ہر طرح کی اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کی ہر سطح پر سرپرستی کا کلیتاً خاتمہ کیا جائے۔
آیاتِ قرآنی، اَحادیثِ نبوی اور تصریحاتِ اَئمہ سے ثابت شدہ اَمر ہے کہ دہشت گرد موجودہ دور کے خوارج ہیں اور ان کی علامات اور عقائد و نظریات کے تفصیلی تجزیہ سے بھی یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے۔
احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اُن (خوارج) کو پا لوں تو ضرور اُنہیں قتل کر دوں گا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَئِنْ ادْرَکْتُهُمْ لَاقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ.
اگر میں ان لوگوں کو پائوں تو ضرور بالضرور اُنہیں قومِ ثمود کی طرح قتل کر دوں گا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَئِنْ ادْرَکْتُهُمْ لَاقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ.
اگر میں انہیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح ضرور بالضرور قتل کر دوں گا۔
امام ابو العباس القرطبی ’المفہم شرح صحیح مسلم‘ میں فرماتے ہیں:
اور حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’اگر میں انہیں پا لوں تو ضرور بالضرور قومِ عاد کی طرح قتل کر کے کُلیتًا ختم کر دوں‘ اور دوسری روایت میں ’قومِ ثمود کی طرح قتل‘ کرنے کے الفاظ ہیں۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں پا لیتے تو (اُن کے خلاف کارروائی کرکے) ہر صورت ان کا قتلِ عام فرماتے حتی کہ ایک وقت میں ان میں سے کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑتے۔ ان میں سے کسی کے قتل کو مؤخر فرماتے نہ ان میں سے کسی کو مہلت دیتے جیسا کہ اﷲ رب العزت نے قومِ عاد کے ساتھ کیا کہ انہیں شدید ہوا کے ذریعے ہلاک کردیا اور قومِ ثمود کو سخت آواز کے ذریعے تباہ و برباد کر دیا۔
قرطبی، المفهم، 3: 110
مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں ثابت ہوجاتا ہے کہ خوارج کے خلاف ریاستی سطح پر کارروائی کرکے ان کا کُلی خاتمہ عین واجب ہے۔ جب بھی ان کا کوئی گروہ ظہور پذیر ہو اُسے مکمل طور پر نابود کرنا اور اُس کی جڑیں کاٹ دینا اَمن و سلامتی کا ضامن ہے۔ اُمتِ مسلمہ کی پوری تاریخ میں اَہلِ حق کا یہی وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی اس گروہ نے سر اٹھایا اسے ختم (terminate) کر دیا گیا۔
سابقہ انبیاء علیہم السلام نے بھی فتنہ پرور لوگوں کو انجام تک پہنچانے اور معاشرے سے فتنہ و فساد کے مستقل خاتمے کے لیے اﷲ تعالیٰ کے حضوریہی دعا کی تھی۔ حضرت نوح e نے اپنی قوم کے خلاف دعا کی تو اُس کا سبب بھی یہ تھا کہ آئندہ کے لیے شر و فساد کا کلیتاً خاتمہ ہوجائے۔ قرآن حکیم میں اس کا ذکر یوں آیا ہے:
اِنَّکَ اِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا يَلِدُوْا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًاo
بے شک اگر تو اُنہیں (زندہ) چھوڑے گا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتے رہیں گے، اور وہ بدکار (اور) سخت کافر اولاد کے سوا کسی کو جنم نہیں دیں گے۔
نوح، 71: 27
لہٰذا ضروری ہے کہ اِن خوارج کو جتنی جلد ممکن ہو سکے، نیست و نابود کر دیا جائے تاکہ وہ مزید شرانگیزی نہ کر سکیں۔ قرآن حکیم کے مطابق جب سرکش و باغی قوموں کو اِتمامِ حجت کے بعد اچانک عذاب دیا گیا تو یک لخت ان کی ساری کی ساری قوت تباہ کر دی گئی۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ قومِ ثمود کے متعلق اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّـآ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ صَيْحَةً وَّاحِدَةً فَـکَانُوْا کَهَشِيْمِ الْمُحْتَظِرِo
بے شک ہم نے اُن پر ایک نہایت خوفناک آواز بھیجی سو وہ باڑ لگانے والے کے بچے ہوئے اور روندے گئے بھوسے کی طرح ہوگئے۔
القمر، 54: 31
ا مذکورہ بالا اِرشاداتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی سے ثابت ہوگیا کہ مسلح خارجی گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرکے انہیں مہلت دینا در حقیقت انہیں دوبارہ منظم ہونے کا موقع فراہم کرنا ہے جو کہ سراسر حکم اِلٰہی اور حکمِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلاف ورزی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved