بچوں کو ڈائپر پہنائے رکھتی ہیں۔ ان کا ایسا عمل جہاں بچے کی جسمانی صحت کے لحاظ سے غیر موزوں ہوتا ہے وہاں ان کے اندر منفی عادات کی ترویج کا باعث بھی بنتا ہے۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے بچوں میں یہ عادت پیدا نہیں ہوتی کہ انہیں کسی pot میں یا ٹائلٹ میں رفعِ حاجت کروائی جائے۔ نہ ہی وہ کوئی مخصوص اشارہ دینے کے قابل ہوتے ہیں کہ انہیں حاجت محسوس ہو رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ عمل خاموشی سے جس بھی حالت میں ہوں سر انجام دے دیتے ہیں۔ یہ عادت بعد ازاں پختہ بھی ہو سکتی ہے، جو بچوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
شیر خوار بچے کے لیے دودھ پلانے کے اوقات مقرر کرنے چاہییں، اس سے بچے کا ہاضمہ درست رہتا ہے۔ اس کے علاوہ اخلاقی نقطہ نظر سے بھی یہ بہت مفید ہے۔ دودھ یا ٹھوس غذا دینے کے اگر اوقات مقرر نہ کیے جائیں تو بچے میں رو کر مانگنے کی عادت پڑ سکتی ہے۔ پھر جب رونے سے اس کا مطلب پورا ہو جاتا ہے تو وہ یقین کر لیتا ہے کہ رونے سے مطلب نکل آتا ہے اور وہ ضرور روتا ہے۔ یہ عادت بھی بعد ازاں بچے کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ لہٰذا بچے کی تربیت اس انداز سے کی جائے کہ نہ تو لاڈ پیار سے اسے بگاڑا جائے اور نہ ہی اس کی طرف سے بالکل بے توجہی برتی جائے بلکہ اعتدال میں رہتے ہوئے جو باتیں اس کی بہترین پرورش کے لیے ضروری ہیں انہیں اختیار کیا جائے۔
درج بالا بیان کی گئی عادات ایسی ہیں کہ اگروالدہ بچے کی پرورش کے دوران انہیں معمولی سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دے گی تو یہی عادات بعد ازاں بچے کی فطرتِ ثانیہ بھی بن سکتی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انہیں معمولی نہ گردانا جائے اور اگر شیر خوار بچہ ان کا عادی ہو رہا ہے تو بروقت اُسے روکا جائے اور اس کی عادات کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جواب: والدین کا فرض ہے کہ جب بچے میں قوت گویائی آ جائے اور زبان سے الفاظ ادا کرنے لگے تو سب سے پہلے اسے لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ سکھائیں اس کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ اسے ہجے کروا کر الفاظ یاد کروائے جائیں۔ مثلاً ’لا‘ - اِلٰهَ‘ - ’الاّ الله‘ الگ الگ ادا کروائے جائیں کیوں کہ اس کے الفاظ انتہائی آسان ہیں اور اس میں کوئی ایسا لفظ نہیں جس کی ادائیگی بچے کے لیے مشکل ہو۔ وہ اس کلمہ کو بہت آسانی سے بولنا شروع کر سکتا ہے۔
حدیثِ مبارک سے بھی ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے بچے کو سب سے پہلے کلمہ طیبہ سکھانے کی تلقین فرمائی ہے۔
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِفْتَحُوْا عَلٰی صِبْیَانِکُمْ أَوَّلَ کَلِمَةٍ بِلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ.
بیہقی، شعب الإیمان، 6: 398، رقم: 8649
دیلمي، مسند الفردوس، 1: 71، رقم: 207
بچہ جب بولنا سیکھنے لگے تو اُسے سب سے پہلے لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ یاد کرواؤ۔
جواب: بچوں کو پہلا کلمہ سکھانے کی فضیلت یہ ہے کہ اس کلمہ کی بدولت اس کا عقیدہ ٹھیک رہے گا۔ عقیدہ کی درستگی ایمان کے تحفظ کی علامت ہے۔
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَفْصَحَ أَوْلَادُکُمْ، فَعَلِّمُوْھُمْ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللهُ، ثُمَّ لَا تُبَالُوْا مَتٰی مَاتُوْا.
ابن السني، عمل الیوم واللیلۃ، 1: 373، رقم: 423
جب تمہاری اولاد بولنے لگے تو ان کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ سکھاؤ، پھر ان کی موت آنے تک فکر مت کرو (یعنی شروع میں جب عقیدہ ٹھیک کر دیا اور اسلام کا عقیدہ اس کو سکھا دیا تو اب کوئی ڈر نہیں۔ ایمان کی پختگی اسے ایمان ہی پر زندہ رہنے دے گی اور اسی پر ان شاء الله اس کی موت آئے گی)۔
جواب: حضور نبی اکرم ﷺ کے بچپن میں سب سے پہلے ادا کیے گئے کلام کے حوالے سے دو روایات ہیں، جنہیں امام حلبی نے السیرۃ الحلبیۃ میں بیان کیا ہے:
حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
کان أول کلام تکلم به ﷺ حین فطمته حلیمة رضی الله عنها: الله أکبر تکبیرا، والحمد ﷲ کثیرا، وسبحان الله بکرة وأصیلا. وأنه ﷺ تکلم بھذا عند خروجه من بطن أمه.
وفي روایة: أول کلام تکلم ﷺ به في بعض اللیالي، أي وھو عند حلیمة: لا إله إلا الله، قدوسا قدوسا، نامت العیون، والرحمن لا تأخذه سنة ولا نوم.
حلبي، السیرة الحلبیة، 1: 151
جب حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کو رضاعت (یعنی دودھ پلانا) چھڑوایا تو آپ ﷺ نے سب سے پہلا کلام یہ فرمایا: الله أکبر تکبیرا والحمد ﷲ کثیرا وسبحان الله بکرۃ وأصیلا (اللہ بہت بڑا ہے، تمام تعریفیں اسی کو سزاوار ہیں اور وہ صبح و شام (یعنی ہر وقت) ہر طرح کے عیب اور برائی سے پاک ہے)۔ آپ ﷺ نے یہ کلمات اپنی والدہ کے بطن سے خروج کے وقت (یعنی وقتِ ولادت باسعادت) ارشاد فرمائے تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے سب سے پہلا کلام کسی رات ارشاد فرمایا جب کہ آپ ﷺ ابھی حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے پاس ہی تھے، وہ یہ کلمات تھے: لا إلہ إلا الله قدوساً قدوساً، نامت العیون، والرحمن لا تأخذہ سنۃ ولا نوم (الله تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کی ذات بے عیب ہے، بے عیب ہے، آنکھیں سو گئیں جبکہ نہایت مہربان رب کو نہ اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند)۔
لہٰذا بچے کی بہتر تعلیم و تربیت کے آغاز کے لیے ضروری ہے کہ اُسے ابتدا ہی سے الله تعالیٰ کے اَسماء، درود شریف اور کلمہ طیبہ بولنا سکھایا جائے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved