24 / 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : إِنَّکُمْ تَزْعُمُوْنَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُکْثِرُ الْحَدِيْثَ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَاﷲُ الْمَوْعِدُ إِنِّي کُنْتُ امْرَأً مِسْکِيْنًا أَلْزَمُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلَی مِلْئِ بَطْنِي وَکَانَ الْمُهَاجِرُوْنَ يَشْغَلُهُمْ الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ وَکَانَتِ الْأَنْصَارُ يَشْغَلُهُمُ الْقِيَامُ عَلَی أَمْوَالِهِمْ فَشَهِدْتُ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاتَ يَوْمٍ وَقَالَ : مَنْ يَبْسُطْ رِدَائَهُ حَتَّی أَقْضِيَ مَقَالَتِي ثُمَّ يَقْبِضْهُ فَلَنْ يَنْسَی شَيْئًا سَمِعَهُ مِنِّي فَبَسَطْتُ بُرْدَةً کَانَتْ عَلَيَّ فَوَالَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ مَا نَسِيْتُ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاعتصام بالکتاب والسنة، باب : الحجة من قال : إن أحکام النبي صلی الله عليه وآله وسلم کانت ظاهر وما کان يغيب بعضهم من مشاهد النبي صلی الله عليه وآله وسلم وأمور الإسلام، 6 / 2677، الرقم : 6921، وفي کتاب : البيوع، باب : ما جاء في قول اﷲ تعالی : فإذا قضيت الصلاة، 2 / 721، الرقم : 1942، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل أبي هريرة الدوسي ص، 4 / 1939. 1940، الرقم : 2492، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 240، الرقم : 7273، وابن حبان في الصحيح، 16 / 104، الرقم : 7153، وأبو يعلي في المسند، 11 / 121، الرقم : 6248، والطبراني في مسند الشاميين، 4 / 170، الرقم : 3026.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ یہ گمان کرتے ہو کہ ابو ہریرہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثیں کثرت سے بیان کرتے ہیں، حالانکہ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے، میں ایک غریب آدمی تھا، پیٹ بھر روٹی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سائے کی طرح لگا رہتا تھا جبکہ مہاجرین تو بازاروں کی خرید و فروخت میں مشغول ہوتے اور انصار اپنی کھیتی باڑی میں مصروف ہوتے۔ چنانچہ ایک روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو فرمایا کہ میری گفتگو ختم ہونے تک کون اپنی چادر پھیلائے رکھے گا؟ اور پھر سمیٹ لے تو وہ کوئی چیز بھولے گا نہیں۔ یہ سنتے ہی جو چادر میرے اوپر تھی وہ میں نے پھیلا دی۔ پس قسم ہے اُس ذات کی جس نے اُنہیں حق کے ساتھ مبعوث فرمایا کہ جو میں نے اُن سے سنا اس میں سے کچھ نہیں بھولا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
25 / 2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي أَسْمَعُ مِنْکَ حَدِيْثًا کَثِيْرًا أَنْسَاهُ؟ قَالَ : ابْسُطْ رِدَائَکَ. فَبَسَطْتُهُ، قَالَ : فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ : ضُمَّهُ. فَضَمَمْتُهُ، فَمَا نَسِيْتُ شَيْئًا بَعْدَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
2 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : العلم، باب : حفظ العلم، 1 / 56، الرقم : 119، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل أبي هريرة الدوسي رضی الله عنه، 4 / 1939، الرقم : 2491، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب لأبی هريرة رضی الله عنه، 5 / 684، الرقم : 3834. 3835، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 247، الرقم : 881، وأبو يعلی في المسند، 11 / 121، الرقم : 6248.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں آپ سے بہت سی احادیث سنتا ہوں مگر بھول جاتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی چادر پھیلاؤ؟ میں نے اپنی چادر پھیلا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (فضا میں سے کچھ) چُلّو بھر بھر کر اس میں ڈال دیئے اور فرمایا : اسے سینے سے لگا لو۔ میں نے ایسا ہی کیا : پس اس کے بعد میں کبھی کچھ نہیں بھولا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
26 / 3. عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ : کُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه فَقَالَ : إِنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم لَمَّا رَأَی مِنَ النَّاسِ إِدْبَارًا قَالَ : اَللَّهُمَّ سَبْعٌ کَسَبْعِ يُوْسُفَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ کُلَّ شَيئٍ حَتَّی أَکَلُوا الْجُلُوْدَ وَالْمَيْتَةَ وَالْجِيَفَ وَيَنْظُرَ أَحَدُهُمْ إِلَی السَّمَاءِ فَيَرَی الدُّخَانَ مِنَ الْجُوْعِ فَأَتَاهُ أَبُوْ سُفْيَانَ فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، إِنَّکَ تَأْمُرُ بِطَاعَةِ اﷲِ وَبِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَکَ قَدْ هَلَکُوْا فَادْعُ اﷲَ لَهُمْ قَالَ اﷲُ تَعَالَی : {فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍo} الدخان، 44 : 10 إِلَی قَوْلِهِ : {إِنَّکُمْ عَائِدُوْنَ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْکُبْرَی إِنَّا مُنْتَقِمُوْنَo} الدخان، 44 : 16 فَالْبَطْشَةُ يَوْمَ بَدْرٍ وَقَدْ مَضَتِ الدُّخَانُ وَالْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَآيَةُ الرُّوْمِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
3 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاستسقاء، باب : دعاء النبي صلی الله عليه وآله وسلم اجعلها عليهم سنين کسني يوسف، 1 / 341، الرقم : 962، وفي کتاب : تفسير القرآن، باب : وراودته التي هو في بيتها عن نفسه وغلقت الأبواب وقالت هيت لک، 4 / 1730، الرقم : 4416، وفي باب : تفسير سورة آلم غلبت الروم، 4 / 1791، الرقم : 4496، ومسلم في الصحيح، کتاب : صفة القيامة والجنة والنار، باب : الدخان، 4 / 2155، الرقم : 2798، والترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة الدخان، 5 / 297، الرقم : 3254، والنسائی في السنن الکبری، 6 / 456، الرقم : 11483، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 431، 441، الرقم : 4140، 4206، والحميدی في المسند، 1 / 63، الرقم : 116، وابن حبان في الصحيح، 11 / 80، الرقم : 4764، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 352، الرقم : 6221، وأبو يعلی في المسند، 9 / 78، الرقم : 5145، والطبراني في المعجم الکبير، 9 / 214، الرقم : 9046. 9048.
’’حضرت مسروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ انہوں نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب لوگوں کی سرکشی دیکھی تو کہا : اے اﷲ! ان پر حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے جیسی قحط سالی مسلط فرما پس قحط پڑ گیا اور سب چیزیں برباد ہو گئیں یہاں تک کہ لوگوں نے کھالیں اور مردار تک کھائے اور جب ان میں سے کوئی آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک کے باعث دھواں سا نظر آتا پس ابو سفیان نے آ کر کہا : اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ اﷲ کا حکم ماننے اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ جبکہ آپ کی قوم ہلاک ہو گئی۔ ان کے لئے اﷲ سے دعا کیجئے اﷲ تعالی نے فرمایا ’’اس روز کا انتظار کرو جب آسمان واضح طور پر دھواں لائے گا۔ اور پھر فرمایا جس روز ہم بڑی پکڑ پکڑیں گے۔ بطشۃ سے مراد یوم بدر ہے جبکہ دھواں، پکڑ، تسلط اور آیت روم گزر چکیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
27 / 4. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : أَصَابَتِ النَّاسَ سَنَةٌ عَلَی عَهْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَبَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ عَلَی الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَامَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هَلَکَ الْمَالُ وَجَاعَ الْعِيَالُ فَادْعُ اﷲَ لَنَا أَنْ يَسْقِيَنَا قَالَ : فَرَفَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَدَيْهِ وَمَا فِي السَّمَاءِ قَزَعَةٌ قَالَ : فَثَارَ سَحَابٌ أَمْثَالُ الْجِبَالِ ثُمَّ لَمْ يَنْزِلْ عَنْ مِنْبَرِهِ حَتَّی رَأَيْتُ الْمَطَرَ يَتَحَادَرُ عَلَی لِحْيَتِهِ قَالَ : فَمُطِرْنَا يَوْمَنَا ذَلِکَ وَفِي الْغَدِ وَمِنْ بَعْدِ الْغَدِ وَالَّذِي يَلِيْهِ إِلَی الْجُمُعَةِ الْأُخْرَی فَقَامَ ذَلِکَ الْأَعْرَابِيُّ أَوْ رَجُلٌ غَيْرُهُ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، تَهَدَّمَ الْبِنَاءُ وَغَرِقَ الْمَالُ فَادْعُ اﷲَ لَنَا فَرَفَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَدَيْهِ وَقَالَ : اَللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا قَالَ : فَمَا جَعَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُشِيْرُ بِيَدِهِ إِلَی نَاحِيَةٍ مِنَ السَّمَاءِ إِلَّا تَفَرَّجَتْ حَتَّی صَارَتِ الْمَدِيْنَةُ فِي مِثْلِ الْجَوْبَةِ حَتَّی سَالَ الْوَادِي وَادِي قَنَاةَ شَهْرًا قَالَ : فَلَمْ يَجِيئُ أَحَدٌ مِنْ نَاحِيَةٍ إِلَّا حَدَّثَ بِالْجَوْدِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
4 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاستسقاء، باب : من تمطر في المطر حتی يتحادر علی لحيته، 1 / 349، الرقم : 986، ومسلم في الصحيح، کتاب : صلاة الاستسقاء، باب : الدعاء في الاستسقاء، 2 / 614، الرقم : 897، وابن الجارود في المنتقی، 1 / 75، الرقم : 256، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 221، الرقم : 5630، وابن سرايا في سلاح المؤمن في الدعاء، 1 / 107، الرقم : 156، والعسقلاني في فتح الباري، 2 / 506، والعيني في عمدة القاري، 7 / 55، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 97، والنووي في شرحه علی صحيح مسلم، 6 / 194.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں لوگ سخت قحط کی لپیٹ میں آ گئے ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے کہ ایک اعرابی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! مال ہلاک ہو گیا اور بچے بھوکے مر گئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ ہم پر بارش برسائے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے۔ اس وقت آسمان میں کوئی بادل نہیں تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اسی وقت پہاڑوں جیسے بادل آ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی منبر سے نیچے تشریف بھی نہیں لائے تھے کہ میں نے بارش کے قطرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک سے ٹپکتے ہوئے دیکھے۔ پس ہم پر اُس روز، اس سے اگلے روز بلکہ اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر وہی اعرابی یا کوئی دوسرا آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! مکانات گر گئے اور مال غرق ہو گیا، اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا فرمائیں۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ بلند فرمائے اور کہا : اے اللہ! ہمارے اردگرد برسا اور ہمارے اوپر نہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دست مبارک سے آسمان کی جس طرف اشارہ کرتے ادھر سے بادل پھٹ جاتے یہاں تک کہ مدینہ منورہ تھالی کی طرح ہو گیا اور قناۃ نالہ ایک مہینے تک بہتا رہا۔ راوی کا بیان ہے کہ جو آتا وہ اس بارش کی افادیت کا ذکر ضرور کرتا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
28 / 5. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هَلَکَتِ الْمَوَاشِي وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ فَادْعُ اﷲَ فَدَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَمُطِرُوْا مِنْ جُمُعَةٍ إِلَی جُمُعَةٍ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، تَهَدَّمَتِ الْبُيُوْتُ وَتَقَطَّعَتِ السُّبُلُ وَهَلَکَتِ الْمَوَاشِي فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَللَّهُمَّ عَلَی رُءُوْسِ الْجِبَالِ وَالْآکَامِ وَبُطُوْنِ الْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ فَانْجَابَتْ عَنِ الْمَدِيْنَةِ انْجِيَابَ الثَّوْبِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
5 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاستسقاء، باب : الدعاء إذا انقطعت السبل من کثرة المطر، 1 / 345، الرقم : 971، ومسلم في الصحيح، کتاب : صلاة الاستسقاء، باب : الدعاء في الاستسقاء، 2 / 614، الرقم : 897، والنسائي في السنن، کتاب : الاستسقاء، باب : متی يستسقی الإمام، 3 / 154، الرقم : 1504، وفي السن الکبری، 1 / 555، الرقم : 1805، ومالک في الموطأ، کتاب : النداء للصلاة، باب : ما جاء في الاستسقاء، 1 / 191، الرقم : 450، والشافعي في المسند، 1 / 79، وعبد الرزاق في المصنف، 3 / 92، الرقم : 4911، وابن حبان في الصحيح، 7 / 104، الرقم : 2857، والربيع في المسند، 1 / 200، الرقم : 496، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 297، والطبراني في الدعاء، 1 / 600، الرقم : 2187.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! (قحط سالی کی وجہ سے) مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ سے فرمائیں (اس کی التجاء پر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی تو اس جمعہ سے اگلے جمعہ تک مسلسل بارش ہوتی رہی۔ پھر ایک آدمی آ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! گھر گر گئے، راستے بند ہو گئے اور مویشی ہلاک ہو گئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اللہ! پہاڑوں کی چوٹیوں، ٹیلوں، وادیوں کے درمیان اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر (برسا)۔ پس مدینہ منورہ کے اوپر سے بادل کپڑے کی طرح پھٹ گیا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
29 / 6. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا دَخَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مِنْ بَابٍ کَانَ وِجَاهَ الْمِنْبَرِ وَرَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَائِمٌ يَخْطُبُ فَاسْتَقْبَلَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَائِمًا فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هَلَکَتِ الْمَوَاشِي وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ فَادْعُ اﷲَ يُغِيْثُنَا قَالَ : فَرَفَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَدَيْهِ فَقَالَ : اَللَّهُمَّ اسْقِنَا، اَللَّهُمَّ اسْقِنَا، اَللَّهُمَّ اسْقِنَا قَالَ أَنَسٌ رضی الله عنه : وَلَا وَاﷲِ، مَا نَرَی فِي السَّمَاءِ مِنْ سَحَابٍ وَلَا قَزَعَةً وَلَا شَيْئًا وَمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ سَلْعٍ مِنْ بَيْتٍ وَلَا دَارٍ قَالَ : فَطَلَعَتْ مِنْ وَرَائِهِ سَحَابَةٌ مِثْلُ التُّرْسِ فَلَمَّا تَوَسَّطَتِ السَّمَاءَ انْتَشَرَتْ ثُمَّ أَمْطَرَتْ قَالَ : وَاﷲِ، مَا رَأَيْنَا الشَّمْسَ سِتًّا ثُمَّ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ ذَلِکَ الْبَابِ فِي الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ وَرَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَائِمٌ يَخْطُبُ فَاسْتَقْبَلَهُ قَائِمًا فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هَلَکَتِ الْأَمْوَالُ وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ فَادْعُ اﷲَ يُمْسِکْهَا قَالَ : فَرَفَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ : اَللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا اَللَّهُمَّ عَلَی الْآکَامِ وَالْجِبَالِ وَالْآجَامِ وَالظِّرَابِ وَالْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ قَالَ : فَانْقَطَعَتْ وَخَرَجْنَا نَمْشِي فِي الشَّمْسِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
6 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاستسقاء، باب : الاستسقاء في المسجد الجامع، 1 / 343، الرقم : 967، و في باب : الاستسقاء في خطبة الجمعة غير مستقبل القبلة، 1 / 344، الرقم : 968، ومسلم في الصحيح، کتاب : صلاة الاستسقاء، باب : الدعاء في الاستسقاء، 2 / 612، الرقم : 897، والنسائي في السنن، کتاب : الاستسقاء، باب : ذکر الدعاء، 3 / 161، الرقم : 1518، وفي السنن الکبری، 1 / 560، الرقم : 1824، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 144، الرقم : 1788، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 343، 354، الرقم : 6176، 6229.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جمعہ کے روز ایک آدمی منبر کے سامنے والے دروازے سے داخل ہوا جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے۔ وہ شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! مال ہلاک ہو گئے اور راستے بند ہو گئے، اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ ہم پر بارش برسائے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں ہاتھ بلند فرمائے اور دعا کی : اے اللہ! ہمیں بارش سے سیراب فرما۔ اے اللہ! ہمیں بارش سے سیراب فرما۔ اے اللہ! ہمیں بارش سے سیراب فرما۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! اس وقت ہم نے آسمان پر کوئی بادل یا ابر کا ٹکڑا وغیرہ نہیں دیکھا تھا اور نہ ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی گھر یا عمارت تھی۔ پس اس کے پیچھے سے ڈھال کے برابر بادل کا ٹکڑا نمودار ہوا جب آسمان کے درمیان آ گیا تو پھیل گیا۔ پھر اس قدر بارش ہوئی کہ خدا کی قسم! ہم نے ایک ہفتہ تک سورج کا منہ تک نہیں دیکھا۔ پھر اگلے جمعہ کو ایک آدمی اسی دروازے سے اندر داخل ہوا جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! مال ہلاک ہو گئے اور راستے بند ہو گئے، اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ اسے روک لے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور کہا : اے اللہ! ہمارے اردگرد برسے ہم پر نہیں۔ اے اللہ! پہاڑوں، ٹیلوں، پہاڑیوں اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر۔ تو اسی وقت بارش رک گئی اور ہم دھوپ میں چلنے لگے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
30 / 7. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : أَصَابَتِ النَّاسَ سَنَةٌ عَلَی عَهْدِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَبَيْنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ قَامَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هَلَکَ الْمَالُ وَجَاعَ الْعِيَالُ فَادْعُ اﷲَ لَنَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَمَا نَرَی فِي السَّمَاءِ قَزَعَةً فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا وَضَعَهَا حَتَّی ثَارَ السَّحَابُ أَمْثَالَ الْجِبَالِ ثُمَّ لَمْ يَنْزِلْ عَنْ مِنْبَرِهِ حَتَّی رَأَيْتُ الْمَطَرَ يَتَحَادَرُ عَلَی لِحْيَتِهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَمُطِرْنَا يَوْمَنَا ذَلِکَ وَمِنْ الْغَدِ وَبَعْدَ الْغَدِ وَالَّذِي يَلِيْهِ حَتَّی الْجُمُعَةِ الْأُخْرَی وَقَامَ ذَلِکَ الْأَعْرَابِيُّ أَوْ قَالَ : غَيْرُهُ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، تَهَدَّمَ الْبِنَاءُ وَغَرِقَ الْمَالُ فَادْعُ اﷲَ لَنَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ : اَللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَمَا يُشِيْرُ بِيَدِهِ إِلَی نَاحِيَةٍ مِنَ السَّحَابِ إِلَّا انْفَرَجَتْ وَصَارَتِ الْمَدِيْنَةُ مِثْلَ الْجَوْبَةِ وَسَالَ الْوَادِي قَنَاةُ شَهْرًا وَلَمْ يَجِيئْ أَحَدٌ مِنْ نَاحِيَةٍ إِلَّا حَدَّثَ بِالْجَوْدِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
7 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الجمعة، باب : الاستسقاء في الخطبة يوم الجمعة، 1 / 315، الرقم : 891، وفي باب : من تمطر في المطر حتی يتحادر علی لحيته، 1 / 349، الرقم : 986، ومسلم في الصحيح، کتاب : صلاة الاستسقاء، باب، الدعاء في الاستسقاء، 2 / 614، الرقم : 897، والنسائي في السنن، کتاب : الاستسقاء، باب : رفع الإمام يديه عند مسألة إمساک المطر، 3 / 166، الرقم : 1528، وابن الجارود في المنتقی، 1 / 75، الرقم : 256، والطبراني في الدعاء، 1 / 297، الرقم : 957.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہو گئے۔ ایک مرتبہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے تو ایک اعرابی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! مال ہلاک ہو گیا اور بچے بھوکے مر گئے، اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے۔ ہم نے اس وقت آسمان میں بادل کا کوئی ٹکڑا تک نہیں دیکھا تھا، پھر قسم اس کی ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ کیا اٹھائے کہ پہاڑوں جیسے بادل آ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے اترے بھی نہیں کہ میں نے بارش کے قطرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک سے ٹپکتے دیکھے۔ اس روز بارش برسی، اگلے روز بھی، اس سے اگلے روز بھی یہاں تک کہ اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پس وہی اعرابی کھڑا ہوا یا کوئی دوسرا شخص اور عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! مکانات گر گئے اور مال ڈوب گیا۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور کہا : اے اللہ! ہمارے اردگرد برسا، ہم پر نہیں۔ پس جس طرف دست مبارک سے اشارہ کرتے ادھر کے بادل چھٹ جاتے یہاں تک کہ مدینہ منورہ ایک دائرہ سا بن گیا۔ قناہ نامی نالہ مہینہ بھر بہتا رہا اور جو بھی آتا وہ اس بارش کا حال بیان کرتا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
31 / 8. عَنْ مَسْرُوْقٍ قَالَ أَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه فَقَالَ : إِنَّ قُرَيْشًا أَبْطَئُوْا عَنِ الإِْسْلَامِ فَدَعَا عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَتَّی هَلَکُوْا فِيْهَا وَأَکَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ فَجَاءَهُ أَبُوْ سُفْيَانَ فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُ بِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَکَ هَلَکُوْا فَادْعُ اﷲَ فَقَرَأَ : {فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍo} الدخان، 44 : 10 ثُمَّ عَادُوْا إِلَی کُفْرِهِمْ فَذَلِکَ قَوْلُهُ تَعَالَی : {يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْکُبْرَی إِنَّا مُنْتَقِمُوْنَo} الدخان، 44 : 16 يَوْمَ بَدْرٍ. قَالَ أَبُوْ عَبْدُ اﷲِ : وَزَادَ أَسْبَاطٌ عَنْ مَنْصُوْرٍ : فَدَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَسُقُوا الْغَيْثَ فَأَطْبَقَتْ عَلَيْهِمْ سَبْعًا وَشَکَا النَّاسُ کَثْرَةَ الْمَطَرِ قَالَ : اَللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَانْحَدَرَتِ السَّحَابَةُ عَنْ رَأْسِهِ فَسُقُوا النَّاسُ حَوْلَهُمْ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
8 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاستسقاء، باب : إذا استشفع المشرکون بالمسلمين عند القحط، 1 / 342، الرقم : 974، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 352، الرقم : 6221، وابن کثير في البداية والنهاية، 4 / 297، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 4 / 273، والزرقاني في شرح المواهب اللدنية، 11 / 144.
’’حضرت مسروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا انہوں نے کہا (کفار) قریش نے اسلام لانے میں (حد درجہ) تاخیر کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے بددعا کی۔ انہیں قحط سالی نے پکڑ لیا، یہاں تک کہ وہ مرنے لگے اور مردار اور ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے۔ پھر ابوسفیان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض گذار ہوا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور آپ کی قوم مر رہی ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پڑھا ’’پس اس دن کا انتظار کیجیے جس دن آسمان سے ایک نظر آنے والا دھواں ظاہر ہو گا۔‘‘ پھر وہ اپنے کفر کی طرف لوٹ گئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (لیکن یاد رکھو کہ) جس دن ہم سخت (پکڑ) پکڑیں گے۔‘‘ سے مراد یوم بدر ہے۔ حضرت ابو عبد اللہ نے کہا : اور اسباط نے منصور کے حوالے سے یہ اضافہ کیا ہے : پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی تو بارش ہوئی اور لگا تار سات دن تک ہوتی رہی پھر لوگوں نے بارش کی کثرت کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ (بارش) ہمارے گرد و پیش پر برسا، ہم پر نہ برسا۔ چنانچہ بادل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک سے ہٹ گئے اور ان کے اردگرد بارش جاری رہی۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
32 / 9. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : أَصَابَ أَهْلَ الْمَدِيْنَةِ قَحْطٌ عَلَی عَهْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَبَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ يَوْمَ جُمُعَةٍ إِذْ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هَلَکَتِ الْکُرَاعُ هَلَکَتِ الشَّاءُ فَادْعُ اﷲَ يَسْقِيْنَا فَمَدَّ يَدَيْهِ وَدَعَا قَالَ أَنَسٌ : وَإِنَّ السَّمَاءَ لَمِثْلُ الزُّجَاجَةِ فَهَاجَتْ رِيْحٌ أَنْشَأَتْ سَحَابًا ثُمَّ اجْتَمَعَ ثُمَّ أَرْسَلَتِ السَّمَاءُ عَزَالِيَهَا فَخَرَجْنَا نَخُوْضُ الْمَاءَ حَتَّی أَتَيْنَا مَنَازِلَنَا فَلَمْ نَزَلْ نُمْطَرُ إِلَی الْجُمُعَةِ الْأُخْرَی فَقَامَ إِلَيْهِ ذَلِکَ الرَّجُلُ أَوْ غَيْرُهُ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، تَهَدَّمَتِ الْبُيُوْتُ فَادْعُ اﷲَ يَحْبِسْهُ فَتَبَسَّمَ ثُمَّ قَالَ : حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَنَظَرْتُ إِلَی السَّحَابِ تَصَدَّعَ حَوْلَ الْمَدِيْنَةِ کَأَنَّهُ إِکْلِيْلٌ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ.
9 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1313، الرقم : 3389، ومسلم في الصحيح، کتاب : الاستسقاء، باب : الدعاء في الاستسقاء، 2 / 614، الرقم : 897، وأبوداود في السنن، کتاب : صلاة الاستسقاء، باب : رفع اليدين في الاستسقاء، 1 / 304، الرقم : 1174، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 214، الرقم : 612، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 95، الرقم : 2601، وفي الدعاء، 1 / 596. 597، الرقم : 2179، وابن عبد البر في الاستذکار، 2 / 434، والحسيني في البيان والتعريف، 2 / 26، الرقم : 957.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک دفعہ اہل مدینہ (شدید) قحط سے دوچار ہو گئے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ! گھوڑے ہلاک ہو گئے، بکریاں مر گئیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمیں پانی مرحمت فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت آسمان شیشے کی طرح صاف تھا لیکن ہوا چلنے لگی، بادل گھر کر جمع ہو گئے اور آسمان نے ایسا اپنا منہ کھولا کہ ہم برستی ہوئی بارش میں اپنے گھروں کو گئے اور متواتر اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر (آئندہ جمعہ) وہی شخص یا کوئی دوسرا آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! گھر تباہ ہو رہے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ اب اس (بارش) کو روک لے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اس شخص کی بات سن کر) مسکرا پڑے اور (اپنے سرِ اقدس کے اوپر بارش کی طرف انگلی مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا : ’’ہمیں چھوڑ کر ہمارے گردا گرد برسو۔‘‘ تو ہم نے دیکھا کہ اسی وقت بادل مدینہ منورہ کے اوپر سے ہٹ کر یوں چاروں طرف چھٹ گئے گویا وہ تاج ہیں (یعنی تاج کی طرح دائرہ کی شکل میں پھیل گئے)۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، مسلم اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔
33 / 10. عن يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ قَالَ : رَأَيْتُ أَثَرَ ضَرْبَةٍ فِي سَاقِ سَلَمَةَ رضی الله عنه فَقُلْتُ : يَا أَبَا مُسْلِمٍ، مَا هَذِهِ الضَّرْبَةُ؟ فَقَالَ : هَذِهِ ضَرْبَةٌ أَصَابَتْنِي يَوْمَ خَيْبَرَ فَقَالَ النَّاسُ : أُصِيْبَ سَلَمَةُ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَنَفَثَ فِيهِ ثَـلَاثَ نَفَثَاتٍ فَمَا اشْتَکَيْتُهَا حَتَّی السَّاعَةِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
10 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة خيبر، 4 / 1541، الرقم : 3969، وأبو داود في السنن، کتاب، الطب، باب : کيف الرقي، 4 / 12، الرقم : 3894، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 48، الرقم : 16562، وابن حبان في الصحيح، 14 / 439، الرقم : 6510، والروياني في المسند، 2 / 248، الرقم : 1139، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 22 / 94. 95.
’’یزید بن ابو عبید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پنڈلی پر زخم کا ایک نشان دیکھا تو دریافت کیا کہ اے ابومسلم! یہ نشان کیسا ہے؟ انہوں نے فرمایا : یہ زخم مجھے غزوہ خیبر میں آیا تھا۔ لوگ تو یہی کہنے لگے تھے کہ سلمہ کا آخری وقت آ پہنچا ہے لیکن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو گیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر تین مرتبہ دم فرمایا تو مجھے اب تک کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، ابوداود اور احمد نے روایت کیا ہے۔
34 / 11. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : عَطِشَ النَّاسُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَ يَدَيْهِ رِکْوَةٌ فَتَوَضَّأَ، فَجَهِشَ النَّاسُ نَحْوَهُ، فَقَالَ : مَالَکُمْ؟ قَالُوْا : لَيْسَ عِنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ وَلَا نَشْرَبُ إِلَّا مَابَيْنَ يَدَيْکَ، فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الرِّکْوَةِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ يَثُوْرُ بَيْنَ أَصَابِعِهِ کَأَمْثَالِ الْعُيُوْنِ، فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا قُلْتُ : کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ : لَوْکُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَکَفَانَا‘ کُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.
11 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1310، الرقم : 3383، وفي کتاب : المغازي، باب : غزوة الحديبية، 4 / 1526، الرقم : 3921. 3923، وفي کتاب : الأشربة، باب : شرب البرکة والماءِ المبارک، 5 / 2135، الرقم : 5316، وفي کتاب : التفسير / الفتح، باب : إِذْ يُبَايعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ : (18)، 4 / 1831، الرقم : 4560، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 329، الرقم : 14562، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 65، الرقم : 125، وابن حبان في الصحيح، 14 / 480، الرقم : 6542، والدارمي في السنن، 1 / 21، الرقم : 27، وأبو يعلی في المسند، 4 / 82، الرقم : 2107، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 272، وابن الجعد في المسند، 1 / 29، الرقم : 82.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی (جبکہ پانی کی سخت قلت تھی)۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پانی کی ایک چھاگل رکھی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے وضو فرمایا : لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھپٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں کیا ہوا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارے پاس وضو کے لئے پانی ہے نہ پینے کے لئے۔ صرف یہی پانی ہے جو آپ کے سامنے رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (یہ سن کر) دستِ مبارک چھاگل کے اندر رکھا تو فوراً چشموں کی طرح پانی انگلیوں کے درمیان سے جوش مار کر نکلنے لگا چنانچہ ہم سب نے (خوب پانی) پیا اور وضو بھی کر لیا۔ (سالم راوی کہتے ہیں) میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : اس وقت آپ کتنے افراد تھے؟ انہوں نے فرمایا : اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی سب کے لئے کافی ہو جاتا، جبکہ ہم تو پندرہ سو تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔
35 / 12. عَنْ جَابِرٍ ص أَنَّ أَبَاهُ تُوُفِّيَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقُلْتُ : إِنَّ أَبِي تَرَکَ عَلَيْهِ دَيْنًا، وَلَيْسَ عِنْدِي إِلَّا مَا يُخْرِجُ نَخْلُهُ، وَلَا يَبْلُغُ مَا يُخْرِجُ سِنِيْنَ مَا عَلَيْهِ، فَانْطَلِقْ مَعِي لِکَي لَا يُفْحِشَ عَلَيَّ الْغُرَمَاءُ، فَمَشَی حَوْلَ بَيْدَرٍ مِنْ بَيَادِرِ التَّمْرِ فَدَعَا، ثُمَّ آخَرَ، ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ، فَقَالَ : انْزِعُوْهُ فَأَوْفَاهُمُ الَّذِي لَهُمْ، وَبَقِيَ مِثْلُ مَا أَعْطَاهُمْ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.
12 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1312، الرقم : 3387، وفي کتاب : البيوع، باب : الکيل علی البائع والمعطي، 2 / 748، الرقم : 2020، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 365، الرقم : 14977.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد محترم (حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ) وفات پا گئے اور ان کے اوپر قرض تھا۔ سو میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میرے والد نے (وفات کے بعد) پیچھے قرضہ چھوڑا ہے اور میرے پاس (اس کی ادائیگی کے لئے) کچھ بھی نہیں ماسوائے جو کھجور کے (چند) درختوں سے جو پیداوار حاصل ہوتی ہے اور ان سے کئی سال میں بھی قرض ادا نہیں ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ساتھ تشریف لے چلیں تاکہ قرض خواہ مجھ پر سختی نہ کریں سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ان کے ساتھ تشریف لے گئے اور ان کے) کھجوروں کے ڈھیروں میں سے ایک ڈھیر کے گرد پھرے اور دعا کی پھر دوسرے ڈھیر (کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ڈھیر پر بیٹھ گئے اور فرمایا : قرض خواہوں کو ماپ کر دیتے جاؤ سو سب قرض خواہوں کا پورا قرض ادا کر دیا گیا اور اتنی ہی کھجوریں بچ بھی گئیں جتنی کہ قرض میں دی تھیں۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔
36 / 13. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ : تُوُفِّيَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ رضی الله عنه وَعَلَيْهِ دَيْنٌ فَاسْتَعَنْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم عَلَی غُرَمَائِهِ أَنْ يَضَعُوْا مِنْ دَيْنِهِ فَطَلَبَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَيْهِمْ فَلَمْ يَفْعَلُوْا فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : اذْهَبْ فَصَنِّفْ تَمْرَکَ أَصْنَافًا الْعَجْوَةَ عَلَی حِدَةٍ وَعَذْقَ زَيْدٍ عَلَی حِدَةٍ ثُمَّ أَرْسِلْ إِلَيَّ فَفَعَلْتُ ثُمَّ أَرْسَلْتُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَجَاءَ فَجَلَسَ عَلَی أَعْـلَاهُ أَوْ فِي وَسَطِهِ ثُمَّ قَالَ : کِلْ لِلْقَوْمِ فَکِلْتُهُمْ حَتَّی أَوْفَيْتُهُمُ الَّذِي لَهُمْ وَبَقِيَ تَمْرِي کَأَنَّهُ لَمْ يَنْقُصْ مِنْهُ شَيئٌ.
وفي رواية عنه : عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : فَمَا زَالَ يَکِيْلُ لَهُمْ حَتَّی أَدَّاهُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
13 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : البيوع، باب : الکيل علی البائع والمعطي، 2 / 748، الرقم : 2020، وفي کتاب : الاستقراض وأداء الديون والحجر والتفليس، باب : الشفاعة في وضع الدين، 2 / 847، الرقم : 2275، وأبو داود في السنن، کتاب : الوصايا، باب : ما جاء في الرجل يموت وعليه دين وله وفاء، 3 / 118، الرقم : 2884، والنسائي في السنن، کتاب : الوصايا، باب : قضاء الدين قبل الميراث، 6 / 245، الرقم : 3637. 3638، وفي السنن الکبری، 4 / 105، الرقم : 6464. 6465، وابن ماجه في السنن، کتاب : الأحکام، باب : أداء الدين عن الميت، 2 / 813، الرقم : 2434، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 314، الرقم : 31710، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 313، الرقم : 14398، وأبو يعلی في المسند، 3 / 431، الرقم : 1921، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 593، والعيني في عمدة القاري، 11 / 246، الرقم : 7212، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 43 / 218.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ان کے والد) حضرت عبداﷲ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ وفات پا گئے اور ان کے اوپر قرض تھا۔ میں نے قرض خواہوں کے (بے پناہ) تقاضا پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد چاہی کہ وہ لوگ اپنے قرض سے کچھ گھٹا دیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بلایا لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : جاؤ اور ہر قسم کی کھجوریں علیحدہ رکھنا یعنی عجوہ ایک طرف اور غدق ایک طرف۔ پھر میرے لیے پیغام بھیج دینا۔ میں نے ایسا ہی کر کے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیغام بھیج دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے اوپر یا درمیان میں بیٹھ گئے، پھر مجھے فرمایا : لوگوں کو ناپ ناپ کر دیتے جاؤ۔ میں نے انہیں ناپ ناپ کر دیں یہاں تک کہ سب کا قرض ادا کر دیا اور میری تمام کھجوریں بچ رہیں گویا ایک بھی کم نہ ہوئی۔ ایک روایت میں حضرت جابر نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی وہ ناپتے رہے (اور لوگوں کو دیتے رہے) یہاں تک کہ سب کے قرض کی ادائیگی کر دی۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
37 / 14. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ أَدْعُوْ أُمِّي إِلَی الإِسْلَامِ وَهِيَ مُشْرِکَةٌ فَدَعَوْتُهَا يَوْمًا فَأَسْمَعَتْنِي فِي رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مَا أَکْرَهُ فَأَتَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَنَا أَبْکِي قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي کُنْتُ أَدْعُوْ أُمِّي إِلَی الإِْسْلَامِ فَتَأْبَی عَلَيَّ فَدَعَوْتُهَا الْيَوْمَ فَأَسْمَعَتْنِي فِيْکَ مَا أَکْرَهُ فَادْعُ اﷲَ أَنْ يَهْدِيَ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَللَّهُمَّ اهْدِ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ فَخَرَجْتُ مُسْتَبْشِرًا بِدَعْوَةِ نَبِيِّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَلَمَّا جِئْتُ فَصِرْتُ إِلَی الْبَابِ فَإِذَا هُوَ مُجَافٌ فَسَمِعَتْ أُمِّي خَشْفَ قَدَمَيَّ فَقَالَتْ مَکَانَکَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ وَسَمِعْتُ خَضْخَضَةَ الْمَاءِ قَالَ : فَاغْتَسَلَتْ وَلَبِسَتْ دِرْعَهَا وَعَجِلَتْ عَنْ خِمَارِهَا فَفَتَحَتِ الْبَابَ ثُمَّ قَالَتْ : يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ قَالَ : فَرَجَعْتُ إِلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَتَيْتُهُ وَأَنَا أَبْکِي مِنْ الْفَرَحِ قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَبْشِرْ قَدِ اسْتَجَابَ اﷲُ دَعْوَتَکَ وَهَدَی أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ فَحَمِدَ اﷲَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ وَقَالَ خَيْرًا قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، ادْعُ اﷲَ أَنْ يُحَبِّبَنِي أَنَا وَأُمِّي إِلَی عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِيْنَ وَيُحَبِّبَهُمْ إِلَيْنَا قَالَ : فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَللَّهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَکَ هَذَا يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ وَأُمَّهُ إِلَی عِبَادِکَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَحَبِّبْ إِلَيْهِمُ الْمُؤْمِنِيْنَ فَمَا خُلِقَ مُؤْمِنٌ يَسْمَعُ بِي وَلَا يَرَانِي إِلَّا أَحَبَّنِي.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
14 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل أبي هريرة الدوسي رضی الله عنه، 4 / 1938، الرقم : 2491، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 319، الرقم : 8242، وابن حبان في الصحيح، 16 / 107، الرقم : 7154، والحاکم في المستدرک، 2 / 677، الرقم : 4240، وقال : هذا حديث صحيح الإسناد، والبغوي في شرح السنة، 13 / 306، الرقم : 3726، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، کتاب : الفضائل، 3 / 297، الرقم : 5795، وابن سعد في الطبقات الکبری، 4 / 328، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 85، الرقم : 77، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 67 / 325.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ مشرکہ تھیں، میں ان کو اسلام کی دعوت دیتا تھا، ایک دن میں نے ان کو دعوت دی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ایسی بات کہی جو مجھ کو ناگوار گزری، میں روتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا، میں نے کہا یا رسول اللہ! میں اپنی ماں کو اسلام کی دعوت دیتا تھا وہ انکار کرتی تھی، آج میں نے اس کو دعوت دی تو اس نے آپ کے متعلق ایسا کلمہ کہا جو مجھے ناگوار گزرا، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دے‘‘ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا لے کر خوشی سے روانہ ہوا، جب میں گھر کے دروازہ پر پہنچا تو دروازہ بند تھا، ماں نے میرے قدموں کی آہٹ سن لی، اس نے کہا اے ابوہریرہ! اپنی جگہ ٹھہرو، پھر میں نے پانی گرنے کی آواز سنی، میری ماں نے غسل کیا اور قمیص پہنی اور جلدی میں بغیر دوپٹہ کے باہر آئیں، پھر دروازہ کھولا اور کہا : اے ابوہریرہ میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، پھر میں خوشی سے روتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کو بشارت ہو، اللہ نے آپ کی دعا قبول کر لی اور ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دے دی، آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی اور کلمہ خیر فرمایا، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میری اور میری ماں کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے، اور ہمارے دلوں میں ان کی محبت ڈال دے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! اپنے اس بندے (حضور کی مراد ابوہریرہ تھے) اور اس کی ماں کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں پیدا کر دے، اور مومنوں کی محبت ان کے دل میں ڈال دے، پھر ایسا کوئی مسلمان پیدا نہیں ہوا جو میرا ذکر سن کر یا مجھے دیکھ کر مجھ سے محبت نہ کرے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
38 / 15. عَنْ رَبِيْعَةَ بْنِ کَعْبٍ الْأَسْلَمِيِّ رضی الله عنه قَالَ : کُنْتُ أَبِيْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوْئِهِ وَحَاجَتِهِ فَقَالَ لِي : سَلْ، فَقُلْتُ : أَسْأَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِي الْجَنَّةِ قَالَ : أَوْ غَيْرَ ذَلِکَ قُلْتُ : هُوَ ذَاکَ، قَالَ : فَأَعِنِّي عَلَی نَفْسِکَ بِکَثْرَةِ السُّجُوْدِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.
15 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : فضل السجود والحث عليه، 1 / 353، الرقم : 489، وأبو داود في السنن، کتاب : الصلاة، باب : وقت قيام النبي صلی الله عليه وآله وسلم من الليل، 2 / 35، الرقم : 1320، والنسائي في السنن، کتاب : التطبيق، باب : فضل السجود، 2 / 227، الرقم : 1138، وفي السنن الکبری، 1 / 242، الرقم : 724، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 59، الرقم : 16628، والبغوي في شرح السنة، 3 / 149، الرقم : 655، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 56، الرقم : 4570، والبيهقي في السنن الکبری، 2 / 486، الرقم : 4344، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 152، الرقم : 564.
’’حضرت ربیع بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں رات کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں رہا کرتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استنجاء اور وضو کے لئے پانی لاتا ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا : ’’(اے ربیعہ!) مانگو کیا مانگتے ہو۔‘‘ میں نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) میں آپ سے جنت کی رفاقت مانگتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کے علاوہ ’’اور کچھ‘‘ میں نے کہا مجھے یہی کافی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (جنت تو عطا کر دی) اب تم کثرتِ سجود سے اپنے معاملے میں میری مدد کرو۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
39 / 16. عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : ادْعُ اﷲَ لِي أَنْ يُعَافِيَنِي. فَقَالَ : إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَکَ وَهُوَ خَيْرٌ. وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ. فَقَالَ : ادْعُهُ. فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوئَ هُ وَيُصَلِّيَ رَکْعَتَيْنِ. وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدعاء : {اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ. يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی. اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ}.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ وَأَحْمَدُ. وَقَالَ أَبُوْ عِيسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ أَبُوْ إِسْحَاقَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْأَلْبَانِيُّ : صَحِيْحٌ.
40 / 17. وفي رواية لأحمد : قَالَ : فَفَعَلَ الرَّجُلُ فَبَرَأَ.
16-19 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : في دعاء الضعيف، 5 / 569، الرقم : 3578، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 168، الرقم : 10494، 10495، وابن ماجه في السنن، کتاب : إقامة الصلاة والسنة فيها، باب : ما جاء في صلاة الحاجة، 1 / 441، الرقم : 1385، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 225، الرقم : 1219، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 138، الرقم : 17279. 17282، والحاکم في المستدرک، 1 / 458، 700، 707، الرقم : 1180، 1909، 1929، والطبراني في المعجم الصغير، 1 / 306، الرقم : 508، وفي المعجم الکبير، 9 / 30، الرقم : 8311، والبخاري في التاريخ الکبير، 6 / 209، الرقم : 2192، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 147، الرقم : 379، والنسائي في عمل اليوم والليلة، 1 / 417، الرقم : 658. 660، والبيهقي في دلائل النبوة، 6 / 166، والفسوي في المعرفة والتاريخ، 3 / 294، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 272، الرقم : 1018، وابن تيمية في مجموع الفتاوی، 1 / 74، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 279.
’’حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے لئے خیر و عافیت (یعنی بینائی کے لوٹ آنے) کی دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تو چاہے تو تیرے لئے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لئے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لئے (ابھی) دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا : (آقا) دعا فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اچھی طرح وضو کرنے اور دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا : یہ دعا کرنا :
{اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ. يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی. اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ}
’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں نبی رحمت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے، اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں تاکہ پوری ہو۔ اے اللہ! میرے حق میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے اور امام ہیثمی نے بھی فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور البانی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
’’اور امام احمد کی ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ تب اس شخص نے فوراً ہی وہ عمل کیا اور اسی وقت صحت یاب ہو گیا۔‘‘
41 / 18. وفي رواية : قَالَ عُثْمَانُ : فَوَاﷲِ مَا تَفَرَّقْنَا وَلَا طَالَ بِنَا الْحَدِيْثَ حَتَّی دَخَلَ الرَّجُلُ وَکَأَنَّهُ لَمْ يَکُنْ بِهِ ضَرٌّ قَطُّ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ الْبُخَارِيِّ.
’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پس خدا کی قسم! ابھی ہم وہاں سے اٹھے تھے کہ اورنہ ہی اس بات کو زیادہ دیر گزری تھی کہ وہ آدمی دوبارہ اس حال میں آیا کہ جیسے اُسے کبھی کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ نیز امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث امام بخاری کی شرائط پر صحیح ہے۔
42 / 19. وذکر العـلامة ابن تيمية : عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا أَعْمَی أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : إِنِّي أُصِبْتُ فِي بَصَرِي فَادْعُ اﷲَ لِي قَالَ : اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ وَصَلِّ رَکْعَتَيْنِ، ثُمَّ قُلْ : اَللَّهُمَّ إِنِّي سَائِلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِنَبِيٍّ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، أَسْتَشْفِعُ بِکَ عَلَی رَبِّي فِي رَدِّ بَصَرِي، اَللَّهُمَّ فَشَفِّعْنِي فِي نَفْسِي وَشَفِّعْ نَبِيِّ فِي رَدِّ بَصَرِي، وَإِنْ کَانَتْ حَاجَةٌ فَافْعَلْ مِثْلَ ذَلِکَ فَرَدَّ اﷲُ عَلَيْهِ بَصَرَهُ.
’’علامہ ابن تیمیہ نے بیان کیا کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میری بصارت جواب دے گئی ہے۔ آپ! میرے حق میں دعا فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جاؤ وضو کرو اور پھر دو رکعت نماز پڑھو پھر کہو : اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کہ تیرے رحیم نبی ہیں ان کے توسّل سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں یا محمد! میں آپ کے توسّل سے اپنے رب سے اپنی بینائی کی شفایابی کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ! مجھے شفاء عطا فرما اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت میرے بینائی کے لوٹانے میں قبول فرما۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تجھے پھر بھی آرام نہ آئے تو دوبارہ ایسا کرنا، تو اللہ نے اسے بینائی عطا فرما دی۔‘‘
43 / 20. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : أَتَتِ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم بَوَاکِي فَقَالَ : اَللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيْثًا مَرِيْئًا مَرِيْعًا غَيْرَ ضَارٍّ عَاجِلاً غَيْرَ آجِلٍ قَالَ : فَأَطْبَقَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
20 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الصلاة، باب : رفع اليدين في الدعاء، 1 / 303، الرقم : 1169، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 335، الرقم : 1416، والحاکم في المستدرک، 1 / 475، الرقم : 1222، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 335، الرقم : 6230، وابن عبد البر في التمهيد، 23 / 433.
’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ لوگ روتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے (اور قحط سالی سے نجات کے لیے دعا کی درخواست کی) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ’’اے اﷲ! ہم پر (ایسی) بارش برسا جو ضرورت کو پوری کرے، اچھے انجام والی، سبزہ اگانے والی، نقصان سے مبّرا اور نفع مند، جلد برسنے والی، دیر نہ کرنے والی ہو۔‘‘ راوی کا بیان ہے کہ اسی وقت ان کو بادلوں نے گھیر لیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابوداؤد، ابن خزیمہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
44 / 21. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَقَدْ جِئْتُکَ مِنْ عِنْدِ قَوْمٍ مَا يَتَزَوَّدُ لَهُمْ رَاعٍ وَلَا يَخْطِرُ لَهُمْ فَحْلٌ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اﷲَ ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيْثًا مَرِيْئًا طَبَقًا مَرِيْعًا غَدَقًا عَاجِلاً غَيْرَ رَائِثِ ثُمَّ نَزَلَ فَمَا يَأْتِيْهِ أَحَدٌ مِنْ وَجْهِ مِنَ الْوُجُوْهِ إِلَّا قَالُوْا : قَدْ أُحْيِيْنَا.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَ أَحْمَدُ، وَقَالَ الْکِنَانِيُّ : هَذَا إسْنَادٌ صَحِيْحٌ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
21 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : إقامة الصلاة والسنة فيها، باب : ما جاء في الدعاء في الاستسقاء، 1 / 404، الرقم : 1270، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 324، الرقم : 31771، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 235، الرقم : 18090، والطيالسي في المسند، 1 / 166، الرقم : 1200، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 130، الرقم : 12677، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 527، الرقم : 510، وابن عبد البر في الاستذکار، 2 / 431، وفي التمهيد، 23 / 433، والمزي في تهذيب الکمال، 26 / 575، والکناني في مصباح الزجاجة، 1 / 51، الرقم : 449.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما روایت فرماتے ہیں کہ ایک دیہات کے رہنے والے صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یارسول اﷲ! میں آپ کی خدمت میں ایسی قوم کی جانب سے حاضر ہوا ہوں جن کے چرواہوں کے پاس توشہ آخرت نہیں اور ان کا کوئی نر جانور حرم نہیں اچھالتا (کمزوری کی وجہ سے) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اﷲ کی حمد و ثنا بیان کی پھر یہ دعا کی : ’’اے اﷲ! ہمیں پانی پلا زمین کو بھرنے والا (جس سے تالاب و ندیاں بھر جائیں) خوب برسنے والا، جلد برسنے والا نہ کہ تاخیر سے برسنے والا، نفع مند نہ کہ نقصان دہ‘‘ پھر منبر سے نیچے تشریف لے آئے اس کے بعد جس جانب سے بھی کوئی آتا یہی کہتا کہ ہمارے ہاں بارش ہوئی ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام کنانی نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح اور رجال ثقہ ہیں۔
45 / 22. عَنْ کَعْبِ بْنِ مُرَّةَ رضی الله عنه قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَال : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، اسْتَسْقِ اﷲَ، فَرَفَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَدَيْهِ فَقَالَ : اَللَّهُمَّ، اسْقِنَا غَيْثًا مَرِيْئًا مَرِيْعًا طَبَقًا عَاجِلاً غَيْرَ رَائِثٍ نَافِعًا غَيْرَ ضَارٍّ قَالَ : فَمَا جَمَّعُوْا حَتَّی أُجِيْبُوْا قَالَ : فَأَتُوْهُ فَشَکَوْا إِلَيْهِ الْمَطَرَ فَقَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، تَهَدَّمَتِ الْبُيُوْتُ فَقَالَ : اَللَّهُمَّ، حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا قَالَ : فَجَعَلَ السَّحَابُ يَنْقَطِعُ يَمِيْنًا وَشِمَالاً.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ نَحْوَهُ وَالطَّحَاوِيُّ وَأَحْمَدُ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ إِسْنَادُهُ عَلَی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
22 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : إقامة الصلاة والسنة فيها، باب : ما جاء في الدعاء في الاستسقاء، 1 / 404، الرقم : 1269، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 28، الرقم : 29225، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1 / 323، و عبد الرزاق في المصنف، 3 / 98، الرقم : 4907، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 235، الرقم : 18090، والحاکم في المستدرک، 1 / 476. 477، الرقم : 1226. 1227، والطيالسي في المسند، 1 / 166، الرقم : 1199، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 145، الرقم : 372، والبيهقي في السنن الصغری، 1 / 421، الرقم : 749، وفي السنن الکبری، 3 / 335، الرقم : 6233، والطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 28، الرقم : 6754، وفي المعجم الکبير، 20 / 318، الرقم : 755. 756 والعسقلاني في فتح الباري، 2 / 512.
’’حضرت کعب بن مُرّہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یارسول اﷲ! اﷲ تعالیٰ سے بارش کی دعا فرمائیں۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ بلند کئے اور دعا کی : ’’ اے اﷲ! ہمیں پانی پلا زمین کو بھر دینے والا (یعنی جس سے تالاب و ندیاں خوب بھر جائیں) خوب برسنے والا، جلد برسنے والا نہ کہ دیر سے (برسنے والا)، نفع مند نہ کہ نقصان دہ‘‘ حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دعا کو فوراً بعد) لوگ ابھی نمازِ جمعہ سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ خوب بارش برسنے لگی۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بہت زیادہ بارش ہو جانے کی شکایت کی اور عرض کیا : یارسول اﷲ! مکانات گرنے لگے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعا کی : ’’اے اﷲ! ہمارے اردگرد برسے ہمارے اوپر نہ برسے‘‘ حضرت کعب ص فرماتے ہیں کہ فوراً بارش (شہر مدینہ سے) چھٹ کر دائیں بائیں برسنا شروع ہو گئی۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ اسی طرح عبدالرزاق، طحاوی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی اسناد بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔
46 / 23. عَنِ الْحََسَنِ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم لَقِيَ رَجُـلًا مُخْتَضِبًا بِصُفْرَةٍ وَفِي يَدِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم جَرِيْدَةٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : حَطُّ وَرْسٍ، فَطَعَنَ بِالْجَرِيْدَةِ فِي بَطْنِ الرَّجُلِ وَقَالَ : أَلَمْ أَنْهَکَ عَنْ هَذَا؟ قَالَ : فَأَثَّرَ فِي بَطْنِهِ وَمَا أَدْمَاهَا، فَقَالَ : الرَّجُلُ : اَلْقُوْدُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ، فَقَالَ النَّاسُ : أَ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم تَقْتَصُّ فَقَالَ : مَا بِشْرَةُ أَحَدَ فَضَّلَ اﷲُ عَلَی بِشْرَتِي، قَالَ : فَکَشَفَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ بَطْنِهِ ثُمَّ قَالَ : اقْتَصَّ، فَقَبَّلَ الرَّجُلُ بَطْنَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَالَ : اُدْعُهَا لَکَ أَنْ تَشْفَعَ لِي بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ سَعْدٍ، وَقَالَ ابْنُ سَعْدٍ : ذَلِکَ الرَّجُلُ سَوَادُ بْنُ عَزِيَةَ بْنِ وَهْبِ بْنِ يَلِي بْنِ عَمْرِو بْنِ الْحَافِ بْنِ قُضَاعَةَ شَهِدَ بَدْرًا وَأُحُدٍ والْخَنْدَقِ وَالْمَشَاهِدَ کُلَّهَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم.
23 : أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 9 / 466، الرقم : 18038، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 516، والهندي في کنز العمال، 10 / 9.
’’حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک آدمی سے ملے جس نے زرد رنگ کا خضاب لگایا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ ِ نے اس کو تنبیہ کرتے ہوئے چھڑی سے اس کے پیٹ میں کچوکا لگایا اور فرمایا کیا میں نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا تھا۔ اس شخص کے پیٹ پر کچھ خراش آ گئی جس سے خون نکل آیا اس نے عرض کیا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے بدلہ دیجئے لوگوں نے کہا کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بدلہ لے گا ؟ اس نے کہا کہ کسی انسان کے جسم کو اللہ تعالیٰ نے میرے جسم پر فضیلت نہیں دی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جسم سے کپڑا اٹھا دیا اور کہا کہ تم بدلہ لے لو۔ اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم مبارک چوم لیا عرض کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے وسیلہ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ بروز قیامت میری شفاعت فرمائیں گئے۔‘‘
اس حدیث کو امام عبد الرزاق اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
’’امام ابن سعد نے فرمایا کہ وہ صحابی سواد بن عزیہ بن وہب بن یلی بن عمرو بن الحاف بن قضاعہ تھے جنہوں نے غزوہ بدر، اُحد اور خندق کے ساتھ ساتھ دیگر تمام مواقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شرکت کی تھی۔‘‘
47 / 24. عَنِ الْحَسَنِ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ : سَوَادَةُ بْنُ عَمْرٍو رضی الله عنه يَتَخَلَّقُ کَأَنَّهُ عُرْجُوْنٌ، وَکَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا رَآهُ يَعُضُّ لَهُ قَالَ : فَجَاءَ يَوْمًا وَهُوَ يَتَخَلَّقُ فَأَهْوَی لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِعُوْدٍ کَانَ فِي يَدِهِ فَجَرَحَهُ، فَقَالَ : الْقِصَاصِ يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَأَعَطَاهُ الْعُوْدَ وَکَانَ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَمِيْصَانِ قَالَ : فَجَعَلَ يَرْفَعُهُمَا فَنَهَزَهُ النَّاسُ قَالَ : فَکَشَفَ عَنْهَ حَتَّی انْتَهَی إِلَی الْمَکَانِ الَّذِي جَرَحَهُ فَرَمَی بِالْقَضِيْبِ وَعَلَّقَهُ يُقَبِّلُهُ وَقَالَ : يَا نَبِيَّ اﷲِ، أَدَعُهَا لَکَ أَنْ تَشْفَعَ لِي بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ قَانِعَ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
24 : أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 9 / 467، الرقم : 18039، وابن قانع في معجم الصحابة، 2 / 122، الرقم : 583، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 133، الرقم : 115، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 289.
’’حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری شخص جس کا نام سوادہ بن عمرو رضی اللہ عنہ تھا وہ بہت زیادہ خوشبو استعمال کرتے تھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ان کو دیکھتے تو بہت خوش ہوتے ایک دن وہ حاضر ہوئے تو انہوں نے خلوق لگائی ہوئی تھی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی سے اس کے پیٹ میں کچوکا لگایا تو اس نے عرض کیا کہ ائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے بدلہ دیجئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو وہ چھڑی تھما دی اس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اقدس پر دو قمیصیں تھیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ قمیصیں اپنے جسد اقدس سے اوپر اٹھانا شروع کیں تو لوگوں نے اسے زجر وتوبیخ کرنا شروع کی جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قمیض مبارک اس مقام تک اٹھا لی جہاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو کچوکا لگایا تھا تو اس شخص نے چھڑی پھینک دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اقدس کو چومنے لگا اور عرض کیا کہ ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ سے اس کے وسیلہ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت کے دن میری شفاعت فرمائیں گے۔‘‘
اس حدیث کو امام عبد الرزاق اور ابن قانع نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔
48 / 25. عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ رضی الله عنه أَنَّهُ أُصِيْبَتْ عَيْنُهُ يَوْمَ بَدْرٍ، فَسَالَتْ حَدَقَتُهُ عَلَی وَجْنَتِهِ، فَأَرَادُوْا أَنْ يَقْطَعُوْهَا، فَسَأَلُوْا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : لاَ، فَدَعَا بِهِ، فَغَمَزَ حَدَقَتَهُ بِرَاحَتِهِ، فَکَانَ لاَ يُدْرَی أَيُّ عَيْنَيْهِ أُصِيْبَتْ. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ.
25-27 : أخرجه أبو يعلی في المسند، 3 / 120، الرقم : 1549، وفي المفاريد، 1 / 63، الرقم : 61، والحاکم في المستدرک، 3 / 334، الرقم : 5281، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 400، الرقم : 32364، والطبراني في المعجم الکبير، 19 / 8، الرقم : 12، وأبو عوانة في المسند، 4 / 348، الرقم : 6929، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 187، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 49 / 279. 282، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 333، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 7 / 430، الرقم : 814، وفي الإصابة، 4 / 208، الرقم : 4888، وابن قانع في معجم الصحابة، 2 / 361، وابن کثير في البداية والنهاية، 3 / 291، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 297، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 1 / 464.
’’حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن (تیر لگنے سے) ان کی آنکھ ضائع ہو گئی اور آنکھ کی سیاہی چہرے پر بہہ گئی۔ دیگر صحابہ نے اسے کاٹ دینا چاہا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرما دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرما کر آنکھ کو دوبارہ اس کے مقام پر رکھ دیا۔ سو حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ اس طرح ٹھیک ہو گئی کہ معلوم بھی نہ ہوتا تھا کہ کون سی آنکھ خراب ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو یعلی اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے۔
49 / 26. وفي رواية : فَرَدَّهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِيَدِهِ فَاسْتَوَتْ وَرَجَعَتْ وَکَانَتْ أَقْوَی عَيْنَيْهِ وَأَصَحَّهُمَا بَعْدَ أَنْ کَبُرَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ سے واپس لوٹا دیا اور اسے اس کی (اصل) جگہ برابر کر دیا اور یہ آنکھ صحیح ہونے کے بعد دوسری آنکھ سے بھی (بینائی میں) قوی تر اور صحیح تر تھی۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
50 / 27. وفي رواية : عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ رضی الله عنه أَنَّهُ أُصِيْبَتْ عَيْنُهُ يَوْمَ أُحُدٍ فَوَقَعَتْ عَلَی وَجْنَتِهِ فَرَدَّهَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِيَدِهِ فَکَانَتْ أَصَحُّ عَيْنَيْهِ وَأَحَدُّهُمَا. وفي رواية : فَکَانَتْ أَحْسَنُ عَيْنَيْهِ وَأَحَدُّهُمَا. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ
’’اور ایک روایت میں حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جنگ اُحد کے دن ان کی آنکھ میں کوئی چیز لگی اور ان کی آنکھ (کا ڈھیلا نکل کر) ان کے رخسار پر گر پڑا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے اسے لوٹا دیا تو یہ آنکھ ان کی دوسری آنکھ سے صحیح ترین اور تیز ترین تھی۔ اور ایک روایت میں ہے کہ یہ آنکھ ان کی دوسری آنکھ سے حسین ترین اور تیز ترین بصارت والی تھی۔‘‘
اسے امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
51 / 28. عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رضی الله عنه يَقُوْلُ : شَکَوْتُ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم نِسْيَانَ الْقُرْآنِ فَضَرَبَ صَدْرِي بِيَدِهِ فَقَالَ : يَا شَيْطَانُ اخْرُجْ مِنْ صَدْرِ عُثْمَانَ، قَالَ عُثْمَانُ : فَمَا نَسِيْتُ مِنْهُ شَيْئًا بَعْدُ أَحْبَبْتُ أَنْ أَذْکُرَهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
28 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 47، الرقم : 8347، والحارث في المسند، 2 / 932، الرقم : 1028، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 3.
’’حضرت عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں قرآن کو بھول جاتا تھا تو میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا : یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں قرآن یاد کرتاہوں اور بھول جاتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری چھاتی پر اپنا دست اقدس مارا اور فرمایا : اے شیطان عثمان کے سینہ سے نکل جا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے جو چیز بھی یاد کرنا چاہی وہ کبھی نہ بھولی۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
52 / 29. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ شَابٌ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَيُخِفُّ فِي حَوَائِجِهِ، فَقَالَ : سَلْنِي حَاجَةً فَقَالَ : اُدْعُ اﷲَ تَعَالَی لِيِ بِالْجَنَّةِ قَالَ : فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَتَنَفَّسَ وَقَالَ : نَعَمْ، وَلَکِنْ أَعِنِّي بِکَثْرَةِ السُّجُوْدِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
29-30 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 2 / 245، الرقم : 2029، وفي المعجم الأوسط، 3 / 63، الرقم : 2488، وابن المبارک في الزهد، 1 / 455، الرقم : 1287، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 1 / 329، الرقم : 319، والعسقلاني في الإصابة، 6 / 125، وقال : رواه البزار.
’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہا کرتا تھا اور اپنی ذاتی ضروریات بیان نہ کرتا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ سے مانگو (جو کچھ بھی چاہے) پس اس نے عرض کیا : اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں میرے لئے جنت کی دعا فرمائیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور اوپر اٹھایا، سانس لیا اور فرمایا، ٹھیک ہے لیکن کثرت سجود کے ساتھ میری مدد کرو۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
53 / 30. وفي رواية لابن مبارک : عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ أَنَّ رَجُـلًا قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أُدْعُ اﷲَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْ أَهْلِ شَفَاعَتِکَ قَالَ : أَعِنِّي بِکَثْرَةِ السُّجُوْدِ.
’’اور ابن مبارک کی ایک روایت میں ہے کہ فاطمہ بنت حسین رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ اﷲ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے (بھی) آپ کی شفاعت کے مستحقین میں سے بنا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (تم بھی میری شفاعت کے اہل لوگوں میں سے ہو جاؤ گے) مگر تم کثرت سجود کے ساتھ میری مدد کرو۔‘‘
54 / 31. عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِيِِّ رضی الله عنه قَالَ : أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَبَايَعْتُهُ فَبَلَغَنِي أَنَّهُ يُرِيْدُ أَنْ يُرْسِلَ جَيْشًا إِلَی قَوْمِي فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، رُدَّ الْجَيْشَ فَأَنَا لَکَ بِإِسْـلَامِهِمْ وَطَاعَتِهِمْ قَالَ : افْعَلْ فَکَتَبَ إِلَيْهِمْ فَأَتَی وَفْدٌ مِنْهُمْ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم بِإسْلَامِهِمْ وَطَاعَتِهِمْ… إلی أن قال : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : فَدُلِّنِي عَلَی رَجُلٍ أُوَلِّيْهِ فَدَلَلْتُهُ عَلَی رَجُلٍ مِنَ الْوَفْدِ فَوَلَّاهُ قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ لَنَا بِئْرًا إِذَا کَانَ الشِّتَاءُ وَسِعْنَا مَاؤُهَا فَاجْتَمَعْنَا عَلَيْهِ وَإِذَا کَانَ الصَّيْفُ قَلَّ وَتَفَرَّقْنَا عَلَی مِيَاهٍ حَوْلَنَا، وَإِنَّا لَا نَسْتَطِيْعُ الْيَوْمَ أَنْ نَتَفَرَّقَ. کُلُّ مَنْ حَوْلَنَا عَدُوٌّ، فَادْعُ اﷲَ يَسَعْنَا مَاؤُهَا، فَدَعَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ فَنَقَدَهُنَّ فِي کَفِّهِ ثُُمَّ قَالَ : إِذَنِ اسْتَمَوْهَا فَالْقُوْا وَاحِدَةً وَاحِدَةً، وَاذْکُرُوا اسْمَ اﷲِ فَمَا اسْتَطَاعُوْا أَنْ يَنْظُرُوْا إِلَی قَعْرِهَا بَعْدُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْأَصْبَهَانِيُّ وَالْفَرْيَابِيُّ.
31 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 5 / 262، الرقم : 5285، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 33، الرقم : 7، والفريابي في دلائل النبوة، 1 / 72، الرقم : 38، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 34 / 346، والحارث في المسند، 2 / 626، الرقم : 598، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 204، والمزي في تهذيب الکمال، 9 / 448.
’’صحابی رسول حضرت زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے اسلام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی اس کے بعد وہ طویل حدیث بیان کر کے فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارا ایک کنواں ہے، جب سردیوں کا موسم ہو تو اس کا پانی ہمارے لیے کافی ہوتا ہے اور وہ ہماری ضرورت پوری کرتا ہے لیکن جب گرمی آتی ہے تو اس کا پانی کم ہو جاتا ہے اور ہمیں پانی پینے کیلئے اردگرد جانا پڑتا ہے جبکہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں اور ہمارے اردگرد سب ہمارے دشمن ہیں تو آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ا للہ تعالیٰ ہمارے کنویں کا پانی بڑھا دے اور ہم اس کو جمع کر لیں اور ہمیں پانی پینے کیلئے ادھر ادھر نہ جانا پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سات کنکریاں منگوائیں اور انہیں اپنے ہاتھ میں گھمایا اور پھر دعا فرمائی اور پھر فرمایا ان کنکریوں کو لے جاؤ اور جب تم اپنے کنویں پر پہنچو تو ایک ایک کر کے ان کنکریوں کو اس میں ڈالتے جانا اور اس پر اللہل کا نام لینا۔ حضرت حارث صدائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ایسا ہی کیا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تھا تو اس کے بعد (کنویں کا پانی اتنا بڑھ گیا کہ) ہم کنویں کی تہہ کو کبھی نہ دیکھ سکے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی، اصبہانی اور فریابی نے روایت کیا ہے۔
55 / 32. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : أَتَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَبِکَفِّي سَلْعَةٌ فَقُلْتُ : يا نَبِيَّ اﷲِ، هذِهِ السَّلْعَةُ َقدْ أَذَتْنِي تَحُوْلُ بَيْنِي وَبَيْنَ قَائِمَةِ السَّيْفِ أَنْ أَقْبِضَ عَلَيْهِ وَعَنْ عِنَانِ الدَّآبَّةِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اُدْنُ مِنِّيِ فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَقَالَ : افْتَحَ يَدَکَ فَفَتَحْتُهَا ثُمَّ قَالَ : اِقْبِضْهَا فَقَبَضْتُهَا قَالَ : اُدْنُ مِنِّي فَدَنَوْتُ مِنْهُ قَالَ : افْتَحْهَا فَفَتَحْتُهَا فَنَفَثَ فِي کَفِّي ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَی السَّلْعَةِ فَمَا زَالَ يَطْحَنُهَا بِکَفِّهِ حَتَی رَفَعَ عَنْهَا وَمَا أَرَی أَثَرَهَا.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
32 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 7 / 306، الرقم : 7215، والبخاري في التاريخ الکبير، 4 / 250، الرقم : 2694، وابن عبد البر في الاستيعاب، 2 / 697، الرقم : 1163، والعسقلاني في الإصابة، 3 / 331، الرقم : 3876، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 298.
’’حضرت عبد الرحمن اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ میرے ہاتھ پر پھوڑا تھا میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اس پھوڑے نے مجھے بہت تکلیف دی ہے اور اس کی وجہ سے میں تلوار کا دستہ بھی مضبوطی سے پکڑنے اور سواری کے جانور کو قابو کرنے سے معذور ہوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے قریب آؤ پس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنا ہاتھ کھولو میں نے اپنا ہاتھ کھولا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مٹھی بند کرو پھر میں نے اسے بند کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے قریب آؤ پس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے کھولو تو میں نے کھولا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے ہاتھ پر پھونک ماری پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پھوڑے پر اپنا ہاتھ مبارک رکھا اور اس کو مسلسل دباتے رہے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس ہٹایا تو اس پھوڑے کا نام و نشان تک باقی نہ تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی اور بخاری نے التاریخ الکبير میں روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
56 / 33. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي زَوَّجْتُ ابْنَتِي وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ تُعِيْنَنِي بِشَيئٍ قَالَ : مَا عِنْدِي شَيئٌ وَلَکِنْ إِذَا کَانَ غَدًا فَائْتِنِي بِقَارُوْرَةٍ وَاسِعَةِ الرَّأْسِ وَعُوْدِ شَجَرَةٍ وَأَيَةٌ بَيْنِي وَبَيْنَکَ أَنْ تَدُقَّ نَاحِيَةَ الْبَابِ قَالَ : فَلَمَّا کَانَ فِي الْغَدِّ أَتَاهُ بِقَارُوْرَةٍ وَاسِعَةِ الرَّأْسِ، وَعُوْدِ شَجَرَةٍ، فَيَجْعَلُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَسْلِتُ الْعَرَقَ عَنْ ذِرَاعَيْهِ حَتَّی امْتَلأَتِ الْقَارُوْرَةَ فَقَالَ : خُذْهَا وَأْمُرْ ابْنَتَکَ أَنْ تَغْمِسَ هَذَا الْعُوْدَ فِي الْقَارُوْرَةِ وَتَطَيَبُ بِهَ. قَالَ : فَکَانَتْ إِذَا تَطَيَبَتْ شَمَّ أَهْلُ الْمَدِيْنَةِ رَائِحَةَ ذَلِکَ الطِّيْبِ، فَسُمَّوا بَيْتَ الْمُطَيِّبِيْنَ.
رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْأَصْبَهَانِيُّ.
33 : أخرجه أبو يعلی في المسند، 1 / 117، الرقم : 118، 11 / 186، الرقم : 6295، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 190، الرقم : 2895، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 59، الرقم : 41، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 6 / 23، الرقم : 3055، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 48، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 256، 8 / 283، والسيوطي في الجامع الصغير، 1 / 44، والمناوي في فيض القدير، 5 / 80.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ! میری بیٹی کی شادی ہے اور میری یہ خواہش ہے کہ آپ میری مدد فرمائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس وقت تو میرے پاس کچھ نہیں لیکن تم کل ایک کھلے منہ والی شیشی اور ایک لکڑی لے کر آنا اور میرے لئے تمہاری پہچان یہ ہو گی کہ تم دروازے پر دستک دینا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اگلے دن وہ کھلے منہ والی شیشی اور لکڑی لے کر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکڑی سے اپنے بازوؤں پر سے پسینہ اکٹھا کر کے اس شیشی میں ڈالنا شروع کر دیا یہاں تک کہ وہ شیشی بھر گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو فرمایا کہ یہ لے جاؤ اور اپنی بیٹی سے جا کر کہو کہ اس لکڑی کو اس شیشی میں ڈبو کر نکالے اور پھر اپنے آپ کو اس سے خوشبو لگائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب اس نے وہ خوشبو لگائی تو پورا شہر مدینہ اس خوشبو سے مہک اٹھا اور اسی بناء پر ان کے گھر کا نام ’’خوشبو والوں کا گھر‘‘ پڑ گیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو یعلی، طبرانی اور اصبہانی نے روایت کیا ہے۔
57 / 34. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا کَانَ يَوْمُ أُحُدٍ شُجَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي جَبْهَتِهِ فَأَتَاهَ مَالِکُ بْنُ سِنَانٍ رضی الله عنه (وَهُوَ وَالِدُ أَبِي سَعِيْدٍ) فَمَسَحَ الدَّمَ عَنْ وَجْهِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ثُمَّ أَزْدَرْدَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَی مَنْ خَالَطَ دَمِي دَمَهُ فَلْيَنْظُرْ إِلَی مَالِکِ بْنِ سِنَانٍ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالشَّيْبَانِيُّ.
34 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 651، الرقم : 6394، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 34، الرقم : 5430، والشيباني في الآحاد والمثاني، 4 / 124، الرقم : 2097، والهثيمي في مجمع الزوائد، 6 / 114.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جنگِ اُحد کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرئہ مبارک پر زخم آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت مالک بن سنان رضی اللہ عنہ آئے (یہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے والد ہیں) انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک سے خون صاف کرنے لگے اور پھر اس خون مبارک کو (اپنے ہونٹوں سے چوس کر حلق کے اندر) نگل لیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص پسند کرتا ہے کہ وہ اس شخص کو دیکھے جس کے خون کے ساتھ میرا خون مل چکا ہے تو وہ مالک بن سنان کو دیکھ لے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم، طبرانی اور شیبانی نے روایت کیا ہے۔
58 / 35. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه أَنَّ أَبَاهَ مَالِکَ بْنُ سَنَانٍ رضی الله عنه لَمَّا أُصِيْبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي وَجْهِهِ يَوْمَ أُحَدٍ مَصَّ دَمَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَازْدَرْدَهُ فَقِيْلَ لَهُ : أَتَشْرَبُ الدَّمَ؟ قَالَ : نَعَمْ، أَشْرَبُ دَمَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : خَالَطَ دَمِي بِدَمِهِ لَا تَمَسُّهُ النَّارُ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
35 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 47، الرقم : 9098، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 270.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد حضرت مالک بن سنان رضی اللہ عنہ غزوہ اُحد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے (چہرہ اقدس پر آنے والے) زخم مبارک کو (اپنی زبان سے) چاٹنے اور (اس میں سے بہنے والا خون) چوسنے لگے۔ جس سے زخم کی جگہ چمکنے لگی ان سے کہا گیا کہ کیا تم خون پی رہے ہو؟ انہوں نے کہا : ہاں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا (پاک) خون پی رہا ہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کے خون سے میرا خون مل گیا اسے دوزخ کی آگ کبھی نہیں چھوئے گی۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
59 / 36. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : أَصَابَتِ النَّاسَ سَنَةٌ شَدِيْدَةٌ عَلَی عَهْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَمَرَّ بِهِمْ يَهُوْدِيٌّ فَقَالَ : أَمَا وَاﷲِ، لَوْ شَاءَ صَاحِبُکُمْ لَمُطِرْتُمْ مَا شِئْتُمْ وَلَکِنَّهُ لَا يُحِبُّ ذَلِکَ فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِقَوْلِ الْيَهُوْدِيِّ فَقَالَ : أَوْ قَدْ قَالَ ذَلِکَ؟ قَالُوْا : نَعَمْ قَالَ : إِنِّي لَأَسْتَنْصِرُ بِالسَّنَةِ عَلَی أَهْلِ نَجْدٍ وَإِنِّي لَأَرَی السَّحَابَ خَارِجَةً مِنَ الْعَيْنِ فَأُکْرِهُهَا مَوْعِدُکُمْ يَوْمَ کَذَا اسْتَسْقَی لَکُمْ قَالَ : فَلَمَّا کَانَ ذَلِکَ غَدَا النَّاسُ فَمَا تَفَرَّقَ النَّاسُ حَتَّی أُمْطِرُوْا مَا شَاؤُوْا فَمَا أَقْلَعَتِ السَّمَاءُ جُمْعَةٌ.
رَوَاهُ الشَّافِعِيُّ.
36 : أخرجه الشافعي في المسند، 1 / 79، وفي کتاب الأم، 1 / 247.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے، آپ بیان کرتی ہیں کہ (ایک دفعہ) عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لوگوں کو سخت قحط سالی پہنچی تو ان لوگوں کے پاس سے ایک یہودی کا گزر ہوا تو اس نے کہا : اﷲ کی قسم! اگر تمہارے آقا محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) چاہیں تو تم پر تمہاری حسب منشاء بارش برسائی جا سکتی ہے لیکن وہ ایسا پسند نہیں کرتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہودی کے اس قول کی خبر دی گئی تو (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اس نے اس طرح کہا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : جی ہاں، یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں بادل کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ چشمے سے نکل رہا ہے۔ میں تم سے صرف وعدہ ناپسند کرتا ہوں۔ بلکہ میں فلاں دن تمہیں سیراب کروں گا۔ پس جس دن (وہ وعدہ کا) دن آیا تو لوگ ابھی منتشر بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان کی حسب منشاء بارش برسنے لگی۔ اور جس دن بارش برسی وہ جمعہ کا دن تھا۔‘‘
اسے امام شافعی نے روایت کیا ہے۔
60 / 37. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه وَحَمَلَ خَالِدُ بْنُ وَلِيْدٍ رضی الله عنه حَتَّی جَاوَزَهُمْ وَسَارَ لِجَبَالِ مُسَيْلَمَةَ وَجَعَلَ يَتَرَقَّبُ أَنْ يَصِلَ إِلَيْهِ فَيْقَتُلَهُ ثُمَّ رَجَعَ ثُمَّ وَقَفَ بَيْنَ الصَّفَّيْنِ وَدَعَا الْبَرَّازَ وَقاَلَ : أَنَا ابْنُ الْوَلِيْدِ الْعُوْدِ أَنَا ابْنُ عَامِرٍ وَزَيْدٍ ثُمَّ نَادَی بِشِعَارِ الْمُسْلِمِيْنَ، وَکَانَ شِعَارُهُم يَوْمَئِذٍ ’’يَا مُحَمَّدَاهُ‘‘. رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ.
37 : أخرجه الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 281، وابن کثير في البداية والنهاية، 6 / 324.
’’اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (طویل روایت میں) بیان کرتے ہیں کہ ’’(جنگ یمامہ کے موقع پر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد) حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا اٹھایا اور لشکر سے گزر کر مسیلمہ کذاب کے مستقر پہاڑ کی طرف چل دیئے اور انتظار کرنے لگے کہ وہ اس تک پہنچ کر اسے قتل کر دیں۔ پھر وہ لوٹ آئے اور دونوں لشکروں کے درمیان کھڑے ہو کر بلند آواز سے فرمایا ’’میں ولید کا بیٹا ہوں، میں عامر و زید کا بیٹا ہوں۔ پھر انہوں نے مسلمانوں کا مروجہ نعرہ بلند کیا اور ان دنوں ان کا جنگی نعرہ ’’یا محمداہ صلی اﷲ علیک وسلم‘‘ ( یا محمد! مدد فرمائیے) تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام طبری اور ابن کثیر نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved