﴿يَٰٓأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَوٰةِ مِن يَوۡمِ الۡجُمُعَةِ فَاسۡعَوۡاْ إِلَىٰ ذِكۡرِ اللهِ وَذَرُواْ الۡبَيۡعَۚ ذَٰلِكُمۡ خَيۡرٞ لَّكُمۡ إِن كُنتُمۡ تَعۡلَمُونَ. فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَوٰةُ فَانتَشِرُواْ فِي الۡأَرۡضِ وَابۡتَغُواْ مِن فَضۡلِ اللهِ وَاذۡكُرُواْ اللهَ كَثِيرٗا لَّعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ.﴾
[الجمعة، 62: 9-10]
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لیے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رِزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
226. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ ذَكَرَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَقَالَ: فِيْهِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي، يَسْأَلُ اللهَ تَعَالَى شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ. وَأَشَارَ بِيَدِهِ يُقَلِّلُهَا.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الجمعة، باب الساعة التي في يوم الجمعة، 1: 316، الرقم: 893، ومسلم في الصحيح، كتاب الجمعة، باب في الساعة التي في يوم الجمعة، 2: 583، الرقم: 852، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 485، الرقم: 10307، والترمذي في السنن، أبواب الوتر، باب ما جاء في الساعة التي ترجى في يوم الجمعة، 2: 362، الرقم: 491.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے روز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس میں ایک ساعت ایسی ہے کہ جسے اگر کوئی بندۂ مسلم نماز پڑھتے ہوئے پا لے تو اُس ساعت میں وہ نماز پڑھ کر الله تعالیٰ سے جس چیز کا بھی سوال کرے گا الله تعالیٰ اُسے عطا فرمائے گا۔ (یہ حدیث بیان کرتے ہوئے) راوی ہاتھ سے اُس ساعت کے دورانیہ کی کمی کا اشارہ کرتے تھے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
227. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: اَلْيَوْمُ الْمَوْعُودُ يَوْمُ الْقِيَامَةِ وَالْيَوْمُ الْمَشْهُودُ يَوْمُ عَرَفَةَ وَالشَّاهِدُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ. وَمَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَلَا غَرَبَتْ عَلَى يَوْمٍ أَفْضَلَ مِنْهُ. فِيهِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ يَدْعُو اللهَ بِخَيْرٍ إِلَّا اسْتَجَابَ اللهُ لَهُ، وَلَا يَسْتَعِيذُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا أَعَاذَهُ اللهُ مِنْهُ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه الترمذي في السنن، كتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة البروج، 5: 436، الرقم: 3339، والطبراني في المعجم الأوسط، 2: 18، الرقم: 1087، والبيهقي في السنن الكبرى، 3: 170، الرقم: 5353.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: ’یوم موعود‘ قیامت کا دن ہے، ’یوم مشہود‘ عرفہ کا دن ہے اور ’شاہد‘ جمعہ کا دن ہے۔ سورج جمعہ سے اچھے دن پر طلوع اور غروب نہیں ہوا۔ اس میں ایک ایسی گھڑی ہے جس میں مومن آدمی الله تعالیٰ سے جس خیر کی بھی دعا کرتا ہے الله تعالیٰ اس کی دعا قبول فرماتا ہے اور وہ جس چیز سے بھی پناہ مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اسے پناہ دیتا ہے۔
اِسے امام ترمذی، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
228. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه يَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ. فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيْهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ وَفِيْهِ أُخْرِجَ مِنْهَا.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الجمعة، باب فضل يوم الجمعة، 2: 585، الرقم: 854، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 512، الرقم: 10653، والترمذي في السنن، أبواب الوتر، باب ما جاء في فضل يوم الجمعة، 2: 359، الرقم: 388، والنسائي في السنن، كتاب الجمعة، باب ذكر فضل يوم الجمعة، 3: 89، الرقم: 1373.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: سب سے بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے، (کیوں کہ) اسی دن حضرت آدم علیه السلام پیدا کیے گئے اور اسی دن حضرت آدم علیه السلام جنت میں داخل کیے گئے اور اسی دن وہ جنت سے (زمین پر) اُتارے گئے۔
اِسے امام مسلم، احمد، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
229. عَنْ أَبِي لُبَابَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُنْذِرِ رضی الله عنه، قَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: سَيِّدُ الْأَيَّامِ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَأَعْظَمُهَا عِنْدَهُ، وَهُوَ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ مِنْ َيوْمِ الْفِطْرِ وَيَوْمِ الْأَضْحَى. وَفِيْهِ خَمْسُ خِلَالٍ: خَلَقَ اللهُ فِيْهِ آدَمَ علیه السلام، وَأَهْبَطَ اللهُ فِيْهِ آدَمَ علیه السلام إِلَى الْأَرْضِ، وَفِيْهِ تَوَفَّى اللهُ آدَمَ علیه السلام، وَفِيْهِ سَاعَةٌ لَا يَسْأَلُ الْعَبْدُ فِيْهَا شَيْئًا إِلاَّ آتَاهُ اللهُ تَعَالَى، وَإِيَّاهُ مَا لَمْ يَسْأَلْ حَرَامًا، وَفِيْهِ تَقُوْمُ السَّاعَةُ. مَا مِنْ مَلَكٍ مُقَرَّبٍ وَلَا سَمَاءٍ وَلَا أَرْضٍ وَلَا رِيَاحٍ وَلَا جِبَالٍ وَلَا بَحْرٍ إِلاَّ وَهُنَّ يُشْفِقْنَ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3: 430، الرقم: 15587، وابن ماجه في السنن، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب في فضل الجمعة، 1: 344، الرقم: 1084، وابن أبي شيبة في المصنف، 1: 477، الرقم: 5516، والطبراني في المعجم الكبير، 5: 33، الرقم: 4511.
حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذر رضی الله عنه کا بیان ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جمعہ کا دن تمام دِنوں کا سردار اور الله تعالیٰ کے ہاں سب دِنوں سے زیادہ عظمت والا ہے۔ یہ الله تعالیٰ کے ہاں عید الفطر اور عید قربان کے دن سے بھی عظیم ہے۔ اس دن کی پانچ خصوصیات ہیں: (1) اسی دن الله تعالیٰ نے آدم علیه السلام کو پیدا کیا؛ (2) اسی دن آدم علیه السلام کو زمین پر اُتارا؛ اور (3) اسی دن آدم علیه السلام کو وفات دی؛ (4) اس میں ایک ایسی گھڑی بھی آتی ہے جس میں بندہ الله تعالیٰ سے کوئی بھی شے مانگے تو الله تعالیٰ اسے ضرور عطا فرماتا ہے، بشرطیکہ وہ حرام کا سوال نہ کرے؛ اور (5) اسی روز قیامت بپا ہوگی۔ (یہی وجہ ہے کہ) ہر مقرب فرشتہ، آسمان، زمین، ہوا، پہاڑ اور سمندر سب جمعہ کے دن (وقوعِ قیامت) سے ڈرتے ہیں۔
اِسے امام احمد بن حنبل نے اور ابن ماجہ نے سند حسن سے روایت کیا ہے۔
230. وَفِي رِوَايَةِ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ إِلَى الطُّورِ، فَلَقِيْتُ كَعْبَ الأَحْبَارِ، فَجَلَسْتُ مَعَهُ فَحَدَّثَنِي عَنِ التَّوْرَاةِ، وَحَدَّثْتُهُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَكَانَ فِيْمَا حَدَّثْتُهُ، أَنْ قُلْتُ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيْهِ أُهْبِطَ، وَفِيْهِ مَاتَ، وَفِيْهِ تِيْبَ عَلَيْهِ، وَفِيْهِ تَقُوْمُ السَّاعَةُ. وَمَا مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا وَهِيَ مُصِيْخَةٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، مِنْ حِيْنِ تُصْبِحُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ شَفَقًا مِنَ السَّاعَةِ، إِلَّا الْجِنَّ وَالإِنْسَ، وَفِيْهِ سَاعَةٌ لَا يُصَادِفُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ يُصَلِّي يَسْأَلُ اللهَ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ.
أخرجه مالك في الموطأ، كتاب الجمعة، باب ما جاء في الساعة التي في يوم الجمعة، 1: 108-109، الرقم: 241، وابن حبان في الصحيح، 7: 7، الرقم: 2772، والشافعي في المسند، ص: 72، والحاكم في المستدرك، 1: 413، الرقم: 1030، وابن عبد البر في التمهيد، 23: 36.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے مروی ہے کہ وہ کوہِ طور کی طرف گئے، وہاں کعب الاحبار سے ملاقات کی اور اُن کے پاس بیٹھے۔ وہ اُنہیں تورات کے بارے میں بتانے لگے اور حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه اُنہیں رسول الله ﷺ کی احادیث سنانے لگے۔ اُنہوں نے جو احادیث بیان کیں اُن میں سے ایک یہ تھی: سب سے بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے، (کیوں کہ) اسی دن حضرت آدم علیه السلام پیدا کیے گئے، اسی دن وہ جنت سے (زمین پر) اُتارے گئے، اسی دن اُن کا وصال ہوا، اسی دن اُن کی توبہ قبول ہوئی اور اسی دن قیامت قائم ہو گی۔ ہر جانور جمعہ کے دن سورج طلوع ہونے تک قیامت کے خوف سے کان لگا کر سنتا رہتا ہے (کہ کہیں صور نہ پھونک دیا جائے )، سوائے جن و انس کے (کہ وہ غافل رہتے ہیں)۔ اس دن میں ایک ایسی گھڑی بھی ہے جس میں کوئی بھی مسلمان شخص الله تعالیٰ سے جس چیز کا بھی سوال کرتا ہے الله تعالیٰ اُسے عطا فرما دیتا ہے۔
قَالَ كَعْبٌ: ذَلِكَ فِي كُلِّ سَنَةٍ يَوْمٌ؟ فَقُلْتُ: بَلْ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ. قَالَ: فَقَرَأَ كَعْبٌ التَّوْرَاةَ. فَقَالَ: صَدَقَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ.
رَوَاهُ مَالِكٌ وَابْنُ حِبَّانَ وَالشَّافِعِيُّ وَالْحَاكِمُ. وَقَالَ الْحَاكِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
کعب الاحبار نے سوال کیا: کیا یہ دن ہر سال میں ایک مرتبہ آتا ہے؟ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں: میں نے کہا: نہیں بلکہ ہر ہفتے میں ایک بار آتا ہے۔ پھر کعب الاحبار نے تورات کا مطالعہ کیا اور کہا: الله کے رسول ﷺ نے سچ فرمایا ہے۔
اِسے امام مالک، ابن حبان، شافعی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
231. وَفِي رِوَايَةِ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَلَامٍ رضی الله عنه، قَالَ: إِنَّ أَعْظَمَ أَيَّامِ الدُّنْيَا يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيْهِ تَقُوْمُ السَّاعَةُ، وَإِنَّ أَكْرَمَ خَلِيْقَةِ اللهِ عَلَى اللهِ أَبُو الْقَاسِمِ ﷺ . قَالَ: قُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللهُ، فَأَيْنَ الْمَلَائِكَةُ؟ قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيَّ وَضَحِكَ وَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، هَلْ تَدْرِي مَا الْمَلَائِكَةُ؟ إِنَّمَا الْمَلَائِكَةُ خَلْقٌ كَخَلْقِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَالرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ وَسَائِرِ الْخَلْقِ الَّذِي لَا يَعْصِي اللهَ شَيْئًا.
رَوَاهُ الْحَاكِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه الحاكم في المستدرك، 4: 612، الرقم: 8698، والبيهقي في شعب الإيمان، 1: 172، الرقم: 149.
حضرت عبد الله بن سلام رضی الله عنه بیان کرتے ہیں: ایامِ دنیا میں سے افضل ترین دن جمعہ کا ہے، اسی دن حضرت آدم علیه السلام کو تخلیق کیا گیا اور اِسی روز قیامت قائم ہوگی۔ الله تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے معزز ابو القاسم (حضرت محمد) ﷺ ہیں۔ (راوی بِشر) بیان کرتے ہیں: میں نے (حضرت عبد الله بن سلام رضی الله عنه کی خدمت میں) عرض کیا: الله تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، فرشتوں کا مقام کیا ہے؟ (راوی بِشر) بیان کرتے ہیں: اُنہوں نے میری طرف دیکھا اور مسکرائے۔ پھر فرمایا: اے بھتیجے! کیا تم جانتے ہو کہ فرشتے کون ہیں؟ فرشتے صرف زمین، آسمان، ہوا، بادل اور دیگر تمام مخلوقات کی طرح (الله تعالیٰ کی) ایک مخلوق ہیں جو کسی معاملے میں الله تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے۔
اِسے امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
232. عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيْهِ قُبِضَ، وَفِيْهِ النَّفْخَةُ، وَفِيْهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيْهِ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ، قَالَ: قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، كَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ؟ قَالَ: يَقُوْلُوْنَ: بَلِيْتَ. قَالَ: إِنَّ اللهَ تعالیٰ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4: 8، الرقم: 16207، وأبو داود في السنن، كتاب الصلاة، باب فضل يوم الجمعة وليلة الجمعة، 1: 275، الرقم: 1047، وأيضًا في كتاب الصلاة، باب في الاستغفار، 2: 88، الرقم: 1531، والنسائي في السنن، كتاب الجمعة، باب إكثار الصلاة على النبي ﷺ يوم الجمعة، 3: 91، الرقم: 1374، وأيضًا في السنن الكبرى،1: 519، الرقم: 1666، وابن ماجه في السنن، كتاب إقامة الصلاة، باب في فضل الجمعة، 1: 345، الرقم: 1085، والدارمي في السنن، 1: 445، الرقم: 1572، والبزار في المسند، 8: 411، الرقم: 3485، والحاكم في المستدرك،1: 413، الرقم: 1029، وابن خزيمة في الصحيح، 3: 118، الرقم: 1733-1734، وابن حبان في الصحيح، 3: 190-191، الرقم: 910، وابن أبي شيبة في المصنف، 2: 253، الرقم: 8697، والطبراني في المعجم الأوسط، 5: 97، الرقم: 4780، وأيضًا في المعجم الكبير،1: 216، الرقم: 589، والبيهقي في السنن الصغرى،1: 371، الرقم: 634-635، وأيضًا في السنن الكبرى، 3: 248، الرقم: 5789، وأيضًا في شعب الإيمان، 3: 109-110، الرقم: 3029.
حضرت اَوس بن اَوس رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: بے شک تمہارے لیے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے افضل ہے اِس دن آدم علیه السلام پیدا ہوئے اور اسی دن انہوں نے وفات پائی۔ اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن (قیام قیامت کے لیے) سخت آواز ظاہر ہو گی۔ پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان الله علیهم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا؟ حالانکہ آپ کا جسدِ مبارک خاک سے مل چکا ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (نہیں ایسا نہیں ہے)، اللہ تعالیٰ نے زمین پر اَنبیاءِ کرام (علیهم السلام) کے جسموں کو (کھانا یا کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا) حرام فرما دیا ہے۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالدَّارِمِيُّ وَالْبَزَّارُ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْحَاكِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَى شَرْطِ الْبُخَارِيِّ. وَقَالَ الْوَادِيَاشِيُّ: صَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْعَسْقَلَانِيُّ: وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ. وَقَالَ الْعَجْلُوْنِيُّ: رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ. وَقَالَ ابْنُ كَثِيْرٍ: وَقَدْ صَحَّحَ هَذَا الْحَدِيْثَ ابْنُ خُزَيْمَةَ، وَابْنُ حِبَّانَ، وَالدَّارَقُطْنِيُّ، وَالنَّوَوِيُّ فِي الْأَذْكَارِ.
اِسے امام اَحمد، ابو داود نے مذکورہ الفاظ میں، نسائی، ابن ماجہ، دارمی، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث امام بخاری کی شرائط پر صحیح ہے۔ امام وادیاشی نے بھی فرمایا: اِسے امام ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور حافظ عسقلانی نے فرمایا: اِسے امام ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ عجلونی نے فرمایا: اِسے امام بیہقی نے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے فرمایا: اِسے امام ابن خزیمہ، ابن حبان، دار قطنی اور نووی نے الأذکار میں صحیح قرار دیا ہے۔
233. وَفِي رِوَايَةِ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ يَوْمٌ مَشْهُوْدٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا. قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، فَنَبِيُّ اللهِ حَيٌّ يُرْزَقُ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ: رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ. وَقَالَ الْمُنَاوِيُّ: قَالَ الدَّمِيْرِيُّ: رِجَالُهُ ثِقَاتٌ. وَقَالَ الْعَجْلُوْنِيُّ: حَسَنٌ.
أخرجه ابن ماجه في السنن، كتاب الجنائز، باب ذكر وفاته ودفنه ﷺ، 1: 524، الرقم: 1637، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 328، الرقم: 2582، وابن كثير في تفسير القرآن العظيم، 3: 515، 4: 493، والمناوي في فيض القدير، 2: 87، والعجلوني في كشف الخفاء،1: 190، الرقم: 501.
ایک روایت میں حضرت ابو درداء رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، یہ یوم مشہود (یعنی میری بارگاہ میں فرشتوں کی خصوصی حاضری کا دن) ہے۔ اِس دن فرشتے (خصوصی طور پر کثرت سے میری بارگاہ میں) حاضر ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے تو اُس کے فارغ ہونے سے قبل اُس کا درود میرے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔ حضرت ابو درداء رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: (یا رسول الله!) آپ کے وصال کے بعد (کیا ہو گا)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں (میری ظاہری) وفات کے بعد بھی (میرے سامنے اسی طرح پیش کیا جائے گا کیوں کہ) اللہ تعالیٰ نے زمین کے لیے انبیائے کرام علیهم السلام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔ لہٰذا الله تعالیٰ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اُسے قبر میں رزق بھی عطا کیا جاتا ہے۔
اِسے امام ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام منذری نے لکھا ہے: اِسے امام ابن ماجہ نے جید اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے اور امام مُناوی نے بیان کیا کہ امام دمیری نے فرمایا: اِس کے سب رجال ثقات ہیں۔ امام عجلونی نے بھی اسے حدیثِ حسن کہا ہے۔
قَالَ الْمُلَّا عَلِيٌّ الْقَارِي فِي ‹‹الْمِرْقَاةِ›› فِي قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: (وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ) يَحْتَمِلُ الإِطْلَاقَ وَالتَّقْيِيْدَ، (إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ) أَمَّا بِالْمُكَاشَفَةِ أَوْ بِوَاسِطَةِ الْمَلَائِكَةِ؛ (صَلَاتُهُ) أَي وَإِنْ طَالَتِ الْمُدَّةُ مِنِ ابْتِدَاءِ شُرُوْعِهِ؛ (حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا) أَي مِنَ الصَّلَاةِ يَعْنِي الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ. (قَالَ) أَي أَبُو الدَّرْدَاءِ: ظَنًّا أَنَّ هَذَا مُخْتَصٌّ بِحَالِ الْحَيَاةِ الظَّاهِرَةِ (قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟) أَي أَيْضًا وَالْاِسْتِفْهَامُ مُقَدَّرٌ وَيَبْعُدُ الْحَمْلُ عَلَى الْاِسْتِبْعَادِ لِمُخَالَفَتِهِ حُسْنَ الْاِعْتِقَادِ أَوْ بَعْدَ الْمَوْتِ مَا الْحُكْمُ فِيْهِ (قَالَ: إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ) أَي مَنَعَهَا مَنْعًا كُلِّيًّا (أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ) أَي جَمِيْعَ أَجْزَائِهِمْ، فَلَا فَرْقَ لَهُمْ فِي الْحَالَيْنِ، وَلِذَا قِيْلَ: أَوْلِيَاءُ اللهِ لَا يَمُوْتُوْنَ، وَلَكِنْ يَنْتَقِلُوْنَ مِنْ دَارٍ إِلَى دَارٍ، وَفِيْهِ إِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ الْعَرْضَ عَلَى مَجْمُوْعِ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ مِنْهُمْ بِخِلَافِ غَيْرِهِمْ، وَمَنْ فِي مَعْنَاهُمْ مِنَ الشُّهَدَاءِ وَالْأَوْلِيَاءِ، فَإِنَّ عَرْضَ الْأُمُوْرِ وَمَعْرِفَةَ الْأَشْيَاءِ، إِنَّمَا هُوَ بِأَرْوَاحِهِمْ مَعَ أَجْسَادِهِمْ (فَنَبِيُّ اللهِ) يَحْتَمِلُ الْجِنْسَ وَالْاِخْتِصَاصَ الْأَكْمَلَ، وَالظَّاهِرُ هُوَ الْأَوَّلُ لِأَنَّهُ رَآى مُوْسَى قَائِمًا يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ، وَكَذَلِكَ إِبْرَاهِيْمَ كَمَا فِي حَدِيْثِ مُسْلِمٍ، وَصَحَّ خَبَرُ (اَلْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّوْنَ)
قَالَ الْبَيْهَقِيُّ: وَحُلُوْلُهُمْ فِي أَوْقَاتٍ مُخْتَلِفَةٍ فِي أَمَاكِنَ مُتَعَدَّدَةٍ جَائِزٌ عَقْلاً كَمَا وَرَدَ بِهِ خَبَرُ الصَّادِقِ (حَيٌّ) أَي دَائِماً (يُرْزَقُ) رِزْقاً مَعْنَوِيًّا فَإِنَ اللهَ تَعَالَى قَالَ فِي حَقِّ الشُّهَدَاءِ مِنْ أُمَّتِهِ﴿بَلۡ أَحۡيَآءٌ عِندَ رَبِّهِمۡ يُرۡزَقُونَ﴾ [آل عمران، 3: 169]. فَكَيْفَ سَيِّدُهُمْ بَلْ رَئِيْسُهُمْ لِأَنَّهُ حَصَلَ لَهُ أَيْضًا مَرْتَبَةُ الشَّهَادَةِ مَعَ مَزِيْدِ السَّعَادَةِ بِأَكْلِ الشَّاةِ الْمَسْمُوْمَةِ، وَعَوْدِ سُمِّهَا الْمَغْمُوْمَةِ، وَإِنَّمَا عَصَمَهُ اللهُ تَعَالَى مِنَ الشَّهَادَةِ الْحَقِيْقِيَّةِ لِلْبَشَاعَةِ الصُّوْرِيَّةِ، وَلِإِظْهَارِ الْقُدْرَةِ الْكَامِلَةِ بِحِفْظِ فَرْدٍ مِنْ بَيْنِ أَعْدَائِهِ مِنْ شَرِّ الْبَرِّيَّةِ، وَلَا يُنَافِيْهِ أَنْ يَكُوْنَ هُنَاكَ رِزْقٌ حِسِّيٌّ أَيْضًا، وَهُوَ الظَّاهِرُ الْمُتَبَادِرُ.
الملا علي القاري في مرقاة المفاتيح، 3: 414-415، الرقم: 1366.
ملا علی القاری نے ’مرقاۃ المفاتیح‘ میں کہا ہے: حدیث مبارکہ کے ان الفاظ (جب بھی کوئی مجھ پر درود بھیجتا ہے) میں اِطلاق اور تقیید کااحتمال پایا جاتا ہے۔ اگلے الفاظ - مجھ پر پیش کیا جاتا ہے - سے مراد ہے کہ (اس کا درود بھیجنا) کشف کے ذریعے معلوم ہوجاتا ہے یا فرشتوں کے ذریعے (میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے) یعنی اگرچہ اس کے درود شروع کرنے کی مدت بہت طویل ہو (یہاں تک کہ وہ اس) درود بھیجنے (سے فارغ ہو جائے)، یعنی اس کے تمام درود مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں۔ یعنی حضرت ابو درداء رضی الله عنه بیان کرتے ہیں: یہ گمان کرتے ہوئے کہ شاید (یہ حکم) آپ ﷺ کی حیاتِ ظاہرہ کے ساتھ خاص ہے۔ (میں نے عرض کیا: اور موت کے بعدبھی؟) یعنی کیا وصال کے بعد بھی درود آپ تک پہنچے گا؟ یہاں استفہام مقدر ہے۔ حضرت ابو درداء رضی الله عنه کے اس سوال کو بعد اَز وصال درود بھیجنے کو ان کے ہاں بعید اَز اِمکان سمجھنے پر محمول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایسا سمجھنا (حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ) حسنِ اعتقاد کے خلاف ہے؛ یا (وہ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ) موت کے بعد اس بارے میں کیا حکم ہے؟ ’آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے‘۔ یعنی اسے مکمل طور پر منع کر دیا ہے (کہ وہ انبیاء کرام کے جسموں کو کھائے)؛ یعنی ان کے تمام اَجزاء کو۔ لہٰذا ان کے لیے دونوں حالتوں (زندگی اور موت) میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے: اللہ تعالیٰ کے اولیاء (دوست) مرتے نہیں ہیں، بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہو جاتے ہیں۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ دوسرے لوگوں کے برعکس ابنیاء کرام کے نفوسِ قدسیہ پر کسی چیز کا پیش کیا جانا ان کی روح اور جسم کے مجموعہ پر ہوتا ہے۔ اس حکم میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ان کے معنٰی میں ہیں (یعنی الله کے دوست ہیں)، جیسے شہداء اور اولیاء۔ تو ان پر معاملات کا پیش ہونا اور ان کا اشیاء کی معرفت حاصل کرنا ان کی اَرواح اور اَجساد کے مجموعہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ ’پس اللہ تعالیٰ کے نبی مکرم ﷺ ‘ کے ان الفاظ سے تمام انبیاء کرام علیهم السلام اور خاص صاحبِ کمال نبی دونوں کے مراد لیے جانے کا احتمال ہے۔ لیکن واضح معنٰی پہلا ہی ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے حضرت موسی علیه السلام کو اپنی قبر میں صلاۃ پڑھتے دیکھا اور اسی طرح ابراہیم علیه السلام کو بھی، جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے: ’انبیاء کرام علیهم السلام اپنی قبور میں زندہ ہوتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں‘۔ صحیح حدیث ہے۔
امام بیہقی نے فرمایا ہے: (بعد اَز وصال) مختلف اوقات میں مختلف جگہوں پر ان (نفوسِ قدسیہ) کا قیام کرنا عقلاً جائز ہے، جیسا کہ مخبر صادق ﷺ کی حدیث میں آیا ہے: ’الله کے نبی زندہ ہیں‘ یعنی ہمیشہ زندہ ہیں۔ ’انہیں رزق دیا جاتا ہے‘ سے معنوی رزق مراد ہے (کیونکہ مادی رزق کی اُنہیں ضرورت ہی نہیں رہتی)۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت کے شہداء کے حق میں فرمایا ہے:’بلکہ وہ اپنے ربّ کے حضور زندہ ہیں انہیں (جنت کی نعمتوں کا) رزق دیا جاتا ہے‘۔ تو ان کے سردار اور آقا و مولا ﷺ (کی شان) کا عالم کیا ہوگا! اور اس لیے بھی کہ آپ ﷺ کو مزید سعادت کے ساتھ شہادت کا رتبہ بھی حاصل ہوا جو بھیڑ کا زہریلا گوشت کھانے اور اس کے زہر کے اثر کے بار بار لوٹنے سے ملا تھا۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے جسم اقدس کو (بوجہ شہادتِ ظاہری) قبیح المنظر ہونے سے بچا لیا اور بدترین مخلوق میں دشمنوں کے نرغے میں سے ایک فرد کو محفوظ رکھ کر (الله تعالیٰ نے) اپنی قدرتِ کاملہ کا اِظہار فرمایا۔ یہ اَمر (حیاتِ برزخی کے) منافی نہیں کہ وہاں (رزقِ معنوی کے ساتھ ساتھ) حسی رزق بھی دیا جاتا ہو۔ یہ بات واضح اور سریع الفہم ہے۔
234. وَفِي رِوَايَةِ أَبِي مَسْعُوْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: أَكْثِرُوْا عَلَيَّ الصَّلَاةَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ يُصَلِّي عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ.
رَوَاهُ الْحَاكِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْحَاكِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.
أخرجه الحاكم في المستدرك، كتاب التفسير، باب تفسير سورة الأحزاب، 2: 457، الرقم: 3577، والبيهقي في شعب الإيمان، 3: 110، الرقم، 3030، وذكره الشوكاني في نيل الأوطار، 3: 305.
حضرت ابو مسعود الانصاری رضی الله عنه، حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جمعہ کے دن مجھ پر درود کی کثرت کیا کرو۔ بے شک جو شخض بھی جمعہ کے دن مجھ پر درود بھیجتا ہے اُس کا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔
اِسے امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
235. وَفِي رِوَايَةِ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَكْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِي كُلِّ يَوْمِ جُمُعَةٍ. فَإِنَّ صَلَاةَ أُمَّتِي تُعْرَضُ عَلَيَّ فِي كُلِّ يَوْمِ جُمُعَةٍ. فَمَنْ كَانَ أَكْثَرَهُمْ عَلَيَّ صَلَاةً كَانَ أَقْرَبَهُمْ مِنِّي مَنْزِلَةً.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَلَا بَأْسَ بِسَنَدِهِ كَمَا قَالَ الْعَسْقَلَانِيُّ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ وَالْعَجْلُوْنِيُّ: رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ.
أخرجه البيهقي في السنن الكبرى، كتاب الجمعة، باب ما يؤمر به ليلة الجمعة ويومها، 3: 249، الرقم: 5791، وأيضًا في شعب الإيمان، 3: 110، الرقم: 3032، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 328، الرقم: 2583، والعسقلاني في فتح الباري، 11: 167، والعجلونى في كشف الخفاء، 1: 190.
ایک روایت میں حضرت ابو امامہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: ہر جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجاکرو۔ بے شک میری اُمت کا درود ہر جمعہ کے روز مجھے پیش کیا جاتا ہے۔ میری اُمت میں سے جو شخص مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہوگا وہ مقام و مرتبہ کے اعتبار سے بھی میرے سب سے زیادہ قریب ہوگا۔
اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام عسقلانی نے فرمایا: اِس کی سند میں کوئی نقص نہیں ہے۔ امام منذری اور عجلونی نے فرمایا: اِسے امام بیہقی نے سندِ حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔
236. وَفِي رِوَايَةِ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةَ الْجُمُعَةِ؛ فَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى الله عَلَيْهِ عَشْرًا.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالْقُطَيْعِيُّ، وَقَالَ: صَحِيْحٌ. وَقَالَ النَّوَوِيُّ: إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
أخرجه البيهقي في السنن الكبرى، 3: 249، الرقم: 5790، وأيضًا في شعب الإيمان، 3: 110، الرقم: 3030، وأيضًا في فضائل الأوقات، ص: 500، الرقم: 277، والقطيعي في جزء الألف دينار، ص: 217، الرقم: 142، وذكره النووي في خلاصة الأحكام، 2: 814، الرقم: 2874، والهندي في كنز العمال، 1: 250، الرقم: 2179.
حضرت انس بن مالک رضی الله عنه سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: ہر جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات مجھ پر کثرت سے درود بھیجاکرو۔ جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا، الله تعالیٰ اُس پر دس مرتبہ درود (بصورتِ رحمت) بھیجے گا۔
اِسے امام بیہقی اور قطیعی نے روایت کیا ہے، امام قطیعی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے، جبکہ امام نووی نے کہا ہے کہ اس حدیث کی اسناد حسن ہیں۔
237. وَفِي رِوَايَةِ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَكْثِرُوا عَلَيَّ الصَّلَاةَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ، وَلَيْلَةِ الْجُمُعَةِ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ كُنْتُ لَهُ شَهِيْدًا وَشَافِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3: 110-111، الرقم: 3033، وذكره السيوطي في الخصائص الكبرى، 2: 456، والهندي في كنز العمال، 1: 247، الرقم: 2142.
حضرت انس بن مالک رضی الله عنه سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: ہر جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات مجھ پر کثرت سے درود بھیجاکرو۔ جس نے یہ عمل کیا میں روزِ قیامت اُس کا گواہ اور شفاعت کرنے والا ہوں گا۔
اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
238. وَفِي رِوَايَةِ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَكْثِرُوْا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ أَتَانِي جِبْرِيْلُ علیه السلام آنِفًا عَنْ رَبِّهِ تعالیٰ فَقَالَ: مَا عَلَى الْأَرْضِ مِنْ مُسْلِمٍ يُصَلِّي عَلَيْكَ مَرَّةً وَاحِدَةً إِلَّا صَلَّيْتُ أَنَا وَمَلَائِكَتِي عَلَيْهِ عَشَرًا.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ كَمَا قَالَ الْمُنْذَرِيُّ.
ذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 326، الرقم: 2568، وابن القيم في جلاء الأفهام، ص: 87، وابن حجر الهيتمي في الزواجر، 1: 224.
حضرت انس بن مالک رضی الله عنه سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جمعہ کے روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجاکرو۔ بے شک جبریل علیه السلام ابھی اپنے رب کے پاس سے تشریف لائے تھے اور اُنہوں نے کہا ہے (کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے): زمین پر کوئی بھی مسلمان جب آپ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو میں اور میرے فرشتے دس مرتبہ اس پر درود (بصورتِ رحمت) بھیجتے ہیں۔
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے، جیسا کہ امام منذری نے بیان کیا ہے۔
239. وَفِي رِوَايَةِ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ مَسْعُودٍ: لَا تَدَعْ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ أَلْفَ مَرَّةٍ، تَقُوْلُ: اَللَّهُمَّ، صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ فِي ‹‹الْحِلْيَةِ››، وَذَكَرَهُ السُّيُوطِيُّ فِي الدُّرِّ الْمَنْثُوْرِ.
أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 8: 237، وذكره السيوطي في الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 5: 412.
حضرت زید بن وہب رضی الله عنه فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه نے فرمایا: تم جمعہ کے روز حضور نبی اکرم ﷺ پر ایک ہزار مرتبہ درود بھیجنے کا عمل ترک مت کرنا۔ اور درود اس طرح بھیجنا: (اَللَّهُمَّ، صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ) ’اے میرے الله! حضرت محمد ﷺ پر درود بھیج‘۔
اسے امام ابو نعیم نے ’حلیۃ الاولیاء‘ میں روایت کیا ہے اور امام سیوطی نے ’الدر المنثور‘ میں بیان کیا ہے۔
240. وَفِي رِوَايَةِ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ يَوْمٌ مَشْهُوْدٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ، لَيْسَ مِنْ عَبْدٍ يُصَلِّي عَلَيَّ إِلَّا بَلَغَنِي صَوْتَهُ حَيْثُ كَانَ. قُلْنَا: وَبَعْدَ وَفَاتِكَ؟ قَالَ: وَبَعْدَ وَفَاتِي، إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ.
رَوَاهُ ابْنُ الْقَيَّمِ.
أخرجه ابن القيم في جلاء الأفهام، ص: 127.
ایک روایت میں حضرت ابو درداء رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، یہ یوم مشہود (یعنی میری بارگاہ میں فرشتوں کی خصوصی حاضری کا دن) ہے۔ اِس دن فرشتے (خصوصی طور پر کثرت سے میری بارگاہ میں) حاضر ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے تو وہ جہاں بھی ہو اُس کی آواز مجھے پہنچتی ہے۔ حضرت ابو درداء رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: (یا رسول الله!) آپ کے وصال کے بعد (کیا ہو گا)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں (میری ظاہری) وفات کے بعد بھی (مجھے درود اسی طرح پیش کیا جائے گا کیوں کہ) اللہ تعالیٰ نے زمین کے لیے انبیائے کرام علیهم السلام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔
اِسے ابن القیم نے روایت کیا ہے۔
241. وَفِي رِوَايَةِ يَزِيْدَ الرَّقَاشِيِّ قَالَ: إِنَّ مَلَكًا مُوَكَّلٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مَنْ صَلَّى عَلَى النَّبِيِّ ﷺ يَبْلُغُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُوْلُ: إِنَّ فُلَانًا مِنْ أُمَّتِكَ يُصَلِّي عَلَيْكَ.
رَوَاهُ ابْنُ الْقَيَّمِ، وَقَالَ: هَذَا مَوْقُوفٌ.
أخرجه ابن القيم في جلاء الأفهام، ص: 129.
حضرت یزید الرقاشی بیان کرتے ہیں کہ جمعہ کے روز ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، جو شخص بھی حضور نبی اکرم ﷺ پر درود پڑھتا ہے وہ اُس کا نام اور درود حضور نبی اکرم ﷺ تک پہنچاتا ہے اور یوں عرض کرتا ہے: (یا رسول الله!) آپ کی اُمت میں سے فلاں شخص نے آپ پر درود بھیجا ہے۔
اِسے ابن القیم نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے۔
عَنِ الْحَسَنِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: أَكْثِرُوْا عَلَيَّ الصَّلَاةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ.
رَوَاهُ ابْنُ الْقَيِّمِ مُرْسَلًا.
أخرجه ابن القيم في جلاء الأفهام، ص: 129.
حضرت حسن بصری، حضور نبی اکرم ﷺ سے مرسلا روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجو۔
اِسے ابن القیم نے مرسلاً روایت کیا ہے۔
عَنِ ابْنِ شُعَيْبٍ قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيْزِ أَنِ انْشِرُوْا الْعِلْمَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّ غَائِلَةَ الْعِلْمِ النِّسْيَانُ، وَاكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ يَوْمَ الْجُمُعَةِ.
رَوَاهُ ابْنُ الْقَيِّمِ.
أخرجه ابن القيم في جلاء الأفهام، ص: 405.
ابن شعیب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی الله عنه نے یہ فرمان جاری فرمایا تھا: جمعہ کے دن علم کی خوب نشر و اشاعت کرو، کیونکہ علم کا سب سے بڑا نقصان نسیان ہے، اور جمعہ کے دن حضور نبی اکرم ﷺ پر درود شریف کی کثرت کرو۔
اِسے ابن القیم نے بیان کیا ہے۔
242. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَغْتَسِلُ مِنْ أَرْبَعٍ: مِنَ الْجَنَابَةِ، وَيَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَمِنَ الْحِجَامَةِ، وَمِنْ غُسْلِ الْمَيِّتِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ خُزَيْمَةَ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6: 152، الرقم: 25231، وأبوداود في السنن، كتاب الطهارة، باب في الغسل يوم الجمعة، 1: 96، الرقم: 348، وأيضًا في كتاب الجنائز، باب في الغسل من غسل الميت، 3: 201، الرقم: 3160، وابن خزيمة في الصحيح، 1: 126، الرقم: 256، والحاكم في المستدرك، 1: 267، الرقم: 582، والبيهقي في السنن الكبرى، 1: 299، الرقم: 1328، والديلمي في مسند الفردوس، 5: 541، الرقم: 9029.
حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنها بیان کرتی ہیں: حضورنبی اکرم ﷺ چار مواقع پر (خصوصی طور پر) غسل فرمایا کرتے تھے: جنابت کے باعث، جمعہ کے روز، پچھنے لگوانے کے بعد اور میت کو غسل دینے کے بعد۔
اِسے امام احمد نے، ابو داود نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
243. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ كَانَ يُقَلِّمُ أَظْفَارَهُ، وَيَقُصُّ شَارِبَهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، قَبْلَ أَنْ يَرُوْحَ إِلَى الصَّلَاةِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1: 257، الرقم: 842، والبيهقي في شعب الإيمان، 3: 24، الرقم: 2763، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 2: 170، والبغوي في شرح السنة، 12: 113، الرقم: 3198.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نمازِ جمعہ کے لیے تشریف لے جانے سے قبل اپنے ناخن مبارک تراشتے تھے اور اپنی مونچھیں کٹواتے تھے۔
اِسے امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
244. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضی الله عنه قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ، قَالَ: اللَّهُمَّ، بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ، وَبَارِكْ لَنَا فِي رَمَضَانَ. وَكَانَ يَقُوْلُ: لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ غَرَّاءُ وَيَوْمُهَا أَزْهَرُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1: 259، الرقم: 2346، والطبراني في المعجم الأوسط، 4: 189، الرقم: 3939، وأيضًا، 9: 161، الرقم: 9422، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6: 269، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 40: 57.
حضرت انس بن مالک رضی الله عنه فرماتے ہیں کہ جب ماہِ رجب کا آغاز ہوتا تو حضور نبی اکرم ﷺ دعا کرتے: (اَللَّهُمَ، بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ، وَبَارِكْ لَنَا فِي رَمَضَانَ) ’اے الله! ہمیں رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمارے لیے رمضان میں بھی برکت عطا فرما‘۔ آپ فرمایا کرتے تھے: جمعہ کی رات روشن ہے اور اس کا دن زیادہ منور ہے۔
اِسے امام احمد، طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
245. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما قَالَ: خَمْسُ لَيَالٍ لَا يُرَدُّ فِيْهِنَّ الدُّعَاءُ: لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَلَيْلَتَا الْعِيْدِ.
رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 4: 317، الرقم: 7927، والبيهقي في شعب الإيمان، 3: 342، الرقم: 3713.
حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنهما سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: پانچ راتوں میں دعا رَد نہیں ہوتی: جمعہ کی رات، ماہِ رجب کی پہلی رات، شعبان کی پندرہویں رات اور عید کی دونوں راتیں۔
اس کو امام عبد الرزاق اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ بیہقی کے ہیں۔
قَالَ الإِمَامُ الشَّافِعِيُّ: وَبَلَغَنَا أَنَّهُ كَانَ يُقَالُ: إِنَّ الدُّعَاءَ يُسْتَجَابُ فِي خَمْسِ لَيَالٍ: فِي لَيْلَةِ الْجُمُعَةِ، وَلَيْلَةِ الأَضْحَى، وَلَيْلَةِ الْفِطْرِ، وَأَوَّلِ لَيْلَةِ مِنْ رَجَبٍ، وَلَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه البيهقي في السنن الكبرى، كتاب صلاة العيدين، باب عبادة ليلة العيدين، 3: 319، الرقم: 6087، وذكره ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف، ص: 264.
امام شافعی نے بیان کیا ہے کہ ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ (صحابہ اور تابعین کے ہاں یہ) کہا جاتا تھا: بے شک پانچ راتوں میں دعا قبول کی جاتی ہے: (1)جمعہ کی رات، (2)عید الاضحٰی کی رات، (3)عید الفطر کی رات، (4)ماہِ رجب کی پہلی رات اور (5)ماہِ شعبان کی پندرہویں رات۔
اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
246. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ أَعْمَالَ بَنِي آدَمَ تُعْرَضُ كُلَّ خَمِيْسٍ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَلَا يُقْبَلُ عَمَلُ قَاطِعِ رَحِمٍ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبُخَارِيُّ فِي ‹‹الأَدَبِ›› وَالْبَيْهَقِيُّ فِي ‹‹الشُّعَبِ››. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2: 483، الرقم: 10277، والبخاري في الأدب المفرد: 35، الرقم: 61، والبيهقي في شعب الإيمان، 6: 224، الرقم: 7965، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 3: 233، الرقم: 3824، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8: 151.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اولادِ آدم کے اعمال ہر جمعہ کی رات (بارگاہِ الٰہی میں) پیش کیے جاتے ہیں، لیکن قطع رحمی کرنے والے کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔
اِسے امام احمد بن حنبل، بخاری نے الأدب المفرد میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔ امام منذری اور ہیثمی نے کہا ہے: اِس کے رجال ثقہ ہیں۔
247. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی الله عنهما قَالَ: مَنْ كَانَتْ لَهُ إِلَى اللهِ تعالیٰ حَاجَةٌ فَلْيَصُمِ الأَرْبَعَاءَ وَالْخَمِيْسَ وَالْجُمُعَةَ، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ تَطَهَّرَ وَرَاحَ إِلَى الْجُمُعَةِ، فَتَصَدَّقَ قَلَّتْ أَوْ كَثُرَتْ. فَإِذَا صَلَّى الْجُمُعَةَ قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ، وَأَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ الَّذِي لَا تَأْخُذُه، سِنَةٌ وَلَا نَوْمُ، الَّذِي مَلَأَتْ عَظَمَتُهُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ، وَأَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الَّذِي عَنَتْ لَهُ الْوُجُوْهُ وَخَشَعَتْ لَهُ الأَبْصَارُ، وَذَلَّتْ لَهُ الْقُلُوْبُ مِنْ خَشْيَتِهِ، أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَأَنْ تُعْطِيَنِي حَاجَتِي وَهِيَ كَذَا وَكَذَا، فَإِنَّهُ يُسْتَجَابُ لَهُ إِنْ شَاءَ اللهُ.
رَوَاهُ عَبْدُ الْغَنِيُّ الْمَقْدَسِيُّ وَسَنَدُهُ ضَعِيْفٌ جِدًّا.
أخرجه عبد الغني المقدسي في الترغيب في الدعاء: 102، الرقم: 59، وابن القيم في جلاء الأفهام، ص: 126، وذكره السيوطي في اللمعة في خصائص الجمعة، ص: 119-120، الرقم: 216.
حضرت عبد الله بن عمرو بن العاص رضی الله عنهما بیان کرتے ہیں: جو شخص الله تعالیٰ کی بارگاہ سے کسی حاجت کے پورا ہونے کا طلب گار ہو اُسے چاہیے کہ بدھ، جمعرات اور جمعہ کا روزہ رکھے، پھر تھوڑا یا زیادہ صدقہ کرے۔ پھر جب وہ جمعہ کی نماز ادا کر چکے تو یوں عرض کرے: اے الله! میں تیرے نام سے سوال کرتا ہوں اور تیرے نام سے ابتدا کرتا ہوں، الله کے نام سے شروع جو نہایت مہربان، ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے (سارے عالم کو اپنی تدبیر سے) قائم رکھنے والا ہے، نہ اس کو اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند، جس کے عظمت سے زمین و آسمان مامور ہیں، پیشانیاں جس کے سامنے سجدہ ریز ہیں، نگاہیں جس کے حضور جھکی ہوئی ہیں، جس کی خشیت سے دل لرزاں ہیں: اے الله! تو حضرت محمد ﷺ پر اور آپ کی آل پر درود بھیج اور میری یہ حاجت پوری فرما۔ (حضرت عبد الله بن عمرو بن العاص رضی الله عنهما بیان کرتے ہیں:) ان شاء الله اُس کی وہ حاجت پوری ہو جائے گی۔
اِسے عبد الغنی المقدسی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند سخت ضعیف ہے۔
وَكَانَ يُقَالُ: لَا تُعَلِّمُوا هَذَا الدُّعَاءَ سُفَهَائَكُمْ لَا يَدْعُوْنَ بِهِ عَلَى مَأْثَمٍ أَوْ قَطِيْعَةِ رَحِمٍ.
علماء کرام اِس دعا کے بارے میں کہا کرتے تھے: یہ جاہل اور بیوقوف لوگوں کو نہ سکھائی جائے کہ وہ اسے گناہوں اور قطع رحمی کے لیے استعمال کریں گے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved