اِسلام محبت اور عدمِ تشدد کا دین ہے۔ یہ تمام اَقوام اور معاشروں کو اَمن اور بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے اور تمام بنی نوع اِنسان کے لیے باہمی اُخوت و محبت، تعظیم و تکریم اور باہمی عدل و اِنصاف کی تلقین کرتا ہے۔
اِسلام خود بھی اَمن و سلامتی کا دین ہے اور دوسروں کو بھی اَمن و عافیت کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اِسلام کے دینِ اَمن و سلامتی ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے بھیجے ہوئے دین کے لیے نام ہی ’اِسلام‘ پسند کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اﷲِ الْاِسْلَامُ.
بے شک دین اﷲ کے نزدیک اِسلام ہی ہے۔
آل عمران، 3: 19
ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اﷲ! کون سا اِسلام اَفضل ہے؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِّسَانِهِ وَيَدِهِ.
(اُس شخص کا اِسلام سب سے بہتر ہے) جس کی زبان اور ہاتھ سے تمام لوگ محفوظ رہیں۔
احمد بن حنبل، المسند، 2: 187، رقم: 6753
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومن کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اَلْمُؤمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلٰی دِمَائِهِمْ وَامْوَالِهِمْ.
مومن وہ ہے کہ جس کے پاس لوگ اپنے خون (یعنی جان) اور مال کو محفوظ سمجھیں۔
نسائي، السنن، کتاب الإيمان وشرائعه، باب صفة المؤمن، 8:104، رقم: 4995
حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ، وَقِتَالُهُ کُفْرٌ.
کسی مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔
بخاری، الصحيح، کتاب الإيمان، باب خوف المومن من ان يحبط عمله وهو لا يشعر، 1: 27، رقم:48
مذکورہ حدیث کی رُو سے کسی مسلمان کو محض برا بھلا کہنے کو فسق یعنی بڑا گناہ قرار دیا ہے اور اسے ناحق قتل کرنے کو کفر قرار دیا گیا ہے۔ عزت وتکریم کا یہ معیار صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ غیر مسلموں کے لیے بھی ہے۔ اِسلام نے عزت اور جان و مال میں تمام اِنسانیت کو یکساں تکریم عطا کی ہے۔
حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيْحَهَا تُوْجَدُ مِنْ مَسِيْرَةِ اَرْبَعِيْنَ عَامًا.
جس نے کسی معاہد(غیر مسلم شہری) کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے۔
بخاری، الصحيح، کتاب الجزية، باب إثم من قتل معاهدا بغير جرم، 3: 1155، رقم: 2995
حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
مَرَّتْ بِنَا جَنَازَةٌ فَقَامَ لَهَا النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم وَقُمْنَا لَهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّهَا جِنَازَةُ يَهُوْدِيٍّ؟ قَالَ: إِذَا رَاَيْتُمُ الْجِنَازَةَ فَقُوْمُوْا.
ہمارے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ ہم عرض گزار ہوئے: یا رسول اﷲ! یہ توکسی یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو۔
بخاري، الصحيح،کتاب الجنائز، باب من قام لجنازة يهودي، 1: 441، رقم: 1249
ایک اور روایت میں ہے کہ عرض کیا گیا: یا رسول اﷲ!یہ جس میت کے لیے آپ نے قیام فرمایا ہے، یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے۔ آقا علیہ السلام نے جواب دیا:
اَلَيْسَتْ نَفْسًا؟
کیا یہ اِنسان نہیں؟
بخاري، الصحيح،کتاب الجنائز، باب من قام لجنازة يهودي، 1: 441، رقم: 1250
اِس موقع پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قیام کا مقصد تکریم اِنسانیت تھا۔ چونکہ شریعتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تکریمِ اِنسانیت پہلے ہے جبکہ تکریمِ مذہب بعد میں ہے ۔ اِسی لیے تو آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِستفسار فرمایا کیا یہ اِنسان نہیں تھا؟ گویا آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اِنسانی جان کی تکریم کی ہے قطع نظر اس کے کہ اس کا مذہب کیا تھا۔ لہٰذا ہم اَہلِ پاکستان اور اَہلِ اِسلام کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم زندہ اِنسانوں کی تکریم کا معاشرہ بھی قائم نہیں کرسکے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved