یہ بات بطور خاص ذہن نشین رہنی چاہیے کہ خواب اور اس کی تعبیر میں فرق ہوتا ہے۔ اس لیے خواب میں جو کچھ دیکھا جاتا ہے وہ تعبیر طلب ہوتا ہے۔ خواہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہو یا کوئی دوسرا نظارہ، اس سے بعینہ وہی مراد نہیں ہوتا بلکہ اس کا معنی مرادی اور ہوتا ہے۔ اس لیے خواب میں نظر آنے والے منظر یا سنے جانے والے الفاظ کی ہمیشہ تاویل کی جاتی ہے جس کو اصطلاح میں تعبیر کہا جاتا ہے، اس لیے خواب میں جو کلمات ارشاد ہوں یا نظارہ کیا جائے اہل دیانت و امانت اس کی تعبیر کرتے ہیں، ظاہری کلمات اور نظارے کی بناء پر کبھی کسی نے گستاخی و بے ادبی کے فتوے نہیں لگائے۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ جب بھی کوئی خواب دیکھتے تو اس کی تعبیر اپنے استاد گرامی امام ابن سیرین رضی اللہ عنہ جو اجل تابعین میں سے ہیں، سے پوچھتے۔ امام عبدالغنی نابلسی رضی اللہ عنہ نے اس موضوع پر ’’تعطیر الانام فی تعبیر المنام‘‘ ایک مستقل کتاب لکھی ہے اور دیگر بہت سے آئمہ و علماء ہیں جنہوں نے اس فن میں باقاعدہ کتب تصنیف کیں۔
تعبیر : حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت اور پرورش
خواب اور تعبیر میں فرق و اختلاف کو سب سے پہلے حدیث پاک سے دیکھتے ہیں۔ مشکوۃ شریف میں ہے : حضرت ام فضل رضی اﷲ عنہا جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چچی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ ہیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں، عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں نے ایک خواب دیکھا ہے، بڑی پریشان ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا خواب دیکھا ہے؟ عرض کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم مبارک کا ایک حصہ جدا ہو کر میری گود میں آ گیا ہے، میں پریشان ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم مبارک کا ایک حصہ جدا ہو گیا ہے تو یہ خواب سن کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مبارک باد دی اور فرمایا کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ میری بیٹی فاطمہ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا جو تیری گود میں کھیلے گا، چنانچہ اس کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی۔
اس مذکورہ حدیث میں خواب میں جسم مبارک کے حصہ کا ظاہراً الگ ہونا دیکھا جو کہ پریشان کُن ہے مگر سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تعبیر یہ فرمائی کہ میرا بیٹا پیدا ہو گا، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے : الحسین منی وانا من الحسین (حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں)۔ چنانچہ جب حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی تو انہوں نے حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا کی گود میں پرورش پائی۔ اس حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے کہ خواب میں صادر ہونے والے ظاہری الفاظ پر فتوی لگانا ظلم و زیادتی اور سراسر لا علمی اور جہالت ہے۔
تعبیر : شوہر کی واپسی اور وصال
احلام الانبیاء والصلحاء میں ہے کہ ایک خاتون حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنا خواب بیان کیا اور عرض کیا حضور میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے گھر کی چھت ٹوٹی ہوئی ہے تو اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’تیرا شوہر سفر پر گیا ہوا ہے وہ واپس آ جائے گا‘‘۔ دیکھا تو چھت کا ٹوٹنا تھا لیکن رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعبیر کچھ اور بتائی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد اسی خاتون نے دوبارہ یہی خواب دیکھا تو حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس کی تعبیر یہ ارشاد فرمائی کہ تیرا شوہر فوت ہو جائے گا، چنانچہ اس کا شوہر فوت ہو گیا۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ خواب چھت کا ٹوٹنا اور تعبیر شوہر کا سفر سے واپس آنا، ان میں کوئی تعلق و ربط نہیں۔ خواب کچھ اور ہے جبکہ تعبیر کچھ اور ہے۔ یہ کتنی بد دیانتی ہے کہ انسان خواب اور تعبیر خواب کے فن کو نہ جانے اور نہ سمجھے بلکہ اس کے حروف ابجد سے بھی واقف نہ ہو تو یوں ہی جہلاء کی طرف خواب کے ظاہری الفاظ پر بے ادبی و گستاخی کے فتوے لگاتا پھرے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کا بھی حیاء نہ کرے، برملا ان چیزوں کو اچھالتا اور بیان کرتا پھرے۔ یہ بہت بڑا ظلم و زیادتی ہے حالانکہ اسلاف و اکابر کی بہت سی کتب خواب اور تعبیر خواب کے فن سے بھری پڑی ہیں۔
تعبیر : سنت کا احیاء
امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص خواب دیکھے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کھود رہا ہے یا اس سے مٹی کرید رہا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ کو زندہ کرے گا۔
ذرا غور کریں خواب قبر انور کے کھودنے کو دیکھا لیکن تعبیر اس کی کیا ہے۔ اگر کوئی شخص تعبیر کا فن نہ جانتا ہو اور وہ بدیانتی، جہالت اور علمی خیانت کا مرتکب ہوتے ہوئے اس کو اچھال کر یہ کہتا پھرے کہ نعوذ باﷲ قبر انور کھود رہا ہے اور اس بات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر جمع و تفریق کرتے ہوئے آگے بڑھاتا جائے تو اس سے سوائے فتنہ و شر کے اور کچھ نہیں پیدا ہو گا، جس طرح ہمارے معاملہ میں کیسٹ کو ظالموں اور حاسدوں نے قطع و برید کر کے اور خواب کے ظاہری الفاظ سے بذات خود کئی معانی و مطالب اخذ کر کے فتنہ و شر کو پھیلایا۔
تعبیر : (1) شہادت کی سعادت کا حصول
(2) منافق و عدّوِ اہل بیت
یہی امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب تعبیر الرویا میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خون مبارک پی رہا ہے، فرماتے ہیں اس کی تعبیر کی دو صورتیں ہیں :
1۔ اگر اس نے دیکھا کہ وہ خون مبارک رغبت اور شوق و محبت سے پی رہا ہے اور پھر یہ کہ چھپ کر پی رہا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ شخص جہاد میں شریک ہو کر شہید ہو گا۔ اب اس سے اندازہ لگائیں کہ اگر کوئی بدبخت علمی خیانت کا مرتکب ہو کر اس کو اچھالتا پھرے تو یہ اس کی حرماں نصیبی ہے مگر اہل ایمان اور اہل معرفت کہتے ہیں کہ اگر اس نے خون مبارک محبت سے پیا تو وہ شہید ہو گا۔
2۔ دوسری تعبیر اس کی یہ ہے کہ اگر اس نے خون مبارک اعلانیہ طور پر پیا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ شخص منافق ہو جائے گا اور اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن اور ان پر ظلم کرنے والا ہو گا۔
اس سے آپ نے دیکھا کہ خواب کیا تھی اور اس کی تعبیر کیا ہے؟ اس لیے خواب پر کھلے بندوں نہ کوئی تبصرہ کرنا چاہیے اور نہ ہی زبان درازی کرنا چاہیے اور بالخصوص وہ خواب و رویا صالحہ جن کا تعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ سے ہو اس لیے کہ اس میں ہزاروں معانی و معارف اور ہزاروں گوشے اور جہتیں ہوتی ہیں کہ جن تک کوتاہ نظر لوگوں کی رسائی ممکن نہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایسی خواب کی تعبیر اس فن کے ماہرین سے ہی پوچھی جائے جو وسیع سمندر میں غوطہ زنی کر کے اس کے حقائق و معارف سے پردے اٹھائیں اور اس کی صحیح تعبیر بیان کر سکیں اور اگر تعبیر سمجھ نہ آئے تو ادب واحترام رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تقاضا یہ ہے کہ جس شخص نے خواب دیکھا ہو اس کی دیانت پر چھوڑ دیا جائے اور کوئی تبصرے نہ کیے جائیں۔ اگر اس نے سچ بولا ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو پسند فرمایا ہے وہ ظاہر وہ جائے گا اور اگر اس نے بدبختی سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھوٹ منسوب کیا تو اس کا ایمان جاتا رہے گا اور وہ روز قیامت جہنم کا ایندھن قرار پائے گا۔
تعبیر : سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فوت ہونا
امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ ہی فرماتے ہیں کہ
اگر کسی شخص نے ایک جگہ جس کو وہ پہچانتا ہے۔ وہاں اس نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرماگئے ہیں تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ اس جگہ، شہر یا علاقے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مٹ جائے گی، فوت ہو جائے گی۔
یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ خواب میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو وصال فرماتے دیکھا اس سے مراد آپ کی ذات اقدس نہیں بلکہ آپ کی سنت مبارکہ ہے خواب میں نظر تو آپ کی ذات آتی ہے اور وہ حق ہے مگر تعبیر میں کبھی شریعت مراد ہوتی اور کبھی امت مراد ہوتی ہے کبھی دین اور کبھی اسلام مراد ہوتا ہے اور کبھی دیکھنے والے کا اپنا ایمانی حال مراد ہوتا ہے۔ اس لئے یاد رکھو کہ جب خواب میں آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوتی ہے تو وہ خواب کی زیارت ایک آئینے کی مانند ہوتی ہے۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئینے کی طرح اپنی امت کے سامنے دکھائی دیتے ہیں۔ اس آئینہ میں کبھی امت کا حال نظر آتا ہے، تو کبھی دیکھنے والے کا اپنا حال نظر آتا ہے، کبھی شریعت کا حال نظر آتا ہے، تو کبھی دین اسلام کا حال نظر آتا ہے۔ زیارت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہو رہی ہے۔ گفتگو آقا کی ذات پاک سے ہو رہی ہے کلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سن رہا ہے۔ کلمات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہو رہے ہیں مگر مراد اس سے آپ کی ذات نہیں ہوتی۔ یہ فن تعبیر کا اصول ہے جس سے کتابیں بھری پڑی ہیں اور اس پر علماء، آئمہ، محدثین، اولیاء و صوفیاء کا اجماع چودہ سو سال سے چلا آرہا ہے، کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ لیکن کس قدر افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ جب تحریک منہاج القرآن کے حوالے سے فیوضات و برکات نبویہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کا بیان ہوا تو یہ جانتے بوجھتے کہ اس سے مراد ذات اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بلکہ دین اسلام اور احوال امت مراد ہیں پھر بھی اس اجماعی اصول کو پس پشت ڈالتے ہوئے معاذ اللہ جو کچھ الزامات لگائے گئے کوئی بھی صاحب ایمان شخص وہ اپنی زبان پر لانے کا تصور نہیں کرسکتا۔ جو کچھ ہم نے بیان کیا اس سے ہرگز ہرگز حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محتاجی ثابت نہیں ہوتی۔ لیکن ایک شرعی اصول کو پامال کرتے ہوئے جو زبان استعمال کی گئی اور اتنی جسارت کی کہ اس بات کا بھی خیال نہ رکھا کہ اس طرح زبان کھولنے سے اپنی خواہش نفس ہی پوری نہیں ہوگی بلکہ بے ادبی اور گستاخی کا راستہ بھی پیدا ہوگا اور متفقہ و مسلمہ عقیدے پر بھی ضرب پڑے گی۔
خواب و تعبیر خواب کے اسی تصور کو مزید آگے بڑھاتے ہیں اگر دیانتداری کے ساتھ اس تصور کو سمجھ لیا جائے تو میں امید کرتا ہوں آج کے بعد تحریک منہاج القرآن پر اس موضوع کے حوالے سے زبانیں نہیں کھلیں گی اس لئے کہ علم دین اور مسلمہ بنیادی تصورات کا کچھ لحاظ و حیا ہوتا ہے ہمیں لاکھ برا بھلا کہو، گالیاں دو، پتھر مارو اللہ گواہ ہے ماتھے پر کبھی شکن بھی نہیں دیکھوگے گزارش صرف اتنی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین اور علم کا مذاق نہ اڑاؤ۔‘‘
تعبیر : صحیح اور موضوع احادیث کے درمیان امتیاز
صحیح بخاری کے مصنف تاریخ عالم اور اہل علم میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں وہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ خواب دیکھتے ہیں کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہیں اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہاتھ والے پنکھے سے ہوا دے رہے ہیں کچھ مکھیاں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف جا رہی ہیں آپ پنکھے سے بدن اقدس سے مکھیاں اڑا رہے ہیں۔ یہ خواب دیکھا تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پریشان ہوگئے کہ اس کی تعبیر کیا ہے؟ اس لئے کہ حدیث پاک میں آتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جسم اقدس پر مکھی نہیں بیٹھتی تھی تو کیا امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ پر الزام لگاؤ گے کہ انہوں نے گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے یا خواب غلط دیکھا ہے۔ جب حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ خواب دیکھا تو وہ پریشان ہوگئے۔ تو اس خواب کی تعبیر کے لئے ایک تعبیر جاننے والے امام کے پاس گئے تو انہوں نے کہا اچھا خواب ہے مبارک ہو اور اس کی یہ تعبیر بیان کی کہ تم موضوع اور من گھڑت، جھوٹی حدیثیں، روایتیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں تم ان کو چن چن کر نکال دوگے اور صحیح احادیث کو جمع کرو گے چنانچہ اس خواب کے نتیجہ میں صحیح بخاری مرتب ہوئی۔ جس میں امام بخاری نے صحت حدیث کا ایک معیار مقرر کیا اور موضوع احادیث کو نکال کر ایک ایسا مستند مجموعہ حدیث مرتب کیا کہ جو احسن الکتاب بعد از کتاب اللہ قرار پائی۔
اگر اس دور میں بھی اس طرح کے لوگ ہوتے تو وہ بھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پگڑی اچھالتے، زبان درازیاں کرتے مگر اس وقت کسی نے ایسا نہیں کیا اور نہ ہی کسی اہل علم نے آج تک اس پر اعتراض کیا ہے۔ خواب اور تعبیر سے معلوم ہوا کہ جسد مبارک سے مراد نہ تو آپ کا جسم اقدس اور نہ وہ مکھیاں تھیں جو خواب میں دیکھیں بلکہ اس سے مراد احادیث صحیحہ اور موضوع و من گھڑت احادیث تھیں اب کیا اس میں کوئی گستاخی کا پہلو رہا؟
ہماری کیسٹ کے حوالے سے یہ اعتراض کیا گیا کہ معاذ اللہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی و بے ادبی کا ارتکاب کیا ہے اس سلسلے میں میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں ہم تو پچھلے بارہ سال سے تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے اس امت و قوم کے بچے بچے کو عشق و محبت، ادب و احترام، تعظیم و تکریم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سبق دیتے آ رہے ہیں، آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی تو کجا ہم تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گلیوں میں گھومنے والے کتوں کی گستاخی کرنے والوں کو بھی مسلمان نہیں سمجھتے مگر تم نے خواب اور اس کی تعبیر کے فرق کو سمجھے بغیر اتنا ظلم کیا کہ اپنے اکابر کے اس ذخیرہ علمی کا بھی خیال نہ کیا جو کہ خوابوں و بشارات سے بھرا پڑا ہے ادھر فتوے نہ لگائے ادھر ہی لگائے آخر پس پردہ کیا عوامل کارفرما ہیں؟
ہمیں معلوم ہے جس عالم نے ہماری کیسٹ کو قطع برید کرکے، سیاق و سباق ختم کر کے اور ضروری وضاحتوں کو کاٹ کر تحریک منہاج القرآن کو بدنام کرنے اور طاہرالقادری پر کیچڑ اچھالنے کا منصوبہ بنایا ہے خدارا کچھ غیرت و حیا کرو اتنا کیچڑ اچھالو جس کا اثر فقط میری ذات پر ہی پڑے سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کا ذکر نہ آئے اگر آپ کو کوئی اختلاف ہے تو علمی طریقے سے دلائل کے ساتھ آ کر بات کرلیں ہمارے دروازے کھلے ہیں۔
ہمارے اس کیسٹ کو افشاء و پھیلانے میں جن علماء، بزرگوں، ساتھیوں اور تنظیموں نے زیادہ تگ و دو اور محنت کی ہے ان کی اکثریت علماء دیوبند سے بڑی عقیدت و محبت رکھتی ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ عقیدت کیوں، ہر کسی کا حق ہے انہیں صرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ آئیے ’’مبشرات دار العلوم دیوبند‘‘ کا مطالعہ کریں۔ اس پر تنقید نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی یہ ہمارا طریقہ و روش ہے اور نہ ہی اس پر کوئی تبصرہ کرنا چاہتا ہوں صرف اس حد تک متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر تم نے اسے پیش نظر رکھا ہوتا تو کبھی بھی تحریک منہاج القرآن کو بدنام کرنے کا نہ سوچتے۔
بات دارالعلوم دیوبند کے قیام سے شروع کرتے ہیں۔ اس کتاب کے صفحہ 45 پر مولانا رفیع الدین کے حوالے سے درج ہے کہ ابھی اس کی تعمیر کا کام شروع ہونے والا تھا بنیادیں کھودی جارہی تھیں کہ مولانا رفیع الدین نے خواب دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں اور ایک چھڑی مبارک سے بنیادوں کے نشان لگائے ہیں اور فرمایا یہ بنیادیں جو کھود رہے ہو یہ جگہ تنگ ہے ان نشانات پر بنیادیں کھودو۔ صبح بیدار ہوئے تو نشانات زمین پر موجود پائے۔
اس خواب پر تو کسی نے بھی بے ادبی و گستاخی کے فتوے نہ لگائے نہ اعتراضات کیے اور نہ ہی طعن و تشنیع کے تیر چلائے۔ غرضیکہ اگر مولانا رفیع الدین دیوبند کے قصبے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری اور مدرسے کی بنیادوں کے نشانات لگانے کا ارشاد فرمائیں تو یہ سب جائز ہوجائے۔
ہم صرف اتنا کہیں کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا۔ ’’تم منہاج القرآن بناؤ میں تشریف لاؤں گا‘‘ تو یہ بے ادبی و گستاخی اور کفر ہوجائے ارے ساری کائنات آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کا گھر ہے جہاں چاہیں تشریف لے جائیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین کرلی جائے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کو خواب میں یہ فرمائیں کہ میں تیرے ہاں آؤں گا تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ میں بنفس نفیس ہی آؤں گا اس کی مختلف تعبیرات ہوسکتی ہیں۔ بالعموم یہی تعبیر کی جاتی ہے کہ میں اپنا فیض و کرم، توجہ و شفقت اور برکت عطا کروں گا۔ میرے فیوضات و برکات جاری ہوں گے۔
مبشرات دار العلوم دیوبند کے صفحہ 35 پر مولانا قاسم نانوتوی کا خواب ہے جسے دار العلوم دیوبند کے مہتمم قاری محمد طیب بیان کرتے ہیں کہ مولانا قاسم نانوتوی نے خواب دیکھا کہ میں کعبہ کی چھت پر کھڑا ہوں اور میرے پاؤں کے نیچے سے نہریں نکل کر پوری دنیا میں پھیل رہی ہیں۔
پھر اس کی تعبیر بیان کرتے ہیں کہ کعبہ کی چھت پر کھڑا ہونے سے مراد دار العلوم دیوبند کا قیام ہے اور نہریں جاری ہونے سے مراد دارالعلوم کی وہ شاخیں ہیں جو اس سے نکلی ہیں۔ خدارا عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو ہم نے تو کعبہ کی چھت پر کھڑا ہونے کی بات کبھی نہیں کی۔
اسی مذکورہ کتاب کے صفحہ 53، 54 پر مولانا قاری محمد طیب اپنا خواب بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہم حرمِ نبوی میں پہنچے تو دیکھا مسجدِ نبوی کی چھت پر دار العلوم دیوبند قائم ہے ہم سب دار العلوم میں گئے اور اس میں میرا خاص کمرہ بھی تھا۔ ہم کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے اپنا خواب بھی دیکھ لیں اور تعبیر بھی، تبصرہ بھی آپ پر ہی چھوڑتے ہیں۔
ایک دار العلوم ہے لیکن اس کے متعلق کس قدر خواب ہیں اسی مذکورہ کتاب کے صفحہ 60 پر بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ یہاں سے لے کر عرش معلی تک ایک نور کا سلسلہ ہے آگے دار العلوم دیوبند کے قبرستان کے بارے میں بیان کرتے ہیں اس میں جس کو دفن کیا جائے اس کی بخشش و مغفرت ہوجاتی ہے۔
اس پر کوئی رائے تبصرہ نہیں کرنا چاہتے صرف متوجہ کرنا مقصود ہے کہ اس طرح کے موضوعات کو برسرِعام موضوع سخن نہیں بناتے زبان نہیں کھولتے امت کے ذہنوں میں انتشار و اضطراب پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے ایسا عمل کرنے سے پہلے بہت کچھ سوچنا چاہیے۔
اسی مذکورہ کتاب کے صفحہ 63 پر مولانا قاسم نانوتوی کا مولانا محمد یعقوب صاحب کے حوالے سے خواب درج ہے کہ مولانا قاسم نانوتوی نے اپنے بچپن کے زمانے میں یہ خواب دیکھا کہ ’’گویا اللہ تعالیٰ کی گود میں بیٹھا ہوں‘‘
بات حوالے کے ساتھ سمجھا رہا ہوں کہ اگر کوئی اسے اچھالنا چاہے کہ دیکھو جی ان کے بڑے عالم نے یہاں تک کہہ دیا کہ (معاذ اللہ) اللہ کی گود میں بیٹھا ہوں اگر اس طرح زبان درازی کا سلسلہ شروع ہوجائے تو کیا کیا من پسند مطالب و معانی لوگ اس سے اخذ کریں گے۔ آپ یہی جواب دیں گے کہ یہ خواب ہے اس کی تعبیر مختلف ہے اور پھر اس کی تعبیر کریں گے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے فیض و برکت کا نصیب ہونا ہے یہاں تو آپ کو فن تعبیر کی سمجھ آسکتی ہے لیکن جب معاملہ ہمارا آتا ہے تو بغض و حسد کی وجہ سے ساری سوجھ بوجھ ختم ہوجاتی ہے۔
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا
سراسر موم یا پھر سنگ ہو جا
اگر کوئی قاعدہ و اصول اُدھر ہے تو اسے اِدھر بھی ہونا چاہیے اور اسی پر عمل کرتے ہوئے اپنے سمیت سبھی مکاتب فکر کے علماء و صلحاء کے خوابوں کو بھی اچھالا جاتا ہم قطعاً اس کی اجازت نہیں دیتے کہ تم ایسا کرو فقط اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ جو اصول و ضوابط تم نے اپنوں کے لئے گوارا کئے ہیں انہیں پوری امت کے لئے خواہ وہ اپنے ہوں یا غیر سبھی کے لئے ایک ہی اختیار کرتے۔
مولانا رفیع الدین اسی کتاب کے صفحہ 70 پر اپنے مکاشفے کا ذکر کرتے ہیں کہ مولانا قاسم نانوتوی کی قبر عین کسی نبی کی قبر میں واقع ہے۔ اس کی تاویل و تعبیر بیان نہیں کر رہا صرف یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ بعض خوابوں کی تعبیر اس حد تک چلی جاتی ہے۔ ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس میں تو اگر ظاہراً ہی ان کلمات پر اعتماد کرلیا جائے تو پھر بھی دور دور تک بے ادبی کا کوئی شائبہ نظر نہیں آتا۔
مولانا محمد زکریا تبلیغی جماعت کے بانی بھجۃ القلوب کے صفحہ 21 پر بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کنجیوں کا ایک گچھا دیا اور فرمایا یہ رحمت کے خزانے کی کنجیاں ہیں۔ اب اگر کوئی اعتراض کرنے والا اور اچھالنے والا کہے کہ رحمت کا خزانہ اب اللہ کے پاس ہے یا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہے یا مولانا زکریا کے پاس ہے۔ کیونکہ رحمت کے خزانے کی چابیاں تو انہیں دے دی گئیں تو اب خزانہ کس در سے ملتا ہے۔
خدا کا ڈر اور خوف کرنا چاہیے کہ خوابوں کی کیفیات اپنی جداگانہ تعبیرات رکھتی ہیں خواب کے ظاہری الفاظ پر کبھی طعن و تشنیع کے تیر نہیں چلاتے۔ کیونکہ اگر یہ سلسلہ شروع ہوجائے تو پھر کسی بھی مکتبہ فکر کے علماء و صلحاء اور بزرگ اپنا دامن محفوظ نہیں رکھ سکیں گے۔
بھجۃ القلوب کے ہی صفحہ 21 پر ہے کہ مولانا عبدالرشید نے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو آپ نے ارشاد فرمایا۔ مولانا زکریا کی خدمت کرتے رہو اس کی خدمت میری خدمت ہے اور فرمایا میں اکثر اس کے حجرے میں جاتا رہتا ہوں۔ اس پر تو کسی نے انگشتِ اعتراض بلند نہیں کی بے ادبی و گستاخی، کفر و ارتداد کے فتوے نہیں لگائے طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بنایا اس پر تو زبانیں بند رہیں۔
تعبیر : فیوض و برکات کا اِجراء
ہم نے تو فقط اتنا کہا تھا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم منہاج القرآن بناؤ میں آؤں گا‘‘ ہم اس کا معنی یہ نہیں سمجھتے کہ میں خود بنفسِ نفیس ہی آؤں گا۔ اگر اس طرح بھی آنا چاہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ ربّ العزت کی طرف سے کوئی قدغن و پابندی نہیں آپ کو یہ اختیار عطا کردیا گیا ہے لیکن ہم کہاں اور ہمار ا نصیب کہاں ہما رے نزدیک تو اس کا سیدھا سادہ مفہوم اتنا ہے کہ تم منہاج القرآن بناؤ میں اپنے کرم اور فیض کی خیرات عطا کروں گا۔ سن لو! میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منہاج القرآن میں آنا بصورتِ فیض و کرم ہوا۔ ربِّ ذوالجلال کی عزت کی قسم میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانا حق تھا۔ جھوٹ منسوب کرنے والا جہنمی، دوزخی و لعنتی ہے اور اللہ کے عذاب کا مستحق ہے۔ تمہیں کیا خبر اس آنے کا معنی کیا ہے۔ پوچھیے ادارے کے ابتدائی رفقاء سے۔ جب منہاج القرآن کے لئے شادمان میں دوکنال پر مشتمل 9 لاکھ روپے کی مالیت کا پلاٹ خریدنے کی بات ہوئی تو ہمارے پاس اتنی رقم نہ تھی جبکہ دو لاکھ روپے بیانہ مانگا گیا۔ میں نے جامع مسجد رحمانیہ میں رفقاء سے کہا کہ اس پلاٹ کی خریداری سے منہاج القرآن کا اپنا مرکز بن جائے گا اسے خرید لینا چاہیے اس پر بیشتر رفقاء نے کہا یہ بوجھ ہماری بساط سے بڑھ کر ہے ہم یہ بوجھ اٹھانے کے متحمل نہیں ہوسکتے نو لاکھ پلاٹ کی خریداری کی قیمت ہے اور بیس پچیس لاکھ مزید تعمیرات پر خرچ ہوں گے اتنی رقم کہاں سے آئے گی ایسا نہ ہو کہیں رقم ڈوب جائے۔ ظاہری اسباب کو دیکھ کر انہوں نے معذوری کا اظہار کردیا۔ میں نے کہا منہاج القرآن اللہ کے دین اور حضور سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امّت کی خدمت کے لئے بن رہا ہے تم اپنی استعداد کے مطابق جتنی رقم دے سکتے ہو دے دو بقیہ رقم کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دین کی خاطر خود سامان کردیں گے۔ یہ پلاٹ خریدا گیا پھر اسے فروخت کر کے موجودہ پلاٹ خریدا۔ پھر اس کی تعمیر شروع ہوئی آج تقریباً تین چار کروڑ روپیہ منہاج القرآن کے اس مرکز پر خرچ ہوچکا ہے۔ ہم چیلنج کرتے ہیں کہ کوئی بھی شخص قرآن حکیم پر ہاتھ رکھ کر حلفاً بتا دے کہ ہم نے منہاج القرآن کے لئے کسی بھی بڑے سے بڑے سرمایہ دار، جاگیردار، صنعتکار سے کسی حکومت اور بڑے خاندان سے پیسہ لیا ہو، یا عرب و عجم میں کسی ملک عراق، سعودی عرب، کویت، ایران سے کوئی رقم لی ہو روئے زمین پر کوئی فردِ بشر اور کوئی طاقت نہیں کہہ سکتی کہ ہم نے فلاں ملک، حکومت، خاندان اور تنظیم سے پیسہ لیا ہے اللہ گواہ ہے یہی ادارے کے مخلصین جانثار غریب و متوسّط رفقاء و اراکین اور وابستگان تھے جن کی محنت سے منہاج القرآن بنا ہے۔
حالانکہ اتنی قلیل مدّت میں تنظیمیں، ادارے نہیں بنتے ان کی تعمیرات و منصوبے شروع نہیں ہو تے۔ عرب و عجم میں مشن و تحریک پھیل نہیں جاتی، لاکھوں کروڑوں افراد اس مشن کے ساتھ منسلک نہیں ہوتے اور امت مسلمہ کے احوال کی اصلاح کے لئے تحریری و تقریری طور پر کثیر مواد فراہم نہیں کیا جاتا، دین سے متنّفر کیے جانے والے نوجوان کشاں کشاں اس عشق و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عالمگیر تحریک کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتے جبکہ دوسری طرف پچاس پچاس سال گذر جاتے ہیں دنیا میں کوئی جاننے والا نہیں ہوتا، لاکھوں روپے ہوتے ہیں لیکن ادارے و تنظیمیں نہیں بنتیں۔ بتائیے میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنے سے مراد آپ کا فیض و کرم اور خیرات نہیں تو اور کیا ہے؟ دس سال میں تین چار کروڑ روپیہ منہاج القرآن پر خرچ ہوچکا ہے دنیا حیران و متعجب ہے کہ اتنی رقم کہاں سے آگئی کوئی کہتا ہے فلاں سے لی، فلاں جگہ سے لی لیکن اطمینان نہیں ہو رہا، اضطراب و پریشانی بڑھ رہی ہے مسئلہ حل نہیں ہو رہا تحریک دشمن عناصر آج تک یہ مسئلہ حل نہیں کرسکے کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا ہے پورے ملک میں یہ بہت بڑا معمہ بنا ہوا ہے لیکن پتہ نہیں چل رہا میں کہتا ہوں ساری عمر اسی چکر میں پھنسے رہوگے اس مسئلے کا حل چاہتے ہو تو اتنی بات مان لو کہ یہ سب کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلینِ پاک کا صدقہ ہے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کی خیرات ہے۔ اس لئے کہ جو بات میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ اقدس سے صادر ہوجاتی ہے وہ تقدیر بن جاتی ہے اور ہوکر رہتی ہے۔
وگرنہ آپ مجھے کراچی سے لے کر خیبر تک بلکہ پورے برصغیر پاک و ہند میں کوئی ایسا ادارہ دکھا دیں کہ حکومتی سرپرستی، اور حکومتی فنڈ، بیرونی ملک کی امداد اور کسی بھی بڑے سرمایہ دار، جاگیردار صنعتکار کے تعاون کے بغیر اپنی ذاتی و انفرادی قوت سے دس سال کے قلیل عرصے میں چار کروڑ روپیہ خرچ کر کے بن گیا ہو۔ ارے تمہیں یہ سب کچھ دیکھ کر بھی یقین نہیں آتا، یہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کی خیرات ہے اور یہی آپ کے فرمان منہاج القرآن میں آنے کی تعبیر ہے وگرنہ ہم بے سرو سامان کیا اور کہاں سے بنائیں اور میری اوقات کیا ہے؟
کوئی کیا پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کِتے ہزار پھرتے ہیں
میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کے کروڑوں خادم طاہر القادری سے بہتر ہوں گے میرا شمار تو کروڑوں کی قطار بنالی جائے تو شاید ان کی صفوں کے آخر میں بھی کھڑا ہونے کے قابل نہ ہو، میں کیا اور میری اوقات کیا کہ یہ ادارہ بن جائے یہ تحریک و مشن ساری دنیا میں قلیل عرصے میں پھیل جائے یہ تو سب میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کرم ہے۔ کیسٹ کو غلط رنگ دے کر اچھالنے والوں کو پہلے اپنے گھر میں جھانک لینا چاہیے تھا اپنے بزرگوں کے معمولات کو بھی پڑھنا چاہیے تھا اس معاملے کے اچھالنے میں پسِ پردہ کار فرما کوئی علمی امانت و دیانت کا مسئلہ نہیں بلکہ پس منظر کچھ اور ہے یہ عناصر اس تحریک کو مٹانا چاہتے ہیں جو امتِ مسلمہ کی تقدیر اور اس کے احوالِ حیات کو بدل رہی ہے جس سے امت کا مستقبل سنور رہا ہے تاریکیاں و ظلمتیں چھٹ رہی ہیں۔ عقائد کی اصلاح ہورہی ہے اعمال درست ہو رہے ہیں اور جس سے امت میں غلبہ دینِ حق کی بحالی اور احیائے اسلام کے شعور و بیداری کی لہر اٹھ رہی ہے اور نوجوان نسل دلجمعی اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے اصل مرکز کی طرف واپس پلٹ رہی ہے، اور جس سے نوجوان نسل کے دل اور سینے عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معمور ہو رہے ہیں اور عالمگیر سطح پر اسلام دشمن عناصر کے عظمتِ اسلام پر حملوں اور سازشوں کا تدارک کیا جا رہا ہے یہ سراسر پروپیگنڈہ اس لئے کیا جا رہا ہے کہ غلبہ دین حق کی بحالی اور احیائے اسلام کے حوالے سے اٹھنے والی اس تحریک کو نیست و نابود کر دیا جائے اسے قوتِ فاسدہ، سازشی اور تخریبی طریقے سے دبا دیا جائے ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے تصدق سے یہ عرض کر دینا چاہتے ہیں کہ اللہ کے فضل و کرم اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توجہات و عنایات سے دنیا کی کوئی طاقت و قوت اسے ختم نہیں کرسکتی۔ ان شاء اللہ اپنی منزل مراد پر پہنچ کر رہے گی۔
اب ہم بشارات کے اس حصے کو لیتے ہیں جسے خوب اچھالا گیا اور طرح طرح کے شوشے چھوڑے گئے اس میں پہلی بات یہ کہی گئی کہ قادری صاحب نے کہہ دیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’پاکستان کے علماء و مشائخ اور دینی اداروں سے ناراض ہوں‘‘ اس پر پہلا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ حضور علیہ السلام سارے علماء و مشائخ اور سارے دینی اداروں سے ناراض ہو گئے اور اس لئے واپسی کی تیاری کرلی تو کیا صرف طاہر القادری صاحب رہ گئے جن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راضی ہیں اور باقی سب سے ناراض ہیں؟
اس اعتراض کے جواب میں سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اصل کیسٹ موجود ہے۔ ہم نے کبھی بھی یہ بات نہیں کہی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاذ اللہ بلا استثنی سارے کے سارے علماء و مشائخ اور سارے دینی اداروں سے ناراض ہوگئے اور صرف ہم ہی رہ گئے۔ نہ ہم نے کبھی یہ کہا اور نہ کبھی گمان کیا اور نہ ایسا گمان کیا جاسکتا ہے یہ محض تہمت اور بد دیانتی ہے جو بات نہیں کہی گئی اسے ہماری طرف منسوب کردیا گیا اصل بات عموم کی ہے۔ جب ایسی بات کی جاتی ہے تو اس میں اکثر عموم ہوتا ہے اس میں استثنی خود بخود ہوتا ہے۔ یوں کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ ساروں سے ناراض نہیں ہوں اکثر سے ناراض ہوں یا بعضوں سے ہوں اور بعضوں سے نہیں بلکہ اس میں کئی اہلِ حق ہمیشہ مستثنیٰ ہوتے ہیں جن کے وجود سے امت کی اصلاح ہوتی رہتی ہے۔ یہاں بھی علماء و مشائخ اور دینی اداروں سے عمومی اظہار ناراضگی ہے استثنیٰ بہرحال موجود ہے جب بالعموم کہا جاتا ہے تو اس سے مراد اس طبقے کا عمومی اجتماعی طرزِ عمل ہوتا ہے جس کے اثرات معاشرے پر پڑتے ہیں جب اس طرح کی عمومی بات ہوتی ہے تو بڑے بڑے اہلِ علم، اکابر، متقی اور اہلِ حق از خود اس کلمہ سے مستثنیٰ ہوتے ہیں اور یہ منہاج القرآن انہی کی دعاؤں اور برکتوں کا نتیجہ ہے۔
مشکوۃ المصابیح کے کتاب العلم اور امام بیہقی کی شعب الایمان میں درج حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے میں یہی نکتہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جب علماء کی بات بالعموم کی جائے تو استثنی خود بخود ہوتا ہے۔ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
عن علي ابن أبي طالب رضي الله عنه قال قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : يوشک ان ياتي علي الناس زمان لا يبقي من الاسلام الا اسمه ولا يبقي من القران الا رسمه مساجدهم عامرة و هي خراب من الهدي علمائهم شر من تحت اديم السماء من عندهم تخرج الفتنه و فيهم تعود.
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 211، رقم : 9108
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عنقریب لوگوں پر وہ وقت آئے گا جب اسلام کا صرف نام اور قرآن کی صرف رسم رہ جائے گی ان کی مسجدیں آباد ہوں گی مگر ہدایت سے خالی ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے۔ ان سے فتنہ نکلے گا اور انہیں میں لوٹ جائے گا۔
گویا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اسلام فقط نام کے طور پر باقی رہ جائے گا اس کا نظام نہیں ہوگا جبکہ قرآن رسماً پڑھا جائے گا اس کی تلاوت و قرات کی جائے گی اس کی زیارت اور اسے چوما جائے گا لیکن اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا لوگ ترک کر دیں گے اور مساجد کی یہ حالت ہوگی ھي خراب من الہدی اب یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استثنیٰ نہیں فرمایا کہ ’’کچھ مسجدیں‘‘ ہدایت سے خالی ہوں گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی مسجد بچی ہوگی یا معاذ اللہ ساری مسجدیں ہدایت سے خالی ہوں گی؟ کیا اس میں حرم کعبہ اور مسجدِ نبوی شامل ہوں گی اور بڑے بڑے اولیاء اللہ کی مسجدیں جہاں ان کی زیرِ نگرانی ہمہ وقت اللہ اللہ ہوتا ہے کیا یہ اس ارشاد سے مستثنیٰ ہوں گی یا نہیں یا اس سے مراد یہ لیں گے کہ پوری روئے زمین پر کوئی مسجد بھی ایسی نہیں بچے گی جہاں ہدایت نصیب ہو۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فرمان ھي خراب من الہدی مسجدیں آباد ہوں گی مگر ہدایت سے خالی اس میں استثنیٰ اگرچہ فرمایا نہیں مگر از خود استثنی پایا جاتا ہے کہنے کی ضرورت نہیں۔
آگے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا علمائهم شر من تحت ادبهم السماء اس زمین پر آسمان کے نیچے جتنی مخلوق آباد ہوگی اس میں سب سے زیادہ شریر طبقہ علماء کا ہوگا۔ اس طرح نہیں فرمایا کہ کچھ علماء شریر ہوں گے۔ حدیث کے ان الفاظ کی بناء پر معاذ اللہ ذہن میں اعتراض پیدا ہوسکتا ہے کیا سارے علماء شرپسند ہوں گے اور کوئی بھی حق پرست نہیں ہوگا حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تک زمین پر ایک بھی نیک بندہ رہے گا قیامت نہیں آئے گی توگویا قیامت تک حق والے موجود رہیں گے اس بناء پر اس ارشاد سے کہ زمین پر بدترین طبقہ علماء کا ہوگا اس سے از خود اہل حق مستثنیٰ ہوں گے کیونکہ بات عموم کی ہو رہی ہے آگے ارشاد فرمایا من عندهم تخرج فتنه و فيهم تعود کہ ہر فتنہ و شر انہی سے پیدا ہوگا اور انہی پر ختم ہوگا۔
اعتراض کرنے والوں سے فقط اتنا سوال ہے کہ کیا اس حدیثِ پاک میں علماء کی جس حالت کا بیان ہوا ہے اس سے کوئی مستثنیٰ بھی ہوگا یا کہ نہیں؟ یقیناً ہوں گے۔ مسجدوں میں بھی کئی مسجدیں یقیناً قیامت تک مستثنیٰ ہوں گی ہر زمانے میں یہ استثنیٰ جاری رہے گا کوئی زمانہ اس سے خالی نہیں ہوگا اہلِ حق ہر دور میں موجود رہیں گے۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحتاً استثنیٰ نہیں فرمایا مگر اس کے باوجود کوئی بڑے سے بڑا نادان بھی یہ نہیں سمجھتا کہ کہ اس سے مراد ہر ہر عالم اور مسجد ہے بلکہ ہر کوئی سمجھتا ہے اس سے مراد وہ مسجدیں ہیں جن کو شر و فتنے کا مرکز بنا دیا جائے گا اور علماء سے مراد وہ ہیں جو فتنہ اور شر بپا کریں گے مگر خیر اور حق کے علمبردار اور علماء خود بخود اس سے مستثنیٰ ہوں گے۔
غرضیکہ جس طرح میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث پاک میں ہر دور میں کچھ علماء و مشائخ اور اہل حق اور کچھ مساجد مستثنیٰ ہیں اور قیامت تک ہوں گی اسی طرح آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد میں بھی استثنیٰ ہے۔ یہ خیال کرنا غلط ہے کہ معاذ اللہ سارے علماء سے ناراض ہیں اور صرف آپ ہی سے راضی ہیں بلکہ یہ عمومی اظہارِ ناراضگی ہے جس کا سبب دیندار طبقے کی اجتماعی کیفیت ہے۔
آئیے! اب ذرا آئمہ و اسلاف کے اقوال سے اس نکتے کو سمجھیں تاکہ معلوم ہوجائے پہلے لوگوں نے ایسی بات پر کبھی فتنہ و شر پیدا نہیں کیا جبکہ اب محض تحریک منہاج القرآن کو بدنام کرنے اور اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور بغض و عناد اور حسد کی وجہ سے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔
ہم تو آج چودہ سو سال گزر جانے کے بعد بات کر رہے ہیں پڑھیے امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کا قول جو آج سے تیرہ سو سال پہلے کا ہے۔ جب حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ، حضرت قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ حضرت بہلول دانا رحمۃ اللہ علیہ، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، حضرت سعید بن جیر رحمۃ اللہ علیہ موجود تھے، تابعی اور تبع تابعین بھی تھے۔ ساری امت کے ائمہ و اسلاف تھے اس زمانے کی بات ہو رہی ہے۔ اخلاق صالحین صفحہ 42 پر امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’آج کل کے علماء پر حرام اور مشتبہ مال کے کھانے کی عادت غالب آگئی ہے یہاں تک کہ وہ محض شکم پروری اور شہوت رانی میں مستغرق ہیں اور انہوں نے اپنے علم کو جال بنا رکھا ہے جس کے ساتھ دنیا کا شکار کرتے ہیں۔‘‘
اب یہاں یہ سوال ہے کہ امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے اس ارشاد سے مراد اس دور کے سارے علماء ہیں یا کچھ اس سے مستثنیٰ بھی ہیں۔ حالانکہ یہ تو وہ زمانہ تھا جب ہر گلی میں کوئی نہ کوئی ولی ملتا تھا اور جس محلے میں جائیں اسی میں شب زندہ دار عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھنے والے ملتے تھے جن کی آنکھوں سے راتوں کو گریہ و زاری کے آنسو بہتے تھے۔ اس زمانے میں وہ علماء بھی تھے جنہوں نے امت کی امامت کی۔ جن کے آج تک دنیا گن گاتی ہے۔ جن کے ایمان کا صدقہ ہم کھاتے ہیں۔ اس دور کے علماء کی حالت کے بارے میں امام عبداللہ بن مبارک فرما رہے ہیں تو کیا کچھ علماء ان کے اس قول سے مستثنیٰ تھے یا نہیں یقیناً کچھ اس سے مستثنیٰ تھے اس لئے کہ استثنیٰ خود بخود ہوتا ہے۔ یہ مغالطہ کسی اور کو نہیں لگا فقط آپ کو ہی کیسٹ اچھالنے، فتنہ و شر اور انتشار پیدا کرنے کی خاطر لگا ہے۔ کچھ خدا کا خوف کرو پڑھیے حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کشف المحبوب کو اپنے دور کے علماء پر شکوے کئے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کو پڑھئے اپنے دور کے علماء سے شکوے کرتے ہیں خدا جانے کیا کیا لکھتے ہیں اور استثنیٰ کا ایک لفظ بھی نہیں بولتے اس لئے کہ استثنی خود بخود ہوجاتا ہے۔ اخلاق صالحین صفحہ 40 پر حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور کے علماء کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اگر قرآن و حدیث کے عالموں میں خرابی نہ آجاتی تو یہ لوگوں سے اچھے ہوتے لیکن انہوں نے اپنے علم کو ذریعہ معاش بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے یہ زمین و آسمان میں ذلیل ہوچکے ہیں‘‘ کیا آپ معاذ اللہ ان کلمات کو اس دور کے تمام علماء پر چسپاں کریں گے جو شخص ایسا کرتا ہے وہ بدبخت اور ظالم ہے کیونکہ اس دور میں تو وہ بھی ہبں جن کے نام کے وسیلے سے ہم بخشش مانگتے ہیں۔ اور جن کے توسل سے اسلام آج ہم تک پہنچا ہے جب بھی اس طرح کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد علماء سوء ہوتے ہیں علماء حق ہرگز مراد نہیں ہوتے۔
حضرت امام مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ اخلاق صالحین کے صفحہ 238 پر یہاں تک فرماتے ہیں کہ ’’میں عوام کی نسبت عالموں کی شہادت قبول کرسکتا ہوں لیکن ان میں سے ایک کی دوسرے پر شہادت قبول نہیں کرتا کیونکہ یہ تمام کے تمام حاسد ہیں‘‘
باوجود اس کے کہ آپ نے الفاظ ’’تمام کے تمام‘‘ استعمال کئے مگر پھر بھی سینکڑوں ہزاروں اس میں سے مستثنیٰ بھی ہیں۔ لہٰذا ایسے کلمات سے کبھی کسی نے غلط مفہوم نہیں لیا۔ جس طرح کہ آج یار لوگوں نے نکال لیا ہے۔ کہ معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساروں سے ناراض ہیں صرف میرے لئے رہ گئے۔ استغفر اللہ العظیم کوئی بدبخت اور بڑے سے بڑا متکبر بھی یہ گمان نہیں کرسکتا اور جو شخص ایسا تصور کرے وہ بدبخت اور بددیانت ہے ہمارے تو خود علماء و مشائخ اور اساتذہ ہیں۔ جن کی زیارت کے لئے ہم چل کر جاتے ہیں یہ سارے وہ اہل اللہ اور اہل حق علماء ہیں جن کے مقدس وجود کی برکت سے دنیا قائم ہے۔ ایسے کلمات سے یہ خود بخود مستثنیٰ ہوں گے۔ بیان عمومی حالت کا ہے اگر اس طرف آئیں تو بتائیے آپ اپنی مجلسوں میں کئی بار ایسی باتیں نہیں کرتے کہ آج کل علماء کا حال ہی معاذ اللہ ایسا ہوگیا ہے۔ اس سے کیا مراد ہوتا ہے کیا آپ ہر کسی کو رگڑ رہے ہوتے ہیں یا کسی کو معاف بھی کرتے ہیں یقیناً اہل حق مستثنیٰ ہوتے ہیں۔
حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات اکابر و اسلاف، آئمہ و بزرگوں کے اقوال سے یہ نکتہ واضح ہوگیا کہ عمومی بیان سے استثناء خود بخود ہوجاتا ہے۔ قرآن حکیم سے بھی یہ نکتہ واضح ہوتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کے حوالے سے ارشاد ہے :
فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا.
الدهر، 76 : 2
’’ہم نے انسان کو سننے والا اور دیکھنے والا بنایا ہے۔‘‘
حالانکہ کئی انسان بہرے اور اندھے ہوتے ہیں تو کیا جو بہرے اور اندھے ہیں وہ انسان نہیں ہیں؟ یقیناً وہ بھی انسان ہیں۔ اس سے مراد عمومی قاعدہ ہے جو بیان ہو رہا ہے۔
یزید کے بارے میں ایک بحث چلی۔ آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’قسطنطنیہ کی فتح کی جنگ میں جو بھی شریک ہوگا وہ بخشا جائے گا‘‘ اس پر یزید پرستوں اور اس کے عقیدت مندوں نے یہ نکتہ اٹھایا کہ یزید بھی قسطنطنیہ کے لشکر میں شریک ہوا تھا لہٰذا اس حدیث کے مطابق یزید بخشا گیا اور جنتی ہوا کیونکہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسطنطنیہ کے لشکر میں شریک ہونے والوں کو جنت کی بشارت دی ہے۔
محدثین نے اس پر بحث کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی عمومی مفہوم پر دلالت کرتا ہے کئی اس سے نام لیے بغیر از خود مستثنی بھی ہیں جو اس ارشاد کے حق دار نہیں۔ یزید اپنی بدبختی اور بغض اہلِ بیت کی بناء پر اس بشارت کا حق دار ہی نہیں رہا۔
اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا مدینہ کی سرزمین میں جنت البقیع میں جو کوئی بھی دفن ہوا وہ بخشا گیا۔ اب وہاں کئی ایسے بھی دفن ہوئے ہوں گے جنہیں معاذ اللہ آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گنبد خضری کو محبت سے دیکھنا بھی گوارا نہیں، عبداللہ بن ابیّ ریئس المنافقین اور کئی اس دور میں دفن ہوئے یا کہ نہیں، یقیناً ہوئے مگر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے استثنا کا کوئی کلمہ ارشاد نہیں فرمایا لیکن اس کے باوجود مغفرت کے مصداق وہی لوگ ہیں جو اس کے حق دار ہیں اور جو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے غلام ہی نہیں وہ اس ارشاد کے مصداق کیسے۔
اس مذکورہ قاعدہ کلیہ کو اصول فقہ کی کتابیں پڑھنے والے سب جانتے ہیں مگر افسوس کہ اپنا معاملہ آئے تو اصول یاد رہتے ہیں اور دوسروں کا معاملہ آئے تو اصول بھول جاتے ہیں۔
تعبیر : ایفائے عہد نہیں کیا، دین کی رخصتی کی طرف اشارہ
آئیے! اب اس حوالے سے علماء اور دینی اداروں کی دعوت پر پاکستان آیا تھا اب واپس جارہا ہوں کی تعبیر اور مفہوم کو سمجھیں۔ تعبیر بڑی واضح ہے اگر ایمانداری کے کانوں سے سنا اور دیانت کی عقل سے سوچا، اور عدل و انصاف کے دل سے غور کیا ہوتا تو بات کو کبھی توڑنے مروڑنے کی نوبت و ضرورت پیش نہ آتی کیا ہم نے تحریکِ آزادی کے وقت قیام پاکستان کے لئے 1947ء میں پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا نعرہ نہیں لگایا تھا یہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد مبارک دعوت پر آنے کی تعبیر ہے کہ تم نے دین اسلام کے نفاذ کے لئے قرآن و سنت کا نظام بپا کرنے، نظام مصطفیٰ رائج کرنے کے لئے پاکستان مانگا ہم نے عطا کردیا۔
اب اس وعدے کو وفا کرنے کی ذمہ داری علماء پر ہی تھی لا دینی جماعتوں پر تو نہ تھی اور یہ علماء دین کے نمائندے تھے اقامت دین کی جدوجہد کرنے اور نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راستہ ہموار کرنے کے یہی علمبردار تھے اس لئے انہی کا ذکر کیا۔
لیکن افسوس کہ آج 45 سال گزر گئے مگر اس وعدے کے ایفاء کی صورت نظر نہیں آرہی کیا آج قوم کا ہر ہر فرد خود علماء دینی جماعتیں اور ادارے دین اسلام کے نافذ نہ ہونے کا شکوہ نہیں کر رہے اور کیا اس سلسلے میں علماء و مشائخ دینی جماعتوں، تنظیموں اور دین کا پرچار کرنے والوں نے کماحقہ اپنی ذمہ داریاں اور فرائض ادا کردیئے ہیں اور کیا آج ہمارے معاشرے میں اوپر سے لے کر نچلی سطح تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان لا يبقي من الاسلام الا اسمه ولا يبقي من القرآن الا رسمه (فقط اسلام کا نام رہ جائے گا اور قرآن بھی رسماً رہ جائے گا) کی عملی صورت نظر نہیں آرہی ہے بلکہ اب تو اسلام کا نام بھی نہیں لیا جا رہا ہے اسلام عملاً ایک نظام کے طور بپا پوری دنیا میں کہیں نظر نہیں آتا، اسلامی اقدار کو مٹایا جارہا ہے، اسلام کے نام پر دھوکہ و فریب اور منافقت کو ایک عرصے سے فروغ دیا جارہا ہے۔ اسلامی تعلیمات رفتہ رفتہ رخصت ہو رہی ہیں۔ قوم کے بچے بچے کو عریانی و فحاشی اور بے حیائی کے درس دیئے جارہے ہیں۔ قرآن و سنت کے احکام کا کھلم کھلا استہزا و مذاق اڑایا جارہا ہے۔ ملاّ اور بنیاد پرستی کی آڑ لے کر دین اسلام کے خلاف زبان کھولی جارہی ہے۔
خدا نہ کرے کہیں ایسا وقت آجائے کہ اسلام ہمیں یہاں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے ہماری نسلیں اس دولت سے محروم ہوجائیں۔ خدا نہ کرے دین اسلام یہاں سے رخصت ہوجائے یہی حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واپسی کے فرمان کی تعبیر ہے دین کی رخصتی کی حالت کی طرف اشارہ ہے چونکہ دین کا مرکز مکہ و مدینہ ہے اللہ نہ کرے یہاں سے رخصت ہوجائے ہم نے خواب کی تعبیر کے حوالے اس بات کو تفیصلاً پیچھے بیان کردیا ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں جو فرماتے ہیں اس میں ذکر اپنی ذات کا کرتے ہیں مگر اس سے مراد کبھی دین، کبھی شریعت، کبھی امت کے احوال ہوتے ہیں اس میں ہرگز آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مراد نہیں ہوتی۔ بلکہ اپنی ذات کے آئینے میں دین، شریعت، اسلام، سنت اور امت کے احوال کی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔
تعبیر : میرے دین کی خدمت کرو
اس کے بعد اگلا اعتراض میزبانی اختیار کرنے کے حوالے سے اچھالا گیا، یاد رکھ لیجئے یہ تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کرم ہے جسے چاہیں نوازیں لاکھوں غلاموں کو ایسا فرما سکتے ہیں اور خدا جانے آج تک کس کس کو اپنے اس کرم سے نوازا ہے۔ اس سلسلے میں والد گرامی نے مجھے بتایا غالباً 1965ء کی بات ہے جب سفر حرمین کی سعادت نصیب ہوئی، فرماتے ہیں مسجد نبوی شریف میں رمضان المبارک میں اعتکاف بیٹھا، اور رمضان المبارک کی پچیسویں رات تھی سویا ہوا تھا آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں کرم فرمایا اپنے دیدار سے نوازا اور ارشاد فرمایا۔ فرید اٹھو یہی رات لیلۃ القدر ہے آپ نے اپنے دست اقدس میں ایک ٹائم پیس اٹھایا ہوا تھا جس پر بارہ بج کر پچاس منٹ کا وقت نظر آرہا تھا جو کہ اس ساعت کی قبولیت کی طرف اشارہ تھا۔
میں فوری طور پر اٹھ کر بیٹھ گیا اور چاہا کہ اپنے قریب ایک نو مسلم جو کہ پہلے سکھ تھا اسے بھی آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس کرم میں شریک کرلوں تاکہ یہ بھی اٹھ کر اس مقبولیت کی گھڑی میں عبادت کرے پھر خیال آیا راز کی بات ہے معلوم نہیں بتانے کی اجازت ہے یا کہ نہیں لیکن یکے بعد دیگرے اس تصور نے مجھے آمادہ کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آگے بیان کرنے کو نہ پسند فرماتے تو منع فرما دیتے۔ آپ نے منع نہیں فرمایا اور یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہمان ہے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت بڑی وسیع اور آپ بڑے سخی، کریم اور جواد ہیں ممکن ہے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس عمل سے خوش ہوں جوں ہی اس خیال کے ساتھ میں اس کے قریب گیا اور آہستہ سے کہا اٹھو آج لیلۃ القدر ہے۔ اٹھتے ہی مجھ سے کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب وہ قبولیت کی ساعت بارہ بج کر پچاس منٹ پر ہے میں حیران و ششدر رہ گیا اور پوچھا تمہیں اس کی خبر کیسے ہوئی تو کہنے لگا جو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو بتاگئے ہیں میں بھی تو ان کے در پر پڑا ہوا ہوں اور کہنے لگا ڈاکٹر صاحب آپ تو ایک ہجرت کرکے آئے ہیں میں دو ہجرتیں کر کے آیا ہوں ایک ہجرت تو اپنا پہلا مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوا اور دوسری ہجرت گھر بار اور بچے چھوڑے ہیں۔
یہ بات اس لئے بیان کی تاکہ یہ نکتہ سمجھ لیا جائے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جسے چاہیں نوکری اور خدمت کا حکم ارشاد فرمائیں اور جسے چاہیں میزبانی کا شرف عطا کریں اس سے دوسروں کی نفی نہیں ہوتی، لاکھوں غلاموں کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس کرم سے نوازا ہوگا لیکن ہر کسی کو اپنی خبر ہے اور ہر کوئی سمجھتا ہے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے زیادہ کرم و شفقت مجھ پر ہے لیکن یہ کبھی گمان نہیں کرنا چاہیے کہ یہ کرم و شفقت کسی اور پر نہیں خدا جانے کتنے غلاموں کو آج تک آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس کرم سے نوازتے چلے آرہے ہیں۔
سیدنا غوث الاعظم کی سوانح میں آپ کی کرامات کے حوالے سے کتب میں درج ہے آپ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا حضرت آج افطاری کے وقت میزبانی کا شرف مجھے عطا کریں دوسرا حاضر ہوا اس نے بھی یہی مدعا بیان کیا۔ اس طرح یکے بعد دیگرے چالیس افراد حاضر ہوئے سبھی نے افطاری کی دعوت دی آپ نے سب کی دعوت قبول فرمالی۔ حاضرین حیران تھے دوسرے دن ہر کوئی خوشی و مسرت کا اظہار کرتا ہوا اپنی مجلس میں یہ بیان کر رہا تھا آج سیدنا غوث الاعظم نے افطاری کے وقت میزبانی کا شرف مجھے عطا کیا ہے جبکہ صاحبزادے بیان کر رہے تھے کہ حضرت نے افطاری اپنے ہی گھر کی ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد جسد مثالی کے ساتھ تشریف لے جانا ہے اولیاء اللہ کو جسد مثالی عطا کر دیا جاتا ہے اس جسد مثالی کے ساتھ جب اور جس وقت اور جس جگہ چاہیں تشریف لے جاسکتے ہیں۔
ملک الموت ایک وقت میں اگر چاہے تو لاکھوں گھروں میں چلا جائے ایسا ہوسکتا یا کہ نہیں۔
قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ.
السجده، 32 : 11
’’آپ فرما دیں کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روح قبض کرتا ہے۔‘‘
یہ تو میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں، فرشتوں کی شان ہے اور کہاں ساری کائنات کے تاجدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہیں تو کیا لاکھوں غلاموں کو ایک ہی وقت میزبانی و خدمت کا شرف عطا نہیں کرسکتے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ میزبانی سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات نہیں بلکہ میزبانی کی تعبیر دین کی خدمت کی ذمہ داری ہے جو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہزاروں لاکھوں غلاموں کو سونپ رکھی ہے کسی کو کوئی کام دیا اور کسی کو کوئی۔ جو چاہیں حکم دیں اور ارشاد فرمائیں یہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق ہے اس میں بے ادبی و گستاخی کا کوئی پہلو نہیں نکلتا سوائے اس کے کہ کوئی بدبخت، حاسد، فتنہ پرور حسد کی آگ میں جل کر جو کچھ مرضی ہے کہتا رہے اور بغض و عناد کی وجہ سے زبان درازی کرتا پھرے۔
تعبیر : میرے دین کی خاطر شرق تا غرب سفر کرنا
پھر آگے ’’کھانے پینے ہوائی جہاز کے ٹکٹ اور واپسی کے انتظام‘‘ کے حوالے سے، اسے بڑا اچھالا گیا طرح طرح کی زبان درازی کی گئی، نادانو! ذرا تھوڑا سا سوچا ہوتا کہ خواب کے ان ظاہری کلمات سے کبھی بھی حقیقی معنی مراد نہیں ہوتا۔ آج تک اسلاف و اکابرین کی کتب خوابوں کی تعبیر سے بھری پڑی ہیں خواب کے کلمات کی ہمیشہ تعبیر ہوتی ہے ہم نے واضح کردیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کی تعبیر خدمت دین ہے کہ میرے دین کی خاطر ہر قسم کی بھاگ دوڑ کرنا سفر و حضر کرنا جبکہ ہوائی جہاز کے ٹکٹ سے مراد جتنا بھی سفر کرنا پڑا فروغ دین اور اقامت دین کے لئے وہ کرنا عرب و عجم اور شرق تا غرب میرے دین کی خاطر سفر کرنا سب کچھ قربان کردینا۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
’’وہ دن بھی آئے گا جہاں جہاں سورج و چاند جاتے ہیں وہاں وہاں میرا دین پہنچے گا۔‘‘
اب بتائیے وہاں وہاں تک دین اسلام کی آواز پہنچانا کیا امت کی ذمہ داری نہیں۔ مذکورہ کلمات کا اسی حکم کی طرف اشارہ ہے۔ جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سفر و حضر، ہمارے انتظامات، ہوائی جہاز کے سفر اور ٹکٹ کی محتاج نہیں وہ تو اگر لاکھوں مقامات پر جانا چاہیں تو چشم زدن میں پہنچ جائیں۔ وہ جہازوں اور ٹکٹوں کے محتاج نہیں۔ اس طرح کے سارے الفاظ ایک تعبیر مانگتے ہیں۔ ان کلمات سے مراد فقط خدمت دین ہے۔ دین کی خاطر کئے جانے والے شرق و غرب کے سفر ہیں اور جہاز اور ٹکٹ علامتی کلمات ہیں۔ سینکڑوں تعبیر الرویا کی کتب ان تصورات سے بھری پڑی ہیں۔ ان سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس (معاذ اﷲ) ہمارے کھلانے، پلانے، ہوائی جہازوں کے ٹکٹوں اور انتظام و انصرام کی محتاج ہے۔ ساری امت تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ٹکڑوں اور دسترخوان پر پل رہی ہے ہم تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گلی کے سگوں کے کڑوں پر پل رہے ہیں۔
بخاری شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
انما انا قاسم واﷲ يعطي
بخاري في الصحيح، کتاب العلم، باب من يرد الله به خيرا يفقه في الدين، 1/39، الرقم : 71
’’میں تو تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ عطا کرنے والا ہے۔‘‘
اسی سلسلے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اولاً تو ایسے کلمات سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات نہیں اور نہ ہی خواب کے ظاہری الفاظ سے مراد ان کا حقیقی معنی ہوتا ہے بلکہ ہمیشہ ان کی تعبیر ہوتی ہے خواب میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذکر تو اپنی ذات کا کرتے ہیں لیکن اس سے مراد دین، اسلام اور شریعت ہوتی ہے۔
ثانیاً اگر ایسے کلمات آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقیقی معنی میں بھی فرما دیں تو اس میں بھی کوئی بے ادبی و گستاخی نہیں کیونکہ وہ مالک ہیں جو چاہیں فرمائیں کھانا تیار کرو، سواری تیار کرو، خدمت و نوکری کرو۔ خادم کا تو کام ہی خدمت کرنا ہے۔ کیا یہ کلمات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی حیات ظاہری میں صحابہ کرام کو نہیں فرماتے تھے یقیناً فرماتے، تو جو بات آپ کی حیات ظاہری میں گستاخی بے ادبی نہ ہو تو وہ اب کیسے بے ادبی و گستاخی بن جائے گی کیا صحابہ کرام کو حکم فرمانے کا یہ معنی سمجھ لیا جائے کہ معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کے محتاج تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی غزوات کے موقع پر صحابہ کرام کو اسلامی لشکر کی ضروریات کے لئے مال جمع کرنے کا حکم دیا تو کیا اس سے معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین اسلام کی محتاجی ثابت ہوتی ہے۔ نہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محتاج تھے اور نہ اللہ کا دین بلکہ یہ فرمانا تو انہیں کو اپنی نوکری اور خدمت کا موقع دینا ہے۔
اس کے بعد اس حوالے سے بڑا شور مچایا گیا اور زبان درازی کی گئی کہ معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھانے، پینے کے محتاج ہیں۔ کسی قدر روکھی اور بے ادبی و بے قدری کی بات ہے طرح طرح کے من پسند مطالب و معانی اخذ کئے گئے انہیں خوب اچھالا اور بیان کیا گیا حالانکہ حقیقت یہ ہے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جس غلام کو چاہیں ایسا حکم ارشاد فرما سکتے ہیں اور اسے اپنے کرم سے نواز سکتے ہیں جس طرح کہ اپنی ظاہری حیات میں صحابہ کرام کو اپنے اس کرم سے نوازتے رہے ہیں۔
مشکوۃ المصابیح کتاب الاطمعہ میں یہ حدیث درج ہے جسے سیدنا امام احمد بن حنبل اپنی مسند اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں بیان کیا ہے کہ حضرت ابو عسیب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
عن ابی عسيب قال خرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ليلا فمربي فدعاني فخرجت اليه ثم مربابي بکر فدعاه فخرج اليه ثم مر بعمر فدعاه فخرج اليه فانطلق حتي دخل حائطا لبعض الانصار فقاک لصاحب الحائط اطعمنا بسر افجاء بعذق فوضعه فاکل رسول اﷲ وا اصحابه ثم دعا بماء بارد فشرب.
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 81، الرقم : 20787
’’حضرت ابو حسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر نکلے اور میرے ہاں تشریف لائے اور مجھے بلایا میں (اپنے گھر سے) نکل کر آپ کے ساتھ ہولیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے اور ان کو بلایا وہ بھی (اپنے گھر سے) نکل کر آپ کے ساتھ ہولیے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ہم سب کو لے کر) روانہ ہوئے یہاں تک کہ ایک باغ میں پہنچے جو ایک انصاری (صحابی) کا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باغ کے مالک سے فرمایا کہ ’’ہمیں کھجوریں کھلاؤ‘‘ باغ کے مالک نے کھجوروں کا ایک خوشہ لا کر (ہمارے سامنے) رکھ دیا اس میں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی کھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے بھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ٹھنڈا پانی منگوایا جس کو (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور ہم نے) پیا۔‘‘
اس حدیث مبارکہ کے ان کلمات ’اطعمنا بسرا‘ کو ذرا توجہ کے ساتھ پڑھیں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابی کو حکم دے رہے کہ ہمیں کھجوریں کھلاؤ خود اپنی حیات ظاہری میں اپنے انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے اور اپنی زبان اقدس سے حکم دے رہے ہیں کہ ہمیں کھجوریں کھلاؤ کیا یہاں یہ معنی لیں گے کہ معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھجوریں کھانے کے محتاج ہیں ہرگز نہیں بلکہ ساری دنیا و مافیہا کے تاجدار اور مالک و مختار ہستی نے، اپنے غلام پر کرم فرمایا ہے اور انہیں جو کچھ نصیب ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی عطا کردہ ہے کیونکہ آپ ہی تو اس کائنات میں اللہ کی عطاؤں اور خزانوں کے بانٹنے والے ہیں۔ اس کے باوجود غلام کے ہاں تشریف لے جا کر اس کی حوصلہ افزائی فرمائی اس سے معاذ اللہ حضور کی محتاجی نہیں بلکہ غلام کی سعادت مندی اور خوش بختی ثابت ہوتی ہے کہ اللہ کا محبوب خود چل کر اس کے ہاں تشریف لے آیا ہے۔
غرضیکہ ’’اطعمنا‘‘ کے کلمات اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی حیات ظاہری میں ارشاد فرمائیں تو ان سے بے ادبی و گستاخی اور محتاجی کیسے ثابت ہوگی، اس وقت تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے کسی نے کوئی چیز محسوس نہ کی، بلکہ اسے اس غلام کے حق میں خوش بختی سمجھا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی اسے سعادت حاصل ہو رہی ہے۔
حالانکہ حقیقتاً حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھانوں کے محتاج نہ تھے آپ تو چالیس چالیس دن تک کھانا تناول نہ فرماتے اب تو حیات برزخی ہے۔ حیات ظاہری میں تو پھر کھانا تناول فرما لیتے لیکن اب تو یہ حاجت بھی نہیں مگر اس کے باوجود اگر کسی غلام کو کھانے پینے کے انتظام و انصرام کے بارے میں فرماتے ہیں تو یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت و احسان ہے اور اپنے غلام کی حوصلہ افزائی ہے اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محتاجی ثابت کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
وفا الوفاء، خلاصۃ الوفاء اور جذب القلوب میں سلطان نور الدین زنگی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور واقعہ پڑھیے، جب حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا ’’مجھے ان دونوں سے نجات دلاؤ‘‘ مذکورہ کلمات پر ذرا غور کریں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے غلام کو حکم دے رہے ہیں کہ ان سے نجات دلاؤ مالک ہیں جس طرح اور جیسے کلمات چاہیں ارشاد فرمائیں ان سے گستاخی و بے ادبی اور محتاجی کا کوئی تصور و پہلو نہیں نکلتا اور نہ ہی ان سے یہ تصور کیا جائے کہ معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کے محتاج ہیں، اس دور میں تو کسی نے ان سے بے ادبی و گستاخی کا پہلو نہ نکالا ہاں اگر تم اس دور میں ہوتے تو فتنہ و شر پھیلاتے مگر ان کی خوش قسمتی کہ آپ سے بچ گئے اور ہمارا نصیب کہ ہم آپ کے دور میں ہوئے۔
’’الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین‘‘ میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد گرامی حضرت شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ ہر سال میلاد شریف مناتے کھانا پکا کر لوگوں میں تقسیم کرتے اور صدقہ و خیرات کرتے لیکن ایک سال آیا کہ گھر میں کچھ نہ تھا دل پر بڑا بوجھ تھا کہ میلاد شریف بغیر صدقہ خیرات کے گزر جائے گی تو بالآخر کیا کیا تھوڑے سے پیسوں سے چنے لے لیے وہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد مبارک کی خوشی میں تقسیم کر دیئے۔ اسی رات آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے وہی چنے پڑے ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔
تو گویا اس امر کی طرف اشارہ فرما دیا کہ نہ گھبرا اور نہ دل پر بوجھ لا کہ زیادہ پیسے ہوتے تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد مبارک پر زیادہ خرچ کرتا کوئی بات نہیں ہم تو تیری محبت و خلوص کو دیکھ رہے ہیں یہی تیرا عمل مقبول ہے۔
اگر آپ جیسے ہوتے تو کہتے معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے چنوں اور کھانوں کے محتاج ہیں ایسی باتیں اور مطالب کوئی بدبخت اور بے ادب ہی نکال سکتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس تو ان چیزوں سے پاک و مبرّا ہے اس خواب میں جو چنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دکھائی دیئے اور آپ مسکرا رہے ہیں۔ اس کی تعبیر اس عمل کا مقبول ہونا ہے اور اس سے معاذ اللہ حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی گستاخی و بے ادبی کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔
ہم تفصیل کے ساتھ اس نکتے کو واضح کر چکے ہیں کہ خواب کے کلمات کا حقیقی معنی اس صورت میں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غلام کو ایک حکم فرما رہے ہیں، بھی لیا جاسکتا ہے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے غلاموں پر شفقت کرتے ہوئے ایسا فرمایا کرتے تھے اور آج بھی ایسا فرماتے ہیں ان سے کوئی بے ادبی و گستاخی کا پہلو نہیں نکلتا، اس مذکورہ مفہوم کے باوجود خواب کے ظاہری کلمات کی تعبیر کی ضرورت ہوتی ہے ہم نے بھی واضح کر دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان کلمات مبارکہ کی تعبیر خدمت دین ہے کہ شرق تا غرب میرے دین کی خاطر سفر کرو، خود کو میرے دین کی خاطر وقف کر دو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا حکم اپنے غلاموں کو فرما سکتے ہیں اور اسی طرح ہوائی جہاز کی ٹکٹ اور کھانے کی بات کے بارے میں یہ کہنا کہ محتاجی ہے حالانکہ ایسے کلمات سے کسی ذات کی محتاجی مراد نہیں ہوتی اگر یوں ہی ہے تو اللہ رب العزت جو کہ رزاق کائنات ہے ہر کسی کو عطا کرنے والا ہے کہ ان ارشادات أَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا (المزمل، 73 : 20) (اللہ کو قرض حسنہ دو) اور مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللّهَ قَرْضًا حَسَنًا (البقرہ، 2 : 245) (کون ہے جو اللہ کو قرضہ حسنہ دے) کے بارے میں تمہارا فتوی کیا ہوگا کوئی غیر مسلم زبان درازی اور اعتراض کرے کہ دیکھو جی مسلمانوں کا رب (معاذ اللہ) لوگوں سے قرض مانگتا ہے، تم یہی جواب دو گے کہ اللہ تو عطا کرنے والا ہے وہ ہر ضرورت سے پاک ہے، اور اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمائیں تو انہیں کیا حاجت، کہ وہ امتی سے مانگیں وہ تو خود اللہ کے خزانے تقسیم کرنے والے ہیں۔
اللہ رب العزت کے ان فرامین کی یہ تعبیر کی جائے گی کہ میرے دین اور میری غریب مخلوق پر خرچ کرو۔ میں اسے اپنی طرف سے قرض شمار کروں گا اجر و ثواب عطا کروں گا یہاں اللہ رب العزت نے اپنے دین اور اپنی مخلوق پر خرچ کرنے کے عمل کو اکراماً اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے۔
مسلم شریف میں کتاب البرو الصلہ والادب میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حدیث قدسی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ رب العزت قیامت کے دن فرمائے گا اے ابن آدم میں بیمار ہوا تو نے میری عیادت نہ کی بندہ عرض کرے گا اے پروردگار میں تیری عیادت کیسے کرتا تو تو سارے جہانوں کا مالک ہے اللہ رب العزت فرمائے گا تجھے معلوم نہیں میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو نے اس کی عیادت نہ کی اگر تو اس کی عیادت کر لیتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا بندہ عرض کرے گا اے رب میں تجھے کیسے کھلاتا تو تو سارے جہاں ک مالک ہے اللہ رب العزت فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے اسے نہ کھلایا اگر تو اسے کھلاتا تو اس کا ثواب میرے پاس پاتا اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تو نے مجھے پانی نہ پلایا بندہ عرض کرے گا مولا! میں تجھے کیسے پلاتا تو تو سارے جہاں کا مالک ہے۔ اللہ رب العزت فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تو نے اسے نہ پلایا اگر پلاتا تو آج اس کا اجر میرے پاس پاتا۔
بیمار بندہ ہے، عیادت بندے کی کرانا مقصود ہے مگر اس عیادت کے عمل کو فضیلت دینے کی خاطر اللہ رب العزت اس بندے کی بیماری و عیادت کو اپنی ذات کی طرف منسوب کرتا ہے۔ حالانکہ اس کی ذات ان چیزوں سے پاک ہے اسی طرح بھوکا پیاسا بندہ ہے۔ کھانا کھلانا، پانی پلانا بندے اور اپنی مخلوق کو مقصود ہے لیکن اطعام مسکین اور پانی پلانے کے عمل کو فضیلت دینے کی خاطر کھانے پینے کی نسبت کو اللہ رب العزت اپنی ذات کی طرف منسوب کرتا ہے حالانکہ وہ ان چیزوں سے پاک ہے۔ تو جس طرح اللہ رب العزت کی طرف منسوب کرتا ہے حالانکہ وہ ان چیزوں سے پاک ہے۔ تو جس طرح اللہ رب العزت اکراماً و تشریفاً ان چیزوں کی نسبت اپنی ذات کی طرف کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح اکراماً و تشریفاً ان چیزوں کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذات کی طرف کرتے ہیں حالانکہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ان سے پاک ہوتی ہے۔ مقصود اس سے کبھی دین، شریعت، سنت، امت اور اس کے مجموعی احوال ہوتے ہیں۔ ہر بات کی استعارۃ و کنایتہ نسبت اپنی ذات کی طرف اس لیے کرتے ہیں تاکہ اس کام کی محنت کا اجر ظاہر ہو۔
ہمارے حوالے سے اعتراض کرنے والوں کو پہلے اپنے دامن میں بھی جھانک لینا چاہیے تھا۔ یہ اعتراض کیا گیا کہ معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں آئیے اس کا جواب ’’مبشرات دار العلوم دیوبند‘‘ میں دیکھتے ہیں۔
اس کے صفحہ 67 پر درج ہے کہ قصبہ سردھنہ ضلح میرٹھ میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا۔ جلسے کے صدر حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی قرار پائے۔ بندہ راقم کی ایک شب تقدیر جاگ اٹھی خواب میں مجھے دکھایا گیا کہ میں اپنے وطن کو چھوٹے اسٹیشن پر ہوں مگر ریلوے اسٹیشن اپنی وسعت میں غازی آباد جنکشن کے برابر ہے اسٹیشن پر بہت زیادہ روشنی ہے رات کا وقت ہے یہ روشنی بجلی کی روشنی کو مات کر رہی ہے اتنے میں معلوم ہوا کہ عنقریب دیوبند یا سہارنپور کی طرف سے جو گاڑی آنے والی ہے اس میں آقائے نامدار سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا رہے ہیں۔ تھوڑی دیر گزری تھی۔ گاڑی پلیٹ فارم پر آ کر ٹھہری اور حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ڈبے میں جو انجن کے قریب تھا، تشریف فرما نظر آئے۔
اگر اب آپ سے سوال کیا جائے کہ معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاز پر سفر تو نہیں کرتے کیا ریل گاڑی پر سفر کرتے ہیں۔ ارے خدا کا خوف کرو میرے کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ریل گاڑیوں، ہوائی جہازوں کے محتاج نہیں خواب میں ریل گاڑی، ہوائی جہاز اور کوئی بھی سواری ہو جب ان کا ذکر آئے تو یہ علامتی و اشاراتی چیزیں ہوتی ہیں ان سے حقیقتاً وہ مراد کبھی نہیں ہوتا جو دکھایا گیا ہے۔
اگر انسان کو اللہ کا ڈر اور خوف اور حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کا حیاء ہو تو خواب کی تعبیرات سمجھ آسکتی ہیں۔ لیکن اگر انسان کا دامن اللہ کے خوف اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حیاء و ادب سے خالی ہو جائے تو جو چاہے زبان سے نکالتا پھرے۔ ذہن نشین رہے کہ یہ عداوت و حسد منہاج القرآن سے کیا جا رہا ہے لیکن زبان بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کے خلاف کھولی جا رہی ہے۔ ارے
اور تم پر میرے آقا کی عنایت نہ سہی
ظالمو کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا
تذکرۃ الرشید کے صفحہ 46 پر ہے کہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی بھاوج ان کے مہمانوں کے لئے کھانا پکاتی تھی اسے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ نے فرمایا ’’تم ہٹ جاؤ امداد اللہ کے مہمان علماء ہیں ان کے مہمانوں کا کھانا میں خود پکاؤں گا‘‘ چند دنوں کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی حاجی امداد اللہ کے مرید بنے یہی ان کے مہمان تھے۔
تو کیا معاذ اللہ اس سے مراد یہ لیا جائے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کا کھانا پکانے کے لئے آئے اور کیا معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باورچی کا کام کیا، اسی طرح اگر کوئی بدبخت و گستاخ زبان کھولنے پر آئے تو کہاں تک جاسکتا ہے۔ حالانکہ حقیقتاً یہ سب چیزیں علامتی ہیں اور یہ ارشادات و فرمودات اور کلمات اپنے ظاہری معنی پر محمول نہیں کئے جاتے۔ بلکہ ہمیشہ ان کی تعبیر و تاویل کی جاتی ہے۔
تعبیر : امت بیمار ہے، تھانوی صاحب اصلاح کر رہے ہیں
اشرف السوانح میں مولانا نور الحسن بیان کرتے ہیں۔ کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بستر علالت پر آرام فرما ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی قریب بیٹھے تیمار داری کر رہے ہیں اور دور ایک معالج بھی بیٹھا ہوا ہے۔ اسے پہچان نہیں سکتا۔
مولانا نور الحسن یہ خواب مولانا اشرف علی تھانوی کو بیان کرتے ہیں پھر وہ خود اس کی تعبیر بتاتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری علالت و بیماری کی جو حالت خواب میں دکھائی گئی ہے اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیمار ہونا مراد نہیں بلکہ اس کی تعبیر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا بیمار ہونا مراد ہے۔ اور تھانوی صاحب قریب بیٹھے جو تیمار داری کر رہے ہیں اس کی تعبیر امت کی اصلاح کر رہے ہیں امت کے احوالِ حیات بدل رہے ہیں جبکہ دور بیٹھا ہوا جو معالج ہے اس سے مراد و تعبیر امام مہدی علیہ السلام ہیں۔
اگر یہاں خواب کے ظاہری کلمات کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ مراد لے لی جائے تو یا پھر امام مہدی معاذ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معالج ہوئے اسی طرح اگر کوئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیمار داری کرتا ہے تو اس سے قطعاً حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی و بے ادبی کا کوئی پہلو نہیں نکلتا کیونکہ آپ کی علالت سے مراد امت کی علالت و بیماری ہے۔
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی ایسے کلمات ارشاد فرمائیں تو ان سے مراد دین، شریعت اور امت کے مجموعی احوال ہوتے ہیں۔
قرآن و سنت، حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے معمولات، اکابر و اسلاف اور ائمہ و اولیاء اللہ کے معمولات سے ٹھوس و جامع دلائل کے بعد بھی اگر کسی کی تشنگی کم نہیں ہوئی تو پھر بھی ہمارے دروازے ہر وقت کھلے ہیں جو بھی علمی سطح پر بات کرنا چاہے بڑے شوق سے آئے۔
آخر پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کے حوالے سے بے ادبی و گستاخی کا اعتراض منسوب کرنے والوں پر یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ! اس تحریک کی بات کرتے ہو جس کے فکر و عقیدے کی بنیاد ہی عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر استوار ہے اور جس کا جینا و مرنا اطاعت و اتباع مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ہم نے تو آج تک قوم کے بچے بچے اور ہر ہر فرد کو سبق ہی یہی دیا ہے کہ تمہارے ایمان کا اس وقت تک کوئی تصور نہیں جب تک آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب و احترام حد سے بڑھ کر نہ کرو۔ در حقیقت یہ پروپیگنڈہ اسی تصور ادب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ ہے۔ اس حملے کے پس پردہ مذہبی، اعتقادی اور سیاسی عوامل کے ساتھ بغض و عداوت اور حسد و عناد کے عوامل بھی ہیں، سامراجی و طاغوتی سازشیں بھی ہیں تاکہ غلبہ دین حق کی بحالی اور احیائے اسلام کے حوالے سے اٹھنے والی اس عالمگیر تحریک کو سازشی و تخریبی اور فتنہ پروری کے ذریعے اور قوت و طاقت سے دبا دیا جائے لوگوں کے دلوں میں بدگمانی اور غلط فہمی پیدا کی گئی اور وہ بھی چھوٹی نہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس نسبت کے حوالے سے کی تاکہ لوگ بہک جائیں اور اس تحریک کا ساتھ چھوڑ جائیں۔
میں ان شیطان صفت اور فتنہ پرور عناصر پر واضح کر دینا چاہتا ہوں۔ نہ تمہارے ان اوچھے ہتھکنڈوں، سازشی طریقوں اور پروپیگنڈوں سے تحریک منہاج القرآن کا محبت و عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تصور کم ہوگا اور نہ تعظیم و تکریم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، محبت و عشق اور ادب و احترام رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھانبڑ جو تحریک لوگوں کے دلوں میں بھڑکانا چاہتی ہے یہ بجھے گا اور نہ تحریک منہاج القرآن کا سفر رکے گا۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کی خیرات آئے گی آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فضل و کرم، توجہ و عنایت اور رحمت ہوگی، تحریک منہاج القرآن مصطفوی انقلاب کی منزل پر پہنچ کر رہے گی۔
اللہ رب العزت ہمیں اپنے دین کی فہم و بصیرت اور حضور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اقدس کی ہڈیاں مبارک چن چن کر جمع کرنا
تعبیر : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح سنن و احادیث کو جمع کرکے علم شریعت کو فقہ حنفی کی صورت میں مرتب کرنا
کشف المحجوب میں ہے کہ ابتدائے زمانہ میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے گوشہ نشینی کا ارادہ فرما لیا اور مخلوق سے کنارہ کش ہوگئے تاکہ دل کا تزکیہ کریں اور خالص اللہ عزوجل کی اطاعت میں کمر بستہ ہوں ایک شب خواب میں دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اقدس کی ہڈیاں مبارک قبر انور سے چن چن کر جمع کر رہے ہیں اور ان میں سے بعض کو بعض پر ترجیح دے کر پسند کر رہے ہیں۔
اس خواب سے اتنی ہیبت طاری ہوئی کہ آپ بیدار ہوگئے اور سخت پریشانی لاحق ہوئی آخر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے تلامذہ میں سے حضور امام محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں تعبیر کے لئے حاضر ہوئے خواب بیان کیا آپ نے تعبیر بتائی کہ خواب مبارک ہے تم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم اور آپ کی سنت کی حفاظت میں اس بلند درجے تک پہنچو گے کہ گویا تم ان میں تصرف کر رہے ہو اور صحیح احادیث کو ضعیف سے علیحدہ کرو گے۔
کشف المحجوب، 212، مترجم علامه ابو الحسنات قادری
گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسد اقدس کی مبارک ہڈیوں سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث اور سنن ہوئیں اور انہیں چن چن کر ایک دوسرے پر ترجیح دینے کا مطلب موضوع اور ضعیف احادیث کو چھوڑ کر صحیح احادیث کو جمع کرکے شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کرنا ہے۔ چنانچہ ’’فقہ حنفی‘‘ کو مرتب کرنے کا اشارہ اس خواب کے ذریعے عطا کیا گیا ہے۔ ظاہراً خواب کیا تھا جسے دیکھ کر خود حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ گھبرا گئے مگر تعبیر کتنی عمدہ اور معنی خیز تھی، معلوم ہوا کہ خواب اور بشارت کے کلمات، واقعات اور مشاہدات کو ظاہر پر محمول نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی تعبیر پر اعتبار کیا جاتا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved