یہ ایک امر واقعہ ہے کہ اپنی سطوت و شوکت کے کم و بیش بارہ سو سالہ عروج کے بعد جب سے اُمتِ مسلمہ زوال و اِنحطاط کا شکار ہوئی ہے، زِندہ قوموں کی طرح دینی و دنیوی ترقی و فلاح کی طرف عازمِ سفر رہنا بھول چکی ہے۔ ہم نے خود کو سطحی اور لایعنی اِختلافات میں اُلجھا کر اقوامِ عالم کو اِس بات کا کھلا موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ہمارے اَسلاف کی علمی و فکری اور سائنسی تحقیقات کے ثمرات سے مستفید ہو سکیں اور خود منظرِ ہستی سے دُور کنارے ہٹ کر زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں اور صحیح معنوں میں اپنی اِس شکست کا اِدراک بھی نہیں رکھتے۔ نتیجتاً ذِلت و رسوائی، زوال و مسکنت اور اِدبار و اِنحطاط کے دبیز سائے ہمارا مقدّر بن کر رہ گئے ہیں۔
عالمِ اسلام کی موجودہ زبوں حالی اور اُمتِ مسلمہ کی ناکامی کا ایک بڑا سبب سائنسی علوم کی طرف ہماری عدم توجہی اور اِغماض کی روِش ہے، جس کے نتیجے میں اُمتِ مسلمہ اَقوامِ عالم کے مقابلے میں کسی بھی میدانِ مسابقت میں بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ اگر ہم دِقتِ نظر سے تاریخِ اِنسانی کا بے لاگ مطالعہ کریں تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ہمارے اَسلاف نے ایک ہزار سال کے طویل عرصہ تک پوری دنیا کو فکر و فلسفہ اور علم و ہنر کے بے مثال کارناموں کے ساتھ بے شمار سائنسی علوم کی بنیادوں سے بھی فیض یاب کیا۔ جدید سائنس جسے بجا طور پر عصری علم قرار دیا جاسکتا ہے، اُسے ترقی کے موجودہ بامِ عروج تک پہنچانے میں ہمارے روشن ضمیر آباء و اجداد کی علمی خدمات کا بہت بڑا عمل دخل تھا۔ اُنہوں نے علم و ہنر کی جو شمع روشن کی اُس سے جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی اَقوامِ مغرب نے اِکتسابِ نور کیا۔
ہمارے اَسلاف نے اپنے دور کے عصری علوم کے ذریعے اُن حملوں کے خلاف جو عالمِ کفر کی طرف سے اِسلامی عقائد و نظریات پر کئے جاتے رہے، موثر دفاع کیا۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے وہی ہتھیار استعمال کیا جو دُشمن کا ہتھیار تھا۔ ذہنی قضیوں پر مشتمل یونانی فلسفے کا جواب عقلی و منطقی انداز سے دیا اور ان حملوں کو اپنی عقلی و فکری توجیہات اور علمی تصریحات سے ناکارہ بنا کر رکھ دیا اور اسلام کی صداقت و حقانیت پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ مگر افسوس صد افسوس تقریباً پچھلی دو صدیوں سے وہ پانسہ پلٹ چکا ہے اور عصری علوم کی وہ بساط جو اپنے دورِ عروج میں مسلمان اہلِ علم و دانش نے بچھائی تھی، اُس پر غیرمسلم قومیں قابض ہیں۔ آج کا مسلمان ہر میدان میں راہِ پسپائی اِختیار کرنے کے بعد اُن کا دستِ نگر اور تابعِ مہمل بن کر رہ گیا ہے۔ پچھلی ایک صدی سے بالعموم اور گزشتہ نصف صدی سے بالخصوص مغرب کی طرف سے سائنسی اندازِ فکر میں اِسلامی عقائد و تعلیمات پر جو تابڑ توڑ جارحانہ حملے ہوتے چلے آرہے ہیں، ہمارے اَسلاف کو اُن کا سامنا نہ تھا۔
باطل اور عالمِ کفر کے یہ حملے پہلودار اور کئی جہتوں کے حامل ہیں اور معاملہ اُس وقت اور بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے جب ہمارے نام نہاد مذہبی سکالر مغربی فکر کے خوشہ چیں ہوجاتے ہیں اور اہلِ مغرب جو سِرے سے رُوحانیت کے قائل ہی نہیں، اُن کی اِلہاد پرور اور مادّہ پرستانہ سوچ اور ذِہنیت کا پرچار کرنے لگتے ہیں۔ ہمارے یہ سطح بین دانشور مغربی اہلِ علم کی ہمنوائی میں اُن کے نظریات و خیالات کی جگالی کرتے ہیں اور اُس رُوحانیت کی نفی کو جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل کی بنیاد ہے، اپنا شِعار بنالیتے ہیں۔ اِس صورتِ حال کا گہرائی میں جاکر ناقدانہ تجزیہ (Critical Analysis) کریں تو اِس کا یہ بنیادی سبب سامنے آتا ہے کہ اِس وقت علم و دانش کا مرکز عالمِ اسلام کی بجائے مغرب اور یورپ کی درسگاہیں بنی ہوئی ہیں اور اُن کے وضع کردہ سانچوں میں ڈھلنے والا علمی سرمایہ مغربی ملحدانہ فکر و فلسفہ کی گہری چھاپ رکھتا ہے۔ زمانۂ حال کے مسلم علماء و محققین کی بڑی اکثریت مغربی فکر سے متاثر اور مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ نتیجتاً اِسلام پر سائنسی بنیادوں پر کئے جانے والے تازہ مغربی حملوں کا اُن کے پاس کوئی موثر اور خاطر خواہ جواب نہیں ہوتا اور وہ اُن حملوں کے جوب میں اکثر معذرت خواہانہ رویہ اپناتے ہیں یا پھر دقیانوسی یونانی فکر و فلسفہ کے بل بوتے پر جواب دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ہماری فکری کم مائیگی اور اِفلاس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ علمی سطح پر یونان کو ختم ہوئے صدیاں گزر گئیں مگر ہمارے دینی مدارس میں یونانی فلسفہ ابھی تک شاملِ نصاب ہے۔ عملی و فکری اِرتقاء میں حائل اِس جمود کے نتیجے میں ہماری تخلیقی قوت و توانائی (Creative Energy) کے سُوتے خشک ہو چکے ہیں۔ ایسے میں باطل کی فکری و علمی یلغار کا مقابلہ کیونکر ممکن ہے! بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ :
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لَا الٰہ الَّا اﷲ
مقامِ تاسف ہے کہ عصرِ حاضر میں عالمِ اسلام مضبوط دلائل ہونے کے باوجود اچھے وکلاء نہ ہونے کی بناء پر اپنا مقدمہ ہارتا نظر آرہا ہے جبکہ عالمِ طاغوت اور اسلام دشمن قوتیں اپنا کمزور مقدمہ مضبوط اور طاقتور وکلاء کی محنت کی وجہ سے جیتتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس صورتِ حال کا مداوا صرف اِسی صورت ممکن ہے کہ اسلامی علوم کی اشاعت کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی ترویج اور فروغ پر بھی ہر ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے۔ عصری علوم کے سیکھنے اور سکھانے پر توجہ اِس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ قدیم یونانی فلسفہ کی نسبت قرآن و سنت سے زیادہ قریب تر ہیں اور موجودہ دَور کے اکثر سائنسی حقائق و اِنکشافات قرآن و حدیث کے ماخذ و مصادر سے حاصل کردہ معلومات کی تصدیق و توثیق (Verification & Validation) کرچکے ہیں۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ جوں جوں جدید سائنس کی تحقیقات کا دامن پھیلتا چلا جائے گا، اِسلامی تعلیمات کی حجیت اور قطعیت سارے عالم پر آشکار ہوتی چلی جائے گی اور اِس ضمن میں مزید ترقی اور اِرتقاء کے اِمکانات کھلتے چلے جائیں گے۔
عالمِ اِسلام کے موجودہ حالات کن اسباب و عوامل کا نتیجہ ہیں؟ کیا سبب ہے کہ ہم اپنے نقطۂ نظر، اِستدلال اور نظریئے کے درست ہونے کے باوجود زمانے کی عدالت میں اپنے مقدمے کی وکالت ٹھیک طور سے نہیں کر پا رہے اور جدید دنیا ہمارے مبنی برحق مؤقف اور اِستدلال کو تسلیم کرنے سے اِنکاری ہے؟ اِس صورتحال کا بے لاگ تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے کہ ہم مِن حیث المجموع دورِ حاضر کے تقاضوں سے کما حقہ آگاہ نہیں ہیں۔ اُمتِ مسلمہ کی اکثریت اُس زبان سے با خبر نہیں جس کے ذریعے عالمی رائے عامہ کی عدالت میں اغیار کو اپنے مؤقف پر قائل کیا جا سکتا ہے۔ ہم اس اسلحہ و تکنیک سے یکسر محروم ہیں جس سے لیس ہوکر اِسلام دُشمن قوتیں ہم پر تابڑ توڑ حملے کر رہی ہیں۔ دُشمن اِنٹرنیٹ پر قرآنِ مجید میں تحریف کرتا ہے تو ہم اُس کا جواب اُسی سطح پر دینے کی بجائے فقط اپنے رسائل و جرائد میں اِس عملِ قبیح پر ملامت کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ دشمن ہم پر توپوں اور ٹینکوں سے مسلح ہوکر حملہ کر رہا ہے اور ہم اُس کے مقابلے میں تیر کمان لئے کھڑے ہیں۔ وہ ہماری صفوں کو منتشر کرنے کے لئے بمباری کرتا ہے اور ہم پتھر لئے اُس کے مقابلے میں نکل آتے ہیں۔
دورِ جدید میں سائنس برق رفتار ترقی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ مغربی دُنیا کو بجا طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کی محیرالعقول ترقی پر ناز ہے اور وہ اُس علمی برتری اور سائنسی ترقی کے بل بوتے پر دیگر بہت سی مفلس و کمزور قوموں کی طرح عالمِ اسلام کو بھی اپنا زیرنگیں بنا کر رکھنا چاہتی ہے۔ جدید تہذیب۔ ۔ ۔ جو فی الحقیقت سائنسی تہذیب کا دُوسرا نام ہے۔ ۔ ۔ جغرافیائی فاصلوں کا خاتمہ کرتی چلی جارہی ہے۔ لاکھوں میل کی مسافت میں بکھری اِنسانی آبادی گلوبل ویلج (Global Village) بن کر رہ گئی ہے۔ سائنسی تحقیقات کی بدولت صحرا و بیاباں لہلہاتے کھلیانوں اور گلستانوں میں تبدیل ہو رہے ہیں اور زیر زمین مدفون خزانے اِنسان کے قدموں میں ڈھیر ہو رہے ہیں۔ سائنس نے دورِ حاضر کے اِنسان کے ہاتھوں میں وہ قوت دے دی ہے جس کے بل بوتے پر وہ پوری دنیا کے وسائل کو اپنے تصرّف میں لاسکتا ہے۔ لیکن قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ مغربی اَقوا م سائنس اور ٹیکنالوجی پر قابض ہونے کی وجہ سے دنیا کی پس ماندہ قوموں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا محتاج اور دستِ نگر رکھنا چاہتی ہیں۔ اِس سلسلے میں اُن کا خصوصی ہدف دنیا بھر کے مسلمان ہیں، جنہیں وہ سائنسی ترقی کے ثمرات اور ٹیکنالوجی سے محروم رکھنے کے لئے ہر قسم کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے کام لے رہے ہیں۔ دُوسری طرف ہمارا حال یہ ہے کہ دورِ جدید کے عصری و سائنسی علوم کی ترویج اور تعلیم کی بجائے ہزاروں سال پرانے یونانی فلسفہ جیسے متروک علوم کو ابھی تک اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور اُن کی تدریس ہماری اِسلامی درسگاہوں میں ابھی تک شاملِ نصاب چلی آرہی ہے۔
جدید سائنس اپنی طویل تحقیقات کے بعد جن نتائج پر پہنچی ہے، اُن میں سے بیشتر قرآن و حدیث میں بیان کردہ حقائق کی توثیق و تصدیق کرتے ہیں۔ اِن حالاتمیں تمام مسلم ممالک کے علماء، محققین اور سائنس دانوں کا فرضِ منصبی ہے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور عالمِ اسلام کو علمی و فکری اِفلاس اور پس ماندگی سے نجات دِلانے کے لئے ایک ایسا لائحۂ عمل اِختیار کریں جس سے موجودہ دِگرگوںصورتحال کا مداوا ممکن ہو۔
اوائل دورِ اِسلام میں جب سائنسی علوم ابھی رحمِ مادر میں تھے اور یونانی فلسفہ ہی چہار دانگِ عالم میں عقل کا معیارِ اَتمّ تصور کیا جاتا تھا، تب ہمارے اَسلاف ائمہ کرام نے اِسلامی تعلیمات و نظریات کے فروغ کے لئے اِسلام پر ہونے والے فلسفیانہ حملوں کا جواب یونانی فلسفہ ہی کی زبان میں دیا تھا اور یہی ایک مؤثر صورت تھی جو علمِ کلام کے نام سے معروف ہوئی۔ موجودہ نسل سائنسی دَور میں پروان چڑھی ہے۔ آج کا کم پڑھا لکھا سادہ اِنسان جسے سائنسی علوم سے اِس قدر شغف نہیں، وہ بھی سائنسی طریق کار سے کم از کم ضرور آگاہ ہے، اور جانتا ہے کہ سائنسی بنیادوں پر کام کرنے سے کس طرح نتائج 4=2+2 کی طرح منطقی انداز سے درُست برآمد ہوتے ہیں۔ دَورِ حاضر کے اِنسان سے مخاطب ہونے اور اُسے اِسلامی تعلیمات و عقائد سے رُوشناس کرانے کے لئے ’’جدید علمِ کلام‘‘ کی ضرورت ہے۔ موجودہ دَور ’’صغریٰ‘‘ اور ’’کبریٰ‘‘ کے درمیان موجود ’’حدِاوسط‘‘ کو گرا کر ’’نتیجے‘‘ تک پہنچنے کا دَور نہیں بلکہ اِس دَور میں تجربہ، مشاہدہ، مفروضہ اور پھر بارہا تجربات سے حاصل ہونے والے تنظیم شدہ نتائج کے ذریعے ’’نظریئے‘‘ تک پہنچنے کا اُسلوب ’’حقیقت‘‘ تک رسائی کے عقلی اُسلوب کے طور پر مانا جاتا ہے۔
قرونِ اولیٰ میں یونانی فلسفے کی اِسلامی عقائد پر یلغار کے جواب میں اُس دَور کے ائمہ کرام نے علمِ کلام کو فروغ دیا اور اُس کے ذریعے یہ ثابت کر دیا کہ اِسلام ہی دینِ برحق ہے۔ آج اگر ہم اِسلام کی حقیقی خدمت اور تبلیغِ دین کا فریضہ سراِنجام دینے کے خواہشمند ہیں تو ہمیں اُنہی اَئمہ کرام کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے موجودہ دَور کی عقل کی کسوٹی۔ ۔ ۔ سائنسی طریق کار۔ ۔ ۔ کے مطابق اِسلام کی ترویج و اِشاعت کا فریضہ سراِنجام دینا ہو گا اور مستشرقین کے نازیبااور اِسلام کش وطیروں کا سدباب کرنے کے لئے’’ جدید علمِ کلام‘‘ اپنانا ہو گا، جس میں سائنسی اندازِ فکر رکھنے والے معاشروں تک اِسلام کا پیغام بحسن و خوبی پہنچانے کا اِنتظام ہو۔
اِسلام کا مؤثر اور خاطر خواہ دِفاع صرف اِسی صور ت میں ممکن ہے کہ ہم دین کے علم کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے کے لئے نسلِ نو کے طلباء کو جدید سائنسی علوم اور نظریات و تحقیقات سے شناسا کریں تاکہ اُن تعلیمات کی روشنی میں وہ عصری علوم سے مسلح ہوکر اُن حملوں کا مقابلہ کرسکیں جو مغرب کی طرف سے اِسلام پر کئے جا رہے ہیں۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کا فروغ تو کجا محض ان کا دِفاع بھی اِس کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمارا یہ اِقدام بعینہ اپنے اَسلاف کی سنت پر عمل ہو گا۔ جس طرح اُنہوں نے اپنے زمانے میں یونانی فلسفہ کو شاملِ نصاب کر کے اور یونانی علوم پر دسترس حاصل کر کے یونانیوں کے غیرفطری فکر و فلسفہ کا ردّ کیا، اُسی طرح ہمیں بھی جدید سائنس پر یدِطولیٰ حاصل کر کے مغربی ملحدانہ و کافرانہ نظریات و تصورات کا ردّ کرنا ہو گا۔ بصورتِ دیگر اِسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا خواب کسی طور پر بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پائے گا۔ فی زمانہ صورتحال یہ ہے کہ علم تو اپنی معراج کی طرف سرگرداں ہے اور ہم یکسر لکیر کے فقیر بنے ہوئے اپنی اُسی روِش پر قائم ہیں۔ اِس سے پہلے کہ اِسلام دُشمن قوتیں ہمیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیں ہمیں اپنی حکمت و دانش سے مؤثر اِقدام کے ذریعے اُن کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دینا ہوگا۔
اُٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی بپا
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ اِس خلفشار اور بے یقینی کے دَور میں جب اِسلام کو ہر طرف سے تختۂ مشق بنایا جارہا ہے، اُمتِ مسلمہ ہی کے کچھ ایسے اَفراد نام نہاد واعظین و مبلغین کے لبادہ میں مصروفِ عمل ہیں، جنہوں نے رُوحانی اِسلام کی تبلیغ و ترویج کی بجائے اِسلام کے مادّی تصوّر کو اُبھارنا اپنا مطمعِ نظر بنالیا ہے۔ رُوحانیت کی نفی، عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنکار، معجزات کا ردّ اور کشف کی تکذیب پر اپنی زبان و قلم کا زور صرف کرنا اُن کا شِعار ہے۔ اولیاء و صوفیاء کی محبت اور اُن کی تعلیمات سے اِنکاری ہوکر وہ اِسلام کا ایسا مَن گھڑت تصوّر پیش کرتے ہیں جو اُن کی مادّی توجیہہ سے تو ہم آہنگ ہے لیکن اِسلام کی حقیقی تعلیمات کے ساتھ اُس کا دُور کا بھی علاقہ نہیں۔ یوںاِس نقطہ پر آ کراُن کی اور دُشمنانِ اِسلام مستشرقین کی بولیاں کسی حد تک ایک دوسرے سے مل بھی جاتی ہیں۔ اِس لئے کہ اِسلام دُشمن نظریات کے حامل مغربی دانشور اور مستشرقین بھی اُمتِ مسلمہ کو اُسی سرچشمے سے دُور کرنا چاہتے ہیں جو رُوحانیت سے پھوٹتا ہے اور یہ نام نہاد مبلغینِ اِسلام بھی رُوحانیتِ اِسلام کے فیضان سے مُنکر ہوکر اُن کے ہم نوا بن گئے ہیں۔
اَغیار تو ببانگِ دُہل یہ بات کہتے نہیں تھکتے کہ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح زندہ اور رُوحانی فیضان کے حامل ہو سکتے ہیں؟ یہ کج نہاد اور برخود غلط علماء بھی یہی بات کہتے ہیں کہ ہمارا نبی زندہ نہیں۔ وہ صرف قرآن کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں اور صاحبِقرآن کی عظمت و رُوحانیت سے اِنکاری ہیں۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ دینی مدارس میں تبلیغِ دین کا فریضہ سراِنجام دینے والے علماء کا عوام کی بڑی اکثریت سے رابطہ اور تعلقِ خاطر بالکل کٹ چکا ہے۔ وہ میدان جہاں تبلیغ کی اصل ضرورت ہے، وہ اُن کے حلقۂ اَثر سے باہر ہے۔ اِس وقت اِسلام کے نظریات و تصوّرات کی جنگ جس سطح پر شرق تا غرب، عرب و عجم کی سرزمین پر شدّ و مدّ کے ساتھ لڑی جارہی ہے، وہ ہمارے عام علماء کی رسائی سے باہر ہے۔ اگر ہمارے علماء میں سے کوئی کفر و اِلحاد کے معرکوں کا مقابلہ کرنے کے لئے وہاں پہنچتا بھی ہے تو وہ عصری علوم سے محرومی کی بنا پر دَعوت و تبلیغ کے لئے اُن دلائل کا سہارا لیتا ہے جو قرآن و سنت اور دَورِ حاضر کی علمی تہذیب کی سطح سے کہیں نیچے ہیں۔ اُن کے پاس محض کتابی و کراماتی دلائل ہیں یا تذکرے، مناظرے، فتوے اور اَشعار سے مزین باتیں اور تنقیدیں، جن سے وہ آج کے سائنسی ذِہن کی تسلی و تشفی نہیں کرسکتے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ قرآنی آیات اور اَحادیثِ مبارکہ سے جو مؤقف ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ اُن سے نہیں ہو پاتا اور خلطِ مبحث سے یہ نہیں کھل پاتا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط! وہ قرآنی آیات اور اَحادیث کی غلط تفسیر و توجیہہ کر کے اِس بات کو شِرک اور بدعت ثابت کرتے ہیں جو شِرک اور بدعت نہیں۔ اِسی طرح فتووں کا کاروبار گرم کر کے اُنہوں نے تکفیر سازی کے کارخانے کھولے ہوئے ہیں، جن سے وہ جسے چاہیں آنِ واحد میں کافر ثابت کردیتے ہیں۔ یوں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ قرآن و سنت کا نام لے کر قرآن و سنت پر مبنی عقیدے کی جڑیں کاٹی جا رہی ہیں اور کوئی اُن کے قلم اور زبان کو روکنے والا نہیں۔ (اِس موضوع پر اِسلامی عقیدے کی جزئیات سے آگہی کے لئے راقم کی کتب ’’عقیدۂ توحید اور حقیقتِ شِرک‘‘ اور ’’تصورِ بدعت اور اُس کی شرعی حیثیت‘‘ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے)۔
اِشاعت و تبلیغِ دِین کے ذریعے نئی نسل کو اِسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی عقلی و سائنسی ترغیب وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لیکن مقامِ اَفسوس ہے کہ ہمارے کج فکر نام نہاد مبلغینِ اِسلام قرآن و حدیث ہی کے ناقص اِستنباط و اِستدلال کا سہارا لیتے ہوئے نوجوانوں کو اِسلامی تعلیمات کے قریب لانے کی بجائے اُن کی دِین سے دُوری کا باعث بن رہے ہیں۔
موجودہ دورِ فتن کے پیشِ نظر عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ عام طور پر علمائے کرام اِسلام کی صحیح وکالت میں ناکامی کی صورت میں زمانے کو بُرا بھلا کہنے لگ جاتے ہیں۔ اپنے نامناسب طرزِعمل اور زمانے کا ساتھ نہ دے سکنے والے فکر پر نظرِ ثانی کی بجائے زمانے کو گالی دے کر اپنے فرائضِ منصبی سے سبکدوش ہو جانا ایک آسان کام ہے۔ اِسی وجہ سے سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا :
لَا تَسَبُّوْا الدَّهْرَ فَاِنَّ اﷲَ هُوَ الدَّهْر.
(مسند احمد بن حنبل، 5 : 299، 311)
سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانِ مبارک اپنے اندر بیش بہا لطائف و معارف کا خزانہ رکھتا ہے۔ زمانے کو برا کہنے سے کوئی بات نہیں بنے گی بلکہ اِس کے برعکس معاملہ اور بگڑ جائے گا۔ اِس لئے کہ زمانے کا کام عدل کرنا ہے، اُسے سُستِ نہاد و سُست کوش مسلمانوں کے نفع و نقصان سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ تو اُ س کے حق میں فیصلہ دے گا جو اپنا مؤقف بہتر طریقے سے اُس کے سامنے پیش کرے گا۔
علماء و مبلغین کی ایک بڑی اکثریت عام طور پر قرآن و حدیث کو جس انداز سے پیش کر رہی ہے، وہ نئی نسل کو اِسلام کی طرف راغب کرنے کی بجائے اُس کے اندر مذہب بیزاری اور گمراہی کے رُجحانات کو فروغ دے رہا ہے۔ وہی قرآن جو سراپا ہدایت ہے، اُس کی مَن مانی اور غلط تشریحات سے گمراہی بھی اَخذ کی جا سکتی ہے اور ایسا فی الواقع ہو رہا ہے۔ قرآن حکیم اپنے بارے میں خود فرماتا ہے :
يُضِلُّ بِه کَثِيْراً وَّ يَهْدِیْ بِه کَثِيْراً.
(البقره، 2 : 26)
یہ (قرآن) بہت سوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے۔
عالمِ اِسلام کی موجودہ نوجوان نسل بالعموم اور پاکستانی نسل بالخصوص جدید سائنسی تعلیم سے آراستہ ہوکرقرآن و سنت پر مبنی اُن عقائد و نظریات اور اَعمال کو تنقیدی نظر سے دیکھنے لگی ہے اور اُنہیں اَوہام و رسوم سے زیادہ درجہ دینے کو تیار نہیں، جو بزرگوں سے اُن تک روایتی انداز میں پہنچے ہیں۔ مغربی یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ جدید نسل جب رُوحانی سلسلوں کا نام سنتی ہے تو وہ اپنے بزرگوں کے سامنے جراتِ لب کشائی کرتے ہوئے اِستفسار کرنے لگتی ہے کہ یہ قادری، سہروردی اور چشتی سلسلے کیا ہیں؟ اِن کی اِفادیت اور ضرورت کیا ہے؟ مشائخ اور پیرانِ کرام کو ہم اپنا رہبر و رہنما کیوں مانیں؟ جو کچھ مانگنا ہو براہِ راست خدا سے کیوں نہ مانگا جائے؟ یہ توسل اور واسطہ کیونکر ضروری ہے؟ (اِس سلسلے میں راقم کی کتب ’’مسئلہ اِستغاثہ اور اُس کی شرعی حیثیت‘‘ اور ’’قرآن و سنت اور عقیدۂ توسل‘‘ کا مطالعہ مفید ہو گا)۔ اِس قبیل کے ہزاروں سوالات جو پڑھی لکھی نوجوان نسل کے ذِہنوں میں پرورش پاتے ہیں، کبھی کبھار نوکِ زبان پر بھی آجاتے ہیں۔ اَب بجائے دلیل سے بات کرنے اور سمجھانے کے ہم نئی نسل کی لب کشائی کو دریدہ دہنی اور گستاخی پر محمول کرنے لگتے ہیں اور اُنہیں کہتے ہیں کہ تم گستاخ ہو اور اپنے باپ دادا کے طریقے سے اِنحراف کی راہ اِختیار کرکے بھٹک گئے ہو۔ ہماری اِس ڈانٹ ڈپٹ اور دھمکی آمیز گفتگو سے عارضی طور پراُن کا اپنی زبانیں بند کرلینا تو کسی حد تک ممکن ہے مگر کچھ ہی عرصہ بعد وہ اِسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر باغی اور سرکش ہوجائیں گے۔ دِین سے اِس درجہ دُوری اور باغیانہ روِش کا واحد سبب پرانی نسل کا اپنی نئی نسل کے سامنے دِینی تعلیمات اور اُن کے اَثرات کو جدید انداز اور عصری علم کی زبان میں بہتر طوت پر پیش نہ کر سکنا ہے۔
راقم کو ایک تنظیمی و تحریکی دَورے میں لندن میں قیام کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کا موضوع کی مناسبت سے مختصر تذکرہ خالی از فائدہ نہ ہوگا۔
ہمارے ایک بزرگ ہیں، جن سے ہماری برسوں سے دوستی ہے۔ وہ اور اُن کے والد گرامی صاحبِ نسبتِ مجاز بزرگ ہیں۔ ایک دن وہ میری قیام گاہ پر مجھ سے ملنے آئے اور اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ۔ ۔ بلکہ روہانسے سے ہوگئے۔ پوچھا کہ حضرت کیا بات ہے؟ خیریت تو ہے؟ کہنے لگے۔ ۔ ۔ خیریت کیسی!
اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
پھر فرمایا کہ میں نے اپنے بچے کو دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک مسجد میں بھیجا تھا، جہاں قرآن مجید کا درس ہوتا تھا۔ بچہ کچھ دِن جاتا رہا پھر مسجد سے ایسا لوٹا کہ دوبارہ کبھی اُس مسجد کا رُخ نہ کیا۔ پوچھنے پر کہنے لگا۔ ۔ ۔ ’’میں وہاں درسِ قرآن سنتا رہا۔ ۔ ۔ لیکن جو کچھ بھی سنا، وہ تو علم و عقل سے پرے کی باتیں تھیں۔ ۔ ۔ میرا ذِہن ایسے دیو مالائی قصوں اور بے سروپا باتوں کو تسلیم نہیں کرتا‘‘۔ کیا کروں وہ بچہ جسے دین سیکھنے کے لئے بھیجا تھا، وہ اپنے عقیدے، مسلک اور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان غرضیکہ ہر چیز کا مُنکر ہوگیا ہے۔
میں نے کہاکہ ’’آپ شام کا کھانا میرے ہمراہ کھائیں اور اُس بچے کو اپنے ساتھ لے آئیں۔ میرا مقصد محض اُس بچے کو سمجھانا اور اُس پر دِین کی رُوح واضح کرنا ہے‘‘۔ مگر اُس نے یہ کہہ کر آنے سے اِنکار کر دیا کہ ’’قادری صاحب تو بدعتی اور مُشرک ہیں‘‘۔ یہ صورتحال دیکھ کر میں خود اُس کے پاس گیا، اُس کا ماتھا چوما، پیار کیا اور کہا : ’’بیٹے! ہم آپ کے گھر مہمان آئے ہیں، آپ ہمارے پاس بیٹھیں تو سہی‘‘۔ اُس کے والد کو بھی بلالیا اور کہا کہ بچے کے ذِہن میں جو بھی اِشکال اور جواب طلب سوالات ہیں، وہ ایک ایک کر کے بیان کر دیں۔ وہ بیان کرتے گئے اور میں اُن سوالوں کا جواب دیتا گیا۔ گھنٹہ بھر کی نشست میں وہ ذِہنی طور پر پچاس فیصد مطمئن ہوگیا۔ جب ہم اُٹھ کے جانے لگے تو اس نے پوچھا : ’’آپ کتنے دن یہاں ٹھہریں گے‘‘؟۔ ۔ ۔ ’’دو تین دن‘‘ ہم نے جواب دیا۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہنے لگا : ’’ ایک گھنٹہ اور دے دیں‘‘۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کہا : ’’صرف آپ کے لئے نہیں بلکہ اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھی لے آئیں۔ ۔ ۔ سب کے لئے ایک کھلی نشست ہوگی‘‘۔ ۔ ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب دُوسری عام نشست اپنے اِختتام کو پہنچی تو وہ بچہ رُخصت ہوتے وقت مجھ سے لپٹ گیا اور کہنے لگا : ’’ اللہ آپ کا بھلا کرے، آپ نے مجھے گمراہی میں مبتلا ہونے سے بچالیا‘‘۔ اب وہ بچہ بحمداللہ راسخ العقیدہ ہے اور اِسلامی تعلیمات پر کاربند ہے۔
یورپ میں رہنے والے ایسے تارکینِ وطن جن کی اَولادیں بالعموم اُسی جدید تعلیم یافتہ ماحول میں پل بڑھ کر جوان ہوئی ہیں، اکثر و بیشتر اِسی طرح کے حالات سے دوچار ہیں۔ فقط ہماری کج فہمی اور جدید علوم سے اِغماض کی روِش سے اُن کے قلوب و اَذہان صحیح اِسلامی عقیدے اور تعلیمات سے مُنحرف ہو رہے ہیں، جس کی تمام تر ذمہ داری ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے۔ اگروقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اِسلام کو صحیح طریقے سے پیش کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم جدید نسل کے اِیمان کو غارت ہونے سے بچا نہ لیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم اپنی اَولادوں کو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ دِین کی تعلیم بھی صحیح سائنسی طریق سے دیں تاکہ وہ عقائدِ اِسلامیہ پر مضبوطی اور پختگی کے ساتھ جمے رہیں۔
نوجوانوں میں اِسلام کی عظیم رُوحانی تعلیمات کو واضح کرنے کے لئے یہ بات اِنتہائی اہم ہے کہ سلاسلِ طریقت اور خانقاہی نظام کے اربابِ فکر و نظر اپنی اولاد کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیں اور اُن کی تربیت صحیح نہج پر کریں تاکہ اِسلام کا رُوحانی وِرثہ زمانے کی دست بُرد سے تباہ ہونے سے بچ جائے۔ اِس دورِ فتن میں بہت کم خانقاہیں اور رُوحانی خانوادے مادّیت کی یلغار سے محفوظ رہ گئے ہیں اور خال خال ہی ایسے رہ گئے ہیں جنہیں دیکھ کر اَسلاف کی یاد دِل و دماغ میں تازہ ہوجائے۔ اکثر یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ خانقاہوں کی رُوحانی بنیاد منہدم ہوگئی ہے اور اَسلاف کے قائم کردہ اُن رُوحانی مراکز پر محض ظواہر پرستی ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔ اَیسے ہی حالات کے پیشِ نظر حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا :
خانقاہوں میں کہیں لذّتِ اَسرار بھی ہے؟
مدرسوں میں کہیں رعنائیئِ اَفکار بھی ہے؟
قرآنِ مجید کا انداز اور اُسلوبِ بیان اپنے اندر حِکمت و موعظت کا پیرایہ لئے ہوئے ہے۔ اِسی موعظت بھرے انداز میں بعض اَوقات آیاتِ قرآنی کے براہِ راست مخاطب حضور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہوتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے پوری اُمت کو حکم دینا ہوتا مقصود ہے۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزّت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِرشاد فرمایا :
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلاَ تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًاO
(الکهف، 18 : 28)
(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں، اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں، تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں اُن سے نہ ہٹیں۔ کیا تو (اُن فقیروں سے دِھیان ہٹا کر) دُنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے؟ اور تو اُس شخص کی اِطاعت بھی نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اُس کا حال حد سے گزر گیا ہےo
اِس اِرشادِ ربانی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے اُمتِ مسلمہ کے عام افراد کو یہ حکم دِیا جارہا ہے کہ وہ اُن لوگوں کی معیت اور صحبت اِختیار کریں اوراُن کی حلقہ بگوشی میں دِلجمعی کے ساتھ بیٹھے رہا کریں، جو صبح و شام اللہ کے ذِکر میں سرمست رہتے ہیں اور جن کی ہر گھڑی یادِالٰہی میں بسر ہوتی ہے۔ اُنہیں اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے کسی اور چیز کی طلب نہیں ہوتی، وہ ہر وقت اللہ کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔ یہ بندگانِ خدا مست صرف اپنے مولا کی آرزو رکھتے ہیں اور اُسی کی آرزو میں جیتے ہیں اور اپنی جان جاںآفریں کے حوالے کردیتے ہیں۔ اﷲ کے ولیوں کی یہ شان ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے ہونا چاہتے ہیں اُنہیں چاہئیے کہ سب سے پہلے وہ ان اولیاء اﷲ کی صحبت اِختیار کریں۔ چونکہ وہ خود اﷲ کے قریب ہیں اور اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے عامۃ المسلمین کو اُن کے ساتھ جڑ جانے کا حکم فرمایا ہے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے یہی قرآنی نکتہ اپنے اِس خوبصورت شعر میں یوں بیان کیا ہے :
ہر کہ خواہی ہمنشینی با خدا
اُو نشیند صحبتے با اولیاء
ترجمہ : جو کوئی اللہ تعالی کی قربت چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کرے۔
غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حضر ت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ رکن عالم رحمۃ اللہ علیہ اور حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے خود کو اللہ کے قریب کرلیا تھا۔ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ایسے ہی لوگوں کی صحبت اِختیار کرنے اور اُن سے اِکتسابِ فیض کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ کے ولی کی مجلس میں بیٹھے گا اُسے اللہ کی قربت اور مجلس نصیب ہوگی۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نہ جنت کا لالچ ہے اور نہ ولایت کا، نہ کرامت کا شوق ہے اور نہ شہرت کی طلب، یہ نہ حوروں کے متمنی ہیں نہ قصور کے۔ اِن کا واحد مقصد اللہ کا دیدار ہیاور یہ فقط اللہ کے مکھڑے کے طالب ہیں۔ لہٰذا عام لوگوں کو تعلیم دی گئی کہ جو لوگ میرے (اللہ کے) مکھڑے کے طالب ہیں اُنہیں بھی اُن کا مکھڑا تکنا چاہیئے اور اپنی نظریں اُن کے چہروں پر جمائے رکھنا چاہیئں۔ جبکہ دُوسری طرف اللہ کی یاد سے غافل لوگوں سے دُور رہنے کا حکم دیا گیا :
وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا.
(الکهف، 18 : 28)
اور تو اُس شخص کی اِطاعت نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے۔
اِسی طرح سورۂ انعام میں اِرشاد ربانی ہوا :
فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَo
(انعام، 6 : 68)
پس تم یاد آنے کے بعد (کبھی بھی) ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھا کروo
اِن آیاتِ مبارکہ میں یہ بات بالصراحت واضح ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ سے دُور ہٹانے والوں کے ساتھ نشست و برخاست سے بھی اِجتناب کیا جائے۔ اُس کی محبت اور توجہ کے حصول کے لئے طالبانِ حرص و ہوس اور بندگانِ دُنیا کی صحبت کو کلیتاً ترک کرنا اور اولیاء اﷲکی نسبت اور سنگت کو دِلجمعی کے ساتھ اِختیار کرنا نہایت ضروری ہے۔ بقولِ شاعر :
صحبتِ صالح تُرا صالح کند
صحبتِ طالع تُرا طالع کند
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کی بجائے اولیاء اللہ کی سنگت اور ہم نشینی اِختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کے سلسلے میں آنے، بیعت کرنے اور نسبت قائم کرنے کی شریعت میں کیا اہمیت ہے؟ چاہیئے تو یہ تھا کہ سارا معاملہ براہِ راست اللہ سے اُستوار کرلیا جاتا اور سیدھا اُسی سے تعلق اور ناطہ جوڑنے کی کوشش کی جاتی۔ آخر بندوں کو درمیان میں لانے اور اُنہیں تقرّب اِلیٰ اللہ کے لئے واسطہ بنانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ مقصودِ کل تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کی ذات ہے؟
یہ سوال آج کے دور میں دو وُجوہات کی بناء پر اِنتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک اِس لئے کہ جوں جوں زمانہ آگے گزرتا جارہا ہے رُوحانیت اور رُوحانی فکر مٹتا چلا جا رہا ہے۔ مادّیت اور مادّی فکر دُنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیمات پر بھی غالب آتا جا رہا ہے اور اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ دِین اور مذہب کو بھی مادّی پیمانوں پر پرکھنے لگے ہیں۔ اِس سوال کی پیدائش کا دُوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ آج کا دور بے عملی کے ساتھ ساتھ بدعقیدگی کا دور بھی ہے۔ مذہبی اور دِینی حلقوں میں نام نہاد خالص توحید پرست طبقے اولیاء اللہ کی عظمت کے صاف مُنکر ہیں اور اُن سے منسوب تعلیمات کو شرک و بدعا ت کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک اِسلام کے رُوحانی نظام کی نہ تو شرعی اہمیت ہے اور نہ اِس کی کوئی تاریخی حیثیت ہی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ راہِ راست سے بھٹک کر اولیائے کرام کی تعلیمات اوراُن کے عظیم سلسلوں اور نسبتوں سے دُور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس طرح کی باتیں آج کل بڑی شدّت سے زور پکڑ رہی ہیں اور یہ سوال ذِہنوں کو مسلسل پراگندہ (Confuse) کر رہے ہیں کہ اولیاء و صوفیاء کو اﷲ اور بندے کے مابین واسطہ ماننے کا از روئے شریعت کیا جواز ہے! جب ہم اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید سے پوچھتے ہیں تو وہ ہمیں صراحتاً بتاتا ہے کہ بندوں اور خدا کے درمیان اولیاء اللہ کو خود اللہ ربّ العزّت نے ہادی و رہبر کے طور پر ڈالا ہے۔ کسی اِنسان کی اِتنی مجال کہاں کہ وہ ایسی جسارت کرسکے! اِس بارے میں قرآن مجید کے الفاظ : ’’وَ اصْبِرْ نَفْسَکَ‘‘ اِس حکم کی نشاندہی کرتے ہیںکہ اولیاء اللہ کو ہدایت الیٰ اﷲ کے لئے درمیانی واسطہ بنائے بغیر اور کوئی چارہ نہیں اور اﷲ تعالیٰ تک رسائی کی یہی صورت ہے کہ اُس کے دوستوں سے لو لگائی جائے۔ جب اُن سے یاری ہو جائے گی تو وہ خود اﷲ ربّ العزّت کی بارگاہ کا راستہ دِکھائیں گے۔
اللہ ربّ العزّت نے اپنی توحید کا پیغام اپنے بندوں تک پہنچانے کے لئے انبیاء علیہ السلام کو بھیجا، جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ہر دور میں اُس فریضۂ نبوت کو بطریقِ اَحسن سراِنجام دیتے رہے۔ اِبتدائے آفرینش سے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ مخلوقاتِ عالم تک اپنا پیغا م انبیاء علیہ السلام کی وساطت سے پہنچاتا رہا ہے۔ انبیاء علیہ السلام کی ظاہری حیات کے دور میں اُن کو اپنے اور بندوں کے درمیان رکھا اور اب جبکہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا ہے تواِ سی کام کے لئے اولیاء اللہ کو مامور کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ تا قیامِ قیامت ابدالاباد تک جاری و ساری رہے گا۔
یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ اپنی توحید کا پیغام اپنے بندوں کو دینا چاہتا ہے تو ’’ قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ‘‘ فرماتا ہے۔ یعنی اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ اپنی زبان سے کہہ دیں کہ اللہ ایک ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اے اللہ! تو خود اپنی توحید کا اِعلان کیوں نہیں کرتا؟۔ ۔ ۔ تو خود ہی فرمادے کہ میں ایک ہوں! اللہ تعالی جواب دیتا ہے کہ نہیں یہ میری شان نہیں کہ بندوں سے از خود کلام کروں اور نہ ہی کسی بشر کی مجال ہے کہ وہ اللہ سے براہِ راست کلام کرے۔ اﷲ ربّ العزّت نے فرمایا :
وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُکَلِّمَهُ اﷲُ إلاَّ وَحْياً أَوْ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلاً فَيُوْحِیَ بِإذْنِه مَا يَشَآءُط إنَّه‘ عَلِیٌّ حَکِيْمٌo
(شوریٰ، 42 : 51)
اور کسی آدمی کی یہ طاقت نہیں کہ اﷲ سے (براہِ راست) بات کرے مگر ہاں (اِس کی تین صورتیں ہیں یا تو) وحی (کے ذریعے) یا پردے کے پیچھے سے یا (اﷲ) کسی فرشتے کو بھیج دے کہ اس کے حکم سے جو اﷲ چاہے وحی کرے، بے شک وہ بڑے مرتبہ والا، حکمت والا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان اِس امر پر دلالت کرتاہے کہ وہٰ یہ کام اپنے منتخب مکرم بندوں سے کراتا ہے، جنہیں منصبِ رسالت پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے کہ میں اپنے اُس نبی اور رسول ہی سے کلام کرتا ہوں جسے منصبِ نبوت و رسالت سے سرفراز فرماتا ہوں اور اپنے اُس محبوب کو اپنا ہمراز بناتا ہوں اور اُسے اپنی خبر دیتا ہوں۔ اِسی لئے فرمایا : اے محبوب! تجھے میں نے اپنا رسول بنایا ہے، تو ہی میرے بندوں کے پاس جا اور اُنہیں میری یکتائی کی خبر دے اور جو کلام میں نے تجھ سے کیا ہے وہ اُن تک پہنچادے۔
آیتِ مبارکہ : قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ میں لفظِ ’’قُلْ‘‘ رسالت ہے، جبکہ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ ’’وہ اللہ ایک ہے‘‘۔ ۔ ۔ یہ الفاظ اﷲ ربّ العزّت کی توحید پر دلالت کرتے ہیں۔ اِس آیتِ کریمہ سے یہ پتہ چلا کہ توحید کے مضمون کا عنوان بھی رسالت ہے تاکہ لوگوں کو اِس امر سے مطلع کردیا جائے کہ اللہ ایک ہے اور وہی سب کا ربّ ہے۔
اِس سے یہ نکتہ کھلا کہ اللہ کی سنت یہی ہے کہ وہ کسی سے براہِ راست کلام نہیں کرتا اور اگر وہ کسی سے کلام کرنا چاہتا ہے تو درمیان میں واسطۂ رسالت ضرور لاتا ہے۔ اب کس کی یہ مجال ہے کہ وہ رسول کے واسطے کے بغیر اُس سے ہمکلام ہونے کی کوشش کرے! آیۂ توحید سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اللہ ربّ العزّت اپنے بندوں سے ہم کلام ہونے کے لئے اپنے رسول کا واسطہ درمیان میں لاتا ہے۔ ۔ ۔ تو جب وہ خدا ہو کر اپنے بندوں سے ہمکلام ہوتے وقت رسول کا واسطہ درمیان میں لانے سے اِجتناب نہیں کرتا تو ہم بندے ہو کر اُس کے رسول کا واسطہ لائے بغیر اُس سے ربط و تعلق کیونکر برقرار رکھ سکتے ہیں! یہ اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے اور ہم اُس کے حکم کے پابند ہیں، اُس سے رُوگرانی نہیں کرسکتے۔
ربّ ذوالجلال نے یہ بنیادی نکتہ، کلیہ اور اصل الاصول بیان فرمادیا کہ میری اِطاعت کا راستہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کے راستے سے ہو کر گزرتا ہے۔ کلامِ مجید میں اِرشاد ہوا :
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اﷲَ.
(النساء، 4 : 80)
جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کرتا ہے تحقیق اُس نے اللہ کی اِطاعت کی۔
اِس آیتِ کریمہ میں اﷲ ربّ العزّت دوٹوک اِعلان فرما رہا ہے کہ ’’اے میرے بندو! یہ بات ہمیشہ کے لئے اپنے پلے باندھ لو کہ تم میں سے جو کوئی میری اِطاعت کا خواہشمند ہو اُسے چاہیئے کہ پہلے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کو اپنے اُوپر لازم کرے۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت ہی میری اِطاعت ہے۔ خبردار! میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت بجا لائے بغیر میری اِطاعت کا تصور بھی نہ کرنا‘‘۔
قرآن مجید نے اِس نکتے کو یہ کہہ کر مزید واضح فرمادیا :
قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ.
(آل عمران، 3 : 31)
(اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !) فرما دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اِتباع میں آجاؤ، اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔
گویا اﷲ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دِیا کہ اے محبوب! آپ فرمادیجئے کہ اگر تم میں سے کوئی اللہ کی محبت اور غلامی کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ پہلے میری محبت اور غلامی کا قلاّدہ اپنے گلے میں ڈال لے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اُسے اللہ کی محبت نصیب ہوجائے گی۔
اِس آیتِ کریمہ سے یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ اللہ کے نزدیک وہ محبت اور اِطاعت ہرگز معتبر اور قابلِ قبول نہیں جو اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دَم بھرے اور اُس کی اِطاعت بجالائے بغیر ہو۔ اُس نے اپنے رسول کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان واسطہ بنادیا اور یہ بات طے کردی کہ اِس واسطہ کو درمیان سے نکال کر اِطاعت و محبتِ اِلٰہی کا دعویٰکسی طور پر بھی مبنی بر حقیقت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مزید ارشاد فرمایا :
وَ إذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَإنِّیْ قَرِيْبٌط
(البقرة، 2 : 186)
اور (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں (تو فرمادیں) پس میں قریب ہوں۔
یعنی اے میرے محبوب! جب میرے متلاشی بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو آپ اُنہیں کہہ دیجئے کہ میں اُن کے بہت قریب ہوں۔ اِس آیتِ مبارکہ میں کہا جارہا ہے کہ میں اُن بندوں کے قریب ہوں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بندے کون ہیں جنہیں قربِ الٰہی کا مژدۂ جانفزا سنایا جارہا ہے! ذرا غور کریں تو یہ نکتہ کھل جائے گا کہ میرے بندے وہ ہیں جو پہلے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در کے سوالی بنیں۔ جو اُن کے در کا سوالی ہوگا، وُہی میرا بندہ ہوگا۔ اور جو اُس در کا سوالی نہ ہوگا، وہ میرے در کا سوالی نہیں اور وہ کبھی شانِ بندگی کا حامل نہیں ہوسکتا۔ اِسی سیاق میں اِمام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے کیاخوب کہا ہے :
بخدا خدا کا یہی ہے دَر، نہیں اور کوئی مفرّ مقرّ
جو وہاں سے ہو، یہیں آکے ہو، جو یہاںنہیں، تو وہاں نہیں
اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے درمیان رِسالت ایک ایسا واسطہ ہے جس سے اِطاعت و محبتِ الٰہی کے باب میں صرفِ نظر نہیں کیاجاسکتا۔ اِس لئے جب منافقین نے از رُوئے بغض و عناد درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سرِ تسلیم خم کرنے سے اِنکار کردیا تو اللہ ربّ العزّت نے یہ اِرشاد فرما کر اُن کی قلعی کھول دی :
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًاo
(النساء، 4 : 61)
اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور رسول کی طرف تو آپ دیکھیں گے کہ منافق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں۔
ملاحظہ ہو کہ یہ منافق لوگ اللہ کی طرف آنے سے پس و پیش نہیں کریں گے اور انہیں کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور گھبراہٹ نہ ہوگی، مگر جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اپنا چہرہ یہ کہہ کر پھیرلیتے ہیں کہ جب بالآخر اللہ ہی کی طرف جانا ہے تو سیدھے اُسی کی طرف کیوں نہ جائیں۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کیوں جائیں؟ اﷲتعالیٰ نے اُن لوگوں کے بارے میں جن کے دلوں کے اندر چور ہے دو ٹوک اِعلان کر دیا کہ وہ میرے بندے نہیں بلکہ منافق ہیں۔ میرا اُن سے نسبتِ بندگی کے ناطے کوئی تعلق نہیں۔
یہ بات محوّلہ بالا اِرشادِ ربانی سے طے ہوگئی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ پر چلے بغیر کوئی اپنی منزل کو نہیں پاسکتا۔ وہ لاکھ ٹکریں مارتا رہے، اُس کی بندگی کو بارگاہِ خداوندی میں سندِ قبولیت نہیں مل سکتی۔ بقول سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ :
خلافِ پیغمبر کسے رَہ گزید
ہرگز نخواہد بمنزل رسید
اللہ ربّ العزّت چاہتا تو اپنا پیغام براہِ راست اپنے بندوں تک پہنچانے کا انتظام کر سکتا لیکن اُس کے باوجود اُس نے اپنے اور بندوں کے درمیان رِسالت کا واسطہ رکھا۔ اُس کی قدرتِ کاملہ کے سامنے کوئی چیز محال نہیں، وہ اپنے فرشتوں سے یہ کام لے سکتا تھا۔ عین ممکن تھا کہ ہر شخص جب صبح بیدار ہوتاتو اُس کے سرہانے ایک سیپارہ پڑا ہوتا جس پر درج ہدایتِ ربانی اُس کے دل میں اُترجاتی۔ وہ کلام جو اُس نے اپنے چنیدہ و برگزیدہ انبیاء و رُسل کے ساتھ کیا، وہ اپنے ہر بندے کے ساتھ بھی کرسکتا تھا، اِس طرح ہر بندے کا تعلق براہِ راست اُس سے قائم ہوجاتا۔ لیکن اپنی بے پایاں حکمتوں کے پیشِ نظر اﷲ تعالیٰ نے اِس بات کا فیصلہ کردیا کہ میری ہدایت میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے کے بغیر ممکن نہیں اور میری معرفت کو وہی پاسکتا ہے جسے میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت حاصل ہوجائے۔
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک انگوٹھی تھی، جس پر ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ‘‘ کے الفاظ کندہ تھے۔ آپ اُس سے مُہر لگایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، 1 : 15) حکمرانانِ وقت کو خطوط بھجواتے وقت اُن پر یہ مہر لگوائی جاتی تھی۔ آجکل یہ خطوط چھپ چکے ہیں اور اُنہیں ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔
عربی ہمیشہ دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے۔ مگر یہ بات غور طلب ہے کہ انگوٹھی مبارک کی مہر میں یہ ترتیب نیچے سے اوپر کی طرف چلی گئی ہے اور وہ یوں کہ ’’محمد‘‘ نیچے، ’’رسول‘‘ درمیان میں اور ’’اﷲ‘‘ سب سے اُوپر لکھا گیا ہے۔ یہ ترتیب محض کوئی اِتفاقی امر نہیں بلکہ اِس کا مقصد لوگوں کو یہ سمجھانا تھا کہ اگر تم اللہ کا قرب حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہو تو اُس کا راستہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور اِتباع میں مضمر ہے۔ یہ ترتیبِ صعودی اِس بات کی مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز پر سرِتسلیم خم کرنا لازمی ولابدّی امر ہے۔ ہمارے سفر کی اِنتہا تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات تک رسائی ہے، باقی رہا اللہ سے ملانا تو یہ اُن کا کام ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :
تیری معراج کہ تو لوح و قلم تک پہنچا
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا
یہ بات طے ہوگئی کہ بارگاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شرفِ حضوری حاصل کرنے والے کو ہی فیضانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہوگا۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ فیضانِ رسالت ہی معرفتِ الٰہی کے حصول کا پیش خیمہ ہے۔ واسطۂ رِسالت ہی وہ زِینہ ہے جو سیدھا عرشِ اِلٰہی تک جاتا ہے۔ اگر کوئی اِس واسطے کو درمیان سے ہٹانا چاہے تو اُس کا یہ عمل اللہ کے نظام کو منسوخ کرنے کی سعیء موہوم کے مترادف ہوگا۔ اِس حقیقت پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اِرشادِ مبارک دلالت کرتا ہے :
اِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَ اﷲُ يُعْطِیْ.
(صحيح البخاری، کتاب العلم، 1 : 16)
(الصحيح لمسلم، کتاب الزکوٰة، 1 : 333)
(مسند احمد بن حنبل، 2 : 234)
(المعجم الکبير، 19 : 284، رقم : 755)
(شرح السنة، 1 : 284، رقم : 131)
میں (نعمتوں کی) تقسیم کرنے والا ہوں اور عطا کرنے والا اﷲ ہے۔
اِس حدیثِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطائے نِعم کے مالک اﷲ ربّ العزّت کا ذکر بعد میں اور اُن نعمتوں کی تقسیم کے حوالے سے اپنا ذِکر پہلے کیا ہے۔ گویا یوں فرمایا کہ : ’’اے لوگو! کہاں بھٹکے جارہے ہو! قاسم میں ہی ہوں۔ اگر تمہیں خیرات و فیوضاتِ الٰہیہ چاہئیں تو تمہیں میرے دروازے پر آنا ہوگا۔ اگر مجھ سے گریزاں ہو گے تو دربدر کی ٹھوکریں کھانا تمہارانصیب ہوگا اور تمہیں ذِلت و رُسوائی کی خاک پھانکنے کے سِوا اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ فیوضاتِ الٰہیہ کی خیرات صرف اِسی در سے مل سکتی ہے، اِس لئے آؤ اور میری دہلیز پر جھک جاؤ‘‘۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :
محمدِ عربی کہ آبروئے ہر دو سرا ست
کسے کہ خاکِ درش نیست خاک بر سر اُو
بابِ نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہو جانے کے بعد فیوضاتِ الٰہیہ کی ترسیل و اِجراء کے نظام کو جاری و ساری رکھنے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور مقرّب اولیائے کرام کا سلسلہ جاری فرما دیا۔ یہ اولیائے کرام درِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیرات عامۃالناس میں تقسیم کرنے اور اُنہیں اﷲ کی بارگاہ کا راستہ دِکھانے پر متعین ہیں۔ اُن سے فیض حاصل کرنا حکمِ ربانی کی تعمیل ہے۔ قرآنِ مجید میں حکمِ ربانی ہے :
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَ الْعَشِیِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَه‘ط وَ لَا تَعْدُ عَيْنَاکَ عَنْهُمْ.
(الکهف، 18 : 28)
(اے میرے بندے) تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں، اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں (اُس کی دِید کے متمنی اور اُس کا مکھڑا تکنے کے آرزومند رہتے ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں اُن سے نہ ہٹیں۔
اِس آیتِ مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنی بارگاہ تک رسائی کا طریقہ بتاتے ہوئے فرمایا : ’’اے لوگو! تم میرے اُن بندوں سے اپنا ناطہ جوڑ لو جو صبح و شام میری یاد میں سرمست رہتے ہیں اور جو میرے چمنستانِ الست سے جام پر جام لنڈھاتے ہیں اور میرے ذِکر میں اُن کے شب و روز عالمِ سرشاری میں بسر ہوتے ہیں‘‘۔
اب جنہیں میری قربت درکار ہو اُن کے لئے ضروری ہے کہ میرے اِن خدا مست بندوں کی صحبت اور سنگت اِختیار کرلیں اور اُن بادہ کشوں کی میئ سرمدی کی محفل میں آجائیں تاکہ اُنہیں بھی اُس سرور و نشاط آگیںشراب کے چند گھونٹ میسر آجائیں۔ اگر وہ نہیں تو فقط اس کی خوشبو سے جو سرشاری نصیب ہوگی وہ بھی کم نہیں۔
گردِ مستاں گرد، گر مے کم رسد بوئے رسد
بوئے اُو گر کم رسد، رؤیتِ اِیشاں بس است
پھر اِرشاد فرمایا : ’’وَ لَا تَعْدُ عَيْنَاکَ عَنْهُمْ‘‘ یعنی اے پندارِ دُنیوی میں مست رہنے والے لوگو! میرے اِن بندوں سے اپنی نگاہیں نہ ہٹانا اور اُنہیں کبھی بنظرِ تحقیر نہ دیکھنا ورنہ اللہ تم سے اپنی نگاہیں ہٹالے گا اور تمہارا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا۔ پھر فرمایا : ’’تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا‘‘ کیا تم اِس چند روزہ دنیا کی زیب و زِینت کے اسیر رہنا چاہتے ہو اور آخرت کی نعمتوں کی طلب سے بیگانہ رہ کر زندگی گزارنے کے تمنائی ہو؟ خبردار! اگر اُخروی نعمتوں کے طلبگار ہو تو میرے بندوں کو اپنا مرکزِ نگاہ بنالو۔ اگر تم عارضی متاعِ حیات سے صرفِ نظر کر کے اُن کے خوشہ چیں بن جاؤگے تو وہ تمہیں طالبانِ مولا اور طالبانِ آخرت بنادیں گے اور اگر اُنہیں تکنا چھوڑ دوگے اور اُن سے نظریں ہٹا لو گے تو پھر مکروہاتِ دُنیا میں غرق ہوکر رہ جاؤگے اور دُنیا کی محبت تمہیں ذِکرِ الٰہی اور یادِ آخرت سے بیگانہ کردے گی۔ پھر اِرشاد ہوا :
وَ لَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِکْرِنَا.
(الکهف، 18 : 28)
اور تو اُس شخص کی اِطاعت بھی نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنے ذِکر سے غافل کر دِیا ہے۔
خبردار! اُن لوگوں کی اِطاعت نہ کرنا جن کے دلوں کو ہم نے اپنے ذِکر سے غافل کردیا ہے، اگر تم اُن کا کہنا مانوگے اور اُن کے پیچھے چلوگے تو ہم سے دُور ہوکر خُسْرَانٌ فِی الدُّنْيَا وَ الْأَخِرَة یعنی دُنیا و آخرت کی ہلاکت کے مستحق بن جاؤگے۔
اِس آیت کریمہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ معرفت و قربِ اِلٰہی اور وصال باللہ کے لئے اللہ کا حکم ہے کہ اُس کے اُن نیک بندوں سے یک گو نہ قلبی تعلق، صحبت اور معیت اِختیار کی جائے جو فیوضاتِ نبوت حاصل کرنے کا وسیلہ ہیں۔ پس متذکرہ بالا بحث سے یہ ثابت ہوا کہ جس طرح نبی کی ذات اُلوہی فیوضات حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے، اُسی طرح گروہِ اولیاء بھی فیوضاتِ نبوت حاصل کرنے کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved