Silsila Ta‘limat-e-Islam (10): Bachon ki Parwarish awr Walidayn ka Kirdar

بعد اَز پیدائش بچے کے حقوق

سوال 35: اولاد کی پیدائش پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرنا کیسا ہے؟

جواب: اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے جس کی پیدائش پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرنا اور اس کے فضل پر شکر بجا لانا تقاضاے بندگی میں سے ہے۔ اُلوہی نعمتوں پر شکر بجا لانا درج ذیل آیت کے تحت مزید نعمتوں کے حصول کا پیش خیمہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنے شاکر بندوں پر مزید نعمتیں نچھاور کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں اس کی حکمت بھی بیان کی گئی ہے۔ ارشادِ ہوتا ہے:

لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌo

ابراهیم، 14: 7

اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقینا سخت ہے۔

بچے کی ولادت والدین کے لیے پر سکون زندگی کا ایک انتہائی خوش کن احساس ہوتا ہے۔ اولاد کی پیدائش پر خوشی منانا اور ایک دوسرے کو مبارک باد دینا قرآن حکیم کی نص سے ثابت ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

یٰزَکَرِیَّآ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِنِ اسْمُهٗ یَحْیٰی لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّاo

مریم، 19: 7

(ارشاد ہوا) اے زکریا! بے شک ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوش خبری سناتے ہیں جس کا نام یحییٰ (علیہ السلام) ہوگا ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی ہم نام نہیں بنایا۔

حدیث مبارک سے بھی نعمت پر شکر بجا لانے کا حکم ثابت ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَا أَنْعَمَ اللهُ عَلٰی عَبْدٍ نِعْمَةً فِي أَهْلٍ، أَوْ مَالٍ، أَوْ وَلَدٍ، فَقَالَ: مَا شَاءَاللهُ، لَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللهِ، فَیَرَی فِیْهِ آفَةً، دُوْنَ الْمَوْتِ.

طبرانی، المعجم الأوسط، 4: 301، رقم: 4261

الله تعالیٰ اپنے بندے پر جو بھی نعمت عطا کرے خواہ وہ اس کے اہل میں ہو، یا مال میں سے ہو یا اولاد میں سے ہو؛ پھر وہ یہ کہتا ہے: مَا شَائَ اللهُ، لَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللهِ (الله جو چاہتا ہے کرتا ہے، الله کی عطا کے بغیر کوئی طاقت نہیں ہے) تو ان نعمتوں میں سے اس کے لیے کوئی مصیبت نہیں آتی۔ سوائے موت کے (جو کہ اپنے وقت پر ضرور آتی ہے)۔

لہٰذا ثابت ہوا کہ اولاد کی پیدائش پر خوشی و مسرت کا اظہار مستحسن و مستحب عمل ہے۔

سوال 36: کیا بچے کی پیدائش کے بعد اس کے کان میں اذان دینا مسنون عمل ہے؟

جواب: جی ہاں! بچے کی پیدا ئش کے بعد اس کے کان میں اذان دینا مسنون عمل ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے بیان کیا ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:

مَنْ وُلِدَ لَهٗ وَلَدٌ، فَأَذَّنَ فِي أُذُنِهِ الْیُمْنٰی وَأَقَامَ فِي أُذُنِهِ الْیُسْریٰ لَمْ تَضُرَّهٗ أُمُّ الصِّبْیَانِ.

أبویعلی، المسند، 12: 150، رقم: 6780
هیثمی، مجمع الزوائد، 4: 59
هندی، کنز العمال، 16: 190، رقم: 45414

جس شخص کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی اور اس نے اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تو اسے اُم الصبیان (یعنی بچوں کو لاحق ہونے والی مرگی کی بیماری) کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔

سوال 37: بچے کے کان میں اذان کب اور کس سے دلوائی جائے؟

جواب: بچے کی پیدائش کے بعد اس کے کان میں اذان دینے کے لیے کسی امام یا مؤذن کا ہونا ضروری نہیں بلکہ بچے کا والد یا کوئی بھی نیک شخص جسے کلماتِ اذان و اِقامت یاد ہوں، وہ بچے کے کان میں اذان و اِقامت کہہ سکتا ہے۔

سوال 38: کیا حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے نواسوں کے کان میں اذان کہی؟

جواب: جی ہاں! حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے نواسوں کے کان میں اذان کہی۔ حضرت ابو رافع فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول الله ﷺ کو دیکھا کہ:

أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ علیهما السلام حِیْنَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ سلام الله علیها بِالصَّلَاةِ.

أحمد بن حنبل، المسند، 6: 391، رقم: 27230
أبو داؤود، السنن، کتاب الأدب، باب فی الصبی یولد فیؤذن فی أُذنه، 4: 328، رقم: 5105
ترمذی، السنن، کتاب الاضاحی، باب الأذان فی أذن المولود، 4: 97، رقم: 1514
حاکم، المستدرک، 3: 197، رقم: 4827

جب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ہاں حضرت حسن بن علی علیہ السلام پیدا ہوئے تو آپ ﷺ نے اُن کے کان میں اذان کہی۔

سوال 39: بچے کے کان میں اذان دینے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب: بچے کے کان میں اذان دینے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے جیساکہ مسند ابی یعلی میں حضرت امام حسین علیہ السلام سے مروی حدیث مبارک سے یہ طریقہ ثابت ہے کہ جس کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی اور اُس نے اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اِقامت کہی تو اُس بچے کو اُم الصبیان (یعنی بچوں کو لاحق ہونے والی مرگی کی بیماری) کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔

سوال 40: پیدائش کے موقع پر بچے کے کان میں اذان و اقامت کہنے کی حکمت کیا ہے؟

جواب: نومولود خواہ بیٹا ہو یا بیٹی اللہ تعالیٰ کا عطیہ اور نعمت ہوتا ہے۔ اس کی پیدائش کے موقع پر اس کے کان میں اذان و اقامت کہنے کی بہت سی حکمتیں ہیں۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

1۔ حدیث مبارک کے مطابق بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے اور پیدائش کے وقت اذان و اقامت کان میں کہنے سے اس حقیقت کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ وہ اہل اسلام کے گھرانہ میں پیدا ہوا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ یُهَوِّدَانِهٖ أَوْ یُنَصِّرَانِهٖ أَوْ یُمَجِّسَانِهٖ.

بخاری، الصحیح، کتاب التفسیر/الروم، باب لا تبدیل لخلق الله، 4: 1792، رقم: 4497
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 233، رقم: 7181
ابن حبان، الصحیح، 1: 337، رقم: 129
بیهقی، السنن الکبری، 6: 202، رقم: 11918

ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی یا آگ پرست بنادیتے ہیں۔

2۔ بچے کی ولادت کے وقت اس کے کان میں اذان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی اور حضور نبی اکرم ﷺ کی رسالت کی شہادت کے کلمات سنانے میں یہ حکمت کار فرما ہوتی ہے کہ اسے اسلامی شعائر سے روشناس کروایا جائے جن پر کاربند رہتے ہوئے وہ اپنی بقیہ زندگی گزارسکے۔

3۔ اذان کے کلمات سن کر شیطان بھاگ جاتا ہے جو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ بچہ کب پیدا ہو اور وہ اس کا ساتھی بنے۔ لیکن کلماتِ اذان سنتے ہی اس کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلَاةِ، أَدْبَرَ الشَّیْطَانُ … حَتّٰی لَا یَسْمَعَ التَّأْذِیْنَ.

بخاری، الصحیح، کتاب الأذان، باب فضل التّاذین، 1: 220، رقم: 583
مسلم، الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب فضل الأذان…، 1: 291، رقم: 389
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 460، رقم: 9933
ابن حبان، الصحیح، 5: 50، رقم: 1754
نسائی، السنن الکبریٰ، 1: 508، رقم: 1634

جب نماز کے لیے اذان کہی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر (اتنا دور) بھاگتا ہے … کہ اُسے اذان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔

4۔ اذان و اِقامت کہنے سے بچے مرگی کی بیماری (اُم الصبیان ) سے محفوظ رہتے ہیں جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ہم اس پر حدیث مبارک بیان کرچکے ہیں۔

سوال 41: تحنیک (گھٹی دینا) کسے کہتے ہیں؟

جواب: تحینک عربی زبان کے لفظ حنک سے ہے جس کا معنی ہے: چبا کر نرم کرنا، گھٹی دینا۔ اِصطلاحاً تحنیک سے مراد یہ ہے کہ کھجور کو اچھی طرح چبا کر نومولود کو گھٹی دینا۔

التّحنِیْک أَنْ تمضغ التمّر ثُمَّ تدلْکہ بحنَکَ الصبی داخل فمهٖ.

ابن منظور، لسان العرب، 10: 416

تحنیک یہ ہے کہ کھجور وغیرہ کو اچھی طرح چبا کر بچے کے تالو کے ساتھ مل دیا جائے۔

یعنی تحنیک (گھٹی دینا) سے مراد چبائی ہوئی کھجور کو بچے کے منہ میں ڈالنا یا بچے کو شہد چٹانا ہوتا ہے۔

سوال 42: کیا تحنیک سنتِ رسول ﷺ ہے؟

جواب: جی ہاں! تحنیک (گھٹی دینا) حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔

اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کَانَ یُؤْتٰی بِالصِّبْیَانِ. فَیُبَرِّکُ عَلَیْهِمْ، وَیُحَنِّکُهُمْ.

مسلم، الصحیح، کتاب الأدب، باب استحباب تحنیک المولود عند ولادته وحمله إلی صالح یحنکه، 3: 1691، رقم: 2147
أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب في الصبي یولد فیؤذن في أذنه، 4: 328، رقم: 5106
ابن أبي شیبة، المصنف، 5: 37، رقم: 23484

رسول الله ﷺ کے پاس نومولود بچے لائے جاتے تو آپ ﷺ ان کے لیے برکت کی دعا فرماتے اور اُنہیں گھٹی دیتے۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

وُلِدَ لِي غُلَامٌ، فَأَتَیْتُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ فَسَمَّاهُ إِبْرَاهِیمَ، فَحَنَّکَهٗ بِتَمْرَۃٍ، وَدَعَا لَهٗ بِالْبَرَکَةِ، وَدَفَعَهٗ إِلَيَّ.

بخاری، الصحیح، کتاب العقیقۃ، باب تسمیۃ المولود غداۃ یولد، لمن لم یعق عنہ، وتنحیکہ، 5: 2081، رقم: 5150
مسلم، الصحیح، کتاب الادب، باب استجاب تحنیک المولود عند ولادتہ وحملہ إلی صالح یحنکہ، جواز تسمیۃ…، 3: 1690، رقم: 2145

میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو میں اُسے لے کر حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو گیا۔ آپ ﷺ نے اس کا نام ابراہیم رکھا، اسے کھجور کی گھٹی سے شرف یاب فرمایا۔ اس کے لیے برکت کی دعا کی اور مجھے واپس دے دیا۔

یہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔

سوال 43: تحنیک جسمانی اور روحانی لحاظ سے بچے پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے؟

جواب: تحنیک سے بچے کے منہ اور زبان کے عضلات، رگیں اور اعصاب متحرک ہو جاتے ہیں اور اس میں دودھ پینے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق پیدائش کے فوری بعد نومولود کے تالو پر سب سے پہلے لگایا جانے والا میٹھا مواد اُسے ذہنی امراض سے بچانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

اسی طرح تحنیک بچے پر روحانی اثرات بھی مرتب کرتی ہے۔ لہٰذا یہ عمل نیک و صالح افراد سے کروانا چاہیے۔ کتبِ حدیث میں یہ مثالیں بکثرت موجود ہیں کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسے گھٹی دلوانے اور اس کا نام رکھوانے کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تاکہ ان کی رگوں میں بھی تقویٰ و صالحیت پیدا ہو۔ آپ ﷺ اس نومولود کے منہ میں اپنا لعابِ دہن ڈالتے اور یوں اس بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے جو چیز پہنچتی وہ آپ ﷺ کا مبارک لعابِ دہن ہوتا تھا۔

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:

أَنَّهَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَیْرِ بِمَکَّۃَ. قَالَتْ: فَخَرَجْتُ وَأَنَا مُتِمٌّ، فَأَتَیْتُ الْمَدِیْنَۃَ فَنَزَلْتُ قُبَاءً فَوَلَدْتُ بِقُبَاءٍ، ثُمَّ أَتَیْتُ بِهٖ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَوَضَعْتُهٗ فِي حُجْرِهٖ. ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَۃٍ فَمَضَغَهَا ثُمَّ تَفَلَ فِي فِیْهِ. فَکَانَ أَوَّلَ شَيئٍ دَخَلَ جَوْفَهٗ رِیْقُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ. ثُمَّ حَنَّکَهٗ بِالتَّمْرَةِ ثُمَّ دَعَا لَهٗ فَبَرَّکَ عَلَیْهِ. وَکَانَ أَوَّلَ مَوْلُوْدٍ وُلِدَ فِي الإِسْلَامِ.

بخاری، الصحیح، کتاب العقیقۃ، باب تسمیۃ المولود غداۃ یولدہ لمن لم یعق عنہ، تحنیکہ، 5: 2081، رقم: 5152
مسلم، الصحیح، کتاب الأدب، باب استحباب تحنیک المولود عند ولادتہ وحملہ إلی صالح یحنکہ، 3: 1691، رقم: 2146

(ان کا بیٹا) عبد الله بن زبیر مکہ مکرمہ میں اُن کے بطن میں تھا۔ وہ فرماتی ہیں: ہجرت کے وقت میرے (مدتِ حمل کے) ایام مکمل تھے۔ لہٰذا جب مدینہ منورہ پہنچی اور قبا میں ٹھہری تو وہیں بچے کا تولّد ہوگیا۔ میں اُسے لے کر رسول الله ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور اسے آپ ﷺ کی گود میں دے دیا۔ آپ ﷺ نے کھجور منگوائی اور اسے چبا کر اُس (عبد الله) کے منہ میں رکھ دیا۔ پہلی چیز جو اُس بچے کے پیٹ میں گئی وہ رسول الله ﷺ کا لعابِ دہن تھا۔ پھر آپ ﷺ نے کھجور کے ساتھ اُسے گھٹی دی اور اُس کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ (ہجرت کے بعد) اسلام میں پیدا ہونے والا یہ پہلا بچہ تھا۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی گھٹی کے اثرات حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی زندگی پر واضح نظر آئے۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بے شمار فضائل و کمالات کے حامل تھے۔

سوال 44: بچے کا نام کب رکھا جائے؟

جواب: بچے کا نام پیدائش کے فوری بعد اور ساتویں دن تک رکھنا سنت ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس کا ثبوت ملتا ہے ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

وُلِدَ لِيَ اللَّیْلَۃَ غُـلَامٌ، فَسَمَّیْتُهٗ بِاسْمِ أَبِي، إِبْرَاهِیْمَ.

مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب رحمتہ ﷺ الصبیان والعیال وتواضعہ وفضل ذلک، 4: 1807، رقم: 2315
أحمد بن حنبل، المسند، 3: 194، رقم: 13037
أبو داؤد، السنن، کتاب الجنائز، باب في البکاء علی المیت، 3: 193، رقم: 3126
أبو یعلی، المسند، 6: 42، رقم: 3288۔

آج رات میرے گھر ایک بیٹاپیدا ہوا ہے جس کا نام میں نے اپنے باپ ابراہیم کے نام پر (ابراہیم) رکھا ہے۔

اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں ہے:

عَقَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ یَوْمَ السَّابِعِ، وَسَمَّاھُمَا وَأَمَرَ أَنْ یُمَاطَ عَنْ رُؤُوْسِھِمَا الْأَذٰی.

ابن حبان، الصحیح، 12: 127، رقم: 5311
حاکم، المستدرک، 4: 264، رقم: 7588
بیهقي، السنن الکبری، 9: 299، رقم: 19055

رسول الله ﷺ نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ ان کی پیدائش کے ساتویں دن کیا، اسی دن ان کے نام رکھے اور ان دونوں کے سروں سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانے (یعنی اُن کے بال مونڈنے) کا حکم فرمایا۔

سوال 45: نومولود کا نام رکھنے کا حق کس کا ہے؟

جواب: مستحسن یہ ہے کہ والدین باہمی مشورے سے نومولود کا نام رکھیں، لیکن اگر نام کی ناپسندیدگی کی وجہ سے دونوں میں اختلاف ہو جائے تو ایسی صورت میں باپ کا حق مقدم ہے کہ وہ نام رکھے۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے بیٹے کی پیدائش پر خود ان کا نام رکھا تھا۔ جیسا کہ گزشتہ سوال میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بیان ہوا ہے۔

سوال 46: بچے کا نام کیسا رکھنا چاہیے؟

جواب: آج کل ناموں کے سلسلے میں بہت افراط و تفریط سے کام لیا جاتا ہے۔ بعض والدین لاپرواہی کرتے ہیں اور نام رکھتے وقت معنوی لحاظ نہیں رکھتے؛ حالاں کہ اسلامی تعلیمات میںبچوں کے نام رکھنے کے سلسلے میں بھی واضح رہنمائی ملتی ہے۔ ان کی روشنی میں والدین اپنے بچے کا بہتر سے بہتر نام رکھ سکتے ہیں کیوں کہ اچھے یا برے نام بچے کی شخصیت پر اثر نداز ہوتے ہیں۔ بچے کا نام رکھتے ہوئے درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیے:

1۔ اہل دین کے ناموں سے ماخوذ ہوں جیسے انبیاء کرام علیہم السلام اورسلف صالحین کے نام اور اس میں نیت ان کی محبت اور ان کے ناموں کا اِحیاء ہو۔

صحابیِ رسول حضرت ابو وہب جشمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:

تَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الْأَنْبِیَاءِ وَأَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إِلَی اللهِ تعالیٰ عَبْدُ اللهِ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ، وَأَصْدَقُهَا حَارِثٌ وَهَمَّامٌ؛ وَأَقْبَحُهَا حَرْبٌ وَمُرَّةُ.

أحمد بن حنبل، المسند، 4: 345، رقم: 19054
أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب فی تغیر الأسماء، 4: 287، رقم: 4950
نسائی، السنن، کتاب الخیل، باب ما یستعب من شیۃ الخیل، 6: 218، رقم: 3565
نسائی، السنن الکبری، 3: 37، رقم: 4406
أبو یعلی، المسند، 13: 113، رقم: 7169

تم انبیاء کرام علیہم السلام کے ناموں پر (اپنے بچوں کے) نام رکھا کرو، الله تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب نام عبد الله اور عبد الرحمن ہیں۔ اور سب سے سچے نام حارث (کھیتی باڑی کرنے والا) اور ہمام (متحرک) ہیں جب کہ سب سے برے نام حرب (جنگ جُو) اور مرۃ (کڑوا) ہیں۔ (یعنی ایسے نام رکھنے سے پرہیز کیا جائے جن کے مفہوم میں اسلام کی تعلیمات سے مطابقت نہ ہو)۔

2۔ بچے کا نام معنوی اعتبار سے خوبصورت اور بامعنی ہو کیوں کہ نام انسان کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّکُمْ تُدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ بِأَسْمَائِکُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِکُمْ، فَحَسِّنُوْا أَسْمَائَکُمْ.

أحمد بن حنبل، المسند، 5: 194، رقم: 21739
أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب في تغییر الأسماء، 4: 287، رقم: 4948
دارمي، السنن، 2: 380، رقم: 2694
ابن حبان، الصحیح، 13: 135، رقم: 1518
بیهقي، السنن الکبری، 9: 306، رقم: 19091

تم قیامت کے دن اپنے ناموں سے اور اپنے باپ کے ناموں سے پکارے جاؤ گے۔ لہٰذا اپنے (اور اپنے بچوں کے) نام خوبصورت رکھا کرو۔

3۔ نام زبان پر ہلکا اور اس کی ادائیگی آسان ہونی چاہیے۔

سوال 47: کیا بچے کا نام حضور نبی اکرم ﷺ کے نام پر رکھنا جائز ہے؟

جواب: جی ہاں! بچے کا نام حضور نبی اکرم ﷺ کے نام پر رکھنا یا آپ ﷺ کے نام کو بچے کے نام کا جزو بنانا جائز ہے۔ یہ آپ ﷺ سے نہ صرف محبت کی علامت ہے بلکہ باعثِ خیر و برکت بھی ہے۔

1۔ حضرت ابو اُمامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ وُلِدَ لَهٗ مَوْلُوْدٌ فَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا تَبَرُّکًا بِهٖ، کَانَ هُوَ وَمَوْلُوْدُهٗ فِي الْجَنَّةِ.

ابن بکیر، فضائل التسمیۃ بأحمد ومحمد: 40، رقم: 30
مناوي، فیض القدیر، 6: 237
عجلوني، کشف الخفاء، 2: 375، رقم: 2644

جس شخص کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور وہ (میرے نام) ’محمد‘ سے برکت حاصل کرنے کی نیت سے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا (دونوں) جنت میں داخل ہوں گے۔

2۔ حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:

مَنْ سَمّٰی وَلَدَهٗ بِاسْمِي حُبًّا لِي، کَانَ هُوَ وَوَلَدُهٗ مَعِي فِي الْجَنَّةِ.

ابن بکیر، فضائل التسمیۃ بأحمد ومحمد: 21، رقم: 7

جس شخص نے میری محبت میں اپنے بیٹے کا نام میرے نام پر (محمد) رکھا تو وہ اور اس کا بیٹا (دونوں) میرے ساتھ جنت میں ہوں گے۔

3۔ ایک روایت میں حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

إِذَا سَمَّیْتُمْ مُحَمَّدًا فَـلَا تَضْرِبُوْهُ وَلَا تَحْرِمُوْهُ.

بزار، المسند، 9: 327، رقم: 3883
سیوطی، الخصائص الکبری، 2: 346
ھندی، کنز العمال، 16: 174، رقم: 45197
ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، 9: 10

جب تم (اپنے کسی بچے کا) نام محمد رکھو تو اسے نہ مارو اور نہ ہی (کسی شے سے) محروم کرو۔

یہ اِسم رسالت کا تقدس ہے کہ جب بچے کا نام آپ ﷺ کے نام مبارک پر رکھا جائے تو اس کی تعظیم و تکریم کی جائے۔

4۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:

إِذَا سَمَّیْتُمُ الْوَلَدَ مُحَمَّدًا فَأَکْرِمُوْهُ وَأَوْسِعُوا لَهُ الْمَجْلِسَ وَلَا تُقَبِّحُوا لَهٗ وَجْهًا.

ابن بکیر، فضائل التسمیۃ بأحمد ومحمد: 34، رقم: 26
ھندي، کنز العمال، 16: 174، رقم: 45198
ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، 9: 10
مناوی، فیض القدیر، 1: 385

جب تم (اپنے کسی) بچے کا نام محمد رکھو تو (میری نسبت سے) اُس کی تکریم کرو، مجلس میں اس کے لیے جگہ چھوڑو اور اس کے چہرے کو برا نہ جانو۔

سوال 48: کیا بچے کا نام حضور ﷺ کی کنیت پر بھی رکھا جا سکتا ہے؟

جواب: جی ہاں! بچے کا نام حضور نبی اکرم ﷺ کی کنیت کے طور پر بھی رکھا جاسکتا ہے۔ تاہم آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں آپ کی کنیت کو بطور نام استعمال کرنے کی ممانعت تھی۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا:

إِنْ وُلِدَ لِي مِنْ بَعْدِکَ وَلَدٌ أُسَمِّیْهِ بِاسْمِکَ وَأُکَنِّیْهِ بِکُنْیَتِکَ؟

أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب فی الرخصۃ فی الجمع و بینھما، 4: 292، رقم: 4967
بیهقی، السنن الکبری، 9: 309، رقم: 19112

آپ ﷺ کے بعد اگر میرے ہاں بیٹا پیدا ہو تو کیا میں اس کا نام اور کنیت آپ کے نام اور کنیت پر رکھ لوں؟

ان کے سوال کے جواب میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہاں! رکھ لینا۔

سوال 49: کیا اچھے اور برے نام بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں؟

جواب: جی ہاں! اچھے اور برے نام بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں، اسی لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے بُرے نام رکھنے سے منع فرمایا اور اچھے نام رکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔

1۔ حضرت ابو وہب جشمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: تم انبیاء کرام علیہم السلام کے ناموں پر (اپنے بچوں کے) نام رکھا کرو۔ الله تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب نام عبد الله اور عبد الرحمن ہیں، اور سب سے سچے نام حارِث (کھیتی باڑی کرنے والا) اور ہمام (متحرک) ہیں جبکہ سب سے برے نام حرب (جنگ جُو) اور مُرّۃ (کڑوا) ہیں (یعنی ایسے نام رکھنے سے پرہیز کریں جن کے مفہوم میں اسلام کی تعلیمات سے مطابقت نہ ہو)۔

أحمد بن حنبل، المسند، 4: 345، رقم: 19054
أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب في تغییر الأسماء، 4: 287، رقم: 4950
نسائي، السنن، کتاب الخیل، باب ما یستحب من شیۃ الخیل، 6: 218، رقم: 3565

2۔ حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:

أَنَّ ابْنَةً لِعُمَرَ رضی الله عنه کَانَتْ یُقَالُ لَهَا عَاصِیَةُ. فَسَمَّاهَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ جَمِیْلَۃَ.

مسلم، الصحیح، کتاب الآداب، باب استِحبابِ تَغْیِیرِ الِاسْمِ القبیحِ إلی حَسَن وَتَغْیِیرِ اسْمِ بَرَّۃَ إلی زَیْنَبَ وَجُوَیْرِیَۃَ وَنَحْوِهِمَا، 3: 1687، رقم: 2139
ابن ماجہ، السنن، کتاب الأدب، باب تغییر الأسماء، 2: 1230، رقم: 3733
دارمي، السنن، 2: 381، رقم: 2697۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی کا نام عاصیہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کا نام جمیلہ رکھ دیا۔

ابن المسیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اُن کے والد حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا:

مَا اسْمُکَ؟

تمہارا نام کیا ہے؟

انہوں نے عرض کیا:

حَزْنٌ.

حزن (یعنی غم)۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

أَنْتَ سَهْلٌ.

(نہیں بلکہ) تم سہل ہو۔

انہوں نے عرض کیا کہ میں اپنے اس نام کو نہیں بدلوں گا جو میرے باپ نے رکھا ہے۔ حضرت سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں کہ اُس کے بعد حزن و ملال ہمارے خاندان کی قسمت ہو کر رہ گیا۔

بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب اسم الحزن، 5: 2288، رقم: 5836

ابن مسیب رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا:

فقال لهٗ عمر: ما اسمک؟ قال: جمرة. فقال: بن من؟ قال: بن شهاب، قال: من أینَ أنت؟ قال: من الحرقة. قال: أین تمسکن؟ قال: حرة النار. قال: بأیها؟ قال: بذات اللظي. فقال عمر: أدرک بالحي لا یحترقوا.

عبد الرزاق، المصنف، 11: 43، رقم: 19864
شیبانی، اللباب في تهذیب الأنساب، 2: 263

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس سے اس کا نام پوچھا۔ تو اس نے کہا: جمرہ (انگارہ)۔ پھر آپ نے پوچھا: تمہارے والد کا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: شعاب (شعلہ)۔ آپ نے پوچھا: کہاں سے ہو؟ اس نے کہا: حرقہ (آگ) سے۔ پھر آپ نے پوچھا: تمہاری منزل کہاں ہے؟ اس نے کہا: حرۃ النار۔ آپ نے یہ سب کچھ سن کر فرمایا: جاؤ تمہارا گھر جل گیا ہے۔ جب وہ گیا تو واقعتا ایسا ہو چکا تھا۔

سوال 50: کیا بچے کا نام رکھ کر تبدیل کیا جاسکتا ہے؟

جواب: جی ہاں! اگر بچے کے نام کا معنی اچھا نہ ہو اور وہ اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو اسے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ یُغَیِّرُ الْاِسْمَ الْقَبِیْحِ.

ترمذی، السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء فی تغییر الأسماء، 5: 135، رقم: 2839
ابن أبي شیبة، المصنف، 5: 261، رقم: 25896

حضور نبی اکرم ﷺ (جب کسی شخص یا بچے کا برا نام دیکھتے تو اس کا) برا نام تبدیل فرما دیا کرتے تھے۔

سوال 51: کیا شریعت میں نام بگاڑنے کی ممانعت آئی ہے؟

جواب: جی ہاں! بچوں کو مغربی طرز پر یا مسخ شدہ ناموں سے نہیں پکارنا چاہیے مثلاً محمد کی جگہ مہمد، سلیمان کی جگہ سلی؛ اسی طرح فاطمہ کی بجائے فطی وغیرہ۔ شریعت میں اس طرح نام بگاڑنے کی ممانعت ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ.

الحجرات، 49: 11

اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو۔

لہٰذا کلیتاً نام بگاڑنے سے پرہیز کرنا چاہیے جن سے حماقت و جہالت اور بدبختی و بدنصیبی کا مفہوم نکلتا ہو۔

سوال 52: شریعت کی رُو سے نومولود کے سر سے بال کب اُتارے جائیں؟

جواب: نومولود کی پیدائش کے ساتویں دن اس کا سر منڈوانا مسنون ہے۔ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

عَقَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ یَوْمَ السَّابِعِ وَسَمَّاھُمَا، وَأَمَرَ أَنْ یُمَاطَ عَنْ رُؤُوْسِھِمَا الْأَذٰی.

ابن حبان، الصیح، 12: 127، رقم: 5311
حاکم، المستدرک، 4: 264، رقم: 7588
بیهقی، السنن الکبری، 9: 299، رقم: 19055

رسول الله ﷺ نے حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ ان کی پیدائش کے ساتویں دن کیا، اسی دن ان کے نام رکھے اور ان دونوں کے سروں سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانے (یعنی اُن کے بال اُتارنے) کا حکم فرمایا۔

سوال 53: کیا نومولود کے بالوں کے وزن کے مطابق صدقہ کرنا ضروری ہے؟

جواب: جی ہاں! نومولود کے بالوں کے وزن کے مطابق صدقہ کرنا جائز اور مستحب ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

عَقَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنِ الْحَسَنِ بِشَاۃٍ. وَقَالَ: یَا فَاطِمَةُ احْلِقِي رَأْسَهٗ وَتَصَدَّقِي بِزِنَةِ شَعْرِهٖ فِضَّةً. قَالَ: فَوَزَنَتْهُ فَکَانَ وَزْنُهٗ دِرْهَمًا أَوْ بَعْضَ دِرْهَمٍ.

ترمذی، السنن، کتاب الأضاحي، باب العقیقۃ بشاۃ، 4: 99، رقم: 1519
حاکم، المستدرک، 4: 265، رقم: 7589
ابن أبي شیبة، المصنف، 5: 113، رقم: 24234

رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طرف سے عقیقے میں ایک بکری ذبح کی اور فرمایا: فاطمہ! ان کے سر کے بال اُتارو اور اُن بالوں کا وزن کر کے اتنے وزن کی چاندی خیرات کر دو۔ لہٰذا ہم نے ان کے بالوں کا وزن کیا۔ بال ایک درہم کے برابر تھے یا ایک درہم سے کچھ کم تھے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ (زین العابدین) اپنے والد (امام حسین رضی اللہ عنہ ) سے روایت کرتے ہیں:

وَزَنَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ شَعْرَ حَسَنٍ وَحُسَیْنٍ، وَزَیْنَبَ، وَأُمِّ کُلْثُومٍ، فَتَصَدَّقَتْ بِزِنَةِ ذٰلِکَ فِضَّةً.

مالک، الموطأ، کتاب العقیقۃ، باب ما جاء في العقیقۃ، 2: 501، رقم: 1067
بیهقی، السنن الکبری، 9: 304، رقم: 19079
بیهقی، شعب الایمان، 6: 392، رقم: 8629

سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا نے امام حسن، امام حسین، سیدہ زینب اور سیدہ امّ کلثوم علیہم السلام کے بالوں کا وزن کیا اور اُن کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کی۔

سوال 54: عقیقہ کسے کہتے ہیں اور شرعاً عقیقہ کب کرناچاہیے؟

جواب: عقیقہ عربی زبان کے لفظ عَقَّ سے ہے اور اس کے لغوی معانی کاٹنے اور ذبح کرنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں نومولود کی جانب سے اس کی پیدائش کے ساتویں دن جو جانور ذبح کیا جائے اسے عقیقہ کہتے ہیں۔ عقیقہ مسنون عمل ہے۔

حضرت سلمان بن عامر الضبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

مَعَ الْغُـلَامِ عَقِیْقَۃٌ. فَأَهْرِیْقُوْا عَنْهُ دَمًا، وَأَمِیْطُوْا عَنْهُ الْأَذٰی.

بخاری، الصحیح، کتاب العقیقۃ، باب إماطۃ الأذی عن الصبی فی العقیقۃ، 5: 2082-2083، رقم: 5154
ترمذی، السنن، کتاب الأضاحي، باب الأذان في أذن المولود، 4: 97، رقم: 1515
ابن ماجہ، السنن، کتاب الذبائح، باب العقیقۃ، 2: 1056، رقم: 3164
دارمی، السنن، 2: 111، رقم: 1967

بچہ کے پیدا ہونے پر عقیقہ (اس کا حق) ہے۔ تم اس کی طرف سے (صدقہ کے جانور کا) خون بہاؤ اور اس سے مصائب و آلام کو دور کرو۔

حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:

کُلُّ غُـلَامٍ رَهِیْنَۃٌ بِعَقِیْقَتِهٖ تُذْبَحُ عَنْهُ یَوْمَ سَابِعِهٖ وَیُحْلَقُ وَیُسَمّٰی.

أحمد بن حنبل، المسند، 5: 7، رقم: 20095
أبو داؤد، السنن، کتاب الضحایا، باب فی العقیقۃ، 3: 106، رقم: 2838
دارمی، السنن، 2: 111، رقم: 1969
طبرانی، المعجم الکبیر، 7: 201، رقم: 6830

ہر بچہ اپنا عقیقہ ہونے تک گروی ہے، اس کی جانب سے ساتویں روز جانور ذبح کیا جائے گا، اس دن اس کا نام رکھا جائے گا اور اس کا سر منڈوایا جائے گا۔

سوال 55: کیا عقیقہ کے دن ہی بچے کے سر کے بال اُتروانا ضروری ہیں؟

جواب: جی نہیں! عقیقہ کے دن ہی بچے کے سر کے بال منڈوانا ضروری نہیں ہیں۔ عقیقہ تو بچے کی پیدائش کے ساتویں دن یا مالی استطاعت کے مطابق کسی وقت بھی کیا جاسکتا ہے جب کہ بچے کے سر کے بال ساتویں دن اُتروانا سنت ہے۔ جیسا کہ حسنین کریمین علیہما السلام کی پیدائش کے موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ کے عمل مبارک سے ثابت ہے۔

سوال 56: لڑکی اور لڑکے کے عقیقہ میں کیا فرق ہے؟

جواب: لڑکی اور لڑکے کے عقیقہ میں فرق یہ ہے کہ لڑکی کی طرف سے عقیقہ میں ایک بکری/بکرا جبکہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں/بکرے ذبح کیے جائیں گے۔ جیسا کہ حضرت اُمِّ کُرز رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ عَنِ الْعَقِیْقَةِ؟ فَقَالَ: عَنِ الْغُـلَامِ شَاتَانِ وَعَنِ الْأُنْثٰی وَاحِدَۃٌ، وَلَا یَضُرُّکُمْ ذُکْرَانًا کُنَّ أَمْ إِنَاثًا.

أحمد بن حنبل، المسند، 6: 422، رقم: 27413
أبو داود، السنن، کتاب الضحایا، باب في العقیقۃ، 3: 105، رقم: 2835
ترمذي، السنن، کتاب الأضاحي، باب الأذان في أذن المولود، 4: 98، رقم: 1516
نسائي، السنن، کتاب العقیقۃ، باب کم یعق عن الجاریۃ، 7: 165، رقم: 4218
ابن ماجہ، السنن، کتاب الذبائح، باب العقیقۃ، 2: 1056، رقم: 3162

اُنہوں نے رسول الله ﷺ سے عقیقہ کے بارے میں سوال کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے۔ اُن کا نر یا مادہ ہونا کچھ نقصان نہیں دیتا۔

سوال 57: اگر والدین کی مالی حالت مستحکم نہ ہو تو کیا صاحبِ استطاعت اولاد خود اپنا عقیقہ کرسکتی ہے؟

جواب: جی ہاں! اگر والدین کی مالی حالت غیر مستحکم ہو یا عقیقہ کے مسائل سے لاعلمی کی وجہ سے اپنی زندگی میں اولاد کا عقیقہ نہ کر سکے ہوں تو بعد ازاں صاحبِ استطاعت اولاد خود بھی اپنا عقیقہ کر سکتی ہے۔

سوال 58: عقیقہ کے گوشت کی تقسیم کا طریقہ کیا ہے؟

جواب: عقیقہ کے گوشت کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے تین حصے کیے جائیں: ایک غریبوں کے لیے، ایک رشتہ داروں کے لیے اور ایک اپنے لیے؛ تاہم ضرورت ہو تو اپنے لیے زیادہ بھی رکھ سکتے ہیں اور ضرورت کم ہو تو اپنا حصہ دوسروں کو بھی دے سکتے ہیں۔ خواہ گوشت تقسیم کریں یا پکا کر کھلائیں دونوں طرح جائز ہے۔

سوال 59: کیا بچے کا ختنہ کروانا ضروری ہے؟ شرعاً بچے کا ختنہ کب کروایا جائے؟

جواب: جی ہاں!بچے کا ختنہ کروانا ضروری ہے۔ یہ تمام انبیاء و مرسلین کی سنت ہے اور ان کی اتباع اور اقتداء تمام مسلمان کرتے ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

اَلْفِطْرَةُ خَمْسٌ: الْخِتَانُ، وَالْاِسْتِحْدَادُ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِیْمُ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الْآبَاطِ.

بخاری، الصحیح، کتاب اللباس، باب تقلیم الأظفار، 5: 2209، رقم: 5552

پانچ اُمور فطری ہیں: ختنہ کروانا، زیر ناف بال صاف کرنا، مونچھیں چھوٹی کروانا، ناخن کٹوانا اور بغل کے بال صاف کرنا۔

اسلام میں ختنہ کی اس قدر اہمیت ہے کہ جب کوئی شخص مسلمان ہو اور اس کے ختنے نہ ہوئے ہوں تو اس پر ختنہ اور غسل واجب ہے۔ جیسا کہ امام احمد بن حنبل اور ابو داؤد نے عثیم بن کلیب کے حوالے سے ان کے دادا سے روایت نقل کی ہے کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

أَلْقِ عَنْکَ شَعْرَ الْکُفْرِ وَاخْتَتِنْ.

أحمد بن حنبل، المسند، 24: 163، رقم: 15432
أبو داود، السنن، کتاب الطھارۃ، باب في الرجل یسلم فیؤمر بالغسل، 1: 139، رقم: 356
عبد الرزاق، المصنف، 6: 10، رقم: 9835
طبرانی، المعجم الکبیر، 22: 395، رقم: 982

تم اپنے جسم سے کفر کے بال اُتارو اور ختنہ کراؤ۔

سوال 60: نظرِ بد کی حقیقت کیا ہے؟

جواب: نظر بد یا نظر لگنا ایک قدیم تصور ہے جو دنیا کی مختلف اقوام میں پایا جاتا ہے۔ اسلام کے صدرِ اوّل میں دشمنانِ اسلام نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے عرب کے ان لوگوں کی خدمات لینے کا ارادہ کیا جو نظر لگانے میں شہرت رکھتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ جس چیز کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے دیکھتے ہیں ان کے دیکھتے ہی وہ چیز تباہ ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو ان کے شر سے محفوظ رکھا اور ان بدنیتوں کے تمام حربے ناکام ہوگئے۔ ان کی اس شر انگیزی کو قرآن نے اس طرح سے بیان کیا ہے:

وَاِنْ یَّکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَکَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ وَیَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْنٌo

القلم، 68: 51

اور بے شک کافر لوگ جب قرآن سنتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ آپ کو اپنی (حاسدانہ بد) نظروں سے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے۔

اس آیت میں نظرِ بد کے نقصان اور اس کے اثر انداز ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ نظرِ بد کسی دوسرے انسان کے جسم و جان پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

الْعَیْنُ حَقٌّ.

بخاری، الصحیح، کتاب الطب، باب العین حق، 5: 2167، رقم: 5408

نظر کا لگ جانا حقیقت ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول مکرم ﷺ نے فرمایا:

اَلْعَیْنُ حَقٌّ. وَلَوْ کَانَ شَيْئٌ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْهُ الْعَیْنُ. وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوْا.

مسلم، الصحیح، کتاب السلام، باب الطب والمرض والسرقی، 4: 1719، رقم: 2188

نظر حق ہے۔ اگر کوئی شے تقدیر پر سبقت کر سکتی ہے تو نظر ہے۔ جب تم سے (نظر کے علاج کے لیے) غسل کرنے کے لیے کہا جائے تو غسل کرلو۔

سوال 61: اگر بچے کو نظرِ بد لگ جائے تو کیا اُسے دم کرنا جائز ہے؟

جواب: جی ہاں! بچے کو نظر بد لگنے کی صورت میں اسے دم کرنا جائز ہے کیوں کہ اس طرح نظر بد کے اثرات زائل ہوتے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ان سے بچاؤ کے دَم کرنے کا حکم فرمایا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دَم کے متعلق سوال کیا گیا تو اُنہوں نے فرمایا:

رُخِّصَ فِي الْحُمَةِ وَالنَّمْلَةِ وَالْعَیْنِ.

مسلم، الصحیح، کتاب السلام، باب استحباب الرقیة من العین والنملة والحمة والنظرة، 4: 1725، رقم: 2196

(حضور نبی اکرم ﷺ نے تین چیزوں کے لیے) دَم کی اجازت دی ہے: نظر بد، بچھو کے کاٹنے پر اور پھوڑے پھنسی کے لیے۔

اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

أَمَرَنِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، أَوْ: أَمَرَ، أَنْ یُسْتَرْقٰی مِنَ الْعَیْنِ.

بخاری، الصحیح، کتاب الطب، باب رقیة العین، 5: 2166، رقم: 5406

مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ نظرِ بد کا دم کیا کرو۔

حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے میرے گھر کے اندر ایک لڑکی دیکھی جس کے چہرے پر نشانات تھے۔ ارشاد فرمایا:

اسْتَرْقُوا لَهَا، فَإِنَّ بِهَا النَّظْرَۃَ.

بخاری، الصحیح، کتاب الطب، باب رقیة العین، 5: 2166، رقم: 5407

اس پر کچھ پڑھ کر دم کرو کیوں کہ اس کو نظر لگ گئی ہے۔

حضرت عبید بن رفاعہ زرقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت اَسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض گذار ہوئیں: یا رسول اللہ! جعفر کی اولاد کو جلد نظر لگ جاتی ہے، کیا میں انہیں دم کرا سکتی ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

نَعَمْ! فَلَوْ کَانَ شَيْئٌ سَابِقُ الْقَدَرِ لَسَبَقَتْهُ الْعَیْنُ.

أحمد بن حنبل، المسند، 6: 438، رقم: 27510
ترمذی، السنن، کتاب الطب، باب فی الرقیۃ من العین، 4: 395، رقم: 2059
طبرانی، العمجم الکبیر، 24: 142، رقم: 377
بیهقی، السنن الکبری، 9: 348، رقم: 20072

جی ہاں! اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو وہ نظرِ بد ہوتی۔

سوال 62: بچے کو نظرِ بد سے بچانے کا طریقہ کیا ہے؟

جواب: بچے کو نظر بد سے بچانے کا طریقہ حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت کے مطابق درج ذیل ہے:

کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ، وَیَقُوْلُ: إِنَّ أَبَاکُمَا کَانَ یُعَوِّذُ بِهَا إِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَقَ: أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ، مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَهَامَّۃٍ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ.

بخاری، الصحیح، کتاب الانبیاء، باب یزفون النسلان في المشي، 3: 1233، رقم: 3191
أبو داود، السنن، کتاب السنۃ، باب فی القرآن، 4: 235، رقم: 4737
ترمذی، السنن، کتاب الطب، باب (8)، 4: 396، رقم: 2060

حضورنبی اکرم ﷺ امام حسن و حسین علیہما السلام کو (خصوصی طور پر) کلماتِ تعوذ کے ساتھ دم کرتے اور فرماتے: تمہارے جد امجد (ابراہیم علیہ السلام بھی) اپنے دونوں صاحبزادوں - اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام - کو اِن کلمات کے ساتھ دم کیا کرتے تھے: {أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ، مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّةٍ} ’کامل کلمات کے ذریعے ہر (وسوسہ اندازی کرنے والے) شیطان اور بلا سے اور ہر نظر بد سے پناہ مانگتا ہوں۔‘

نظرِ بد کے علاج کے لیے معوذتین پڑھ کر دم کیا جائے اور یہ دعا بھی کی جائے جو حدیث مبارک سے ثابت ہے۔

2۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ بیمار ہوتے تو جبرائیل علیہ السلام آکر آپ ﷺ کو دم کرتے اور یہ کلمات کہتے:

بِاسْمِ اللهِ یُبْرِیْکَ وَمِنْ کُلِّ دَائٍ یَشْفِیْکَ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ وَشَرِّ کُلِّ ذِي عَیْنٍ.

مسلم، الصحیح، 4: 7181، رقم: 2185

اللہ کے نام کے ساتھ! وہ آپ کو تندرست کرے گا اور ہر بیماری سے شفا عطا فرمائے گا اور حسد کرنے والے حاسد کے ہر شر سے اور نظر لگانے والی آنکھ کے ہر شر سے آپ کو اپنی پناہ میں رکھے گا۔

3۔ قرآن مجید کی آخری دو سورتوں یعنی ’معوذتین‘ کے ذریعے بھی نظر بد کا علاج کیا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

إِنَّ النَّبِيّ ﷺ کَانَ یَنْفُثُ عَلٰی نَفْسِهٖ فِي الْمَرْضِ الَّذِی مَاتَ فِیْهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ، فَلَمَّا ثَقُلَ کُنْتُ أَنْفُثُ عَلَیْهِ بِهِنَّ، وَأَمْسَحُ بِیَدِ نَفْسِهٖ لِبَرَکَتِهَا.

بخاری، الصحیح، کتاب الطب، باب الرقی بالقرآن والمعوذات، 5: 2165، رقم: 5403

حضور نبی اکرم ﷺ مرضِ وصال میں معوذتین پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا کرتے تھے۔ جب آپ ﷺ کی تکلیف بڑھ گئی تو میں انہیں پڑھ کر آپ ﷺ پر دم کیا کرتی اور با برکت ہونے کے باعث آپ ﷺ کے دستِ اقدس کو آپ ﷺ کے جسم اطہر پر پھیرا کرتی۔

سوال 63: نومولود بچوں کی وفات پر صبر کرنے کا اجر کیسا ہے؟

جواب: اللہ تعالیٰ نومولود بچوں کی وفات پر صبر کرنے والے والدین کو بطور صلہ جنت عطا فرما ئے گا۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:

إِذَا مَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ قَالَ اللهُ لِمَلَائِکَتِهٖ: قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِي! فَیَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، فَیَقُوْلُ: قَبَضْتُمْ ثَمَرَةً فُؤَادِهٖ، فَیَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، فَیَقُوْلُ: مَاذَا قَالَ عَبْدِيْ؟ فَیَقُوْلُوْنَ: حَمْدَکَ وَاسْتَرْجَعَ، فَیَقُوْلُ اللهُ إِبْنُوا لِعَبْدِي بَیْتًا فِي الْجَنَّةِ وَسَمُّوْهُ بَیْتَ الْحَمْدِ.

ترمذی، السنن، کتاب الجنائز، باب فضل المصیبۃ إذا احتسب، 3: 341، رقم: 1021

جب کسی آدمی کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ کیا تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کی ہے؟ وہ اثبات میں جواب دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا تم نے اس کے دل کے پھل کو قبض کیا ہے؟ وہ اقرار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دریافت فرماتا ہے: ـ میرے بندے نے کیا کہا: وہ جواب دیتے ہیں۔ اس نے تیری حمد و ثنا بیان کی اور إِنَّا ﷲِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُوْن کے کلمات ادا کیے۔ اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ میرے بندے کے لیے جنت میں گھر تعمیر کرو اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَا مِنَ النَّاسِ مِنْ مُسْلِمٍ، یُتَوَفّٰی لَهٗ ثَـلَاثٌ لَمْ یَبْلُغُوا الْحِنْثَ، إِلَّا أَدْخَلَهُ اللهُ الْجَنَّۃَ، بِفَضْلِ رَحْمَتِهٖ إِیَّاهُمْ.

بخاری، الصحیح، کتاب الجنائز، باب فضل من مات لہ ولد فاحتسب، 1: 421، رقم: 1191
أحمد بن حنبل، المسند، 4: 183، رقم: 1767
نسائی، السنن، کتاب الجنائز، باب من یتوفی لہ ثلاثہ، 4: 24، رقم: 1873

مسلمانوں میں سے جس کے تین ایسے بیٹے فوت ہو جائیں جو بلوغت کی عمر کو نہ پہنچے ہوں تو الله تعالیٰ بچوں پر فضل و رحمت کے باعث اُس شخص کو جنت میں داخل فرما دے گا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے:

مَا لِعَبْدِي الْمُؤْمِنِ عِنْدِي جَزَائٌ إِذَا قَبَضْتُ صَفِیَّهُ مِنْ أَھْلِ الدُّنْیَا ثُمَّ احْتَسَبَهٗ، إِلاَّ الْجَنَّةُ.

بخاری، الصحیح، کتاب الرقاق، باب العمل الذي یبغی بہ وجہ الله، 2361: 5، رقم: 6060۔

میرے ہاں میرے مومن بندے کے لیے اس کے علاوہ کوئی بدلہ نہیں ہے کہ جب میں اہل دنیا میں سے اس کے محبوب انسان کی روح قبض کر لوں اور وہ اس کی وفات پر صبر کرے تو اس کو جنت عطا کر دوں۔

سوال 64: کیا فوت شدہ بچہ وراثت کا حق دار ہوگا؟

جواب: جی نہیں! اگر نومولود مردہ حالت میں پیدا ہو تو وہ وراثت کا حق دار نہیں ہوگا لیکن اگر بچہ زندہ پیدا ہو کر فوت ہو جائے تو اس صورت میں وہ وراثت کا حق دار ہوگا۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

لَا یَرِثُ الصَّبِيُّ حَتّٰی یَسْتَهِلَّ صَارِخًا. قَالَ: وَاسْتِهْلَالُهٗ أَنْ یَبْکِيَ وَیَصِیْحَ أَوْ یَعْطِسَ.

ابن ماجہ، السنن، کتاب الفرائض، باب إذا استھل المولود ورث، 2: 919، رقم: 2751

بچہ اس وقت تک وارث نہ ہوگا جب تک کہ زور سے نہ چلائے اور اس کی صورت یہ ہے کہ وہ چیخے یا چھینکے یا روئے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:

إِذَا اسْتَهَلَ الْمَوْلُوْدُ وُرِّثَ.

أبو داؤد، السنن، کتاب الفرائض، باب فی المولود یستھل ثم یموت، 3: 128، رقم: 2920
بیهقی، السنن الکبری، 6: 257، رقم: 12265

بچہ جب چلائے تو وراثت کا حق دار ہوگا۔

ملا علی قاری لکھتے ہیں:

لو مات إنسان ووارثه حمل في البطن یوقف له المیراث. فإن خرج حیًا کان له وإن خرج میتًا فلا یورث منه بل لسائر ورثة الأوّل.

ملا علی القاری، مرقاة المفاتیح، 6: 213، رقم: 3050

اگر کوئی انسان فوت ہو جائے اور اس کا وارث حمل ہو تو اس کی وراثت کی تقسیم کو موقوف رکھا جائے گا، اگر وہ زندہ حالت میں پیدا ہوا تو اس کا وارث ہوگا اور اگر مردہ حالت میں پیدا ہوا تو وارث نہ ہوگا بلکہ دیگر ورثا ہی وارث ہوں گے۔

سوال 65: بیٹی کی پیدائش پر خوشی منانا کیسا ہے؟

جواب: بیٹی کی پیدائش پر خوشی منانا جائز اور مستحب عمل ہے۔ کیوں کہ بیٹی الله تعالیٰ کی طرف سے والدین کے لیے باعث خیر و برکت ہوتی ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

إِذآ وُلِدَتِ الْجَارِیَةُ، بَعَثَ اللهُ عَزَّ وَجَلْ إِلَیْھَا مَلَکاً یَزُقَّ الْبَرَکَۃَ زَقًّا: یَقُوْلُ: ضَعِیْفَۃٌ خَرَجَتْ مِنْ ضَعِیْفٍ الْقَیِّمُ عَلَیْھَا مُعَانٌ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ، وَإِذا وُلِدَ الْغُـلَامُ، بَعَثَ اللهُ إِلَیْهِ مَلَکاً مِنَ السَّمَآءِ، فَقَبَّلَ بَیْنَ عَیْنَیْهِ، وَقَالَ: اللهُ یُقْرِئُکَ السَّلَامَ.

طبرانی، المعجم الأوسط، 3: 265، رقم: 3101
ھیثمی، مجمع الزوائد، 8: 156، رقم: 13483

جب لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو جلدی سے خیر و برکت کی خبر دیتا ہے اور کہتا ہے: ایک کمزور جان، کمزور انسان کے پیٹ سے نکلی ہے، اور اس کے متولی کی قیامت کے دن تک مدد کی جائے گی۔ جب لڑکا پیدا ہوتا ہے تو وہ اس کی پیشانی کو چومتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام بھیجا ہے۔

زمانہ جاہلیت میں لوگ بیٹیوں کی پیدائش اور اُن کے وجود کو باعثِ عار اور مصیبت سمجھتے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ان کے اس طرزِ عمل کو مسترد کرتے ہوئے بیٹیوں کے ہونے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرنے سے منع فرمایا۔

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:

لَا تَکْرَھُوا الْبَنَاتَ، فَإِنَّھُنَّ الْمُؤْنِسَاتُ الْغَالِیَاتُ.

أحمد بن حنبل، المسند، 4: 151، رقم: 17411
طبرانی، المعجم الکبیر، 17: 310، رقم: 856
ابن أبی الدنیا، العیال، 1: 243، رقم: 97
ھیثمی، مجمع الزوائد، 8: 156

تم بیٹیوں کے ہونے کو ناپسند نہ کیا کرو، بے شک وہ (والدین) کی غم خوار اور لائقِ احترام ہوتی ہیں۔

امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے صالح بیان کرتے ہیں کہ جب اُن کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوتی تو وہ فرماتے کہ انبیاء بیٹیوں کے باپ تھے۔ نیز فرماتے کہ بیٹیوں کے متعلق جو کچھ (قرآن و سنت میں) آیا ہے، وہ تمہیں معلوم ہی ہے۔

ابن القیم، تحفۃ المودود بأحکام المولود، 1: 26

یعقوب بن بختان فرماتے ہیں:

ولد لي سبع بنات، کلما ولد لي ابنة دخلت علی أحمد بن حنبل، فیقول لي: یا أبا یوسف: الأنبیاء آباء بنات.

ابن قیم، تحفة المودود بأحکام المولود، 1: 26

میرے ہاں سات بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ جب بھی میرے ہاں بیٹی پیدا ہوتی تو میں امام احمد بن حنبل کے پاس جاتا اور وہ مجھ سے فرماتے: اے ابو یوسف! انبیاء علیہم السلام بیٹیوں کے باپ تھے۔

سوال 66: بیٹیوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کرنے والے کو حضور ﷺ نے کیا بشارت دی ہے؟

جواب: بیٹیوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کرنے والے کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے جنت کی بشارت دی ہے۔ اس کا مستحق وہ شخص بنے گا جس کا طرزِ عمل بیٹیوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش میں آپ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ہوگا اور انہیں عصری علوم کے ساتھ ساتھ شرعی علوم بھی سکھائے گا۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ عَالَ ثَـلَاثَ بَنَاتٍ، فَأَدَّبَهُنَّ، وَزَوَّجَهُنَّ، وَأَحْسَنَ إِلَیْهِنَّ، فَلَهُ الْجَنَّةُ.

أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب في فضل من عال یتیما، 4: 338، رقم: 5147
أحمد بن حنبل، المسند، 3: 97، رقم: 11943
بیهقي، شعب الإیمان، 6: 404، رقم: 48676

جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، اُن کی اخلاقی تربیت کی، پھر اُن کی شادی کی اور اُن کے ساتھ اچھا سلوک کرتا رہا تو اُس کے لیے جنت واجب ہے۔

حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:

مَا مِنْ رَجُلٍ تُدْرِکُ لَهُ ابْنَتَانِ فَیُحْسِنُ إِلَیْهِمَا، مَا صَحِبَتَاهُ أَوْ صَحِبَھُمَا إِلَّا أَدْخَلَتَاهُ الْجَنَّۃَ.

أحمد بن حنبل، المسند، 1: 363، رقم: 3424
ابن ماجہ، السنن، کتاب الأدب، باب بر الوالد والإحسان إلی البنات، 2: 1210، رقم: 3670
حاکم، المستدرک، 4: 196، رقم: 7351
طبراني، المعجم الکبیر، 10: 337، رقم: 10836

جس شخص کی دو بیٹیاں ہوں، جب تک وہ اُس کے پاس رہیں یا وہ اُن کے ساتھ رہے اور (اس دوران) وہ اُن کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا رہے تو وہ دونوں اسے جنت میں لے جائیں گی۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:

مَنْ کَانَ لَهٗ ثَـلَاثُ بَنَاتٍ أَوْ ثَـلَاثُ أَخَوَاتٍ، أَوِ ابْنَتَانِ أَوْ أُخْتَانِ فَأَحْسَنَ صُحْبَتَهُنَّ وَاتَّقَی اللهَ فِیْهِنَّ فَلَهُ الْجَنَّةُ.

ترمذي، السنن، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب ما جاء في النفقۃ علی البنات والأخوات، 4: 320، رقم: 1916
ابن حبان، الصحیح، 2: 189-190، رقم: 446
حمیدي، المسند، 2: 323، رقم: 738

جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، وہ اُن سے اچھا سلوک کرے اور اُن کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اس کے لیے جنت ہے۔

والدین کو چاہیے کہ بیٹیوں کی پرورش اور اچھی تعلیم و تربیت پر خرچ کرنے کو بوجھ سمجھتے ہوئے ہرگز پریشان نہ ہوں بلکہ ان اُمور کی انجام دہی کو اپنے لیے باعثِ سعادت اور خوش بختی سمجھیں کیوں کہ خوش اُسلوبی سے تمام کام سر انجام دینے والے کے لیے حدیث مبارک میں قیامت کے روز حضور نبی اکرم ﷺ کی سنگت کی بشارت ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ عَالَ جَارِیَتَیْنِ حَتّٰی تَبْلُغَا، جَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ أَنَا وَهُوَ، وَضَمَّ أَصَابِعَهٗ.

مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الإحسان إلی البنات، 4: 2027، رقم: 2631
ابن أبي شیبۃ، المصنف، 5: 222، رقم: 25439
طبرانی، المعجم الأوسط، 1: 176، رقم: 557

جس شخص نے دو بچیوں کی بلوغت تک پرورش کی، قیامت کے دن میں اور وہ (اس طرح اکٹھے) آئیں گے۔ (یہ فرماتے ہوئے) آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو ملا دیا۔

کتبِ احادیث میں وارد فرامین رسول ﷺ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بیٹیوں کی بہتر تعلیم و تربیت اور پرورش کرنا نہ صرف والدین کا دینی فریضہ ہے بلکہ باعث اجر و ثواب بھی ہے اور اس میںیہ حکمت بھی کارفرما ہے کہ بیٹی کی گود مستقبل میں ایک درس گاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر اس کی تعلیم و تربیت اسلامی خطوط پر ہوگی تو وہ نسلِ نو کی تعلیم و تربیت کا فریضہ بخوبی سر انجام دے سکے گی۔

سوال 67: کیا گزشتہ اَدوار کی طرح آج بھی بیٹوں کی نسبت بیٹیوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے؟

جواب: جی ہاں! ماضی کی طرح آج بھی بیٹوں کی نسبت بیٹیوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے جو تعلیماتِ اسلام کے منافی اور جاہلانہ روش ہے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ بیٹے کی پیدائش پر دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے خوش خبری عزیز و اقارب کو تو سنائی جاتی ہے لیکن اس کے برعکس اگر بیٹی پیدا ہو جائے تو زبان سے کچھ نہ بھی کہیں لیکن غم و پریشانی کے آثارچہروں سے عیاں ہوتے ہیں۔ بعض لوگ تو برملا اس کااظہار بھی کرتے ہیں۔ ایسے واقعات بھی دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں کہ جب شوہر کو ایک یا دو بیٹیوں کی پیدائش کی خبر ملتی ہے تو وہ بیوی سے ناراض ہوکر یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ آئندہ لڑکی پیدا ہوئی تو میں تجھے طلاق دے دوں گا۔ اس قسم کا رویہ دورِ جاہلیت کی عکاسی کرتا ہے جسے قرآن مجیدنے یوں بیان کیا ہے:

وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّهُوَ کَظِیْمٌo یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ ط اَیُمْسِکُهٗ عَلَی هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِ ط اَ لَا سَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَo

النحل، 16: 58-59

اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خبر سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے۔ وہ لوگوں سے چُھپا پھرتا ہے (بزعمِ خویش) اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے، (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کر دے)، خبردار! کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی اولاد میں امتیازی سلوک روا رکھنے کو نا پسند فرمایا اور ان سے برتاؤ کرنے کے معاملے میں عدل کرنے کی ہدایت فرمائی۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

کَانَ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ رَجُلٌ، فَجَاءَ بْنٌ لَهٗ، فَقَبَّلَهٗ وَأَجْلَسَهٗ عَلٰی فَخِذِهٖ، ثُمَّ جَائَتْ بِنْتٌ لَهٗ، فَأَجْلَسَهَا إِلٰی جَنْبِهٖ. قَالَ: فَهَـلَّا عَدَلْتَ بَیْنَهُمَا.

طحاوي، شرح معاني الآثار، 4: 89
تمام رازي، الفوائد، 2: 237، رقم: 1616
بیهقي، شعب الإیمان، 6: 410، رقم: 8700
ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 13: 396

ایک دفعہ رسول الله ﷺ کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر تھا کہ اُس شخص کا بیٹا اُس کے پاس آیا۔ اُس شخص نے اُسے چوما اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔ پھر اُس کی بیٹی آئی تو اُس نے اُسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے اِن دونوں کے درمیان عدل کیوں نہیں کیا؟

سوال 68: بیٹی کی پیدائش میں عورت کس حد تک قصور وار ہے؟

جواب: بچی کی پیدائش میں عورت بالکل بھی قصوروار نہیں کیوں کہ بچوں کی پیدائش کا معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس میں نہ کسی کے ارادے کا عمل دخل ہے اور نہ کسی کی خواہش اور آرزو کا۔ یہ بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کس کے حق میں لڑکی بہتر ہے اور کس کے حق میں لڑکا۔ کسی انسان کے اختیار میں نہیں کہ اس کے فیصلے کو بدل دے یا اس پر اثر انداز ہو۔

قرآن مجید میں ہے:

لِلّٰهِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ ط یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّیَھَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّکُوْرَo اَوْ یُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَانًا وَّاِنَاثًا ج وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًا ط اِنَّهٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌo

الشوری، 42: 49-50

اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہے۔ یا انہیں بیٹے اور بیٹیاں (دونوں) جمع فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ ہی بنا دیتا ہے، بے شک وہ خوب جاننے والا بڑی قدرت والا ہے۔

قرآنی فرمان کے برعکس ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ جب عورت بچی کو جنم دیتی ہے تو قصوروار ٹھہرائی جاتی ہے اور شوہر اور ساس سمیت تمام سسرالی رشتے دار اس کے خلاف ہوجاتے ہیں۔ حالاں کہ جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ بیٹی ہو یا بیٹا اس کا تعلق صرف مرد کے ساتھ ہے، عورت کے ساتھ نہیں۔

میڈیکل سائنس نے یہ ثابت کیا کہ عورت کے جسم میں جو کروموسوم پایا جاتاہے اسے xx کہتے ہیں اور مرد کے کروموسوم کو xy کہتے ہیں۔ اگر xy ملے تو بیٹا ہوتا ہے اور اگر xx ملے تو بیٹی ہوتی ہے۔ جب دونوں کروموسومز اکٹھے ہوجاتے ہیں تو مرد کا xy بھی آپس میں split ہوجاتا ہے اور عورت کا xx بھی split ہوجاتا ہے۔ اب اگر مرد کے y-post نے x کے ساتھ جاکر ملاپ کیا تو بیٹا ہوگا اور اگر اس کے x-post نے عورت کے x-post کے ساتھ ملاپ کیا تو بیٹی ہوگی۔ عورت کے پاس تو ہے ہی xx کروموسوم۔اب بیٹی یا بیٹے کی پیدائش میں بیچاری عورت کا کیا قصور! یہ تو مرد کا y کروموسوم اگر effective ہوگیا تو بیٹا ہوا اور اگر مرد کا x کروموسوم effective ہوگیا تو بیٹی ہوئی۔ قصور تو مرد کا بنتا ہے مگرمعاشرہ قصوروار عورت کو ٹھہراتا ہے۔ آج جدید سائنس نے ثابت کر دیا کہ بیٹی یا بیٹا ہونے کا تعلق مرد سے ہے نہ کہ عورت سے۔

لہٰذا شوہر کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں بیوی کو موردِ الزام ٹھہرانے کی بجائے اپنی سوچ کے زاویہ نگاہ کو بدلے اور نعمتِ خداوندی کے ملنے پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لائے۔

سوال 69: شریعت میں لے پالک کے احکامات کیا ہیں؟

جواب: شریعت میں لے پالک یعنی گود لیے گئے بچے کے احکامات درج ذیل ہیں:

1۔ بچے کو گود لینا یا دینا جائز ہے۔

2۔ بچے کی ولدیت منہ بولے باپ کی بجائے ہر حال میں حقیقی باپ کی طرف ہی منسوب ہوگی، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللهِ.

الأحزاب، 33: 5

تم اُن (مُنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو۔

بطورِ سرپرست چچا، ماموں، خالو یا جو بھی رشتہ ہو اس کا نام لکھا جا سکتا ہے۔

3۔ بچہ گود لینے والوں کے لیے غیر محرم ہی رہے گا۔ لیکن اگر بچہ دو سال سے کم عمر تھا اور گود لینے والی عورت نے اسے اپنا دودھ پلایا تو پھر اَحکامات رضاعی بیٹے والے ہوں گے۔

4۔ گود لیے جانے والے بچے کو وراثت میں حصہ اس کے حقیقی والدین کی طرف سے ملے گا۔ اسے گود لینے والے ماں باپ اگر چاہیں تو اپنی جائیداد کا کچھ حصہ اپنی زندگی میں اس کے نام وصیت کر دیں تاکہ حقیقی ورثاء کی حق تلفی نہ ہو اور نہ ہی گود لیا ہوا بچہ ان کے فوت ہو جانے کے بعد کسی کا محتاج ہو۔

5۔ بچہ کسی بھی عمر میں گود لیا جاسکتا ہے مگر جتنا کم عمر ہوگا اسے گود لینے والے والدین کے ساتھ مانوس ہونے میں آسانی ہوگی۔

6۔ بچے کو مال یا کسی چیزکے عوض دیا یا لیا نہیں جاسکتا کیوں کہ انسان کی قیمت متعین کرنا حرام ہے اور اس کی خرید و فروخت جائز نہیں۔

7۔ بچے کو گود دیتے ہوئے حقیقی والدین کو یہ بات مدِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ جن میاں بیوی کو وہ بچہ دے رہے ہیں وہ اس کی تربیت صحیح کر سکیں گے یا نہیں؟ اس کو کہیں مذہب سے گمراہ کرنے کا سبب تو نہیں بنیں گے؟ اسے کسی غلط کام میں استعمال تو نہیں کریں گے؟ ان باتوں کی تصدیق کرنے کے بعد وہ بچہ گود دے سکتے ہیں۔

سوال 70: اگر کوئی جان بوجھ کر حقیقی باپ کی بجائے منہ بولے باپ کی طرف اپنی نسبت کرے تو اس کے لیے کیا وعید ہے؟

جواب: اگر کوئی جان بوجھ کر حقیقی باپ کی بجائے اپنی نسبت منہ بولے باپ کی طرف کرتا ہے تو ایسے شخص کے لیے احادیث میں سخت وعید آئی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

لَیْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعٰی لِغَیْرِ أَبِیْهِ وَهُوَ یَعْلَمُهٗ إِلَّا کَفَرَ.

بخاری، الصحیح، کتاب المناقب، باب نسبۃ الیمن إلی إسماعیل، 3: 1292، رقم: 3317
مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان حال إیمان من رغب عن أبیہ وھو یعلم، 1: 79، رقم: 61
أحمد بن حنبل، المسند، 5: 166، رقم: 21503

جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو اپنے (حقیقی) باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا۔

حضرت ابراہیم التیمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صحیفے میں حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان ہے:

وَمَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیْهِ أَوِ انْتَمٰی إِلٰی غَیْرِ مَوَالِیْهِ. فَعَلَیْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ. لَا یَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا.

مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ و دعا النبي ﷺ، 2: 998، رقم: 1370
أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب فی الرجل ینتمي إلی غیر موالیہ، 4: 330، رقم: 5115
ابن ماجہ، السنن، کتاب الحدود، باب من ادعی إلی غیر أبیہ أو تولی غیر مو الیہ، 2: 870، رقم: 2209
ابن حبان، الصحیح، 2: 161، رقم: 417

جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کی یا جس غلام نے اپنے آزاد کرنے والے مالکوں کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کی تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو۔ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی یا فرضی عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیْهِ، وَهُوَ یَعْلَمُ أَنَّهٗ غَیْرُ أَبِیْهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَیْهِ حَرَامٌ.

بخاری، الصحیح، کتاب الفرائض، باب من ادعی إلی غیر أبیہ، 6: 2485، رقم: 6385
مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب بیان حال إیمان من رغب عن أبیہ وھو یعلم، 1: 80، رقم: 63
أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب فی الرجل ینتمي إلی غیر موالیہ، 4: 330، رقم: 5113
ابن ماجہ، السنن، کتاب الحدود، باب من ادعی إلی غیر أبیہ أو تولی غیر موالیہ، 2: 870، رقم: 2610

جس نے دانستہ اپنی نسبت اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف کی تو اس پر جنت حرام ہے۔

الغرض کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ خود کو اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرے۔ خواہ اس کا مقصد کچھ بھی ہو۔ لہٰذا جو لوگ محض دنیاوی اغراض و مقاصد مثلاً دوسرے ملک میں شہریت، ملازمت کے حصول یا دیگر کسی بھی کام کے لیے اپنی ولدیت تبدیل کرتے ہیں ان کا یہ فعل حرام ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved