اِنسدادِ دہشت گردی کے لیے حکومتِ پاکستان کی طرف سے دیے گئے قومی ایکشن پلان (NAP) کی تمام شقیں نافذ العمل کی جائیں اور فوری طور پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اِجلاس میں اِنسدادِ دہشت گردی کی قومی پالیسی تشکیل دے کر اِبہام سے پاک قانون سازی کی جائے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ نیز دہشت گردی اور فتنہ خوارِج کے خاتمے تک آپریشن ’ضربِ عضب‘ کو جاری رکھا جائے۔
مملکتِ خداداد پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے جس کی وجہ سے پاکستانی عوام ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ دہشت گردانہ کارروائیاں اپنے عروج پر تھیں تو ان تلخ حالات میں ملک کے دانش ور اور سیاست دان اس بات پر اُلجھے ہوئے تھے کہ ریاستِ پاکستان سے بر سرِپیکار ان دہشت گردوں سے مذکرات کیے جائیں یا آپریشن کیا جائے۔ پھر پاکستان کے حساس ترین مقام کراچی ائیر پورٹ پر دہشت گردوں کے حملے اور برملا ذمہ داری قبول کرنے پر حکومت کو فوج کے دبائو پر ’ضربِ عضب‘ کے نام سے آپریشن کا آغاز کرنا پڑا۔ بعد ازاں پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں 100 سے زائد بچوں کی شہادت کے اَلم ناک قومی سانحے کے بعد جنوری 2015ء میں متفقہ طور پر نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی گئی جس کے چیدہ چیدہ مندرجات یہ ہیں:
حقیقت حال یہ ہے کہ ایک سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود نیشنل ایکشن پلان پر حکومت کی طرف سے خاطر خواہ عمل درآمد نہیں ہوا۔ پاک فوج بے پناہ قربانیوں کے ساتھ تنہا ضربِ عضب کو جاری رکھے ہوئے ہے جو کہ نیشنل ایکشن پلان کی منظوری سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا۔ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوجی عدالتیں بنانے کی منظوری تو دے دی لیکن دہشت گردی کے مقدمات ان عدالتوں کو منتقل نہیں کر رہی۔ پہلی شرط ہی یہ لگا دی کہ وہی مقدمات فوجی عدالتوں میں زیرِ سماعت آئیں گے جو وزارتِ داخلہ approve کرے گی۔ جن مقدمات کو وزارتِ داخلہ فوجی عدالتوں کی طرف بھیجے گی نہیں، ان مقدمات کی سماعت ہی وہاں نہیں ہوسکے گی۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت نے نناوے فیصد دہشت گردوں کو اِسی ایک شق کے ذریعے تحفظ دے دیا ہے۔ بالفاظِ دیگر حکومت نے اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں رکھ کر فوجی عدالتوں کو کام کرنے سے عملاً روک دیا ہے۔ حالانکہ یہ وہی وزارتِ داخلہ ہے جو پاکستان میں قومی ایکشن پلان سے پہلے گزشتہ کئی دہائیوں سے کام کر رہی ہے اور اسی کے سامنے دہشت گرد پھلے پھولے اور وطن عزیز میں دہشت گردی پروان چڑھی ہے۔
حکومت کی جانب سے دوسری قدغن یہ لگائی گئی کہ صرف مذہبی و فرقہ وارانہ دہشت گردی کے مقدمات فوجی عدالتوں میں جائیں گے۔ گویا جس کا عنوان مذہبی یا فرقہ وارانہ دہشت گردی نہیں ہوگا وہ سرے سے دہشت گردی ہی نہیں۔ یعنی ننانوے فیصد دہشت گردوں کو پہلی قدغن کے ذریعے تحفظ دیا اور بقیہ ایک فیصد کو اِس ایک شق کے ذریعے محفوظ کردیا گیا ہے۔
اِس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے دراصل فوج کے نیک عزائم کے خلاف حکومت اور دہشت گردوں کا ری ایکشن پلان ہے کہ فوج کو آہنی زنجیروں سے جکڑ کر ہاتھ باندھ دیے جائیں۔ حکومت محض ان عدالتوں کے دو سال پورے ہونے کا انتظار کر رہی ہے اور عدالتیں بھی مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی بجائے دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور فنانسرز کی ضمانتیں لے رہی ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved