جہاں کچھ عاقبت نااَندیش لوگ شیخ الاسلام کی زِندگی بھر کی خدمات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُن کی بعض تجدیدی حکمتوں کے خلاف زہر اُگلنے میں مصروف ہیں وہیں ہر گوشۂ حیات سے وابستہ بے شمار ممتاز شخصیات آپ کے علمی و فکری اور اِجتہادی و تجدیدی کارناموں کی معترف بھی ہیں۔ اِختصار کے پیشِ نظر ذیل میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے چیدہ چیدہ شخصیات کے تاثرات پیش خدمت ہیں۔
’’ہم اِدارہ منہاج القرآن اور ڈاکٹر طاہر القادری کے کام سے بہت مطمئن ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری طریقہ قادریہ اور دینِ اِسلام کی عالمگیر سطح پر خدمت کر رہے ہیں۔ اُن پر کیچڑ اُچھالنا اور اس کے اُوپر تکفیر کرنا سخت ناگوار اور نقصان دِہ کوشش ہے۔ ہر کسے باشد، جو بھی اِس اِدارہ (منہاج القرآن) کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے وہ خود کو طریقۂ قادریہ پر نہ سمجھے اور یہ بھی نہ خیال کرے کہ وہ اِسلام کی کوئی خدمت کر رہا ہے، بلکہ وہ مذہب کو سخت نقصان پہنچا رہا ہے۔ چنانچہ علماءِ کرام، مشائخِ عظام، سنی، حنفی برادران بالخصوص مریدینِ حضرت غوثِ اَعظم دستگیر سے اِلتماس ہے کہ وہ دِل کی گہرائیوں سے اِدارہ منہاجُ القرآن سے وابستگی اِختیار کریں اور اُس کی خدمت کریں۔‘‘
1966ء میں دارالعلوم سیال شریف میں منعقدہ تقریب میں شیخ الاسلام نے 15 سال کی عمر میں ایسا علمی و فکری خطاب کیا کہ حضرت خواجہ صاحب نے آپ کا ماتھا چومنے کے بعد مائیک پر عظیم تاثرات سے نوازتے ہوئے فرمایا:
’’لوگو! آپ نے اِس بچے کا خطاب تو سن لیا ہے، میں آپ کو گواہ بنانا چاہتا ہوں کہ ہمیں اِس بچے پر فخر ہے، اِن شاء اللہ ایک دِن اَیسا آئے گا کہ یہی بچہ (محمد طاہرالقادری) عالمِ اِسلام اور اَہلِ سنت کا قابلِ فخر سرمایہ ہو گا۔ یہ آسمانِ علم و فن پر نیرِتاباں بن کر چمکے گا۔ اِس کے علم و فکر اور کاوِش سے عقائدِ اَہلِ سنت کو تقوِیت ملے گی اور علم کا وقار بڑھے گا۔ اَہلِ سنت کا مسلک اِس نوجوان کے ساتھ منسلک ہے اور اِس کی کاوِشوں سے ایک جہاں مستفید ہوگا۔‘‘
20 نومبر1995ء کو مرکزی سیکرٹریٹ تحریکِ منہاجُ القرآن پر منعقدہ عالمی علماء و مشائخ کنونشن میں خطبہ صدارت کے دوران فرمایا: ’’تحریکِ منہا جُ القران کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا لیکن آج اپنی آنکھوں سے دیکھا تو محسوس ہوا کہ حقیقت کے مقابلے میں کم سنا تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری صاف نیت اور پاکیزہ حسن کو لے کر نکلے ہیں۔ اُن کے اِرادے بلند اور جذبے جواں ہیں، اِس لئے کامیابیاں اُن کے قدم چومتی ہیں۔ یہ اُس برکت کا حصہ ہیں جسے اَللہ تعالیٰ اُمتِ محمدیہ پر ہر زمانے میں جاری رکھتا ہے۔ جب بھی باطل کی طرف سے فتنہ و فساد آیا، حق کی طرف سے اُسے ختم کرنے کے لئے بھی کوئی شخصیت نمودار ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لطف و کرم اور نظر عنایت ہے اور یہ فیض قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔‘‘
1980ء میں ’مجلسِ رضا‘ کے زیراِنتظام عرس حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے موقع پر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطاب کے بعد غزالی زماں حضرت سید اَحمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف آپ سے بغل گیر ہوئے، ماتھا چوما، بلکہ شرکاء محفل سے فرمایا: ’’اِس نوجوان (محمد طاہرالقادری) کا خطاب آپ نے سنا اور اُسی سے اِن کی قابلیت کا اَندازہ بھی کر لیا ہوگا۔ اِن کے والدِ گرامی ایک معتبر عالمِ دِین اور معروف طبیب تھے اور میرے دوست تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اِس نوجوان کو بہت ساری صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے۔ میں نے اِس نوجوان سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اَللہ تعالیٰ نے اِس کے سینے میں فیضانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اَیسا نور رکھ دیا ہے، جو مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہے گا اور ایک عالم کو فیض یاب کرے گا۔ کاش تم بھی اُس نور کو پھلتا پھولتا دیکھ سکو۔‘‘
1987ء میں پہلی منہاجُ القرآن کانفرنس کے موقع پر خطاب کے دوران آپ نے فرمایا: ’’خدائے قدوس کا ہم پہ اِحسان ہے کہ اُس نے آج کے دَور میں اِس مردِ مجاہد ڈاکٹر طاہرالقادری کو حسنِ بیان اور دردِ دل کے ساتھ سوچ، ذِہن اور دِل کی وہ صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں کہ جن کی بدولت سب طلسم پارہ پارہ ہو جائیں گے اور وہ دِن دُور نہیں، جب غلامانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں کامیابی کا پرچم لہرا رہا ہوگا۔ اِس پُرفتن دَور میں جب میں اِس نوجوان کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرا دِل خدا کے حضور اِحساسِ تشکر سے بھر جاتا ہے۔‘‘
وفات سے چند روز قبل ایک تفصیلی انٹرویو میں فرمایا: ’’اِس دور میں شیخ الاسلام محمد طاہرالقادری کے سوا کوئی شخص دین کی خدمت کا کام کماحقہ نہیں کر رہا۔ پروفیسر صاحب بالکل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، اُنہوں نے جو آوازِ حق بلند کی ہے اُس پر لبیک کہنا چاہئے کیوں کہ ایسے شخص بڑی مشکل سے ملتے ہیں۔ اس صدی میں کوئی شخص اُن کے پائے کا نہیں ہے۔ بہت سی ایسی باتیں ہیں جو پوشیدہ رکھنے والی ہیں۔ اِدارہ منہاج القرآن کی مخالفت دین اِسلام کی مخالفت ہے۔ اس عالمگیر تحریک سے دین کو فائدہ اور فروغ مل رہا ہے تواُس کی مخالفت کا مطلب ہوگا کہ مخالف پر قبر میں بندش ہوگی، لہٰذا اُس کی مخالفت کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اِختلافِ رائے ہر شخص کا بنیادی حق ہے لیکن دین کے معاملہ میں شدید ردِ عمل اور بغض رکھنا درست نہیں۔‘‘
’’ہم نے منہاج القرآن کے مختلف شعبہ جات اور سرگرمیوں کا مشاہدہ کیا۔ خاص طور پر ڈاکٹر طاہرالقادری کی سربراہی میں اِس تحریک کا نیٹ ورک اور نظم و ضبط دیکھ کر ہماری عقل دنگ رہ گئی۔ ہماری یہ خواہش ہے کہ ہم بھی اِس تحریک کے سپاہی بن کر اُس کی خدمت کا فریضہ سرانجام دیں۔‘‘
اپنے تحریری تاثرات میں فرمایا: ’’منہاج القرآن ایک عالمی سطح کی اِسلامی تحریک ہے اور اس کے قائد و بانی ہمارے روحانی بیٹے ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی خدمات عالمی سطح پر اِسلام کی عظمت و سربلندی کا باعث ہیں۔ پاکستان کے جملہ عقیدت مندانِ غوث اعظم منہاج القرآن کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا کریں۔‘‘
منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کے دورہ کے بعد فرمایا: ’’میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی اِحیائے اِسلام اور دین کی سربلندی کے لئے کی جانے والی کاوشوں اور خدمات سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں نے دُنیابھر میں کوئی بھی تحریک یا تنظیم تحریک منہاج القرآن سے بہتر منظم اور مربوط نہیں دیکھی۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور اُن کی تحریک اِسلام کے اِحیاء اور سربلندی کے لئے صحیح سمت پر گامز ن ہیں۔‘‘
جب شیخ الاسلام اُن سے ملاقات کے لئے دارالاحسان گئے تو راستے میں بوجوہ دیر ہوگئی۔ صوفی برکت علی رحمۃ اللہ علیہ باہر تشریف لے آئے اور بے تابی کے ساتھ فرمانے لگے: ’’ابھی تک ہمارا پیارا نہیں آیا، ابھی تک ہمارا پیارا نہیں پہنچا۔‘‘
جب شیخ الاسلام اُن کے خلوت خانہ میں گئے تو اُنہوں نے جوتے اُتارنے سے منع فرمایا دیا۔ دونوں نے خلوت میں کافی وقت گزارا اور جب باہر تشریف لائے تو فرمایا: ’’ڈاکٹر طاہرالقادری اِس دور کے عارِف باللہ ہیں۔‘‘
جب شیخ الاسلام واپس رخصت ہونے لگے تو فرمایا کہ آپ گاڑی پر سوار ہوں، میں پیدل چلوں گا۔ اس پر شیخ الاسلام نے عرض کی کہ میں بھی آپ کے ساتھ پیدل چلوں گا یا آپ بھی گاڑی میں بیٹھیں۔ لیکن اُنہوں نے حکماً فرمایا کہ آپ گاڑی میں بیٹھیں۔ پھر وہ گاڑی کے ساتھ کافی دُور تک چلتے رہے اور دعاؤں کے ساتھ رخصت فرمایا۔
28 جون 2008ء کو فرمایا: ’’میں ڈاکٹر طاہرالقادری سے محبت بھی کرتا ہوں اور عقیدت بھی رکھتا ہوں۔ بلاشبہ ڈاکٹر طاہرالقادری علومِ اسلامیہ، فن خطابت اور تصنیف و تالیف میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں اور یہ عظیم صاحبِ نسبت ہیں۔‘‘
عالمی روحانی اجتماع 2007ء کے موقع پر فرمایا: ’’ہمیں حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی محبت سے پیار ہے۔ ہم نے حضور ضیاء الامت کی زبان سے ہمیشہ شیخ الاسلام کے لئے محبت عقیدت اور چاہت کے الفاظ سنے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے پیغام کو قبلہ شیخ الاسلام اِنتہائی حکمت اور دلائل کے ساتھ پوری دُنیا میں عام کر رہے ہیں۔‘‘
’’ڈاکٹر طاہرالقادری کے فکر وپیغام کو عمل کے سانچے میں ڈھالنے کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ اس مردِ مجاہد کی سرپرستی میں جاری تحریک کے ذریعے اللہ کے دین نے اپنے اِحیاء کے لئے ہمیں پکارا ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم اُن کی اس مصطفوی تحریک کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا دیں۔‘‘
’’اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے اس دور ِزوال میں اپنے محبوب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے اس امت کو ڈاکٹر طاہرالقادری جیسا مردِ حق عطا کر دیا ہے۔ تمام مشائخ اور سجادہ نشینوں کو چاہئے کہ اپنی خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کریں اور اِحیائے اِسلام کے اس عظیم مشن کی کامیابی کے لئے شیخ الاسلام کے دست و بازو بن جائیں۔ اگر میں اور میرے مرید تحریکِ منہاج القرآن کے کام آ جائیں تو بڑی سعادت کی بات ہو گی۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل اہل اسلام کو تحریکِ منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں دو انمول تحفوں سے نوازا ہے ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کے لئے اس دور ِزوال میں شیخ الاسلام کی شخصیت بہت قیمتی سرمایہ ہے۔ اُن کی علمی، فکری، مذہبی، روحانی قیادت دین اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی امین ہے۔‘‘
’’یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میں اُس صدی میں پیدا ہوا ہوں، جو ڈاکٹر طاہرالقادری کی صدی ہے۔ ایسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ صدیاں اُن کی مقروض ہوتی ہیں اور صدیوں تک اُن پر کام ہوتا رہتا ہے۔ شیخ الاسلام بیک وقت عالم باعمل بھی ہیں اور صوفی باصفا بھی ہیں۔ یہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں معمور شخصیت عطائے خداوندی ہے۔‘‘
فروری 1988ء کو منہاج یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ڈاکٹر طاہرالقادری کی علمی ثقاہت اور مدلل گفتگو کا کوئی ثانی نہیں۔ اِدارہ منہاج القرآن ان کی قیادت میں جس سبک رفتاری سے اِشاعتِ دین اور مسلک اہل سنت کے فروغ کے لئے کوشش کر رہا ہے ، ہمیں اس کار خیر میں ان کا معاوِن بننا چاہیئے۔ ان پر تنقید و تعریض کاسلسلہ شروع کرنے والے علماء سے میری درخواست ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے خلاف محاذآرائی کی بجائے اُن کی قیادت میں ملتِ اسلامیہ میں اِتحاد و اخوت کے لئے متحد ہو جائیں۔‘‘
29 جنوری 1988ء کو مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن کے جملہ شعبہ جات کے مشاہدہ کے بعد فرمایا: ’’مجھے یہ فقیدالمثال اِدارہ دیکھ کر مسرت ہوئی۔ الحمدللہ برصغیر میں اس ادارہ کی مثال موجود نہیں۔ اہل سنت فخر سے اپنے اس عظیم اِدارہ کی مثال پیش کر سکتے ہیں کیوں کہ یہ جدید وقدیم کا حسین اِمتزاج ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری دین اسلام کی خدمت احسن انداز سے سرانجام دے رہے ہیں اور اُن کی علمی خدمات نے باطل اَفکار کا قلع قمع کر دیا ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا فکری علو اور نظری اِرتقاء قابلِ رشک ہے۔
’’ڈاکٹر طاہرالقادری حقیقی معنوں میں اِسلام اور عقائدِ صحیحہ کے پاسبان ہیں۔ وہ تمام طلباء سے منفرد و ممتاز تھے۔ اپنی کلاس کے سبق تو اُن کو یاد ہی ہوتے تھے مگر وہ کتب جو اُن کے نصاب میں نہیں تھیں اُن پر بھی مجھ سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ آج اللہ نے اُنہیں چہار دانگِ عالم میں شہرت دی ہے، اس کے باوجود میں نے ہمیشہ اُن کے اندر عجز واِنکساری کو ہی غالب پایا۔اللہ تعالیٰ ان کے علم و عمل میں اِضافہ فرمائے اور اُن کے مشن کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے۔‘‘
منہاج یونیورسٹی کے وزٹ کے بعد فرمایا: ’’یہاں قدیم و جدید علوم کا حسین اِمتزاج دیکھ کر اُمید پیدا ہوئی کہ دُنیا بھر میں اِسلام کی برتری کی موجودہ تحریک میں یہ اِدارہ گراں قدر خدمات سرانجام دے گا۔ اس پر اِدارہ کے بانی مفکر اسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، جملہ اساتذہ و طلبہ اور معاوِنین قابل مبارک باد ہیں۔‘‘
منہاج القرآن علماء و مشائخ کانفرنس کے موقع پر فرمایا: ’’تحریک منہاج القرآن کو دیگر تحریکوں سے جو چیز منفرد کرتی ہے وہ اس تحریک کی اَساس و بنیاد یعنی عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوت جگانا ہے۔ اُمتِ مسلمہ کے اِتحاد کے لئے تحریک منہاج القرآن نے ڈاکٹر طاہرالقادری کی قیادت میں جو مؤثر اِنقلابی قدم اٹھایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
’’ڈاکٹر طاہرالقادری ایک پرعزم اور اعلیٰ صلاحیتوں کی مرقع شخصیت ہیں، جن کا علمی مقام اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ دُنیا کو اِسلام کی اصل روح اور اصل چہرہ دکھا سکتے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن میں فرقہ بندی نہیں ہے۔‘‘
’’ڈاکٹر طاہرالقادری نہ صرف اِسلام کی خدمت کر رہے ہیں بلکہ اِسلامی تعلیمات کو غیرمسلموں کے لئے بھی مقبول بنا رہے ہیں، نیز فرقہ واریت کے خلاف اُن کی کاوشیں قابلِ ستائش ہیں۔ شیعہ سنی کے مابین اِتحاد کے لئے ان کی کاوشیں سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ اُنہوں نے قومی اسمبلی کی نشست سے جس اِحتجاجی طریقہ سے اِستعفیٰ دیا، یہی جمہوریت کی اصل روح ہے، بااُصول آدمی کا یہی طریقہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی اُصولوں پر سودا بازی نہیں کرتا۔‘‘
’’ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت بہت اثر انگیز ہے ۔ وہ ایک بہترین عالم اور مشنری جذبے کے تحت کام کرنے والے کامیاب اِنسان ہیں۔ ہمارے ملک کی یہ بہت بڑی خامی ہے کہ یہاں پڑھے لکھے اور مشنری جذبے سے کام کرنے والے اِنسانوں کی قدر نہیں ہوتی۔ اگر طاہرالقادری جیسا کوئی شخص باہر کی دُنیا میں موجود ہوتا تو اُس کا شمار صدی کے عظیم ترین لوگوں میں ضرور ہوتا، لیکن ہمارے یہاں پر جب اِنسان گزر جاتا ہے تو اُس کی قدر ہوتی ہے۔ جیتے جاگتے کامیابیاں حاصل کرنے والے اِنسان کی ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں اور اُسے اس کی محنت کا کریڈٹ نہیں دیا جاتا۔ لیکن میں طاہرالقادری کی حکمت اور دانشمندی کا قائل ہوں کہ اُنہوں نے بہت کم عرصے میں بے پناہ کامیابیاں حاصل کیں۔‘‘
’’ڈاکٹر طاہرالقادری کی ذاتی Integnity، اَن تھک جدوجہد، اُن کے اَفکار و کردار کی خوبصورتی، اُن کی پاکیزگی اور نیک کردار کے ساتھ مل کر اُنہیں گلشنِ اسلام کا ایک منفرد پھول بنا دیتی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری خوفِ خدا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معمور ہیں۔ اُنہیں علومِ جدیدہ و قدیمہ دونوں پر عبور حاصل ہے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی خالص، صالح اور مکمل قیادت میں تحریک منہاج القرآن اپنی منزلِ مقصود حاصل کرے گی۔‘‘
ملائیشیا عالم اسلام کی ایک تیزی سے اُبھرتی ہوئی معیشت ہے۔ نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِحکومت کے دوران گوہرایوب کی سربراہی میں ٹیکنوکریٹس کا ایک گروپ ملائیشیا کی ترقی کا جائزہ لینے کے لئے بھیجا۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے دورانِ ملاقات شیخ الاسلا م کی ایک کتاب وفد کے سامنے پیش کر دی اور کہا کہ میں اِنہیں شوق سے پڑھتا ہوں، آپ بھی ان سے استفادہ کریں۔ بعد ازاں یہ بات خود گوہر ایوب نے شیخ الاسلام کو بتائی۔
ملائیشیا میں منعقدہ تیسرے بین الاقوامی Muslim Unity Convention (19 اکتوبر تا 22 اکتوبر2010ء) میں لیکچر کے لئے برصغیر سے صرف شیخ الاسلام کو مدعو کیا گیا، جہاں اُنہوں نے تاریخی لیکچر دیا۔
معروف قانون دان، امریکی اٹارنی اور امریکن کرسچین کونسل کے ممبر ڈاکٹر مارٹن نے 1989ء کو شیخ الاسلام کے ہاتھ پر اِسلام قبول کرنے کے بعد کہا: ’’ڈاکٹر طاہرالقادری کی ساتھ کچھ وقت گزرا تو اُنہوں نے میرے دل کی دُنیا بدل دی۔ اللہ کے ذکر سے میرے اندر ایک عجیب سی کیفیت پیدا کر دی اور مجھے چاروں طرف سفید روشنی نظر آنے لگی، یقینا یہ حق کی روشنی تھی۔ میں اُن کا شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے مجھے خدا کا صحیح راستہ دکھایا۔‘‘
ڈاکٹر کرسٹوفر گریب نے شیخ الاسلام کے ہاتھ پر اِسلام قبول کرنے کے بعد کہا: ’’میں خدا کی ذات پر یقین نہیں رکھتا تھا، لیکن ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے مضبوط عقلی دلائل سے مجھے قائل کر لیا اور میرا دل خدا کے وجود اور اُس کی حقانیت کا قائل ہو گیا۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے سبب اِسلام قبول کر لیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر جوئیل ہاورڈ 8 مارچ 2011ء کو لندن میں شیخ الاسلام سے چار گھنٹے طویل ملاقات کے دوران اِس قدر متاثر ہوئے کہ اُنہوں نے مغربی دنیا میں اِسلام بارے پائے جانے والی غلط فہمیاں دُور کرنے کیلئے رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرنے کی خواہش کا اِظہار کیا۔ شیخ الاسلام نے انہیں اپنا Strategic Policy Adviser مقرر کر دیا۔ اُنہوں نے کہا: ’’یہ میرے لئے بہت بڑا اِعزاز ہے کہ مجھے شیخ الاسلام کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے کا موقع مل رہا ہے، جو دُنیا بھر میں بین المذاہب اِعتدال اور میانہ روی کے فروغ اور اِنسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے اپنے آپ کو وقف کر چکے ہیں۔ اُن کی تنظیم دُنیا کو امن کا گہوار ابنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘‘
اُنہوں نے شیخ الاسلام کی عالمی سطح پر فروغِ امن و رواداری کے لئے کاوِشوں سے متاثر ہو کر اُنہیں 8 نومبر 2010ء کو امریکہ کی Georgetown یونیورسٹی میں خطاب کی دعوت دی۔ شیخ الاسلام کے لیکچر کے دوران امریکی آرمی، نیوی اور ائیرفورس کے کیڈیٹس، تھنک ٹینکس اور دیگر سرکاری اور غیرسرکاری معروف شخصیات بھی موجود تھیں۔ شیخ الاسلام کی اِنتہائی پراثر گفتگو کے بعد پروفیسر John Esposito نے کہا: ’’میں آج سمجھا ہوں کہ دُنیا آپ کو شیخ الاسلام کیوں کہتی ہے۔‘‘
لندن میں شیخ الاسلام سے طویل ملاقات کے بعد اُنہوں نے کہا: ’’میں اپنی صحافتی زندگی میں سربراہانِ مملکت سمیت سیکڑوں بڑی شخصیات کے اِنٹرویوز کر چکا ہوں، مگر جس قدر شیخ الاسلا م ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے متاثرہوا ہوں اُتنا کسی اور شخصیت سے نہیں ہوا۔‘‘
’’ڈاکٹر طاہرالقادری بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر سیاستدان بھی اُن سے خائف رہتے ہیں، کیوں کہ تقریر، تحریر اور مدلل گفتگو میں وہ چوٹی کے سیاستدانوں میں سے ایک ہیں۔ دُنیا جانتی ہے کہ ہمارے ملک میں اَن پڑھ سیاستدانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ، جو صرف دھن، دھونس اور دھاندلی کے ذریعے سیاست کرنا جانتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ طاہرالقادری نہ تو جاگیردار ہیں، نہ سرمایہ دار اور نہ ہی پیشہ ور سیاستدان ہیں، لیکن ان کو دُنیا ایک عالم، عالمی شخصیت اور سیاستدان کے روپ میں دیکھتی ہے۔‘‘
5 اگست 2003ء کو منہاج القرآن اِسلامک سنٹر لندن کے تفصیلی دورہ کے دوران تحریک کی لائف ممبرشپ اِختیار کرنے کے بعد اپنے تاثرات میں کہا: ’’جب ڈاکٹر طاہرالقادری جیسی شخصیت اِسلام کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر دنیا کے سامنے رکھتی ہے تو مجھے اِطمینان، خوشی اور فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہم اِسلام جیسے آفاقی مذہب کے پیروکار ہیں۔ ان کی تحریک دُنیا میں اِسلام کی اصل روح کے فروغ کے لئے ایک اہم فریضہ سرانجام دے رہی ہے ۔ ایک پلیٹ فارم پر اِتنے پڑھے لکھے لوگوں کا جمع ہونا قابلِ ستائش ہے۔ میں نے منہاج القرآن اِسلامک سنٹر لندن کے جملہ شعبہ جات، اُس کے تعلیمی منصوبہ جات اور ویلفیئر پراجیکٹس کا مشاہدہ کیا ہے اور میں یہ بات بڑے وثوق سے کہتی ہوں کہ پاکستان سے باہر کوئی بھی جماعت یا تنظیم منہاج القرآن انٹرنیشنل کا مقابلہ نہیں کر سکتی‘‘۔
ویمبلے لندن میں منعقدہ انٹرنیشنل اسلامک کانفرنس کے موقع پر کہا: ’’میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے ذاتی عقیدت مند کی حیثیت سے اس کانفرنس میں شرکت کر رہا ہوں۔ اِدارہ منہاج القران نے بین الاقوامی سطح پر جو ترقی کی ہے اللہ تعالیٰ پر پختہ اِیمان اور عشق مصطفوی کے بغیر ممکن نہ تھی۔ اِدارہ کے بانی ڈاکٹر طاہرالقادری نے آج تک حکومت پاکستان یا حکومت کے کسی اِدارے سے کسی قسم کی مدد لئے بغیر جو ترقی کی ہے وہ آج کے دور میں کسی معجزے سے کم نہیں۔ میں صرف اپنی ذاتی حیثیت سے اس انٹرنیشنل کانفرنس میں اِتحادِ اُمت کا یہ ایمان افروز منظر دیکھنے کے لئے آیا ہوں۔‘‘
’’ڈاکٹر طاہرالقادری کا اِدارہ اِشاعت اسلام، اِتحاد اُمت اور دعوتِ دین کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں دُنیا بھر کی اِسلامی تحریکوں سے بازی لے گیا ہے۔ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن میں فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر نئی نسل کو اِحیائے دین کے لئے تیار کیا جا رہا ہے، جو بہت خوش آئند بات ہے۔ طلبہ میں تقویٰ اور پرہیزگاری کے جذبات دیکھ کر میری طبیعت بہت خوش ہوئی ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ ان کی کوششوں کے نتیجے میں معاشرے میں دین اور اہلِ دین دونوں کا وقار بلند ہوگا۔‘‘
’’ڈاکٹر طاہرالقادری کے علمی مقام کا ہر شخص معترف ہے اور جب میں اُن کی پرعزم علمی و فکری شخصیت کو دیکھتا ہوں تو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں زبانِ حال سے پکار اٹھتا ہوں کہ ’ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی‘ اقبال نے اپنے فکر میں جو آرزو قائم کی تھی، وہ خوبیاں آج ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔‘‘
’’میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا بہت بڑا مداح ہوں اور اُن کی صلاحیتوں اور فن خطابت کا معترف ہوں۔ میں خود اپنے دوستوں کو تجویز کرتا ہوں کہ وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو سنا کریں۔ وہ ایسے لوگوں میں سے ایک ہیں جن کے جذبوں میں ولولہ بھی ہے اور سچائی بھی۔ ہمیں آج کے دور میں ایسے لیڈر کی اشد ضرورت ہے جو قوم کی صحیح سمت میں رہنمائی کریں۔‘‘
’’ڈاکٹر طاہرالقادری کے فکری مقام اور علمی وسعت کو ناپنا ناممکن ہے۔ حیرت انگیز اَمر یہ ہے کہ ایک شخص اِتنے مختصر عرصہ میں وہ سب کچھ کر ڈالے جو ڈاکٹر صاحب نے کیا۔ اِتنا علمی نام، اِتنی تصانیف، اِتنی زیادہ عملی خدمات، اِتنے زیادہ اِدارے، دُنیا کے اِتنے ممالک میں تنظیمی نیٹ ورک اور اِتنے مختصر عرصے میں!!! یہ سب کچھ دیکھ کر اِنسان محوِ حیرت رہ جاتا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری روایتی علماء سے کلیتاً مختلف شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ نہ صرف ایک متبحر عالم دین ہیں بلکہ ایک مفکر بھی ہیں، ایک روحانی رہنما بھی ہیں، معاشرتی مصلح بھی ہیں، سیاسی مدبر بھی ہیں اور ایک عظیم قائد بھی ہیں۔‘‘
’’ڈاکٹر طاہرالقادری کے خطابات میں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی درس ہوتا ہے۔ دُعا ہے کہ اللہ منہاج القرآن کو اِنسانیت کی مزید خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘
منہاج القرآن انٹرنیشنل کانفرنس لندن میں شرکت کے بعد اپنے تاثرات میں کہا: ’’تحریکِ منہاج القرآن کی دعوت پر عالم اسلام کی سیکڑوں کی تعداد میں نامور شخصیات اور علماء و مشائخ کو ایک پلیٹ فارم پر اِکٹھا دیکھ کر ایک ناقابلِ بیان مسرت ہوئی۔ ایک غیر ملک میں جا کر اِتنی عظیم الشان کانفرنس کا اِنعقاد یقینا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اِتنے وسیع و عریض ویمبلے ہال اور ملحقہ ہالوں میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ یہ تمام منظر دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ تحریکِ منہاج القرآن کے عالمگیر مشن کو قادری صاحب، جو کہ ایک مہم جو شخصیت ہیں، ضرور پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔‘‘
’’ڈاکٹر طاہرالقادری کی تمام توجہات جس طرح بیداری شعور اور تجدیدِ دین کے لئے وقف ہیں اس عمل کے دُوررس نتائج نکلیں گے اور اس جدوجہد کا پھل پورا عالم اِسلام کھائے گا۔ ان کا اندازِ دعوت و تبلیغ غیرمسلکی ہے، جو پاکستان کی فرقہ وارانہ کشاکش میں ایک نعمت سے کم نہیں۔ تحریک منہاج القرآن واقعی اِتحاد بین المسلمین کی داعی ہے۔‘‘
4 اپریل 1998ء کو روزنامہ جنگ میں تحریر کیا: ’’میں نے اس تحریک کی کامیابی کے نشانات کوہستانِ دہر میں نمایاں دیکھے ہیں اور مجھے اِس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اِس وقت پورے یورپ میں اِدارہ منہاج القرآن کی شاخیں پاکستانی کمیونٹی میں مذہب کو راسخ کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اِسلام کو ایک جدید اور مؤثر مذہب کے طور پیش کیا ہے۔ منہاج القرآن سے وابستہ لوگ دین اور دُنیا کو یکساں طور پر پہچانتے ہیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق یورپ بھر میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے پیروکاروں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اِضافہ ہو رہا ہے اور لوگ بڑی فراخدلی سے اُن کے منصوبہ جات کے لئے فنڈز دیتے ہیں۔‘‘
’’جب تک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جیسے مبلغ اِسلام موجود ہیں اسلام دُنیا کا نقشہ بدلتا رہے گا۔ اِسلام کے اِس سپوت کے ذہن میں تبلیغ اِسلام کے حوالے سے نت نئے خیالات سوجھتے رہتے ہیں۔‘‘
’’شیخ الاسلام کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں۔ مختصر سے وقت میں اُن کی ہمہ جہتی خدمات اور کارنامے عشق کی دولت کے بغیر ممکن نہیں۔ شیخ الاسلام ایک آفاقی شخصیت ہیں، جنہوں نے اپنی تصانیف اور خطابات کے ذریعے اِسلام کی صحیح تعبیر و تشریح کی اور اُمتِ مسلمہ کو متحد کرنے اور تفرقہ کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔‘‘
’’ڈاکٹر طاہرالقادری کو اللہ تعالیٰ نے بے اِنتہا علم سے نوازا ہے ، بلاشبہ وہ دینی علم ہی نہیں بلکہ فنونِ لطیفہ سمیت دیگر کئی علوم پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔ اُن کی فنونِ لطیفہ اور دیگر موضوعات پر علمی گرفت نے مجھے پہلی ہی ملاقات میں حیران کر دیا اور بعد ازاں یہ حیرانگی بڑھتی گئی۔ اُن سے ملاقات کے بعد سب سے پہلا اثر مجھے اُن کی شخصیت کے حوالے سے جو محسوس ہوا وہ یہ تھا کہ میرا قلب و ذہن یہ کہہ رہا تھا کہ یہ واقعتا ایک سچا اور مخلص انسان ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved