پاکستان کے جملہ مسائل کا بنیادی سبب یہاں کا اِنتخابی نظام ہے، جس کے ذرِیعے بالعموم جاگیردار اور سرمایہ دار طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی حکمران بنتے ہیں، جو حکومت میں آنے کے بعد ملک و قوم کے فائدے کی بجائے صرف مال بنانے اور لوٹ مار کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ اِس حقیقت سے سب آگاہ ہیں کہ ہر اُمیدوار دس سے بیس کروڑ روپے خرچ کر کے اسمبلی میں پہنچتا ہے۔ اِتنا خرچہ کر کے اسمبلی تک پہنچے والا ملک و قوم کا خیرخواہ کیسے ہو سکتا ہے!!! یہی کرپشن کی جڑ ہے، کیونکہ دس بیس کروڑ خرچ کر کے آنے والا اگلے الیکشن سے پہلے پہلے پچاس ساٹھ کروڑ کمانے کی فکر میں رہتا ہے۔ اِس نظامِ اِنتخاب میں باصلاحیت اور پڑھے لکھے لوگ قوم کی قیادت و رہنمائی کے لئے آگے نہیں آ سکتے، یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک تباہی کے دہانے پر جا پہنچا ہے۔
پاکستان میں ہونے والے اِنتخابات قوم کی پریشانیوں کا حل نہیں۔ عوام کا سب سے بڑا دُشمن اِس ملک کا اِنتخابی ڈرامہ ہے۔ موجودہ نظام کے تحت ہونے والے اِلیکشن ملک و قوم کے ساتھ مذاق ہیں۔ اِسی اِنتخابی نظام کا شاخسانہ ہے کہ آج قومی اِدارے ایک دُوسرے کے مدِمقابل کھڑے ہیں۔ صرف اِلیکشن کو مسائل کا حل سمجھنے والے نام نہاد دانش وَر اور سیاست دان قوم کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ ’جمہوریت‘ کے نام پر چند سیاسی خاندانوں کو ہی اِقتدار کا حق دے کر عوام کے اِستحصال کے بدترین سلسلے کو جاری رکھنا قومی جرم ہے۔ حقیقی تبدیلی اِس موجودہ اِنتخابی نظام کے ذریعے ممکن نہیں۔ یہ نظام غریب عوام کا محافظ نہیں بلکہ یہ اَشرافیہ کا غلام نظام ہے، جس نے ملک کے اَٹھارہ کروڑ عوام کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ اِس ملک میں جمہوریت طاقتور اور مقتدر لوگوں کی لونڈی ہے اور قانون سیاسی لوگوں کا غلام بن چکا ہے۔ مخصوص خاندانوں کی حلقوں میں اِجارہ داریاں ہیں۔ یہاں فراڈ سے اسمبلی تک پہنچنے کا نام ’جمہوریت‘ ہے۔ موجودہ نظام کے تحت منتخب ہونے والوں نے اِس قوم کو خودکشیاں، بیروزگاری اور ملک و قوم کے وقار کی بربادی دی ہے۔ اِس ملک کی نہ کوئی خارجہ پالیسی ہے نہ داخلہ، ہماری خود مختاری کو گرہن لگ چکا ہے۔ مغرب میں جمہوریت اِس لئے کامیاب ہے کہ وہاں مؤاخذے کا سخت نظام ہوتا ہے، مگر ہمارا اِلیکشن کمیشن تو اندھا ہے۔ موجودہ اِنتخابی نظام میں ووٹر کی رائے کا اِحترام نہیں ہے، سیاسی جماعتوں کے کلچر میں منشور اور جمہوری روح موجود نہیں، یہاں مقتدر طبقہ عوام کے ووٹ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر اِستعمال کرتا ہے۔
ہمارا معاشرہ نہ اِسلامی ہے، نہ جمہوری ہے، نہ اِنسانی ہے، نہ ترقی یافتہ ہے اور نہ ترقی پذیر ہے بلکہ تیزی سے زوال پذیر ہے۔ اِس نظام کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ہم ایک قوم نہیں بلکہ بے سمت اور بے مقصدیت کا ہجوم بن چکے ہیں۔ اَسی فیصد عوام دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہیں۔ ساٹھ فیصد عوام اِنتخابات میں حصہ ہی نہیں لیتے اور بقیہ چالیس فیصد بھی وہ ہیں جن سے مختلف حیلوں اور وعدوں سے ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں۔ پوری دُنیا میں MNA کو ترقیاتی کاموں کے بجٹ میں سے ایک روپیہ تک نہیں دیا جاتا، ترقیاتی کام ہر ملک میں سرکاری محکموں کی ذمہ داری ہوتے ہیں، جبکہ ہمارے یہاں کا MNA اپنے حلقے کی تقدیر کا مالک ہوتا ہے۔
آج اِس ملک میں سپریم کورٹ فیصلے دینے میں آزاد ہے مگر اُن فیصلوں پر عمل درآمد کرانے میں آزاد نہیں۔ ہمارا سیاسی کلچر تسلسل سے آئین کے چہرے پر تھپڑ مار رہا ہے اور ہم پھر بھی ’جمہوری‘ کہلوانے کی ضد پر اَڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی نظام کو ’جمہوریت‘ کہنا اُس کی توہین ہے۔ موجودہ نظام جمہوریت نہیں بلکہ ’نظامِ مجبوریت‘ ہے، جس کے خلاف بغاوت ہی قوم کو اُس سے نجات دِلا سکتی ہے۔ اِس نظام نے پاکستان کو کرپشن کے عالمی گراف میں بھوٹان، سری لنکا، ایتھوپیا اور بنگلہ دیش سے بھی اُوپر پہنچا دیا ہے۔ موجودہ اِنتخابی نظام نے کرپشن، مہنگائی، توانائی کے بحران، بے روزگاری، اِداروں کے ٹکراؤ، تعلیم و صحت جیسے ضروری شعبوں کو نظر اَنداز کرنے اور قومی اِداروں کو مفلوج کرنے کے سوا کچھ نہیں دیا۔
اِلیکشن کے ذرِیعے تبدیلی کی باتیں کرنے والے اِقتدار میں تھوڑا حصہ لینے کے سوا کچھ نہ کر سکیں گے۔ ملک میں حقیقی تبدیلی نہ فوج کے ذرِیعے آئے گی اور نہ موجودہ اِنتخابی نظام کے تحت ہونے والے اِلیکشن سے، یہاں تبدیلی اِنتخابی نظام کے خلاف بغاوت سے آئے گی۔ موجودہ نظام کے تحت 100 اِلیکشن بھی ملک و قوم کا مقدر نہیں بدل سکتے۔ اِلیکشن کے بعد کی صورتحال قوم کو مایوسی کے سوا کچھ نہ دے سکے گی۔ تبدیلی کا نعرہ لے کر میدان میں آنے والے موجودہ نظام میں ہونے والے اِلیکشن کے بعد خود بھی مایوس ہوں گے اور قوم کو بھی مایوس کریں گے۔
تحریکِ منہاجُ القرآن جمہوریت کی گرم جوش حامی ہے، مگر موجودہ اِنتخابی نظام کے تحت ہونے والے اِلیکشن جمہوریت کے ساتھ مذاق سے کم نہیں۔ موجودہ اِنتخابی نظام کینسر زدہ ہو چکا، ملک و قوم کو صحت یاب کرنے کے لئے سرجری کرنا ہوگی۔ ملک کو اَیسے سرجن کی ضرورت ہے جو پیچیدہ سرجری کا ماہر ہو۔ حقیقی جمہوریت کا قیام تبھی ممکن ہے جب غیرجانبدار اِلیکشن کمیشن بنیادی اِنتخابی اِصلاحات کو یقینی بنائے۔ مگر اُس سے قبل ملک کی معیشت کو سنبھالا دینے ، کرپشن، اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے، توانائی کے بحران سے نجات اور غریب عوام کو ریلیف دینے کے لئیکم از کم تین سال کے لئے دیانت دار، باکردار اور اَہل اَفراد پر مشتمل قومی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے، جو موجودہ آئین کے تابع رہ کر نیا سوشل کنٹریکٹ تشکیل دے۔ قومی حکومت میں دیانت دار اور باکردار اَہل لوگوں کو شامل کیا جائے جو اِداروں کے اِختیارات کا تعین کریں۔ سپریم کورٹ اپنی نگرانی میں قومی حکومت کے قیام کے لئے ریفرنڈم کرائے، جو تین سال میں اِس ملک کے دیگر اَہم مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ اِنتخابی نظام میں ایسی اِصلاحات لائے، جس کے سبب اَہل، باکردار، باصلاحیت، پڑھے لکھے اور دیانت دار لوگ اِنتخابات میں حصہ لے سکیں۔
پاکستان کے نظام میں حقیقی تبدیلی کے لئے ہم اِنتخابات سے پہلے ایسی بنیادی اِصلاحات ضروری سمجھتے ہیں، جن کی بدولت سپریم کورٹ کی نگرانی میں اِلیکشن کمیشن کو رِی سٹرکچر کر کے غیر جانبدار بنایا جائے، کروڑوں کی تعداد میں موجود بوگس ووٹوں کا مکمل اِخراج کر کے نئی ووٹر لسٹیں تیار کر کے نادرا کے آئی ڈی کارڈ کے ساتھ ووٹ ڈلوانے کے عمل کو یقینی بنایا جائے، اِلیکشن کے دوران فوج اور عدلیہ کے زیرنگرانی مکمل غیرجانبدار اِنتخابات کو یقینی بنایا جائے، اِنتخابی اَخراجات کے قانون پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور زیادہ خرچ کرنے والے اُمیدواروں کو فوری طور پر نااَہل قرار دیا جائے، قانون نافذ کرنے والے اِدارے اور اِنتظامیہ اِنتخابی عمل میں مکمل غیرجانبدار رہیں، سیاسی پارٹیوں کے اندر جمہوری کلچر کو پروان چڑھایا جائے اور اِنتخابات پر اَثرانداز ہونے والے برادری اِزم اور غنڈہ گردی کے کلچر کی جڑ کاٹی جائے۔
اگر اِس سطح پر اِصلاحات کی جائیں تو ملک میں اَیسی مستحکم جمہوریت قائم ہو سکے گی، جو عوام کو اُن کے حقوق دے سکے اور پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کرے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved