یہ بات ذہن نشین کرلی جائے کا مطلقًا خواب کا انکار کر دینا کہ سرے سے خواب یا رویائے صالحہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا یا یہ گمان کرنا کہ یہ محض جھوٹ اور من گھڑت ہے یہ جہالت، لا علمی ہے کیونکہ خواب کے وجود اور تصور کا صراحتًا انکار کر دینا کفر ہے۔ اس لئے کہ خواب کا وجود قرآن کریم سے ثابت ہے اور خود سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَO لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَياةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ.
يونس، 10 : 63، 64
’’(وہ) ایسے لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (ہمیشہ) تقویٰ شعار رہےo ان کے لئے دنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں (بھی مغفرت و شفاعت کی/ یا دنیا میں بھی نیک خوابوں کی صورت میں پاکیزہ روحانی مشاہدات ہیں اور آخرت میں بھی حُسنِ مطلق کے جلوے اور دیدار)۔‘‘
قرآن مجید کی تمام تفاسیر میں ہے کہ بشارت سے مراد وہ نیک خواب ہیں جو اللہ رب العزت ایمان والوں کو عطا کرتا ہے۔
امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ طبری سے لے کر علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تک تمام مفسرین نے پوری تصریحات کے ساتھ اس امر کی تائید کی ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ روح المعانی میں، امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ تفسیر طبری میں، قاضی ثناء اللہ رحمۃ اللہ علیہ پانی پتی تفسیر مظہری میں، امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر کبیر میں یا آپ تفسیر کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں آئمہ تفسیر نے صراحت کے ساتھ یہ بات درج کی ہے کہ اس قرآنی آیت کے تحت درج ’’بشری‘‘ سے مراد وہ نیک خواب ہیں جو ایمان والے دیکھتے ہیں۔ سورہ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے :
وَكَذَلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ.
يوسف، 12 : 6
’’اسی طرح تمہارا رب تمہیں (بزرگی کے لئے) منتخب فرما لے گا اور تمہیں باتوں کے انجام تک پہنچنا (یعنی خوابوں کی تعبیر کا علم) سکھائے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بہت سے کمالات اور معجزات عطا فرمائے، ان میں خوابوں کی تعبیر کا علم اور فن بطور خاص عطا فرمایا۔ اس کا ذکر سورہ یوسف میں مذکور ہے۔ مثلاً بادشاہ مصر اور قیدیوں کے خواب حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے بیان ہوئے۔ آپ نے ان کی تعبیر بیان فرمائی اور اس تعبیر کے مطابق آئندہ واقعات رونما ہوئے۔ قرآن مجید دوٹوک انداز میں خوابوں کے وجود کی صداقت کا بیان کر رہا ہے کہ تعبیر کا فن اللہ پاک نے اپنے نبی کو عطا کیا۔ خواب کے وجود کا انکار کہ یہ محض وہم ہے، یہ من گھڑت چیز ہے، یہ باطل ہے اور رویائے صالحہ کا کوئی وجود نہیں، خود قرآن مجید کی آیت کا انکار ہے۔ امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ، علامہ عبدالغنی نابلسی رحمۃ اللہ علیہ نے تعبیر الرویا کے باب میں ایک حدیث پاک نقل کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
من لم يومن بالرويا الصالحه لم يومن باﷲ ولا باليوم الآخرة.
نابلسي، تعطير الانام في تعبير المنام : 3
’’جو شخص نیک خوابوں پر ایمان نہیں رکھتا وہ اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔‘‘
امام ابو الحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ جو دنیائے اہل سنت کے امام ہیں۔ انہوں نے اپنے عقائد میں درج کیا ہے کہ خواب کا مطلقاً انکار کرنے سے انسان کافر ہو جاتا ہے۔
حدیث نبوی میں رویا صالحہ کا ذکر صراحتاً موجود ہے، بلکہ حدیث مبارکہ کی کتابوں میں خوابوں کے حوالے سے عنوانات، ابواب اور فصلیں قائم کی گئی ہیں۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ احادیث ہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم جن کا دنیا میں کسی مسلک کا کوئی عالم انکار نہیں کر سکتا ان میں حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لم يبق من النبوة الا المبشرات
بخاري، الصحيح، کتاب التعبير، باب المبشرات، 6 : 2564، رقم : 6589
’’اب نبوت باقی نہیں رہی (ہاں اس کا فیض) مبشرات کی صورت میں باقی ہے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا وما المبشرات؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبشرات سے کیا مراد ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : الرویا الصالحہ (مبشرات سے مراد نیک خواب ہیں)۔ گویا اب قیامت تک کوئی نبوت کا دعویٰ نہیں کر سکتا جو کرے گا وہ کافر و مرتد ہو گا۔ نبوت فیضان مبشرات کی صورت میں قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔
دوسرے مقام پر حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ان الرسالة والنبوة قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبي قال فشق ذلک علي الناس فقال لکن المبشرات.
ترمذي، السنن، کتاب الرؤيا عن رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم، باب ذهبت النبوة وبقيت المبشرات، 4 : 533، رقم : 2272
’’میرے بعد نبوت و رسالت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے، اب کوئی رسول آ سکتا ہے نہ کوئی نبی لیکن میرے بعد مبشرات اور بشارتیں ہوں گی۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ نیک خواب جو اہل ایمان کو آتے ہیں۔‘‘
سنن ابن ماجہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ايها الناس لم يبق من مبشرات النبوة الا الرويا الصالحه يراها المسلم او تري له.
ابن ماجه، السنن، کتاب تعبير الرويا، باب الرويا الصالحه يراها المسلم او تري له، 3 : 1283، رقم : 3899
’’اے لوگو! مبشرات نبوت میں ماسوائے نیک خوابوں کے جو کسی مومن کو دکھائی دیتے ہیں کچھ بھی باقی نہیں رہا، گویا اب نبوت من کل الوجود ختم کر دی گئی ہے۔ نبوت کے سارے دروازے بند کر دئیے گئے ہیں لیکن ایک چیز جو اللہ نے میری امت کے لیے بطور نعمت باقی رکھی ہے وہ اہل ایمان کو دکھائے جانے والے نیک خواب و مبشرات ہیں۔‘‘
سنن ابن ماجہ میں دوسرے مقام پر ام کرز الکعبیہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ذهبت النبوة وبقيت المبشرات
ابن ماجه، السنن، کتاب تعبير الرويا، باب الرويا الصالحه يراها المسلم او تري له، 2 : 1283، رقم : 3896
’’نبوت ختم ہو گئی لیکن مبشرات باقی ہیں۔‘‘
صحیح بخاری میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
الرويا الصالحه من اﷲ
بخاري، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب صفة ابليس و جنوده، 2 : 1198، رقم : 3118
’’نیک خواب اللہ رب العزت کی طرف سے ہوتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے نیک خواب و مبشرات کو مسلمانوں کی ہدایت کا ایک ذریعہ و سبب بنایا ہے، اللہ رب العزت نے اپنے نیک و مقرب بندوں پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتیوں کی ہدایت کے لیے خوابوں اور بشارات کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ پہلے ہدایت انبیاء پر وحی کی صورت میں فرشتے لاتے تھے، اللہ کا وہ کلام کامل و اکمل اور قطعی و حتمی ہدایت ہوتا تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد وحی کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔ لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اب خوابوں اور بشارات کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ ترمذی شریف میں حضرت ابو سعید خدری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اصدق الرويا بالاسحار
ترمذي، السنن، کتاب الرويا عن رسول الله، باب قوله لهم البشري في الحياة الدنيا، 4 : 534، رقم : 2274
’’وہ خواب جو سحری کے وقت رات کے پچھلے پھر آتے ہیں وہ دیگر خوابوں کے مقابلے میں زیادہ سچے ہوتے ہیں۔‘‘
مقام افسوس ہے کہ کلمہ گو ہونے کا دعویٰ کرنے والے نیک خوابوں اور بشارات کا مذاق اڑائیں جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود رویا صالحہ اور بشارات کا اثبات فرمائیں۔
ذاتی مخالفت، بغض و عناد اور حسد اپنی جگہ لیکن اس کی آڑ لے کر اپنے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کا مذاق تو نہ اڑایا جائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ تصور کی تضحیک تو نہ کی جائے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
فان راي رويا حسنة فليبشر
مسلم، الصحيح، کتاب الرويا، : 1772، رقم : 2261
’’جو کوئی اچھا، نیک خواب دیکھے تو اس پر خوش ہو۔‘‘
سنن ابن ماجہ میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
تم میں سے کوئی اگر اچھا اور پسندیدہ خواب دیکھے تو جس سے مناسب سمجھے بیان کرے۔ ایک اور حدیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’جو شخص کوئی برا خواب دیکھے وہ اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے۔‘‘
سنن ابی داؤد میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ثم ليتعوذ من شرها
ابو داود، السنن، کتاب الادب، باب ماجاء في الرويا، 4 : 305، رقم : 5021
’’(جو کوئی برا خواب دیکھے) تو اس کے شر سے اللہ کے حضور پناہ مانگے۔‘‘
سنن ابن ماجہ میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے۔ عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خواب دیکھتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں، کیا کروں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کچھ کلمات بتائے کہ اگر برا خواب دیکھو اور ڈرو تو یہ کلمات پڑھ لیا کرو، اللہ پاک اس کے شر اور خوف سے تمہیں پناہ دے گا۔
اگر خواب کا کوئی وجود نہ ہوتا اور اس کے اچھے برے اثرات مرتب نہ ہوتے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برے خواب کے شر سے پناہ مانگنے کی تلقین نہ فرماتے۔
اعتراض کرنے والے بھی اللہ کا نام لیتے ہیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھتے ہیں، تبلیغ دین کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں، یہ سب حدیثیں انہوں نے بھی پڑھ رکھی ہیں، مگر محض تحریک منہاج القرآن سے ذاتی عداوت کی وجہ سے احادیث مبارکہ کے ابواب کے ابواب بند کر رکھے ہیں اور اس تصور کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ خواب کا اسلام میں کوئی تصور ہی نہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب کے آداب بیان کیے اور خواب کی اقسام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
الرويا ثلاث فالرويا الحسنة بشري من اﷲ عزوجل والرويا يحدث بها الرجل نفسه والرويا تحزين من الشيطن.
حاکم، المستدرک، 4 : 422، رقم : 8174
’’خواب تین طرح کے ہوتے ہیں، سچا و نیک خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہوتا ہے، دوسری قسم آدمی اپنے نفس سے ہی گفتگو کرے، تیسری قسم شیطان کی طرف سے ڈرانا ہے۔‘‘
غرض یہ کہ نیک خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے لیے خوشخبری اور بشارت ہوتا ہے، برا خواب شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، تیسرا تحدیث النفس، منتشر الخیالی جیسے آپ نے دیکھا کہ اچانک آپ عورت بن گئے یک لخت دیکھا کہ سرکٹ گیا ہے تھوڑی دیر کے بعد آپ شیر بن گئے ہیں، پھر دیکھا کہ پانی میں گر گئے ہیں ہوا میں اڑ رہے ہیں، اس قسم کے اوٹ پٹانگ خوابوں کو منتشر الخیالی کہتے ہیں، ان کی کوئی تاویل و تعبیر نہیں ہوتی۔
قرآن مجید کے علاوہ صحیح بخاری و مسلم، جامع ترمذی، سنن ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، مسند احمد بن حنبل، موطا امام مالک اور احادیث کی دیگر کتب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے خواب بیان کیے گئے ہیں، خوابوں اور بشارتوں کے حوالے سے کتب احادیث میں ابواب و فصول قائم ہیں مثلاً کتاب الرویا، الرؤیا الحسنہ۔
امام عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کی فتح الباری، علامہ انور شاہ کاشمیری کی فیض الباری، مولانا ادریس کاندھلوی کی التعلیق الصبیح میں خوابوں اور بشارات کے حوالے سے ان گنت تفصیلات موجود ہیں، امام کرمانی رحمۃ اللہ علیہ امام عینی رحمۃ اللہ علیہ کو پڑھیں، ہر ایک کے ہاں اس باب میں قاری کو بہت کچھ ملے گا۔ اس حوالے سے ارباب عقل و دانش نے ستر ستر اسی اسی اور سو سو صفحات پر مشتمل ابواب اپنی کتب میں قائم کیے ہیں۔
یہاں تک تو قرآن و حدیث سے خواب کی شرعی حیثیت واضح ہو چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خواب کا بیان کرنا شریعت میں کیا حیثیت رکھتا ہے۔ عام تصور یہ ہے کہ خواب و بشارات کا ذکر کسی سے نہیں کرنا چاہیے، اپنے اس ذہنی فیصلے کی بجائے آئیے دیکھیں اس سلسلے میں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات و ارشادات کیا ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved