’’باری تعالیٰ ایسا بچہ عطا کر جو تیرے دین کی معرفت کا حامل ہو، جو دُنیا اور آخرت میں تیری بے پناہ عطا و رضا کا حق دار ٹھہرے اور فیضانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہرہ ور ہو کر دنیائے اسلام میں ایسے علمی و فکری اور اَخلاقی و روحانی انقلاب کا داعی ہو، جس سے ایک عالم مستفید ہو سکے‘‘
یہ وہ کلمات ہیں جو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے والد گرامی فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ نے 1948ء میں مقامِ ملتزم پر غلافِ کعبہ کو تھام کر آنسوؤں کی برسات میں دعا مانگتے ہوئے عرض کئے، جو بارگاہِ الٰہی میں شرفِ قبولیت پا گئے اور 19 فروری 1951ء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ولادتِ باسعادت ہوئی۔ آپ کا نام ’طاہر‘ خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں آپ کے والد محترم کو بتایا تھا۔ آپ کے والد نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نسبت کے لئے لفظ ’محمد‘ کا اِضافہ کیا۔ بعد ازاں سلسلہ قادریہ میں بیعت کرنے سے آپ قادری کہلائے۔ یوں دُنیا آپ کو ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نام سے جاننے لگی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کوئی حادثاتی یا وقتی رہنماء نہیں، آپ کے زمانہ طالب علمی کی تحریری یاداشتوں سے کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جو اُن کے اوائل عمری سے ہی اِنقلابی فکری رُجحانات کی عکاسی کرتے ہیں۔ اِسی طرح پنجاب یونیورسٹی کے زمانۂ طالب علمی میں جب آپ نے عالم اِسلام کے قومی، مذہبی، معاشرتی، سیاسی اور معاشی حالات پر نظر ڈالی تو ہر طرف مایوسی و بے یقینی، زوال و اِنتشار اور ظلم و نااِنصافی کا دور دورہ پایا۔ آپ ہمہ وقت مضطرب رہتے کہ ہماری درس گاہوں کی فضا اِس قابل کیوں نہیں کہ وہ طلبہ کو فکری بلندی عطا کر سکے؟ ہمارے نوجوان مذہبی و ملی تشخص کی اہمیت سے کیوں ناواقف ہیں؟ اُن میں اپنے فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کو بین الاقوامی سطح پر فروغ دینے کی تڑپ کیوں نہیں؟ آج مسلمان اپنے اندر باطل، طاغوتی اور اِستحصالی طاقتوں سے ٹکر لینے کی جرات کیوں نہیں رکھتے؟ وہ غالب مغربی اَقوام کی اِسلام دُشمنی کے منظم منصوبوں اور عالم اِسلام کو ذلیل و رسوا کرنے والی کٹھ پتلی قیادتوں کی سازشوں سے کیوں بے خبر ہیں؟ ملت اِسلامیہ کے موجودہ عالمگیر زوال کو اَز سرِ نو عزت و عظمت میں کیوں کر بدلا جا سکتا ہے ؟ اِس نوعیت کے اَن گنت سوالات شیخ الاسلام کے ذہن کو ہمہ وقت اپنی جانب متوجہ کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ آپ نے ملتِ اسلامیہ کو منزل آشنا کرنے کے لئے ہمالیہ سے بلند حوصلہ، صحراؤں سے وسیع ظرف، سمندروں سے گہری فکری پختگی اور انقلاب کے لئے شدید تڑپ اور فولادی عزم لئے عملی جدوجہد کا آغاز کر دیا۔
اپنے اِنقلابی فکر کی مزید آبیاری کے لئے اِمام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ، شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ اِقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اِنقلابی اَفکار کی طرف متوجہ ہوئے۔ دورِ جدید کے رہنماؤں میں سے جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدہ، حسن البنا، علامہ رشید رضا اور مولانا عبید اللہ سندھی کے اِنقلابی رُجحانات اور تحریکات کا مطالعہ کیا۔ اِسی طرح غیرمسلم مفکرین اور داعیانِ اِنقلاب میں سے کارل مارکس، فریڈرک اینجلز، لینن، سٹالن اور ماؤزے تنگ وغیرہ کی تصانیف کا تفصیلاً مطالعہ کیا۔ غیرمسلم اِشتراکی داعیانِ اِنقلاب کے اَفکار کے مطالعہ کے دوران آپ پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ اُن کی تحریروں میں اپنے اَفکار اور فلسفہ اِنقلاب بارے جو خوداِعتمادی، نظریاتی خالصیت اور نتیجہ خیزی کا پختہ یقین پایا جاتا ہے، عصرِحاضر کے بیشتر اِسلامی داعیانِ اِنقلاب کی تحریروں میں وہ اِعتماد نظر نہیں آتا، بلکہ اِس تقابلی مشاہدے نے آپ کو مزید پریشان کیا کہ آج باطل کے مقابلے میں حق کے علم بردار اِس قدر مایوسی، بے یقینی، نظریاتی اِلتباس، فکری مرعوبیت اور ذہنی شکست خوردگی کا شکار ہو چکے ہیں کہ اُن کی تمام تر مساعی کے نتائج اب صرف عقیدۂ آخرت میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور باطل سے دُنیوی زندگی میں کامیاب ٹکر لینے کا تصور نااُمیدی کی نذر ہو گیا ہے۔ اِس فکری تناظر میں آپ نے ملتِ اِسلامیہ کی عظمت و سطوت اور شان و شوکت کو بحال کرانے کیلئے عالمی اِنقلاب کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔
آپ نے اپنی زندگی کو اِسلام کی سربلندی کے لئے وقف کرنے کا حلف 26 جولائی 1976ء کو دربارِ غوثیہ کوئٹہ میں شہزادۂ غوثِ اعظم قدوۃُ الاولیا سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے دست اقدس پر بصورتِ بیعت اُٹھایا، جسے ’بیعتِ انقلاب‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ یوں آپ کی زندگی کا ہر لمحہ عملاً اِنقلاب کے لئے وقف ہو گیا اور اِحیائے اِسلام آپ کی زندگی کا مقصد ٹھہرا۔
ہزار سال ہندوستان پر حکومت کرنے والی قوم 90 سال انگریز کی غلامی میں ایسی رہی کہ پاکستان کو اِسلام کا قلعہ بنانے کے عزم کے ساتھ آزادی حاصل کرنے کے باوجود طویل عرصہ تک ایک قوم بن کر بھی نہ اُبھر سکی۔ مذہبی، سیاسی، لسانی اور برادری اِزم کے گروہوں میں بٹا ہوا معاشرہ اَخلاقی لحاظ سے دِیوالیہ پن کا شکار ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اِس معاشرے میں مذہبی اِعتبار سے درج ذیل خرابیاں پنپتی چلی گئیں:
اِسلام قیامت تک کے لئے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو زندگی کے تمام (دُنیاوی و مذہبی) گوشوں میں اِنسان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے، مگر اِسلام کو سیاست و معیشت سمیت دُنیا کے تمام معاملات سے جدا کر کے محض مسجدوں میں بند کرنے کی بین الاقوامی سازش نے معاشرے پر ظلم اور کفر کا نظام مسلط کر دیا اور پڑھے لکھے لوگ اِسلام کو بطور نظام قابلِ عمل سمجھنے کی بجائے اُسے محض مسجد اور تسبیح تک محدود سمجھنے لگے ۔ یوں ’اِسلام کا ایک مکمل ضابطہ حیات ہونا‘ محض ایک رسمی جملہ بن کر رہ گیا۔
اِن حالات میں ایک ایسی تحریک کی ضرورت تھی جو نہ صرف مذکورہ بالا خرابیوں کو دُور کرے ، بلکہ ملتِ اِسلامیہ کی نشاۃِ ثانیہ اور عالمگیر اِحیائے اِسلام کے مقصد کے ساتھ ہر قسم کی فرقہ وارانہ، گروہی، علاقائی اور محدود وفاداریوں سے بالاتر ہو کر خالصتاً اِنقلابی طرز پر عالمِ اِسلام کے مؤثر اِتحاد اور اُس کی گم شدہ منزل کی تلاش کے لئے سرگرمِ عمل ہو۔
وقت کی اِسی اَہم ترین ضرورت کے پیش نظر 17 اکتوبر 1980ء کو تحریکِ منہاج القرآن کا قیام عمل میں لایا گیا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved