جواب: اِسلام نے بچے کے حقوق اس کی پیدائش سے قبل ہی متعین کر دیے ہیں۔ بچہ پیدا ہونے سے قبل حالتِ جنین میں ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم اس باب میں اِصطلاح کے طور پر قبل اَز پیدائش بچے کے لیے جنین کا لفظ ہی استعمال کریں گے۔
جنین کی تفصیل درج ذیل ہے:
بچے کی زندگی کا آغاز مرحلہ جنین سے ہوتا ہے۔ اسلام نے اس مرحلے سے بچے کے لیے زندگی کے حق کو قانونی حیثیت عطا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اِستقرارِ حمل کے چار ماہ بعد رحم مادر میں موجود بچے میں روح پھونک دیتا ہے۔ اس وقت اِسقاطِ حمل کرنا گناهِ کبیرہ، حرام اور قتلِ انسانی کے مترادف ہے۔
فقہاء کرام کا اجماع ہے کہ دورانِ حمل درج ذیل دو شرائط پوری ہونے کی صورت میں بچہ وراثت میں حصے دار ہوگا:
یُوْصِیْکُمُ اللهُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ.
النساء، 4: 11
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا اسْتَهَلَّ الصَّبِيُّ صُلِّيَ عَلَیْهِ وَوَرِثَ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب الفرائض، باب إذا سئھل المولودورث، 2:
919، رقم: 2750
دارمی، السنن، 1: 225، رقم: 3168
ابن حبان، الصحیح، 13: 392، رقم: 6032
بیہقی، السنن الکبری، 6: 257، رقم: 12863
جب بچہ چیخے گا تو اس کی نماز بھی پڑھی جائے گی اور وہ وارث بھی ہوگا۔
امام سرخسی ’المبسوط‘ میں لکھتے ہیں:
اِعْلَم بِأَنَّ الْحَمْلَ مِنْ جُمْلَةِ الْوَرَثَةِ. إِذَا عُلِمَ بِأَنَّهٗ کَانَ مَوْجُوْدًا فِي الْبَطْنِ عِنْدَ مَوْتِ الْمُوَرِّثِ وَانْفَصَلَ حَیًّا.
سرخسی، المبسوط، 30: 50
جان لو کہ حمل بھی دیگر تمام ورثاء کی طرح ہے۔ جب اس کا علم ہو جائے کہ وہ مورث کی موت کے وقت زندہ تھا اور زندہ پیدا ہوا تو وہ وارث ہوگا۔
یعنی پیدا ہونے والا بچہ بھی اولاد کے زمرے میں آنے کی وجہ سے میت کا وارث ٹھہرے گا اور ترکہ میں سے حصہ پائے گا۔
جنین کے حقوق میں سے ایک حقِ وصیت بھی ہے۔ فقہاء کا اجماع ہے کہ جنین اگر زندہ پیدا ہو تو اُس کے لیے وصیت کیے جانے کا حق درست ثابت ہوگا، اس شرط کے ساتھ کہ وصیت کیے جانے کے وقت وہ ماں کے پیٹ میں موجود ہو۔ مثلاً کسی شخص نے یوں کہا کہ اس عورت کے پیٹ میں اس وقت جو بچہ ہے، میں اس کے لیے اس مکان کی وصیت کرتا ہوں۔ سو اگر اس عورت نے مردہ بچے کو جنم دیا تو اب وہ مردہ بچہ اس وصیت کا مستحق نہیں ہوگا۔
امام ابن قدامہ لکھتے ہیں:
أما الوصیة بالحمل فتصح … فان انفصل میتا بطلت الوصیّة.
ابن قدامة، المغنی، 6: 506
وصیت حمل کے لیے درست ہوتی ہے … اگر بچہ مردہ حالت میں پیدا ہو تو اس کے حق میں کی گئی وصیت باطل ہوگی۔
حقِ وراثت اور وصیت کی طرح فقہاء نے موجود اور بعد میں پیدا ہونے والی اولاد کا حقِ وقف بھی جائز قرار دیا ہے۔ ابن عابدین شامی ’رد المحتار علی الدر المختار (4: 474)‘ میں لکھتے ہیں:
وقد نصوا علی أن الوقف علی الأولاد والذریة، یتناول من وجد بعد مجیٔ الغلة لأقل من ستة أشهر لتحقق وجوده في بطن أمه وقت مجیٔ الغلة فیشارک في الغلة.
اور فقہاء نے یہ موقف اِختیار کیا ہے کہ اولاد و ذُرّیت کے لیے وقف کر دینا جائز ہے۔ اس (اولاد) میں وہ شامل ہوگا جو غلّہ آنے کے کم از کم چھ ماہ بعد پیدا ہوا ہو یعنی غلّہ آنے کے وقت اس کا وجود ماں کے پیٹ میں متحقق ہو چکا تھا، سو وہ غلّہ میں شریک ہوگا۔
اس بنا پر اگر وقف کرنے والا فوت ہو جائے تو وقف شدہ مال جنین کو وراثت میں ملے گا۔
جنین کے حقوق میں سے ایک حق حد قائم کرنے میں تاخیر کا بھی ہے کہ حاملہ عورت پر وضعِ حمل تک حد قائم کی جائے گی نہ اس سے قصاص لیا جائے گا۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور وہ بدکاری سے حاملہ تھی۔ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میں نے حد لاگو ہونے والا فعل کیا ہے، لہٰذا مجھ پر حد لگائیے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کے سرپرست کو بلایا اور فرمایا: اِسے اَحسن طریقے سے رکھ (بدکاری کا گناہ کرنے کے باوجود اس کے ساتھ اچھا سلوک کر کیوں کہ اس نے اپنے گناہ کا اِقرار کر لیا ہے اور اس پر شرمسار ہے)۔ جب وہ بچہ پیدا کر لے تو اسے میرے پاس لے آنا۔
مسلم، الصحیح، کتاب الحدود، باب من اعترف علی نفسه بالزنی، 3: 1324، رقم: 1696
اِس طرح حضور نبی اکرم ﷺ نے وضعِ حمل تک یعنی بچہ پیدا ہونے سے قبل حاملہ عورت پر حد قائم نہیں کی۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ عورت کو وضع حمل کے بعد دو سال تک بچے کو دودھ پلانے کی بھی اِجازت دی گئی تھی۔
اسلام نے جنین کا حقِ نفقہ باپ کی ذمہ داری قرار دیا ہے کہ وہ اپنے ہونے والے بچے کا خرچ اُٹھائے اگرچہ اس کی ماں کا خرچ اُس پر لازم نہ ہو۔ اسی طرح حاملہ عورت کی عدت وضعِ حمل ہے تاکہ:
1۔ بچے کے نسب کا تحفظ ہو کیوں کہ اگر عورت دوسری شادی کر لے تو پیدا ہونے والے بچے کا نسب خلط ملط ہونے کا اندیشہ ہے۔
2۔ طلاق یافتہ حاملہ عورت کا نان و نفقہ بھی شوہر پر صرف بچے کی وجہ سے لازم ہوتا ہے کیوں کہ اگر عورت حاملہ نہ ہو اور طلاق ہو جائے تو اُس کی عدت تین ماہواریاں ہیں۔
جنین کا حقِ نفقہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے واضح ہوتا ہے:
وَاِنْ کُنَّ اُوْلَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْھِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ.
الطلاق، 65: 6
اور اگر وہ حاملہ ہوں تو بچہ پیدا ہونے تک اُن پر خرچ کرتے رہو۔
جنین کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا بالاتفاق مستحب ہے جب کہ امام احمد بن حنبل سے منسوب ایک قول کے مطابق یہ واجب ہے کہ نومولود و دیگر کی طرح جنین کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کیا جائے۔
امام ابن قدامہ نے لکھا ہے:
وَعَنْ أَحْمَدَ رِوَایَةٌ أُخْریٰ أَنَّهَا تَجِبُ عَلَیْهِ.
ابن قدامة، المغنی، 2: 366
امام احمد سے مروی ایک قول کے مطابق جنین کی طرف سے بھی صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے۔
جواب: دورانِ حمل شوہر کا بیوی کے ساتھ سلوک معاونت پر مبنی اور احساس ذمہ داری والا ہونا چاہیے۔ بیوی کا باقاعدہ طبی معائنہ اور علاج کروانا اس کے فرائض میں شامل ہے کیوں کہ پیدا ہونے والے بچے کے تحفظ کی ذمہ داری ماں کے ساتھ ساتھ والد یعنی شوہر پر بھی برابر عائد ہوتی ہے۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَاِنْ کُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْهِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ.
الطلاق، 65: 6
اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں۔
اس آیت مبارکہ میں جنین (embryo) کی حفاظت کا ثبوت ہے اور بیوی کا طبی معائنہ اور علاج کروانے کا مقصد بھی بچے کی حفاظت ہے۔ شوہر دورانِ حمل بیوی کا جس قدر خیال رکھے گا اور وہ شوہر کی توجہ اور محبت پا کر زمانہ حمل اطمینان اور ذہنی سکون کے ساتھ گزارے گی تو نومولود صحت مند اور چست ہوگا۔ کیوں کہ زمانہ حمل بچے اور ماں دونوں کے لیے اہم ہے۔ اس دوران شوہر کا سلوک نہ صرف بیوی بلکہ پیدا ہونے والے بچے کی جسمانی و نفسیاتی صحت پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔
جواب: دورانِ حمل جس طرح بچے کی بہتر جسمانی نشو و نما کے لیے حاملہ کو معمول سے زیادہ خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح نیک اور صالح اولاد کے حصول کے لیے اسے معمول سے زیادہ روحانی غذا کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا اس مقصد کے حصول کے لیے اسے درج ذیل اُمور سر انجام دینے چاہییں۔
1۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خوب شکر ادا کرے اور انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے نیک اور صالح اولاد کی دعا کرے، جیسا کہ ہم نے گزشتہ باب میں بالتفصیل بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر:
رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّـبَةً ج اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِo
آل عمران، 3: 38
میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔
2۔ اسے چاہیے کہ وہ دورانِ حمل با وضو رہے اور نماز کی پابندی کرے۔
3۔ قرآن حکیم کی تلاوت مع ترجمہ عرفان القرآن پڑھنے کا اہتمام کرے۔
4۔ اگر ممکن ہو تو احادیث کی کتب کے مطالعہ کا معمول بھی اپنائے۔ اس کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی کتب المنہاج السوی اور کثیر اَربعینات بہت مفید اور روح کو جلا بخشنے والی ہیں۔
5۔ دیگر مذہبی کتب مثلاً ’سلوک و تصوف کا عملی دستور‘، ’حسنِ سراپائے رسول ﷺ ‘، ’فضائل و خصائص مصطفی ﷺ ‘، ’سیرۃ الرسول ﷺ ‘، ’صالحاتِ اُمت‘، ’تذکرے اور صحبتیں‘، ’حسنِ اَعمال‘، ’حسنِ اَخلاق‘ اور ’توبہ و اِستغفار‘ وغیرہ اپنے مطالعہ میں رکھے۔
6۔ درود شریف اور مختلف اَوراد و وظائف کا معمول رکھے۔ اس کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی کتب ’دلائل البرکات‘، ’الفیوضات المحمدیۃ‘، ’الدعوات القدسیۃ‘، ’الأذکار الإلٰہیۃ‘ بہت مفید ہیں۔
7۔ انبیاء کرام علیہم السلام ، ازواج مطہرات، صحابہ کرام اور صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرتِ مطہرہ کا مطالعہ کرے۔
8۔ روحانی محافل اور علمی و تربیتی نشستوں میں شرکت کرے۔
9۔ رزائلِ اخلاق مثلاً غصہ، جھوٹ، بغض، حسد، غیبت، چغلی، بہتان، تہمت وغیرہ سے کلیتًا اجتناب کرے۔
جواب: دورانِ حمل ماں کا مزاج اور اس پر طاری ہونے والی مثبت اور منفی کیفیات بچے کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ہر انسان کے دماغ سے خوشی، غمی، مایوسی، نفرت، حسد یعنی تمام احساسات کے لیے علیحدہ علیحدہ ارتعاشات اٹھتے ہیں جو جسمانی نظام میں داخل ہو کر مختلف قسم کے ہارمونز پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں اور خون کے ذریعے براهِ راست بچے کے دماغ تک پہنچتے ہیں۔ اس لیے اگر حاملہ جسمانی طور پر صحت مند اور خوش رہتی ہے تو بچے کا دماغ بھی خوشی کے ہارمونز وصول کرتا ہے اور اس کے جسم میں خوشی کے ہارمونز زیادہ ہو جاتے ہیں۔ ایسا بچہ پیدائش کے بعد پراعتماد اور مثبت رجحان کا مالک ہوتا ہے۔ جب کہ اگر حاملہ ہر وقت لڑائی جھگڑا، غصہ اور چھوٹی چھوٹی بات پر بحث و مباحثہ کرتی ہے، تو اس کے جسم میں ان کیفیات کے ہارمونز بڑھ جاتے ہیں جو براهِ راست بچے کے خون میں شامل ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً ایسا بچہ غصہ، نفرت اور حسد جیسی کیفیات لے کر پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ دورانِ حمل ماں اپنا مزاج خوش گوار رکھے اور زہد و تقویٰ پر مبنی طور اَطوار اپنائے۔
جواب: بچوں کو صحت مند بنانا والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری پیدائش سے قبل دورانِ حمل سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔
دورانِ حمل عورت کی خوراک غذائیت سے بھرپور ہونی چاہیے جو بطنِ مادر کے اندر تیزی سے بڑھتے ہوئے بچے کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ماں کی جسمانی ضرورت بھی پوری کرے۔ متوازن غذا میں دودھ، انڈے، گوشت، مرغی، مچھلی، ضروری وٹامنز، موسمی پھل اور سبزیاں، روٹی، دلیہ اور ہر قسم کی دالیں وغیرہ شامل ہیں جو جسم کی تعمیر کے لیے اَز حد ضروری ہیں۔
لہٰذا دوران حمل مندرجہ بالا متوازن غذا کا استعمال بچے کی شخصیت پردرج ذیل مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔
1۔ بچے کی بہتر افزائش میں مدد ملتی ہے۔
2۔ اِسقاطِ حمل کا خطرہ نہیں رہتا۔
3۔ بچہ صحت مند اور تندرست پیدا ہوتا ہے۔
4۔ پیدائش کے وقت اور بعد از پیدائش اموات کی شرح کم ہوتی ہے۔
5۔ بچے کے اَعصاب مضبوط ہوتے ہیں۔
6۔ بطنِ مادر میں بچے کی نشو و نما کا اہم ترین دور حمل کے ابتدائی چار ماہ ہوتے ہیں۔ مرکزی اَعصابی نظام، دماغ اور حرام مغز اِنہی اِبتدائی چند ہفتوں میں بنتے ہیں۔ متوازن غذا کے اِستعمال سے اَعصاب مضبوط ہوتے ہیں۔ بعد ازاں زندگی میں انسان ہائی بلڈ پریشر، انسولین اور کولیسٹرول وغیرہ کے مسائل سے دوچار ہونے سے محفوظ رہتا ہے۔
جواب: دورانِ حمل مضرِ صحت غذا کھانے سے بچے کی شخصیت پر درج ذیل منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں:
1۔ بچے کا وزن کم اور صحت کمزور ہوتی ہے۔
2۔ قبل اَز وقت اِسقاطِ حمل یا مردہ بچوں کی ولادت ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
3۔ کیلشیم اور لحمیات (proteins) کی کمی سے بچے کی ہڈیاں کمزور اور اعصاب غیر صحت مند ہوتے ہیں۔
4۔ دماغی اور ذہنی صلاحیتیں مکمل طور پر بیدار نہیں ہو پاتیں اور بچے ذہنی کمزوری اور اعصابی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
5۔ الکحل یا دوسری منشیات بشمول تمباکو استعمال کرنے سے بچے میں دماغی کمزوری اور جسمانی نقائص پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
6۔ ڈاکٹر کی ہدایات کے بغیر اینٹی بائیوٹکس، وٹامنز، انہیلرز اور دیگر اقسام کی ادویات کا بےجا استعمال حاملہ اور بچے دونوں کے لیے مضر ثابت ہو سکتا ہے۔
7۔ غذائی قلت دورانِ حمل بچوں کے پیدائشی نقائص و اَموات اور وقتِ ولادت ماؤں میں جسمانی پیچیدگیوں کا سبب بنتی ہے۔
جواب: والدین کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ ماں دورانِ حمل رزقِ حلال کھائے کیوں کہ اس کے مثبت اثرات نہ صرف بچے کی جسمانی بلکہ روحانی نشو و نما پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اس کی ترغیب قرآن و حدیث سے بھی ملتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٓاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًا وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّهٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo
البقرة، 2: 168
اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض گذار ہوئے:
یَا رَسُولَ اللهِ، ادْعُ اللهَ أَنْ یَجْعَلَنِي مُسْتَجَابَ الدَّعْوَةِ.
یا رسول اللہ! میرے لیے دعا فرمائیے کہ میں مستجاب الدعوات ہو جاؤں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
یَا سَعْدُ أَطِبْ مَطْعَمَکَ، تَکُنْ مُسْتَجَابَ الدَّعْوَةِ.
طبرانی، المعجم الأوسط، 6: 311، رقم: 6495
ہیثمي، ممجمع الزوائد، 10: 291
اے سعد! اپنا کھانا پاک بنا لو، مستجاب الدعوات ہو جاؤ گے۔
یعنی رزق حلال کھانے سے انسان کی دعائیں قبول ہوجاتی ہیں۔
رحم مادر میں رزقِ حلال پر پرورش پانے والے بچے پر مثبت اثرات کا عکس تا دمِ زیست اس کی شخصیت میں درج ذیل صورتوں میں نظر آتا ہے:
1۔ اَکلِ حلال اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی جنت تک رسائی حاصل کرنے کا راستہ ہے۔
2۔ جب رزقِ حلال انسان کے بطن میں جاتا ہے تو اس سے خیر کے اُمور صادر ہوتے ہیں۔ بھلائیاں پھیلتی ہیں اور وہ نیکیوں کی اشاعت کا سبب بنتا ہے۔
3۔ دل میں نورانیت پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کا شوق بڑھ جاتا ہے۔
4۔ رزقِ حلال دعاؤں کی قبولیت کا سبب بنتا ہے۔
5۔ اَخلاقِ حسنہ مثلاً حلم، شکر، صبر، تقویٰ، تواضع پیدا ہوتے ہیں۔
6۔ آخرت کی فکر دنیا کے غم پر غالب ہو جاتی ہے۔
جواب: بچہ جنین کی صورت میں غذا بطنِ مادر سے حاصل کرتا ہے۔ اس سے اسے جسمانی تقویت کے ساتھ ساتھ روحانی اثرات بھی نصیب ہوتے ہیں۔ اس لیے دورانِ حمل ماں کا رزقِ حرام اور مشتبہ کھانا بچے کے وجود کو پراگندہ اور اس کی روحانی زندگی کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا باعث بنتا ہے۔ رزقِ حرام کی وعید اور منفی اثرات حدیث مبارک سے ملتے ہیں:
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ:
من أکل لقمة من حرام لم تقبل له صلاة أربعین لیلة، ولم یستجب له دعوة أربعین صباحا، وکل لحم ینبته الحرام فالنار أولی به.
ہندی، کنز العمال، 4: 8، رقم: 9266
ابن حجر عسقلانی، لسان المیزان، 4: 444، رقم: 1359
دیلمی، الفردوس بماثور الخطاب، 3: 591، رقم: 5853
بندہ جب اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس روز تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی اور نہ چالیس روز تک اس کا کوئی نیک عمل قبول ہوتا ہے۔ جس شخص کا گوشت حرام مال سے بنا ہو اس کے لائق تو صرف جہنم کی آگ ہی ہے۔
دورانِ حمل ماں کا رزقِ حرام کھانے سے روحانی طور پر بچے کی آئندہ شخصیت پر درج ذیل منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں:
1۔ بچے کی شخصیت میں اَخلاق رزیلہ یعنی جھوٹ، غیبت، تکبر، حسد وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔
2۔ رزقِ حرام دل کی سختی اور تاریکی کا باعث بنتا ہے۔
3۔ شیطان اس کے قلب پر قابض ہو جاتا ہے۔
4۔ نور ایمانی بجھ جاتا ہے۔
5۔ عبادات و دعائیں مقبول نہیں ہوتیں۔
جواب: خوشی کوئی ایسی چیز نہیں جو اَز خود حاصل ہو جائے بلکہ یہ تو حاملہ کا اپنا انتخاب ہے۔ کچھ خاص رویے اور عادات ایسی ہوتی ہیں جو اس کے لیے کبھی خوشی اور کبھی غم کا باعث بنتی ہیں۔ دورانِ حمل عورت درج ذیل طریقوں سے خود کو خوش رکھ سکتی ہے:
1۔ حاملہ کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرے اوراُس کا شکر ادا کرے کیوں کہ شکر ادا کرنا اللہ کی نعمتوں کو مزید بڑھا دیتا ہے، جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ.
ابراهیم، 14: 7
اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا۔
2۔ زندگی میں دکھ، غم اور پریشانیاں ضرور ہوتی ہیں مگر ان کیفیات کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیا جائے۔
3۔ لوگوں کی سخت اور تکلیف دہ باتوں پر بالکل توجہ نہ دے۔
4۔ اپنے اندر دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا کرے کیوں کہ دوسروں کی مدد کرنے والے افراد ایسے عمل سے خوشی محسوس کرتے ہیں اور ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیںکہ کسی ضرورت مند کے کام آ سکیں۔
5۔ ساس اور نند کی زیادتیوں یا شوہر کی ناجائز سختیوں پر واویلا کرنے اور شکوہ و شکایت کی بجائے ان کی مثبت خوبیاں تلاش کرے اور انہیں سراہے۔ سسرالی رویوں پر مایوس ہونے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے خیر کی اُمید رکھے اور اس کے لیے دعا کرے۔
6۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرے اور ہر ایک کے ساتھ مسکراتے ہوئے پیش آئے کیوں کہ مسکراہٹ صدقہ جاریہ ہے۔ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
تَبَسُّمُکَ فِي وَجْهِ أَخِیکَ لَکَ صَدَقَةٌ.
ترمذی، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في صنائع المعروف،
4: 339، رقم: 1956
ابن حبان، الصحیح، 2: 221، رقم: 474
طبرانی، المعجم الأوسط، 8: 183، رقم: 8342
تمہارا اپنے مسلمان بھائی سے مسکرا کر ملنا صدقہ ہے۔
یہ غموں اور پریشانیوں کو دور کرنے اور خود کو خوش رکھنے کا آسان ذریعہ ہے۔
7۔ دورانِ حمل جذبات پر گرفت کمزور پڑنے لگتی ہے جس کی وجہ سے غصہ بھی بڑھتا ہے۔ لہٰذا کوشش کرنی چاہیے کہ ایسی محافل (gathrings)، ٹی وی پروگرامز یا کہانیوں وغیرہ سے پرہیز کیا جائے جن کا موضوع دکھی ہو یا جن سے طبیعت میں غصہ اور چڑچڑا پن پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔
جواب: حمل کے دوران حاملہ کو ہر ماہ معائنہ کروانا چاہیے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر اُسے کم از کم تین الٹراساؤنڈ ضرور کروانے چاہییں۔ ان میں سے پہلا حمل کی تصدیق اور زچگی کی متوقع تاریخ معلوم کرنے کے لیے ہے کہ حمل حقیقت میں کتنے عرصے کا ہے۔ دوسرا الٹراساؤنڈ 20 سے 22 ہفتوں کے بعد ہونا چاہیے جس سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ بچے میں کوئی پیدائشی نقص تو نہیں اور اس کا سر، ہاتھ، پاؤں، ناک اور دوسرے اعضاء ٹھیک طرح سے تشکیل پا چکے ہیں یا نہیں۔ تیسرے الٹراساؤنڈ میں بچے کی پوزیشن اور کچھ دیگر معاملات سے متعلق معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ دورانِ حمل درج ذیل وجوہات کی بناء پر عورت کا طبی معائنہ باقاعدہ بنیادوں پر کروانا ضروری ہے:
1۔ طبی معائنے کے ذریعے اس بات کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ دورانِ حمل ماں کو کن خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے جس پر ڈاکٹر حاملہ عورت کو حفاظتی اقدامات اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس سے ماں اور بچے کے صحت مند ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
2۔ کچھ امراض ایسے ہیں جو ماں کے رحم میں پرورش پاتے بچے پر بہت منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ اگر حاملہ خاتون پہلے سے خون کی کمی، بلند فشارِ خون (hi رضی اللہ عنہ h blood pressure)، دل کی بیماری، تپ دق، ذیابیطس وغیرہ کی مریضہ ہو تو یہ بیماریاں حمل کے لیے شدید نقصان دہ ہوسکتی ہیں۔ لہٰذا طبی معائنہ کے ذریعے انہیں دریافت کر کے ان کا بروقت علاج اور احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔
3۔ بچے کی پوزیشن معلوم ہو سکے تاکہ زچگی کے دوران ہونے والے مسائل پر قبل از وقت قابو پایا جاسکے۔
4۔ بچے کی نشو و نما کااندازہ لگایا جاسکے اوراسے مزید بہتر بنایا جاسکے۔
5۔ حاملہ کو درپیش مسئلہ کی صورت میں بچے کی حفاظت کا انتظام ممکن ہو سکے۔
6۔ پیدائش کے وقت بچوں کی ہونے والی اموات کی شرح کو کم سے کم کیا جا سکے۔
7۔ دوران حمل طبی معائنہ نہ کروانے کی صورت میں پیدائش کے وقت ماں اور بچے کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
جواب: دورانِ حمل عورت کی تھوڑی سی اِحتیاط سے بچہ صحت مند، خوبصورت اور نیک ہو سکتا ہے جب کہ ذرا سی غفلت اور لاپرواہی ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ لہٰذا دورانِ حمل اسے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دورانِ حمل عورت درج ذیل طریقوں سے اپنے بچے کی سلامتی کا خیال رکھ سکتی ہے:
1۔ ضرورت سے زیادہ کام کرنے اور وزن اُٹھانے سے گریز کرے۔
2۔ سیڑھیاں نارمل انداز میں چڑھے اور اُترے۔
3۔ اپنی خوراک کا خیال رکھے اور خوش رہنے کی کوشش کرے۔
4۔ مصائب و آلام میں پریشان ہونے کی بجائے صبر سے کام لے۔
5۔ ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹر یا لیڈی ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر کوئی دوا استعمال نہ کرے۔
جواب: بچوں کی پیدائش میں وقفہ درج ذیل وجوہات کی بناء پر ضروری ہے:
1۔ ماں کی صحت پہلے حمل اور زچگی کے اثرات سے بحال ہو جائے۔
2۔ ماں اور بچے کے درمیان ایک ربط اور تعلق (mother child relationship) پیدا ہو چکا ہو۔
3۔ بچہ اپنے آپ کو کسی حد تک سنبھالنے کا اہل ہونے کے بعد ماں سے قدرے آزاد ہو چکا ہو۔
جواب: فیملی پلاننگ اور اسقاطِ حمل کو بعض اوقات خلط ملط کر دیا جاتا ہے حالاں کہ ان دونوں میں نمایاں فرق ہے۔ فیملی پلاننگ سے مراد بچوں میں مناسب وقفہ کے لیے ایسے طریقے اختیار کرنا ہے جن سے حمل نہ ٹھہرے۔ جب کہ اِسقاطِ حمل کا مطلب ہے کہ حمل ٹھہر جانے کے بعد اسے دانستہ ضائع کر دیا جائے۔
جواب: حمل میں روح پھونکے جانے (یعنی اِستقرارِ حمل کے 120 دن گزر جانے) کے بعد اِسقاطِ حمل حرام ہے۔ روح پھونکے جانے کے بعد بچے کو ضائع کرنا زندہ شخص کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ ایسے اِسقاط کا سبب بننے والے شخص پر غرہ لازم آئے گا خواہ وہ والدین ہی کیوں نہ ہوں۔ غرّہ اس دیت کا نام ہے جو جنین (unborn child) کے قاتل پر واجب ہوتی ہے۔ اَحناف کے نزدیک دیت کی مقدار درہموں میں دس ہزار ہے، لہٰذا جنین کی دیت اس کے عشرہ کا نصف یعنی 500 درہم ہوگی۔
اِسقاطِ حمل کے حرام ہونے کی دلیل قرآنِ حکیم سے ثابت ہے:
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللهُ اِلاَّ بِالْحَقِّ.
بنی اسرائیل، 17: 33
اور تم کسی جان کو قتل مت کرنا جسے (قتل کرنا) اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں:
قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ۔ قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: الشِّرْکُ بِاللهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ، وَأَکْلُ الرِّبَا، وَالتَّوَلِّي یَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ الْمُحْصِنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ.
مسلم، الصحیح، کتاب الایمان، باب بیان الکبائر وأکبرھا، 1: 92، رقم: 89
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! وہ کون سے سات گناہ ہیں؟ فرمایا: کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنانا، جادو کرنا، ناحق قتل کرنا، یتیم کا مال کھانا، سود کھانا، جہاد سے بھاگنا اور پاک دامن عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگانا۔
لہٰذا اِستقرارِ حمل کے بعد اس کا اِسقاط گناهِ کبیرہ اور قتل کے مترادف ہے۔ اس سے کلی اجتناب ضروری ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved