جواب: نکاح کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ عاقل و بالغ لڑکے اور لڑکی کی رضامندی سے گواہان کی موجودگی میں نکاح سر انجام دیا جائے کیوں کہ ازدواجی بندھن میں جہاں مرد کی ذاتی رائے اور پسند و ناپسند شامل ہوتی ہے وہیں اسلام نے عورت کو بھی اپنی پسند سے نکاح کرنے کا حق دیا ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کی شادی نہ کی جائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا تُنْکَحُ الْأَیِّمُ حَتّٰی تُسْتَأْمَرَ، وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتّٰی تُسْتَأْذَنَ. قَالُوا: یَا رَسُوْلَ اللهِ! وَکَیْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: أَنْ تَسْکُتَ.
بخاري، الصحیح، کتاب النکاح، باب لا ینکح الأب وغیرہ البکر
والثیب إلا برضاھا، 5: 1974، رقم: 4843
مسلم، الصحیح، کتاب النکاح، باب استئذان الثیب في النکاح بالنطق والبکر بالسکوت، 2:
1036، رقم: 1419
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی (بالغہ) کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کنواری کی اجازت کیسے معلو م ہوتی ہے؟ فرمایا: اُس کا خاموش رہنا (اجازت ہے)۔
شریعت کے مقرر کردہ اُصول و ضوابط کے مطابق یتیم لڑکی یا مطلقہ عورت کو بھی نکاح کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
1۔ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ.
البقرة، 2: 232
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہوجائیں تو انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔
2۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے: ـ
وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًاج فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ط وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo
البقرة، 2: 234
اور تم میں سے جو فوت ہوجائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میںکوئی مواخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح خبردار ہے۔
اسی طرح سورۃ النور میں بھی ارشاد ہوتا ہے:
وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ.
النور، 24: 32
اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کا نکاح کر دیا کرو جو بغیر ازدواجی زندگی کے (رہ رہے) ہوں۔
جواب: اگر کوئی خاص رکاوٹ نہیں ہے تو والدین کو اپنی اولاد - بیٹاہو یا بیٹی - کی شادی بالغ ہو جانے کے بعد جلد کر دینی چاہیے۔ جیسا کہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ وُلِدَ لَهٗ وَلَدٌ فَلْیُحْسِنِ إِسْمُهٗ وَأَدِّبْهُ، فَإِذَا بَلَغَ فَلْیُزَوِّجْهُ، فَإِنْ بَلَغَ وَلَمْ یُزَوِّجْهُ فَأَصَابَ إِثْمًا فَإِنّمَا إِثْمُهٗ عَلٰی أَبِیْهِ.
بیهقی، شعب الایمان، 6: 401، رقم: 8666
خطیب تبریزی، مشکاة المصابیح، 2: 939، رقم: 3138
دمیاطی، إعانة الطالبین، 3: 254
جس کے ہاں کوئی اولاد ہو تو اُسے چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اسے آداب سکھائے۔ پھر جب وہ بالغ ہوجائے تو اس کا نکاح کر دے۔ اگر اولاد بالغ ہوئی اور اُس نے اس کا نکاح نہ کیا جس کی وجہ سے اس نے کوئی گناہ کر لیا تو باپ ہی پر اُس کا گناہ ہو گا۔
مندرجہ بالا حدیث مبارک سے پتہ چلتا ہے کہ اولاد کا اچھا نام رکھنا، انہیں آداب سکھانا اور بروقت شادی کر دینا اولاد کے حقوق اور والدین کے فرائض میں سے ہے۔
جواب: اِنتخابِ زوج کے لیے معیار یہ ہونا چاہیے کہ مرد دین دار، بااخلاق، وسیع النظر اور اہلِ خانہ کو نیکی کی رغبت دلانے والا، رزقِ حلال کمانے والا اور اپنے خاندان (بیوی اور بچوں) کی کفالت کا اہل ہو۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
یَا مَعْشَر الشَّبَابِ! مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَائَةَ فَلْیَتَزَوَّجْ. فَإِنَّهٗ اَغَضُّ لِلبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ. وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْهِ بِالصَّوْمِ. فَإِنَّهٗ لَهٗ وِجَاءٌ.
مسلم، الصحیح، کتاب النکاح، باب استحباب النکاح لمن تافت نفسه إلیه، 2: 1019، رقم: 1400
اے جوانو! تم میں سے جو شخص گھر بسانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے کیوں کہ نکاح سے نظر نہیں بہکتی اور شرم گاہ محفوظ رہتی ہے، اور جو شخص نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے کیوں کہ روزے اس کی شہوت کو کم کر دیتے ہیں۔
علاوہ ازیں مرد کو حلیم الطبع، بہادر، خوش خلق، عورت سے بھلائی کرنے والا، اچھے کاموں سے محبت کرنے والا خصوصاً بیوی کے اچھے کاموں پر دل کھول کر داد دینے والا، احسان کرنے والا، ظلم و تشدد سے پرہیز کرنے والا اور معاملاتِ زندگی میں بہترین منظم اور معاشی لحاظ سے خود کفیل ہونا چاہیے۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اتَّقُوا اللهَ فِي النِّسَاءِ، فَإِنَّکُمْ أَخَذْتُمُوْهُنَّ بِأَمَانِ اللهِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوْجَهُنَّ بِکَلِمَةِ اللهِ … وَلَهُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُهُنَّ وَکِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ.
مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب حجۃ النبي ﷺ، 2: 890، رقم: 1218
أبو داؤد، السنن، کتاب المناسک، باب صفة حج النبي ﷺ، 2: 185، رقم: 1905
ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب حجة رسول اللہ ﷺ، 2: 1025، رقم: 3074
ابن حبان، الصحیح، 9: 257، رقم: 3944
لوگو! تم عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، کیوں کہ تم نے ان کو اللہ تعالیٰ کی اَمان میں لیا ہے، سو تم نے اللہ تعالیٰ کے کلمہ (نکاح) سے ان کی شرم گاہوں کو اپنے اوپر حلال کیا ہے۔ … تم پر اُن کا یہ حق ہے کہ تم اپنی حیثیت کے مطابق اُن کو اچھی خوراک اور اچھا لباس فراہم کیا کرو۔
جواب: شوہر کی طرح زوجہ کے انتخاب کے لیے بھی ضروری ہے کہ عورت نیک، بااخلاق، صالح اور دینی شعور و آگہی رکھنے والی ہو تاکہ دینی اقدار کا تحفظ آئندہ نسلوں میں منتقل کرنا ممکن ہو سکے۔
1۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْمَرْأَةَ تُنْکَحُ عَلٰی دِیْنِهَا وَمَالِهَا وَجَمَالِهَا، فَعَلَیْکَ بِذَاتِ الدِّیْنِ.
ترمذی، السنن، کتاب النکاح، باب ما جاء أن المرأة تنکح علی ثلاث خصال، 2: 396، رقم: 1086
عورت سے اس کے دین، مال اور جمال کی بناء پر نکاح کیا جاتا ہے۔ لیکن تم دین دار عورت سے نکاح کرنے کو ترجیح دینا۔
2۔ ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
تُنْکَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِیْنِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّینِ.
بخاری، الصحیح، کتاب النکاح، باب الأکفاء في الدین، 5: 1958، رقم: 4802
عورت سے چار باتوں کے سبب نکاح کیا جاتا ہے: (1) اس کے مال کی وجہ سے، (2) اس کے نسب کی وجہ سے، (3) اس کے حسن کی وجہ سے اور (4) اس کے دین کی وجہ سے۔ لیکن تجھے چاہیے کہ تو دین دار عورت کو حاصل کرے۔
دین دار سے مراد ہے کہ دین پر قائم رہنے والی اور دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والی عورت جو ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ دینِ اسلام کی سب سے بڑی خوبی حسنِ اخلاق ہے۔ چنانچہ عورت کے حسن سے مراد صرف ظاہری حسن و خوب صورتی نہیں بلکہ حسنِ اخلاق، حسنِ کردار اورحسنِ گفتار بھی ہے۔
جواب: اِنتخابِ زوجین میں والد کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے کیوں کہ وہ گھر کا سربراہ اور اپنے خاندان کا معاشی کفیل بھی ہوتا ہے اور ان کی بہترین تربیت بھی اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ وہ اپنے اہل و عیال کی تربیت و پرورش کے بارے میں روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جواب دہ ہوگا، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضورنبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
اَلرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِہٖ، وهُوَ مَسْئُووْلٌ عَنْ رَعِیَّتِهٖ.
بخاری، الصحیح، کتاب الجمعة، باب الجمعة في القری والمدن، 1: 304، رقم: 853
آدمی اپنے اہل و عیال کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت (یعنی اہل و عیال اور زیر کفالت افراد) سے متعلق سوال کیا جائے گا۔
لہٰذا والد کو چاہیے کہ وہ اپنی فہم و فراست، عمر بھر کے ذاتی تجربہ اور اپنی اولاد کی قابلیت و اہلیت اور طبعی میلانات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے بیٹے یا بیٹی کے رشتے کے انتخاب میں دل چسپی لے۔ عام طور پر مرد اس قسم کے معاملات کو کلیتاً خواتین کے سپرد کر دیتے ہیں اور شادی کے لیے صرف مالی انتظام و انصرام کو ہی اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں جبکہ دینِ اسلام اولاد کے لیے بہترین رشتے کے انتخاب میں ماں اور باپ دونوں پر یکساں ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ اس لیے والد کو چاہیے کہ اولاد کے لیے شریکِ حیات کا انتخاب باہمی مشاورت سے کرے۔ ایسا رشتہ منتخب کرے جو نیک سیرت، مہذب، بااخلاق اور شریعت اسلامی کا پابند ہو۔ داماد کے لیے ایسے فرد کا چناؤ کرے جو عورت کا احترام کرنے والا، احسان کرنے والا، اسلامی شعار کو اپنانے والا اور معاشی لحاظ سے خود کفیل ہو اور بہو کے لیے ایسی لڑکی کا انتخاب کرے جو شرم و حیا کی پیکر، اسلامی تعلیمات کی روح کو سمجھنے والی، نیک سیرت اور اچھے نسب کی مالک ہو۔
جواب: اِنتخابِ زوجین میں والدہ کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے، کیوں کہ یہ بدیہی اَمر ہے کہ اولاد کا باپ کے مقابلہ میں ماں سے تعلق عام طور پر زیادہ گہرا اور شدید ہوتا ہے۔ اسی تعلق کی بناء پر مرد کے مقابلے میں زیادہ تر ماں یا بہن ہی اِنتخابِ ِزوجین میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ آج کل کی مائیں داماد میں دین داری، حسنِ خلق اور کردار دیکھنے کی بجائے مال و دولت اور دنیا کی بڑائی دیکھتی ہیں۔ یہ نہیں سوچتیں کہ اگر لڑکے میں دین داری نہیں ہے تو وہ لڑکی کو بھی دین پر چلنے نہیں دے گا، بے پردگی کو اہمیت دی جائے گی کیوں کہ بیٹی جس گھر میں جا رہی ہے وہاں تو فرائض ترک ہوں گے۔ اس طرح دین کو پس پشت ڈال کر مال و دولت، کوٹھی، بنگلہ کو ترجیح دینے سے دنیا تو شاید آرام سے گزر جائے مگر آخرت برباد ہو جائے گی۔ اسی طرح مائیں بہو کے انتخاب میں بھی حد درجہ خوب صورتی اور مال و دولت کو دیکھتی ہیں اور دین کی پرواہ نہیں کرتیں جس کے نتیجہ میں اکثر بہو کے آتے ہی گھر کا سکون تباہ ہو جاتا ہے۔ چونکہ ماں ہی وہ عظیم ہستی ہے جو اپنے بچوں کی نفسیات، پسند و ناپسند، قابلیت و اہلیت اور طبعی میلانات کا زیادہ علم رکھتی ہے۔ لہٰذا ہر ماں کو اپنے لیے داماد یا بہو کے انتخاب میں اولاد کی خواہش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہر اس پہلو کا خیال رکھنا چاہیے جو ایک اچھے اور مثالی خاندان کو جنم دے سکے۔
جواب: زوجین کے غلط انتخاب سے گھریلو سطح پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اِنسانی زندگی میں اِنتخابِ زوجین جس قدر اَہمیت کا حامل ہے شاید ہی کوئی اور پہلو اس قدر اہم ہو کیوں کہ یہ سب سے زیادہ انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ انتخاب اچھا ہو تو اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بے شمار فوائد و ثمرات حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن انتخاب غلط ہو تو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور گھروں میں فساد اور لڑائی جھگڑے جنم لیتے ہیں۔ نتیجتاً ازدواجی زندگی پیچیدہ اور مسائل سے دوچار ہو جاتی ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں ہمیں اپنے معاشرے میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ آئے روز مختلف النوع خبریں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پڑھنے، سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں، جن کی بنیادی وجہ غلط انتخابِ زوجین ہوتا ہے اور اولاد کی ازدواجی زندگی میں مسائل اور پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔
علاوہ ازیں گھریلو سطح پر جو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
1۔ زوجین کے درمیان جذبہ محبت و مودّت پیدا نہیں ہو پاتا جو اس رشتے کے استحکام کا ذریعہ ہے۔
2۔ گھروں کا آرام و سکون اور راحت تباہ ہو جاتی ہے۔
3۔ ہر روز نئے فسادات اور لڑائی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔
4۔ بچے ذہنی انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔
5۔ بچوں کی تعلیم و تربیت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
6۔ بعض دفعہ حالات کی پیچیدگیوں کی وجہ سے نوبت علیحدگی تک آجاتی ہے۔
7۔ دو خاندانوں میں دشمنی پیدا ہو جاتی ہے۔
8۔ گھروں میں اسلامی ماحول پیدا نہیں ہو سکتا اور ازدواجی زندگی کے متعلق اسلام کا جو فلسفہ ہے وہ ختم ہو جاتا ہے۔
9۔ زیادہ تر لڑائی جھگڑوں میں خواتین تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔
الغرض ان گنت ایسی قباحتیں ہیں جو غلط انتخابِ زوجین کی وجہ سے پیش آتی ہیں اور گھریلو زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اس سے نہ صرف خاندان تباہ و برباد ہوتا ہے بلکہ معاشرہ بھی ترقی کی راہ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔
جواب: نکاح کا مقصد انسان کے لیے آرام و سکون کا ایک مستقل ذریعہ فراہم کرنا ہے تاکہ اس کے نتیجے میں ایک ایسے خاندان کی بنیاد رکھی جائے جس میں باہمی مودت، قلبی محبت، جذباتی ہم آہنگی اور یک جہتی ہو۔
نکاح کا عمل صرف اسی صورت میں راحت و سکون کا باعث بن سکتا ہے جب انتخابِ زوجین کا عمل اسلامی تعلیمات کے مطابق درست کیا جائے۔ غلط انتخاب زوجین کے نفسیاتی و معاشرتی سطح پر بے شمار نقصانات جنم لیتے ہیں جن کا شکار بالخصوص نئی نسل ہوتی ہے۔ ایسے ماحول میں پرورش پانے والے بچے احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں، ان کی قوتِ فیصلہ ختم ہوجاتی ہے اور وہ خود اعتمادی کی دولت سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ حتی کہ والدین سے بھی اپنی ضروریات کا تذکرہ نہیں کر پاتے۔ ان کی طبیعتوں میں اس قدر چڑچڑا پن آجاتا ہے کہ وہ بات بات پر بگڑ جاتے ہیں، کسی مثبت کام میں بھی کسی کی مدد لینا اور نصیحت قبول کرنا گوارا نہیں کرتے۔ ایسے بچے زندگی کے میدان میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں، ان کے اندر ہر وقت جذباتی کشمکش رہتی ہے۔ ان کی ذہنی سطح اِس قدر مفلوج ہو جاتی ہے کہ ذہن نشوو نما نہیں پاسکتا اور وہ تعلیم، کھیل الغرض زندگی کے ہر میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایسے بچے اپنے دین سے بھی دور ہو جاتے ہیں اور نفسیاتی مسائل کا شکار یہی بچے بڑے ہو کر معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ تعمیری کاموں کی بجائے تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ سگریٹ نوشی، نشہ بازی، جھوٹ، فریب، ڈاکہ زنی حتیٰ کہ قتل و غارت گری کی عادات میں بھی گرفتار ہو جاتے ہیں۔ الغرض اس قسم کے افراد معاشرے میں بے شمار اخلاقی برائیوں کا سبب بنتے ہیں اور معاشرتی ترقی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انتخابِ زوجین کے وقت اسلامی تعلیمات کو مدِ نظر رکھا جائے۔
جواب: خاندان کی تعمیر میں زوجین کی ہم آہنگی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک مکمل معاشرے کے قیام کا آغاز گھر سے ہوتا ہے جو خاندان سے تشکیل پاتا ہے۔ خاندان کی تعمیر و اِستحکام زوجین کے مابین محبت و مودت، اُلفت و رحمت اور ایثار بھرے تعلق سے وجود میں آتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَمِنْ اٰیٰـتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَo
الروم، 30: 21
اور یہ (بھی) اس کی نشانیوںمیں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بے شک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔
باہمی ہم آہنگی سے رشتہ داروں، دوستوں اور دیگر افراد کی ازدواجی زندگی میں مداخلت کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اور میاں بیوی اپنے تنازعات اور اختلافات کو خود تک محدود رکھتے ہوئے خود ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں ایک دوسرے کو تنقید و مذمت کا نشانہ بنائے بغیر مسائل حل ہو جاتے ہیںاور محبت و چاہت، سکون اور طمانیت کے باعث ازدواجی زندگی مزید خوبصورت اور شاندار ہو جاتی ہے۔ معاشی مسائل اور اُمور کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔اس طرح وہ اپنی معاشی ضروریات اور صورت حال سے آگاہ رہتے ہوئے دوسروں کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچ جاتے ہیں۔
خاندان کی تعمیر و اِستحکام کے لیے میاں بیوی دونوں قربانیاں دیتے ہیں مگر ان قربانیوں کی صورتیں جداگانہ اور نوعیت مختلف ہوتی ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے کام کی تعریف و توصیف کرتے ہیں اور اسے سراہتے ہیں جس سے نہ صرف ازدواجی زندگی میں محبت بڑھتی ہے بلکہ خاندان کی بنیادیں بھی مستحکم ہوتی ہیں۔
جواب: زوجین کو درپیش گھریلو مسائل معاملہ فہمی اور نہایت سمجھ داری کے ساتھ قرآن و حدیث اور اسوۂ حسنہ کی روشنی میں حل کرنے چاہییں۔ ذیل میں کچھ طریقے دیے جا رہے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر زوجین کو گھریلو مسائل حل کرنے میں کافی حد تک معاونت مل سکتی ہے:
1۔ کئی معاملات معمولی قسم کے ہوتے ہیں لیکن زوجین کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے سنگین ہو جاتے ہیں۔ اِس سے گھر کا سکون تباہ ہو جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر انہیں ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھ کر باہمی حسن و سلوک اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیوں کہ انسان کے اچھے سلوک کے سب سے پہلے حق دار اس کے گھر والے ہوتے ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ مِنْ أَکْمَلِ الْمُؤْمِنِینَ إِیمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَأَلْطَفُهُمْ بِأَهْلِهٖ.
أحمد بن حنبل، المسند، 6: 47، الرقم: 24250،
ترمذي، السنن، کتاب الإیمان، باب ما جاء في استکمال الإیمان وزیادته ونقصانه، 5: 9،
الرقم: 2612،
نسائي، السنن الکبری، 5: 364، الرقم: 9154
حاکم، المستدرک، 1: 119، الرقم: 173
مؤمنوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان والے لوگ وہ ہیں جن کے اَخلاق سب سے اچھے ہیں اور وہ اپنے گھر والوں سے سب سے زیادہ نرمی و شفقت سے پیش آتے ہیں۔
2۔ ایک دوسرے کے جذبات و اِحساسات کا بھرپور خیال رکھنا چاہیے۔ بسااوقات شوہر زندگی میں مختلف مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے؛ مثلاً مالی حالات خراب ہونا، روزگار کے حوالے سے پریشانی یا کسی رشتے دار سے اَن بن ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کا ساتھ دے، اس کی غم گُساری کرے اور گھریلو اخراجات کے حوالے سے شکوہ و شکایت کی بجائے صبر و تحمل اور برداشت سے کام لے۔اِسی طرح اگر بیوی کو کسی قسم کے ناموافق حالات کا سامنا کرنا پڑے تو شوہر پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی ڈھارس بندھائے اور ہر ممکن طریقے سے اسے خوش رکھے۔ایسے حالات میں حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کی زندگی زوجین کے لیے بہترین اسوئہ حسنہ ہے۔
3۔ زوجین کو ایک دوسرے کے والدین اور رِشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہیے۔ والدین کی خدمت اور عزت لگن سے کریں۔ ان کی دل جوئی کریں اور ان سے نرمی سے بات کریں کیوں کہ اسلام میں ہر عمر رسیدہ اور معذور کے تندرست اور جوان پر حقوق ہیں۔ اس پر بے شمار احادیث شاہد و عادل ہیں۔ جس نے جوانی میں بوڑھوں کی عزت کی، بڑھاپے میں جوان اس کی عزت کریں گے۔ اس خدمت و احترام یا نگرانی کا احسان ایک دوسرے پر نہ جتائیں بلکہ خالصتاً اللہ کی رضا اور خوش نودی کے لیے یہ سب کچھ کریں۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی.
البقرة، 2: 264
اے ایمان والو! اپنے صدقات (بعد ازاں) احسان جتا کر اور دُکھ دے کر برباد نہ کر لیا کرو۔
4۔ گھریلو مسائل میں سے ایک مسئلہ بچوں کو بھرپور توجہ اور تربیت نہ دینے کا ہے۔ وقت کی کمی، دفتری مصروفیات اور الیکٹرانک میڈیا کی بہتات نے والدین اور اولاد میں رابطے اور تربیت کا فقدان پیدا کر دیا ہے جس کا قصور وار زوجین ایک دوسرے کو ٹھہراتے ہیں۔ جب کہ ذمہ داری دونوں پر یکساں عائد ہوتی ہے۔ اس کی عمدہ مثال حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ سے بھی ملتی ہے۔ جب آپ ﷺ نے تبلیغ دین کا آغاز کیا تو اس عظیم فرض کی ادائیگی میں بھی اپنی دو تین سالہ کمسن اور معصوم صاحبزادی سیدہ فاطمہ علیہ السلام کو نظر انداز نہیںکیا اور تربیتی نقطہ نگاہ سے انہیں اپنے ہمراہ رکھا۔ اس لیے والدین کو بھی اُسوئہ رسول ﷺ کی روشنی میں بچوںکی تعلیم و تربیت سے غفلت نہیں برتنی چاہیے اور اوائل عمر سے ہی بچوں کے بہترین مستقبل کے لیے پلاننگ کرنی چاہیے تاکہ زندگی کے کسی موڑ پر کوئی مشکل درپیش ہو تو جرات و ہمت کے ساتھ اس کا سامنا کرکے اس سے نبرد آزما ہوتے ہوئے پریشانی سے بچا جاسکے۔
جواب: شوہر گھر کا سربراہ ہوتا ہے۔ گھریلو زندگی کو خوش گوار اور متوازن رکھنے کے لیے درج ذیل خصوصیات کا حامل شخص بہترین شوہر کہلاتا ہے:
اَہل و عیال کے کھانے پینے، لباس اور رہائش کا خرچ اٹھانے والا ہو۔ اسلام میں مرد کو قوّام اور کما کر خرچ کرنے والا کہا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ.
النساء، 4: 34
مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں۔
بیوی کی کفالت میں اس کی سکونت، خوراک اور لباس وغیرہ کی فراہمی شامل ہے۔ حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بارگاهِ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے کسی پر اس کی بیوی کا کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ، وَتَکْسُوْهَا إِذَا اکْتَسَبْتَ أَوِ اکْتَسَبْتَ، وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحْ، وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَیْتِ.
أحمد بن حنبل، المسند، 4: 447، رقم: 20027
أحمد بن حنبل، المسند، 5: 3، رقم: 20036
أبو داؤد، السنن، کتاب النکاح، باب في حق المرأۃ علی زوجہا، 2: 244، رقم: 2142
نسائي، السنن الکبری، 5: 373، رقم: 9171
عبد الرزاق، المصنف، 7: 148، رقم: 12583
طبراني، المعجم الکبیر، 19: 427، رقم: 1038
جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، جب تم خود پہنو یا کماؤ تو اسے بھی پہناؤ، اس کے منہ پر نہ مارو، اُسے برے لفظ نہ بولو (یعنی برے ناموں سے نہ پکارو اور گالم گلوچ نہ کرو) اور (اگر کبھی انتہائی ناگزیر ہو تو) اسے (تادیباً) خود سے عارضی طور پر الگ نہ کرو مگر گھر کے اندر ہی۔
شوہرکی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ بیوی پر ظلم و زیادتی کرنے والا اور مارنے پیٹنے والا نہ ہو بلکہ اس کا رویہ بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک اور انتہائی اچھے اَخلاق پر مبنی ہو۔ ایسے شخص کو حدیث مبارک میں بہترین شخص کہا گیا ہے۔
1۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَهْلِہٖ، وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَهْلِي.
ترمذي، السنن،کتاب المناقب، باب فضل أزواج النبي ﷺ، 5: 709،
رقم: 3895
ابن ماجہ، السنن، کتاب النکاح، باب حسن معاشرۃ النساء، 1: 636، رقم: 1977
ابن حبان، الصحیح، 9: 484، رقم: 4177
تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔
2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ إِیْمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا، وَخِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِکُمْ.
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 472، رقم: 10110
ترمذی، السنن، کتاب الرضاع، باب ما جاء في حق المرأۃ علی زوجھا، 3: 466، رقم: 1162
دارمي، السنن، 2: 415، رقم: 2792
حاکم، المستدرک، 1: 43، رقم: 2
اَہلِ ایمان میں سے کامل تر مؤمن وہ ہے جو اُن میں سے بہترین اَخلاق کا مالک ہے اور تم میں سے بہترین وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے لیے (اخلاق اور برتاؤ میں) بہترین ہیں۔
3۔ ایک روایت میں اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ ﷺ امْرَأَةً لَهٗ وَلَا خَادِمًا قَطُّ، وَلَا ضَرَبَ بِیَدِہٖ شَیْئًا قَطُّ.
نسائي، السنن الکبری، کتاب عشرة النساء، باب ضرب الرجل لزوجته،
5: 371، رقم: 9165
ابن ماجه، السنن، کتاب النکاح، باب ضرب النساء، 1: 638، رقم: 1984
رسول اللہ ﷺ نے کبھی نہ اپنی کسی زوجہ کو مارا اور نہ ہی کسی خادم کو اور آپ ﷺ نے کبھی اپنے دستِ مبارک سے کسی کو ضرب تک نہیں لگائی۔
اچھا شوہر وہ ہے جو بیوی کے حقوق کی پاس داری کرنے والا ہو۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے ارشادات گرامی سے یہی رہنمائی ملتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضرہو کر عرض گزار ہوا: یارسول اللہ! میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ لیاگیا ہے مگر میری بیوی حج کرنا چاہتی ہے (میرے لیے کیاحکم ہے)؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
ارْجِعْ. فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِکَ.
بخاری، الصحیح، کتاب الجہاد والسیر، باب کتابۃ الإمام الناس،
3: 1114، رقم: 2896
مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب سفر المرأۃ مع محرم إلی حج وغیرہ، 2: 978، رقم: 1341
تم واپس چلے جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو (کہ اُس کا بھی تم پر حق واجب ہے)۔
بہترین شوہر وہ ہے جو گھریلو اُمور میں بیوی کی معاونت کرے اور اس کا ہاتھ بٹائے۔ ایسا کرنا حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت مطہرہ سے ثابت ہے۔ حضرت اَسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: حضور نبی اکرم ﷺ اپنے کاشانۂ اقدس میں کیا کام کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا:
کَانَ یَکُوْنُ فِي مِهْنَةِ أَهْلِہٖ، تَعْنِي خِدْمَةَ أَهْلِہٖ، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاةِ.
بخاري، الصحیح،کتاب الأذان، باب من کان في حاجۃ أھلہ فأقیمت
الصلاۃ فخرج، 1: 239، رقم: 644
بخاری، الصحیح، کتاب النفقات، باب خدمۃ الرجل في أھلہ، 5: 2052، رقم: 5048
أحمد بن حنبل، المسند، 6: 49،رقم: 24272
ترمذي، السنن،کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب: (45) منہ، 4: 654، رقم: 2489
آپ ﷺ اپنے اہلِ خانہ کے کاموں میں معاونت میں مشغول رہتے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔
اچھا شوہر وہ ہے جو بیوی کی کوتاہیوں اور خامیوں سے صرفِ نظر اور اس کی پردہ پوشی کرنے والا ہو۔ قرآن حکیم نے عورت اور مرد کے تعلقات کو ایک نہایت لطیف مثال کے ذریعے یوں بیان کیا ہے:
ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ.
البقرۃ، 2: 187
وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو۔
جیسے لباس کا کام ستر ڈھانپنا اور جسمانی عیوب کو چھپانا ہوتا ہے، اسی طرح میاں بیوی ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرتے اور ایک دوسرے کی خامیوں سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔
جواب: جی ہاں! اہم امور میں شوہر کو اپنی بیوی سے مشاورت ضرور کرنی چاہیے۔ اس سے زوجین میں باہمی محبت اور اعتماد کی فضاء قائم ہوتی ہے۔حضور نبی اکرم ﷺ کے اُسوئہ حسنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ہمیشہ اَہم معاملات میں اپنی اَزواجِ مطہرات سے مشاورت کیا کرتے تھے۔
1۔ آغازِ نبوت میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا کردار اس کی واضح نظیر ہے۔ جب پہلی وحی کا نزول ہوا اور آپ ﷺ غارِ حراء سے اپنی قیام گاہ تشریف لائے تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا:
کَـلَّا، وَاللهِ، مَا یُخْزِیْکَ اللهُ أَبَدًا، إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ، وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ، وَتُعِیْنُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ.
بخاری، الصحیح، کتاب بدء الوحي، باب کیف کان بدء الوحي۔ ۔۔،
1: 4، رقم: 3
مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب بدء الوحي إلی رسول اللہ ﷺ، 1: 141، رقم: 160
بخدا! ہر گز نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رُسوا نہیں کرے گا کیوں کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیںاور راهِ حق میں پیش آمدہ مصائب و آلام (کو خندہ پیشانی سے) برداشت کرتے ہیں۔
2۔ اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کفارِ مکہ سے معاہدہ کے بعد ظاہری صورتِ حال کے پیش نظر مغموم تھے۔ آپ ﷺ نے بغیر عمرہ کیے جب انہیں قربانی کرنے اور بال کٹوانے کا حکم فرمایا تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی بھی کھڑا نہ ہوا۔ اس پر آپ ﷺ اپنی قیام گاہ میں حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے۔ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کو مشورہ دیتے ہوئے عرض کیا:
یَا نَبِیَّ اللهِ، أَتُحِبُّ ذٰلِکَ، اخْرُجْ ثُمَّ لَا تُکَلِّمْ أَحَدًا مِنْهُمْ کَلِمَةً، حَتّٰی تَنْحَرَ بُدْنَکَ، وَتَدْعُوَ حَالِقَکَ فَیَحْلِقَکَ.
بخاری، الصحیح، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد، والمصالحۃ
مع اہل الحرب، وکتابۃ الشروط، 2: 978، رقم: 2581
ابن حبان، الصحیح، 11: 225، رقم: 4872
عبد الرزاق، المصنف، 5: 340، رقم: 9720
طبری، تاریخ الامم و الملوک، 2: 637
اے اللہ کے نبی! کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ آپ ﷺ کے حسبِ حکم قربانی کریں اور سرمنڈوائیں؟ (تو پھر) آپ ﷺ ان کی طرف تشریف لے جائیں اور ان میں سے کسی سے بھی گفتگو نہ کریں بلکہ اپنی قربانی کا جانور ذبح فرمائیں اور حجام کو بلائیں تاکہ وہ آپ ﷺ کے بال کاٹے۔
اس پر آپ ﷺ باہر تشریف لے گئے اور آپ ﷺ نے کسی سے کلام نہ فرمایا۔ قربانی کا جانور ذبح کیا اور حجام کو بلایا جس نے آپ ﷺ کے بال کاٹے۔ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ منظر دیکھا تو وہ بھی اِتباعِ رسول ﷺ میں کھڑے ہوگئے اور اپنے اپنے جانوروں کی قربانی کرنے لگے اور ایک دوسرے کے بال بنانے لگے۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ ﷺ کا سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کرنا صائبۃ الرائے خواتین سے مشاورت کا اصول بیان کرتا ہے۔
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 6: 275
جواب: شوہر اپنی درج ذیل عادات کی وجہ سے اِزدِواجی زندگی کا سکون برباد کرتا ہے۔
1۔ بیوی کو کوئی اَہمیت نہ دینا اور اُسے نظر انداز کرنا، بیوی کو ستانا، طعن و تشنیع کرنا اور گالیاں دینا، ظلم و زیادتی کرنا، اس کی ضروریات کا خیال نہ رکھنا اور اپنے اَہل و عیال پر خرچ کرنے میں بخل سے کام لینا۔
2۔ شوہر کا ہر وقت بیوی کو یہ کہتے رہنا کہ تم خوبصورت نہیں۔ تم میں فلاں نقص ہے، فلاں خامی ہے وغیرہ؛ اس لیے میں دوسری شادی کر لوں گا؛ یا بیوی کے سر پر ہر وقت طلاق کی تلوار لٹکائے رکھنا اور ذرا سی بات ہو تو دھمکی دینا کہ میں تمہیں چھوڑ دوں گا، طلاق دے دوں گا وغیرہ۔ حالاں کہ طلاق اللہ تعالیٰ کے ہاں حلال اُمور میں ناپسندیدہ ترین شے ہے اور یہ اِختیار صرف اُسی وقت استعمال کیا جانا چاہیے جب زوجین کا کسی بھی صورت نکاح برقرار رکھنا ممکن نہیں رہتا۔
3۔ بیوی کی کسی غلطی و کوتاہی پر دوسروں کے سامنے اُس کی تذلیل کرکے اُس کی عزتِ نفس کو مجروح کرنا۔
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا أَکْرَمَ النِّسَاءَ إِلَّا کَرِیْمٌ وَلَا أَهَانَهُنَّ إِلَّا لَئِیْمٌ.
ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 13: 313
ہندی، کنز العمال، 16: 155، رقم: 44943
سوائے برگزیدہ اور عزت والے شخص کے بیویوں کی عزت کوئی نہیں کرتا اور سوائے ذلیل و کمینے شخص کے کوئی ان کی اِہانت نہیں کرتا۔
4۔ شوہر کا بیوی پر ناجائز پابندیاں عائد کرنے، اس کے کام میں نکتہ چینی کرنے اور ہر وقت شک کی نظر سے دیکھنے یا بیوی پر الزامات لگانے یا دوسروں کی وجہ سے اپنی بیوی سے جھگڑا کرنے سے بھی خانگی سکون تباہ ہوجاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا گیاہے:
وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُھَدَآءَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّلَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَھَادَةً اَبَدًا ج وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَo
النور، 24: 4
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو تم انہیں (سزائے قذف کے طور پر) اسّی کوڑے لگائو اور کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، اور یہی لوگ بدکردار ہیں۔
5۔ جب بیوی مسکراتے چہرے کے ساتھ خاوند کا استقبال کرتی ہے تو شوہر اسے توجہ دینے کی بجائے زندگی کے آلام و مصائب پر بات شروع کر دیتا ہے جس سے اس کی دل آزاری ہوتی ہے۔ اگر یہی صورتِ حال لمبے عرصے تک برقرار رہے تو گھر کا سکون برباد ہو جاتا ہے۔
6۔ بیوی کے والدین اور عزیز و اَقارب کو اچھا نہ سمجھنا اور ان سے بے اعتنائی برتنا بھی گھریلو ناچاقی کا سبب بنتا ہے۔
درج بالا اُمور شوہر کی وہ بری عادات ہیں جن کی وجہ سے بیوی عدمِ تحفظ اور اِحساس کمتری کا شکار رہتی ہے۔ انہی عادات کی وجہ سے اِزدِواجی زندگی کا سکون برباد ہوتا ہے اور گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی تربیت کے اُمور نظر انداز ہو جاتے ہیں۔
جواب: درج ذیل صفات کی حامل عورت مثالی زوجہ کہلاتی ہے:
شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنے والی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی بیویوں کے اَوصاف قرآنِ حکیم میں یوں بیان فرمائے ہیں:
فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللهُ.
النساء، 4: 34
پس نیک بیویاں اِطاعت شعار ہوتی ہیں شوہروں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت کے ساتھ (اپنی عزت کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا صَلَّتِ الْمَرْأَةُ خَمْسَهَا، وَصَامَتْ شَهْرَهَا، وَحَفِظَتْ فَرْجَهَا، وَأَطَاعَتْ زَوْجَهَا، قِیْلَ لَهَا: اُدْخُلِي الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شِئْتِ.
أحمد بن حنبل، المسند، 1: 191، رقم: 1661
ابن حبان، الصحیح، 9: 471، رقم: 4163
طبراني، المعجم الأوسط، 8: 340، رقم: 8805
سخاوی، البلدانیات: 161، رقم: 25
جس عورت نے پنج گانہ فرض نمازوں کی ادائیگی کی، ماهِ رمضان کے روزے رکھے، اپنی عصمت کی حفاظت کی اور اپنے شوہر کی فرماں بردار رہی تو اُس سے کہا جائے گا: تم جنت کے جس دروازے سے بھی چاہو جنت میں داخل ہو جاؤ۔
بیوی شوہر کی رضا و خوش نودی کا خیال رکھنے والی اور قولاً و فعلاً اپنے خاوند کو خوش رکھنے کی کوشش کرنے والی ہو، کیوں کہ شوہر کی رضا میں ہی بیوی کی بھلائی ہے۔ اگر خاوند راضی ہوگیا اور بیوی اسی حال میں فوت ہوگئی تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔
حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَیُّمَا امْرَأَۃٍ مَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَنْهَا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّةَ.
ترمذی، السنن، کتاب الرضاع، باب ماجاء فی حق الزوج علی المرأۃ،
3: 466، رقم: 1161
ابن ماجہ، السنن، کتاب النکاح، باب حق الزوج علی المرأۃ، 1: 595، رقم: 1854
أبو یعلی، المسند، 12: 331، رقم: 6903
حاکم، المستدرک، 4: 191، رقم: 7328
ابن أبی شیبۃ، المصنف، 3: 557، رقم: 17123
جس عورت نے اس حالت میں وفات پائی کہ اس کا خاوند اس (کی فرماں برداری کے باعث اُس) سے راضی تھا تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔
بیوی اپنے مزاج و طبیعت میں خوش خلق، خدمت گزار، محبت و مودت اور طہارت و نفاست کا پیکر ہو اور زیب و زینت کے لحاظ سے گھر میں شوہر کو ایسی نظر آئے کہ شوہر کو اسے دیکھتے ہی قلبی مسرت اور راحت ملے اور اس کا رُجحان کبھی گناہ کی طرف نہ جانے پائے۔ گویا اسے اپنی طرف ایسا راغب رکھے کہ وہ کسی اور کی طرف رغبت کا سوچ بھی نہ سکے۔
شوہر دن بھر کی مصروفیات کے بعد جب گھر واپس پہنچے تو بیوی مسکراتے چہرے سے اس کا استقبال کرے تاکہ اُس کی ساری تکان دور ہوجائے اور گھر آنا اس کے لیے راحت و سکون کا باعث بنے۔ حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے:
مَا اسْتَفَادَ الْمُؤْمِنُ بَعْدَ تَقْوَی اللهِ خَیْرًا لَهٗ مِنْ زَوْجَۃٍ صَالِحَۃٍ، إِنْ أَمَرَهَا أَطَاعَتْهُ، وَإِنْ نَظَرَ إِلَیْهَا سَرَّتْهُ، وَإِنْ أَقْسَمَ عَلَیْهَا أَبَرَّتْهُ، وَإِنْ غَابَ عَنْهَا نَصَحَتْهُ فِي نَفْسِهَا وَمَالِہٖ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب النکاح، باب أفضل النساء، 1: 596، رقم:
1857
طبراني، المعجم الکبیر، 8: 222، رقم: 7881
ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 43: 280
اللہ کے تقویٰ کے بعد مومن کو نیک بیوی سے زیادہ کسی بھی چیز سے فائدہ نہیں ہوا، اگر وہ اُسے حکم دے تو وہ اپنے خاوند کی اطاعت کرے، اگر اُس کی جانب دیکھے تو وہ اِسے خوش کرے، اگر وہ اس پر بھروسہ کر کے کوئی قسم کھا لے تو وہ اسے پورا کرے اور اگر شوہر کہیں چلا جائے تو بیوی اُس کی عدم موجودگی میں اپنی جان (عزت و آبرو) اور اس کے مال کی حفاظت کرے۔
بیوی پرہیزگار اور دینی شعور و آگہی رکھنے والی ہو کیوں کہ ایسی عورت کو حدیث مبارک میں دنیا کی بہترین متاع قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اَلدُّنْیَا مَتَاعٌ، وَخَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ.
مسلم، الصحیح، کتاب الرضاع، باب خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ،
2: 1090، رقم: 1467
أحمد، المسند، 2: 168، رقم: 6567
نسائي، السنن، کتاب النکاح، باب المرأۃ الصالحۃ، 6: 69، رقم: 3232
أبو عوانۃ، المسند، 3: 143، رقم: 4504
دنیا متاع ہے اور دنیا کی بہترین متاع نیک عورت ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ ثَـلَاثَةٌ، وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ ثَـلَاثَةٌ. مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ: الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ وَالْمَسْکَنُ الصَّالِحُ وَالْمَرْکَبُ الصَّالِحُ، وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ: الْمَرْأَةُ السُّوءُ وَالْمَسْکَنُ السُّوْءُ وَالْمَرْکَبُ السُّوْءُ.
أحمد بن حنبل، المسند، 1: 168، رقم: 1445
حاکم، المستدرک، 2: 157، رقم: 2640
طیالسی، المسند، 1: 29، رقم: 210
طبرانی، المعجم الأوسط، 4: 62، رقم: 3610
(دنیا میں) ابنِ آدم کی خوش بختی کی تین چیزیں ہیں اور بد بختی کی بھی تین چیزیں ہیں۔ ابنِ آدم کی خوش بختی میں سے یہ ہیں: نیک بیوی، اچھا گھر اور اچھی سواری۔ اور اس کی بد بختی میں سے یہ (تین) چیزیں ہیں: بد خو بیوی، بُرا گھر (جس میں وہ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہو) اور بُری سواری (جو اس کی ضرورت کو بر وقت پورا نہ کر سکے اور اس کے لیے پریشانی کا باعث بنتی رہے)۔
شوہر کے حقوق کی پاس داری اور اس کا خیال رکھنے والی عورت سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔ گزشتہ صفحات میں حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث مبارک اس پر بخوبی روشنی ڈالتی ہے کہ جس عورت نے اس حالت میں وفات پائی کہ اس کا خاوند اس (کی فرماں برداری کے باعث اُس) سے راضی تھا تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ مگر کسی عذرِ شرعی یا صحت کی خرابی کے بغیر خاوند کی اطاعت سے اِنکار اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہٖ مَا مِنْ رَجُلٍ یَدْعُو امْرَأَتَهٗ إِلٰی فِرَاشِهَا فَتَأْبٰی عَلَیْهِ إِلَّا کَانَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ سَاخِطًا عَلَیْهَا حَتّٰی یَرْضٰی عَنْهَا.
مسلم، الصحیح، کتاب النکاح، بب تحریم امتناعہا من فراش زوجھا،
2: 1060، رقم: 1436
خطیب تبریزی، مشکاۃ المصابیح، 2: 969، رقم: 3246
هندی، کنز العمال، 16: 142، رقم: 44778
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! جس شخص کی بیوی اپنے شوہر کے بلانے پر انکار کر دیتی ہے، اس سے اللہ تعالیٰ اس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اس کا شوہر اس سے راضی نہ ہو جائے۔
یہاں چند عناوین کے تحت ہم نے اچھی زوجہ کی بعض خصوصیات بیان کی ہیں۔ علاوہ ازیں بھی کئی صفات اِس ضمن میں وارد ہوئی ہیں جنہیں مختلف پیرائے میں مختلف جگہوں پر بیان کیا جاچکا ہے۔
جواب: بیوی کی درج ذیل عادات کی وجہ سے خوشگوار اِزدِواجی زندگی متاثر ہوتی ہے:
1۔ شوہر کی طرف سے ضروریات زندگی اور آسائشیں ملنے کے باوجود ہر وقت ناشکری کے کلمات ادا کرنا۔
2۔ شوہر کی کم آمدنی پر اس کا ساتھ دینے کی بجائے کم خرچ پر شکوہ و شکایت کرنا۔
3۔ گھریلو اُمور سے لاپرواہی برتنا۔
4۔ گھر کا بجٹ شوہر کی آمدنی کے مطابق ترتیب دینے کی بجائے فضول خرچی کرنا۔
5۔ ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے کی بجائے فضول مشاغل میں وقت ضائع کرنا۔
6۔ شوہر کے گھر آتے ہی موڈ آف کر لینا اور غصہ و ناراضگی کا اظہار کرنا۔
7۔ معمولی باتوں پر جھگڑا کرنا اور بار بار میکے چلے جانا۔
8۔ شوہر کے اعزاء و اقارب کو اہمیت نہ دینا ؛ وغیرہ۔
جواب: نیک و صالح اولاد کے حصول کے لیے زوجین کا انتخاب کرتے ہوئے اس بات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ مرد و عورت دونوں صالح ہوں؛ کیوں کہ قرآن حکیم صالح مرد کے لیے صالح عورت اور صالح عورت کے لیے صالح مرد کے انتخاب کا حکم دیتا ہے۔ اِرشاد ہوتا ہے:
وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ.
النور، 24: 26
اور پاک و طیب عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے (مخصوص) ہیں اور پاک و طیب مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیں۔
اِس حکم قرآنی کے اندر کار فرما حکمتوں میں سے ایک حکمت نیک و صالح اولاد کا حصول ہے۔ لہٰذا نیک و صالح اولاد کے حصول کے لیے زوجین یعنی میاں بیوی دونوں کا انتخاب کرتے ہوئے درج ذیل اُمور مدِ نظر رکھے جائیں:
1۔ ماں کی گود بچے کی ابتدائی درس گاہ ہوتی ہے۔ اس کے لیے ایسی عورت کا انتخاب کیا جائے جو دین دار، با اَخلاق، با شعور اور نیک سیرت ہو۔ ایسی عورت ہی اولاد کے نیک ہونے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
2۔ اسی طرح باپ اولاد کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک باپ اچھی تعلیم و تربیت کا فریضہ تب ہی سر انجام دے سکتا ہے جب وہ خود نیک اور دین دار ہو۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے زوجین کے انتخاب میں جہاں عورت کے دین دار ہونے کو اہم قرار دیا وہیں آپ ﷺ نے نکاح کے لیے دین دار مرد کے انتخاب کی بھی ترغیب فرمائی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا خَطَبَ إِلَیْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِینَهٗ وَخُلُقَهٗ، فَزَوِّجُوهُ إِلَّا تَفْعَلُوا تَکُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِیْضٌ.
ترمذی، السنن، کتاب النکاح، باب ما جاء فی من ترضون دینہ فزوجوہ، 3: 394، رقم: 1084
جب تمہیں ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کا دین و اَخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کرو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں بہت بڑا فتنہ بپا ہونے کا خدشہ ہے۔
درج بالا فرمان نبوی میں یہی حکمت کار فرما ہے کہ دین دار شخص نہ صرف خود دین پر کار بند رہے گا بلکہ اپنی زوجہ اور بچوں کو بھی دین کے ساتھ جوڑے رکھے گا۔ لہٰذا زوجین کا انتخاب کرتے وقت اِس بات کا اِدراک ہونا ضروری ہے کہ اِنتخاب محض زوجین کا ہی نہیں بلکہ مستقبل کے والدین کا بھی ہے۔ جنہوں نے آگے چل کر اُمتِ مسلمہ کے لیے ایسے افراد کی تربیت کرنے کا فریضہ سر انجام دینا ہے اور خلیفۃ اللہ فی الارض کا منصب سنبھالنا ہے۔ وہ نکاح جس میں دینی اَقدار کا خیال رکھا جاتا ہے نیک اور صالح اولاد کے حصول اور تربیتِ اولاد کے سلسلہ میں بھی ٹھوس کردار ادا کرتاہے۔ اسی کے ذریعے ایک صالح نسل وجود میں آتی ہے۔ لہٰذا زوجین کا انتخاب کرتے وقت ایسی اولاد کا حصول چشم تصور میں ضرور رہنا چاہیے جو صالحیت کے قرآنی معیار پر پورا اُترتی ہو اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہو۔
جواب: جی ہاں! اِسلام میں نکاح کا اَہم مقصد بقائے نسلِ آدم ہے اور اس سے اولاد اور نسب کا تحفظ ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے نکاح کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے اسے اپنی سنت قرار دیا ہے۔ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِي، فَمَنْ لَمْ یَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَیْسَ مِنِّي، وَتَزَوَّجُوا، فَإِنِّي مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْأُمَمَ، وَمَنْ کَانَ ذَا طَوْلٍ فَلْیَنْکِحْ. وَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَعَلَیْهِ بِالصِّیَامِ، فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ.
ابن ماجه السنن، کتاب النکاح، باب ماجاء فی فضل النکاح، 2: 415، رقم: 1846
نکاح میری سنت ہے، جس نے میری سنت پر عمل نہیں کیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔ تم لوگ نکاح کرو، قیامت کے روز میں دوسری اُمتوں پر تمہاری کثرت کی بنا پر فخر کروں گا۔ جو شخص صاحبِ حیثیت ہے اُسے چاہیے کہ وہ نکاح کرے۔ مگر جو شخص نکاح کی اِستطاعت نہ رکھے تو اُسے چاہیے کہ وہ روزہ رکھے اِس لیے کہ روزہ شہوت کو دور کر دیتا ہے۔
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
تَزَوَّجُوا الْوَدُوْدَ الْوَلُودَ، فَإِنِّي مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْأُمَمَ.
أبو داؤد، السنن، کتاب النکاح، باب النهی عن تزویج من لم یلد النساء، 2: 180، رقم: 2050
محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو کیونکہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دیگر اُمتوں کے سامنے برکت حاصل کروں گا۔
جواب: اللہ تعالیٰ نے اِنسان کے اندر ایک فطری خواہش رکھی ہے کہ شادی کے بعد وہ صاحبِ اولاد ہو۔ زوجین کے لیے نیک اولاد بہت بڑی نعمت اوراُس کے مرنے کے بعد اُس کا نام زندہ رکھنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ ہر انسان میں طویل عرصے تک جینے اور اس کی کمائی ہوئی جائیداد، خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ اس کا وارث ہونے کی فطری خواہش ہوتی ہے اور اس کی تکمیل اولاد کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتی ہے۔ قرآن حکیم میں اولاد کو دنیا کی زندگی میں زینت اور رونق کہا گیا ہے:
اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا.
الکهف، 18: 46
مال اور اولاد (تو صرف) دنیاوی زندگی کی زینت ہیں۔
نیک و صالح اولاد آخرت میں والدین کے لیے صدقہ جاریہ بھی ہوتی ہے۔ اولاد کی یہی خواہش اگر اللہ تعالیٰ کی رضا و خوش نودی کے حصول کے لیے ہو تو وہ عبادت بن جاتی ہے۔ اللہتعالیٰ کے نیک و صالح بندے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یوں عرض کناں ہوتے ہیں:
وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًاo
الفرقان، 25: 74
اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو (حضورِ باری تعالیٰ میں) عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب، ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے۔
جواب: جی ہاں! انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی اَولاد کی آرزو کی ہے۔ قرآن حکیم میں مذکور ان کی دعاؤں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اولاد کے حصول کے ساتھ ساتھ ان کے نیک اور صالح ہونے کی بھی دعائیں مانگیں۔
1۔ قرآن حکیم میں مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یوں اپنے رب سے نیک و صالح اولاد کی دعا مانگی:
رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَo فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍo
الصافات، 37: 100-101
(پھر اَرضِ مقدّس میں پہنچ کر دعا کی:) اے میرے رب! صالحین میں سے مجھے ایک (فرزند) عطا فرما۔ پس ہم نے انہیں بڑے بُردبار بیٹے (اِسماعیل علیہ السلام) کی بشارت دی۔
2۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے یوں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نیک اولاد کی دعا مانگی:
رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّـبَةً ج اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِo
آل عمران، 3: 38
عرض کیا: میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو ہی دعا کا سننے والا ہےo
سورۃ مریم میں حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا کا بیان یوں کیا گیا ہے:
فَھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّاo یَّرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّاo
مریم، 19: 1-6
سو تو مجھے اپنی (خاص) بارگاہ سے ایک وارث (فرزند) عطا فرما۔ جو (آسمانی نعمت میں) میرا (بھی) وارث بنے اور یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد (کے سلسلهِٔ نبوت) کا (بھی) وارث ہو اور اے میرے رب! تو (بھی) اسے اپنی رضا کا حامل بنا لے۔
نیک و صالح اَولاد کی دعا نہ صرف انبیاء کرام علیہم السلام نے کی بلکہ ان کی سنت و اتباع میں اولیاء کرام نے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور نیک اولاد کے لیے دعائیں کیں۔
3۔ قرآنِ حکیم میں حضرت عمران اور ان کی زوجہ کا واقعہ مذکور ہے کہ ان دونوں نے نیت کی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں بیٹا عطا فرمائے گا تو وہ اسے اللہ کے دین کے لیے وقف کر دیں گے۔ جب بیٹی کی ولادت ہوئی تو انہوں نے اس کا نام مریم رکھا اور اپنے کیے ہوئے ارادے کے مطابق اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیا اور ساتھ ہی ان کی والدہ نے یہ دعا کی:
وَاِنِّیْ سَمَّیْتُھَا مَرْیَمَ وَاِنِّیْٓ اُعِیْذُھَا بِکَ وَذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِo
آل عمران، 3: 36
اور میں نے اس کا نام ہی مریم (عبادت گزار) رکھ دیا ہے اور بے شک میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود (کے شر) سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔
اِس عمل سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اپنی اَولاد اور آئندہ نسلوں کے لیے ان کی پیدائش سے قبل ہی دعائیں کرنا مستحب عمل ہے۔ حضرت مریم علیہ السلام کی والدہ کی دعا کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہتعالیٰ نے انہیں اور ان کے بیٹے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو شیطان کے چھونے سے محفوظ رکھا، جیسا کہ حدیث مبارک میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
مَا مِنْ بَنِي آدَمَ مَوْلُودٌ إِلَّا یَمَسُّهُ الشَّیْطَانُ حِیْنَ یُوْلَدُ، فَیَسْتَھِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّ الشَّیْطَانِ، غَیْرَ مَرْیَمَ وَابْنِھَا.
بخاری، الصحیح، کتاب الأنبیاء، باب قول اللہ تعالی: واذکر
في الکتاب مریم۔۔۔۔، 3: 1265، رقم: 3248
بخاری، الصحیح، کتاب تفسیر القرآن، باب وإني أعیذھا بک وذریتھا من الشیطان الرجیم،
4: 1655، رقم: 4274
مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب فضائل عیسی علیہ السلام ، 4: 1838، رقم: 2366
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 233، 274، رقم: 7182، 7694
بنو آدم میں سے کوئی مولود (یعنی بچہ) ایسا نہیں ہے جسے پیدائش کے وقت شیطان مس نہ کرے۔ چنانچہ وہ اس شیطان کے چُھونے کی وجہ سے چیخنا چلانا شروع کر دیتا ہے، سوائے مریم علیہ السلام اور ان کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کے (کہ انہیں شیطان نے مس نہیں کیا)۔
ایک روایت میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد فرمایا:
اقْرَئُوْا إِنْ شِئْتُمْ: {وَاِنِّیْٓ اُعِیْذُھَا بِکَ وَذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِo}
آل عمران، 3: 36
اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: {وَاِنِّیْٓ اُعِیْذُھَا بِکَ وَذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِo} ’اور بے شک میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود (کے شر) سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔‘۔
لہٰذا والدین کو نومولود کی پیدائش کے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے تاکہ نومولود شیطان کے شر اور وساوس سے محفوظ رہے۔
جواب: نیک اولاد یقینا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ نعمت ایک ثمر آور درخت کی مانند ہے جس کے لیے ابتداء میں سخت محنت کی جاتی ہے اور تکالیف اٹھائی جاتی ہیں۔ لیکن جب یہ درخت بڑا ہوتا ہے، اس کا تنا مضبوط ہو جاتا ہے اور شاخیں پھل سے جھک جاتی ہیں تو پھر یہ نیک و صالح اولاد دنیا میں والدین کے لیے عزت و شرف اور آخرت میں ان کے لیے صدقہ جاریہ کا باعث بنتی ہے۔ اس کا ثواب بعض صورتوں میں قیامت تک والدین کو ملتا رہتا ہے۔
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهٗ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَۃٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ، أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہٖ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَهٗ۔
مسلم، الصحیح، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الإنسان من الثواب
بعد وفاتہ، 3: 1255، رقم: 1631
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 372، رقم: 8831
أبوداؤد، السنن، کتاب الوصایا، باب ماجاء فی الصدقۃ عن المیت، 3: 117، رقم: 2880
ابن ماجہ، السنن، المقدمۃ، باب ثواب معلم الناس الخیر، 1: 88، رقم: 239
جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اَعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (کہ اُن کا اَجر اُسے برابر ملتا رہتا ہے:) ایک وہ صدقہ جس کا نفع جاری رہے، دوسرا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے تیسری وہ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔
2۔ ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللہَ تعالیٰ لَیَرْفَعُ الدَّرَجَةَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِي الْجَنَّةِ، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ أَنّٰی لِي هٰذِہٖ؟ فَیَقُوْلُ: بِإِسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ.
أحمد بن حنبل، المسند، 16: 356، رقم: 10610
ابن ماجہ، السنن، کتاب الأدب، باب بر الوالدین، 2: 1207، رقم: 3660
یقیناً اللہ تعالیٰ جنت میں ایک صالح شخص کا درجہ بلند فرمائے گا تو وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! میرے درجات کی یہ بلندی کس وجہ سے ہے؟ وہ فرمائے گا: یہ (بلندی) تیرے فرزند کی طرف سے تیرے لیے مغفرت کی وجہ سے ہے۔
3۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ اُس وقت موجود نہ تھے۔ وہ (بارگاهِ رسالت میں) عرض گزار ہوئے:
یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ أُمِّي تُوُفِّیَتْ وَأَنَا غَائِبٌ عَنْهَا، أَیَنْفَعُهَا شَیْئٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِہٖ عَنْهَا؟
یا رسول اللہ! میری والدہ محترمہ کا انتقال ہو چکا ہے اور میں اس وقت حاضر نہ تھا، اگر میں اُن کی طرف سے کوئی خیرات کروں تو کیا اُنہیں ثواب پہنچے گا؟
حضور نبی اکرم ﷺ نے جواب دیا: بالکل۔ اس پر وہ عرض گزار ہوئے:
فَإِنِّي أُشْهِدُکَ أَنَّ حَائِطِيَ الْمِخْرَافَ صَدَقَةٌ عَلَیْهَا.
بخاری، الصحیح، کتاب الوصایا، باب إذا قال: داري صدقۃ ﷲ، 3:
1013، رقم: 2605
أبو داؤد، السنن، کتاب الوصایا، باب ما جاء فیمن مات من غیر وصیۃ یتصدق عنہ، 3: 118،
رقم: 2882
ترمذي، السنن، کتاب الزکاۃ، باب ما جاء في الصدقۃ عن المیت، 3: 56، رقم: 669
(یا رسول اللہ!) میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ والدہ مرحومہ کی طرف سے صدقہ ہے۔
4۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ (قبیلہ) جُهَینہ کی ایک عورت نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا:
إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ، فَلَمْ تَحُجَّ حَتّٰی مَاتَتْ، أَفَأَحُجُّ عَنْھَا؟
میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی یہاں تک کہ فوت ہوگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟
حضور ﷺ نے فرمایا:
نَعَمْ حُجِّي عَنْھَا، أَرَأَیْتِ لَوْ کَانَ عَلٰی أُمِّکِ دَیْنٌ أَکُنْتِ قَاضِیَةً؟ اقْضُو اللهَ، فَاللهُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ.
بخاري، الصحیح، کتاب الإحصار وجزاء الصید، باب الحج والنذور
عن المیت، وَ الرَّجُلُ یَحُجُّ عَنِ المَرْأَةِ، 2: 656، رقم: 1754
بخاری، الصحیح، کتاب الأیمان والنذور، باب من مات وعلیہ نَذْرٌ، 6: 2464، رقم: 6321
نسائي، السنن، کتاب مناسک الحج، باب الحج عن المیت الذي نذر أن یحج، 5: 116، رقم: 2632
نسائی، السنن الکبری، 2: 322، رقم: 3612
ابن خزیمۃ، الصحیح، 4: 346، رقم: 3041
ہاں! تم اس کی طرف سے حج کرو۔ بھلا بتاؤ تو اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا نہ کرتیں؟ پس اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو کیونکہ وہ زیادہ حق دار ہے کہ اُس کے عہد کو پورا کیا جائے۔
لہٰذا نیک و صالح اولاد کا حصول نعمت خداوندی ہے۔ جس کی وجہ سے والدین دنیا و آخرت میں سرخرو ٹھہرتے ہیں۔
اِس ابتدائی گفتگو کے بعد اگلے باب میں ہم قبل اَز پیدائش بچے کے حقوق میں سے چند اہم حقوق کا تذکرہ کریں گے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved