اسلام شرفِ اِنسانیت کا علمبردار دین ہے۔ ہر فرد سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسا اصول یا ضابطہ روا نہیں رکھا گیا جو شرف انسانیت کے منافی ہو۔ دیگر طبقات معاشرہ کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے، جن کا ایک مثالی معاشرے میں تصور کیا جاسکتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی اساس معاملات دین میں جبر و اکراہ کے عنصر کی نفی کرکے فراہم کی گئی :
لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌO
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہوچکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطل کا انکار کردے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لیے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اللہ خوب جاننے والا ہےo‘‘
القرآن، البقرة، 2 : 256
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا :
لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِO
’’(سو) تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہےo‘‘
القرآن، الکافرون، 109 : 6
اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان مبارک سے ہوتا ہے :
ألا من ظلم معاهداً او انتقصه او کلفه فوق طاقته او اخذ منه شيئا بغير طيب نفس فانا حجيجه يوم القيامة.
’’خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اُس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا۔‘‘
1. ابوداؤد، السنن، کتاب الخراج، باب في تعشير، 3 : 170، رقم : 3052
2. ابن ابي حاتم، الجرح والتعديل، 1 : 201
3. منذري، الترغيب والترهيب، 4 : 7، رقم : 4558
4. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 8 : 115
5. عجلوني، کشف الخفاء، 2 : 285، رقم : 2341
یہ صرف ایک تنبیہ ہی نہیں بلکہ ایک قانون ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دورِ مبارک میں اسلامی مملکت میں جاری تھا، جس پر بعد میں بھی عمل درآمد ہوتا رہا اور اب بھی یہ اسلامی دستورِ مملکت کا ایک حصہ ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے:
ان رجلا من المسلمين قتل رجلا من أهل الکتاب، فرفع الي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أنا أحق من وفي بذمته، ثم أمر به فقتل.
’’ایک مسلمان نے ایک اہل کتاب کو قتل کر دیا اور وہ مقدمہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس فیصلہ کے لیے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اہل ذمہ کا حق ادا کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قاتل کے بارے میں قتل کرنے کا حکم دیا اور اسے قتل کر دیا گیا۔‘‘
1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 30
2. شافعي، المسند، 1 : 343
3. ابو نعيم، مسند ابي حنيفه، 1 : 104
4. شافعي، الام، 7 : 320
5. شيباني، المسبوط، 4 : 488
6. ابن رشد، بداية المجتهد، 2 : 299
7. ابن رجب، جامع العلوم والحکم، 1 : 126
8. زيلعي، نصب الرايه، 4 : 336
9. مبارکپوري، تحفة الاحوذي، 4 : 557
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اقلیتوں کے بارے مسلمانوں کو ہمیشہ متنبہ فرماتے تھے، چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاہدین کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا :
من قتل معاهدا لم يرح رائحة الجنة وان ريحها توجد من مسيرة اربعين عاما.
’’جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پھیلی ہوئی ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجزيه، باب إثم من قتل، 3 : 1154، رقم : 2995
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الديات، باب من قتل معاهدا2 : 896، رقم : 2686
3. ربيع، المسند، 1 : 367، رقم : 956
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 133
5. منذري، الترغيب والترهيب، 3 : 204، رقم : 3693
6. صنعاني، سبل السلام، 4 : 69
7. شوکاني، نيل الاوطار، 7 : 155
اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ جنت سے بہت دُور رکھا جائے گا دراصل یہ تنبیہات اس قانون پر عمل درآمد کروانے کے لیے ہیں جو اسلام نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عطا کیا۔
غیر مسلموں کے جو بیرونی وفود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آتے ان کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود میزبانی فرماتے چنانچہ جب مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حبشہ کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان کی مہمان نوازی خود اپنے ذمہ لی اور فرمایا :
انهم کانوا لأصحابنا مکرمين، و اني أحب أن أکافئهم.
’’یہ لوگ ہمارے ساتھیوں کے لیے ممتاز و منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے میں نے پسند کیا کہ میں بذات خود ان کی تعظیم و تکریم اور مہمان نوازی کروں۔‘‘
1. بيهقي، شعب الايمان، 6 : 518، رقم : 9125
2. صيداوي، معجم الشيوخ، 1 : 97
3. ابن کثير، السيرة النبوية، 2 : 31
ایک دفعہ نجران کے عیسائیوں کا چودہ رکنی وفد مدینہ منورہ آیا۔ آپ نے اس وفد کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور اس وفد میں شامل مسیحیوں کو اجازت دی کہ وہ اپنی نماز اپنے طریقہ پر مسجد نبوی میں ادا کریں چنانچہ یہ مسیحی حضرات مسجد نبوی کی ایک جانب مشرق کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے۔
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 357
2. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 4 : 4
3. ابن قيم، زادالمعاد، 3 : 629
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان تعلیمات کی روشنی میں چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے لے کر ہر اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کو حقوق کا تحفظ حاصل رہا۔
اقلیتوں سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ ان کا برتاؤ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ احترام پر مبنی تھا۔ ایک جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیف ایک یہودی جب مرنے لگا تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تیری بڑی جائیداد ہے اس کا وارث کون ہو گا؟ تو اس یہودی نے کہا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری جائیداد کے وارث ہوں گے۔ اسلامی ریاست میں اقلیتوں سے حسن سلوک کا ایک غیر مسلم کی طرف سے اعتراف تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہلِ کتاب کے علاوہ مشرکین (بت پرست اقوام) سے بھی جو برتاؤ رہا اس کی بھی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ مشرکین مکہ و طائف نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بے شمار مظالم ڈھائے، لیکن جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک انصاری کمانڈر سعد بن عبادۃ نے ابوسفیان سے کہا :
اليوم يوم الملحمة.
’’آج لڑائی کا دن ہے۔‘‘
یعنی آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہو گئے اور ان سے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے قیس کے سپرد کر دیا اور ابوسفیان سے فرمایا :
اليوم يوم المرحمة.
’’(آج لڑائی کا نہیں بلکہ) آج رحمت کے عام کرنے (اور معاف کر دینے) کا دن ہے۔‘‘
1. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 8 : 9
2. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 2 : 597
3. حلبي، انسان العيون، 3 : 22
4. خزاعي، تخريج الدلالات السمعيه، 1 : 345
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مخالفین سے پوچھا کہ بتاؤ میں آج تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کروں گا؟ تو اُنہوں نے کہا کہ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے خطا کار بھائیوں کے ساتھ برتاؤ کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی وہی توقع ہے۔ اس جواب پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہی جملہ ارشاد فرمایا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے لیے فرمایا تھا :
لا تثريب عليکم اليوم، اذهبوا فانتم الطلقاء
(یعنی تم سے آج کوئی پوچھ گچھ نہیں تم سب آزاد ہو)۔
1. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 220، رقم : 368
2. عسقلاني، فتح الباري، 8 : 18
3. مناوي، فيض القدير، 5 : 171
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بڑا دُشمن ابوسفیان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا من دخل دار ابی سفیان فہو آمن (جو ابوسفیان کے گھر میں آج داخل ہوا وہ امن میں ہے)۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کو اس طرح پورا کیا کہ جو بھی اس دن ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوا اسے امان مل گئی۔
1. مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد، باب فتح مکه3 : 1406، رقم : 1780
2. ابو داؤد، السنن، کتاب الخراج، باب ماجاء في خبر مکه، 3 : 162، رقم : 3021
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 398، رقم : 36900
4. عبدالرزاق، المصنف، 5 : 376
5. دارقطني، السنن، 3 : 60، رقم : 233
6. ابو عوانه، المسند، 4 : 290
7. البزار، المسند، 4 : 122، رقم : 1292
8. طحاوي، شرح معاني الاثار، 3 : 321
9. بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 34، رقم : 10961
10. طبراني، المعجم الکبير، 8 : 8
11. هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 175
12. عسقلاني، فتح الباري، 8 : 12
13. فاکهي، اخبار مکه، 3 : 277
مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرنے میں سب سے زیادہ دو اشخاص کا دخل تھا وہ ابولہب کے بیٹے تھے جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذائیں دی تھیں۔ فتح مکہ کے روز یہ دونوں گستاخ کعبۃ اللہ کے پردوں کے پیچھے جا چھپے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو خود کعبۃ اللہ کے پردوں کے پیچھے سے نکالا اور معاف کر دیا۔
زيلعي، نصب الرايه، 3 : 336
امام ابو یوسف اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’کتاب الخراج‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عہدِ نبوی اور خلافتِ راشدہ میں تعزیرات اور دیوانی قانون دونوں میں مسلمان اور غیر مسلم اقلیت کا درجہ مساوی تھا۔
ابو يوسف، کتاب الخراج : 187
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا :
أنا أحق من أوفي بذمته.
’’غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے۔‘‘
1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 30
2. شافعي، المسند، 1 : 343
3. مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 4 : 557
4. زيلعي، نصب الراية، 4 : 336
5. ابونعيم، مسند ابي حنيفة، 1 : 104
6. ابن رجب، جامع العلوم والحکم، 1 : 126
7. شيباني، المبسوط، 4 : 488
8. شافعي، الام، 7 : 320
9. ابن رشد، بداية المجتهد، 2 : 299
دوسری روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انا اکرم من وفی ذمتہ فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس تعلیم پر عمل درآمد کے بے شمار نظائر دور خلافت راشدہ میں بھی ملتے ہیں :
1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مسلمان کو پکڑ کر لایا گیا جس نے ایک غیر مسلم کو قتل کیا تھا۔ پورا ثبوت موجود تھا۔ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قصاص میں اس مسلمان کو قتل کیے جانے کا حکم دیا۔ قاتل کے ورثاء نے مقتول کے بھائی کو معاوضہ دے کر معاف کرنے پر راضی کر لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے اسے فرمایا :
لعلهم فزعوک او هددوک.
’’شاید ان لوگوں نے تجھے ڈرا دھمکا کر تجھ سے یہ کہلوایا ہو۔‘‘
1. دار قطني، السنن، 3 : 134
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 30
3. عسقلاني، 2 : 262، رقم : 1009
4. صنعاني، سبل السلام، 3 : 235
5. شوکاني، نيل الاوطار، 7 : 153
اس نے کہا نہیں بات دراصل یہ ہے کہ قتل کیے جانے سے میرا بھائی تو واپس آنے سے رہا اور اب یہ مجھے اس کی دیت دے رہے ہیں، جو پسماندگان کے لیے کسی حد تک کفایت کرے گی۔ اس لیے خود اپنی مرضی سے بغیر کسی دباؤ کے میں معافی دے رہا ہوں۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اچھا تمہاری مرضی۔ تم زیادہ بہتر سمجھتے ہو۔ لیکن بہرحال ہماری حکومت کا اُصول یہی ہے کہ:
من کان له ذمتنا فدمه، کدمنا، و ديته، کديتنا.
’’جو ہماری غیر مسلم رعایا میں سے ہے اس کا خون اور ہمارا خون برابر ہے اور اس کی دیت ہماری دیت ہی کی طرح ہے‘‘
1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 34
2. ابويوسف، کتاب الخراج : 187
3. شافعي، المسند : 344
4. شافعي، الام، 7 : 321
5. شيباني، الحجه، 4 : 355
6. زيلعي، نصب الرايه، 4 : 337
7. عسقلاني، الدرايه، 2 : 263
8. شوکاني، نيل الاوطار، 7 : 154
2۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
إذا قتل المسلم النصراني قتل به.
’’اگر کسی مسلمان نے عیسائی کو قتل کیا تو مسلمان (عوضاً) قتل کیا جائے گا۔‘‘
1. شيباني، الحجة، 4 : 349
2. شافعي، الام، 7 : 320
3۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :
دية اليهودي والنصراني والمجوسي مثل دية الحر المسلم.
’’یہودی، عیسائی اور مجوسی کی دیت آزاد مسلمان کی دیت کے برابر ہے۔‘‘
1. شيباني، الحجة، 4 : 322
2. ابن ابي شيبة، المصنف، 5 : 407، رقم : 27448
3. عبدالرزاق، المصنف، 10 : 95، 97، 99
4. ابن رشد، بداية المجتهد، 2 : 310
5. صنعاني، سبل السلام، 3 : 251
6. زيلعي، نصب الراية، 4 : 368
7. عسقلاني، الدراية في تخريج احاديث الهداية، 2 : 276
اسی قول کی بنا پر فقہا نے یہ اصول تشکیل دیا کہ اگر مسلمان کسی ذمی کو بلا ارادہ قتل کر دے تو اس کی دیت بھی وہی ہوگی جو مسلمان کو بلا ارادہ قتل کرنے سے لازم آتی ہے۔
1. حصکفي، در المختار، 2 : 223
2. ابن عابدين شامي، رد المحتار، 3 : 273
4۔ ایک دفعہ حضرت عمرو بن عاص والی مصر کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو ناحق سزا دی۔ خلیفۂ وقت امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب اس کی شکایت ہوئی تو اُنہوں نے سرعام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی فرمایا :
متی استعبدتم الناس وقد ولدتهم امهاتهم احرارا.
’’تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا۔‘‘
1. حسام الدين، کنز العمال، 2 : 455
2. اسماعيل محمد ميقا، مبادي اسلام ومنهجه : 27
5۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں قبیلہ بکر بن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک ذمی کو قتل کر دیا، اس پر :
فکتب فيه عمر بن الخطاب رضي الله عنه ان يدفع الي اولياء المقتول فان شاؤوا قتلوا و ان شاؤوا اعفوا فدفع الرجل إلي ولي المقتول إلي رجل فقتله.
’’آپ نے حکم دیا کہ قاتل کو مقتول کے وارثوں کے حوالہ کیا جائے۔ اگر وہ چاہیں قتل کر دیں ورنہ معاف کر دیں۔ چنانچہ وہ مقتول کے وارث کو دے دیا گیا اور اس نے اسے قتل کر دیا۔‘‘
1. بيهقي، السنن الکبري، 8 : 32
2. شافعي، الام، 7 : 321
3. شيباني، الحجة، 4 : 335
4. زيلعي، نصب الراية، 4 : 337
6۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں عبیداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے قتل کا فتویٰ دے دیا گیا تھا، کیونکہ انہوں نے ہر مزان، جفینہ اور ابو لولو کی بیٹی کو اس شبہ میں قتل کر دیا تھا کہ شاید وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش میں شریک تھے۔
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 5 : 17
2. عسقلاني، الدرايه، 2 : 263
7۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ابن شاس جذامی نے شام کے کسی علاقے میں ایک شخص کو قتل کر دیا، معاملہ حضرت عثمان تک پہنچنے پر آپ نے اس کے قتل کا حکم دے دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی مداخلت پر آپ نے ایک ہزار دینار دیت مقرر کی۔
شافعي، المسند، 1 : 344
8۔ عظیم محدث ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ان دية المعاهد في عهد ابي بکر و عمر و عثمان رضي اﷲ عنهم مثل دية الحر المسلم.
’’بے شک ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم کے دور میں ذمی کی دیت آزاد مسلمان کی دیت کے برابر تھی۔‘‘
1. شيبانی، الحجة، 4 : 351
2. شافعی، الام، 7 : 321
اسلامی ریاست میں تعزیرات میں ذمی اور مسلمان کا درجہ مساوی ہے۔ جرائم کی جو سزا مسلمان کو دی جائے گی وہی ذمی کو بھی دی جائے گی۔ ذمی کا مال مسلمان چرائے یا مسلمان کا مال ذمی چرائے دونوں صورتوں میں سزا یکساں ہوگی۔
ابويوسف، کتاب الخراج : 108، 109
دیوانی قانون میں بھی ذمی اور مسلمان کے درمیان کامل مساوات ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشاد اموالھم کاموالنا (1) کے معنی ہی یہ ہیں کہ ان کے مال کی ویسی ہی حفاظت ہونی چاہیے جیسی مسلمانوں کے مال کی ہوتی ہے۔ اس باب میں ذمیوں کے حقوق کا اتنا لحاظ رکھا گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان ان کی شراب یا ان کے خنزیر کو بھی تلف کر دے تو اس پر ضمان لازم آئے گا۔ در المختار میں ہے:
و يضمن المسلم قيمة خمره و خنزيره اذا اتلفه.(2)
’’مسلمان اس کی شراب اور اس کے سور کی قیمت ادا کرے گا اگر وہ اسے تلف کر دے۔‘‘
(1) ابن قدامه، المغني، 9 : 289
(2) 1. حصکفي، الدرالمختار، 2 : 223
2. ابن عابدين شامي، رد المحتار، 3 : 273
ذمی کو زبان یا ہاتھ پاؤں سے تکلیف پہنچانا، اس کو گالی دینا، مارنا پیٹنا یا اس کی غیبت کرنا، اسی طرح ناجائز ہے جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز ہے۔ :
و يجب کف الاذي عنه و تحرم غيبته کالمسلم.
’’غیر مسلم سے اذیت کو روکنا اسی طرح واجب ہے جس طرح مسلمان سے اور اس کی غیبت کرنا بھی اسی طرح حرام ہے۔‘‘
1. حصکفي، الدرالمختار، 2 : 223
2. ابن عابدين شامي، الدالمحتار، 3 : 273. 274
مملکت اسلامیہ میں ہر فرد کو نجی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے کہ کوئی شخص بغیر اس کی اجازت اور رضا مندی کے اس کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ ہر شخص کا مکان نجی اور پرائیویٹ معاملات کا مرکز اور اس کے بال بچوں کا مستقر ہوتا ہے۔ اس حق پر دست درازی خود فرد کی شخصیت پر دست درازی ہے اور یہ کسی طرح جائز نہیں۔ گھروں میں بغیر اجازت داخل ہونے کی صریح ممانعت آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَO فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌO
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو۔ یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے، توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گےo پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو وہاں داخل نہ ہو جب تک کہ تمہیں اجازت نہ دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہےo‘‘
القرآن، النور، 24 : 27، 28
اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی نجی زندگی اور شخصی رازداری کا حق اسی طرح حاصل ہے جس طرح مسلمانوں کو؛ اس لیے کہ اسلامی قانون نے ان کے لیے یہ اُصول طے کیا ہے کہ جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں وہ ان کو بھی حاصل ہوں گے اور جو ذمہ داریاں مسلمانوں پر ڈالی گئی ہیں وہ ان پر بھی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بقول ان سے جزیہ اس لیے لیا جاتا ہے تاکہ ان کے جان و مال کی اسی طرح حفاظت کی جاسکے جس طرح ہمارے جان و مال کی حفاظت ہوتی ہے۔
ابن قدامه، المغنی، 9 : 289
اسلام خدائے واحد کی بندگی کی دعوت دیتا ہے لیکن دوسرے مذاہب کے لوگوں پر اپنے عقائد بدلنے اور اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتا، نہ کسی جبر و اکراہ سے کام لیتا ہے۔ دعوتِ حق اور جبر و اکراہ بالکل الگ حقیقتیں ہیں۔ اسلام کے پیغام حق کے ابلاغ کا قرآنِ حکیم نے یوں بیان کیا :
اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَO
’’(اے رسول معظم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو بے شک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہےo‘‘
القرآن، النحل، 16 : 125
اسلام نے ایسے طریق دعوت سے منع کیا جس سے کسی فریق کی مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہو، دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ.
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہوچکی ہے۔‘‘
القرآن، البقره، 2 : 256
شریعت کی یہ حکمت عملی ہے کہ غیر مسلموں کو ان کے مذہب و مسلک پر برقرار رہنے کی پوری آزادی ہوگی۔ اسلامی مملکت ان کے عقیدہ و عبادت سے تعرض نہ کرے گی۔ اہلِ نجران کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو خط لکھا تھا اس میں یہ جملہ بھی درج تھا :
ولنجران وحاشيتهم جوار اﷲ و ذمة محمد النبي رسول اﷲ علي انفسهم وملتهم و ارضهم و اموالهم و غائبهم و شاهدهم و بيعهم و صلواتهم لا يغيروا اسقفاعن اسقفيته ولا راهبا عن رهبانية ولا و اقفا عن و قفانيته وکل ما تحت ايديهم من قليل اوکثير.
’’نجران اور ان کے حلیفوں کو اللہ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پناہ حاصل ہے۔ ان کی جانیں، ان کی شریعت، زمین، اموال، حاضر و غائب اشخاص، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے گرجا گھروں کی حفاظت کی جائے گی۔ کسی پادری کو اس کے مذہبی مرتبے، کسی راہب کو اس کی رہبانیت اور کسی صاحب منصب کو اس کے منصب سے ہٹایا نہیں جائے گا اور ان کی زیر ملکیت ہر چیز کی حفاظت کی جائے گی۔‘‘
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 228، 358
2. ابويوسف، کتاب الخراج : 78
مختلف ادوار میں گرجا گھر اور کلیسے اسلامی حکومت میں موجود رہے ہیں۔ کبھی بھی انہیں ادنیٰ گزند تک نہیں پہنچائی گئی بلکہ حکومت نے ان کی حفاظت کی ہے اور غیر مسلموں کو ان میں عبادات کی انجام دہی کے لیے سہولیات فراہم کی ہیں۔
اقلیتوں کے شخصی معاملات بھی ان کی شریعت (personal law) کے مطابق طے کیے جائیں گے، اسلامی قانون ان پر نافذ نہیں کیا جائے گا۔ جن افعال کی حرمت ان کے مذہب میں بھی ثابت ہے ان سے تو وہ ہر حال میں منع کیے جائیں گے، البتہ جو افعال ان کے ہاں جائز اور اسلام میں ممنوع ہیں انہیں وہ اپنی بستیوں میں آزادی کے ساتھ کرسکیں گے اور خالص اسلامی آبادیوں میں حکومت اسلامیہ کو اختیار ہوگا کہ انہیں آزادی دے یا نہ دے :
ولا يمنعون من اظهار شيئ مما ذکرنا من بيع الخمر والخنزير والصليب وضرب الناقوس في قرية او موضع ليس من امصار المسلمين ولو کان فيه عدد کثير من أهل الاسلام وانما يکره ذلک في امصار المسلمين و هي التي يقام فيها الجمع والاعياد و الحدود، و اما اظهار فسق يعتقدون حرمته کا لزنا و سائر الفواحش التي هي حرام في دينهم فانهم يمنعون من ذلک سواء کانوا في امصار المسلمين او في امصارهم.
’’جو بستیاں اور مقامات مسلمانوں کے شہروں میں سے نہیں ہیں ان میں ذمیوں کو شراب و خنزیر بیچنے اور صلیب نکالنے اور ناقوس بجانے سے نہیں روکا جائے گا خواہ وہاں مسلمانوں کی کتنی ہی کثیر تعداد آباد ہو۔ البتہ یہ افعال مسلمان آبادی کے شہر میں مکروہ ہیں جہاں جمعہ وعیدین اور حدود قائم کی جاتی ہوں۔ رہا وہ فسق جس کی حرمت کے وہ بھی قائل ہیں، مثلا زنا اور دوسرے تمام فواحش جو ان کے دین میں بھی حرام ہیں تو اس کے اظہار سے ان کو ہرحال میں روکا جائیگا خواہ مسلمانوں کے شہر میں ہوں یا خود ان کے اپنے شہر میں۔‘‘
کاسانی، بدائع الصنائع، 7 : 113
یعنی اقلیتیں اپنی قدیم عبادت گاہوں کے اندر رہ کر اپنے تمام مذہبی اُمور بجا لا سکتے ہیں، حکومتِ اسلامیہ اس میں دخل دینے کی مجاز نہیں ہے۔ تاہم اس ذیل میں اقلیتوں کو مسلمانوں کے شعائر مذہبی کے احترام کو ملحوظ رکھنا ہو گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ :
أيما مصر مصرته العرب فليس للعجم ان يبنوا فيه بناء بيعة ولا يضربوا فيه ناقوسا ولا يشربوا فيه خمراً ولا يتخذوا فيه خنزيراً أيما مصر کانت العجم مصرته يفتحه اﷲ علي العرب فنزلوا علي حکمهم فللعجم ما في عهدهم وللعجم علي العرب ان يوفوا بعهدهم.
’’جن شہروں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہے ان میں ذمیوں کو یہ حق نہیں ہے کہ نئی عبادت گاہیں اور کنائس تعمیر کریں، یا ناقوس بجائیں، شرابیں پئیں اور سور پالیں۔ باقی رہے وہ شہر جو عجمیوں کے آباد کیے ہوئے ہیں اور جن کو اللہ نے عربوں (یعنی مسلمانوں) کے ہاتھ پر فتحیاب کیا اور انہوں نے مسلمانوں کے حکم پر اطاعت قبول کر لی تو عجم کے لیے وہی حقوق ہیں جو ان کے معاہدے میں طے ہو جائیں اور عرب پر ان کا ادا کرنا لازم ہے۔‘‘
1. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 467، رقم : 32982
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 9 : 202
3. ابن قدامه، المغني، 9 : 283
4. زرعي، احکام اهل الذمه، 3 : 1181، 1195، 1235
5. ابن ضويان، منار السبيل، 1 : 283
وہ مسلمان جو دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے اس کا معاملہ اقلیتوں سے مختلف ہو گا۔ اگر کوئی مسلمان احکام اسلام کا پابند ہونے اور اس کے عقیدہ پر ایمان لانے کے بعد اگر اس سے پلٹتا ہے تو وہ گویا اس ارتداد سے فتنہ کا دروازہ کھول دیتا ہے اور مملکت سے بغاوت کرتا ہے جو موجب سزا ہے اس لیے کہ وفائے عہد سے برگشتگی ملکی قانون سے بغاوت اور بہت بڑا جرم ہے اور یہ امردورِ جدید کے قانون میں بھی معروف و متعین ہے۔ جسکی سزا اکثر ریاستی قوانین میں موت مقررکی گئی ہے۔
ارتداد کی سزا کے نظائر دنیا کے اکثر آئینی و دساتیری قوانین میں موجود ہیں۔ اسلام نے مرتد کو بھی سزا دینے سے قبل راہ راست کی قبولیت کا موقع پانے کا حق عطا کیا ہے۔ حضرت امام محمد بن حسن شیبانی فرماتے ہیں :
و اذا ارتد المسلم عن الاسلام عرض عليه الاسلام فان اسلم والا قتل مکانه الا ان يطلب ان يوجله، فان طلب ذلک اجل ثلاثة ايام.
’’اگر کوئی مسلمان اسلام سے برگشتہ ہوجائے تو اسے دوبارہ اسلام کی دعوت دی جائے گی۔ اگر وہ اسلام قبول کرلے تو خوب، بصورت دیگر اسے فوراً قتل کردیا جائے گا، تاہم اگر وہ غور و فکر کے لیے کچھ مہلت طلب کرے تو اسے تین دن کی مہلت دی جائے گی۔‘‘
شيباني، السيرالصغير : 38
اگر ارتداد کا ارتکاب عورت نے کیا ہو تو اسے مرد مرتد کی نسبت رجوع الی الحق کے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں گے :
ولا تقتل المرتدة ولکنها تحبس ابدا حتي تسلم بلعنا عن ابن عباس انه قال : اذا ارتدت المرأة عن الاسلام حبست ولم تقتل و بلغنا عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم انه نهي عن قتل نساء المشرکين في الحرب فادر ألقتل عنها بهذا ومالها و کسوتها کله لها. وافعالها في البيع والشريٰ والعتق والهبة کلها جائزة.
’’مرتد ہوجانے والی عورت کو سزائے موت نہیں دی جائے گی بلکہ اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی یا اس وقت تک قید رکھا جائے گا جب تک وہ دوبارہ اسلام قبول نہ کرلے۔ ہم تک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فرماں پہنچا ہے کہ جب کوئی عورت ارتداد اختیار کرے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ قید کیا جائے گا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی میدان جنگ میں مشرکین کی عورتوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ اس معاملے میں بھی میں انہیں قتل سے بچانا چاہوں گا۔ اس کی املاک و اموال اس کی ملکیت رہیں گے۔ اور اس کے خرید و فروخت، غلاموں کی آزادی، اور ہدیہ سے متعلق معاہدے و افعال معتبر ہوں گے۔‘‘
شيباني، السير الصغير : 41
واذا رفعت المرتدة الي الامام فقالت : ما ارتددت، و انا اشهد ان لا اله الا اﷲ و ان محمد رسول اﷲ کان هذا توبة منها.
’’جب کسی مرتدہ کو حاکم کے سامنے پیش کیا جائے اور وہ اپنے ارتداد کا انکار کرتے ہوئے کہے میں اس کی گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد اللہ کے رسول ہیں تو یہ اس کی توبہ تصور کی جائے گی (اور اسے سزا نہیں ہوگی)۔‘‘
شيباني، السير الصغير : 42
غیر مسلم پر اسلامی حکومت میں کسب معاش کے سلسلہ میں کسی قسم کی پابندی نہیں ہے، وہ ہر کاروبار کر سکتا ہے جو مسلمان کرتے ہوں۔ سوائے اس کاروبار کے جو ریاست کے لیے اجتماعی طور پر نقصان کا سبب ہو۔ وہ جس طرح مسلمانوں کے لیے ممنوع ہوگا، اُسی طرح ان کے لیے بھی ممنوع ہوگا، مثلاً سودی کاروبار، جو بالآخر پوری سوسائٹی کے لیے ہلاکت کا باعث بنتا ہے یا دیگر اس نوعیت کے کام وغیرہ۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل نجران کو لکھا :
إما أن تذروا الربا و إما أن تأذنوا بحرب من اﷲ ورسوله.
’’سود چھوڑ دو یا اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘
1. جصاص، احکام القرآن، 4 : 89
2. جصاص، الفصول في الاصول، 2 : 37
احکام القرآن میں آیت وأخذهم الربا و قد نهوا عنه و اکلهم اموال الناس بالباطل اور يايها الذين امنوا لا تکلوا اموالکم بينکم بالباطل کے تحت امام جصاص فرماتے ہیں :
فسوي بينهم و بين المسلمين في المنع من الربا.
’’اللہ تعالیٰ نے ان (ذمیوں) اور مسلمانوں کے درمیان سود کی ممانعت کو برابر قرار دیا ہے۔‘‘
جصاص، احکام القرآن، 4 : 89
اس اُصول کے علاوہ جو تجارت ان کو پسند ہوا کریں، یہاں تک کہ وہ اپنے محلوں اور شہروں میں خنزیر اور شراب بھی رکھ سکتے ہیں، ان کی خرید و فروخت کر سکتے ہیں۔ درِ مختار میں ہے :
ويضمن المسلم قيمة خمره و خنزير اذا اتلفه.
’’ یعنی اگر کوئی مسلمان غیر مسلم اقلیتی فرد کی شراب یا خنزیر کو نقصان پہنچائے گا تو اسے اس کا تاوان ادا کرنا پڑے گا۔‘‘
1. علاؤ الدين حصکفي، الدر المختار، 2 : 223
2. ابن عابدين شامي، رد المحتار، 3 : 273
لیکن یہ چیزیں وہ مسلمانوں کے شہروں میں نہ لائیں گے اور نہ ہی مسلمانوں کے ہاتھ بیچیں گے۔
کاساني، بدائع الصنائع، 7 : 113
پیشوں کے اعتبار سے وہ کوئی بھی پیشہ اختیار کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کو اُجرت پر ان سے کام کروانے کی کسی قسم کی ممانعت نہیں ہے۔ اسلام میں کسی پیشہ کی وجہ سے کسی غیر مسلم سے کسی بھی نوعیت کی کوئی دوری رکھنے کا ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ملتا، تجارتی معاملات میں جو ٹیکس مسلمان دیتے ہیں وہ ان کو بھی دینا ہو گا۔
جس طرح اسلامی بیت المال کسی مسلمان کے معذور ہو جانے یا بوجہ عمر رسیدگی اور غربت کے محتاج ہو جانے پر کفالت کی ذمہ داری لیتا ہے اسی طرح اسلامی بیت المال پر ایک غیر مسلم کے معذور ہونے یا عاجز ہونے کی صورت میں اس کی کفالت لازم ہے۔
کتاب الاموال میں ابوعبید نے حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے :
أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم تصدق صدقه علي اهل بيت من اليهود فهي تجري عليهم.
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں کے ایک گھرانہ کو صدقہ دیا اور (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی) وہ انہیں دیا جارہا ہے۔‘‘
1. ابو عبيد، کتاب الاموال : 1992
2. زيلعي، نصب الرايه، 2 : 398
3. سيواسي، شرح فتح القدير، 2 : 267
4. عسقلاني، الدرايه في تخريج احاديث الهدايه، 1 : 266
حضرت زید بن ہاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إن صفية زوج النبي صلي الله عليه وآله وسلم، تصدقت علي ذوي قرابة لها، فهما يهوديان، فبيع ذلک بثلاثين الفا.
’’بے شک ام المومنین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرۃ حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے رشتہ داروں کو صدقہ دیا حالانکہ وہ دونوں یہودی تھے جو تیس ہزار (درہم) کے عوض فروخت کیا گیا۔‘‘
ابوعبيد، کتاب الاموال، 1993
عمرو بن میمون، عمرو بن شرجیل اور مرۃ ہمذانی سے روایت کیا گیا ہے کہ :
انهم کانوا يعطون الرهبان من صدقة الفطر.
ابوعبيد، کتاب الاموال : 1996
اسی طرح کتاب الخراج ابو یوسف میں ہے :
وجعلت لهم ايما شيخ ضعف عن العمل او اصابته افة من الافات او کان غنيا فافتقر وصار اهل دينه يتصدقون عليه طرحت جزيته و عيل من بيت مال المسلمين و عياله ما اقام بدار الهجرة و دارالاسلام.
’’وہ راہبوں کو صدقہ فطر میں سے دیتے تھے۔‘‘
’’ اگر ان کے ضعیف العمر اور ناکارہ لوگوں یا آفت رسیدہ یا بعد ازغنی فقیر ہو جانے والوں، کہ ان کے مذہب کے لوگ ان کو خیرات دینے لگیں، سے جزیہ ہٹا لیا جائے گا اور مسلمانوں کے بیت المال سے ان کے نان و نفقہ کا بندوبست کیا جائے گا جب تک وہ اسلامی ملک میں رہیں۔‘‘
1. ابو يوسف، کتاب الخراج : 155
2. محمد حميد الله، الوثائق السياسية : 317، وثيقه : 291
عملی طور پر اس کی تاریخ اسلامی میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ غیر مسلم اقلیتوں کے معذور افراد کو اسلامی بیت المال سے باقاعدہ الاؤنس ملتا رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ایک یہودی کو دیکھا جو اندھا ہو چکا تھا تو آپ نے اس کے لیے ماہانہ وظیفہ مقرر فرما دیا۔ اجتماعی کفالت کے حق اور حقوق عامہ میں اسلامی حکومت کی نگاہ میں مسلم اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں ہے بلکہ وہ بالکل برابر کے شہری ہیں۔
اسلام میں ہر جائز ذریعہ روزگار کو مستحسن قرار دیا گیا ہے حدیث مبارکہ ہے :
ما أکل أحد طعاما قط، خيرا من أن يأکل من عمل يديه، و إن نبي اﷲ داؤد عليه السلام کان يأکل من عمل يديه.
’’کوئی بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر اور کوئی کھانا نہیں کھا سکتا اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔‘‘
محمد حسين هيکل، الفاروق عمر، 2 : 202
اسلامی مملکت میں اقلیتوں سمیت ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ تجارت، صنعت و زراعت غرضیکہ جو کام بھی وہ کرنا چاہے کر سکتا ہے، بشرطیکہ ان چیزوں کے قریب نہ جائے، جنہیں شریعت نے حرام قرار دیا ہے، جیسے سودی معاملات ہیں اور جائز حدود میں بھی اخلاقی قدروں کا لحاظ رکھے، اپنے کام کی وجہ سے کسی دوسرے کی تجارت یا صنعت کے درپے آزار نہ ہو۔ یہ اسلامی شریعت میں ناجائز ہے۔ جب فرد جائز کام کرے گا تو اس کا حاصل اور ثمر اس کا حق ہو گا، اس لیے کہ یہ اس کی محنت اور پسینہ کی کمائی ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىO
’’اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہےo‘‘
القرآن، النَّجْم، 53 : 39
حکومت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی فرد کو جائز کاموں کے کرنے سے روک دے، البتہ اگر کوئی شرعی ضرورت ہو تو ایسا کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ اپنے ملازمین کو تجارت اور کمائی کرنے سے روک سکتی ہے، تاکہ وہ اپنے اثر و نفوذ اور منصب کا ناجائز فائدہ نہ اُٹھا سکیں۔ اس لیے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے گورنروں کی مالیت کا محاسبہ کرتے تھے، اگر ان میں سے کوئی یہ جواز پیش کرتا کہ میں نے تجارت سے نفع کما کر یہ دولت اکٹھی کی ہے تو آپ فرماتے :
نحن انما بعثناکم ولاة ولم نبعثکم تجارا.
’’ہم تمہیں والی بنا کر بھیجتے ہیں تاجر بنا کر نہیں۔‘‘
محمد حسين هيکل، الفاروق عمر، 2 : 202
اسلامی ریاست اقلیتوں کے تحفظ اور سلامتی کی ذمہ دار ہے۔ اگر اسلامی ریاست کا کسی دوسری قوم سے معاہدہ ہو تو اس قوم کے تحفظ و سلامتی کی ذمہ داری بھی اسلامی ریاست پر ہوگی :
وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ.
’’اور اگر وہ (مقتول) تمہاری دشمن قوم سے ہو اور وہ مومن (بھی) ہو تو (صرف) ایک غلام/ باندی کا آزاد کرنا (ہی لازم) ہے اور اگر وہ (مقتول) اس قوم میں سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان (صلح کا) معاہدہ ہے تو خون بہا (بھی) جو اس کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے اور اور ایک مسلمان غلام/ باندی کا آزاد کرنا (بھی لازم) ہے۔‘‘
القرآن، النساء، 4 : 92
اقلیتوں کی جان کی حرمت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتی ہے :
دية اليهودي والنصراني وکل ذمي مثل دية المسلم.
’’یہودی، عیسائی اور ہر ذمی کی دیت مسلمان کی دیت کی طرح ہے۔‘‘
1. عبدالرزاق، المصنف، 10 : 97، 98
2. ابن رشد، بداية المجتهد، 2 : 310
خلفائے راشدین کے دور میں اس اصول پر عمل کیا جاتا رہا اور ذمیوں کی دیت مسلمانوں کی دیت کے برابر ادا کی جاتی تھی۔
دورانِ فتوحات غیر مسلم اقوام سے جو معاہدات ہوئے ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ غیر مسلم رعایا کے تحفظ، سلامتی اور بنیادی ضروریات کی حکومت ذمہ دار ہو گی۔ چنانچہ حیرہ کے باشندوں کو جو پروانہ امان دیا گیا اس کا ایک حصہ یہ ہے :
’’جو غیر مسلم بوڑھا ہو جائے اور کام نہ کر سکے یا کوئی ناگہانی آفت اسے ناکارہ بنا دے یا پہلے دولتمند ہو، بعد میں کسی حادثہ کی وجہ سے غریب ہو جائے تو ایسے آفت رسیدہ لوگوں سے نہ صرف یہ کہ حکومت کوئی ٹیکس وصول نہیں کرے گی بلکہ ان کو اور ان کی اہل و عیال کو سرکاری خزانہ سے گزارہ الاؤنس بھی مہیا کیا جائے گا۔‘‘
ابويوسف، کتاب الخراج : 155
تاریخِ اسلام میں اس اُصول کی متعدد عملی مثالیں ملتی ہیں ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بوڑھے یہودی کو بڑی خستہ حالت میں دیکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : خدا کی قسم! یہ انصاف کا تقاضا نہیں کہ ہم اس کی جوانی میں تو اس سے فائدہ اُٹھائیں اور اُسے بڑھاپے میں اس طرح رسوا ہونے دیں چنانچہ آپ نے حکم صادر فرمایا کہ اس بوڑھے کو زندگی بھر اس کی ضرورت کے مطابق بیت المال سے وظیفہ دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے ملک کے گورنروں کو لکھا کہ وہ غیر مسلم کے رعایا کے مستحق اور غریب افراد کو بیت المال سے پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ تنخواہیں دیں۔
ابويوسف، کتاب الخراج : 150
اسی طرح غیر مسلموں کو وظائف دینے کی کئی مثالیں تاریخِ اسلام میں موجود ہیں۔ ہر دور میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اسلام کے قوانین پر عمل کیا جاتا رہا اور جب کبھی سرکش امراء نے اس کے خلاف عمل کیا ہے تو علماء و فقہا نے انہیں اس سے باز رکھنے یا کم از کم ان سے اس کی تلافی کرانے کی کوشش کی ہے۔ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ولید بن عبدالملک اموی نے دمشق کے کنیسہ یوحنا کو زبردستی عیسائیوں سے چھین کر مسجد میں شامل کر لیا۔ بلاذری کے مطابق :
فلما استخلف عمر بن عبدالعزيز شکي النصاري إليه ما فعل الوليد بهم في کنيستهم فکتب الي عامله يامره برد ما زاده في المسجد.
’’جب حضرت عمر بن عبدالعزیز تختِ خلافت پر متمکن ہوئے اور عیسائیوں نے ان سے ولید کے کنیسہ پر کیے گئے ظلم کی شکایت کی تو انہوں نے اپنے عامل کو حکم دیا کہ مسجد کا جتنا حصہ گرجا کی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے اسے منہدم کرکے عیسائیوں کے حوالہ کر دو۔‘‘
بلاذري، فتوح البلدان : 150
جب ولید بن یزید نے رومی حملہ کے خوف سے قبرص کے ذمی باشندوں کو جلا وطن کر کے شام میں آباد کیا تو اس پر فقہائے اسلام اور عام مسلمان سخت ناراض ہوئے اور اسے گناہ عظیم سمجھا۔ پھر جب یزید بن ولید نے ان کو دوبارہ قبرص میں لے جا کر آباد کر دیا تو اسے عوام الناس نے بنظر احسن دیکھا اور کہا کہ یہی انصاف کا تقاضا ہے۔ اسماعیل بن عیاش کا بیان ہے کہ :
فاستقطع ذلک المسلمون واستعظمه الفقهاء فلما ولي يزيد بن الوليد بن عبدالملک ردهم الي قبرس فاستحسن المسلمون ذلک من فعله و رأوه عدلا.
’’اس فعل کو عام مسلمانوں اور فقہا نے غلط قرار دیا اور جب یزید بن الولید بن عبدالملک آیا تو اس نے قبرص کے باشندوں کو واپس کردیا اس کے اس عمل کی عام مسلمانوں نے تعریف کی اور اسے عدل و انصاف پر مبنی قرار دیا۔‘‘
بلاذري، فتوح البلدان : 180
بلاذری کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ جبلِ لبنان کے باشندوں میں سے ایک گروہ نے بغاوت کر دی۔ اس پر صالح بن علی بن عبداللہ نے ان کی سرکوبی کے لیے ایک فوج بھیجی، جس نے ان کے ہتھیار اُٹھانے والے مردوں کو قتل کر دیا اور باقی لوگوں میں سے ایک جماعت کو جلا وطن کیا اور ایک جماعت کو وہیں آباد رہنے دیا۔ امام اَوزاعی رحمۃ اللہ علیہ اس زمانہ میں زندہ تھے۔ اُنہوں نے صالح کو اس ظلم پر سخت تنبیہ کرتے ہوئے بغاوت میں حصہ نہ لینے والوں کو قتل کرنے اور گھروں سے نکالنے کی مذمت کی اور ایک طویل خط لکھا، جس کے چند فقرے یہ ہیں :
ما قدمت علمت فکيف تؤخذ عامة بذنوب خاصة حتي يخرجوا من ديارهم واموالهم. وحکم اﷲ تعالي : ﴿لاتزر وازرة وزر اخري﴾. وأحق الوصايا أن تحفظ و ترعي وصية رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’من ظلم معاهدا وکلفه فوق طاقته فأنا حجيه.‘‘
’’میں نہیں سمجھ سکتا کہ عام لوگوں کو بعض خاص لوگوں کے جرم کی سزا کیوں کر دی جاسکتی ہے۔ اور کس بنا پر انہیں ان کے گھروں اور انکی جائیدادوں سے بے دخل کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ اللہ کا یہ حکم ہے کہ لا تزر وازرۃ وزر اخری اور یہ ایک واجب التعمیل حکم ہے۔ تمہارے لیے بہترین نصیحت یہ ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کو یاد رکھو کہ ’’جو کوئی کسی معاہد پر ظلم کرے گا اور اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالے گا اس کے خلاف میں خود مدعی بنوں گا۔‘‘
بلاذري، فتوح البلدان : 186
اسلامی ریاست میں اقلیتیں اپنی قومی اور تہذیبی روایات کے مطابق رہ سکیں گی یہاں تک کہ ان کے شخصی معاملات یعنی نکاح طلاق بایں حد کہ نکاح محرمات بھی اگر ان کے تہذیبی شعائر میں رائج ہو تو اس سے بھی کوئی تعرض نہ کیا جائے گا۔
ایک دفعہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت فرمایا کہ خلفائے راشدین نے اہل ذمہ کو نکاح محرمات کی کیوں اجازت دے دی تھی اور شاید آپ اس پر پابندی لگانا چاہتے تھے کیونکہ یہ فعل شناعت کے اعتبار اس قدر شنیع ہے کہ فطرت سلیمہ اسے ہرگز قبول نہیں کرتی۔ جواب میں حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا :
انما بذلوا الجزية ليترکوا علي ما يعتقدون و انما انت متبع ولا مبتدع والسلام.
’’انہوں نے جزیہ اس لیے دیا ہے کہ انہیں ان کے اعتقادات پر چھوڑ دیا جائے اور آپ تو خلفائے راشدین کی پیروی کرنے والے ہیں نہ کہ نئی راہ بنانے والے۔‘‘
1. سيواسي، شرح فتح القدير، 3 : 417
2. سرخسي، المبسوط، 5 : 39
اسلامی ریاست میں اندر سوائے حرم کے وہ جہاں چاہیں سکونت اختیار کر سکتے ہیں اور اسی طرح ترک سکونت کا بھی انہیں اختیار ہے۔ حرم سے مراد مکہ مکرمہ ہے اور اس میں مشرک کے داخلہ پر پابندی نص سے ثابت ہے اس لیے وہ وہاں نہ رہ سکیں گے۔
اسلامی معاشرے میں مسلمانوں پر بھی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اقلیتوں سے نیکی، انصاف اور حسن سلوک پر مبنی رویہ اختیار کریں
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَO
’’(اے مسلمانو!) اللہ تم کو ان لوگوں کے ساتھ نیکی کا برتاؤ اور انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارے میں نہ لڑے اور نہ انہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا (بلکہ) اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہےo‘‘
القرآن، الممتحنة، 60 : 8
اِسلامی ریاست میں اقلیتوں کو دفاعی ذمہ داریاں ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کا دفاع اِسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اسلامی حکومت غیر مسلموں کے جان و مال اور آبرو کی حفاظت کرے گی۔
1. کاساني، بدائع الصنائع، 7 : 111
2. شربيني، مغني المحتاج، 4 : 243
3. منصور بن يونس، کشاف القناع، 3 : 92
4. زحيلي، الفقه الاسلامي و ادلته، 6 : 446
چونکہ اسلامی ریاست اقلیتوں کو جان و مال اور آبرو کا تحفظ فراہم کرتے ہے اور ان پر کوئی دفاعی ذمہ داری بھی عائد نہیں کرتی لہٰذا اس کے عوض اقلیتیں اسلامی ریاست کو مالیاتی طور پر contribute کرتے ہیں جسے اسلامی قانون میں جزیہ کہا گیا ہے۔ اسلامی ریاست میں اقلیتوں پر جزیہ عائد کرنے کے معاملے میں بھی عدل و انصاف اور حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے امرائے لشکر کو لکھا :
ألا يضربوا الجزية علي النساء ولا علي الصبيان وأن يضربوا الجزية علي من جرت عليه الموسي من الرجال.
’’عورتوں اور بچوں پر جزیہ عاید نہ کریں اور صرف ان مردوں پر جزیہ عاید کریں، جن کے بال اگ آئے ہوں (بالغ ہوگئے ہوں)۔‘‘
1. عبدالرزاق، المصنف، 10 : 331، رقم : 19273
2. عبدالرزاق، المصنف، 6 : 85، رقم : 10090
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 428، 429، رقم : 32636، 32640
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 9 : 195، 198
5. ابن حزم، المحلي، 7 : 247
6. ابن قدامه، المغني، 8 : 476، 507
7. عسقلاني، تلخيص الحبير، 4 : 123
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مقام سے گزر ہوا تو آپ نے ایک بوڑھے نابینا یہودی بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔ آپ نے اس سے پوچھا :
فما ألجأک الي ما اري؟ قال : أسأل الجزية والحاجة والسن. فأخذ عمر بيده و ذهب به الي منزله فرضخ له بشئ من المنزل. ثم ارسل الي خازن بيت المال فقال : انظر هذا و ضرباء ه، فو اﷲ! ما أنصفناه أن أکلنا شبيبته ثم نخذله عندالهرم.
تمہیں اس پر کس بات نے مجبور کیا؟اس نے کہا کہ بوڑھا ضرورت مند ہوں اور جزیہ بھی دینا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور گھر لائے اور اسے اپنے گھر سے کچھ دیا، پھر اسے بیت المال کے خازن کے پاس بھیجا اور حکم دیا کہ اس کا اور اس جیسے اور لوگوں کا خیال رکھو اور ان سے جزیہ لینا موقوف کردو۔ کیونکہ یہ کوئی انصاف کی بات نہیں ہے کہ ہم نے ان کی جوانی میں ان سے جزیہ وصول کیا اور اب بڑھاپے میں ان کو اس طرح رسوا کریں۔‘‘
1. ابن قدامه، المغني، 8 : 509
2. ابو يوسف، کتاب الخراج : 150
جزیہ کی مقدار مقرر کرنے میں بھی ذمیوں پر تشدد کرنا ممنوع ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وصیت ہے کہ لا یکلفوا فوق طاقتھم جتنا مال دینا ان کی طاقت سے باہر ہو انہیں اس کے ادا کرنے کی تکلیف نہ دو۔
بيهقي، السنن الکبريٰ، 9 : 206
جزیہ کے عوض ان کی املاک کا نیلام نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حکم ہے :
لا تبيعن لهم في خراجهم حماراً ولا بقرة ولاکسوة شتاء ولا صيف.
’’خراج میں ان کا گدھا یا ان کی گائے یا ان کے سردی و گرمی سے بچانے والے کپڑے نہ بیچنا۔‘‘
ابن قدامه، المغني، 9 : 291
ایک اور موقع پر اپنے عامل کو بھیجتے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
لا تبيعن لهم کسوة شتاء ولا صيفا، ولا رزقا ياکلونه، ولا دابة يعملون عليها، ولا تضربن أحدا منهم سوطا و احدا في درهم ولا تقمه علي رجله في طلب درهم، ولا تبع لأحد منهم عرضا في شيئ من الخراج، فإنا انما أمرنا أن ناخذ منهم العفو، فإن انت خالفت ما أمرتک به ياخذک اﷲ به دوني، و إن بلغني عنک خلاف ذلک عزلتک.
’’ان کے جاڑے گرمی کے کپڑے اور ان کے کھانے کا سامان اور ان کے جانور جن سے وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں خراج وصول کرنے کی خاطر نہ بیچنا نہ کسی کو درہم وصول کرنے کے لیے کوڑے مارنا، نہ کسی کو کھڑا رکھنے کی سزا دینا اورنہ خراج کے عوض کسی چیز کا نیلام کرنا کیوں کہ ہم، جو ان کے حاکم بنائے گئے ہیں، ہمارا کام نرمی سے وصول کرنا ہے۔ اگر تم نے میرے حکم کے خلاف عمل کیا تو اللہ میرے بجائے تمہیں سزا دے گا اور اگر مجھے تمہاری خلاف ورزی کی خبر پہنچی تو میں تمہیں معزول کر دوں گا۔‘‘
ابويوسف، کتاب الخراج : 17
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شام کے گورنر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو جو فرمان لکھا تھا اس میں منجملہ اور احکام کے ایک یہ بھی تھا کہ :
وامنع المسلمين من ظلمهم والإضراربهم واکل اموالهم إلا بحلها.
’’مسلمانوں کو ان پر ظلم کرنے اور انہیں ضرر پہنچانے اور ناجائز طریقہ سے ان کے مال کھانے سے منع کرنا۔‘‘
ابويوسف، کتاب الخراج : 152
شام کے سفر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ان کے عامل جزیہ وصول کرنے کے لیے ذمیوں کو دھوپ میں کھڑا کر کے اور ان کے سروں پر تیل ڈال کر سزائیں دے رہے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا :
فرعوهم، لا تکلفوهم مالا يطيقون، فاني سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : لا تعذبوا الناس فان الذين يعذبون الناس في الدنيا يعذبهم اﷲ يوم القيامة و أمربهم فخلي سبيلهم.
’’ان کو چھوڑ دو، تم ان کو تکلیف نہ دو جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے، میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگوں کو عذاب نہ دو بے شک وہ لوگ جو لوگوں کو دنیا میں عذاب دیتے ہیں اللہ انہیں قیامت کے دن عذاب دے گا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے حکم پر انہیں چھوڑ دیا گیا۔‘‘
امام ابويوسف، کتاب الخراج : 135
ہشام بن حکم نے حمص کے ایک سرکاری افسر عیاض بن غنم کو دیکھا کہ وہ ایک قبطی کو جزیہ وصول کرنے کے لیے دھوپ میں کھڑا کر رہا ہے۔ اس پر انہوں نے اسے ملامت کی اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے :
ان اﷲ يعذب الذين يعذبون الناس في الدنيا.
’’اﷲ عزوجل ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب البر، باب الوعيد الشديد، 4 : 2018، رقم : 2613
2. ابوداؤد، السنن، کتاب الخراج، باب في التشديد، 3 : 106، رقم : 3045
3. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 236، رقم : 8771
4. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 403، 404، 468
5. ابن حبان، الصحيح، 12 : 426، 427، 429، رقم : 5612، 5613
6. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 171، رقم : 441
7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 9 : 205
8. هيثمي، موارد الظمآن : 377، رقم : 1567
فقہائے اسلام نے نادہندگان کے حق میں صرف اتنی اجازت دی ہے کہ انہیں تادیباً قید بے مشقت کی سزا دی جاسکتی ہے۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے :
ولکن يرفق بهم و يحبسون حتي يؤدوا ما عليهم.
’’اور ان سے نرمی سے پیش آیا جائے گا اور ادائیگی جزیہ تک انہیں قید کیا جائے گا۔‘‘
ابويوسف، کتاب الخراج : 133
جو ذمی محتاج اور فقیر ہو جائیں انہیں صرف جزیہ ہی معاف نہیں کیا جائیگا بلکہ ان کے لیے اسلامی خزانہ سے وظائف بھی مقرر کیے جائیں گے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اہل حیرہ کوجو امان نامہ لکھ کر دیا تھا اس میں لکھتے ہیں :
وجعلت لهم ايما شيخ ضعف عن العمل او اصابته آفة من آلآفات اوکان غنياً فافتقروصارا هل دينه يتصدقون عليه طرحت جزيته و عيل من بيت مال المسلمين وعياله.
’’میں نے ان کے لیے یہ حق بھی رکھا ہے کہ جو کوئی شخص بڑھاپے کے سبب ازکار رفتہ ہو جائے یا اس پر کوئی آفت نازل ہو جائے، یا وہ پہلے مال دار تھا پھر فقیر ہو گیا یہاں تک کہ اس کے ہم مذہب لوگ اس کو صدقہ و خیرات دینے لگے، تو اس کاجزیہ معاف کر دیا جائیگا اور اسے اور اس کے بال بچوں کو ریاست کے بیت المال سے خرچ دیا جائے گا۔‘‘
1. محمد حميد الله، الوثائق السياسة : 317، وثيقه : 291
2. ابويوسف، کتاب الخراج : 155
اگرکوئی ذمی مرجائے اور اس کے حساب میں مکمل جزیہ یا جزیہ کا بقایا واجب الادا ہو تو وہ اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے ورثا پر اس کا بار ڈالا جائے گا۔ کیونکہ یہ اس پر قرض نہیں ہے۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
إن وجبت عليه الجزية فمات قبل ان تؤخذ منه اوأخذ بعضها وبقي البعض لم يوخذ بذلک ورثته ولم توخذ من ترکته لإن ذلک ليس بدين عليه.
’’اگر اس پر جذیہ واجب ہو تو اس کی کل یا کچھ ادائیگی سے قبل وہ مرجائے تو اس پر بقیہ واجب الادا جزیہ وارثوں سے وصول نہیں کیا جائیگا کیونکہ یہ اس پر قرض نہیں ہے۔‘‘
ابويوسف، کتاب الخراج : 132
اسلامی ریاست میں ذمی فوجی خدمت سے مستثنیٰ ہیں اور دشمن سے ملک کی حفاظت تنہا مسلمانوں کے فرائض میں شامل ہے چونکہ ان سے جزیہ اسی حفاظت کے معاوضہ میں وصول کیا جاتا ہے، اس لیے اسلام نہ تو ان کو فوجی خدمت کی تکلیف دینا جائز سمجھتا ہے اور نہ ان کی حفاظت سے عاجز ہونے کی صورت میں جزیہ وصول کرنا۔ اگر مسلمان ان کی حفاظت نہ کرسکیں توانہیں ذمیوں کے اموال جزیہ سے فائدہ اٹھانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ جنگ یرموک کے موقع پر رومیوں نے مسلمانوں کے مقابلہ پر ایک زبردست فوج جمع کی اور مسلمانوں کو شام کے تمام مفتوح علاقے چھوڑ کر ایک مرکز پر جمع ہونے کی ضرورت پیش آئی تو حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنے امراء کو لکھا کہ :
’’ جو کچھ جزیہ و خراج تم نے ذمیوں سے وصول کیا ہے انہیں واپس کردو اور ان سے کہو کہ اب ہم تمہاری حفاظت سے عاجز ہیں اس لیے تم اپنے معاملے کے لحاظ سے آزاد ہو۔ اس لیے ہم نے جو مال تمہاری حفاظت کے معاوضہ میں وصول کیا تھا اسے واپس کرتے ہیں۔‘‘
اس حکم کے مطابق تمام لشکروں کے امراء نے جمع شدہ رقم واپس کر دی۔
1. ابويوسف، کتاب الخراج : 150
2. بلاذري، فتوح البلدان : 161
اگر اقلیتوں نے اسلامی ریاست سے کوئی معاہدہ کیا ہو تو اسلامی ریاست اسے ہر حال میں پورا کرنے کی پابند ہوگی :
العقد فهو انه لازم في حقنا حتي لايملک المسلمون نقضه بحال من الاحوال واما في حقهم فغير لازم.
’’عقد ذمہ مسلمانوں کی جانب ابدی لزوم رکھتا ہے، یعنی وہ میثاق کرنے کے بعد پھر توڑ دینے کے مختار نہیں ہیں۔ لیکن دوسری جانب ذمیوں کو اختیار ہے کہ جب تک چاہیں اس پر قائم رہیں اور جب چاہیں توڑ دیں۔‘‘
کاسانی، بدائع الصنائع، 7 : 112
ذمی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتی کہ جزیہ بند کر دینا، مسلمان کو قتل کرنا، یا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا بھی اس کے حق میں ناقض ذمہ نہیں ہے البتہ صرف تین صورتیں ایسی ہیں جن میں عقد ذمہ باقی نہیں رہتا، ایک یہ کہ وہ مسلمان ہو جائے دوسری یہ کہ وہ دارالاسلام سے نکل کر دشمنوں سے جا ملے، تیسری یہ کہ حکومتِ اسلامیہ کے خلاف علانیہ بغاوت کر دے۔
کاساني، بدائع الصنائع، 7 : 113
اسلام نے جنگی قیدیوں سے حسن سلوک کی تعلیم دی ہے۔ جنگ بدر کے ایک قیدی کا بیان ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر رحم کرے، یہ اپنے اہل و عیال سے اچھا کھانا ہمیں کھلاتے تھے اور اپنے گھر کے لوگوں سے کہیں زیادہ ہماری آسائش کا خیال رکھتے تھے۔ مخالفین سے یہ سلوک اس لیے کیا جاتا تھا کہ اسلام دُشمن کو بھی تکریم انسانیت کا مستحق سمجھتا ہے اور کسی کے فکر اور عقیدے میں جبر و جور کے ذریعے تبدیلی پسند نہیں کرتا، اس کا واضح ارشاد ہے :
لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ.
’’دین کے معاملہ میں جبر روا نہیں۔‘‘
القرآن، البقرة، 2 : 256
جب دین کے معاملے میں جبر روا نہیں تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ غیر مسلموں کو انسانی حقوق سے محروم کر دیا جائے؟
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جن غیر مسلم قبائل نے غیر مسلم ہوتے ہوئے جزیرۃ العرب میں اسلامی حکومت کی رعایا کے طور پر رہنا پسند کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے کئی معاہدے کیے جو اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کی مختلف جہات کا اظہار کرتے ہیں ان میں سے چند معاہدات حسب ذیل ہیں :
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم۔
یہ معاہدہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اہلِ نجران کے لیے ہے۔
جن کے اتلاف پر ان کی قیمت اور شکست و ریخت کے ہمارے تحصیل دار ذمہ دار ہوں گے۔
1. بلاذري : فتوح البلدان : 89 - 90
2. محمد حميد اﷲ، الوثائق السياسة : 140، وثيقه : 94
بالکل اسی طرح کا ایک عہد نامہ اہلِ نجران سے ہوا کہ جس میں مذہبی آزادی کی اس سے بھی زیادہ وضاحت کی گئی ہے۔ جس کو بلاذری نے فتوح البلدان میں تحریر کیا ہے۔ جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ لکھ کر دیا :
ولنجران و حاشيتها جوار اﷲ و ذمة محمد النبي رسول اﷲ (صلي الله عليه وآله وسلم) علي انفسهم و ملتهم و ارضهم و اموالهم و غائبهم و شاهدهم و غيرهم و بعثهم و أمثلتهم لا يغير ما کانوا عليه ولا يغير حق من حقوقهم و امثلتهم لا يفتن اسقف من اسقفيته ولا راهب من رهبانيته ولا واقه من وقاهيته علي ما تحت ايديهم من قليل او کثير وليس عليهم رهق.
’’اہلِ نجران اور ان کے حلیفوں کے لیے اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جانوں ان کے مذہب ان کی زمینوں ان کے اموال۔ ان کے موجود اور غیر موجود، ان کے مواشی اور قافلے اور اُن کے استہان وغیرہ کے ذمہ دار ہیں اور جس دین پر وہ ہیں اس سے ان کو نہ پھیرا جائے گا۔ ان کے حقوق اور اُن کی عبادت گاہوں کے حقوق میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے گی۔ کسی پادری، راہب یا سردار کو اس کے عہدے سے نہ ہٹایا جائے اور ان کو کوئی خوف نہ ہو گا۔‘‘
بلاذري، فتوح البلدان : 90
ان معاہدات سے اقلیتوں کے حقوق کا جو خاکہ سامنے آتا ہے وہ یہ کہ :
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ لا یغیر حق من حقوقھم و امثلتھم۔ تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ان کی عبادت گاہوں میں کسی قسم کا تغیر نہ کیا جائے اور ان کا احترام بہر حال قائم رکھا جائے گا۔
ان سب چیزوں کے عوض غیر مسلم رعایا اسلامی حکومت کو کیا دے گی؟ وہی کچھ جو مسلم رعایا دیتی ہے۔ جو محاصل مسلم دے گا اس کا نام زکوٰۃ و عشر ہو گا اور جو محاصل غیر مسلم رعایا دے گی وہ جزیہ یا خراج کہلائے گا۔ یہ اسلامی بیت المال میں جمع ہونے والی رقوم کی الگ الگ دو مدوں کے نام ہیں، اس میں کسی کہتری یا برتری کا کوئی تصور نہیں ہے، جزیہ محافظت کی جزا ہے جسے ادا کرنے کے بعد غیر مسلم رعایا جنگی خدمات سے مستثنیٰ ہو جاتی ہے اور اسلامی حکومت ان کے مال، جان اور آبرو کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
وہ معاہدات جو دورِ صدیقی میں ہوئے اگرچہ ان کی تعداد کثیر ہے۔ یہاں ان میں سے چند ایسے معاہدے نقل کیے جاتے ہیں جن میں تمام کا خلاصہ آجاتا ہے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جب حسبِ فرمان خلیفۂ اوّل دمشق اور شام کی سرحدوں سے عراق اور ایران کی طرف لوٹے تو راستے میں باشندگان عانات کے ساتھ یہ معاہدہ کیا :
1. محمد حميد اﷲ، الوثائق السياسة، 323، وثيقه : 298
2. امام ابو يوسف، کتاب الخراج : 145
اہلِ حیرہ سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جو معاہدہ کیا اس کی دفعات حسبِ ذیل ہیں :
درج ذیل اشخاص کا جزیہ (محاصل) معاف ہے :
1. محمد حميد اﷲ، الوثائق السياسة، 316، وثيقه : 291
2. ابويوسف، کتاب الخراج : 155
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بہت سی ہدایات ہمیں ملتی ہیں جو آپ نے لشکر اسلام کے سپہ سالاروں کو تحریری طور پر یا زبانی دیں۔ ان میں سب سے جامع ہدایات وہ ہیں جو آپ نے شام بھیجی جانے والی فوج کے سالاروں کو دی تھیں۔ آپ نے فرمایا تھا :
أوصيکم بتقوي اﷲ اغزوا في سبيل اﷲ فقاتلوا من کفر باﷲ فإن اﷲ ناصردينه ولا تغلوا ولا تغدروا ولا تجبنوا ولا تفسدوا في الارض ولا تعصوا ماتؤمرون. . . ولا تغرقن نخلا ولا تحرقنها ولا تعقروا بهيمة ولا شجرة تثمر ولا تهدموا بيعة ولا تقتلوا الولدان ولا الشيوخ ولا النساء وستجدون اقواما حبسوا انفسهم في الصوامع فدعو هم وما حبسوا انفسهم له وستجدون آخرين اتخذ الشيطان في رؤوسهم أفحاصا فإذا وجدتم اولئک فاضربوا اعناقهم.
’’میں تمہیں اللہ عزوجل سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اللہ کے راستے میں جہاد کرو جن لوگوں نے خدا کو ماننے سے انکار کردیا ہے ان سے جنگ کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے دین کی نصرت فرمائے گا غلول (مال غنیمت میں چوری کرنا) نہ کرنا، غداری نہ کرنا، بزدلی نہ دکھانا زمین میں فساد نہ مچانا اور احکامات کی خلاف ورزی نہ کرنا، ۔ ۔ ۔ کھجور کے درخت نہ کاٹنا اور نہ انہیں جلانا چوپایوں کو ہلاک نہ کرنا اور نہ پھلدار درخت کو کاٹنا، کسی عبادت گاہ کو مت گرانا اور نہ ہی بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنا، تمہیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے گرجا گھروں میں اپنے آپ کو محبوس کر رکھا ہے اور دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا۔ ان کے علاوہ تمہیں کچھ دوسرے لوگ ملیں گے جو شیطانی سوچ کے حامل ہیں (یہ لوگ گرجا گھروں کے خدام کہلاتے ہیں لیکن لوگ جنگ میں ان کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں) جب تمہیں ایسے لوگ ملیں تو ان کی گردنیں اڑا دو۔‘‘
1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 9 : 85
2. مالک، موطا، 2 : 247
3. عبدالرزاق، المصنف، 5 : 199
4. سعيد بن منصور، السنن، 2. 3 : 5800
5. حسام الدين، کنزالعمال، 1 : 296
6. ابن قدامه، المغني، 8 : 451. 452، 477
7. ابن حزم : المحلي، 7 : 294، 296، 297
ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
لا تخربوا عامرا ولا تذبحوا بعيرا ولا بقرة إلا لمأکل.
’’کسی آباد جگہ کو مت اجاڑو اور کسی گائے یا اونٹ کو ہلاک نہ کرو سوائے اسکے کہ اس کے گوشت کی تمہیں ضرورت ہو‘‘۔
1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 9 : 90
2. ابن حزم، المحلي، 7 : 294، 296، 297
3. حسام الدين، کنز العمال، 1 : 296
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں بھی اقلیتوں کے حقوق کا قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق تحفظ کیا گیا۔ آپ کے دور خلافت میں بھی اقلیتوں سے کئی معاہدے ہوئے جن میں سے اہم اہلِ ماہ بہر اذان سے معاہدہ ہے :
حضرت نعمان بن مقرن نے اہلِ ماہ بہر اذان سے سیدنا حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں معاہدہ کیا، جس کی توثیق آپ نے فرمائی۔ اس معاہدے میں اقلیتوں کے متعلق درج ذیل دفعات شامل تھیں :
محمد حميد اﷲ، الوثائق السياسة : 358، وثيقه : 331
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آخری لمحے تک اقلیتوں کا خیال تھا۔ حالانکہ ایک اقلیتی فرقہ ہی کے فرد نے آپ کو شہید کیا۔ اس کے باوجود آخری وقت ارشاد فرمایا :
اوصي الخليفة من بعدي بذمة اﷲ و ذمة رسوله صلي الله عليه وآله وسلم أن يوفي لهم بعهدهم و أن يقاتل من ورائهم و أن لا يکلفوا فوق طاقتهم.
’’یعنی میں اپنے بعد والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمہ میں آنیوالوں (اقلیتوں) کے بارے میں یہ وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان سے کیے ہوئے وعدے پورے کرے اور ان کی حفاظت کے لیے لڑے اور اُن کو اُن کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما جاء في قبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 1 : 469، رقم : 1328
2. بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب قصة البيعة، 3 : 1356، رقم : 3497
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 436، رقم : 37059
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 150
5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 9 : 206
6. ازدي، الجامع، 11 : 109
7. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 339
8. خلال، السنه، 1 : 116، رقم : 62
9. شوکاني، نيل الاوطار، 6 : 159، 160
حضرت عمر رضی اللہ عنہ باہر سے آنے والے لوگوں سے وہاں کی اقلیتوں کے بارے میں برابر پوچھتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ بصرہ سے آنے والے اقلیتوں کے ایک وفد سے دریافت فرمایا :
لعل المسلمين يفضون الي اهل الذمة بأذي. . . فقالوا : ما نعلم الا وفاء.
’’شاید مسلمان اقلیتوں کو کچھ تکالیف دیتے ہیں۔ ۔ ۔ (تو اہلِ ذمہ نے) کہا ہم نے عہد کی پابندی کے علاوہ ان میں کچھ نہیں دیکھا۔‘‘
طبري، تاريخ الأمم والملوک، 2 : 503
یعنی مسلمانوں نے ہم سے جو معاہدہ کیا ہے اُسے پورا کر رہے ہیں۔
خلافتِ راشدہ کا تیسرا دور شروع ہی ایک ایسے المناک حادثہ سے ہوا کہ ایک غیر مسلم نے خلیفۂ وقت پر قاتلانہ حملہ کیا اور خلیفہ جانبر نہ ہو سکے، آپ کے صاحبزادے حضرت عبید اللہ نے غصہ میں آ کر قتل کی سازش میں ملوث تین آدمیوں کو قتل کر دیا، جن میں سے ایک مسلمان اور دو غیر مسلم عیسائی تھے، حضرت عبید اللہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ خلیفہ ثالث نے مسند خلافت پر بیٹھتے ہی سب سے پہلے اس معاملہ کے بارے میں صحابہ کرام سے رائے لی، تمام صحابہ کی رائے یہ تھی کہ عبید اللہ کو قتل کر دیا جائے۔ لیکن بعد میں خون بہا پر مصالحت ہو گئی اور خون بہا (دیت) کی رقم تینوں مقتولین کے لیے برابر برابر مقرر کی گئی۔
ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 5 : 17
اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی ریاست میں مسلمانوں اور غیر مسلم اقلیتوں کے خون کی حرمت برابر ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانۂ خلافت بھی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے شاندار ریکارڈ کا حامل ہے۔ آپ کے زمانہ خلافت میں کوفہ کے گورنر ولید بن عقبہ کے دربار میں ایک یہودی شعبدہ بازی کے کرتب دکھا رہا تھا، حضرت جندب بن کعب ازدی بھی تماشائیوں میں تھے، آپ کا شمار کبار تابعین میں ہوتا تھا، آپ نے ان شعبدوں کو شیطانی اثر سمجھا اور یہودی کو قتل کر دیا۔ ولید نے اسی وقت آپ کو گرفتار کر لیا اور قصاص میں قتل کرنے کے لیے جیل بھیج دیا۔ آپ نے داروغہ جیل ابوسنان سے پوچھا کہ کیا تو بھاگنے میں میری مدد کرے گا۔ اس نے کہا : ہاں اور پھر حضرت جندب کو جیل سے بھاگنے میں مدد دیتے ہوئے کہا : یہاں سے بھاگ جا اللہ تعالیٰ تیرے بارے مجھ سے کچھ نہ پوچھے گا۔
جب ولید نے آپ کو قتل کرنے کے لیے طلب کیا تو معلوم ہوا کہ آپ تو بھاگ گئے ہیں۔ ولید نے داروغہ کو نگرانی میں کوتاہی کرنے کے جرم میں قتل کر دیا۔
1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 136
2. مزي، تهذيب الکمال، 5 : 146
حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا دور بہت پر آشوب تھا۔ مگر اس کے باوجود آپ کے دور خلافت میں اقلیتوں کے حقوق کو کوئی گزند نہیں پہنچنے دی گئی۔ ایک دفعہ آپ کے پاس ایک مقدمہ آیا جس میں قاتل مسلمان تھا اور مقتول غیر مسلم تھا۔ آپ نے قاتل کو مقتول کے وارثوں کے سپرد کر دینے کا حکم دیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتویٰ پر فیصلہ کیا۔ مگر مقتول کے وارثوں نے دیت لے کر قاتل کو چھوڑ دینا چاہا۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے مقتول کے ورثاء کو بلا کر پوچھا کہ تمہارے اُوپر کوئی دباؤ تو نہیں ڈالا گیا، تو اُنہوں نے عرض کیا کہ نہیں ہم پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔ تب آپ نے وہ دیت دلا دی جو مسلمانوں کی دیت کے برابر تھی اور فرمایا :
من کان له ذمتنا فدمه کدمنا و ديته کديتنا.
’’یعنی جو غیر مسلم ہماری ذمہ داری میں ہے اس کا خون ہمارے خون جیسا ہے اور اس کی دیت بھی ہماری یعنی مسلمانوں کی دیت کے برابر ہے۔‘‘
1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 34
2. شافعي، المسند، 1 : 344
3. شيباني، الحجة، 4 : 355
4. زيلعي، نصب الراية، 4 : 337
5. شافعي، الام، 7 : 321
6. عسقلاني، الدرايه في تخريج احاديث الهدايه، 2 : 263
اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں قرآن و سنت کی عطا کی گئی تعلیمات اور دور نبوت و دور خلافت راشدہ میں اقلیتوں کے حقوق کے احترام و تحفظ کے ان روشن نظائر سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ مسلم ریاست میں اقلیتوں کو وہ تحفظ اور حقوق حاصل ہیں جن کا تصور بھی کسی دوسرے معاشرے میں نہیں کیا جا سکتا۔ معروف مستشرق واٹ اس کا اعتراف یوں کرتا ہے :
The Christian were probably better off as Dhimis under Muslim Arab rulers than they had been under the Byzantine Greek.(1)
’’(مسلمانوں کے دور اقتدار میں) عیسائی، عرب مسلم حکمرانوں کے اقتدار میں بطور ذمی اپنے آپ کو یونانی بازنطینی حکمرانوں کی رعیت میں رہنے سے زیادہ محفوظ اور بہتر سمجھتے تھے۔‘‘
(1) Watt M. Watt, Islamic Political Thought, p. 151.
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved