1. ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيۡكُمُ ٱلصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبۡلِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ. أَيَّاماً مَّعۡدُودَٰتٖ﴾
[البقرة، 2: 183-184]
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ (یہ) گنتی کے چند دن (ہیں)۔
2. ﴿شَهۡرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِيٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلۡقُرۡءَانُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَٰتٖ مِّنَ ٱلۡهُدَىٰ وَٱلۡفُرۡقَانِۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهۡرَ فَلۡيَصُمۡهُۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۗ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ ٱلۡيُسۡرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ ٱلۡعُسۡرَ وَلِتُكۡمِلُواْ ٱلۡعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمۡ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ.﴾
[البقرة، 2: 185]
رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لیے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔
82. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب بدء الخلق، باب صفة إبليس وجنوده، 3: 1194، الرقم: 3103، وأيضًا في كتاب الصوم، باب هل يقال رمضان أو شهر رمضان ومن رأى كله واسعا وقال النبي ﷺ: من صام رمضان وقال: لا تقدموا رمضان، 2: 672، الرقم: 1800، ومسلم في الصحيح، كتاب الصيام، باب فضل شهر رمضان، 2: 758، الرقم: 1079، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 281، الرقم: 7767، 7768، والنسائي في السنن، كتاب الصيام، باب ذكر الاختلاف على الزهري فيه، 4: 128، الرقم: 2101.
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب رمضان المبارک شروع ہوتا ہے توجنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
83. وَفِي رِوَايةٍ عَنْهُ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ قَالَ: إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، وَصُفِّدَتِ الشَّيَاطِيْنُ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ.
أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الصيام، باب فضل شهر رمضان، 2: 758، الرقم: 1079، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 357، الرقم: 8669، والنسائي في السنن، كتاب الصيام، باب فضل شهر رمضان، 4: 126، الرقم: 2097.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔
اِسے امام مسلم، احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
قَالَ عِيَاضٌ: يَحْتَمِلُ أَنَّهُ عَلَى ظَاهِرِهِ وَحَقِيْقَتِهِ وَأَنَّ ذَلِكَ كُلَّهُ عَلَامَةٌ لِلْمَلَائِكَةِ لِدُخُوْلِ الشَّهْرِ وَتَعْظِيْمِ حُرْمَتِهِ وَلِمَنْعِ الشَّيَاطِيْنِ مِنْ أَذَى الْمُؤْمِنِيْنَ، وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُوْنَ فَتْحُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ عِبَارَةً عَمَّا يَفْتَحُهُ اللہُ لِعِبَادِهِ مِنَ الطَّاعَاتِ، وَذَلِكَ أَسْبَابٌ لِدُخُوْلِ الْجَنَّةِ، وَغَلْقُ أَبْوَابِ النَّارِ عِبَارَةٌ عَنْ صَرْفِ الْهِمَمِ عَنِ الْمَعَاصِي الْآيِلَةِ بِأَصْحَابِهَا إِلَى النَّارِ وَتَصْفِيْدُ الشَّيَاطِيْنِ عِبَارَةٌ عَنْ تَعْجِيْزِهِمْ عَنِ الإِغْوَاءِ وَتَزْيِيْنِ الشَّهَوَاتِ.
ذكره العسقلاني في فتح الباري، 4: 114.
قاضی عیاض بیان کرتے ہیں: اِس بات کا احتمال ہے کہ یہ (جنت کے دروازوں کا کھلنا، جہنم کے دروازوں کا بند ہونا اور شیاطین کا باندھا جانا) اپنے ظاہر اور اپنی حقیقت پر ہو، یہ سب کچھ علامت ہے فرشتوں کے اس مہینے میں داخل ہونے، اس کے تقدس کی تعظیم بجا لانے اور شیطانوں کو مومنوں کو تکلیف دینے سے روکنے کی، یہ بھی احتمال ہے کہ جنت کے دروازوں کا کھولا جانا عبارت ہو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندوں کے لیے اطاعت کی توفیق مرحمت فرمانے سے، اور بے شک اطاعتوں کا بجا لانا دخولِ جنت کے اسباب میں سے ہے۔ جہنم کے دروازوں کا بند ہونا عبارت ہے بندوں کے ارادوں کو ایسے گناہوں سے پھیر دینے سے جو اپنے مرتکبین کو آگ میں دھکیلنے والے ہیں، شیطانوں کو باندھنا عبارت ہے ان کے بندوں کو گمراہ کرنے اور ان کے لیے شہوات کو آراستہ کرنے سے عاجز کر دینے سے۔
وَقَالَ التُّوْرَبِشْتِيُّ فِي شَرْحِ الْمَصَابِيْحِ: فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ عِبَارَةٌ عَنْ تَنَزُّلِ الرَّحْمَةِ وَإِزَالَةِ الْغَلْقِ عَنْ مَصَاعِدِ أَعْمَالِ الْعِبَادِ، تَارَةً بِبَذْلِ التَّوْفِيقِ وَأُخْرَى بِحُسْنِ الْقَبُولِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ كِنَايَةٌ عَنْ تَنَزُّهِ أَنْفُسِ الصُّوَّامِ عَنْ رِجْسِ الْفَوَاحِشِ وَالتَّخَلُّصِ مِنَ الْبَوَاعِثِ عَنِ الْمَعَاصِي بِقَمْعِ الشَّهَوَاتِ.
التوربشتي في الميسر في شرح مصابيح السنة، 2: 456.
علامہ توربشتی نے شرح المصابیح میں کہا ہے: (حدیث مبارک کی یہ عبارت) آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول اور بندوں کے اعمال کی بارگاہ ایزدی میں قبولیت میں حائل رکاوٹ کے ازالہ کا اشارہ ہے۔ یہ (ازالہ) کبھی توفیق اَرزاں ہونےکے ذریعے ہوتا ہے، اور کبھی حسنِ قبول کے ساتھ جہنم کے دروازوں کے بند ہونے سے، اس میں روزہ داروں کے نفوس کا فواحش کی پلیدی سے بچاؤ اور نفسانی خواہشات کے قلع قمع کے ذریعے نافرمانی کا سبب بننے والی چیزوں سے خلاصی کی طرف بھی اشارہ ہے۔
وَرَجَّحَ الْقُرْطُبِيُّ وَابْنُ الْمُنِيْرِ أَنَّ فَتْحَ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ وَغَلْقَ أَبْوَابِ جَهَنَّمَ وَتَصْفِيْدَ الشَّيَاطِيْنِ عَلَى ظَاهِرِهِ وَحَقِيْقَتِهِ، وَأَنَّهُ لَا ضَرُوْرَةَ تَدْعُوْ إِلَى تَأْوِيْلِهِ.
امام قرطبی اور ابن منیر نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ جنت کے دروازوں کا کھلنا، جہنم کے دروازوں کا بند ہونا اور شیاطین کا قید کیا جانا اپنے ظاہر اور حقیقت پر ہے، اور یہ کہ اس کی تاویل کی کوئی حاجت نہیں ہے۔
قَالَ ابْنُ الْمُنِيْرِ: وَأَمَّا الرِّوَايَةُ الَّتِي فِيْهَا أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ وَأَبْوَابُ السَّمَاءِ، فَمِنْ تَصَرُّفِ الرُّوَاةِ وَالْأَصْلُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ بِدَلِيلِ مَا يُقَابِلُهُ وَهُوَ غَلْقُ أَبْوَابِ النَّارِ.
ذكره العسقلاني في فتح الباري، 4: 114.
ابن منیر نے کہا ہے: وہ روایت جس میں رحمت کے دروازوں اور آسمان کے دروازوں کا ذکر ہے، وہ راویوں کا تصرف ہے، جبکہ اصل جنت کے دروازے ہیں اور اس کی دلیل جو ان دروازوں کا مقابل ہے وہ جہنم کے دروازوں کا بند ہونا ہے (تو جہنم کے دروازوں کے مقابلہ میں جنت کے دروازے ہونا چاہیے)۔
وَقَالَ الْقُرْطُبِيُّ: فَإِنْ قِيْلَ كَيْفَ نَرَى الشُّرُوْرَ وَالْمَعَاصِيَ وَاقِعَةً فِي رَمَضَانَ كَثِيرًا، فَلَوْ صُفِّدَتِ الشَّيَاطِيْنُ لَمْ يَقَعْ ذَلِكَ؟
امام قرطبی فرماتے ہیں: اگر یہ کہا جائے کہ ہم رمضان میں بھی کثرت کے ساتھ برائیاں اور گناہ واقع ہوتے دیکھتے ہیں تو اگر (واقعی) شیاطین کو باندھ دیا جاتا ہے تو ایسی کوئی شے(عمل) ہونا واقع نہیں ہونا چاہیے؟
فَالْجَوَابُ: إِنَّ الْمَعَاصِيَ إِنَّمَا تَقِلُّ عَنِ الصَّائِمِيْنَ، وَهُمُ الَّذِيْنَ حَافَظُوْا عَلَى شُرُوْطِهِ وَآدَابِهِ، أَوْ أَنَّ الْمُصَفَّدَ بَعْضُ الشَّيَاطِيْنِ وَهُمُ الْمَرَدَةُ كَمَا جَاءَ فِي رِوَايَةِ النَّسَائِيِّ: «وَتُغَلُّ فِيْهِ مَرَدَةُ الشَّيَاطِيْنِ». وَالْمَرَدَةُ هُمُ الْعُتَاةُ وَالْأَكْثَرُوْنَ فَسَادًا.
أَوْ أَنَّ الْمَقْصُوْدَ مِنْ تَصْفِيْدِ الشَّيَاطِيْنِ تَقْلِيْلُ الشُّرُوْرِ فِي رَمَضَانَ، وَهَذَا أَمْرٌ مُشَاهَدٌ، فَإِنَّ وُقُوْعَ الشُّرُوْرِ فِي رَمَضَانَ أَقَلُّ مِنْهَا فِي غَيْرِهِ، أَوْ أَنَّ تَصْفِيْدَ الشَّيَاطِيْنِ أَجْمَعِيْنَ، لَا يَمْنَعُ وَقُوْعَ الشُّرُوْرِ وَالْمَعَاصِي، لِأَنَّهَا تَقَعُ بِأَسْبَابٍ أُخْرَى كَالنُّفُوسِ الْخَبِيْثَةِ، وَالْعَادَاتِ الْقَبِيْحَةِ، وَالشَّيَاطِيْنِ الإِنْسِيَّةِ الَّتِي هِيَ أَقْوَى فِي بَعْضِ الْحَالَاتِ مِنَ الشَّيَاطِيْنِ الْجِنِّيَّةِ.
اِس کا جواب یہ ہے: بے شک معاصی روزہ داروں سے کم ہوجاتے ہیں، اس کا مداوا وہ روزہ دار ہیں جو روزہ کی شرائط اور اس کے آداب کی محافظت کرتے ہیں یا جو باندھے جاتے ہیں وہ بعض شیاطین ہیں۔ بعض سے مراد سرکش قسم کے شیاطین ہیں جیسا کہ امام نسائی کی روایت میں ہے: ’رمضان میں سرکش شیاطین کو باندھ دیا جاتا ہے‘۔ سرکش شیاطین سے مراد وہ شیاطین ہیں جو بہت زیادہ فساد انگیزی کرتے ہیں۔
یا شیاطین کو باندھنے سے مراد رمضان میں شرور میں کمی واقع ہو جانا ہے، یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ رمضان میں واقع ہونے والے شرور غیر رمضان میں واقع ہونے والے شرور سے بہت کم ہوتے ہیں، یا تمام شیاطین کو بھی باندھ دینا یہ شرور و معاصی کے واقع ہونے سے مانع نہیں ہے، کیونکہ یہ دوسرے کئی اسباب جیسے خبیث قسم کے نفوس، بری عادات اور انسانی شیاطین (جو بعض حالات میں جناتی شیاطین سے بھی زیادہ طاقتور ہوتے ہیں) سے بھی رو نما ہوتے ہیں۔
تَنْبِيْهٌ: قَالَ بَعْضُ الْعَارِفِيْنَ: تَصْفِيْدُ الشَّيَاطِيْنِ فِي رَمَضَانَ إِشَارَةٌ إِلَى رَفْعِ عُذْرِ الْمُكَلَّفِ كَأَنَّهُ يُقَالُ لَهُ: قَدْ كُفَّتِ الشَّيَاطِيْنُ عَنْكَ فَلَا تَعْتَلَّ بِهِمْ فِي تَرْكِ الطَّاعَةِ وَلَا فِعْلِ الْمَعْصِيَةِ.
ذكره العسقلاني في فتح الباري، 4: 114-115.
تنبیہ: کسی عارف نے کہا ہے: رمضان میں شیاطین کو باندھ دینا مکلف کے عذر کو دور کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ گویا اُسے کہا جاتا ہے: شیطانوں کو تجھ سے روک دیا گیا ہے، لہٰذا اب تم اطاعت ترک کرنے اور گناہ کرنے میں شیطانوں کو بہانا نہ بناؤ۔
قَالَ الإِمَامُ الْعَيْنِيُّ: فَإِنْ قُلْتَ: قَدْ تَقَعُ الشُّرُوْرُ وَالْمَعَاصِي فِي رَمَضَانَ كَثِيْرًا، فَلَوْ سُلْسِلَتْ لَمْ يَقَعْ شَيءٌ مِنْ ذَلِكَ. قُلْتُ: هَذَا فِي حَقِّ الصَّائِمِيْنَ الَّذِيْنَ حَافَظُوْا عَلَى شُرُوْطِ الصَّوْمِ وَرَاعُوْا آدَابَهُ. وَقِيْلَ: الْمُسَلْسَلُ بَعْضُ الشَّيَاطِيْنِ وَهُمُ الْمَرَدَةُ لَا كُلُّهُمْ كَمَا تَقَدَّمَ فِي بَعْضِ الرِّوَايَاتِ وَالْمَقْصُوْدُ تَقْلِيْلُ الشُّرُوْرِ فِيْهِ، وَهَذَا أَمْرٌ مَحْسُوْسٌ. فَإِنَّ وُقُوْعَ ذَلِكَ فِيْهِ أَقَلُّ مِنْ غَيْرِهِ. وَقِيْلَ لَا يَلْزَمُ مِنْ تَسَلْسُلِهِمْ وَتَصْفِيْدِهِمْ كُلِّهِمْ أَنْ لَا تَقَعَ شُرُوْرٌ وَلَا مَعْصِيَةٌ لِأَنَّ لِذَلِكَ أَسْبَابًا غَيْرَ الشَّيَاطِيْنِ كَالنُّفُوْسِ الْخَبِيْثَةِ وَالْعَادَاتِ الْقَبِيْحَةِ وَالشَّيَاطِيْنِ الْاِنْسِيَّةِ.
العيني في عمدة القاري، كتاب الصوم، باب هل يقال رمضان أو شهر رمضان ومن رأى كله واسعا، 10: 270.
امام بدر الدین العینی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: اگر تم یہ کہو کہ بعض اوقات رمضان میں بھی گناہ اور برائیاں کثرت سے واقع ہوتی ہیں، اگر شیطانوں کو حقیقتاً باندھ دیا جاتا تو اس طرح کے افعال سرزد نہ ہوتے۔ میں کہتا ہوں کہ (گناہ واقع نہ ہونے کا) یہ امر اُن روزے داروں کے لیے ہے جنہوں نے روزے کی شرائط کی حفاظت اور اس کے آداب کی پاسداری کی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کچھ شیاطین کو فی الحقیقت جکڑا جاتا ہے جو نہایت سرکش ہوتے ہیں نہ کہ سارے شیاطین کو جیسا کہ بعض روایات میں بیان ہو چکا ہے۔ اور اس سے مقصود رمضان المبارک میں گناہوں کی حتی الامکان کمی ہے۔ اس امر کو محسوس بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس ماہِ مقدس میں گناہوں کا وقوع باقی مہینوں کی نسبت کم ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام شیاطین کو جکڑنے اور باندھنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ گناہ اور برائیاں بالکل وقوع پذیر نہ ہوں کیونکہ شیاطین کے علاوہ بھی ایسے اسباب ہیں جو گناہوں کے سرزد ہونے کا باعث بنتے ہیں جیسے خبیث نفوس، بری عادات اور انسانی شیاطین۔
84. وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ قَالَ: إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ، صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ، وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ. وَيُنَادِيْ مُنَادٍ: يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ، أَقْبِلْ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ، أَقْصِرْ. وَلِلّٰهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ، وَذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالْحَاكِمُ.
أخرجه الترمذي في السنن، كتاب الصوم، باب ما جاء في فضل شهر رمضان، 3: 66، الرقم: 682، وابن ماجه في السنن، كتاب الصيام، باب ما جاء في فضل شهر رمضان، 1: 526، الرقم: 1642، والحاكم في المستدرك، 1: 582، الرقم: 1532، وابن حبان في الصحيح، 8: 221، الرقم: 3435، والبيهقي في السنن الكبرى، 4: 303، الرقم: 8284.
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطان اور سرکش جنات باندھ دیے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور (پورا ماہ) ان میں سے کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور (مہینہ بھر) ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، اور منادی کرنے والا (فرشتہ) آواز دیتا ہے: اے خیر کے متلاشی! آگے بڑھ، اور اے شر کے متلاشی! رک جا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ لوگ (جہنم کی) آگ سے آزاد کیے جاتے ہیں اور رمضان کی ہر رات ایسا ہی ہوتا ہے۔
اِسے امام ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے ۔
قَالَ الْمُلَّا عَلِيُّ الْقَارِي: وَلَعَلَّ طَاعَةَ الْمُطِيْعِيْنَ وَتَوْبَةَ الْمُذْنِبِيْنَ وَرُجُوْعَ الْمُقَصِّرِيْنَ فِي رَمَضَانَ مِنْ أَثَرِ النِّدَائَيْنِ، وَنَتِيْجَةِ إِقْبَالِ اللہِ تَعَالَى عَلَى الطَّالِبِيْنَ. وَلِهَذَا تَرَى أَكْثَرَ الْمُسْلِمِيْنَ صَائِمِيْنَ حَتَّى الصِّغَارَ الْجَوَارِيَ بَلْ غَالِبُهُمُ الَّذِيْنَ يَتْرُكُوْنَ الصَّلَاةَ يَكُوْنُوْنَ حِيْنَئِذٍ مُصَلِّيْنَ مَعَ أَنَّ الصَّوْمَ أَصْعَبُ مِنَ الصَّلَاةِ، وَهُوَ يُوْجِبُ ضَعْفَ الْبَدَنِ الَّذِي يَقْتَضِي الْكَسَلَ عَنِ الْعِبَادَةِ وَكَثْرَةَ النَّوْمِ عَادَةً، وَمَعَ ذَلِكَ تَرَى الْمَسَاجِدَ مَعْمُوْرَةً وَبِإِحْيَاءِ اللَّيَالِي مَغْمُوْرَةً. وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ.
الملا علي القاري في مرقاة المفاتيح، 4: 392.
ملا علی القاری کہتے ہیں: شاید رمضان میں اِطاعت گذاروں کی اِطاعت، گنہگاروں کی توبہ، لغزشوں کے شکار لوگوں کا رجوع اِلی اللہ، اُن دونوں نداؤں کا اثر اور مانگنے والوں پر اللہ رب العزت کی خصوصی توجہات کا نتیجہ ہے۔ اسی وجہ سے اس ماہ مبارک میں تم اکثر مسلمانوں حتیٰ کہ چھوٹے بچوں اور بچیوں کو بھی روزے رکھتے دیکھتے ہو، بلکہ جو لوگ (سال بھر) نماز نہیں پڑھتے تھے اس ماہ میں نماز پڑھتے نظر آتے ہیں حالانکہ روزہ تو نماز سے بھی زیادہ مشکل عبادت ہے، کیونکہ اس سے جسمانی کمزوری واقع ہوتی ہے، جس کا نتیجہ عادۃً تو عبادت میں سُستی اور نیند کی کثرت نکلنا چاہیے، مگر رمضان المبارک میں مساجد راتوں کو مکمل بھری اور شب بیداریوں سے لبریز نظر آتی ہیں۔ ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور نیکی کرنے کی قوت نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ۔
85. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما، قَالَ: لَمَّا رَجَعَ النَّبِيُّ ﷺ مِنْ حَجَّتِهِ قَالَ لِأُمِّ سِنَانٍ الْأَنْصَارِيَّةِ رضی الله عنها: مَا مَنَعَكِ مِنَ الْحَجِّ؟ قَالَتْ: أَبُوْ فُلَانٍ تَعْنِي زَوْجَهَا كَانَ لَهُ نَاضِحَانِ. حَجَّ عَلَى أَحَدِهِمَا وَالْآخَرُ يَسْقِي أَرْضًا لَنَا. قَالَ: فَإِنَّ عُمْرَةً فِي رَمَضَانَ تَقْضِي حَجَّةً أَوْ حَجَّةً مَعِي.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الحج، باب حج النساء، 2: 659، الرقم: 1764، ومسلم في الصحيح، كتاب الحج، باب فضل العمرة في رمضان، 2: 917، الرقم: 1256، وأبو داود نحوه في السنن، كتاب المناسك، باب العمرة، 2: 205، الرقم: 1990.
حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی الله عنهما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب حج کر کے واپس لوٹے تو حضرت اُم سنان انصاریہ رضی الله عنها سے فرمایا: تم نے حج کیوں نہیں کیا؟ اُنہوں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) ابو فلاں یعنی میرے خاوند کے پاس پانی ڈھونے والے دو ہی اونٹ ہیں۔ ایک پر وہ حج کرنے گئے اور دوسرا ہماری زمین کو پانی دیتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر، یا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
86. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ إِنَّ لِلّٰهِ عُتَقَاءَ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ عَبِيْدًا وَإِمَاءً يُعْتِقُهُمْ مِنَ النَّارِ، وَإِنَّ لِكُلِّ مُسْلِمٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ دُعَاءً مُسْتَجَابًا، يَدْعُوْ فَيَسْتَجِيْبُ لَهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ مُخْتَصَرًا وَابْنُ شَاهِيْنَ وَاللَّفْظُ لَهُ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2: 254، الرقم: 7443 (عن أبي هريرة رضی الله عنه )، وابن شاهين في الترغيب في فضائل الأعمال وثواب ذلك، 1: 183، الرقم: 146.
حضرت جابر رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ ہر دن اور رات اپنے کئی بندوں اور بندیوں کو جہنم سے آزاد فر ماتا ہے۔ بے شک (رمضان المبارک میں ) ہر روز ہر مسلمان کے لیے ایک دعائے مقبول ہوتی ہے اور بندہ جب وہ دعا مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے۔
اِسے امام احمد نے اختصار کے ساتھ اور ابن شاہین نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
87. وَفِي رِوَايَةِ سَلْمَانَ رضی الله عنه قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي آخِرِ يَومٍ مِنْ شَعْبَانَ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيْمٌ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، شَهْرٌ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ. جَعَلَ اللہُ صِيَامَهُ فَرِيْضَةً، وَقِيَامَ لَيْلِهِ تَطَوُّعًا. مَنْ تَقَرَّبَ فِيْهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ، كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِيْضَةً فِيْمَا سِوَاهُ. وَمَنْ أَدَّى فِيْهِ فَرِيْضَةً، كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِيْنَ فَرِيْضَةً فِيْمَا سِوَاهُ. وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ، وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ، وَشَهْرٌ يَزْدَادُ فِيْهِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ. مَنْ فَطَّرَ فِيْهِ صَائِمًا كَانَ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ، وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ. قَالُوْا: لَيْسَ كُلُّنَا نَجِدُ مَا يُفَطِّرُ الصَّائِمَ. فَقَالَ: يُعْطِي اللہُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةِ مَاءٍ أَوْ مَذْقَةِ لَبَنٍ. وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ، وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ، وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ. مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ، غَفَرَ اللہُ لَهُ وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ.
حضرت سلمان فارسی رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شعبان کے آخری دن ہمیں خطاب فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظیم الشان اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہوگیا ہے۔ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض قرار دیا ہے اور راتوں کے قیام کو نفل۔ جو شخص اس میں قرب الٰہی کی نیت سے کوئی بھی نیکی کرتا ہے اسے دیگر مہینوں میں ایک فرض ادا کرنے کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ جو شخص اس میں ایک فرض ادا کرتا ہے گویا اس نے باقی مہینوں میں ستر فرائض ادا کیے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہی ہے۔ یہ غم خواری کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کی افطاری کراتا ہے اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اسے دوزخ سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔ نیز اسے اس (روزہ دار) کے برابر ثواب ملتا ہے۔ جب کہ اس کے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک روزہ افطار کرانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ ثواب اللہ تعالیٰ ایک کھجور کھلانے یا پانی پلانے یا دودھ کا ایک گھونٹ پلا کر افطاری کرانے والے کو بھی دے دیتا ہے۔ اس مہینے کا ابتدائی (عشرہ) رحمت ہے، درمیانہ (عشرہ) مغفرت ہے اور آخری حصہ (عشرہ) دوزخ سے آزادی ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے ملازم پر تخفیف کرتا ہے(یعنی اس پر کام کا بوجھ کم ڈالتا ہے) اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے اور اسے دوزخ سے آزاد کر دیتا ہے۔
وَاسْتَكْثِرُوْا فِيْهِ مِنْ أَرْبَعِ خِصَالٍ: خَصْلَتَيْنِ تُرْضُوْنَ بِهِمَا رَبَّكُمْ، وَخَصْلَتَيْنِ لَا غِنَى بِكُمْ عَنْهُمَا. فَأَمَّا الْخَصْلَتَانِ اللَّتَانِ تُرْضُوْنَ بِهِمَا رَبَّكُمْ: فَشَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ وَتَسْتَغْفِرُوْنَهُ. وَأَمَّا اللَّتَانِ لَا غِنَى بِكُمْ عَنْهُمَا: فَتَسْأَلُونَ اللہَ الْجَنَّةَ وَتَعُوْذُوْنَ بِهِ مِنَ النَّارِ. وَمَنْ أَشْبَعَ فِيْهِ صَائِمًا، سَقَاهُ اللہُ مِنْ حَوْضِيْ شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ.
رَوَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَالْحَارِثُ وَالْبَيْهَقَيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
أخرجه ابن خزيمة في الصحيح، 3: 191، الرقم: 1887، والبيهقي في شعب الإيمان، 3: 305، الرقم: 3609، والحارث في المسند، 1: 412، الرقم: 312، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 58، الرقم: 1483.
اس میں چار کام زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کرو۔ دو کاموں کے ذریعے تم اپنے رب کو راضی کروگے اور دو کاموں کے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ کار نہیں۔ جن دو کاموں کے ذریعے تم اپنے رب کو راضی کروگے ان میں سے ایک لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا ہے اور دوسرا اس سے بخشش طلب کرنا ہے۔ جن دو کاموں کے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ نہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور دوسرا یہ ہے کہ دوزخ سے پناہ مانگو۔ جو شخص روزہ دار کو پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے میرے حوض سے پانی پلائے گا۔ پھر اسے جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔
اِسے امام ابن خزیمہ، حارث اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے ۔
88. وَفِي رِوَايَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ يَقُوْلُ: ذَاكِرُ اللہِ فِي رَمَضَانَ مَغْفُوْرٌ لَهُ وَسَائِلُ اللہِ فِيْهِ لَا يَخِيْبُ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7: 226، الرقم: 7341، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 64، الرقم: 1501، والمناوي في التيسير بشرح الجامع الصغير، 2: 17.
حضرت عمر بن الخطاب رضی الله عنه سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: رمضان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے کی بخشش کر دی جاتی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے والا محروم نہیں ہوتا۔
اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
89. وَفِي رِوَايَةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ رضی الله عنهما يَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: أُعْطِيَتْ أُمَّتِي فِي شَهْرِ رَمَضَانَ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ نَبِيٌّ قَبْلِي، أَمَّا وَاحِدَةٌ: فَإِنَّهُ إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ نَظَرَ اللہُ إِلَيْهِمْ، وَمَنْ نَظَرَ اللہُ إِلَيْهِ لَمْ يُعَذِّبْهُ أَبَدًا. وَأَمَّا الثَّانِيَةُ: فَإِنَّ خُلُوفَ أَفْوَاهِهِمْ حِيْنَ يُمْسُوْنَ أَطْيَبُ عِنْدَ اللہِ مِنْ رِيْحِ الْمِسْكِ. وَأَمَّا الثَّالِثَةُ: فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَسْتَغْفِرُ لَهُمْ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ. وَأَمَّا الرَّابِعَةُ: فَإِنَّ اللہَ يَأْمُرُ جَنَّتَهُ، فَيَقُوْلُ لَهَا: اسْتَعِدِّي وَتَزَيَّنِي لِعِبَادِي. أَوْشَكُوْا أَنْ يَسْتَرِيْحُوْا مِنْ تَعَبِ الدُّنْيَا إِلَى دَارِي وَكَرَامَتِي. وَأَمَّا الْخَامِسَةُ: فَإِنَّهُ إِذَا كَانَ آخِرُ لَيْلَةٍ غَفَرَ لَهُمْ جَمِيْعًا. فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ فَقَالَ: لَا أَلَمْ تَرَ إِلَى الْعُمَّالِ يَعْمَلُونَ؟ فَإِذَا فَرَغُوْا مِنْ أَعْمَالِهِمْ وُفُّوْا أُجُوْرَهُمْ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَأَبُو الْحَسَنِ الطُّوْسِيُّ.
أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3: 303، الرقم: 3603، وفي فضائل الأوقات، ص: 145، الرقم: 36، وأبو الحسن الطوسي في الأربعين، ص: 77، الرقم: 37، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 56، الرقم: 1477.
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی الله عنهما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کو ماہِ رمضان میں پانچ تحفے عطا ہوئے ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئے۔ پہلا یہ کہ جب ماہِ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظرِ رحمت فرماتا ہے اور جس پر اللہ کی نظر پڑ جائے اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔ دوسرا یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔ تیسرا یہ کہ فرشتے ہر دن اور رات ان کے لیے بخشش طلب کرتے رہتے ہیں۔ چوتھا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی جنت کو حکم دیتا ہے: میرے بندوں کے لیے تیاری کر اور مزین(آراستہ) ہو جا۔ عنقریب وہ دنیا کی تھکاوٹ سے (نجات حاصل کرکے) میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام کریں گے۔ پانچواں یہ کہ جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے تو اللہ ان سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ ایک صحابی نے عرض کیا: کیا یہ (بخشش کا اعلان) شبِ قدر کو ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ کیا تم نے محنت مزدوری کرنے والے مزدوروں کی طرف نہیں دیکھا کہ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو جاتے ہیں تب (ہی)انہیں مزدوری دی جاتی ہے؟ (اسی طرح مسلمانوں کو رمضان سے فراغت کے بعد بخشش کی شکل میں انعام سے نوازا جاتا ہے۔)
اِسے امام بیہقی اور ابو الحسن الطوسی نے روایت کیا ہے۔
90. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ. وَرَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ رَمَضَانُ فَانْسَلَخَ قَبْلَ أَنْ يُغْفَرَ لَهُ. وَرَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ أَدْرَكَ عِنْدَهُ أَبَوَاهُ الْكِبَرَ فَلَمْ يُدْخِلَاهُ الْجَنَّةَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالْحَاكِمُ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ النَّوَوِيُّ: حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
أخرجه أحمد في المسند، 2: 254، الرقم: 7444، والترمذي في السنن، كتاب الدعوات، باب قول رسول اللہ ﷺ: «رغم أنف رجل»، 5: 550، الرقم: 3545، والحاكم في المستدرك، 1: 734، الرقم: 2016، وابن حبان في الصحيح، 3: 189، الرقم: 908، والنووي في رياض الصالحين، 1: 316، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2: 331، الرقم: 2596.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جس کے سامنے میرا تذکرہ ہوا اور اُس نے مجھ پر درود نہ بھیجا۔ اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جس کو رمضان کا مہینہ میسر آیا مگر اس کی مغفرت سے قبل وہ مہینہ گزر گیا۔ اس آدمی کی بھی ناک خاک آلود ہو جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا لیکن وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرا سکے (کیونکہ اس نے ان کے ساتھ حسنِ سلوک نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ جہنم میں داخل ہوا)۔
اِسے امام احمد، ترمذی، حاکم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے، اور امام نووی نے بھی فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
91. وَفِي رِوَايَةٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ: آمِيْنَ. آمِيْنَ. آمِيْنَ. فَقِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللہِ، إِنَّكَ حِيْنَ صَعِدْتَ الْمِنْبَرَ، قُلْتَ: آمِيْنَ. آمِيْنَ. آمِيْنَ. قَالَ: إِنَّ جِبْرِيْلَ أَتَانِي، فَقَالَ: مَنْ أَدْرَكَ شَهْرَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ، فَدَخَلَ النَّارَ، فَأَبْعَدَهُ اللہُ. قُلْ: آمِيْنَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. وَمَنْ أَدْرَكَ أَبَوَيْهِ أَوْ أَحَدَهُمَا فَلَمْ يَبَرَّهُمَا، فَمَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ، فَأَبْعَدَهُ اللہُ. قُلْ: آمِيْنَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. وَمَنْ ذُكِرْتَ عِنْدَهُ، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْكَ، فَمَاتَ فَدَخَلَ النَّارَ، فَأَبْعَدَهُ اللہُ. قُلْ: آمِيْنَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ.
رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى وَالْبَزَّارُ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ خُزَيْمَةَ.
أخرجه أبو يعلى في المسند، 10: 328، الرقم: 5922، والبزار في المسند عن عبد اللہ بن الحارث بن جزء الزبيدي رضی الله عنه، 9: 247، الرقم: 3790، وابن حبان في الصحيح، 3: 188، الرقم: 907، وابن خزيمة في الصحيح، 3: 192، الرقم: 1888، والبخاري في الأدب المفرد، 1: 225، الرقم: 646، والطبراني في المعجم الأوسط، 8: 113، الرقم: 1831، والبيهقي في السنن الكبرى، 4: 304، الرقم: 8287.
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے تو تین بار آمین، آمین، آمین کہا۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! آپ منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو آپ ﷺ نے(خلافِ معمول) آمین، آمین، آمین کہا (اس کی کیا وجہ ہے؟)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جبرائیل (علیه السلام) میرے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے: جس شخص نے ماہِ رمضان پایا (اس نے اہتمام و احتساب کے ساتھ روزے نہ رکھے، نتیجتاً) اس کی مغفرت نہ ہوسکی اور وہ آگ میں گیا۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دور کر دے۔ (اے حبیبِ خدا!) آپ آمین کہیے۔ اس پر میں نے آمین کہا۔ جس شخص نے ماں باپ دونوں کو پایا یا ان میں سے کسی ایک کو پایا اور (کما حقہ ان کی خدمت و اطاعت نہ کرکے) ان کے ساتھ نیکی نہ کی اور (اسی عالم میں) مر گیا اور وہ آگ میں گیا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کر دے۔ (اے حبیبِ خدا!) آپ آمین کہیے۔ تو میں نے آمین کہا۔ اور وہ شخص جس کے پاس (رُو بہ رُو) آپ ﷺ کا ذکر کیا گیا اور اس نے آپ ﷺ پر درود نہ پڑھا اور اسی حالت میں مر گیا اور وہ بھی آگ میں گیا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کر دے۔ (اے حبیبِ خدا!) آپ آمین کہیے، تو میں نے آمین کہا۔
اِسے امام ابو یعلیٰ، بزار، ابنِ حبان اور ابنِ خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
92. عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ رضی الله عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ قَالَ: أُنْزِلَتْ صُحُفُ إِبْرَاهِيْمَ علیه السلام فِي أَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ، وَأُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ لِسِتٍّ مَضَيْنَ مِنْ رَمَضَانَ، وَالإِنْجِيْلُ لِثَلَاثَ عَشْرَةَ خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ، وَأُنْزِلَ الْفُرْقَانُ لِأَرْبَعٍ وَعِشْرِيْنَ خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَفِيْهِ عِمْرَانُ بْنُ دَاوُدَ الْقَطَّانُ ضَعَّفَهُ يَحْيَى وَوَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ أَحْمَدُ: أَرْجُو أَنْ يَكُوْنَ صَالِحَ الْحَدِيْثِ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4: 107، الرقم: 17025، والطبراني في المعجم الكبير، 22: 75، الرقم: 185، والبيهقي في شعب الإيمان، 2: 414، الرقم: 2248، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 6: 202، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 1: 197.
حضرت واثلہ بن الاسقع رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (رمضان المبارک کی عظمت بیان کرتے ہوئے) فرمایا: حضرت ابراہیم علیه السلام پر صحائف رمضان کی پہلی رات میں نازل ہوئے، تورات چھ (6) رمضان میں اتاری گئی، انجیل تیرہ (13) رمضان کو نازل ہوئی اور قرآن مجید چوبیس (24) رمضان کو نازل ہوا۔
اسے امام احمد بن حنبل، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا ہے کہ اس میں ایک راوی عمران بن داؤد القطان کو یحییٰ نے ضعیف اور ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ مجھے اس کے صالح الحدیث ہونے کی امید ہے اور اس کے بقیہ رجال ثقہ ہیں۔
93. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ أَيُّ الصَّوْمِ أَفْضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ؟ فَقَالَ: شَعْبَانُ لِتَعْظِيْمِ رَمَضَانَ. قِيْلَ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: صَدَقَةٌ فِي رَمَضَانَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه الترمذي في السنن، كتاب الزكاة، باب ما جاء في فضل الصدقة، 3: 51، الرقم: 663، والبيهقي في السنن الكبرى، 4: 305، الرقم: 8300، وأيضًا في شعب الإيمان، 3: 377، الرقم: 3819، وأيضًا في فضائل الأوقات، ص: 114، الرقم: 20.
حضرت انس رضی الله عنه سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا: (یا رسول اللہ!) رمضان شریف کے بعد کس مہینے میں روزے افضل ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تعظیم رمضان کے لیے شعبان کے روزے رکھنا۔ پوچھا گیا: (یا رسول اللہ!) کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: رمضان المبارک میں صدقہ دینا۔
اسے امام ترمذی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
94. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: أَتَاكُمْ رَمَضَانُ شَهْرٌ مُبَارَكٌ، فَرَضَ اللہُ تعالیٰ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَحِيمِ، وَتُغَلُّ فِيهِ مَرَدَةُ الشَّيَاطِينِ. لِلّٰهِ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالدَّيْلَمِيُّ وَذَكَرَهُ الْمُنْذِرِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ.
أخرجه النسائي في السنن، كتاب الصيام، باب ذكر الاختلاف على معمر فيه، 4: 129، الرقم: 2106، وأيضًا في السنن الكبرى، 2: 66، الرقم: 2416، وابن أبي شيبة في المصنف، 2: 270، الرقم: 8867، والديلمي في مسند الفردوس، 2: 113، الرقم: 2594، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 60، الرقم: 1492، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3: 140.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس برکت والا ماہِ رمضان آیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کیے ہیں۔ اس ماہِ مبارک میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ (کی عبادت اور اس کی رضا کے حصول کے لیے) اس ماہ میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو اس کی خیر و برکت سے محروم کر دیا گیا وہ حقیقتاً محروم کر دیا گیا۔
اِسے امام نسائی اور ابن ابی شیبہ، اور دیلمی نے روایت کیا ہے اور منذری اور ہیثمی نے بیان کیا ہے۔
95. عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضی الله عنه: أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ قَالَ يَوْمًا وَحَضَرَ رَمَضَانُ: أَتَاكُمْ رَمَضَانُ شَهْرُ بَرَكَةٍ، يَغْشَاكُمُ اللہُ فِيْهِ، فَيُنْزِلُ الرَّحْمَةَ، وَيَحُطُّ الْخَطَايَا، وَيَسْتَجِيْبُ فِيْهِ الدُّعَاءَ، يَنْظُرُ اللہُ تَعَالَى إِلَى تَنَافُسِكُمْ فِيْهِ، وَيُبَاهِي بِكُمْ مَلَائِكَتَهُ، فَأَرُوا اللہَ مِنْ أَنْفُسِكُمْ خَيْرًا، فَإِنَّ الشَّقِيَّ مَنْ حُرِمَ فِيْهِ رَحْمَةَ اللہِ تعالیٰ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرُوَاتُهُ ثِقَاتٌ كَمَا قَالَ الْمُنْذِرِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَذَكَرَهُ الْهَيْثَمِيُّ.
أخرجه الطبراني في مسند الشاميين، 3: 271، الرقم: 2238، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 60، الرقم: 1490، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3: 142.
حضرت عبادہ بن صامت رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فرمایا جبکہ رمضان المبارک شروع ہو چکا تھا: تمہارے پاس برکتوں والا مہینہ رمضان آگیا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ تمہیں (اپنی رحمت سے) ڈھانپ لیتا ہے۔ چنانچہ وہ (اس مہینے میں) رحمت نازل فرماتا ہے، گناہوں کو مٹاتا ہے اور دعائیں قبول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مہینہ میں نیکی کی طرف تمہارے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے (کے جذبے، شوق اور کوشش)کو ملاحظہ فرماتا ہے اور اپنے فرشتوں کے سامنے(ان کی مجلس میں)تم پر فخر فرماتا ہے۔ لہٰذا تم اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خیر کر کے دکھاؤ کیونکہ بدبخت ہے وہ شخص جو اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کر دیا گیا۔
اِسے امام طبرانی نے ثقہ راویوں سے روایت کیا ہے جیسا کہ امام منذری نے (واضح) فرمایا ہے۔ مذکورہ الفاظ بھی امام منذری کے ہیں۔ امام ہیثمی نے بھی اس کو بیان کیا ہے۔
96. عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْغِفَارِيِّ رضی الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ ذَاتَ يَوْمٍ وَأَهَلَّ رَمَضَانُ، فَقَالَ: لَوْ يَعْلَمُ الْعِبَادُ مَا رَمَضَانُ لَتَمَنَّتْ أُمَّتِي أَنْ يَكُونَ السَّنَةَ كُلَّهَا.
رَوَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الإِيْمَانِ وَاللَّفْطُ لَهُ وَذَكَرَهُ الْمُنْذِرِيُّ.
أخرجه ابن خزيمة في الصحيح، 3: 190، الرقم: 1886، والبيهقي في شعب الإيمان، 3: 313، الرقم: 3634، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 62، الرقم: 1495.
حضرت ابو مسعود غفاری رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا جب کہ رمضان المبارک شروع ہو چکا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر بندے یہ جانتے کہ رمضان المبارک (کی حقیقت و فضیلت) کیا ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ پورا سال رمضان المبارک ہی ہو۔
اِسے امام ابنِ خزیمہ اور بیہقی نے ’شعب الایمان‘ میں روایت کیا ہے اور مذکورہ الفاظ بیہقی کے ہیں۔ امام منذری نے بھی اسے بیان کیا ہے۔
97. فِي الصَّحِيْحَيْنِ: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُوْنُ فِي رَمَضَانَ حِيْنَ يَلْقَاهُ جِبْرِيْلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُوْلُ اللہِ ﷺ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيْحِ الْمُرْسَلَةِ. (1)
وَرَوَاهُ الإِمَامُ أَحْمَدُ بِزِيَادَةٍ فِي آخِرِهِ وَهِيَ: لَا يُسْأَلُ عَنْ شِيءٍ إِلَّا أَعْطَاهُ. (2)
’صحیحین‘ میں ہے: حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی الله عنهما بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں جب حضرت جبریل علیه السلام سے ملاقات ہوتی تو آپ ﷺ کی سخاوت مزید بڑھ جاتی۔ وہ رمضان المبارک کی ہر رات میں آپ ﷺ سے ملتے اور آپ ﷺ کے ساتھ قرآن مجید کا دور کرتے۔ رسول اللہ ﷺ بھلائی کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے۔
امام احمد نے اس حدیث میں ان الفاظ کا اضافہ بیان کیا ہے: آپ ﷺ سے جس چیز کا بھی سوال کیا گیا، آپ ﷺ نے وہ عطا فرما دی۔
اَلْجُوْدُ: سَعَةُ الْعَطَاءِ وَكَثْرَتُهُ، وَاللہُ تَعَالَى يُوْصَفُ بِالْجُوْدِ، وَمِنْ أَسْمَائِهِ الْجَوَّادُ.
سخاوت: عطا کرنے میں وسعت اور کثرت کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت جود ہے، اور اللہ تعالیٰ کے اسماے مبارکہ میں ایک اسم جوّاد (بہت زیادہ سخاوت کرنے والا) ہے۔
98. وَفِي ‹‹سُنَنِ التِّرْمِذِيِّ››: عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: إِنَّ اللہَ طَيِّبٌ يُحِبُّ الطَّيِّبَ، نَظِيْفٌ يُحِبُّ النَّظَافَةَ، كَرِيْمٌ يُحِبُّ الْكَرَمَ، جَوَّادٌ يُحِبُّ الْجُوْدَ.
أخرجه الترمذي في السنن، كتاب الأدب، باب ما جاء في النظافة، 5: 111، الرقم: 2799، وأبو يعلى في المسند، 2: 121، الرقم: 790.
’سنن الترمذی‘ میں ہے: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنه حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں (کہ آپ ﷺ نے فرمایا): بے شک اللہ تعالیٰ پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کو پسند فرماتا ہے، صاف ہے اور صفائی کو پسند فرماتا ہے، کرم کرنے والا ہے اور کرم گستری کو پسند فرماتا ہے، سخی ہے اور سخاوت کو پسند فرماتا ہے۔
99. وَفِي التِّرْمِذِيِّ أَيْضًا: عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: يَقُوْلُ اللہُ تَعَالَى: يَا عِبَادِي.. . وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَحَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمُ اجْتَمَعُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ عَبْدٍ مِنْ عِبَادِي، مَا زَادَ ذَلِكَ فِي مُلْكِي جَنَاحَ بَعُوْضَةٍ، وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَحَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمُ اجْتَمَعُوا عَلَى أَشْقَى قَلْبِ عَبْدٍ مِنْ عِبَادِي، مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي جَنَاحَ بَعُوضَةٍ. وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَحَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمُ اجْتَمَعُوا فِي صَعِيْدٍ وَاحِدٍ. فَسَأَلَ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْكُمْ مَا بَلَغَتْ أُمْنِيَّتُهُ فَأَعْطَيْتُ كُلَّ سَائِلٍ مِنْكُمْ مَا سَأَلَ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي إِلَّا كَمَا لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ مَرَّ بِالْبَحْرِ فَغَمَسَ فِيْهِ إِبْرَةً، ثُمَّ رَفَعَهَا إِلَيْهِ ذَلِكَ بِأَنِّي جَوَّادٌ مَاجِدٌ أَفْعَلُ مَا أُرِيْدُ، عَطَائِي كَلَامٌ وَعَذَابِي كَلَامٌ، إِنَّمَا أَمْرِي لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْتُهُ أَنْ أَقُوْلَ لَهُ: كُنْ فَيَكُوْنُ.
أخرجه الترمذي في السنن، كتاب صفة القيامة والرقائق والورع، باب: (48)، 4: 656، الرقم: 2495.
’سنن الترمذی‘ ہی میں ہے: حضرت ابو ذر غفاری رضی الله عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے بندو! ۔… اگر تمہارے پہلے، پچھلے، زندہ، مردہ اور خشک و تر سب کے سب میرے بندوں میں سے بڑے پرہیزگار بندے کے دل پر جمع ہوجائیں (یعنی سب کے سب نیکوکار) بن جائیں تو میری حکومت میں مچھر کے پر کے برابر بھی اضافہ نہیں کرسکیں گے۔ اگر تمہارے پہلے، پچھلے، زندہ، مردہ اور خشک و تر سب کے سب میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ گناہ گار بندے کے دل پر جمع ہوجائیں (یعنی سب کے سب گناہ گار بن جائیں) تو میری حکومت میں مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہیں کرسکیں گے۔ اگر تمہارے اول و آخر، جن و انسان، زندہ و مردہ اور خشک و تر ایک زمین میں جمع ہوجائیں پھر ہر انسان اپنی آرزو کے مطابق سوال کرے اور میں ہر سائل کو اس کی خواہش کے مطابق دوں تو میری حکومت و سلطنت میں کچھ کم نہ ہوگا، مگر اتنا کہ اگر تم میں سے کوئی سمندر کے پاس سے گزرے اور اس میں سوئی ڈال کر پھر اسے اپنی طرف اُٹھالے۔ یہ اس لیے ہے کہ میں سخی ہوں، پالنے والا ہوں اور بزرگی والا ہوں۔ جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔ میرا عطا کرنا بھی (محض) کہنا ہے (حکم دینا)، اور میرا عذاب بھی ایک کلام (حکم) ہی ہے۔ میرا حکم کسی چیز کے لیے یہ ہے کہ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہوں تو کہتا ہوں: ’ہو جا‘ تو وہ ہو جاتا ہے۔
وَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ أَجْوَدَ بَنِي آدَمَ عَلَى الإِطْلَاقِ كَمَا فِي هَذَا الْحَدِيْثِ.
حضور نبی اکرم ﷺ تمام بنی نوع آدم میں سب سے زیادہ سخی ہیں، جیسا کہ اس حدیث مبارک میں بیان ہو ہے۔
100. وَفِي الصَّحِيْحَيْنِ: عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ، وَأَجْوَدَ النَّاسِ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الأدب، باب حسن الخلق والسخاء وما يكره من البخل، 5: 2244، الرقم: 5686، ومسلم في الصحيح، كتاب الفضائل، باب في شجاعة النبي ﷺ وتقدمه للحرب، 4: 1802، الرقم: 2307، وأحمد بن حنبل في المسند، 3: 147، 185، الرقم: 12516، 12945، وأبو داود في السنن، كتاب الأدب، باب ما روي في الرخصة في ذلك، 4: 297، الرقم: 4988، والترمذي في السنن كتاب الجهاد، باب ما جاء في الخروج عند الفزع، 4: 199، الرقم: 1687، وابن ماجه في السنن، كتاب الجهاد، باب الخروج في النفير، 2: 926، الرقم: 2772، وعبد بن حميد في المسند، 1: 398، الرقم: 1341.
صحیحین میں ہے: حضرت انس رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ تمام لوگوں سے بڑھ کر حسین، سب سے بڑھ کر سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔
وَكَانَ جُوْدُهُ ﷺ يَتَضَاعَفُ فِي رَمَضَانَ وَيَزْدَادُ، وَذَلِكَ ِلأَسْبَابٍ:
أَحَدُهَا: أَنَّ شَهْرَ رَمَضَانَ مَوْسِمُ الْخَيْرَاتِ، لِأَنَّ نِعَمَ اللہِ عَلَى عِبَادِهِ فِيْهِ زَائِدَةٌ عَلَى غَيْرِهِ، فَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُؤْثِرُ مُتَابَعَةَ سُنَّةِ اللہِ فِي عِبَادِهِ.
آپ ﷺ کی یہ سخاوت اور کرم نوازی رمضان المبارک میں کئی گنا مزید بڑھ جاتی، اور اِس کے کئی اسباب ہیں:
پہلا سبب: رمضان کا مہینہ خیرات کا موسم ہے۔ کیونکہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ دیگر مہینوں کی نسبت اپنے بندوں پر زیادہ انعام فرماتا ہے۔ لہٰذا حضور نبی اکرم ﷺ بھی اللہ تعالیٰ کی سنت کی متابعت میں زیادہ ایثار کا مظاہرہ فرمایا کرتے تھے۔
ثَانِيْهَا: أَنَّ الصَّدَقَةَ فِي رَمَضَانَ أَفْضَلُ مِنْهَا فِي غَيْرِهِ لِمَا جَاءَ فِي ‹‹سُنَنِ التِّرْمِذِيِّ›› وَغَيْرِهِ:
دوسرا سبب: رمضان المبارک میں صدقہ کرنا دیگر مہینوں میں صدقہ کرنے کی نسبت زیادہ افضل ہے، جیسا کہ ’سنن الترمذی‘ اور دیگر کتب میں ہے:
101. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ أَيُّ الصَّوْمِ أَفْضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ؟ فَقَالَ: شَعْبَانُ لِتَعْظِيْمِ رَمَضَانَ. قِيْلَ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: صَدَقَةٌ فِي رَمَضَانَ.
أخرجه الترمذي في السنن، كتاب الزكاة، باب ما جاء في فضل الصدقة، 3: 51، الرقم: 663، والبيهقي في السنن الكبرى، 4: 305، الرقم: 8300، وأيضًا في شعب الإيمان، 3: 377، الرقم: 3819، وأيضًا في فضائل الأوقات، ص: 114، الرقم: 20.
حضرت انس رضی الله عنه سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا: (یا رسول اللہ!) رمضان شریف کے بعد کس مہینے میں روزے افضل ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تعظیم رمضان کے لیے شعبان کے روزے رکھنا۔ پوچھا گیا: (یا رسول اللہ!) کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: رمضان المبارک میں صدقہ دینا۔
ثَالِثُهَا: إِعَانَةُ الصَّائِمِيْنَ وَالْقَائِمِيْنَ وَالذَّاكِرِيْنَ عَلَى طَاعَتِهِمْ فَيَسْتَوْجِبُ بِذَلِكَ مِثْلَ أَجْرِهِمْ، لِمَا جَاءَ فِي مُسْنَدِ أَحْمَدَ وَسُنَنِ التِّرْمِذِيِّ وَالنَّسَائِيِّ وَابْنِ مَاجَه:
تیسرا سبب: رمضان میں روزہ داروں، قیام کرنے والوں اور ذاکرین کی اطاعت الٰہی اور نیک کاموں میں معاونت اُن کے مثل ہی اجر ملنے کا سبب بنتی ہے، جیسا کہ ’مسند احمد'، ’سنن ترمذی'، ’سنن نسائی‘ اور ’سنن ابن ماجہ‘ میں ہے:
102. عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا، كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ، إِلَّا أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئٌ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4: 114، الرقم: 17074، والترمذي في السنن، كتاب الصوم، باب ما جاء في فضل من فطر صائما، 3: 171، الرقم: 807، وابن ماجه في السنن، كتاب الصوم، باب في ثواب من فطر صائما، 1: 555، الرقم: 1746، والدارمي في السنن، 2: 14، الرقم: 1702، وعبد الرزاق في المصنف، 4: 311، الرقم: 7905، والطبراني في المعجم الأوسط، 2: 7، الرقم: 1048.
حضرت زید بن خالد الجہنی رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا، اس کا اجر بھی (روزہ دار) کے برابر ہی لکھا جاتا ہے جب کہ روزہ دار کے ثواب میں کچھ کمی نہیں ہوتی۔
103. وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ أَبِي شَيْبَةَ وَالنَّسَائِيِّ وَابْنِ خُزَيْمَةَ فِي ‹‹صَحِيْحِهِ›› وَالطَّبَرَانِيِّ: مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا، أَوْ جَهَّزَ غَازِيًا، أَوْ حَاجًّا أَوْ خَلَفَهُ فِي أَهْلِهِ، كَانَ لَهُ مِثْلُ أُجُوْرِهِمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 4: 230، الرقم: 19555، والسنائي في السنن الكبرى، 2: 256، الرقم: 3330، وابن خزيمة في الصحيح، 3: 277، الرقم: 2064، والطبراني في المعجم الكبير، 5: 256، الرقم: 5268، والبيهقي في شعب الإيمان، 3: 480، الرقم: 4122، وفي السنن الكبرى، 4: 240، الرقم: 7929.
ابن ابی شیبہ، نسائی، ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اور طبرانی نے روایت کیا ہے، حضرت زید بن خالد رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروایا یا کسی مجاہد یا کسی حاجی کی تیاری ( میں نصرت و اعانت )کروائی یا اس کے پیچھے اس کے اہلِ خانہ کا خیال رکھا تو اُس کے لیے بھی اُن کے برابر ہی اجر ہے جب کہ اس سے اُن (عمل کرنے والوں) کے اجر میں سے کسی چیز کی کمی نہیں کی جاتی۔
رَابِعُهَا: أَنَّ شَهْرَ رَمَضَانَ شَهْرُ الْمُوَاسَاةِ وَالتَّعَاوُنِ وَالْمُسَاعَدَةِ، لِمَا رَوَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ:
چوتھا سبب: بے شک رمضان المبارک ہمدردی، تعاون اور حاجت روائی کا مہینہ ہے، جیسا کہ امام ابن خزیمہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے:
104. عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ رضی الله عنه قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي آخِرِ يَومٍ مِنْ شَعْبَانَ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيْمٌ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، شَهْرٌ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ. جَعَلَ اللہُ صِيَامَهُ فَرِيْضَةً، وَقِيَامَ لَيْلِهِ تَطَوُّعًا. مَنْ تَقَرَّبَ فِيْهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ، كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِيْضَةً فِيْمَا سِوَاهُ. وَمَنْ أَدَّى فِيْهِ فَرِيْضَةً، كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِيْنَ فَرِيْضَةً فِيْمَا سِوَاهُ. وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ، وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ، وَشَهْرٌ يَزْدَادُ فِيْهِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ. مَنْ فَطَّرَ فِيْهِ صَائِمًا كَانَ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ، وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ. قَالُوْا: لَيْسَ كُلُّنَا نَجِدُ مَا يُفَطِّرُ الصَّائِمَ. فَقَالَ: يُعْطِي اللہُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةِ مَاءٍ أَوْ مَذْقَةِ لَبَنٍ. وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ، وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ. مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ، غَفَرَ اللہُ لَهُ وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ.
حضرت سلمان فارسی رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شعبان کے آخری دن ہمیں خطاب فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظیم الشان اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہوگیا ہے۔ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض قرار دیا ہے اور راتوں کے قیام کو نفل۔ جو شخص اس میں قربِ الٰہی کی نیت سے کوئی بھی نیکی کرتا ہے اسے دیگر مہینوں میں ایک فرض ادا کرنے کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ جو شخص اس میں ایک فرض ادا کرتا ہے گویا اس نے باقی مہینوں میں ستر فرائض ادا کیے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہی ہے۔ یہ غم خواری کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کی افطاری کراتا ہے اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اسے دوزخ سے آزاد کر دیا جاتا ہے۔ نیز اسے اس (روزہ دار) کے برابر ثواب ملتا ہے، جب کہ اس کے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک روزہ افطار کرانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ ثواب اللہ تعالیٰ ایک کھجور کھلانے یا پانی پلانے یا دودھ کا ایک گھونٹ پلا کر افطاری کرانے والے کو بھی دے دیتا ہے۔ اس مہینے کا ابتدائی حصہ(عشرہ) رحمت ہے، درمیانہ حصہ(عشرہ) مغفرت ہے اور آخری حصہ (عشرہ) دوزخ سے آزادی(کا پروانہ) ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے ملازم پر تخفیف کرتا ہے (اس پر کام کا بوجھ ہلکا کردیتا ہے) اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے اور اسے دوزخ سے آزاد کر دیتا ہے۔
وَاسْتَكْثِرُوْا فِيْهِ مِنْ أَرْبَعِ خِصَالٍ: خَصْلَتَيْنِ تُرْضُوْنَ بِهِمَا رَبَّكُمْ، وَخَصْلَتَيْنِ لَا غِنَى بِكُمْ عَنْهُمَا. فَأَمَّا الْخَصْلَتَانِ اللَّتَانِ تُرْضُوْنَ بِهِمَا رَبَّكُمْ: فَشَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ وَتَسْتَغْفِرُوْنَهُ. وَأَمَّا اللَّتَانِ لَا غِنَى بِكُمْ عَنْهُمَا: فَتَسْأَلُونَ اللہَ الْجَنَّةَ وَتَعُوْذُوْنَ بِهِ مِنَ النَّارِ. وَمَنْ أَشْبَعَ فِيْهِ صَائِمًا، سَقَاهُ اللہُ مِنْ حَوْضِيْ شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ.
أخرجه ابن خزيمة في الصحيح، 3: 191، الرقم: 1887، والبيهقي في شعب الإيمان، 3: 305، الرقم: 3609، والحارث في المسند، 1: 412، الرقم: 312، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 58، الرقم: 1483.
اس میں چار کام زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کرو۔ دو کاموں کے ذریعے تم اپنے رب کو راضی کروگے اور دو کاموں کے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ کار نہیں۔ جن دو کاموں کے ذریعے تم اپنے رب کو راضی کروگے ان میں سے ایک لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا ہے اور دوسرا اس سے بخشش طلب کرنا ہے۔ جن دو کاموں کے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ نہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو اور دوسرا یہ ہے کہ دوزخ سے پناہ مانگو۔ جو شخص روزہ دار کو پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے میرے حوض سے پانی پلائے گا، پھر اسے جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔
فَلِهَذِهِ الْأَسْبَابِ وَغَيْرِهَا كَانَ جُوْدُهُ ﷺ يَتَضَاعَفُ فِي رَمَضَانَ، وَيَنْبَغِي لَنَا، بَلْ يَتَأَكَّدُ فِي حَقِّنَا أَنْ نَقْتَدِيَ بِهِ ﷺ فِي فِعْلَ الْخَيْرِ وَكَثْرَةِ الْجُوْدِ فِي هَذَا الشَّهْرِ الْعَظِيْمِ الْمُبَارَكِ.
اِن اور دیگر اسباب کی وجہ سے رمضان المبارک میں حضور نبی اکرم ﷺ کا جود و کرم اپنی انتہا کو پہنچ جاتا تھا۔ ہمارے لیے بھی ضروری ہے، بلکہ ہمارے حق میں یہ بہتر ہے کہ ہم اس مبارک اور عظمت والے مہینے میں نیکی کے کاموں اور سخاوت میں کثرت کرنے میں آپ ﷺ کی پیروی کریں۔
105. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنه قَالَ: كَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ أَطْلَقَ كُلَّ أَسِيْرِهِ وَأَعْطَى كُلَّ سَائِلٍ.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الإِيْمَانِ›› وَابْنُ عَسَاكِرَ، وَذَكَرَهُ الْهَيْثَمِيُّ وَالشَّعْرَانِيُّ.
أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3: 311، الرقم: 3629، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 4: 25، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 3: 150، والشعراني في الطبقات الكبرى، 1: 377.
حضرت (عبد اللہ) بنِ عباس رضی الله عنهما سے روایت ہے کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اپنے تمام قیدیوں کو رہا فرما دیتے اور ہر مانگنے والے کو (دامنِ مراد بھر کر) عطا فرماتے۔
اِسے امام بیہقی نے شعب الإیمان میں اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے اور امام ہیثمی اور شعرانی نے ذکر کیا ہے۔
قَالَ الإِمَامُ السُّيُوْطِيُّ: وَأَعْطَى كُلَّ سَائِلٍ. فَإِنَّهُ كَانَ أَجْوَدَ مَا يَكُوْنُ فِي رَمَضَانَ، وَفِيْهِ نَدْبُ عِتْقِ الْأُسَارَى عِنْدَ إِقْبَالِ رَمَضَانَ، وَالتَّوْسِعَةِ عَلَى الْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِيْنِ.
ذكره السيوطي في الشمائل الشريفة، ص: 142، الرقم: 210.
امام جلال الدین سیوطی حدیثِ مبارکہ کے الفاظ: ’آپ ﷺ ہر مانگنے والے کو عطا فرماتے‘ کی شرح میں لکھتے ہیں: بے شک آپ ﷺ رمضان میں سب سے زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ماہِ رمضان کی آمدپر قیدیوں کو رہا کرنا اور فقراء و مساکین پر دل کھول کر خرچ کرنا مستحب اور پسندیدہ ہے۔
قَالَ الْمُلَّا عَلِيٌّ الْقَارِيُّ: (وَأَعْطَى كُلَّ سَائِلٍ) أَيْ زِيَادَةً عَلَى مُعْتَادِهِ، وَإِلاَّ فَلَا كَانَ عِنْدَهُ «لَا» ِفي غَيْرِ رَمَضَانَ أَيْضًا. فَقَدْ جَاءَ فِي «صَحِيْحِ مُسْلِمٍ››: إِنَّهُ مَا سُئِلَ شَيْئاً إِلَّا أَعْطَاهُ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَأَعْطَاهُ غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ، فَرَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ، فَقَالَ: يَا قَوْمِ، أَسْلِمُوْا فَإِنَّ مُحَمَّدًا يُعْطِي عَطَاءَ مَنْ لَا يَخْشَى الْفَقْرَ. وَرَوَى الْبُخَارِيُّ مِنْ حَدِيْثِ جَابِرٍ رضی الله عنه، مَا سُئِلَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ عَنْ شَيْءٍ قَطُّ فَقَالَ: لَا.
ملا علی القاری نے فرمایا: ’’وَأَعْطَى كُلَّ سَائِلٍ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ (رمضان المبارک میں) اپنی عام عادتِ مبارکہ سے زیادہ عطا فرماتے، ورنہ رمضان المبارک کے علاوہ بھی(کسی سائل کےلیے) آپ ﷺ کی بارگاہ میں کبھی لفظِ ’نہیں‘ نہ تھا۔ ’صحیح مسلم‘ میں تو یہاں تک ہے کہ آپ ﷺ سے جو کچھ بھی مانگا گیا آپ ﷺ نے وہی عطا فرمایا۔ ایک شخص آپ ﷺ کے پاس آیا، (اس کی طلب پر) آپ ﷺ نے اسے دو پہاڑوں کے درمیان (موجود) بکریوں کا ریوڑ عطا فرما دیا۔ وہ اپنی قوم کی طرف واپس گیا اور کہنے لگا: اے میری قوم! اسلام قبول کر لو کیونکہ محمد (ﷺ) ایسے شخص کی طرح عطا فرماتے ہیں جسے فقر کا ڈر نہیں ہوتا۔ امام بخاری نے حدیثِ جابر رضی الله عنه کو روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ سے جو کچھ بھی مانگا گیا اس پرآپ ﷺ نے کبھی لفظ لا ’نہ‘ نہیں فرمایا۔
وَكَذَا عِنْدَ مُسْلِمٍ أَيْ مَا طُلِبَ مِنْهُ شَيءٌ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا فَمَنَعَهُ.
قَالَ الْفَرَزْدَقُ:
مَا قَالَ لَا قَطُّ إِلَّا فِي تَشَهُّدِهِ
لَولَا التَّشَهُّدُ كَانَتْ لَاؤُهُ نَعَمْ
الملا علي القاري في مرقاة المفاتيح، كتاب الصوم، الفصل الثالث، 4: 399.
اِسی طرح ’صحیح مسلم‘ میں بیان کیا گیا ہے: حضور نبی اکرم ﷺ سے دنیاوی معاملات میں سے جو چیز بھی مانگی گئی آپ ﷺ نے کبھی انکار نہیں فرمایا۔
فرزدق شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
آپ ﷺ نے تشہد (میں پڑھے جانے والے ’لا‘) کے علاوہ کبھی لفظِ ’لا‘ (نہ) نہیں فرمایا۔ اگر تشہد نہ ہوتا تو آپ ﷺ کا لفظِ ’نہ‘ بھی ’ہاں‘ ہوتا۔
قَالَ الشَّيْخُ عِزُّ الدِّيْنِ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ: مَعْنَاهُ لَمْ يَقُلْ لَا مَنْعًا لِلْعَطَاءِ. وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ أَنْ لَا يَقُوْلَهَا اعْتِذَارًا كَمَا فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: (قُلْتَ لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُكُمْ عَلَيْه) [التوبة، 9: 92]، وَلَا يَخْفَى الْفَرْقُ بَيْنَ قَوْلِ (لَآ اَجِدُ مَآ اَحْمِلُكُمْ) وبَيْنَ لَآ اَحْمِلُكُمْ.
وَفِي حَدِيْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما عِنْدَ الشَّيْخَيْنِ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَأَجْوَدَ مَا يَكُوْنُ فِي رَمَضَانَ حِيْنَ يَلْقَاهُ جِبْرِيْلُ، فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُوْلُ اللہِ ﷺ حِيْنَ يَلْقَاهُ جِبْرِيْلُ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيْحِ الْمُرْسَلَةِ.
الملا علي القاري في مرقاة المفاتيح، كتاب الصوم، الفصل الثالث، 4: 399-400.
شیخ عز الدین بن عبد السلام فرماتے ہیں: اس کا معنیٰ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے عطا کے معاملے میں کبھی لفظِ ’نہ‘ نہیں فرمایا۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضور ﷺ نے (جود و عطا کے علاوہ) کسی اور معنٰی کے لیے اِعتذاراً بھی لفظ ’نہیں‘ نہ فرمایا ہو جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: آپ نے فرمایا: ’اور میں (بھی) کوئی (زائد سواری) نہیں پاتا ہوں جس پر تمہیں سوار کر سکوں‘، ’اور میں تمہیں سوار نہیں کرتا‘ کے درمیان فرق پوشیدہ اور مخفی نہیں ہے۔ شیخین کے ہاں حضرت ابن عباس رضی الله عنهما سے مروی حدیث ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سب سے زیادہ سخی تو تھے ہی مگررمضان المبارک میں جب حضرت جبریل علیه السلام آپ ﷺ سے ملاقات کرتے اور آپ ﷺ کے ساتھ قرآن پاک دہراتے تو آپ ﷺ معمول سے بھی بڑھ کر سخاوت فرماتے۔ حضرت جبریل علیه السلام سے ملاقات کے وقت رسول اللہ ﷺ خیر کے کاموں میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخاوت فرمانے والے ہوتے تھے۔
106. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنه، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: إِنَّ الْجَنَّةَ تُزَخْرَفُ لِرَمَضَانَ مِنْ رَأْسِ الْحَوْلِ إِلَى الْحَوْلِ الْقَابِلِ. قَالَ: فَإِذَا كَانَ أَوَّلُ يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ هَبَّتْ رِيْحٌ تَحْتَ الْعَرْشِ، نَشَرَتْ مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ عَلَى الْحُوْرِ الْعِيْنِ، فَيَقُلْنَ: يَا رَبِّ، اجْعَلْ لَنَا مِنْ عِبَادِكَ أَزْوَاجًا تَقَرُّ بِهِمْ أَعْيُنُنَا وَتَقَرُّ أَعْيُنُهُمْ بِنَا.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ والْبَيْهَقِيُّ فِيْ ‹‹شُعَبِ الْإِيْمَانِ›› وَاللَّفْظُ لَهُ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7: 44، الرقم: 6800، والبيهقي في شعب الإيمان، 3: 312، الرقم: 3633، وابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 8: 108.
حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی الله عنهما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جنت سال کے آغاز ہی سے اگلے سال تک رمضان المبارک کے لیے سجا دی جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب رمضان المبارک کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے جو جنت کے پتوں کو حور عین پر پھیلا دیتی ہے، پھر حور عین یہ دعا مانگتی ہیں: اے پروردگار! ہمارے لیے اپنے بندوں میں سے ایسے شوہر بنا جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ہم سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔
اِسے امام طبرانی نے، بیہقی نے شعب الإیمان میں مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
107. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: قَالَ اللہُ تعالیٰ : كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ، وَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فلَاَ يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ. وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللہِ مِنْ رِيْحِ الْمِسْكِ. لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الصوم، باب هل يقول إني صائم إذا شتم، 2: 673، الرقم: 1805، ومسلم في الصحيح، كتاب الصيام، باب فضل الصيام، 2: 807، الرقم: 1151، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 232، الرقم: 7174، والنسائي في السنن، كتاب الصيام، باب ذكر الاختلاف على أبي صالح في هذا الحديث، 4: 162، الرقم: 2213-2218، وأيضًا في السنن الكبرى، 2: 90، الرقم: 2525.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (حدیث قدسی میں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: انسان کا ہر عمل اپنی ذات کے لیے ہے سوائے روزوں کے۔ روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں اور روزے (روزہ داروں کے لیے) ڈھال ہیں۔ (حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:) جس روز تم میں سے کوئی روزہ سے ہو تو نہ فحش کلامی کرے اورنہ کسی سے جھگڑے۔ اگر کوئی شخص اسے گالی دے یا اس سے لڑے تو وہ جواباً صرف اتنا کہہ دے: میں روزے سے ہوں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ عمدہ ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، جن سے اسے فرحت نصیب ہوتی ہے: ایک (فرحتِ اِفطار کہ) جب وہ روزہ اِفطار کرتا ہے توخوش ہوتا ہے اور دوسری (فرحتِ دیدار کہ) جب وہ اپنے روزہ کے باعث اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو فرحت پائے گا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
108. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: يَقُوْلُ اللہُ تعالیٰ : اَلصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَأَكْلَهُ وَشُرْبَهُ مِنْ أَجْلِي، وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ، وَلِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: فَرْحَةٌ حِيْنَ يُفْطِرُ وَفَرْحَةٌ حِيْنَ يَلْقَى رَبَّهُ، وَلَخُلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللہِ مِنْ رِيْحِ الْمِسْكِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب التوحيد، باب قول اللہ تعالى: (يريدون أن يبدلوا كلام اللہ)، 6: 2723، الرقم: 7054، ومسلم في الصحيح، كتاب الصيام، باب فضل الصيام، 2: 807، الرقم: 1151، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 393، الرقم: 9101، والنسائي في السنن، كتاب الصيام، باب فضل الصيام والاختلاف على أبي إسحاق في حديث علي بن أبي طالب رضی الله عنه في ذلك، 4: 161، الرقم: 2211.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دیتا ہوں۔ روزہ دار میری خاطر اپنی نفسانی خواہشات اور اپنے کھانے پینے کو چھوڑتا ہے، روزہ ڈھال ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک (فرحتِ اِفطار کہ) جب وہ روزہ اِفطار کرتا ہے توخوش ہوتا ہے اور دوسری (فرحتِ دیدار کہ) جب وہ اپنے روزہ کے باعث اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو فرحت پائے گا۔ روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ عمدہ(پاک اور پسندیدہ)ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
قَالَ الْحَافِظُ الْعَسْقَلَانِيُّ: اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي الْمُرَادِ بِقَوْلِهِ تَعَالَى: اَلصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ؛ مَعَ أَنَّ الْأَعْمَالَ كُلَّهَا لَهُ، وَهُوَ الَّذِي يَجْزِي بِهَا عَلَى أَقْوَالٍ. أَحَدُهَا: أَنَّ الصَّوْمَ لَا يَقَعُ فِيْهِ الرِّيَاءُ كَمَا يَقَعُ فِي غَيْرِهِ. حَكَاهُ الْمَازِرِيُّ وَنَقَلَهُ عِيَاضٌ عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ. وَلَفْظُ أَبِي عُبَيْدٍ فِي غَرِيْبِهِ: قَدْ عَلِمْنَا أَنَّ أَعْمَالَ الْبِرِّ كُلَّهَا لِلّٰهِ وَهُوَ الَّذِي يَجْزِي بِهَا. فَنَرَى، وَاللہُ أَعْلَمُ، أَنَّهُ إِنَّمَا خَصَّ الصِّيَامَ لِأَنَّهُ لَيْسَ يَظْهَرُ مِنِ ابْنِ آدَمَ بِفِعْلِهِ، وَإِنَّمَا هُوَ شَيءٌ فِي الْقَلْبِ. وَيُؤَيِّدُ هَذَا التَّأْوِيْلَ قَوْلُهُ: لَيْسَ فِي الصِّيَامِ رِيَاءٌ، حَدَّثَنِيْهِ شَبَابَةُ عَنْ عَقِيْلٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ، فَذَكَرَهُ يَعْنِي مُرْسَلًا، قَالَ: وَذَلِكَ لِأَنَّ الْأَعْمَالَ لَا تَكُوْنُ إِلَّا بِالْحَرَكَاتِ إِلَّا الصَّوْمَ، فَإِنَّمَا هُوَ بِالنِّيَةِّ الَّتِي تَخْفَى عَنِ النَّاسِ. هَذَا وَجْهُ الْحَدِيْثِ عِنْدِي.
العسقلاني في فتح الباري، كتاب الصوم، باب فضل الصوم، 4: 107.
حافظ ابن حجر العسقلانی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: علماء نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد: ’’اَلصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ‘‘ (روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں)‘ کی مراد میں اختلاف کیا ہے، کیونکہ اصلاً تو سارے اعمال ہی اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور وہی ان کی جزاء دیتا ہے۔ اس پر کئی اقوال ہیں۔ ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ روزہ ایسی عبادت ہے جس میں ریاکاری کا احتمال نہیں ہوتا جیسے باقی عبادات میں ہوسکتا ہے۔ اسے امام مازری نے بیان کیا ہے اور قاضی عیاض نے ابو عبید سے نقل کیا ہے۔ ابو عبید کی اپنی کتاب ’الغریب‘ میں یہ الفاظ ہیں: ہم جانتے ہیں کہ تمام نیک اعمال اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور وہی ان کی جزا دیتا ہے۔ ہمارا خیال ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس (ذاتِ باری تعالیٰ) نے صرف روزے کو اپنے ساتھ خاص فرمایاہے کیونکہ روزہ انسان کے محض (کھانا پینا ترک کرنے کے) ظاہری فعل سے عبارت نہیں بلکہ روزے کی تکمیل کے لیے قلبی عزم و ایمان کا بڑا عمل دخل ہے۔ آپ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی بھی اس تاویل کی تائید کرتا ہے: ’روزے میں ریاء کا شک و شبہ نہیں ہوتا‘۔ اس حدیث کو مجھے شبابہ نے عقیل سے روایت کیا، جنہوں نے اسے امام زہری سے (مرسلاً) ذکر فرمایا ہے کہ تمام اعمال (بدن کی) حرکات سے وقوع پذیر ہوتے ہیں سوائے روزہ کے، اِس کا تعلق نیت سے ہے جو لوگوں سے مخفی ہوتی ہے۔ (حافظ ابن حجر العسقلانی کہتے ہیں:) میرے نزدیک اِس حدیث کی یہی توجیہ ہے۔
قَالَ الإِمَامُ الْعَيْنِيُّ: قُلْتُ: أَمَّا رَمَضَانُ فَإِنَّهُ شَهْرٌ عَظِيْمٌ، وَفِيْهِ الصَّوْمُ وَفِيْهِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ، وَهُوَ مِنْ أَشْرَفِ الْعِبَادَاتِ. فِلِذَلِكَ قَالَ: اَلصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ. فَلَا جَرَمَ يَتَضَاعَفُ ثَوَابُ الصَّدَقَةِ وَالْخَيْرِ فِيْهِ وَكَذَلِكَ الْعِبَادَاتِ. وَعَنْ هَذَا قَالَ الزُّهْرِيُّ: تَسْبِيْحَةٌ فِي رَمَضَانَ خَيْرٌ مِنْ سَبْعِيْنَ فِي غَيْرِهِ.
العيني في عمدة القاري، باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول اللہ ﷺ، 1: 76.
امام بدر الدین العینی فرماتے ہیں: میرا کہنا یہ ہے کہ رمضان المبارک عظمت والا مہینہ ہے کیونکہ اس میں روزہ (جیسی بہترین عبادت) اور شبِ قدر (جیسی عظیم رات) ہے اور یہ اعلیٰ ترین عبادات میں سے ہے۔ اسی وجہ سے (حدیثِ قدسی میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزاء دینے والا ہوں۔ بلاشبہ اس ماہِ مبارک میں صدقہ و خیرات، اعمالِ صالحہ اور دیگر عبادات کا اَجر و ثواب بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اسی سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے امام زہری نے فرمایا ہے: رمضان المبارک میں کی گئی ایک تسبیح رمضان کے علاوہ دیگر مہینوں کی ستر (70) تسبیحات سے افضل ہے۔
& قَالَ الإِمَامُ الْمُنَاوِيُّ: إِنَّ اللہَ تَعَالَى يَقُوْلُ: إِنَّ الصَّوْمَ لِي أَيْ لَا يُتَعَبَّدُ بِهِ أَحَدٌ غَيْرِي أَوْ هُوَ سِرٌّ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ صَاحِبَهُ، بِأَنْ أُضَاعِفَ لَهُ الْجَزَاءَ مِنْ غَيْرِ عَدَدٍ وَلَا حِسَابٍ. لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ. قَالَ الْقَاضِي: ثَوَابُ الصَّوْمِ لَا يُقَدَّرُ قَدْرُهُ وَلَا يَقْدِرُ عَلَى إِحْصَائِهِ إِلَّا اللہُ، فَلِذَلِكَ يَتَوَلَّى جَزَاءَهُ بِنَفْسِهِ، وَلَا يَكِلُهُ إِلَى مَلَائِكَتِهِ.
امام عبد الرؤوف المناوی نے فرمایا ہے: بے شک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: روزہ میرے لیے ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کی خاطر روزہ رکھ کر عبادت نہیں کی جاتی (یعنی کسی بھی مذہبِ باطل کے ماننے والے اپنے خود ساختہ خدا کے لیے روزہ نہیں رکھتے)؛ یا اس سے مراد یہ ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ایک راز ہے جس کی جزا میں خود ہی روزے دار کے اجر کو بڑھا کر بغیر حساب و شمار کے عطا فرماتا ہوں۔ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک (فرحتِ افطار) جب وہ روزہ افطار کرتا ہے (دوسری فرحتِ دیدارجب وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا)۔ قاضی عیاض نے فرماتے ہیں: روزہ کا اجر و ثواب بے حد و حساب ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اسے شمار نہیں کر سکتا۔ اسی وجہ سے اللہ رب العزت اس (روزہ) کی جزاء اپنے ذمۂ کرم پر رکھتا ہے اور یہ ذمہ داری ملائکہ کو نہیں دیتا۔
وَالْمُوْجِبُ لِاخْتِصَاصِ الصَّوْمِ بِهَذَا الْفَضْلِ أَمْرَانِ: أَحَدُهُمَا: أَنَّ جَمِيْعَ الْعِبَادَةِ مِمَّا يَطَّلِعُ عَلَيْهِ الْعِبَادُ وَالصَّوْمُ سِرٌّ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللہِ، يَفْعَلُهُ خَالِصًا لِوَجْهِهِ وَيُعَامِلُهُ بِهِ طَالِبًا لِرِضَاهُ؛ الثَّانِي: أَنَّ جَمِيْعَ الْحَسَنَاتِ رَاجِعَةٌ إِلَى صَرْفِ الْمَالِ فِيْمَا فِيْهِ رِضَاهُ، وَالصَّوْمُ يَتَضَمَّنُ كَسْرَ النَّفْسِ وَتَعْرِيْضَ الْبَدَنِ لِلنَّقْصِ.
المناوي في فيض القدير، حرف الهمزة، 2: 307.
روزہ کے اس فضل وکرم کے ساتھ مختص ہونے کے دواسباب ہیں: ان میں سے ایک یہ ہے کہ تمام عبادات پر بندے مطلع ہوتے ہیں مگر روزہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کے درمیان راز ہے، جس پر بندہ خالصتاً اپنے رب کی خوشنودی اور اُس کی رضا کے حصول کے لیے کاربند رہتاہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ بیشتر نیکیاں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اس کے پسندیدہ اُمور میں مال خرچ کرنے سے حاصل ہوتی ہیں، مگر روزہ کسرِ نفس اور جسم کو (بھوک و پیاس کی) آزمائش سے دوچار کرنے کی عبادت پر مشتمل ہے، (یعنی بقیہ نیکیاں مال خرچ کرنے سے ملتی ہیں جبکہ روزہ دار اپنے پورے وجود کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش کردیتا ہے)۔
109. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعِفُ الْحَسَنَةَ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ مَا شَاءَ اللہُ. يَقُولُ اللہُ: إِلَّا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِي. لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ، وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ، وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللہِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الصيام، باب حفظ اللسان للصائم، 2: 807، الرقم: 1150، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 266، الرقم: 7596، وابن ماجه في السنن، كتاب الصيام، باب ما جاء في فضل الصيام، 1: 525، الرقم: 1638، والنسائي في السنن الكبرى، 2: 90، الرقم: 2525، والبيهقي في السنن الكبرى، 4: 273، والرقم: 8116.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: بنی آدم کا ہر (نیک) عمل نیکی کو دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے، جتنا بھی اللہ تعالیٰ چاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: سوائے روزہ کے، کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ (یہ اس وجہ سے) کہ روزہ دار میرے لیے اپنی نفسانی خواہشات اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ عمدہ(پاک اور پسندیدہ) ہے۔
اِسے امام مسلم، احمد بن حنبل اور نسائی نے، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ میں اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
110. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِنَّمَا الصِّيَامُ جُنَّةٌ، يَسْتَجِنُّ بِهَا الْعَبْدُ مِنَ النَّارِ. هُوَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ، وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3: 396، الرقم: 15299، والبزار عن ابن أبي الوقاص رضی الله عنه، 6: 309، الرقم: 2321، والطبراني في المعجم الكبير، 9: 58، الرقم: 8386، والبيهقي في شعب الإيمان، 3: 294، الرقم: 3582.
حضرت جابر رضی الله عنه نے حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک روزے ڈھال ہیں، جن کے ساتھ بندہ خود کو دوزخ کی آگ سے بچاتا ہے۔ (اللہ تعالیٰ فرماتاہے:) روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اُس کی جزا دوں گا۔
اِسے امام احمد نے اِسنادِ حسن کے ساتھ روایت کیا ہے؛ جب کہ بزار، طبرانی اور بیہقی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
111. ثَبَتَ فِي الصَّحِيْحَيْنِ وَغَيْرِهِمَا عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: قَالَ اللہُ تعالیٰ : كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ.
وَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فلَاَ يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ. وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ! لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللہِ مِنْ رِيْحِ الْمِسْكِ. لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الصوم، باب هل يقول إني صائم إذا شتم، 2: 673، الرقم: 1805، ومسلم في الصحيح، كتاب الصيام، باب فضل الصيام، 2: 807، الرقم: 1151، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 232، الرقم: 7174، والنسائي في السنن، كتاب الصيام، باب ذكر الاختلاف على أبي صالح في هذا الحديث، 4: 162، الرقم: 2213-2218، وأيضًا في السنن الكبرى، 2: 90، الرقم: 2525.
’صحیحین‘ اور دیگر کتبِ حدیث میں یہ ثابت ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: (حدیث قدسی میں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: انسان کا ہر عمل اپنی ذات کے لیے ہے سوائے روزوں کے۔ روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں اور روزے (روزہ داروں کے لیے) ڈھال ہیں۔
(حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:) جس روز تم میں سے کوئی روزہ سے ہو تو نہ فحش کلامی کرے اورنہ کسی سے جھگڑے۔ اگر کوئی شخص اسے گالی دے یا اس سے لڑے تو وہ جواباً صرف اتنا کہہ دے: میں روزے سے ہوں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ عمدہ (پاک اور پسندیدہ) ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہوتی ہیں، جن سے اسے فرحت نصیب ہوتی ہے: ایک (فرحتِ اِفطار کہ) جب وہ روزہ اِفطار کرتا ہے توخوش ہوتا ہے اور دوسری (فرحتِ دیدار کہ) جب وہ اپنے روزہ کے باعث اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو فرحت و سرور پائے گا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
112. وَيُؤَيِّدُهُ مَا رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي ‹‹الشُّعَبِ›› عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: اَلصِّيَامُ لَا رِيَاءَ فِيْهِ. قَالَ اللہُ تعالیٰ : هُوَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، يَدَعُ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ مِنْ أَجْلِي.
أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3: 300، الرقم: 3593، والديلمي في مسند الفردوس، 2: 409، الرقم: 3818.
اِس کی تائید وہ حدیث مبارک بھی کرتی ہے جسے امام بیہقی نے ’شعب الإیمان‘ میں روایت کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: روزہ میں کوئی ریا کاری نہیں ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں۔ روزہ دار صرف میری (رضا کی) خاطر اپنا کھانا اور پینا چھوڑ دیتا ہے۔
113. وَفِي الصَّحِيْحَيْنِ وَغَيْرِهِمَا عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ الرَّيَّانُ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، يُقَالُ: أَيْنَ الصَّائِمُوْنَ؟ فَيَقُوْمُوْنَ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، فَإِذَا دَخَلُوْا أُغْلِقَ فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لِلتِّرْمِذِيِّ: وَمَنْ دَخَلَهُ، لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا.
أخرجه البخاري فى الصحيح، كتاب الصوم، باب الريان للصائمين، 2: 671، الرقم: 1797، ومسلم في الصحيح، كتاب الصيام، باب فضل الصيام، 2: 808، الرقم: 1152، وأحمد بن حنبل في المسند، 5: 333، الرقم: 22869، والترمذي في السنن، كتاب الصوم، باب ما جاء في فضل الصوم، 3: 137، الرقم: 765، والنسائي في السنن، كتاب الصيام، ذكر الاختلاف على محمد بن أبي يعقوب في حديث، 4: 168، الرقم: 2237، وابن ماجه في السنن، كتاب الصيام، باب ما جاء في فضل الصيام، 1: 525، الرقم: 1640.
صحیحین اور دیگر کتبِ حدیث میں ہے: حضرت سہل بن سعد رضی الله عنه سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ریّان ہے، قیامت کے دن روزے دار اس (دروازے) سے جنت میں داخل ہوں گے اور اُن کے علاوہ کوئی اور اس دروازے سے داخل نہیں ہوگا۔ (اور اس دن) کہا جائے گا: روزے دار کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے (اور جنت میں داخل ہونا شروع ہو جائیں گے)، ان کے علاوہ کوئی اور اس میں سے داخل نہیں ہو سکے گا۔ جب وہ سب جنت میں داخل ہو جائیں گے تو اسے بند کر دیا جائے گا، پھر (اس کے بعد بھی) کوئی اور اس دروازہ سے داخل نہیں ہو سکے گا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
اور امام ترمذی کی روایت میں یہ بھی ہے: ’جو اس میں داخل ہو گا، کبھی پیاسا نہ ہو گا‘۔
أَكْرَمَ اللہُ الصَّائِمِيْنَ فَجَعَلَ لَهُمْ بَابًا فِي الْجَنَّةِ خَاصًّا بِهِمْ، لَا يُزَاحِمُهُمْ فِيْهِ غَيْرُهُمْ، وَتِلْكَ مَزِيَّةٌ تَدُلُّ عَلَى مَا لِلصَّوْمِ مِنَ الْفَضْلِ عِنْدَ اللہِ تَعَالَى.
اللہ تعالیٰ نے روزہ داروں پر یہ خاص کرم فرمایا ہے کہ اُن کے لیے جنت میں ایک دروازہ مخصوص کر دیا ہے، اس دروازہ میں سے ان کے علاوہ کوئی اور نہیں گزرے گا۔ (وہ آرام سے خراماں خراماں اور کشاں کشاں جنت میں داخل ہوں گے۔) یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو روزہ کی اللہ تعالیٰ کے ہاں فضیلت کو آشکار کرتی ہے۔
وَمِمَّا لَا شَكَّ فِيْهِ أَنَّ شَهْرَ رَمَضَانَ شَهْرُ الْقُرْآنِ فَيَنْبَغِي الْإِكْثَارُ فِيْهِ مِنَ التِّلَاوَةِ بِقَدْرِ الإِمْكَانِ، وَمِنَ الْحِكْمَةِ فِي ذَلِكَ أَنْ يَنْضَمَّ الْقُرْآنُ إِلَى الصِّيَامِ فِي الشَّفَاعَةِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لِمَا جَاءَ فِي ‹‹الْمُسْنَدِ››:
اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ماہِ رمضان المبارک، قرآن کا مہینہ ہے۔ لہٰذا اس میں قرآن مجید کی ممکنہ حد تک جتنی زیادہ تلاوت کی جا سکے کرنی چاہئے۔ اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ روزِ قیامت قرآن مجید بھی روزہ کے ساتھ روزے دار کی شفاعت کرنے میں شریک ہوگا، جیسا کہ ’مسند امام احمد بن حنبل‘ میں ہے:
114. عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ قَالَ: اَلصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُوْلُ الصِّيَامُ: أَي رَبِّ، مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ، وَيَقُوْلُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ. قَالَ: فَيُشَفَّعَانِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاكِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَذَكَرَهُ الْمُنْذِرِيُّ، وَقَالَ الْحَاكِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2: 174، الرقم: 6626، والحاكم في المستدرك، 1: 740، الرقم: 2036، والبيهقي في شعب الإيمان، 2: 346، الرقم: 1994، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 50، الرقم: 1455، وقال: رواه الطبراني في الكبير ورجاله محتج بهم في الصحيح، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3: 181.
حضرت عبد اللہ بن عمرو (بن العاص) رضی الله عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: روزہ اور قرآن دونوں روزِ قیامت بندۂ (مومن) کے لیے شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! میں نے دن کے وقت اس کو کھانے اور خواہشاتِ نفسانی سے روکے رکھا، لہٰذا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما؛ اور قرآن کہے گا: میں نے رات کے وقت اسے نیند سے روکے رکھا، لہٰذا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پس دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی۔
اِسے امام احمد، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے اور منذری نے ذکر کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا ہے: یہ حدیث صحیح ہے۔
فَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ تِلَاوَةَ الْقُرْآنِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فَلَهَا فَضْلٌ كَبِيْرٌ، كَمَا قَالَ النَّوَوِيُّ: أَنَّهَا أَفْضَلُ مِنْ سَائِرِ الأَذْكَارِ، إِذْ لَوْ كَانَ ذِكْرٌ أَفْضَلَ مِنْهَا أَوْ يُسَاوِيْهَا لَفَعَلَهُ النَّبِيُّ ﷺ وَجِبْرِيْلُ علیه السلام بَدَلًا مِنْ مُدَارَسَةِ الْقُرْآنِ، وَكَانَ السَّلَفُ يَتْلُوْنَ الْقُرْآنَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فِي الصَّلَاةِ وَغَيْرِهَا.
وَكَانَتْ عَائِشَةُ أُمُّ الْمُؤْمِنِيْنَ رضی الله عنها تَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ أَوَّلَ النَّهَارِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، فَإِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ نَامَتْ.
وَكَانَ قَتَادَةُ يَخْتُمُ الْقُرْآنَ فِي سَبْعِ لَيَالٍ دَائِمًا، وَفِي رَمَضَانَ فِي كُلِّ ثَلَاثِ لَيَالٍ، وَفِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ، وَكَانَ يُدَرِّسُ الْقُرْآنَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ.
الذهبي في سير أعلام النبلاء، 5: 276.
یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ماہِ رمضان میں قرآن مجید کی تلاوت کی بڑی فضیلت ہے، جیساکہ امام نووی نے بھی بیان کیا ہے: تلاوتِ قرآن تمام اذکار سے افضل ہے۔ اگر کوئی ذکر اس سے افضل ہوتا یا اس کے برابر بھی ہوتا تو حضور نبی اکرم ﷺ اور جبریل امین علیه السلام رمضان میں قرآن مجید کی تلاوت کے بجائے وہ ذکر اختیار کرتے۔ سلف صالحین ماہِ رمضان میں نماز میں بھی اور اس کے علاوہ بھی قرآن مجید کی بہت زیادہ تلاوت کیا کرتے تھے۔
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنها رمضان المبارک میں صبح کے وقت قرآن مجید کی تلاوت فرماتیں اور جب سورج طلوع ہو جاتا تو پھر آرام فرماتیں۔
حضرت قتادہ رضی الله عنه کا یہ معمول تھا کہ وہ سات راتوں میں قرآن مجید کی تلاوت مکمل کر لیتے تھے، لیکن رمضان میں وہ تین راتوں میں قرآن مجید کی تلاوت مکمل کرتے تھے۔ آخری عشرے میں وہ ہر رات پورا قرآن مجید تلاوت کرتے تھے۔ نیز رمضان المبارک میں درسِ قرآن بھی دیا کرتے تھے۔
كَانَ أَبُوْ حَنِيْفَةَ يَخْتُمُ الْقُرْآنَ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ خَتْمَةً، فَإِذَا كَانَ شَهْرُ رَمَضَانَ خَتَمَ فِيْهِ مَعَ لَيْلَةِ الْفِطْرِ وَيَوْمِ الْفِطْرِ اثْنَتَيْنِ وَسِتِّيْنَ خَتْمَةً.
الصيمري في أخبار أبي حنيفة وأصحابه، ص: 55.
امام ابو حنیفہ رضی الله عنه کا یہ معمول تھا کہ وہ ایک دن اور رات میں قرآن مجید ختم کر لیتے تھے، لیکن ماہِ رمضان المبارک میں چاند رات اور عید کے دن کو شامل کر کے پورے مہینے میں باسٹھ قرآن مجید ختم کیا کرتے تھے (یعنی ایک قرآن مجید دن میں ختم کرتے اور ایک رات میں مکمل تلاوت فرماتے)۔
وَقَالَ ابْنُ عَبْدِ الْحَكِيْمِ: كَانَ مَالِكٌ إِذَا دَخَلَ رَمَضَانَ تَرَكَ جَمِيْعَ الْعِبَادَةِ وَأَقْبَلَ عَلَى تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ.
ابن عبد الحکیم فرماتے ہیں: امام مالک رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی تمام نفلی عبادات ترک کر دیتے اور قرآن مجید کی تلاوت کی طرف متوجہ ہو جاتے۔
وَكَانَ لِلشَّافِعِيِّ فِي رَمَضَانَ سِتُّوْنَ خَتْمَةً يَقْرَأُهَا غَيْرَ الصَّلَاةِ.
ابن عساكر في تاريخ مدينة دمشق، 51: 393.
امام شافعی رضی الله عنه رمضان میں نماز کے علاوہ ساٹھ قرآن مجید ختم کیا کرتے تھے۔
وَكَانَ الْأَسْوَدُ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ لَيْلَتَيْنِ فِي رَمَضَانَ.
امام اسود رمضان المبارک کی دو راتوں میں ایک قرآن مجید کی تلاوت مکمل کر لیتے تھے۔
وَكَانَ النَّخَعِيُّ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ ثَلَاثِ لَيَالٍ فِي رَمَضَانَ، وَفِي الْعَشَرِ الْأَوَاخِرِ يَقْرَأُهُ فِي كُلِّ لَيْلَتَيْنِ.
امام نخعی رمضان المبارک میں تین راتوں میں قرآن مجید ختم کرتے تھے، جبکہ آخری عشرہ میں دو راتوں میں اس کی تلاوت مکمل کر لیتے تھے۔
وَكَانَ الزُّهْرِيُّ إِذَا دَخَلَ رَمَضَانَ قَالَ: إِنَّمَا هُوَ تِلَاوَةُ الْقُرْآنِ، وَإِطْعَامُ الطَّعَامِ.
ابن عبد البر في التمهيد، 6: 111.
جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا تو امام زہری فرماتے: رمضان کا یہ مہینہ صرف تلاوت قرآن اور کھانا کھلانے کے لیے ہے۔
وَقَالَ سُفْيَانُ: كَانَ زُبَيْدُ الْيَامِيُّ إِذَا حَضَرَ رَمَضَانُ أَحْضَرَ الْمَصَاحِفَ وَجَمَعَ إِلَيْهِ أَصْحَابَهُ.
حضرت سفیان بیان کرتے ہیں: حضرت زبید الیامی کا معمول تھا کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتا تو قرآن مجید کے نسخے منگوا لیتے اور اپنے دوست احباب کو جمع کر کے اُن کی تلاوت کیا کرتے۔
115. أَخْرَجَ الْبَيْهَقِيُّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: أُعْطِيَتْ أُمَّتِي فِي شَهْرِ رَمَضَانَ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ نَبِيٌّ قَبْلِي. أَمَّا وَاحِدَةٌ: فَإِنَّهُ إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ نَظَرَ اللہُ إِلَيْهِمْ، وَمَنْ نَظَرَ اللہُ إِلَيْهِ لَمْ يُعَذِّبْهُ أَبَدًا. وَأَمَّا الثَّانِيَةُ: فَإِنَّ خُلُوفَ أَفْوَاهِهِمْ حِيْنَ يُمْسُوْنَ أَطْيَبُ عِنْدَ اللہِ مِنْ رِيْحِ الْمِسْكِ. وَأَمَّا الثَّالِثَةُ: فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَسْتَغْفِرُ لَهُمْ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ. وَأَمَّا الرَّابِعَةُ: فَإِنَّ اللہَ يَأْمُرُ جَنَّتَهُ، فَيَقُولُ لَهَا: اسْتَعِدِّي وَتَزَيَّنِي لِعِبَادِي. أَوْشَكُوْا أَنْ يَسْتَرِيْحُوْا مِنْ تَعَبِ الدُّنْيَا إِلَى دَارِي وَكَرَامَتِي. وَأَمَّا الْخَامِسَةُ: فَإِنَّهُ إِذَا كَانَ آخِرُ لَيْلَةٍ غَفَرَ لَهُمْ جَمِيْعًا.
فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ فَقَالَ: لَا. أَلَمْ تَرَ إِلَى الْعُمَّالِ يَعْمَلُونَ؟ فَإِذَا فَرَغُوْا مِنْ أَعْمَالِهِمْ وُفُّوْا أُجُوْرَهُمْ.
أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3: 303، الرقم: 3603، وفي فضائل الأوقات، ص: 145، الرقم: 36، وأبو الحسن الطوسي في الأربعين، ص: 77، الرقم: 37، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 56، الرقم: 1477.
امام بیہقی نے روایت کیا ہے: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی الله عنهما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری اُمت کو ماہِ رمضان میں پانچ تحفے عطا ہوئے ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئے۔ پہلا یہ کہ جب ماہِ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظرِ رحمت فرماتا ہے اور جس پر اللہ کی نظر پڑ جائے اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔ دوسرا یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔ تیسرا یہ کہ فرشتے ہر دن اور رات ان کے لیے بخشش طلب کرتے رہتے ہیں۔ چوتھا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی جنت کو حکم دیتا ہے: میرے بندوں کے لیے تیاری کر لے اور مزین ہو جا۔ عنقریب وہ دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام کریں گے۔ پانچواں یہ کہ جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔
ایک صحابی نے عرض کیا: کیا یہ (بخشش کا اعلان) شبِ قدر کو ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ کیا تم نے محنت مزدوری کرنے والے مزدوروں کی طرف نہیں دیکھا کہ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو جاتے ہیں تب انہیں مزدوری دی جاتی ہے؟ (اسی طرح مسلمانوں کو رمضان سے فراغت کے بعد بخشش کی شکل میں انعام سے نوازا جاتا ہے۔)
هَذِهِ خَمْسُ خِصَالٍ أَكْرَمَ اللہُ بِهَا الصَّائِمِيْنَ مِنْ أُمَّةِ النَّبِيِّ ﷺ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ:
أَوَّلُهَا: نَظَرَ اللہُ إِلَيْهِمْ فِي أَوَّلِ لَيْلَةٍ نَظْرَةَ عِنَايَةٍ وَرَحْمَةٍ، وَمَنْ نَظَرَ اللہُ إِلَيْهِ كَذَلِكَ لَمْ يُعَذِّبْهُ أَبَدًا.
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت کو رمضان المبارک میں یہ پانچ خصوصیات عطا فرمائی ہیں:
پہلی خصوصیت: اللہ تعالیٰ روزے داروں کی طرف رمضان کی پہلی رات ہی نظرِ رحمت و عنایت فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کی طرف نظرِ رحمت فرما دے یقینًا اُسے کبھی عذاب میں مبتلا نہیں فرمائے گا۔
ثَانِيْهَا: خُلُوْفُ أَفْوَاهِهِمْ أَطْيَبُ عِنْدَ اللہِ مِنْ رِيْحِ الْمِسْكِ. وَالْخُلُوْفُ تَغَيُّرُ رَائِحَةِ الْفَمِ لِمَا يَحْدُثُ مِنْ خُلُوِّ الْمَعِدَةِ بِتَرْكِ الأَكْلِ، وَمَعْنَى كَوْنِهِ أَطْيَبَ عِنْدَ اللہِ مِنْ رِيْحِ الْمِسْكِ: أَنَّ اللہَ يُثِيْبُ عَلَيْهِ فِي الآخِرَةِ حَتَّى تَكُوْنَ لَهُ رَائِحَةٌ أَطْيَبَ مِنْ رِيْحِ الْمِسْكِ. وَقِيْلَ: يَنَالُ الصَّائِمُ مِنَ الثَّوَابِ مَا هُوَ أَفْضَلُ مِنْ رِيْحِ الْمِسْكِ عِنْدَنَا.
دوسری خصوصیت: اُن کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔ خلوف سے مراد معدہ کے خالی ہونے اور کھانا پینا چھوڑ دینے کی وجہ سے منہ کی بو کا متغیر ہو جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں کستوری سے بھی زیادہ پسندیدہ کا معنٰی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ روزے دار کو آخرت میں اس کا اجر عطا فرمائے گا یہاں تک کہ اُس سے ایسی خوشبو آئے گی جو کستوری سے بھی زیادہ پاکیزہ ہو گی۔ اور کہا گیا ہے: روزے دار کو وہ ثواب عطا کیا جائے گا جو ہمارے ہاں کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ فضیلت والا ہے۔
ثَالِثُهَا: اِسْتِغْفَارُ الْمَلَائِكَةِ لَهُمْ، وَاسْتِغْفَارُ الْمَلَائِكَةِ لِلْمُؤْمِنِيْنَ ثَابِتٌ بِنَصِّ الْقُرْآنِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿ٱلَّذِينَ يَحۡمِلُونَ ٱلۡعَرۡشَ وَمَنۡ حَوۡلَهُۥ يُسَبِّحُونَ بِحَمۡدِ رَبِّهِمۡ وَيُؤۡمِنُونَ بِهِۦ وَيَسۡتَغۡفِرُونَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْۖ رَبَّنَا وَسِعۡتَ كُلَّ شَيۡءٖ رَّحۡمَةٗ وَعِلۡماً فَٱغۡفِرۡ لِلَّذِينَ تَابُواْ وَٱتَّبَعُواْ سَبِيلَكَ وَقِهِمۡ عَذَابَ ٱلۡجَحِيمِ7﴾ (المؤمنون، 40: 7)
تیسری خصوصیت: (جو رمضان المبارک میں مومنین اور روزہ داروں کو عطا کی گئی وہ) فرشتوں کا اُن کے لیے دعاے مغفرت کرنا ہے۔ فرشتوں کا مومنین کے لیے دعاے مغفرت کرنا قرآن کی نص سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’جو (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اُس کے اِرد گِرد ہیں وہ (سب) اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں (یہ عرض کرتے ہیں کہ) اے ہمارے رب! تو (اپنی) رحمت اور علم سے ہر شے کا احاطہ فرمائے ہوئے ہے، پس اُن لوگوں کو بخش دے جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستہ کی پیروی کی اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ اے ہمارے رب! اور انہیں (ہمیشہ رہنے کے لیے) جنّاتِ عدن میں داخل فرما، جن کا تُو نے اُن سے وعدہ فرما رکھا ہے اور اُن کے آباء و اجداد سے اور اُن کی بیویوں سے اور اُن کی اولاد و ذرّیت سے جو نیک ہوں (انہیں بھی اُن کے ساتھ داخل فرما)، بے شک تو ہی غالب، بڑی حکمت والا ہے۔'
رَابِعُهَا: تَزْيِيْنُ الْجَنَّةِ وَإِعْدَادُهَا طُوْلَ شَهْرِ رَمَضَانَ لِاسْتِقْبَالِ الصَّائِمِيْنَ الْقَائِمِيْنَ.
چوتھی خصوصیت: جنت کی تزئین و آرائش کی جاتی ہے اور پورا رمضان روزہ داروں اور قیام کرنے والوں کے استقبال کے لیے تیار رہتی ہے۔
خَامِسُهَا: مَغْفِرَةُ اللہِ لَهُمْ لَيْلَةَ الْعِيْدِ حِيْنَ يَنْتَهَوْنَ مِنْ أَدَاءِ صَوْمِ رَمَضَانَ وَقِيَامِهِ وَيُكَبِّرُوْنَ اللہَ عَلَى مَا هَدَاهُمْ إِلَيْهِ مِنْ نِعْمَةِ الصِّيَامِ وَالْقِيَامِ. وَقَدْ جَاءَ فِي حَدِيْثٍ ضَعِيْفٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: إِنَّ لَيْلَةَ عِيْدِ الْفِطْرِ تُسَمَّى لَيْلَةَ الْجَائِزَةِ، وَذَلِكَ لِأَنَّ اللہَ يَجْزِلُ الْعَطَاءَ لِلصَّائِمِيْنَ غَدَاةَ الْعِيْدِ، وَيَشْمَلُهُمْ بِعَفْوِهِ وَسِتْرِهِ وَرِضَاهِ.
پانچویں خصوصیت: اللہ تعالیٰ کا عید کی رات اُن کی مغفرت فرما دینا ہے۔ جب وہ رمضان کے روزوں اور قیام اللیل سے فارغ ہو کر عید کی نماز میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اقرار کرتے ہیں کہ اُس نے اُنہیں روزے اور قیام کی نعمت سے نوازا ہے۔ حدیثِ ضعیف میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنهما، حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں: عید کی رات لیلۃ الجائزہ (انعام کی رات) کے نام سے موسوم ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ عید کی صبح روزے داروں پر کثرت سے عطا و بخشش فرماتا ہے اور اُنہیں معافی، پردہ پوشی اور اپنی رضا عطا فرما دیتا ہے۔
هُنَاكَ خِصَالٌ أُخْرَى غَيْرَ هَذِهِ الْخَمْسِ أَكْرَمَ اللہُ بِهَا الأُمَّةَ الْمُحَمَّدِيَّةَ فِي رَمَضَانَ مِنْهَا:
ان پانچ خصوصیات کے علاوہ دیگر کئی خصوصیات بھی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے اُمت محمدیہ کو رمضان کے اس مقدس مہینہ میں نوازا ہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
116. عِتْقُ نَاسٍ مِنَ النَّارِ عِنْدَ كُلِّ إِفْطَارٍ، لِمَا رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِنَّ لِلَّهِ تعالیٰ عِنْدَ كُلِّ فِطْرٍ عُتَقَاءَ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5: 256، الرقم: 22256، وابن ماجه في السنن، كتاب الصيام، باب ما جاء في فضل شهر رمضان، 1: 526، الرقم: 1643، والطبراني في المعجم الكبير، 8: 284، الرقم: 8089، والبيهقي في شعب الإيمان، 3: 304، الرقم: 3605.
ہر روز اِفطار کے وقت لوگوں کو دوزخ سے آزاد کر دیا جانا، جیسا کہ امام احمد بن حنبل، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے: حضرت ابو امامہ رضی الله عنه حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے لیے ہر افطار کے وقت (دوزخ سے) آزاد کیے جانے والے لوگ ہوتے ہیں۔
117. وَفِي مُسْنَدِ أَحْمَدَ: عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: إِنَّ لِلَّهِ تعالیٰ عُتَقَاءَ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ. يَعْنِي فِي رَمَضَانَ- لِكُلِّ عَبْدٍ مِنْهُمْ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2: 254، الرقم: 7443، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 3: 143.
’مسند احمد‘ میں ایک اور جگہ مروی ہے: حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رمضان کے ہر دن اور ہر رات میں اللہ تعالیٰ کے لیے (ہاں )دوزخ سے آزادی پانے والے لوگ ہوتے ہیں۔ ہر رات ہر بندے کے لیے ایک دعا کی قبولیت ہوتی ہے۔
118. وَفِي سُنَنِ التِّرْمِذِيِّ وَابْنِ مَاجَه: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ صُفِّدَتِ الشَّيَاطِيْنُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ، وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ، وَيُنَادِي مُنَادٍ: يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ، أَقْبِلْ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ، أَقْصِرْ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ.
أخرجه الترمذي في السنن، كتاب الصوم، باب ما جاء في فضل شهر رمضان، 3: 66، الرقم: 682، وابن ماجه في السنن، كتاب الصيام، باب ما جاء في فضل شهر رمضان، 1: 526، الرقم: 1642.
اسی طرح ’سنن ترمذی‘ اور ’سنن ابن ماجہ‘ میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا؛ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی بند نہیں کیا جاتا۔ ایک ندا دینے والا پکارتا ہے: اے خیر کے طالب! قدم بڑھا؛ اے شر کے متلاشی! رک جا۔ یوں اللہ تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد فرما دیتا ہے اور یہ عمل یونہی ساری رات جاری رہتا ہے۔
وَالصَّحِيْحُ أَنَّ عَدَدَ الْعُتَقَاءِ غَيْرُ مُقَيَّدٍ بِعَدَدٍ مُعَيَّنٍ، وَجَاءَ تَحْدِيْدُهُ فِي بَعْضِ الْأَحَادِيْثِ بِسِتِّمِائَةِ أَلْفٍ، وَفِي بَعْضِهَا بِسِتِّيْنَ أَلْفًا، وَفِي بَعْضِهَا بَأَلْفِ أَلْفٍ، وَلَكِنْ تِلْكَ الْأَحَادِيْثُ ضَعِيْفَةٌ مُضْطَرِبَةٌ لَا يَصِحُّ الْاِعْتِمَادُ عَلَيْهَا.
صحیح قول یہ ہے کہ جہنم سے آزادی پانے والوں کی تعداد معین نہیں ہے، بلکہ لا تعداد ہے۔ بعض احادیث میں اس کی تحدید وارد ہوئی ہے، مثلاً بعض میں چھ لاکھ، بعض میں ساٹھ ہزار اور بعض میں دس لاکھ تک آئی ہے، لیکن یہ تمام احادیث ضعیف اور مضطرب ہیں اور ان پر اعتماد کرنا صحیح نہیں۔
تَنْبِيْهٌ: شَرْطُ مَنْ يُعْتِقُهُ اللہُ فِي رَمَضَانَ أَلَّا يُفْطِرَ عَلَى مُحَرَّمٍ، فَإِنْ أَفْطَرَ عَلَى مُحَرَّمٍ لَمْ يَكُنْ لَهُ فِي الْإِعْتَاقِ نَصِيْبٌ، لِمَا جَاءَ فِي الْمُعْجَمِ الصَّغِيْرِ لِلطَّبَرَانِيِّ:
تنبیہ: دوزخ سے آزادی پانے کے لیے یہ شرط ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے رمضان میں جہنم سے آزاد فرماتا ہے وہ کسی حرام چیز سے روزہ افطار نہ کرے، اگر اُس نے کسی حرام چیز سے روزہ افطار کیا تو اُس کے لیے اس آزادی میں کوئی حصہ نہیں، جیسا کہ امام طبرانی نے المعجم الصغیر میں روایت کیا ہے:
119. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: إِنَّ لِلَّهِ تَعَالَى عُتَقَاءَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ إِلَّا رَجُلًا أَفْطَرَ عَلَى خَمْرٍ.
أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 1: 264، الرقم: 434، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 3: 156.
حضرت انس رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ماہِ رمضان کی ہر رات جہنم سے آزادی عطا فرماتا ہے، سوائے اس شخص کے جس نے شراب سے روزہ افطار کیا ہو۔
وَمِنْهَا: فَتْحُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، وَإِغْلَاقُ أَبْوَابِ جَهَنَّمَ، وَتَصْفِيْدُ الشَّيَاطِيْنَ، وَقَدْ تَقَدَّمَ الْكَلَامُ عَلَيْهَا قَرِيْبًا.
ان میں سے ایک جنت کے دروازوں کا کھولا جانا، جہنم کے دروازوں کا بند کر دیا جانا اور شیاطین کو قید کر دیا جانا شامل ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو آپ گزشتہ صفحات میں ملاحظہ فرماچکے ہیں۔
وَمِنْهَا: اِسْتِجَابَةُ الدُّعَاءِ:
ان میں ایک دعا کی قبولیت بھی ہے:
120. رَوَى الطَّبَرَانِيُّ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضی الله عنه: أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ قَالَ يَوْمًا وَحَضَرَ رَمَضَانُ: أَتَاكُمْ رَمَضَانُ شَهْرُ بَرَكَةٍ، يَغْشَاكُمُ اللہُ فِيْهِ، فَيُنْزِلُ الرَّحْمَةَ، وَيَحُطُّ الْخَطَايَا، وَيَسْتَجِيْبُ فِيْهِ الدُّعَاءَ، يَنْظُرُ اللہُ تَعَالَى إِلَى تَنَافُسِكُمْ فِيْهِ، وَيُبَاهِي بِكُمْ مَلَائِكَتَهُ، فَأَرُوا اللہَ مِنْ أَنْفُسِكُمْ خَيْرًا، فَإِنَّ الشَّقِيَّ مَنْ حُرِمَ فِيْهِ رَحْمَةَ اللہِ تعالیٰ.
أخرجه الطبراني في مسند الشاميين، 3: 271، الرقم: 2238، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 60، الرقم: 1490، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3: 142.
امام طبرانی نے روایت بیان کی ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی الله عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فرمایا جبکہ رمضان المبارک شروع ہو چکا تھا: تمہارے پاس برکتوں والا مہینہ رمضان آگیا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ تمہیں (اپنی رحمت سے) ڈھانپ لیتا ہے۔ چنانچہ وہ (اس مہینے میں بارانِ) رحمت کانزول فرماتا ہے، گناہوں کو مٹاتا ہے اور دعائیں قبول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مہینے میں نیکی کی طرف تمہارے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے (کے جذبے، شوق اور ساعی)کو ملاحظہ فرماتا ہے اور اپنے فرشتوں کے سامنے تم پر فخر فرماتا ہے۔ لہٰذا تم اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خیر کر کے دکھاؤ کیونکہ بدبخت ہے وہ شخص جو اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کر دیا گیا۔
121. وَفِي الْمُسْنَدِ وَسُنَنِ التِّرْمِذِيِّ وَابْنِ مَاجَه عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: ثَلَاثَةٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ: اَلصَّائِمُ حَتَّى يُفْطِرَ، وَالإِمَامُ الْعَادِلُ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ. يَرْفَعُهَا اللہُ فَوْقَ الْغَمَامِ، وَيَفْتَحُ لَهَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ، وَيَقُوْلُ الرَّبُّ: وَعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِيْنٍ.
حَسَّنَهُ التِّرْمِذِيُّ وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2: 304، الرقم: 8030، والترمذي في السنن، كتاب الدعوات، باب في العفو والعافية، 5: 578، الرقم: 3598، وابن ماجه في السنن، كتاب الصيام، باب في الصائم لا ترد دعوته، 1: 557، الرقم: 1752، وابن حبان في الصحيح، 8: 214-215، الرقم: 3428.
'مسند احمد'، ’سنن ترمذی‘ اور ’سنن ابن ماجہ‘ میں روایت ہے: حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین آدمیوں کی دعا ردّ نہیں ہوتی: روزہ دار کی روزہ افطار کرنے تک، عادل حکمران اور مظلوم کی دعا۔ اللہتعالیٰ اس کو بادلوں سے بھی اوپر اٹھاتا ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اللہتعالیٰ فرماتا ہے: مجھے اپنی عزت کی قسم! میں ضرور تیری مدد کروں گا اگرچہ ایک مدت کے بعد ہو۔
امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے، جبکہ امام ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔
122. وَفِي سُنَنِ ابْنِ مَاجَهْ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةً مَا تُرَدُّ. قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو رضی الله عنه يَقُوْلُ إِذَا أَفْطَرَ: اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِي.
أخرجه ابن ماجه في السنن، كتاب الصيام، باب في الصائم لا ترد دعوته، 1: 557، الرقم: 1753، والطبراني في الدعاء، 1: 286، الرقم: 919، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 53، الرقم: 1469.
’سنن ابن ماجہ‘ میں ہے: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنه کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: افطار کے وقت روزہ دار کی دعا ردّ نہیں کی جاتی۔ ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں: میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی الله عنه کو افطار کے وقت یہ دعا مانگتے ہوئے سنا ہے: (اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِك الَّتِي وَسِعَتْ کُلَّ شَيْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِي) ’اے اللہ! میں تمام کائنات سے وسیع تیری رحمت کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میری بخشش فرما دے‘۔
123. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: أُعْطِيَتْ أُمَّتِي خَمْسَ خِصَالٍ فِي رَمَضَانَ، لَمْ تُعْطَهَا أُمَّةٌ قَبْلَهُمْ: خُلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللہِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ، وَتَسْتَغْفِرُ لَهُمُ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُفْطِرُوْا، وَيُزَيِّنُ اللہُ تعالیٰ كُلَّ يَوْمٍ جَنَّتَهُ، ثُمَّ يَقُوْلُ: يُوْشِكُ عِبَادِيَ الصَّالِحُوْنَ أَنْ يُلْقُوا عَنْهُمُ الْمَئُوْنَةَ وَالْأَذَى وَيَصِيرُوا إِلَيْكِ، وَيُصَفَّدُ فِيْهِ مَرَدَةُ الشَّيَاطِيْنِ، فَلَا يَخْلُصُوْا (فِيْهِ) إِلَى مَا كَانُوا يَخْلُصُونَ إِلَيْهِ فِي غَيْرِهِ، وَيُغْفَرُ لَهُمْ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ. قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللہِ، أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ قَالَ: لاَ، وَلَكِنَّ الْعَامِلَ إِنَّمَا يُوَفَّى أَجْرُهُ إِذَا قَضَى عَمَلَهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَذَكَرَهُ الْمُنْذِرِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ وَالْهِنْدِيُّ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2: 292، الرقم: 7904، وابن عبد البر في التمهيد، 16: 153، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 56، الرقم: 1477، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3: 140، والهندي في كنز العمال، 8: 219، الرقم: 23708.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: میری امت کو ماہِ رمضان میں پانچ ایسی خوبیاں (خصوصیات و نوازشات) عطا کی گئی ہیں جو پہلے کسی امت کے حصے میں نہیں آئیں: 1۔ روزہ دار کے منہ سے آنے والی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے بھی عمدہ(پاک اور پسندیدہ) ہے۔ 2۔ فرشتے افطاری کرنے تک ان کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں۔ (3) اللہ تعالیٰ ہر روز اپنی جنت کو خوب سجاتا(آرائش و زیبائش کرتا) ہے، پھر فرماتاہے: عنقریب میرے صالح بندے سختی اور تکلیف سے چھٹکارا پا کر تیری طرف آئیں گے۔ (4) اس (ماہِ مبارک) میں سرکش شیاطین کو باندھ دیا جاتا ہے، لہٰذا انہیں اس میں اس قدر آزادی میسر نہیں ہوتی جس قدر دیگر مہینوں میں حاصل ہوتی ہے۔ (5) جب (رمضان المبارک) کی آخری رات ہوتی ہے تو انہیں بخش دیا جاتاہے۔ عرض کیاگیا: یا رسول اللہ! کیا یہ لیلۃ القدر ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ مزدور جب اپنے کام سے فارغ ہو جاتا ہے تو اسے اس کی پوری اُجرت دی جاتی ہے۔
اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے جب کہ منذری، ہیثمی اور ہندی نے بیان کیا ہے۔
124. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وَرَواهُ أَحْمَدُ بِزِيَادَةٍ: وَمَا تَأَخَّرَ. وَإِسْنَادُ هَذِهِ الزِّيَادَةِ صَحِيْحٌ أَيْضًا.
أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الإيمان، باب صوم رمضان احتسابا من الإيمان، 1: 22، الرقم: 38، ومسلم في الصحيح، كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح، 1: 523، الرقم: 760، وأبوداود في السنن، كتاب الصلاة، باب في قيام شهر رمضان، 2: 49، الرقم: 1372، والنسائي في السنن، كتاب الصيام، باب ثواب من قام رمضان وصامه إيمانًا واحتسابا، 4: 157، الرقم: 2206، وابن ماجه في السنن، كتاب الصيام، باب ما جاء في فضل شهر رمضان، 1: 526، الرقم: 1641.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص ایمان کے ساتھ اور خالصتًا اللہ کی رضا چاہتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے گا اُس کے سابقہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔۔
امام احمد بن حنبل نے وَمَا تَأَخَّرَ کے الفاظ کا اس روایت میں اضافہ کیا ہے۔ اس اضافہ کی سند بھی صحیح ہے۔
ققَالَ الْخَطَّابِيُّ: قَوْلُهُ ﷺ: إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا؛ أَيْ: نِيَّةً وَعَزِيْمَةً، وَهُوَ أَنْ يَصُوْمَهُ عَلَى التَّصْدِيْقِ وَالرَّغْبَةِ فِي ثَوَابِهِ طَيِّبَةً بِهِ نَفْسُهُ غَيْرَ كَارِهٍ لَهُ، وَلَا مُسْتَثْقِلٍ لِصِيَامِهِ وَلَا مُسْتَطِيْلٍ لِأَيَّامِهِ، لَكِنْ يَغْتَنِمُ طُوْلَ أَيَّامِهِ لِعِظَمِ الثَّوَابِ.
ذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 55.
علامہ خطابی نے کہا ہے: آپ ﷺ کے فرمان: «إیْمَانًا وَاحْتِسَابًا» سے مراد نیّت اور عزیمت ہے۔ مطلب یہ کہ روزے دار روزہ پر یقین اور اس کے ثواب میں رغبت کے ساتھ روزہ رکھے، اُس روزہ کے بارے میں اس کے نفس میں کوئی ملال نہ ہو۔ نہ ہی وہ اس روزہ کو ناپسند کرنے والا، نہ اس کو بوجھ سمجھنے والا اور نہ اس کے دنوں کو طویل سمجھنے والا ہو، بلکہ وہ اس روزہ کے دنوں کی طوالت کو غنیمت جانے کہ اس کا ثواب بھی زیادہ ہوگا۔
وَقَالَ الْبَغَوِيُّ: قَوْلُهُ ﷺ: اِحْتِسَابًا أَي طَلَبًا لِوَجْهِ اللہِ تَعَالَى وَثَوَابِهِ. يُقَالُ: فُلَانٌ يَحْتَسِبُ الْأَخْبَارَ وَيَتَحَسَّبُهَا أَي يَتَطَلَّبُهَا.
ذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 55.
امام بغوی نے کہا ہے: آپ ﷺ کے فرمان: احتساباً سے مراد اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے ثواب کا طلب کرنا ہے۔ کہا جاتا ہے: ’فلانٌ یحتسب الأخبار ویتحسبها‘ یعنی وہ اخبار کو طلب کرتا ہے اور اُن کی ٹوہ میں رہتا ہے۔
وَاخْتُلِفَ فِي الذُّنُوْبِ الَّتِي يُكَفِّرُهَا صَوْمُ رَمَضَانَ. هَلْ هِيَ الصَّغَائِرُ وَالْكَبَائِرُ أَوِ الصَّغَائِرُ فَقَطْ؟ جَزَمَ بِالْأَوَّلِ ابْنُ الْمُنْذِرِ، وَإِلَيْهِ مَيْلُ الْأُبَيِّ، وَجَزَمَ بِالثَّانِي إِمَامُ الْحَرَمَيْنِ، وَعَزَاهُ النَّوَوِيُّ لِلْفُقَهَاءِ، وَدَلِيْلُهُمْ مَا رَوَاهُ مُسْلِمٌ فِي ‹‹صَحِيْحِهِ››: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: اَلصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعَةِ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ، مُكَفِّرَاتٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ. فَقَيَّدَ تَكْفِيْرَ الذُّنُوْبِ فِي هَذَا الْحَدِيْثِ بِاجْتِنَابِ الْكَبَائِرِ.
أخرجه مسلم في الصحيح، كتاب الطهارة، باب الصلوات الخمس والجمعة إلى الجمعة ورمضان إلى رمضان مكفرات لما بينهن ما اجتنبت الكبائر، 1: 209، الرقم: 233، وأحمد بن حنبل في المسند، 2: 359، الرقم: 8700، والترمذي في السنن، كتاب الطهارة، باب ما جاء في فضل الصلوات الخمس، 1: 418، الرقم: 214، وابن ماجه في السنن، كتاب الطهارة وسننها، باب تحت كل شعرة جنابة، 1: 196، الرقم: 598، وابن حبان في الصحيح، 5: 24، الرقم: 1733، والحاكم في المستدرك، 1: 207، الرقم: 412.
اس بات میں اختلاف ہے کہ وہ کون سے گناہ ہیں جن کو رمضان کے روزے مٹا دیتے ہیں، کیا وہ گناہ صغیرہ اور کبیرہ دونوں ہیں یا صرف صغیرہ ہیں؟ پہلے قول کو ابن المنذر نے اختیار کیا ہے، جبکہ أبي نے بھی اسی طرف رجوع کیا ہے۔ دوسرے قول کی امام الحرمین نے تاکید کی ہے، جبکہ امام نووی نے اس کو فقہاء کی طرف منسوب کیا ہے۔ اس کی دلیل وہ حدیث مبارک ہے جسے امام مسلم نے اپنی الصحیح میں روایت کیا ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانچوں نمازیں، جمعہ اگلے جمعہ تک اور رمضان اگلے رمضان تک، سب درمیانی عرصہ کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں بشرطیکہ انسان اس دوران کبیرہ گناہوں سے بچا رہے۔ اِس حدیث مبارک میں بھی گناہوں کی معافی، کبیرہ گناہوں سے بچنے کی قید کے ساتھ خاص ہے۔
قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ حَجَرٍ: وَهُوَ. أَي التَّكْفِيْرُ الْمَذْكُوْرُ- فِي حَقِّ مَنْ لَهُ كَبَائِرُ وَصَغَائِرُ. فَمَنْ لَيْسَ لَهُ إِلَّا صَغَائِرُ كُفِّرَتْ عَنْهُمْ، وَمَنْ لَيْسَ لَهُ إِلَّا كَبَائِرُ خُفِّفَ عَنْهُ مِنْهَا بِمِقْدَارِ مَا لِصَاحِبِ الصَّغَائِرِ، وَمَنْ لَيْسَ لَهُ صَغَائِرُ وَلَا كَبَائِرُ يَزْدَادُ فِي حَسَنَاتِهِ بِنَظِيْرِ ذَلِكَ.
ابن حجر العسقلاني في فتح الباري، 1: 260-261.
حافظ ابن حجر العسقلانی بیان کرتے ہیں: وہ یعنی گناہوں کا مذکورہ کفارہ، ہر اُس شخص کے لیے ہے جس کے صغیرہ گناہ ہوں یا کبیرہ۔ جس کے صرف صغیرہ گناہ ہوں گے وہ اُس سے مٹا دیے جائیں گے، جس کے کبیرہ گناہ ہوں گے اُس کے گناہوں میں صغیرہ گناہوں والے کے برابر تخفیف کر دی جائے گی۔ جس کے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں میں سے کوئی گناہ نہیں ہو گا تو اُس کی نیکیوں میں اضافہ کر دیا جائے گا۔
تَنْبِيْهٌ: إِنَّمَا يُكَفِّرُ صَوْمُ رَمَضَانَ الذُّنُوْبَ- كُلَّهَا أَوْ بَعْضَهَا عَلَى الْخِلَافِ- إِذَا رَاعَى الصَّائِمُ حُدُوْدَهُ وَحَافَظَ عَلَى شَرَائِطِهِ، لِمَا ثَبَتَ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ يَقُوْلُ: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَعَرَفَ حُدُوْدَهُ وَتَحَفَّظَ مِمَّا كَانَ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَتَحَفَّظَ فِيْهِ كَفَّرَ مَا كَانَ قَبْلَهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ فِي الْمُسْنَدِ، وَابْنُ حِبَّانَ فِي صَحِيْحِهِ، وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الشُّعَبِ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3: 55، الرقم: 11541، وابن حبان في الصحيح، 8: 219، الرقم: 3433، والبيهقي في شعب الإيمان، 3: 310، الرقم: 3623.
آگاہ رہیں! رمضان کے روزے گناہوں کے مٹانے کا سبب ہیں چاہے تمام کے تمام معاف ہو جائیں یا اُن میں سے بعض، لیکن یہ صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب روزہ دار اِس کی حدود کی حفاظت کرے اور اس کی شرائط کو پورا کرے۔ یہ بات اِس حدیث مبارک سے ثابت ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنه روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے رمضان کے روزے رکھے، اس کی حدود کا لحاظ کیا، اُس چیز کی حفاظت کی جس کی حفاظت اُس کے ذمہ لازم تھی تو وہ (رمضان کے روزے) اُس کے سابقہ گناہ مٹا دیں گے۔
اِسے امام احمد نے ’المسند‘ میں، ابن حبان نے ’الصحیح‘ میں اور بیہقی نے ’شعب الإیمان‘ میں روایت کیا ہے۔
125. عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنه، أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ قَالَ: اَلصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُوْلُ الصِّيَامُ: أَي رَبِّ، مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ؛ وَيَقُوْلُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيْهِ. قَالَ: فَيُشَفَّعَانِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاكِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَذَكَرَهُ الْمُنْذِرِيُّ، وَقَالَ الْحَاكِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2: 174، الرقم: 6626، والحاكم في المستدرك، 1: 740، الرقم: 2036، والبيهقي في شعب الإيمان، 2: 346، الرقم: 1994، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 50، الرقم: 1455، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3: 181.
حضرت عبد اللہ بن عمرو (بن العاص) رضی الله عنهما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: روزہ اور قرآن دونوں روزِ قیامت بندۂ (مومن) کے لیے شفاعت کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! میں نے دن کے وقت اس کو کھانے اور خواہشاتِ نفسانی سے روکے رکھا، لہٰذا اِس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما؛ قرآن کہے گا: میں نے رات کے وقت اسے نیند سے روکے رکھا، لہٰذا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ آپ ﷺ نے فرمایا: دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی۔
اِسے امام احمد، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے اور منذری نے ذکر کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا ہے: یہ حدیث صحیح ہے۔
126. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ، لَمْ يُجْزِهِ صِيَامُ الدَّهْرِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه وَالدَّارَ قُطْنِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ وَإِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2: 442، الرقم: 9704، وابن ماجه في السنن، كتاب الصيام، باب ما جاء في الصوم في السفر، 1: 535، الرقم: 1672، الرقم: 9704، والدارقطني في السنن، 2: 211، الرقم: 29، وابن أبي شيبة في المصنف، 2: 347، الرقم: 9783، 9784، وفي 3: 110، الرقم: 12569، والبيهقي في السنن الكبرى، 4: 228، الرقم: 7855، وإسحاق بن راهويه في المسند، 1: 296، الرقم: 273.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے بغیر عذر کے ماہِ رمضان کا ایک روزہ چھوڑا تو عمر بھر کے روزے بھی اس کا بدل نہیں ہو سکتے۔
اِسے امام احمد بن حنبل، ابن ماجہ، دارقطنی، ابن ابی شیبہ، بیہقی اور اسحاق بن راھویہ نے روایت کیا ہے۔
127. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ: آمِيْنَ، آمِيْنَ، آمِيْنَ. قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللہِ ﷺ، إِنَّكَ حِيْنَ صَعِدْتَ الْمِنْبَرَ، قُلْتَ: آمِيْنَ، آمِيْنَ، آمِيْنَ. قَالَ: إِنَّ جِبْرِيْلَ أَتَانِي، فَقَالَ: مَنْ أَدْرَكَ شَهْرَ رَمَضَانَ، وَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ، فَدَخَلَ النَّارَ، فَأَبْعَدَهُ اللہُ. قُلْ: آمِيْنَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. وَمَنْ أَدْرَكَ أَبَوَيْهِ أَوْ أَحَدَهُمَا، فَلَمْ يَبَرَّهُمَا، فَمَاتَ، فَدَخَلَ النَّارَ، فَأَبْعَدَهُ اللہُ. قُلْ: آمِيْنَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. وَمَنْ ذُكِرْتَ عِنْدَهُ، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْكَ، فَمَاتَ، فَدَخَلَ النَّارَ، فَأَبْعَدَهُ اللہُ. قُلْ: آمِيْنَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَأَبُوْ يَعْلَى وَالْبُخَارِيُّ فِي ‹‹الْأَدَبِ››. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ: رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِأَسَانِيْدَ، أَحَدُهَا حَسَنٌ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ الْبَزَّارُ عَنْ شَيْخِهِ مُحَمَّدِ بْنِ حَوَانٍ وَلَمْ أَعْرِفْهُ وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ وُثِّقُوْا.
أخرجه ابن حبان في الصحيح، 3: 188، الرقم: 907، وابن خزيمة في الصحيح، 3: 192، الرقم: 1888، وأبو يعلى في المسند، 10: 328، الرقم: 5922، والبزار في المسند، 4: 240، الرقم: 1405، والبخاري في الأدب المفرد، 1: 225، الرقم: 646، والطبراني في المعجم الأوسط، 4: 162، الرقم: 3871، وأيضاً، 9: 17، الرقم: 8994، وفي المعجم الكبير، 2: 243، الرقم: 2022، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 3: 218، الرقم: 3761، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3: 139، 10: 164.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه روایت کرتے ہیں کہ (ایک دِن) حضور نبی اکرم ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا: آمین، آمین، آمین۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! (کیا وجہ ہے کہ) جب آپ منبر پر جلوہ گر ہوئے تو آپ نے (خلافِ معمول)فرمایا: آمین، آمین، آمین۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جبریل امین میرے پاس آئے اور کہا: جس شخص نے رمضان کا مہینہ پایا لیکن اس کی بخشش نہ ہوئی اور (اس کے نتیجے میں) وہ دوزخ میں داخل ہوگیا (یعنی رمضان سے فائدہ نہ اٹھایا) تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اپنی رحمت سے دور کرے۔ جبریل نے مجھ سے کہا: آپ اس پر ’آمین‘ کہیں۔ لہٰذا میں نے ’آمین‘ کہا۔ (پھر جبریل علیه السلام نے کہا:) جس نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش نہ آیا اور مرنے کے بعد (اس وجہ سے) جہنم کی آگ میں داخل ہو گیا، اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کرے۔ (جبریل علیه السلام نے کہا کہ) آپ اس پر ’آمین‘ کہیں۔ میں نے ’آمین‘ کہا۔ (جبریل علیه السلام نے پھر کہا کہ) وہ شخص جس کے سامنے آپ کا ذکر کیا گیا اور اس نے آپ پر درود نہ بھیجا اور وہ مرنے کے بعد (اِس بدبختی کے باعث) جہنم کی آگ میں داخل ہوا تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کرے۔ آپ اس پر ’آمین‘ کہیں، تو میں نے اس پر بھی ’آمین‘ کہا۔
اِسے امام ابن حبان، ابن خزیمہ، ابویعلیٰ اور بخاری نے ’الأدب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا کہ اسے امام طبرانی نے کئی اسناد سے روایت کیا ہے، ان میں سے ایک سند حسن ہے۔ اور امام ہیثمی نے فرمایا ہے: اسے امام بزار نے اپنے شیخ محمد بن حوان سے روایت کیا ہے، جنہیں میں نہیں جانتا جبکہ اس کے بقیہ تمام رجال کو ثقہ قرار دیا گیا ہے۔
128. عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: إِنَّ لِلّٰهِ تعالیٰ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ سِتَّمِائَةِ أَلْفِ عَتِيْقٍ مِنَ النَّارِ، فَإِذَا كَانَ آخِرُ لَيْلَةٍ أَعْتَقَ بِعَدَدِ مَنْ مَضَى.
رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي ‹‹شُعَبِ الإِيْمَانِ›› وَ‹‹فَضَائِلِ الأَوْقَاتِ››، وَقَالَ: هَكَذَا جَاءَ مُرْسَلًا.
أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 3: 303، رقم: 3604، وأيضاً في فضائل الأوقات، 1: 171، الرقم: 25، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 63، الرقم: 1499.
امام حسن بصری سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی طرف سے رمضان المبارک کی ہر رات میں چھ لاکھ لوگ جہنم سے رہا ہوتے ہیں اور جب آخری رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ پہلے سے رہا کردہ افراد کی تعداد کے برابر مزید لوگوں کو جہنم سے رہائی عطا فرماتا ہے۔
اِسے امام بیہقی نے ’شعب الایمان‘ اور ’فضائل الأوقات‘ میں روایت کیا اور کہا ہے: یہ حدیث مبارک اسی طرح مرسل روایت ہوئی ہے۔
وَلَا شَكَّ أَنَّ الْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ تُضَاعَفُ بِحَسَبِ الشَّخْصِ وَالزَّمَانِ وَالْمَكَانِ، فَالْحَسَنَةُ فِي نَفْسِهَا حَسَنَةٌ، وَلَكِنَّهَا مِنْ رِجَالِ الدِّيْنِ وَأَهْلِ الْحِكَمِ أَحْسَنُ؛ وَالسَّيِّئَةُ فِي نَفْسِهَا سَيِّئَةٌ وَلَكِنَّهَا مِمَّنْ يُقْتَدَى بِهِ أَسْوَأُ. وَكَذَلِكَ بِالنِّسْبَةِ لِلْمَكَانِ وَالزَّمَانِ. وَلِهَذَا كَانَتِ الْحَسَنَاتُ وَالسَّيِّئَاتُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ مُضَاعَفَةً، لِحُرْمَةِ هَذَا الشَّهْرِ الْعَظِيْمِ.
اس میں کوئی شک نہیں کہ نیکیاں اور برائیاں کسی بھی شخص، زمان اور مکان کے حساب سے بڑھتی ہیں۔ نیکی فی نفسہٖ نیکی ہے لیکن دین دار اور صاحبِ حکمت لوگوں سے اس کا ظہور زیادہ اچھا ہے۔ برائی فی نفسہٖ برائی ہے لیکن جس کی پیروی کی جائے اُس کی برائی زیادہ قباحت کی حامل ہے۔ اسی طرح (نیکی اور بدی) زمان اور مکان کی نسبت سے بھی زیادہ اور کم ہوتی ہے۔ رمضان کے مہینے میں اس کی حرمت کی وجہ سے نیکیاں اور برائیاں بھی (اپنے اجر یا سزا کے اعتبار سے) بڑھ جاتی ہیں۔
129. فَفِي مُعْجَمَي الطَّبَرَانِيِّ الأَوْسَطِ وَالصَّغِيْرِ عَنْ أُمِّ هَانِيءٍ رضی الله عنها، قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: إِنَّ أُمَّتِي لَنْ تَخْزَى مَا أَقَامُوْا صِيَامَ رَمَضَانَ. قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللہِ، وَمَا خِزْيُهُمْ فِي إِضَاعَةِ شَهْرِ رَمَضَانَ؟ قَالَ: انْتِهَاكُ الْمَحَارِمِ فِيْهِ، مَنْ عَمِلَ فِيْهِ زِنًى أَوْ شَرِبَ خَمْرًا لَعَنَهُ اللہُ، وَمَنْ فِي السَّمَوَاتِ إِلَى مِثْلِهِ مِنَ الْحَوْلِ، فَإِنْ مَاتَ قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَ شَهْرَ رَمَضَانَ، فَلَيْسَتْ لَهُ عِنْدَ اللہِ حَسَنَةٌ يَتَّقِي بِهَا النَّارَ، فَاتَّقُوْا شَهْرَ رَمَضَانَ، فَإِنَّ الْحَسَنَاتِ تُضَاعَفُ فِيْهِ مَا لَا تُضَاعَفُ فِيْمَا سِوَاهُ، وَكَذَلِكَ السَّيِّئَاتُ.
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5: 112، الرقم: 4827، وأيضًا في المعجم الصغير، 2: 16، الرقم: 697، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 10: 428، وذكره الهيثمي في مجمع الزوائد، 3: 144.
امام طبرانی کی ’المعجم الأوسط‘ اور ’المعجم الصغیر‘ میں ہے: حضرت اُم ہانی رضی الله عنها بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری اُمت کبھی رسوا نہیں ہوگی جب تک وہ رمضان کے مہینے (کی حرمت و تعظیم) کو قائم رکھے گی۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ماہِ رمضان کو ضائع کرنے کے سبب ان کی کیا رسوائی ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس میں حرام کاموں کا ارتکاب ہونے لگے گا، لہٰذا جو اس مبارک مہینے میں زنا کرے گا یا شراب پیے گا، اللہ تعالیٰ اُس پر لعنت فرمائے گا اور آسمانوں میں موجود (فرشتے) بھی اس پر اِسی طرح سال بھر لعنت کریں گے۔ اگر وہ اس حال میں فوت ہو گیا کہ اگلا رمضان نہ پا سکا تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اُس کی کوئی نیکی نہیں ہوگی جو اُسے دوزخ سے بچا سکے۔ لہٰذا رمضان کے مہینے میں تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرو، بے شک اس میں نیکیاں ایسے بڑھتی ہیں کہ اس کے علاوہ کسی مہینے میں نہیں بڑھتیں۔ اِسی طرح بُرائیاں بھی (اسی تناسب سے) بڑھتی ہیں۔
130. أَخْرَجَ الْحَاكِمُ عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: أُحْضُرُوا الْمِنْبَرَ، فَحَضَرْنَا، فَلَمَّا ارْتَقَى دَرَجَةً قَالَ: آمِيْنَ. فَلَمَّا ارْتَقَى الدَّرَجَةَ الثَّانِيَةَ، قَالَ: آمِيْنَ. فَلَمَّا ارْتَقَى الدَّرَجَةَ الثَّالِثَةَ، قَالَ: آمِيْنَ. فَلَمَّا نَزَلَ، قُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اللہِ، لَقَدْ سَمِعْنَا مِنْكَ الْيَوْمَ شَيْئًا مَا كُنَّا نَسْمَعُهُ. قَالَ: إِنَّ جِبْرِيْلَ علیه السلام عَرْضَ لِي فَقَالَ: بُعْدًا لِمَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ. قُلْتُ: آمِيْنَ. فَلَمَّا رَقِيْتُ الثَّانِيَةَ، قَالَ: بُعْدًا لِمَنْ ذُكِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْكَ. فَقُلْتُ: آمِيْنَ. فَلَمَّا رَقِيْتُ الثَّالِثَةَ قَالَ: بُعْدًا لِمَنْ أَدْرَكَ أَبْوَاهُ الْكِبَرَ عِنْدَهُ أَوْ أَحَدُهُمَا، فلَمْ يُدْخِلَاهُ الْجَنَّةَ. أَظُنُّهُ قَالَ: فَقُلْتُ: آمِينَ.
رَوَاهُ الْحَاكِمُ وَصَحَّحَهُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه الحاكم في المستدرك، 4: 170، الرقم: 7256، والبيهقي في شعب الإيمان، 2: 215، الرقم: 1572، وذكره المنذري في الترغيب والترهيب، 2: 56، الرقم: 1479.
امام حاکم نے حضرت کعب بن عجرہ رضی الله عنه سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: منبر کے پاس حاضر ہو جاؤ۔ ہم حاضر ہوئے، جب آپ ﷺ نے پہلی سیڑھی پر پاؤں رکھا تو فرمایا: آمین، جب دوسری سیڑھی پر پاؤں رکھا تو فرمایا: آمین، جب تیسری سیڑھی پر پاؤں رکھا تو فرمایا: آمین۔ جب آپ ﷺ منبر سے نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے آج آپ سے وہ بات سنی ہے جو اس سے قبل کبھی نہیں سنی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جبریل علیه السلام میرے پاس حاضر ہوئے تھے اور وہ کہنے لگے: وہ شخص دور ہو جس نے ماہِ رمضان پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوسکی۔ اس پر میں نے آمین کہا۔ جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو جبریل علیه السلام نے فرمایا: وہ شخص دور ہو جس کے پاس آپ کا ذکر کیا جائے اور وہ آپ پر درود نہ پڑھے۔ میں نے کہا: آمین۔ وہ شخص دور ہو جس نے ماں باپ دونوں کو پایا، یا ان میں سے کسی ایک کو پایا اور وہ اُسے جنت میں داخل نہ کر سکے۔ روای کہتے ہیں: میرا گمان ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے کہا: آمین۔
اِسے امام حاکم نے روایت کرتے ہوئے صحیح قرار دیا ہے، جب کہ امام بیہقی نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
نَقَلَ ابْنُ الْعَرَبِيِّ عَنْ بَعْضِ الزُّهَّادِ: إِنَّ الصَّوْمَ عَلَى أَرْبَعَةِ أَنْوَاعٍ:
ابن العربی نے بعض اہلِ زُہد سے نقل کیا ہے کہ روزہ کی چار اقسام ہیں:
صِيَامُ الْعَوَامِّ: وَهُوَ الصَّوْمُ عَنِ الْأَكْلِ وَالشُّرْبِ وَالْجِمَاعِ.
عامۃ الناس کا روزہ: یہ روزہ کھانے پینے اور جماع سے رک جانا ہے۔
وَصِيَامُ خَوَاصِّ الْعَوَامِّ: وَهُوَ هَذَا مَعَ اجْتِنَابِ الْمُحَرَّمَاتِ مِنْ قَوْلٍ أَوْ فِعْلٍ.
خواص العوام کا روزہ: یہ روزہ مذکورہ چیزوں کے ساتھ ساتھ زبان اور افعال میں سے منع کردہ حرام اُمور سے رک جانا ہے۔
وَصِيَامُ الْخَوَاصِّ: وَهُوَ الصَّوْمُ عَنْ غَيْرِ ذِكْرِ اللہِ وَعِبَادَتِهِ.
خواص کا روزہ: یہ روزہ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اُس کی عبادت کے علاوہ ہر کام سے رک جانا ہے۔
وَصِيَامُ خَوَاصِّ الْخَوَاصِّ: وَهُوَ الصَّوْمُ عَنْ غَيْرِ اللہِ فَلَا فِطْرَ لَهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.
ذكره العسقلاني في فتح الباري، 4: 109.
خواص الخواص کا روزہ: یہ روزہ غیر اللہ سے رک جانا ہے، اور قیامت تک اس کا اِفطار نہیں ہے۔
وَهَذَا النَّوْعُ الْأَخِيْرُ أَحَدُ مَا أُوِّلَ بِهِ قَوْلُهُ فِي الْحَدِيْثِ الْقُدْسِيِّ السَّابِقِ: اَلصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ. أَيْ صَوْمُ خَوَاصِّ الْخَوَاصِّ، ِلأَنَّهُ صِيَامٌ عَنْ جَمِيْعِ الْكَائِنَاتِ، وَفِطْرٌ عَلَى مُشَاهَدَةِ خَالِقِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهَذَا مَقَامٌ عَالٍ كَمَا قَالَ الْحَافِظُ، فَلَا يَنْبَغِي حَصْرُ الْمُرَادِ مِنَ الْحَدِيْثِ فِيْهِ لِنُدْرَةِ وُقُوْعِهِ، وَإِنَّمَا يُؤْخَذُ مِنَ الْحَدِيْثِ بِطَرِيْقِ الإِشَارَةِ، وَلَعَلَّ قَائِلَهُ أَرَادَ ذَلِكَ ِلأَنَّهُ مَنْقُوْلٌ عَنْ بَعْضِ الزُّهَّادِ. وَاللہُ أَعْلَمُ.
روزہ کی آخری نوع پیچھے مذکور حدیث قدسی (اَلصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ) کی تاویلوں میں سے ایک تاویل ہے۔ یعنی خواص الخواص کا روزہ چونکہ تمام کائنات (یعنی عمر بھر غیر اللہ سے) رک جانا ہے اور پھر روزِ قیامت اس کائنات کے خالق کے دیدار پر اس کا افطار ہے، یہ بہت بلند مقام ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر العسقلانی نے کہا ہے۔ اس میں حدیث کی مراد کو محصور کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ ایسا کم ہی ہوتا ہے، بلکہ اس حدیث سے اشارتاً اس بات کو سمجھا جائے گا اور شاید اس کے قائل کی بھی یہی مراد ہے، کیونکہ یہی تفصیل بعض زُہاد سے منقول ہے اور اللہ تعالیٰ بہتر جاننے والا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved