دہشت گردوں کی حمایت میں بیان دینے اور اُنہیں کسی بھی طرح کی معاونت، تحفظ یا سہولت فراہم کرنے کو ناقابلِ ضمانت جرم قرار دیتے ہوئے سخت سے سخت سزا مقرر کی جائے۔
اِسلام اِنسان کو نہ صرف برائی سے روکتا ہے بلکہ اس کی معاونت کی ممانعت کا حکم بھی دیتا ہے۔ جس طرح برائی ایک جرم ہے، اُسی طرح ہر سطح پر اس کی معاونت بھی جرم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ایک مسلمہ اَمر ہے کہ صرف دہشت گرد ہی اصل مجرم نہیں بلکہ ان کے حق میں بیان دینے والے اور ان سے مالی و سماجی تعاون کرنے والے بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ربِ کائنات نے نیکی اور خیر کے کام میں معاونت اور شر کے کام میں مخالفت کا حکم دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا ہے:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ.
اور نیکی اور پرہیزگاری ( کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔
المائدة، 5: 2
اس امر کی وضاحت حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان سے یوں ہوتی ہے:
مَنْ رَآی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ؛ وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الإِيْمَانِ.
تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ (یعنی عملی جد و جہد) سے روکنے کی کوشش کرے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو اپنی زبان سے (تنقید و مذمت کے ذریعے) روکے اور اگر اپنی زبان سے بھی روکنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو(کم از کم اس برائی کو) اپنے دل سے برا جانے۔ یہ اِیمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان کون النهي عن المنکر من الإيمان، 1: 69، رقم: 49
اس حدیث مبارکہ سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ برائی سے نفرت کا اِظہار ہر سطح پر ضروری ہے۔ جس قدر قوت یعنی جتنا اِیمان مضبوط ہو، دل اور زبان سے برائی سے نفرت کا اظہار کریں اور اسے روکنے کی عملاً کوشش کریں۔ اسی طرح مفہومِ مخالف کے اُصول کے تحت یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ برائی کو فروغ بھی اِنہی تین طریقوں سے ملتا ہے:
جیسے تینوں طریقوں سے برائی کو روکنا اِیمان ہے اسی طرح عملاً برائی کرنا، برائی کرنے والوں سے ہمدردی کرنا، زبان سے ان کے برے عمل کی حمایت کرنا اور ان کے فکر و نظریہ کا دفاع یا فروغ بھی جرم ہے۔
دہشت گردوں اور قاتلوں کو معاشرے میں سے اَفرادی، مالی اور اَخلاقی قوت کے حصول سے محروم کرنے اور انہیں الگ تھلگ (isolate) کرنے کے لیے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی ہر قسم کی مدد و اِعانت سے کلیتاً منع فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ اَعَانَ عَلٰی قَتْلِ مُوْمِنٍ بِشَطْرِ کَلِمَةٍ، لَقِيَ اﷲَ مَکْتُوْبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ: آيِسٌ مِنْ رَحْمَةِ اﷲِ
جس شخص نے چند کلمات کے ذریعہ بھی کسی مومن کے قتل میں کسی کی مدد کی تو وہ اﷲ u سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان پیشانی پر لکھا ہوگا: اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس شخص۔
ابن ماجه، السنن، کتاب الديات، باب التغليظ في قتل مسلم ظلمًا، 2: 874، رقم: 2620
اس حدیث کے مضمون میں یہ صراحت موجود ہے کہ نہ صرف ایسے ظالموں کی ہر طرح کی معاونت منع ہے بلکہ بِشَطْرِ کَلِمَةٍ (چند کلمات) کے الفاظ یہ بھی واضح کر رہے ہیں کہ تقریر یا تحریر کے ذریعے ایسے اَمن دشمن عناصر کی مدد یا حوصلہ افزائی کرنا بھی مذموم عمل ہے اور اﷲ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش سے محرومی کا سبب ہے۔ اس میں دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈ طبقات کے لیے سخت تنبیہ ہے جو کم فہم لوگوں کو آیات و احادیث کی غلط تاویلیں پیش کرکے انہیں ’جنت کی بشارت‘ دے کر نہتے اور بے گناہ افراد کے قتل پر آمادہ کرتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved