(1) لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰـتِهٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ ج وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰـلٍ مُّبِیْنٍo
(آل عمران، 3: 164)
بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (ﷺ) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
(2) یٰٓـاَھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ ط قَدْ جَآئَکُمْ مِّنَ اللهِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌo
(المائدة، 5: 15)
اے اہلِ کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لیے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے در گزر (بھی) فرماتے ہیں۔ بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد ﷺ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)۔
(3) قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ط ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo
(یونس، 10: 58)
فرما دیجیے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیںبہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔
(4) وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰـبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰةِ وَمُبَشِّرًا م بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ ط فَلَمَّا جَآئَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌo
(الصف، 61: 6)
اور (وہ وقت بھی یاد کیجیے) جب عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) نے کہا: اے بنی اسرائیل! بے شک میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اُس رسولِ (معظّم ﷺ کی آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد (ﷺ) ہے، پھر جب وہ (رسولِ آخر الزماں ﷺ) واضح نشانیاں لے کر اُن کے پاس تشریف لے آئے تو وہ کہنے لگے: یہ تو کھلا جادو ہے۔
(5) لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِo وَ اَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِo وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَo
(البلد، 90: 1-3)
میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں۔ (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔ (اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم d) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئی۔ (یعنی آدم کی ذریّتِ صالحہ یا آپ ہی کی ذات گرامی جن کے باعث یہ شہرِ مکہ بھی لائقِ قَسم ٹھہرا ہے۔)
19. عَنْ عُرْوَةَ فِيْ رِوَایَةٍ طَوِیْلَةٍ، قَالَ: وَثُوَیْبَةُ مَوْلَاۃٌ لِأَبِي لَهَبٍ، کَانَ أَبُوْ لَهَبٍ أَعْتَقَهَا، فَأَرْضَعَتِ النَّبِيَّ ﷺ. فَلَمَّا مَاتَ أَبُوْ لَهَبٍ أُرِیَہٗ بَعْضُ أَهْلِهٖ بِشَرِّ حِیْبَةٍ. قَالَ لَہٗ: مَاذَا لَقِیْتَ؟ قَالَ أَبُوْ لَهَبٍ: لَمْ أَلْقَ بَعْدَکُمْ غَیْرَ أَنِّي سُقِیْتُ فِي هٰذِهٖ بِعَتَاقَتِي ثُوَیْبَةَ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْمَرْوَزِيُّ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب النکاح، باب وأمھاتکم اللاتي أرضعنکم، 5: 1961، الرقم: 4813، وعبد الرزاق في المصنف، 7: 478، الرقم: 13955، وأیضًا، 9: 62، الرقم: 16350، والمروزي في السنۃ: 82، الرقم: 290، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1: 108، وابن أبي الدنیا في المنامات، بإسناد حسن: 154، الرقم: 263، والبیہقي في السنن الکبری، 7: 162، الرقم: 13701، وأیضًا في شعب الإیمان، 1: 261، الرقم: 281، وأیضًا في دلائل النبوۃ، 1: 149، والبغوي في شرح السنۃ، 9: 76، الرقم: 2282.
حضرت عروہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی جسے اس نے آزاد کر دیا تھا ۔اُس نے حضور نبی اکرم ﷺ کو دودھ پلایا تھا۔ جب ابو لہب مر گیا تو اُس کے اہلِ خانہ میں سے کسی کے خواب میں وہ نہایت بری حالت میں دکھایا گیا۔ اس (دیکھنے والے) نے اُس سے پوچھا: تمہارا حال کیا ہوا؟ ابو لہب نے کہا: میں بہت سخت عذاب میں ہوں۔ اِس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا۔ البتہ مجھے (ایک عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمد ﷺ کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔
اِسے امام بخاری، عبد الرزاق اور مروزی نے روایت کیا ہے۔
قَالَ الْحَافِظُ شَمْسُ الدِّیْنِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْجَزَرِيُّ فِي تَصْنِیْفِهٖ ’عُرْفُ التَّعْرِیْفِ بِالْمَوْلِدِ الشَّرِیْفِ‘: وَقَدْ رُوِيَ أَبُوْلَهَبٍ بَعْدَ مَوْتِهٖ فِي النَّوْمِ، فَقِیْلَ لَہٗ: مَا حَالُکَ؟ فَقَالَ: فِي النَّارِ، إِلَّا أَنَّہٗ یُخَفَّفُ عَنِّي کُلَّ لَیْلَةِ اثْنَیْنِ، وَأَمُصُّ مِنْ بَیْنِ إِصْبَعَيَّ هَاتَیْنِ مَائً بِقَدْرِ هٰذَا - وَأَشَارَ بِرَأْسِ إِصْبَعِهٖ - وَإِنَّ ذٰلِکَ بِإِعْتَاقِي لِثُوَیْبَةَ عِنْدَ مَا بَشَّرَتْنِي بِوِلَادَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَبِإِرْضَاعِهَا لَہٗ.
فَإِذَا کَانَ أَبُوْ لَهَبٍ الْکَافِرُ الَّذِي نَزَلَ الْقُرْآنُ بِذَمِّهٖ جُوْزِيَ فِي النَّارِ بِفَرَحِهٖ لَیْلَةَ مَوْلِدِ النَّبِيِّ ﷺ بِهٖ، فَمَا حَالُ الْمُسْلِمِ الْمُوَحِّدِ مِنْ أُمَّةِ النَّبِيِّ ﷺ یَسُرُّ بِمَوْلِدِهٖ، وَبَذَلَ مَا تَصِلُ إِلَیْهِ قُدْرَتُہٗ فِي مَحَبَّتِهٖ ﷺ ؟ لَعَمْرِي إِنَّمَا یَکُوْنُ جَزَاؤُہٗ مِنَ اللهِ الْکَرِیْمِ أَنْ یُدْخِلَہٗ بِفَضْلِهٖ جَنَّاتِ النَّعِیْمِ.
ذکرہ السیوطي في الحاوي للفتاوی: 206، وأیضًا في حسن المقصد في عمل المولد: 65-66، والقسطلاني في المواہب اللدنیۃ، 1: 147، والزرقاني في شرح المواہب اللدنیۃ، 1: 260-261، والصالحي في سبل الہدی والرشاد، 1: 366-367، والنبہاني في حجۃ اللہ علی العالمین في معجزات سید المرسلین ﷺ: 237-238.
حافظ شمس الدین محمد بن عبد اللہ الجزری اپنی تصنیف عرف التعریف بالمولد الشریف میں لکھتے ہیں: ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا: اب تیرا کیا حال ہے؟ کہنے لگا: آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن میرے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ اُنگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ (ہر پیر کو) میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے جسے میں پی لیتا ہوں اور یہ تخفیفِ عذاب میرے لیے اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد (ﷺ) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ کو دودھ بھی پلایا تھا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں ابولہب کے عذاب میں تخفیف کر دی گئی حالانکہ اُس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی تھی، تو اُمتِ محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ ﷺ کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ ﷺ کی محبت میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اللہ تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے حبیب مکرّم ﷺ کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت میں داخل فرمائے گا۔
قَالَ الْحَافِظُ عِمَادُ الدِّیْنِ ابْنُ کَثِیْرٍ: أَوَّلُ مَا أَرْضَعَتْهُ ثُوَیْبَةُ مَوْلَاةُ عَمِّهٖ أَبِي لَهَبٍ، وَکَانَتْ قَدْ بَشَّرَتْ عَمَّہٗ بِمِیْلَادِهٖ فَأَعْتَقَهَا عِنْدَ ذٰلِکَ، وَلِهٰذَا لَـمَّـا رَآهُ أَخُوْهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْـمُطَّلِبِ بَعْدَ مَا مَاتَ، وَرَآهُ فِي شَرِّ حَالَةٍ، فَقَالَ لَہٗ: مَا لَقِیْتَ؟ فَقَالَ: لَـمْ أَلْقَ بَعْدَکُمْ خَیْراً، غَیْرَ أَنِّي سُقِیْتُ فِي هٰذِهٖ - وَأَشَارَ إِلَی النُّقْرَةِ الَّتِي فِي الإِبْهَامِ - بِعَتَاقَتِي ثُوَیْبَةَ.
وَأَصْلُ الْـحَدِیْثِ فِي الصَّحِیْحَیْنِ.
فَلَمَّـا کَانَتْ مَوْلَاتُہٗ قَدْ سَقَتِ النَّبِیَّ ﷺ، مِنْ لَبَنِهَا عَادَ نَفْعُ ذٰلِکَ عَلٰی عَمِّهٖ أَبِي لَهَبٍ، فَسُقِيَ بِسَبَبِ ذٰلِکَ، مَعَ أَنَّہٗ الَّذِي أَنْزَلَ اللهُ فِي ذَمِّهٖ سُوْرَۃً فِي الْقُرْآنِ تَامَّۃً.
ابن کثیر في ذکر مولد رسول اللہ ﷺ ورضاعہ: 28-29.
حافظ عماد الدین ابن کثیر بیان کرتے ہیں: سب سے پہلے آپ ﷺ کے چچا ابو لہب کی کنیز ثویبہ نے آپ ﷺ کو دودھ پلایا تھا۔ اُس نے آپ ﷺ کے اِس چچا کو آپ ﷺ کی ولادت کی خوش خبری دی تو اُس نے (اِس خوشی میں) اُسی وقت اُسے آزاد کردیا۔ جب ابو لہب کے مرنے کے بعد اُس کے بھائی حضرت عباس بن عبد المطلب ص نے اُسے خواب میں بری حالت میں دیکھا تو پوچھا: تیرا کیا حال ہے؟ اُس نے کہا: تم سے بچھڑنے کے بعد مجھے کوئی خیر نصیب نہیں ہوئی - اور اپنے انگوٹھے میں موجود ایک چھوٹے سے سوراخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا - سوائے اس کے کہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے مجھے اِس سے پانی پلایا جاتا ہے۔
اصل حدیث ’صحیحین‘ میں ہے۔
جب اپنی ایک خادمہ کے حضور نبی اکرم ﷺ کو دودھ پلانے کے نفع سے آپ ﷺ کے چچا ابو لہب کو محروم نہ رکھا گیا، بلکہ اِس وجہ سے (اُس کے عذاب میں نرمی کرتے ہوئے) اُس کی پیاس بجھانے کا اِنتظام کر دیا گیا، حالاں کہ اِسی چچا کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی تھی۔
قَالَ الْحَافِظُ شَمْسُ الدِّیْنِ مُحَمَّدُ بْنُ نَاصِرِ الدِّیْنِ الدِّمَشْقِيُّ فِي تَصْنِیْفِهٖ ’مَوْرِدُ الصَّادِي فِي مَوْلِدِ الْهَادِي‘: قَدْ صَحَّ أَنَّ أَبَا لَهَبٍ یُخَفَّفُ عَنْهُ عَذَابُ النَّارِ فِي مِثْلِ یَوْمِ الِاثْنَیْنِ لِإِعْتَاقِهٖ ثُوَیْبَةَ سَرُوْرًا بِمِیْـلَادِ النَّبِيِّ ﷺ.
إِذَا کَانَ ھٰذَا کَافِرٌ جَاءَ ذَمُّہٗ
وَتَبَّتْ یَدَاهُ فِي الْجَحِیْمِ مُخَلَّدَا
أَتٰی أَنَّہٗ فِي یَوْمِ الْاِثْنَیْنِ دَائِمًا
یُخَفَّفُ عَنْهُ لِلسَّرُوْرِ بِأَحْمَدَا
فَمَا الظَّنُّ بِالْعَبْدِ الَّذِي طُوْلَ عُمْرِهٖ
بِأَحْمَدَ مَسْرُوْرًا وَمَاتَ مُوَحِّدًا
ذکرہ السیوطي في الحاوي للفتاوی: 206، وأیضًا في حسن المقصد في عمل المولد: 66، والنبہاني في حجۃ اللہ علی العالمین في معجزات سید المرسلین ﷺ : 238.
حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی اپنی تصنیف ’مورد الصادي في مولد الہادي‘ میں فرماتے ہیں: یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کے صلہ میں ہر پیر کے روز ابو لہب کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے۔
لہٰذا: جب ابو لہب جیسے کافر کے لیے - جس کی مذمت قرآن حکیم میںکی گئی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں اُس کے ہاتھ ٹوٹتے رہیں گے - حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد کی خوشی منانے کی وجہ سے ہر سوموار کو اُس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے، تو اس شخص کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے جس نے اپنی ساری عمر حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد کی خوشی منائی اور توحید پر فوت ہوا۔
قَالَ الْحَافِظُ الْعَسْقَـلَانِيُّ فِي الْفَتْحِ: وَذَکَرَ السُّھَیْلِيُّ أَنَّ الْعَبَّاسَ رضی اللہ عنہ قَالَ: لَمَّا مَاتَ أَبُوْ لَھَبٍ رَأَیْتُہٗ فِي مَنَامِي بَعْدَ حَوْلٍ فِي شَرِّ حَالٍ، فَقَالَ: مَا لَقِیْتُ بَعْدَکُمْ رَاحَۃً إِلاَّ أَنَّ الْعَذَابَ یُخَفَّفُ عَنِّي کُلَّ یَوْمِ اثْنَیْنِ. قَالَ: وَذٰلِکَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وُلِدَ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ وَکَانَتْ ثُوَیْبَةُ بَشَّرَتْ أَبَا لَھَبٍ بِمَوْلِدِهٖ فَأَعْتَقَھَا.
العسقلاني في فتح الباري، 9: 145ـ
حافظ (ابن حجر) عسقلانی نے امام سہیلی کے حوالے سے فتح الباری میں یوں بیان کیا ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ابو لہب مر گیا تو میں نے اسے ایک سال بعد خواب میں بہت برے حال میں دیکھا اور یہ کہتے ہوئے پایا کہ تمہاری جدائی کے بعد مجھے آرام نصیب نہیں ہوا بلکہ سخت عذاب میں گرفتار ہوں۔ لیکن جب (ہر ہفتے میں) پیر کا دن آتا ہے تو میرے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت مبارکہ پیر کے دن ہوئی تھی، جب ثویبہ نے اس روز ابو لہب کو آپ ﷺ کی ولادت کی خوشخبری سنائی تو اس نے (حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی میں) اُسے آزاد کر دیا تھا (اسی ایک عمل کے باعث اس کافر کے عذاب میں بھی تخفیف ہوتی ہے)۔
قَالَ الْقَسْطَلَانِيُّ: وَقَدْ رُؤِيَ أَبُوْلَهَبٍ بَعْدَ مَوْتِهٖ فِي النَّوْمِ، فَقِیْلَ لَہٗ: مَا حَالُکَ؟ فَقَالَ: فِي النَّارِ، إِلَّا أَنَّہٗ خُفِّفَ عَنِّي کُلَّ لَیْلَةِ اثْنَیْنِ، وَأَمُصُّ مِنْ بَیْنِ أُصْبُعَيَّ هَاتَیْنِ مَائً - وَأَشَارَ بِرَأْسِ أُصْبُعِهٖ - وَأَنَّ ذٰلِکَ بِإِعْتَاقِي لِثُوَیْبَةَ عِنْدَمَا بَشَّرَتْنِي بِوِلَادَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَبِإِرْضَاعِهَا لَہٗ.
قَالَ ابْنُ الْـجَوْزِيِّ: فَإِذَا کَانَ هٰذَا أَبُوْلَهَبٍ الْکَافِرُ الَّذِي نَزَلَ الْقُرآنُ بِذَمِّهٖ جُوْزِيَ فِي النَّارِ بِفَرَحِهٖ ِلَیْلَةَ مَوْلِدِ النَّبِيِّ ﷺ بِهٖ، فَمَـا حَالُ الْـمُسْلِمِ الْـمُوَحِّدِ مِنْ أُمَّتِهٖ یَسُرُّ بِمَوْلِدِهٖ، وَیَبْذُلُ مَا تَصِلُ إِلَیْهِ قُدْرَتُہٗ فِي مَحَبَّتِهٖ ﷺ ؟ لَعَمْرِي! إِنَّمَـا یَکُوْنُ جَزَاؤُہٗ مِنَ اللهِ الْکَرِیْمِ أَنْ یُدْخِلَہٗ بِفَضْلِهِ الْعَمِیْمِ جَنَّاتِ النَّعِیْمِ.
وَلَا زَالَ أَهْلُ الْإِسْلَامِ یَحْتَفِلُوْنَ بِشَهْرِ مَوْلِدِهٖ، وَیَعْمَلُوْنَ الْوَلَائِمَ، وَیَتَصَدَّقُوْنَ فِی لَیَالِیْهِ بِأَنْوَاعِ الصَّدَقَاتِ، وَیُظْهِرُوْنَ السُّرُوْرَ وَیَزِیْدُوْنَ فِی الْـمَبَرَّاتِ. وَیَعْتَنُوْنَ بِقِرَائَةِ مَوْلِدِهِ الْکَرِیْمِ، وَیَظْهَرُ عَلَیْهِمْ مِنْ بَرَکَاتِهٖ کُلُّ فَضْلٍ عَظِیْمٍ.
وَمِـمَّـا جُرِّبَ مِنْ خَوَاصِّهٖ أَنَّہٗ أَمَانٌ فِي ذٰلِکَ الْعَامِّ، وَبُشْرٰی عَاجِلَۃٌ بِنَیْلِ الْبُغْیَةِ وَالْـمَرَامِ، فَرَحِمَ اللهُ امْرَئًا اتَّخَذَ لَیَالِـيَ شَهْرِ مَوْلِدِهِ الْـمُبَارَکِ أَعْیَادًا، لِیَکُوْنَ أَشَدَّ عِلَّۃً عَلٰی مَنْ فِي قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَأَعْیَا دَاءٍ.
القسطلاني في المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، 1: 147-148، والزرقاني في شرح المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، 1: 260-263، والنبھاني في حجۃ اللہ علی العالمین في معجزات سید المرسلین ﷺ: 233-234.
امام قسطلانی فرماتے ہیں: ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا: تیرا کیا حال ہے؟ اُس نے کہا: آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کی شب (میرے عذاب میں) تخفیف کر دی جاتی ہے اور - اُنگلی کے اشارہ سے کہنے لگا کہ - میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی نکلتا ہے جسے میں پی لیتا ہوں اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لیے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا، جب اس نے مجھے نبی (ﷺ) کی ولادت کی خوش خبری دی تھی اور اس کے سبب بھی کہ اُس نے آپ کو دودھ بھی پلایا تھا۔
علامہ ابن جوزی کہتے ہیں: جب حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میںبھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل سورت) نازل ہوئی ہے، تو اُمت محمدیہ کے اُس توحید پرست مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ ﷺ کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ ﷺ کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اللہ تعالیٰ ایسے مسلمان کو (اپنے حبیب مکرّم ﷺ کی خوشی منانے کے طفیل) اپنے بے پناہ فضل کے ساتھ اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔
ہمیشہ سے اہلِ اسلام حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے مہینے میں خوشی مناتے آئے ہیں۔ وہ اس ماهِ مبارک میں دعوتوں کا اِہتمام کرتے ہیں اور اِس کی راتوں میں انواع و اقسام کے صدقات و خیرات بھی کرتے ہیں۔ اِظہارِ مسرت اور نیکیوں میں کثرت کرتے ہیں اور میلاد شریف کے بیان کے لیے محافل وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان اہل محبت و عقیدت پر میلاد شریف کی برکات سے ہر طرح کے فضلِ عظیم کا ظہور ہوتا ہے۔
محافلِ میلاد شریف کے مجربات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس سال میلاد منایا جائے اُس سال امن قائم رہتا ہے، نیز (یہ عمل) نیک مقاصد اور دلی خواہشات کی فوری تکمیل میں بشارت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے ماهِ میلاد النبی ﷺ کی راتوں کو (بھی) بطور عید منا کر اس کی شدتِ مرض میں اضافہ کیا جس کے دل میں (بغضِ رسالت مآب ﷺ کے سبب پہلے ہی خطرناک) بیماری ہے۔
قَالَ ابْنُ حَجَرٍ الْھَیْتَمِيُّ الْمَکِّيُّ فِي مَوْلَدِ النَّبِيِّ: أَوَّلُ مَنْ أَرْضَعَتْهُ ثُوَیْبَةُ مَوْلَاةُ عَمِّهٖ أَبِـي لَهَبٍ، أَعْتَقَهَا لَـمَّـا بَشَّرَتْهُ بِوِلَادَتِهٖ فَخَفَّفَ اللهُ عَنْهُ مِنْ عَذَابِهٖ کُلَّ لَیْلَةِ اثْنَیْنِ جَزَائً لِفَرَحِهٖ فِیْهَا بِمَوْلِدِهٖ ﷺ.
ابن حجر الہیتمي في مولد النبی ﷺ: 27.
ابن حجر ہیتمی المکی اپنی کتاب ’مولد النبی ﷺ‘ میں لکھتے ہیں: سب سے پہلے آپ ﷺ کے چچا ابو لہب کی کنیز ثویبہ نے آپ ﷺ کو دودھ پلایا تھا۔ جب اُس (ثویبہ) نے اُسے (ابو لہب کو) آپ ﷺ کی ولادت کی خوش خبری سنائی تو اُس نے اُسے آزاد کردیا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ہر سوموار کی رات ابو لہب کے عذاب میں تخفیف کردی اس لیے کہ اُس نے حبیبِ خدا ﷺ کی ولادت کا سن کر خوشی کا اِظہار کیا تھا۔
قَالَ الشَّیْخُ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْوَهَابِ النَّجَدِيُّ فِي شَرْحِ مُخْتَصَرِ سِیْرَةِ الرَّسُوْلِ: وَأَرْضَعَتْهُ ﷺ ثُوَیْبَةُ عَتِیْقَةُ أَبِـي لَهَبٍ، أَعْتَقَهَا حِیْنَ بَشَّرَتْهُ بِوِلَادَتِهٖ ﷺ. وَقَدْ رُؤِیَ أَبُوْلَهَبٍ بَعْدَ مَوْتِهٖ فِي النَّوْمِ، فَقِیْلَ لَہٗ: مَا حَالُکَ؟ فَقَالَ: فِـي النَّارِ، إِلَّا أَنَّہٗ خُفِّفَ عَنِّي کُلَّ اثْنَیْنِ، وَأَمُصُّ مِنْ بَیْنِ أُصْبُعَيَّ هَاتَیْنِ مَاءً - وَأَشَارَ بِرَأْسِ أُصْبُعِهٖ - وَإِنَّ ذٰلِکَ بِإِعْتَاقِي لِثُوَیْبَةَ عِنْدَمَا بَشَّرَتْنِی بِوِلَادَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَبِإِرْضَاعِهَا لَہٗ.
قَالَ ابْنُ الْـجَوْزِيِّ: فَإِذَا کَانَ هٰذَا أَبُوْلَهَبٍ الْکَافِرُ الَّذِي نَزَلَ الْقُرْآنَ بِذَمِّهٖ جُوْزِيَ بِفَرَحِهٖ لَیْلَةَ مَوْلِدِ النَّبِيِّ ﷺ بِهٖ، فَمَـا حَالُ الْـمُسْلِمِ الْـمُوَحِّدِ مِنْ أُمَّتِهٖ یَسُرُّ بِمَوْلِدِهٖ.
عبد اللہ في مختصر سیرۃ الرسول ﷺ: 13.
شیخ عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب نجدی (اپنے والد عبد الوہاب نجدی کی کتاب) مختصر سیرۃ الرسول کی شرح میں لکھتا ہے: ابو لہب کی باندی ثویبہ نے آپ ﷺ کو دودھ پلایا اور جب اُس نے آپ ﷺ کی پیدائش کی خبر سنائی تو ابولہب نے اُسے آزاد کر دیا۔ پھر ابو لہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا: اب تیرا کیا حال ہے؟ اُس نے کہا: آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر سوموار کو (میرے عذاب میں) تخفیف کر دی جاتی ہے اور - اُنگلی کے اشارہ سے کہنے لگا کہ - میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا ہوں)، اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لیے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد (ﷺ) کی ولادت کی خوش خبری دی اور اس نے آپ ﷺ کو دودھ بھی پلایا تھا۔
ابن جوزی کہتے ہیں: جب حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں ہر شبِ میلاد اُس ابولہب کو بھی جزا دی جاتی ہے جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم میں (ایک مکمل) سورت نازل ہوئی ہے تو آپ ﷺ کی اُمت کے اُس توحید پرست مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ ﷺ کے میلاد کی خوشی مناتا ہے۔
20. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: وُلِدَ النَّبِيُّ ﷺ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ، وَاسْتُنْبِئَ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ، وَخَرَجَ مُھَاجِرًا مِنْ مَکَّةَ إِلَی الْمَدِیْنَةِ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ، وَقَدِمَ الْمَدِیْنَةَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ، وَرَفَعَ الْحَجَرَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ. وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَفِیْهِ ابْنُ لَهِیْعَةَ وَهُوَ ضَعِیْفٌ وَبَقِیَّهُ رِجَالِهٖ ثِقَاتٌ مِنْ أَهْلِ الصَّحِیْحِ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 1: 277، الرقم: 2506، وفي المسائل، 1: 59، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 3: 67، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 1: 196، والطبري في جامع البیان، 6: 84، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 2: 14، والطبري في تاریخ الأمم والملوک، 2: 5، 241، وابن کثیر في البدایۃ والنھایۃ، 2: 260، 3: 177، والفاکھي في أخبار مکۃ، 4: 6، الرقم: 2298، وابن عبد البر في الاستیعاب، 1: 47، والسیوطي في الخصائص الکبری، 2: 473.
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی (ماهِ ربیع الاوّل میں) پیر کے روز ولادت ہوئی، اور پیر کے روز ہی آپ ﷺ کو شرفِ نبوت بخشا گیا اور آپ ﷺ نے پیر کے روز ہی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ پھر پیر کے روز ہی مدینہ منورہ میں آپ ﷺ کی تشریف آوری ہوئی اور حجر اسود اٹھانے کا واقعہ بھی پیر کے روز ہی پیش آیا۔
اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اِسے امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں ابن لھیعہ نامی راوی کے علاوہ باقی تمام رجال ثقہ اور صحیح مسلم کے رجال میں سے ہیں۔
21. وَفِي رِوایَةِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ رضی اللہ عنہ قَالَ: وُلِدَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَامَ الْفِیْلِ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ لِاثْنَتَي عَشَرَ لَیْلَۃً مَضَتْ مِنْ شَھْرِ رَبِیْعِ الْأَوَّلِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ إِسْحَاقَ وَالْبَیْھَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ.
أخرجہ الحاکم في المستدرک، 2: 659، الرقم: 4182، وابن حبان في الثقات، 1: 15، والبیھقي في شعب الإیمان، 2: 135، الرقم: 1387، وأیضًا في دلائل النبوۃ، 1: 74، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 3: 73، وابن جریر في تاریخ الأمم والملوک، 1: 453، والکلاعي في الاکتفاء، 1: 131، وابن إسحاق في السیرۃ النبویۃ: 591-594، وابن ہشام في السیرۃ النبویۃ، 1: 293.
ایک روایت میں حضرت محمد بن اسحاق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عام الفیل میں پیر کے روز بارہ ربیع الاول کو اس دنیا میں تشریف لائے۔
اسے امام حاکم، ابن حبان، ابن اسحاق اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
22. وَفِي رِوایَةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الأَنْصَارِيِّ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَا: وُلِدَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَوْمَ الْفِیْلِ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ الثَّانِي عَشَرَ مِنْ شَهْرِ رَبِیْعِ الأَوَّلِ، وَفِیْهِ بُعِثَ، وَفِیْهِ عُرِجَ إِلَی السَّمَائِ، وَفِیْهِ هَاجَرَ، وَفِیْهِ مَاتَ ﷺ.
رَوَاهُ الْحُسَیْنُ بْنُ إِبْرَاهِیْمَ الْجَوْرَقَانِيُّ وَلَمْ یَجْرَحْهُ.
أخرجہ الجورقاني الہمذاني في الأباطیل والمناکیر والصحاح والمشاہیر، کتاب الفضائل، باب فضل النبي ﷺ: 27، الرقم: 122.
حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما دونوں نے بیان فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی ولادتِ مبارکہ عام الفیل، پیر کے روز بارہ ربیع الاول کو ہوئی، اسی روز آپ ﷺ کو شرفِ نبوت سے سرفراز کیا گیا، اسی روز آپ ﷺ کو معراج کرائی گئی، اسی دن آپ ﷺ نے ہجرت فرمائی، اسی روز آپ ﷺ کا وصال مبارک ہوا۔
اسے حسین بن ابراہیم الجورقانی نے بغیر کسی جرح کے روایت کیا ہے۔
23. عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَةَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنِّي عَبْدُ اللهِ لَخَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَإِنَّ آدَمَ علیه السلام لَمُنْجَدِلٌ فِي طِیْنَتِهٖ وَسَأُنَبِّئُکُمْ بِأَوَّلِ ذٰلِکَ
دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاھِیْمَ وَبِشَارَةُ عِیْسٰی بِي وَرُؤْیَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ، وَکَذٰلِکَ أُمَّهَاتُ النَّبِیِّیْنَ تَرَیْنَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِیْرِ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 4: 127، 128، الرقم: 17190، 17203، وابن حبان في الصحیح، 14: 313، الرقم: 6404، والحاکم في المستدرک، 2: 656، الرقم: 4175، والطبراني في المعجم الکبیر، 18: 252، 253، الرقم: 629، 630، والبیہقي في شعب الإیمان، 2: 134، الرقم: 1385، والبخاري في التاریخ الکبیر، 6: 68، الرقم: 1736.
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور اس کے ہاں اس وقت سے خاتم النبیین (آخری نبی) ہوں جب کہ آدم علیہ السلام ابھی مٹی کے خمیر میں تھے اور میں تمہیں اس امر کی تعبیر بتاتا ہوں کہ میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا (کا نتیجہ) ہوں، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں، پھر اپنی والدہ ماجدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے دیکھا اور انبیاء کرام کی مائیں اسی طرح کے خواب دیکھتی ہیں۔
اِسے امام احمد، ابن حبان، حاکم اور بخاری نے ’التاریخ الکبیر‘ میں روایت کیا ہے۔
24. وَفِي رِوَایِةِ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، أَنَّھُمْ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَخْبِرْنَا عَنْ نَفْسِکَ. قَالَ: نَعَمْ، أَنَا دَعْوَةُ أَبِيْ إِبْرَاهِیْمَ، وَبَشَّرَ بِي عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ، وَرَأَتْ أُمِّي حِیْنَ وَضَعَتْنِي خَرَجَ مِنْھَا نُورٌ أَضَاءَ تْ لَہٗ قُصُوْرُ الشَّامِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ وَالْبَیْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِسْنَادِ، وَأَقَرَّهُ الذَّھَبِيُّ.
أخرجہ الحاکم في المستدرک، 2: 656، الرقم: 4174، وابن سعد في الطبقات، 1: 150، والبیہقي في دلائل النبوۃ، 1: 83، وابن عساکر في تاریخ دمشق الکبیر، 1: 170، 3: 393، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 2: 131، والطبري في جامع البیان، 1: 556، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 4: 361، والسمرقندي في تفسیرہ، 3: 421، والطبري في تاریخ الأمم والملوک، 1: 458، وابن إسحاق في السیرۃ النبویۃ، 1: 28، وابن ہشام في السیرۃ النبویۃ، 1: 302، والحلبي في السیرۃ الحلبیۃ، 1: 77.
حضرت خالد بن معدان، رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان الله علیهم اجمعین سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم سے اپنی ذاتِ اقدس کے بارے میں کچھ ارشاد فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے میری ہی بشارت دی تھی اور میری ولادت کے وقت میری والدہ محترمہ نے اپنے بدن سے ایک نور نکلتے دیکھا تھا جس سے ان پر شام کے محلات روشن ہو گئے تھے (میں وہی نور ہوں)۔
اِسے امام حاکم، ابن سعد، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے کہا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور امام ذہبی نے ان کی تائید کی ہے۔
25. وَفِي رِوایَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَمَّا أَذْنَبَ آدَمُ علیه السلام الذَّنْبَ الَّذِي أَذْنَبَہٗ رَفَعَ رَأْسَہٗ إِلَی الْعَرْشِ فَقَالَ: أَسَأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ ﷺ إِلَّا غَفَرْتَ فَأَوْحَی اللهُ إِلَیْهِ: وَمَا مُحَمَّدٌ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ: تَبَارَکَ اسْمُکَ. لَمَّا خَلَقْتَنِي رَفَعْتُ رَأْسِي إِلٰی عَرْشِکَ فَرَأَیْتُ فِیْهِ مَکْتُوْبًا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ، فَعَلِمْتُ أَنَّہٗ لَیْسَ أَحَدٌ أَعْظَمَ عِنْدَکَ قَدْرًا مِمَّنْ جَعَلْتَ اسْمَہٗ مَعَ اسْمِکَ. فَأَوْحَی اللهُ إِلَیْهِ: یَا آدَمُ، إِنَّہٗ آخِرُ النَّبِیِّیْنَ مِنْ ذُرِّیَّتِکَ، وَإِنَّ أُمَّتَہٗ آخِرُ الْأُمَمِ مِنْ ذُرِّیَّتِکَ. وَلَوْلَاهُ، یَا آدَمُ مَا خَلَقْتُکَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
أخرجہ الطبراني في المعجم الصغیر، 2: 182، الرقم: 992، وأیضًا في المعجم الأوسط، 6: 313، الرقم: 6502، والہیثمي في مجمع الزوائد، 8: 253، والسیوطي في جامع الأحادیث، 11: 94.
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب حضرت آدم علیہ السلام سے بھول سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے: (یا اللہ!) میں (تیرے محبوب) محمد ﷺ کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے معاف فرما دے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی: یہ محمد ﷺ کون ہیں (یعنی تو انہیں کیسے جانتا ہے؟) حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا: (اے مولا!) تیرا نام پاک ہے۔ جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا، وہاں میں نے ’لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللہِ‘ لکھا ہوا دیکھا۔ میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی ہستی ہے جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی: اے آدم! وہ (محمد ﷺ) تیری نسل میں سے آخری نبی ہیں اور ان کی امت بھی تیری نسل کی آخری امت ہو گی، اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔
اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
26. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی اللہ عنہ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ ﷺ بِأُنَاسٍ مِنَ الْیَهُوْدِ قَدْ صَامُوْا یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ، فَقَالَ: مَا هٰذَا مِنَ الصَّوْمِ؟ قَالُوْا: هٰذَا الْیَوْمُ الَّذِي نَجَّی اللهُ مُوْسٰی وَبَنِي إِسْرَائِیلَ مِنَ الْغَرَقِ، وَغَرَّقَ فِیْهِ فِرْعَوْنَ، وَهٰذَا یَوْمٌ اسْتَوَتْ فِیْهِ السَّفِیْنَةُ عَلَی الْجُوْدِيِّ، فَصَامَہٗ نُوْحٌ وَمُوْسٰی شُکْرًا ِلِلّٰهِ تَعَالٰی. فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: أَنَا أَحَقُّ بِمُوْسٰی وَأَحَقُّ بِصَوْمِ هٰذَا الْیَوْمِ. فَأَمَرَ أَصْحَابَہٗ بِالصَّوْمِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2: 359-360، الرقم: 8702، وذکرہ العسقلاني في فتح الباري، 4: 247.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ یہود کے چند لوگوں کے پاس سے گزرے جو کہ عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے تھے۔ آپ ﷺ نے اُن سے پوچھاـ: یہ کس چیز کا روزہ ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا: یہ وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو دریا میں غرق ہونے سے بچایا اور فرعون کو غرق کر دیا اور یہ وہ دن ہے جس میں جودی پہاڑ پر کشتی ٹھہری تو حضرت نوح اور موسیٰ d نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا۔ اِس پر حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں حضرت موسیٰ کا زیادہ حق دار ہوں اور میں اِس دن روزہ رکھنے کا زیادہ حق رکھتا ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان الله علیهم اجمعین کو بھی اُس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
وَقَدْ سُئِلَ شَیْخُ الإِسْلَامِ حَافِظُ الْعَصْرِ أَبُو الْفَضْلِ ابْنُ حَجَرٍ عَنْ عَمَلِ الْمَوْلِدِ، فَأَجَابَ بِمَا نَصُّہٗ: قَالَ: وَقَدْ ظَھَرَ لِي تَخْرِیْجُھَا عَلٰی أَصْلٍ ثَابِتٍ، وَھُوَ مَا ثَبَتَ فِي الصَّحِیْحَیْنِ مِنْ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَدِمَ الْمَدِیْنَةَ، فَوَجَدَ الْیَهُوْدَ یَصُوْمُوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ، فَسَأَلَھُمْ، فَقَالُوْا: ھُوَ یَوْمٌ أَغْرَقَ اللهُ فِیْهِ فِرْعَوْنَ، وَنَجّٰی مُوْسٰی، فَنَحْنُ نَصُوْمُہٗ شُکْرًا ِلِلّٰهِ تَعَالٰی.
فَیُسْتَفَادُ مِنْهُ فِعْلُ الشُّکْرِ ِلِلّٰهِ تَعَالٰی عَلٰی مَا مَنَّ بِهٖ فِي یَوْمٍ مُعَیَّنٍ مِنْ إِسْدَائِ نِعْمَةٍ، أَوْ دَفْعِ نِقْمَةٍ، وَیُعَادُ ذٰلِکَ فِي نَظِیْرِ ذٰلِکَ الْیَوْمِ مِنْ کُلِّ سَنَةٍ.
وَالشُّکْرُ ِلِلّٰهِ تَعَالٰی یُحْصَلُ بِأَنْوَاعِ الْعِبَادَاتِ کَالسُّجُوْدِ وَالصِّیَامِ وَالصَّدَقَةِ وَالتِّـلَاوَةِ، وَأَيُّ نِعْمَةٍ أَعْظَمُ مِنَ النِّعْمَةِ بِبُرُوْزِ ھٰذَا النَّبِيِّ ﷺ الَّذِي ھُوَ نَبِيُّ الرَّحْمَةِ فِي ذٰلِکَ الْیَوْمِ.
وَعَلٰی هٰذَا فَیَنْبَغِي أَنْ یُتَحَرَّی الْیَوْمَ بِعَیْنِهٖ، حَتّٰی یُطَابِقَ قِصَّةَ مَوْسٰی علیه السلام فِي یَوْمِ عَاشُوْرَاءَ.
وَمَنْ لَـمْ یُـلَاحِظْ ذٰلِکَ لَا یُبَالِـي بِعَمَلِ الْـمَوْلِدِ فِي أَيِّ یَوْمٍ فِي الشَّهْرِ، بَلَ تَوَسَّعَ قَوْمٌ حَتّٰی نَقَلُوْهُ إِلٰـی یَوْمٍ مِنَ السَّنَةِ. وَفِیْهِ مَا فِیْهِ. فَهٰذَا مَا یَتَعَلَّقُ بِأَصْلِ عَمَلِ الْـمَوْلِدِ.
وَأَمَّا مَا یُعْمَلُ فِیْهِ فَیَنْبَغِی أَنْ یُقْتَصَرَ فِیْهِ عَلٰی مَا یُفْهَمُ الشُّکْرُ ِلِلّٰهِ تَعَالٰی مِنْ نَحْوِ مَا تَقَدَّمَ ذِکْرُہٗ مِنَ التِّـلَاوَةِ، وَالْإِطْعَامِ، وَالصَّدَقَةِ، وَإِنْشَادِ شَيئٍ مِنَ الْـمَدَائِحِ النَّبَوِیَّةِ وَالزُّهْدِیَّةِ الْـمُحَرِّکَةِ لِلْقُلُوْبِ إِلٰی فِعْلِ الْـخَیْرَاتِ وَالْعَمَلِ لِلآخِرَةِ.
ذکرہ السیوطي في حسن المقصد في عمل المولد: 63-64، وأیضًا في الحاوي للفتاوی: 205-206، والصالحي في سبل الہدی والرشاد في سیرۃ خیر العباد ﷺ، 1: 366، والزرقاني في شرح المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، 1: 263، وأحمد بن زیني دحلان في السیرۃ النبویۃ، 1: 54، والنبہاني في حجۃ اللہ علی العالمین في معجزات سید المرسلین ﷺ : 237.
شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میلاد شریف کے عمل کے حوالہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے اس کا جواب کچھ یوں دیا: میرے نزدیک یومِ میلاد النبی ﷺ منانے کی اَساسی دلیل وہ روایت ہے جسے ’صحیحین‘ میں روایت کیا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے یہود کو یومِ عاشور کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس پر وہ عرض کناں ہوئے کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، سو ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کے لیے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی اِحسان و اِنعام کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کسی معین دن میں اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا مناسب تر ہے۔
اللہ تعالیٰ کا شکر نماز و سجدہ، روزہ، صدقہ اور تلاوتِ قرآن و دیگر عبادات کے ذریعہ بجا لایا جا سکتا ہے اور حضور نبی رحمت ﷺ کی ولادت سے بڑھ کر اللہ کی نعمتوں میں سے کون سی نعمت ہے؟ اس لیے اس دن ضرور شکر بجا لانا چاہیے۔
اس وجہ سے ضروری ہے کہ اسی معین دن کو منایا جائے تاکہ یومِ عاشوراء کے حوالے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ سے مطابقت ہو۔
اور اگر کوئی اس چیز کو ملحوظ نہ رکھے تو میلادِ مصطفی ﷺ کے عمل کو ماہ کے کسی بھی دن منانے میں حرج نہیں بلکہ بعض نے تو اسے یہاں تک وسیع کیا ہے کہ سال میں سے کوئی دن بھی منا لیا جائے۔ پس یہی ہے جو کہ عملِ مولد کی اصل سے متعلق ہے۔
جب کہ وہ چیزیں جن پر عمل کیا جاتا ہے ضروری ہے کہ ان پر اکتفا کیا جائے جس سے شکرِ خداوندی سمجھ آئے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ (ان میں) ذکر، تلاوت، ضیافت، صدقہ، نعتیں، صوفیانہ کلام جو کہ دلوں کو اچھے کاموں کی طرف راغب کرے اور آخرت کی یاد دلائے (وغیرہ جیسے اُمور شامل ہیں)۔
27. عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رضی اللہ عنہ قَالَ: أَخْبَرَتْنِي أُمِّي قَالَتْ: شَھِدْتُ آمِنَةَ رضی اللہ عنها لَمَّا وُلِدَتْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، فَلَمَّا ضَرَبَھَا الْمَخَاضُ نَظَرْتُ إِلَی النُّجُوْمِ تَنَزَّلُ (وَفِي رِوَایِةٍ: تَدَلّٰی) حَتّٰی إِنِّي أَقُوْلُ: لَتَقَعَنَّ عَلَيَّ. فَلَمَّا وَلَدَتْهُ خَرَجَ مِنْھَا نُوْرٌ أَضَاءَ لَهُ الْبَیْتُ الَّذِي نَحْنُ فِیْهِ وَالدَّارُ، فَمَا شَيئٌ أَنْظُرُ إِلَیْهِ إِلَّا نُوْرٌ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَأَبُوْ نُعَیْمٍ.
أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 25: 147، 186، الرقم: 355، 457، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 6: 29، الرقم: 3210، وأبو نعیم في دلائل النبوۃ، 1: 93، والبیھقي في دلائل النبوۃ، 1: 111، والماوردي في أعلام النبوۃ، 1: 273، وذکرہ العسقلاني في تہذیب التہذیب، 7: 117، الرقم: 270، وأیضًا في الإصابۃ، 8: 259، الرقم: 12163، والمزي في تہذیب الکمال، 19: 408، والہیثمي في مجمع الزوائد، 8: 220.
27۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اُن کی والدہ محترمہ نے اُن سے بیان کیا: جب ولادتِ نبوی کا وقت آیا تو میں سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حاضر تھی، میں دیکھ رہی تھی کہ ستارے آسمان سے نیچے کی طرف ڈھلک کے قریب ہو رہے ہیں، یہاں تک کہ میں نے محسوس کیا کہ میرے اوپر آگریں گے۔ اور سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے جسم اطہر سے ایسا نور نکلا جس سے پورا گھر اور حویلی جگمگ کرنے لگی اور مجھے ہر ایک شے میں نور ہی نور نظر آیا۔
اسے امام طبرانی، ابن ابی عاصم اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
28. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما، أَنَّ آمِنَةَ بِنْتَ وَھْبٍ علیها السلام قَالَتْ: لَقَدْ عَلِقْتُ بِهٖ، تَعْنِي رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، فَمَا وَجَدْتُ لَہٗ مَشَقَّۃً حَتّٰی وَضَعْتُہٗ، فَلَمَّا فَصَلَ مِنِّي خَرَجَ مَعَہٗ نُوْرٌ أَضَاءَ لَہٗ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ.
وَفِي رِوَایَةٍ: وَخَرَجَ مَعَہٗ نُوْرٌ أَضَائَتْ لَہٗ قُصُوْرُ الشَّامِ وَأَسْوَاقُھَا، حَتّٰی أَعْنَاقُ الإِبِلِ بِبُصْرٰی.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَابْنُ کَثِیْرٍ.
أخرجہ ابن سعد في الطبقات الکبری، 1: 98، 102، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 3: 79، وابن کثیر في البدایۃ والنھایۃ، 2: 264، وابن الجوزي في صفوۃ الصفوۃ، 1: 52، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1: 72، 79، والحلبي في إنسان العیون، 1: 80.
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدہ آمنہ بنت وہب رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: جب میں رسول اللہ ﷺ سے گراں بار ہوئی، تو مجھے ایسی کوئی دِقت پیش نہ آئی (جو عام طور پر عورتوں کو حمل کے دوران پیش آتی ہے) یہاں تک کہ میں نے آپ ﷺ کو جنم دیا۔ پس جب آپ ﷺ میرے جسم سے جدا ہوئے تو ان کے ساتھ ایک ایسا نور نمودار ہوا جس سے مشرق و مغرب روشن ہو گئے۔
ایک دوسری روایت میں ہے: آپ ﷺ کی ولادت کے ساتھ ہی ایک ایسا نور نمودار ہوا جس سے شام کے محلات اور بازار روشن ہوگئے حتیٰ کہ بصریٰ میں (چلنے والے) اونٹوں کی گردنیں بھی (میرے سامنے) نمودار ہوگئیں۔
اسے امام ابن سعد، ابن عساکر اور ابن کثیر نے روایت کیا ہے۔
وَفِيْ رِوَایَةِ ابْنِ الْقَبْطِیَّةِ فِي مَولِدِ النَّبِيِّ ﷺ: قَالَ: قَالَتْ أُمُّہٗ ﷺ: رَأَیْتُ کَأَنَّ شِھَابًا خَرَجَ مِنِّي أَضَائَتْ لَهُ الْأَرْضُ.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.
أخرجہ ابن سعد في الطبقات الکبری، 1: 102، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1: 79.
حضرت ابن قبطیہ سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت پاک کے حوالے سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ نے فرمایا: (آپ ﷺ کی ولادت کے وقت) میں نے مشاہدہ کیا کہ گویا ایک روشن ستارہ میرے جسم سے نکلا ہے جس سے ساری زمین منور ہو گئی ہے۔
اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
وَفِيْ رِوَایَةِ أَبِي الْعَجْفَائِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قاَلَ: رَأَتْ أُمِّي حِیْنَ وَضَعَتْنِي سَطَعَ مِنْھَا نُوْرٌ أَضَائَتْ لَہٗ قُصُوْرُ بُصْرٰی.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.
أخرجہ ابن سعد في الطبقات الکبری، 1: 102، والسیوطي في الخصائص الکبرٰی، 1: 79، والحلبي في إنسان العیون، 1: 91.
حضرت ابو عجفاء بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری ولادت کے وقت میری والدہ ماجدہ نے دیکھا کہ ان کے جسمِ اقدس سے ایک نور نمودار ہوا ہے، جس سے بصریٰ کے محلات روشن ہو گئے۔
اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
وَفِيْ رِوَایَةِ أَبِي جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ رضوان الله علیهم اجمعین ، قَالَ: أُمِرَتْ آمِنَةُ وَهِيَ حَامِلٌ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ، أَنْ تُسَمِّیَہٗ أَحْمَدَ.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.
أخرجہ ابن سعد في الطبقات الکبری، 1: 98، 104، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1: 72، والحلبي في إنسان العیون، 1: 128.
حضرت ابو جعفر بن محمد بن علی رضوان الله علیهم اجمعین سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کو - جب وہ رسول اللہ ﷺ سے گراں بار تھیں - حکم دیا گیا کہ اپنے ہونے والے بچے کا نام ’اَحمد‘ رکھیں۔
اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
29. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ رضی اللہ عنہ، عَنْ أُمِّهِ الشِّفَائِ بِنْتِ عَمْرٍو قَالَتْ: لَمَّا وَلَدَتْ آمِنَةُ مُحَمَّدًا ﷺ وَقَعَ عَلٰی یَدَيَّ، فَاسْتَهَلَّ، فَسَمِعْتُ قَائِـلًا یَقُوْلُ: رَحِمَکَ رَبُّکَ، قَالَتِ الشِّفَائُ: فَأَضَاءَ لِي مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ حَتّٰی نَظَرْتُ إِلٰی بَعْضِ قُصُوْرِ الشَّامِ، قَالَتْ: ثُمَّ أَلْبَنْتُہٗ وَأَضْجَعْتُہٗ، فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ غَشِیَتْنِي ظُلْمَۃٌ وَرُعْبٌ وَقُشَعْرِیْرَۃٌ، ثُمَّ أُسْفِرَ عَنْ یَمِیْنِي، فَسَمِعْتُ قَائِـلًا یَقُوْلُ: أَیْنَ ذَهَبْتَ بِهٖ؟ قَالَ: ذَهَبْتُ بِهٖ إِلَی الْمَغْرِبِ، قَالَتْ: وَأَسْفَرَ ذٰلِکَ
عَنِّي، عَاوَدَنِي الرُّعْبُ بِهٖ؟ قَالَ: إِلَی الْمَشْرِقِ، وَلَنْ یَعُوْدَا أَبَدًا، فَلَمْ یَزَلِ الْحَدِیْثُ مِنِّي عَلٰی بَالٍ حَتَّی ابْتَعَثَ اللهُ رَسُوْلَہٗ، فَکُنْتُ فِي أَوَّلِ النَّاسِ إِسْـلَامًا.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَیْمٍ.
أخرجہ أبو نعیم في دلائل النبوۃ، 1: 136، الرقم: 77، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1: 80.
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنی والدہ محترمہ حضرت شفاء بنت عمرو رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں، وہ بیان کرتی ہیں: جب حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کو جنم دیا تو آپ ﷺ میرے ہاتھوں پر رونق افروز ہوئے اور کچھ گریہ کیا۔ میں نے سنا کہ کوئی کہہ رہا تھا: اللہ تعالیٰ آپ پر رحمتوں کی برسات کرے۔ حضرت شفاء فرماتی ہیں: اس وقت مجھ پر مشرق سے مغرب تک ساری زمین روشن ہوگئی حتیٰ کہ میں نے شام کے بعض محلات دیکھ لیے۔ وہ بیان فرماتی ہیں کہ پھر میں نے آپ ﷺ کو لباس پہنایا اور بستر پر لٹا دیا، کچھ ہی لمحوں بعد مجھ پر تاریکی، رعب اور لرزہ طاری ہو گیا۔ پھر میری دائیں طرف روشنی ہوئی اور میں نے کسی کی آواز سنی: تم انہیں کہاں لے گئے تھے؟ اس نے جواب دیا: مغرب کی طرف۔ اب پھرمجھ پر بائیں طرف سے رعب و خوف طاری ہوا، پھر روشنی ہوئی اور میں نے کسی کی آواز سنی: تم انہیں کہاں لے گئے تھے؟ اس نے جواب دیا کہ مشرق کی طرف، اب ان کا ذکر وہاں سے کبھی ختم نہ ہوگا۔ حضرت شفاء فرماتی ہیں: یہ واقعہ ہمیشہ میرے دل میں تازہ رہا تا آنکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو بعثت سے سرفراز فرمایا اور میں سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھی۔
اسے امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔
30. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی اللہ عنہ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا طَالِبٍ یُحَدِّثُ أَنَّ آمِنَةَ بِنْتَ وَھْبٍ لَمَّا وَلَدَتِ النَّبِيَّ ﷺ جَائَہٗ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ، فَأَخَذَہٗ وَقَبَّلَہٗ، ثُمَّ دَفَعَہٗ إِلٰی أَبِي طَالِبٍ. فَقَالَ: ھُوَ وَدِیْعَتِي عِنْدَکَ، لَیَکُوْنَنَّ لِاِبْنِي ھٰذَا شَأْنٌ. ثُمَّ أَمَرَ فَنُحِرَتِ الْجَزَائِرُ، وَذُبِحَتِ الشَّائُ، وَأُطْعِمَ أَھْلُ مَکَّةَ ثَـلَاثًا، ثُمَّ نُحِرَ فِي کُلِّ شِعَبٍ مِنْ شِعَابِ مَکَّةَ جَزُوْرًا، لَا یُمْنَعُ مِنْهُ إِنْسَانٌ وَلَا سَبُعٌ وَلَا طَائِرٌ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَیْمٍ.
أخرجہ أبو نعیم في دلائل النبوۃ، 1: 138، الرقم: 81.
30۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو طالب سے سنا۔ وہ بیان کرتے تھے: جب حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے حضور نبی اکرم ﷺ کو جنم دیا تو آپ ﷺ کے جدِ امجد حضرت عبد المطلب تشریف لائے اور آپ ﷺ کو اٹھایا، ماتھے پر بوسہ دیا، پھر حضرت ابو طالب کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا: یہ تمہارے پاس میری امانت ہے، میرے اس بیٹے کی بہت بڑی شان ہوگی۔ پھر حضرت عبد المطلب نے اونٹ اور بکریاں ذبح کروائیں اور تمام اہل مکہ کی تین دن تک ضیافت کی۔ پھر مکہ مکرمہ کی طرف آنے والے ہر راستہ پر اونٹ ذبح کروا کے رکھ دیے جن سے تمام انسانوں، جانوروں او رپرندوں کو گوشت لینے کی اجازت تھی۔
اسے امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔
31. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: فَکَانَ مِنْ دَلَالَاتِ حَمْلِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ کُلَّ دَابَّةٍ کَانَتْ لِقُرَیْشٍ نَطَقَتْ تِلْکَ اللَّیْلَةَ، وَقَالَتْ: حُمِلَ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ، وَهُوَ أَمَانُ الدُّنْیَا وَسِرَاجُ أَهْلِهَا، وَلَمْ یَبْقَ کَاهِنَۃٌ مِنْ قُرَیْشٍ وَلَا قَبِیْلَۃٌ مِنْ قَبَائِلِ الْعَرَبِ إِلَّا حُجِبَتْ عَنْ صَاحِبَتِهَا، وَانْتُزِعَ عِلْمُ الْکَهَنَةِ، وَلَمْ یَکُنْ سَرِیْرُ مَلِکٍ مِنْ مُلُوْکِ الدُّنْیَا إِلَّا أَصْبَحَ مَنْکُوْسًا، وَالْمَلِکُ مُخْرَسًا لَا یَنْطِقُ یَوْمَہٗ ذٰلِکَ، وَمَرَّتْ وُحُوْشُ الْمَشْرِقِ إِلٰی وُحُوْشِ الْمَغْرِبِ بِالْبِشَارَاتِ، وَکَذٰلِکَ الْبِحَارُ یُبَشِّرُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بِهٖ، فِي کُلِّ شَهْرٍ مِنْ شُهُوْرِهٖ، نِدَائٌ فِي الْأَرْضِ وَنِدَائٌ فِي السَّمَائِ: أَنْ أَبْشِرُوْا فَقَدْ آنَ لِأَبِي الْقَاسِمِ أَنْ یَخْرُجَ إِلَی الْأَرْضِ مَیْمُوْنًا مُبَارَکًا.…
قَالَتْ آمِنَةُ رضی اللہ عنها : فَسَمِعْتُ وَجَبَۃً(1) شَدِیْدَۃً وَأَمْرًا عَظِیْمًا، فَهَالَنِي ذٰلِکَ، وَذٰلِکَ یَوْمُ الْاِثْنَیْنِ، فَرَأَیْتُ کَأَنَّ جَنَاحَ طَیْرٍ أَبْیَضَ قَدْ مَسَحَ عَلٰی فُؤَادِي فَذَهَبَ عَنِّي کُلُّ رُعْبٍ، وَکُلُّ فَزَعٍ وَوَجْعٍ کُنْتُ أَجِدُہٗ، ثُمَّ الْتَفَتُّ، فَإذَا أَنَا بِشُرْبَةٍ بَیْضَاءَ وَظَنَنْتُهَا لَبَنًا، وَکُنْتُ عَطْشٰی فَتَنَاوَلْتُهَا فَشَرِبْتُهَا، فَأَضَاءَ مِنِّي نُوْرٌ عَالٍ…
الوجبۃ: السقوط علی الأرض؛ والمراد به هنا: صوت السقوط.
قَالَتْ: فَرَأَیْتُ قِطْعَۃً مِنَ الطَّیْرِ قَدْ أَقْبَلَتْ مِنْ حَیْثُ لَا أَشْعُرُ حَتّٰی غَطَّتْ حُجْرَتِي، مَنَاقِیْرُهَا مِنَ الزُّمُرُّدِ، وَأَجْنِحَتُهَا مِنَ الْیَوَاقِیْتِ، فَکُشِفَ لِي عَنْ بَصَرِي، فَأَبْصَرْتُ سَاعَتِي مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغارِبَهَا، وَرَأَیْتُ ثَـلَاثَ أَعْـلَامٍ مَضْرُوْبَاتٍ، عَلَمٌ فِي الْمَشْرِقِ، وَعَلَمٌ فِي الْمَغْرِبِ، وَعَلَمٌ عَلٰی ظَهْرِ الْکَعْبَةِ.…
قَالَتْ: فَوَلَدْتُ مُحَمَّدًا ﷺ، فَلَمَّا خَرَجَ مِنْ بَطْنِي دُرْتُ فَنَظَرْتُ إِلَیْهِ، فَإِذَا أَنَا بِهٖ سَاجِدٌ قَدْ رَفَعَ إِصْبَعَیْهِ کَالْمُتَضَرِّعِ الْمُبْتَهِلِ، ثُمَّ رَأَیْتُ سَحَابَۃً بَیْضَاءَ قَدْ أَقْبَلَتْ مِنَ السَّمَائِ تَنْزِلُ حَتّٰی غَشِیَتْهُ، فَغِیْبَ عَنْ وَجْهِي. فَسَمِعْتُ مُنَادِیًا یَقُوْلُ: طُوْفُوْا بِمُحَمَّدٍ ﷺ شَرْقَ الْأَرْضِ وَغَرْبِهَا وَأَدْخِلُوْهُ الْبِحَارَ کُلَّهَا لِیَعْرِفُوْهُ بِاسْمِهٖ وَنَعْتِهٖ وَصُوْرَتِهٖ وَیَعْلَمُوْا أَنَّہٗ سُمِّيَ فِیْهَا الْمَاحِي، لَا یَبْقٰی شَيئٌ مِنَ الشِّرْکِ إِلَّا مُحِيَ بِهٖ فِي زَمَنِهٖ، ثُمَّ تَجَلَّتْ عَنْهُ فِي أَسْرَعِ وَقْتٍ، فَإِذَا بِهٖ مُدْرَجٌ فِي ثَوْبِ صُوْفٍ أَبَیْضَ أَشَدَّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَتَحْتَہٗ حَرِیْرَۃٌ خَضْرَائُ، قَدْ قُبِضَ عَلٰی ثَـلَاثِ مَفَاتِیْحَ مِنَ اللُّؤْلُؤِ الرَّطْبِ الْأَبْیَضِ، وَإِذَا قَائِلٌ یَقُوْلُ: قَبَضَ مُحَمَّدٌ عَلٰی مَفَاتِیْحِ النَّصْرِ، وَمَفَاتِیْحِ الرِّیْحِ، وَمَفَاتِیْحِ النُّـبُوَّةِ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَیْمٍ.
أخرجہ أبو نعیم في دلائل النبوۃ، 2: 610-612، الرقم: 555، وذکرہ السیوطي في الخصائص الکبری، 1: 81-83، وابن کثیر في البدایۃ والنھایۃ، 6: 298، والحلبي في إنسان العیون، 1: 109.
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ رحمِ مادر میں تشریف لائے تو اس کی علامات یہ تھیں کہ اس رات قریش کا ہر جانور بول اٹھا اور یوں گویا ہوا: رسول اللہ ﷺ رحم مادر میں جلوہ گر ہو گئے ہیں اور ربِّ کعبہ کی قسم! وہ دنیا کے لیے امان اور اہلِ دنیا کے لیے چراغِ ہدایت ہیں، اس رات قریش کا ہر نجومی اور عاملِ جنات اور عرب کا ہر قبیلہ اپنے جنوں کی ملاقات سے روک دیا گیا ان کے سینوں سے علمِ کہانت چھین لیا گیا، دنیا کے ہر بادشاہ کا تخت اوندھا ہو گیا۔ تمام بادشاہوں کے لبوں پر مہرِ سکوت لگ گئی اور وہ پورا دن کلام نہ کر سکے۔ مشرق و مغرب کے جانور ایک دوسرے کے پاس جا کر اور سمندر کی مچھلیاں باہم مبارکبادیاں دے رہی تھیں۔ پھر ہر مہینے آسمان اور زمین میں ندا کی جاتی رہی: مبارک ہو! جب ابو القاسم (ﷺ) برکت و رحمت کے جلو میں ارض کی طرف مبعوث ہوں گے۔…
حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے (کوئی شے گرنے کی) ایک زوردار آواز سنی جس سے میں ڈر گئی۔ یہ پیر کا دن تھا پھر میں نے دیکھا کہ جیسے کچھ پرندے ہیں جو میرے دل پر اپنے پَر مل رہے ہیں جس سے مجھ پر (چھایا) سارا رعب و خوف جاتا رہا اور درد جو پہلے محسوس ہو رہا تھا جاتا رہا۔ پھر میں نے دیکھا کہ میرے پاس ایک سفید سا شربت پڑا تھا، میں اسے دودھ سمجھی۔ میں چونکہ پیاس محسوس کر رہی تھی میں نے اسے اٹھا کر پی لیا تو مجھ سے ایک بلند تر نور جلوہ گر ہوا۔…
آپ فرماتی ہیں: پھر میں نے دیکھا کہ پرندوں کا ایک غول آیا، میں نہیں جانتی وہ کدھر سے آیا۔ بہرحال انہوں نے میرے حجرے کو بھر دیا، ان کی چونچیں زمرد کی اور پَر یاقوت کے تھے۔ پھر میری نگاہ سے حجابات اٹھا دیے گئے اور میں نے دیکھا کہ تین جھنڈے دنیا پر لگے ہوئے ہیں: ایک مشرق میں، ایک مغرب میں اور ایک کعبہ کی چھت پر۔…
آپ فرماتی ہیں: جب محمد مصطفی (ﷺ) میرے بطن سے جلوہ گر ہوئے تو میں نے پہلو بدل کر انہیں دیکھا کہ آپ ﷺ سجدے میں پڑے ہیں اور نہایت عاجزی اور انکساری سے دعا کرنے والے کی طرح آسمان کی طرف انگلی اٹھائے ہوئے ہیں۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے آسمان سے ایک سفید بادل اترا اور اس نے آپ ﷺ کو ڈھانپ لیا۔ آپ ﷺ میری نگاہ سے اوجھل ہو گئے تو میں نے سنا کوئی پکارنے والا کہہ رہا تھا: محمد (ﷺ) کو زمین کے مشرق و مغرب میں ٹھہراؤ، انہیں تمام سمندروں میں لے جاؤ تاکہ تمام اہلِ جہاں ان کے نام، صفات اور حلیہ مبارک سے واقف ہو جائیں اور جان لیں کہ یہی وہ ہستی ہیں جن کا نام دنیا میں ماحی رکھا گیا ہے کیوں کہ آپ ﷺ کے دور میں تمام دنیا سے شرک مٹا دیا جائے گا۔ پھر کچھ ہی دیر بعد وہ بادل چھٹ گیا تو آپ ﷺ اُون کے ایک سفید کپڑے میں، جو دودھ سے بھی سفید تر تھا، لپٹے ہوئے پڑے تھے۔ آپ ﷺ کے نیچے سبز ریشم تھا اور آپ ﷺ نے ہاتھ میں تروتازہ اور سفید موتی سے بنی ہوئی تین چابیاں پکڑ رکھی تھیں اور کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا کہ محمد مصطفی (ﷺ) نے فتح و نصرت، ہوا اور نبوت کی چابیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
اسے امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔
وَقَالَ بَعْضُھُمْ مُجِیْبًا لِسُؤَالٍ عَنِ الْاِحْتِفَالِ بِالْمَوْلِدِ النَّبَوِيِّ الشَّرِیْفِ: إِنَّ اللهَ تَعَالٰی بَعَثَ النَّبِيَّ ﷺ رَحْمَۃً لِلْعَالَمِیْنَ، کَمَا قَالَ تَعَالٰی: {وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَo} (الأنبیاء، 21: 107)، فَعَمَّتْ بِهِ النَّعْمَةُ عَلٰی جَمِیْعِ الْخَلَائِقِ وَجَبَ الشُّکْرُ عَلٰی ھٰذِهِ النِّعْمَةِ بِصُوْرَةِ الْاِحْتِفَالِ بِالْمَوْلِدِ النَّبْوِيِّ الشَّرِیْفِ کُلَّ عَامٍ.
وَالنَّبِيُّ ﷺ حِیْنَ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الْاِثْنَیْنِ قَالَ: ’ذَاکَ یَوْمٌ وُلِدْتُ فِیْهِ‘ فَلَمَّحَ إِلَی الْاِحْتِفَالِ بِهٖ لِکَوْنِهٖ وُلِدَ فِیْهِ، وَصَامَ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ وَأَمَرَ بِصَوْمِهِ احْتِفَالًا بِنَجَاةِ مُوْسٰی، وَاللهُ تَعَالٰی شَرَعَ لَنَا الْعَقِیْقَةَ فَرَحًا بِوُجُوْدِ الْوَلَدِ. أَنَفْرَحُ بِوُجُوْدِ وَلَدٍ وَنَذْبَحُ عَنْهُ وَلَا نَفْرَحُ بِوُجُوْدِ النَّبِيِّ ﷺ.
لِلْحَافِظِ جَلَالِ الدِّیْنِ السَّیُوْطِيِّ فَتْوَیٰ قَیِّمَۃٌ فِي ھٰذَا الْمَوْضُوْعِ، نُلَخِّصُھَا فِیْمَا یَأْتِي، قَالَ رحمہ اللہ: إِنَّ أَصْلَ عَمَلِ الْـمَوْلِدِ الَّذِي هُوَ اجْتِمَـاعُ النَّاسِ، وَقِرَائَةُ مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ، وَرِوَایَةُ الْأَخْبَارِ الْوَارِدَةِ فِي مَبْدَأِ (أَمْرِ) النَّبِيِّ ﷺ، وَمَا وَقَعَ فِي مَوْلِدِهٖ مِنَ الآیَاتِ، ثُمَّ یُمَدُّ لَهُمْ سِمَـاطًا یَأْکُلُوْنُہٗ، وَیَنْصَرِفُوْنَ مِنْ غَیْرِ زِیَادَةٍ عَلٰی ذٰلِکَ مِنَ الْبِدَعِ (الْـحَسَنَةِ) الَّتِي یُثَابُ عَلَیْهَا صَاحِبُهَا؛ لِـمَـا فِیْهِ مِنْ تَعْظِیْمِ قَدْرِ النَّبِيِّ ﷺ، وَإِظْهَارِ الْفَرَحِ وَالْاِسْتِبْشَارِ بِمَوْلِدِهِ الشَّرِیْفِ.
السیوطي في حسن المقصد في عمل المولد: 41، وأیضا في الحاوی للفتاوی: 199، والصالحي في سبل الہدی والرشاد في سیرۃ خیر العباد ﷺ، 1: 367، والنبہاني في حجۃ اللہ علی العالمین في معجزات سید المرسلین ﷺ: 236.
بعض ائمہ میلاد النبی ﷺ کی خوشی میں جشن منانے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَo} ’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کرo‘ آپ ﷺ کی نعمتِ رحمت کا فیضان تمام مخلوقات کے لیے عام ہے۔ لہٰذا اس نعمت باری تعالیٰ کا شکر ادا کرنا واجب ہے۔ جو ہر سال حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کی خوشی میں جشن منانے کی صورت میں کیا جاتا ہے۔
جب حضور نبی اکرم ﷺ سے پیر کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس دن میری ولادت ہوئی۔ آپ ﷺ نے ’اس دن کا اپنا یوم میلاد ہونا‘ فرما کر اس دن جشن منانے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ آپ ﷺ نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور اس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی (فرعون) سے نجات کی خوشی میں روزہ رکھنے کا حکم بھی فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے نعمت اولاد کے حصول کی خوشی میں ہمارے لیے عقیقہ کرنا مشروع فرمایا ہے، ہم نعمت اولاد کے وجود پر خوشی منائیں اور اس کی طرف سے جانور ذبح کریں اور حضور نبی اکرم ﷺ کے وجود مسعود کی نعمت پر خوشی نہ منائیں؟
حافظ جلال الدین سیوطی کا اس موضوع پر بڑا وقیع فتویٰ موجود ہے، ذیل میں اس کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے، اُنہوں نے فرمایا: رسولِ معظم ﷺ کا میلاد منانا جو کہ اصل میں لوگوں کے جمع ہو کر بہ قدرِ سہولت قرآن خوانی کرنے اور ان روایات کا تذکرہ کرنے سے عبارت ہے جو آپ ﷺ کے بارے میں منقول ہیں، آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ کے معجزات اور خارق العادت واقعات کے بیان پر مشتمل ہوتاہے۔ پھر اس کے بعد ان کی ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے اور وہ تناول ماحضر کرتے ہیں اور وہ اس بدعتِ حسنہ میں کسی اضافہ کے بغیر لوٹ جاتے ہیں اور اس اہتمام کرنے والے کو حضور ﷺ کی تعظیم اور آپ ﷺ کے میلاد پر اِظہارِ فرحت و مسرت کی بناء پر ثواب سے نوازا جاتا ہے۔
وَقَدْ أَشَارَ النَّبِيُّ ﷺ إِلٰی فَضِیْلَةِ ھٰذَا الشَّھْرِ الْعَظِیْمِ بِقَوْلِهٖ لِلسَّائِلِ الَّذِي سَأَلَہٗ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الْاِثْنَیْنِ: ’ذَاکَ یَوْمٌ وُلِدْتُ فِیْهِ‘ فَتَشْرِیْفُ ھٰذَا الْیَوْمِ مُتَضَمَّنٌ لِتَشْرِیْفِ ھٰذَا الشَّھْرِ الَّذِي وُلِدَ فِیْهِ، فَیَنْبَغِي أَنْ نَحْتَرِمَہٗ غَایَةَ الْاِحْتِرَامِ وَنُفَضِّلُہٗ بِمَا فَضَّلَ اللهُ بِهِ الأَشْھُرَ الْفَاضِلَةَ، وَھٰذَا مِنْھَا لِقَوْلِهٖ ﷺ: ’أَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ، آدَمُ فَمَنْ دُوْنَہٗ تَحْتَ لِوَائِي‘.
وَفَضِیْلَةُ الْأَزْمِنَةِ وَالْأَمْکِنَةِ بِمَا خَصَّھَا اللهُ بِهٖ مِنَ الْعِبَادَاتِ الَّتِي تُفْعَلُ فِیْھَا لِمَا قَدْ عُلِمَ أَنَّ الْأَمْکِنَةَ وَالْأَزْمِنَةَ لَا تَشْرُفُ لِذَاتِھَا وَإِنَّمَا یَحْصُلُ لَھَا التَّشْرِیْفُ بِمَا خُصَّتْ بِهٖ مِنَ الْمَعَانِي، فَانْظُرْ إِلٰی مَا خَصَّ اللهُ بِهٖ ھٰذَا الشَّھْرَ الشَّرِیْفَ وَیَوْمَ الْاِثْنَیْنِ، أَلَا تَرٰی أَنَّ صَوْمَ ھٰذَا الْیَوْمِ فِیْهِ فَضْلٌ عَظِیْمٌ لِأَنَّہٗ ﷺ وُلِدَ فِیْهِ.
فَعَلٰی ھٰذَا یَنْبَغِي إِذَا دَخَلَ ھٰذَا الشَّھْرُ الْکَرِیْمُ أَنْ یُکَرَّمَ وَیُعَظَّمَ وَیُحْتَرَمَ الْاِحْتَرَامَ الْـلَائِقَ بِهِ اتِّبَاعًا لَہٗ ﷺ فِي کَوْنِهٖ کَانَ یَخُصُّ الأَوْقَاتَ الْفَاضِلَةَ بِزِیَادَةِ فِعْلِ الْبِرِّ فِیْھَا وَکَثْرَةِ الْخَیْرَاتِ.
وَقَالَ الْحَافِظُ السَّیُوْطِيُّ: وَقَدْ ظَهَرَ لِي تَخْرِیْجُهَا عَلٰی أَصْلٍ ثَابِتٍ وَهُوَ مَا ثَبَتَ فِي الصَّحِیْحَیْنِ مِنْ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَدِمَ الْمَدِیْنَةَ فَوَجَدَ الْیَهُوْدَ یَصُوْمُوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ، فَسَأَلَهُمْ فَقَالُوْا: هُوَ یَوْمٌ أَغْرَقَ اللهُ فِیْهِ فِرْعَوْنَ وَنَجّٰی مُوْسٰی، فَنَحْنُ نَصُوْمُہٗ شُکْرًا لِلّٰهِ تَعَالٰی، فَیُسْتَفَادُ مِنْهُ فِعْلُ الشُّکْرِ لِلّٰهِ عَلٰی مَا مَنَّ بِهٖ فِي یَوْمٍ مُعَیَّنٍ مِنْ إِسْدَائِ نِعْمَةٍ أَوْ دَفْعِ نِقْمَةٍ، وَیُعَادُ ذٰلِکَ فِي نَظِیْرِ ذٰلِکَ الْیَوْمِ مِنْ کُلِّ سَنَةٍ، وَالشُّکْرُ لِلّٰهِ یَحْصُلُ بِأَنْوَاعِ الْعِبَادَةِ کَالسُّجُوْدِ وَالصِّیَامِ وَالصَّدَقَةِ وَالتِّـلَاوَةِ، وَأَيُّ نِعْمَةٍ أَعْظَمُ مِنَ النِّعْمَةِ بِبُرُوْزِ هٰذَا النَّبِيِّ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ فِي ذٰلِکَ الْیَوْمِ؟(1)
السیوطي في الحاوي للفتاوی، 1: 229.
حضور نبی اکرم ﷺ نے پیر کے روزہ کے بارے میں سوال کرنے والے کے جواب میں یہ فرمایا تھا کہ یہ وہ دن ہے جس دن میری ولادت ہوئی تھی، آپ ﷺ کا یہ قول اس با عظمت مہینے کی فضیلت کی طرف اشارہ فرماتا ہے۔ لہٰذا اس دن کا شرف آپ ﷺ کے ماہ ولادت کو بھی حاصل ہے۔ اس لیے ہمارے اوپر لازم ہے کہ اس مہینے کا حد درجہ احترام کریں اور اس مہینے کو وہی فضیلت دیں جو اللہ تعالیٰ نے باقی فضیلت والے مہینوں کو عطا کی ہے۔ یہ آپ ﷺ کے اس فرمان کی اتباع میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’میں اولاد آدم کا سردار ہوں لیکن فخر نہیں کرتا۔ (روزِ قیامت) آدم علیہ السلام اور باقی تمام انبیاء میرے لواء حمد کے نیچے کھڑے ہوں گے۔‘
زمانوں اور جگہوں کی فضیلت تمہاری ان عبادات کی وجہ سے ہے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان زمانوں اور جگہوں کو خاص کر دیا ہے۔ ان جگہوں اور زمانوں کا یہ شرف ذاتی نہیں بلکہ اُنہیں یہ شرف ان معانی کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے جن کے ساتھ انہیں خاص کر دیا گیا ہے تو ذرا اس معنٰی پر نظر دوڑائیں کہ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ مبارک (ربیع الاول) اور پیر کے مبارک دن کو خاص فرما دیا ہے۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس دن کے روزہ میں کتنی بڑی فضیلت ہے کیونکہ یہ دن حضور نبی اکرم ﷺ کا یوم میلاد ہے۔
بنا بریں یہ ضروری ہے کہ جب اس ماہ کریم کا آغاز ہو تو اس کے شایان شان اس کی تکریم و تعظیم اور احترام کیا جائے، کیونکہ یہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت کا مہینہ ہے، آپ ﷺ کے اس عمل مبارک کی اتباع کرتے ہوئے کہ آپ ﷺ فضیلت والے اوقات کو نیک اعمال اور خیرات کی کثرت کے ساتھ خاص فرماتے تھے۔
حافظ سیوطی فرماتے ہیں: اِس عمل پر میرے سامنے ثابت شدہ دلیل آشکار ہوئی اور وہ صحیحین میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے یہود کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ ﷺ نے ان سے دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا: یہ وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرقِ آب کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو اس سے نجات عطا فرمائی۔ اس دن ہم اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں اس سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ حصول نعمت یا دفع مصیبت کے خاص دن میں اللہ تعالیٰ کے احسان پر شکر ادا کرنا لازم ہے، اس دن کی نظیر میں ہر سال شکرانے کا یہ عمل دہرایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے عبادات کی مختلف اقسام ہیں جیسے سجود، صیام، صدقہ اور تلاوت قرآن وغیرہ اور حضور نبی رحمت ﷺ کی اس دن آمد سے بڑھ کر اور کونسی نعمت ہوسکتی ہے (جس کا شکر ادا کیا جائے)۔
قَالَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي مَوْلِدِ الْعَرُوْسِ: وَجَعَلَ لِـمَنْ فَرِحَ بِمَوْلِدِهٖ حِجَابًا مِنَ النَّارِ وَسِتْرًا، وَمَنْ أَنْفَقَ فِي مَوْلِدِهٖ دِرْهَمًا کَانَ الْـمُصْطَفٰی ﷺ لَہٗ شَافِعًا وَمُشَفَّعًا، وَأَخْلَفَ اللهُ عَلَیْهِ بِکُلِّ دِرْهَمٍ عَشْرًا.
فَیَا بُشْرٰی لَکُمْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ لَقَدْ نِلْتُمْ خَیْرًا کَثِیرًا فِي الدُّنْیَا وَفِي الْأُخْرٰی. فَیَا سَعْدُ مَنْ یَعْمَلُ لِأَحْمَدَ مَوْلِدًا فَیَلْقَی الْهَنَاءَ وَالْعِزَّ وَالْـخَیْرَ وَالْفَخْرَ، وَیَدْخُلُ جَنَّاتِ عَدْنٍ بِتِیْجَانِ دُرٍّ تَحْتَهَا خِلَعٌ خُضْرٌ.
ابن الجوزي في مولد العروس: 11.
علامہ ابن الجوزی مولد العروس میں فرماتے ہیں: ہر وہ شخص جو آپ ﷺ کے میلاد کے باعث خوش ہوا، اللہ تعالیٰ نے (یہ خوشی) اس کے لیے آگ سے محفوظ رہنے کے لیے حجاب اور ڈھال بنادی۔ اور جس نے مولدِ مصطفی ﷺ کے لیے ایک درہم خرچ کیا تو آپ ﷺ اُس کے لیے شافع و مشفع ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ ہر درہم کے بدلہ میں اُسے دس درہم عطا فرمائے گا۔
اے اُمتِ محمدیہ! تجھے بشارت کہ تونے دنیا و آخرت میں خیر کثیر حاصل کی۔ پس جو کوئی احمد مجتبیٰ ﷺ کے میلاد کے لیے کوئی عمل کرتا ہے تو وہ خوش بخت ہے اور وہ خوشی، عزت، بھلائی اور فخر کو پالے گا۔ اور وہ جنت کے باغوں میں موتیوں سے مرصع تاج اور سبز لباس پہنے داخل ہوگا۔
قَالَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي بِیَانِ الْمِیْلَادِ النَّبَوِيِّ: لَا زَالَ أَهْلُ الْـحَرَمَیْنِ الشَّرِیْفَیْنِ وَمِصْرَ وَالْیَمَنِ وَالشَّامِ وَسَائِرُ بِلَادِ الْعَرَبِ مِنَ الْـمَشْرِقِ وَالْـمَغْرِبِ یَحْتَفِلُوْنَ بِمَجْلِسِ مَوْلِدِ النَّبِيِّ ﷺ، وَیَفْرَحُوْنَ بِقُدُوْمِ هِلَالِ شَهْرِ رَبِیْعِ الْأَوَّلِ وَیَهْتَمُّوْنَ اهْتِمَـامًا بَلِیْغًا عَلٰی السَّمَـاعِ وَالْقِرَائَةِ لِـمَوْلِدِ النَّبِيِّ ﷺ، وَیَنَالُوْنَ بِذٰلِکَ أَجْرًا جَزِیْلاً وَفَوْزًا عَظِیْمًـا.
ابن الجوزي في بیان المیلاد النبوي ﷺ: 58.
علامہ ابن الجوزی بیان المیلاد النبوي میں فرماتے ہیں: مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ، مصر، شام، یمن الغرض شرق تا غرب تمام بلادِ عرب کے باشندے ہمیشہ سے میلاد النبی ﷺ کی محفلیں منعقد کرتے آئے ہیں۔ وہ ربیع الاول کا چاند دیکھتے تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی۔ چنانچہ ذکرِ میلاد پڑھنے اور سننے کا خصوصی اہتمام کرتے اور اس کے باعث بے پناہ اَجر و کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔
قَالَ ابْنُ تَیْمِیْةَ فِي کِتَابِهِ: اقْتِضَائِ الصَّرَاطِ الْمُسْتَقِیْمِ لِمُخَالَفَةِ أَصْحَابِ الْجَحِیْمِ: فَتَعْظِیْمُ الْـمَوْلِدِ وَاتِّخَاذُہٗ مَوْسِمًـا، قَدْ یَفْعَلُہٗ بَعْضُ النَّاسِ، وَیَکُوْنُ لَہٗ فِیْهِ أَجْرٌ عَظِیْمٌ؛ لِـحُسْنِ قَصْدِهٖ، وَتَعْظِیْمِهٖ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ، کَمَـا قَدَّمْتُہٗ لَکَ أَنَّہٗ یُحْسَنُ مِنْ بَعْضِ النَّاسِ مَا یُسْتَقْبَحُ مِنَ الْـمُؤْمِنِ الْـمُسَدَّدِ.
ابن تیمیۃ في اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ أصحاب الجحیم: 406.
علامہ ابن تیمیہ اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ أصحاب الجحیم میں لکھتے ہیں: میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم ﷺ کی تعظیم بھی ہے؛ جیساکہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔
قَالَ ابْنُ الْحَاجِّ الْمَالِکِيُّ فِي کِتَابِهٖ: اَلْمَدْخَلُ إِلٰی تَنْمِیَّةِ الأَعْمَالِ بِتَحْسِیْنِ النِّیَاتِ وَالتَّنْبِیْهِ عَلٰی کَثِیْرِ مِنَ الْبِدَعِ الْمُحْدَثَةِ وَالْعَوَائِدِ الْمُنْتَحِلَةِ: أَشَارَ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ إِلٰی فَضِیْلَةِ هٰذَا الشَّهْرِ الْعَظِیْمِ بِقَوْلِهٖ لِلسَّائِلِ الَّذِي سَأَلَہٗ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الْاِثْنَیْنِ، فَقَالَ لَہٗ عَلَیْهِ الْصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: ذٰلِکَ یَوْمٌ وُلِدْتُ فِیْهِ.
فَتَشْرِیْفُ هٰذَا الْیَوْمِ مُتَضَمِّنٌ لِتَشْرِیْفِ هٰذَا الْشَّهْرِ الَّذِي وُلِدَ فِیْهِ، فَیَنْبَغِي أَنْ نَحْتَرِمَہٗ حَقَّ الْاِحْتِرَامِ وَنُفَضِّلُہٗ بِمَـا فَضَّلَ اللهُ بِهِ الْأَشْهُرَ الْفَاضِلَةَ، وَهٰذَا مِنْهَا لِقَوْلِهٖ عَلَیْهِ الْصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: أَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ. وَلِقَوْلِهٖ عَلَیْهِ الْصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: آدَمُ وَمَنْ دُوْنَہٗ تَحْتَ لِوَائِي.
وَفَضِیْلَةُ الْأَزْمِنَةِ وَالْأَمْکِنَةِ بِمَـا خَصَّهَا اللهُ تَعَالٰی مِنَ الْعِبَادَاتِ الَّتِي تُفْعَلُ فِیْهَا، لِـمَـا قَدْ عُلِمَ أَنَّ الْأَمْکِنَةَ وَالْأَزْمِنَةَ لَا تَتَشَرَّفُ لِذَاتِهَا، وَإِنَّمَـا یُحْصَلُ لَهَا التَّشْرِیْفُ بِمَـا خُصَّتْ بِهٖ مِنَ الْـمَعَانِي. فَانْظُرْ رَحِمَنَا اللهُ وَإِیَّاکَ إِلٰی مَا خَصَّ اللهُ تَعَالٰی بِهٖ هٰذَا الشَّهْرَ الشَّرِیْفَ وَیَوْمَ الْاِثْنَیْنِ. أَلَا تَرٰی أَنَّ صَوْمَ هٰذَا الْیَوْمِ فِیْهِ فَضْلٌ عَظِیْمٌ لِأَنَّہٗ ﷺ وُلِدَ فِیْهِ؟
فَعَلٰی هٰذَا فَیَنْبَغِی إِذَا دَخَلَ هٰذَا الشَّهْرُ الْکَرِیْمُ أَنْ یُکَرَّمَ وَیُعَظَّمَ وَیُحْتَرَمَ الْاِحْتَرَامَ الَّلائِقَ بِهٖ وَذٰلِکَ بِالْاِتِّبَاعِ لَہٗ ﷺ فِي کَوْنِهٖ کَانَ یَخُصُّ الْأَوْقَاتِ الْفَاضِلَةَ بِزِیَادَةِ فِعْلِ الْبِرِّ فِیْهَا وَکَثْرَةِ الْـخَیْرَاتِ. أَلَا تَرٰی إِلٰی قَوْلِ الْبُخَارِيِّ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْـخَیْرِ، وَکَانَ أَجْوَدَ مَا یَکُوْنُ فِی رَمَضَانَ. فَنَمْتَثِلُ تَعْظِیْمَ الْأَوْقَاتِ الْفَاضِلَةِ بِمَـا امْتَثَلَہٗ عَلٰی قَدْرِ اسْتِطَاعَتِنَا.
فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ: قَدِ الْتَزَمَ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ فِي الْأَوْقَاتِ الْفَاضِلَةِ مَا الْتَزَمَہٗ مِـمَّـا قَدْ عُلِمَ، وَلَـمْ یَلْتَزِمْ فِي هٰذَا الشَّهْرِ مَا الْتَزَمَہٗ فِي غَیْرِهٖ. فَالْـجَوَابُ: أَنَّ الْـمَعْنَی الَّذِي لِأَجْلِهٖ لَـمْ یَلْتَزِمْ عَلَیْهِ الصَّلَاُۃ وَالسَّلَامُ إِنَّمَـا هُوَ مَا قَدْ عُلِمَ مِنْ عَادَتِهٖ الْکَرِیْمَةِ فِي کَوْنِهٖ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ یُرِیْدُ التَّخْفِیْفَ عَنْ أُمَّتِهٖ، وَالرَّحْمَةَ لَهُمْ سِیَّمَـا فِیْمَـا کَاَن یَخُصُّہٗ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ.
أَلَا تَرٰی إِلٰی قَوْلِهٖ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ فِي حَقِّ حَرَمِ الْـمَدِیْنَةِ: اَللّٰهُمَّ، إِنَّ إِبْرَاهِیْمَ حَرَّمَ مَکَّةَ، وَإِنِّي أُحَرِّمُ الْـمَدِیْنَةَ بِمَـا حَرَّمَ بِهٖ إِبْرَاهِیْمُ مَکَّةَ وَمِثْلَہٗ مَعَہٗ، ثُمَّ إِنَّہٗ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ لَـمْ یُشَرِّعْ فِي قَتْلِ صَیْدِهٖ وَلَا فِي قَطْعِ شَجَرِهِ الْـجَزَاءَ، تَخْفِیْفًا عَلٰی أُمَّتِهٖ وَرَحْمَۃً لَهُمْ، فَکَانَ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ یَنْظُرُ إِلٰی مَا هُوَ مِنْ جِهَتِهٖ... وَإِنْ کَانَ فَاضِلًا فِي نَفْسِهٖ یَتْرُکُہٗ لِلتَّخْفِیْفِ عَنْهُمْ.
ابن الحاج المالکي في المدخل إلی تنمیۃ الأعمال بتحسین النیات والتنبیہ علی کثیر من البدع المحدثۃ والعوائد المنتحلۃ، 2: 2-4، والسیوطي في حسن المقصد في عمل المولد: 57-59، وأیضا في الحاوی للفتاوی: 203-204، والصالحي في سبل الہدی والرشاد في سیرۃ خیر العباد ﷺ، 1: 371-372.
امام ابو عبد اللہ ابن الحاج محمد بن محمد بن محمد المالکی اپنی کتاب المدخل إلی تنمیۃ الأعمال بتحسین النیات والتنبیہ علی کثیر من البدع المحدثۃ والعوائد المنتحلۃ میں میلاد النبی ﷺ کی فضیلت کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ نے (اپنی ولادت کے) عظیم مہینے کی عظمت کا اِظہار ایک سائل کے جواب میں فرمایا جس نے پیر کے دن کا روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ آپ ﷺ نے اُسے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی۔
لہٰذا اس دن کی عظمت سے اُس ماہ (ربیع الاول) کی عظمت معلوم ہوتی ہے جس میں آپ ﷺ کی ولادت ہوئی۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس مہینے کا کما حقہٗ احترام کریں اور اِس ماهِ مقدس کو اس چیز کے ساتھ فضیلت دیں جس چیز کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فضیلت والے مہینوں کو فضیلت بخشی ہے۔ اِسی حوالے سے حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں اولادِ آدم کا سردار ہوں اور اس میں کوئی فخر نہیں۔ اور آپ ﷺ کا ایک اور فرمان ہے: روزِ محشر آدم علیہ السلام سمیت سب میرے پرچم تلے ہوں گے۔
زمانوں اور مکانوں کی عظمتیں اور فضیلتیں ان عبادتوں کی وجہ سے ہیں جو ان (مہینوں) میں سرانجام دی جاتی ہیں۔ جیسا کہ یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ زمان و مکاں کی خود اپنی کوئی عظمت و رفعت نہیں بلکہ ان کی عظمت کا سبب وہ خصوصیات و امتیازات ہیں جن سے انہیں سرفراز فرمایا گیا۔ اِس پر غور کریں، اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس مہینے اور پیر کے دن کو عظمت عطا کی۔ کیا تو نہیں دیکھتا کہ اس دن روزہ رکھنا فضلِ عظیم ہے کیوں کہ رسولِ معظم ﷺ کی ولادت اس روز ہوئی۔
لہٰذا لازم ہے کہ جب یہ مبارک مہینہ تشریف لائے تو اس کی بڑھ چڑھ کر تکریم و تعظیم اور ایسی توقیر و اِحترام کیا جائے جس کا یہ حق دار ہے۔ اور یہ آپ ﷺ کے اُس اُسوۂ مبارکہ کی تقلید ہوگی کہ آپ ﷺ خصوصی (عظمت کے حامل) دنوں میں کثرت سے نیکی اور خیرات کے کام کرتے تھے۔ کیا تو (حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے) اِمام بخاری (194-256ھ) کا روایت کردہ یہ قول نہیں دیکھتا: حضور نبی اکرم ﷺ بھلائی میں سب لوگوں سے زیادہ فیاض تھے اور ماهِ رمضان میں آپ ﷺ بہت فیاضی اور دریا دلی کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ اس بناء پر کہ آپ ﷺ فضیلت والے اوقات کی عزت افزائی فرماتے تھے ہمیں بھی فضیلت کے حامل اوقات (جیسے ماهِ ربیع الاول) کی بہ قدرِ اِستطاعت تعظیم کرنی چاہیے۔
اگر کوئی کہے: حضور نبی اکرم ﷺ نے فضیلت والے اوقات کی عزت افزائی فرمائی جو آپ ﷺ نے فرمائی جیسا کہ اوپر جانا جا چکا ہے لیکن آپ ﷺ نے خود اس ماہ کی جس میں آپ ﷺ کی ولادت ہوئی اس طرح عزت افزائی نہیں کی جس طرح آپ ﷺ دوسرے مہینوں کی کرتے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ کو اُمت کے لیے تخفیف اور آسانی و راحت کا بہت خیال رہتا تھا بالخصوص ان چیزوں کے بارے میں جو آپ ﷺ کی اپنی ذات مقدسہ سے متعلق تھیں۔
کیا تو نے حرمتِ مدینہ کی بابت آپ ﷺ کا قول نہیں دیکھا: ’اے اللہ! بے شک ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ منورہ کو اُنہی چیزوں کی مثل حرم قرار دیتا ہوں جن سے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا۔‘ لیکن آپ ﷺ نے اپنی اُمت کے لیے تخفیف اور رحمت کے سبب مدینہ منورہ کی حدود میں شکار کرنے اور درخت کاٹنے کی کوئی سزا مقرر نہیں فرمائی۔ حضور نبی اکرم ﷺ اپنی ذاتِ مقدسہ سے متعلقہ کسی اَمر کو اس کی ذاتی فضیلت کے باوجود امت کی آسانی کے لیے ترک فرما دیتے تھے۔
وَقَالَ أَیْضًا: فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ: مَا الْـحِکْمَةُ فِي کَوْنِهٖ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ خُصَّ مَوْلِدُهُ الْکَرِیْمُ بِشَهْرِ رَبِیْعِ الْأَوَّلِ وَبِیَوْمِ الْاِثْنَیْنِ مِنْهُ عَلَی الصَّحِیْحِ، وَالْـمَشْهُوْرُ عِنْدَ أَکْثَرِ الْعُلَمَـائِ، وَلَـمْ یَکُنْ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْآنُ، وَفِیْهِ لَیْلَةُ الْقَدْرِ، وَاخْتُصَّ بِفَضَائِلَ عَدِیْدَةٍ، وَلَا فِي الْأَشْهُرِ الْـحُرُمِ الَّتِي جَعَلَ اللهُ لَهَا الْـحُرْمَةَ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَا فِي لَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَا فِي یَوْمِ الْـجُمُعَةِ وَلَا فِي لَیْلَتِهَا؟
فَالْـجَوَابُ مِنْ أَرْبَعَةِ أَوْجُہٍ:
اَلْوَجْهُ الْأَوَّلُ: مَا وَرَدَ فِي الْـحَدِیْثِ مِنْ أَنَّ اللهَ خَلَقَ الشَّجَرَ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ. وَفِي ذٰلِکَ تَنْبِیْہٌ عَظِیْمٌ وَهُوَ أَنَّ خَلْقَ الْأَقْوَاتِ وَالْأَرْزَاقِ وَالْفَوَاکِهِ وَالْـخَیْرَاتِ الَّتِي یَتَغَذّٰی بِهَا بَنُو آدَمَ وَیَحْیَوْنَ، وَیَتَدَاوَوْنَ وَتَنْشَرِحُ صُدُوْرُهُمْ لِرُؤْیَتِهَا وَتَطِیْبُ بِهَا نَفُوْسُهُمْ وَتَسْکُنُ بِهَا خَوَاطِرُهُمْ عِنْدَ رُؤْیَتِهَا لِاطْمِئْنَانِ نُفُوْسِهِمْ بِتَحْصِیْلِ مَا یُبْقِی حَیَاتَهُمْ عَلٰی مَا جَرَتْ بِهِ الْعَادَةُ مِنْ حِکْمَةِ الْـحَکِیْمِ، فَوُجُوْدُہٗ ﷺ فِي هٰذَا الشَّهْرِ فِي هٰذَا الْیَوْمِ قُرَّةُ عَیْنٍ بِسَبَبِ مَا وُجِدَ مِنَ الْـخَیْرِ الْعَظِیْمِ وَالْبَرَکَةِ الشَّامِلَةِ لِأُمَّتِهٖ صَلَوَاتُ اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَامُہٗ.
اَلْوَجْهُ الثَّانِي: أَنَّ ظُهُوْرَہٗ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ فِي شَهْرِ رَبِیْعٍ فِیْهِ إِشَارَۃٌ ظَاهِرَۃٌ لِـمَنْ تَفَطَّنَ إِلَیْهَا بِالنِّسْبَةِ إِلَی اشْتِقَاقِ لَفْظَةِ رَبِیْعٍ، إِذْ أَنَّ فِیْهِ تَفَاؤُلًا حَسَنًا بِبِشَارَتِهٖ لِأُمَّتِهٖ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، وَالتَّفَاؤُلُ لَہٗ أَصْلٌ أَشَارَ إِلَیْهِ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ. وَقَدْ قَالَ الشَّیْخُ الإِمَامُ أَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الصَّقَلِّيُّ: لِکُلِّ إِنْسَانٍ مِنَ اسْمِهٖ نَصِیْبٌ.
اَلْوَجْهُ الثَّالِثُ: أَنْ فَصْلَ الرَّبِیْعِ أَعْدَلُ الْفُصُوْلِ.
اَلْوَجْهُ الرَّابِعُ: أَنَّہٗ قَدْ شَاءَ الْـحَکِیْمُ أَنَّہٗ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ تَتَشَرَّفُ بِهِ الْأَزْمِنَةُ وَالْأَمَاکِنُ لَا هُوَ یَتَشَرَّفُ بِهَا، بَلْ یُحْصَلُ لِلزَّمَانِ وَالْـمَکَانِ الَّذِي یُبَاشِرُہٗ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ الْفَضِیْلَةُ الْعُظْمٰی، وَالْـمَزِیَّةُ عَلٰی مَا سِوَاهُ مِنْ جِنْسِهٖ إِلَّا مَا اسْتُثْنِيُ مِنْ ذٰلِکَ لِأَجْلِ زِیَادَةِ الْأَعْمَـالِ فِیْهَا وَغَیْرِ ذٰلِکَ. فَلَوْ وُلِدَ ﷺ فِي الْأَوْقَاتِ الْـمُتَقَدِّمِ ذِکْرُهَا لَکَانَ ظَاهِرُہٗ یُوْهِمُ أَنَّہٗ یَتَشَرَّفُ بِهَا.
ابن الحاج المالکي في المدخل إلی تنمیۃ الأعمال بتحسین النیات والتنبیہ علی کثیر من البدع المحدثۃ والعوائد المنتحلۃ، 2: 26-29، والسیوطي في حسن المقصدفی عمل المولد: 67-68، وأیضًا فی الحاوي للفتاوی: 207، والنبہاني في حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین ﷺ: 238.
ابن الحاج المالکی ایک جگہ لکھتے ہیں: اگر کوئی کہنے والا کہے: حضور نبی اکرم ﷺ کی ربیع الاول میں اور پیر کے دن ولادتِ مبارکہ کی حکمت کے بارے میں سوال کیا جائے کہ ان کی ولادت رمضان المبارک جو نزولِ قرآن کا مہینہ ہے اور جس میں لیلۃ القدر رکھی گئی ہے یا دوسرے مقدس مہینوں یا 15 شعبان المعظم اور جمعہ کے دن میں کیوں نہ ہوئی؟
اس سوال کا جواب چار زاویہ ہاے نظر سے دیا جاسکتا ہے:
1۔ ذخیرۂ احادیث میں درج ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیر کے دن د رختوں کو پیدا کیا۔ اس میں ایک لطیف نکتہ مضمر ہے۔ وہ یہ کہ پیر کے دن اللہ تعالیٰ نے غذا، رزق، روزی اور پھلوں اور دیگر خیرات کی چیزوں کو پیدا فرمایا جن سے بنی نوع انسان غذا حاصل کرتا ہے اور زندہ رہتا ہے۔ اور ان کو بہ طور علاج بھی استعمال کرتا ہے اور انہیں دیکھ کر انہیں شرحِ صدر نصیب ہوتا ہے (دلی خوشی ہوتی ہے)۔ اور ان کے ذریعے ان کے نفوس کو خوشی و فرحت نصیب ہوتی ہے اور ان کے دلوں کو سکون میسر آتا ہے کیوں کہ (ان کے ذریعے) نفوس - اس چیز کو حاصل کرکے جس پر ان کی زندگی کا دار و مدار ہوتا ہے - مطمئن ہوتے ہیں۔ جیسا کہ رب تعالیٰ کی سنت اور طریقہ ہے (کہ اس نے جانوں کو انہی چیزوں کے ساتھ زندہ رکھا ہوا ہے)۔ پس آپ ﷺ کا وجودِ اَطہر اس مبارک مہینہ میں اس مبارک دن میں آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ہے بسبب اس کے کہ (آپ ﷺ کی ولادت کے سبب) آپ ﷺ کی امت کو خیر کثیر اور عظیم برکتوں سے نوازا گیا۔
2۔ بے شک حضور نبی اکرم ﷺ کا ربیع کے مہینہ میں ظہور اس میں واضح اشارہ ہے ہر اس کے لیے جو لفظ ربیع کے اشتقاق، معنٰی و مفہوم پر غور کرے کیوں کہ لفظ ربیع (موسم بہار) میں اشتقاقی طور پر ایک اچھا اور نیک شگون پایاجاتا ہے۔ اس میں نیک شگون یہ ہے کہ آپ ﷺ کی امت کو آپ ﷺ کی بشارت دی گئی۔ اور نیک شگونی کی کوئی نہ کوئی اصل ہوتی جس کی طرف آپ ﷺ نے اشارہ فرمایا۔ ابو عبد الرحمان صقلی بیان کرتے ہیں کہ ہر شخض کے لیے اس کے نام میں اس کا ایک حصہ رکھ دیا گیا ہے یعنی اس کے نام کے اثرات اس کی شخصیت پر مرتسم ہوتے ہیں۔
3۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ربیع (بہار) تمام موسموں میں انتہائی معتدل اور حسین ہوتا ہے۔ اور اسی طرح رسولِ معظم ﷺ کی شریعت تمام شرائع میں انتہائی پر اعتدال اور آسان ترین ہے۔
4۔ بے شک اللہ گ نے چاہا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے وجودِ مسعود سے زمان و مکان شرف حاصل کریں نہ کہ آپ ﷺ اُن سے شرف پائیں۔ بلکہ وہ زمان و مکان جس میں براهِ راست آپ ﷺ کی آمد ہو اس کو فضیلتِ عظمیٰ اور دیگر زمان و مکان پر نمایاں ترین مقام و مرتبہ حاصل ہو جائے۔ سوائے اس زمان و مکاں کے جن کا اس لیے استثناء کیا گیا کہ ان میں اعمال کی کثرت کی جائے اور اس کے علاوہ باقی اسباب کی وجہ سے۔ پس اگر آپ ﷺ ان اوقات میں تشریف لاتے جن کا ذکر (اوپر اعتراض میں) گزر چکا ہے تو وہ بہ ظاہر اس وہم میں ڈال دیتے کہ آپ ﷺ ان سے متشرف ہوئے ہیں۔
قَالَ الذَّھَبِيُّ: وَأَمَّا احْتِفَالُہٗ بِالْـمَوْلِدِ فَیَقْصُرُ التَّعْبِیْرُ عَنْهُ؛ کَانَ الْـخَلْقُ یَقْصِدُوْنَہٗ مَنَ الْعِرَاقِ وَالْـجَزِیْرَةِ... وَیُخْرِجُ مِنَ الْبَقَرِ وَالإِبِلِ وَالْغَنَمِ شَیئًا کَثِیْرًا، فَتُنْحَرُ وَتُطْبَخُ الْأَلْوَانُ، وَیَعْمَلُ عِدَّةَ خِلَعٍ لِلصُّوْفِیَّةِ، وَیَتَکَلَّمُ الْوُعَّاظُ فِي الْـمِیْدَانِ، فَیُنْفِقُ أَمْوَالًا جَزِیْلَۃً. وَقَدْ جَمَعَ لَهُ ابْنُ دِحْیَةَ کِتَابَ الْـمَوْلِدِ فَأَعْطَاهُ أَلْفَ دِیْنَارٍ. وَکَانَ مُتَوَاضِعًا، خَیْراً، سُنِّـیًّا، یُحِبُّ الْفُقَهَاءَ وَالْـمُحَدِّثِیْنَ... وَقَالَ سِبْطُ الْـجَوْزِیُّ: کَانَ مُظَفَّرُ الدِّیْنِ یُنْفِقُ فِي السَّنَةِ عَلَی الْـمَوْلِدِ ثَـلَاثَ مِائَةِ أَلْفِ دِیْنَارٍ، وَعَلَی الْـخَانَقَاهِ مِائَتَيْ أَلْفِ دِیْنَار... وَقَالَ: قَالَ مَنْ حَضَرَ الْـمَوْلِدَ مَرَّۃً عُدِّدَتْ عَلٰی سِمَـاطِهٖ مِائَةُ فَرَسٍ قَشْلَمِیْشٍ، وَخَـمْسَةُ آلاَفٍ رَأْسٍ شَوِیٍّ، وَعَشْرَةُ آلاَفِ دَجَّاجَةٍ، مِائَةُ أَلْفِ زُبْدِیَّةٍ، وَثَـلَاثِیْنَ أَلْفَ صِحْنِ حَلْوَاءَ.
الذہبي في سیر أعلام النبلاء، 16: 274-275، وأیضا في تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام (621-630ھ)، 45: 402-405.
اِمام ذہبی (ملک المظفر کے جشنِ میلاد منانے کے بارے میں) لکھتے ہیں: اَلفاظ ملک المظفر کے محفلِ میلاد مصطفی ﷺ منانے کا انداز بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ جزیرۂ عرب اور عراق سے لوگ کشاں کشاں اس محفل میں شریک ہونے کے لیے آتے … اور کثیر تعداد میں گائیں، اونٹ اور بکریاں ذبح کی جاتیں اور انواع و اقسام کے کھانے پکائے جاتے۔ وہ صوفیاء کے لیے کثیر تعداد میں خلعتیں تیار کرواتا اور واعظین وسیع و عریض میدان میں خطابات کرتے اور وہ بہت زیادہ مال خیرات کرتا۔ ابن دحیہ نے اس کے لیے ’’میلاد النبی ﷺ ‘‘ کے موضوع پر کتاب تالیف کی تو اس نے اسے ایک ہزار دینار دیے۔ وہ منکسر المزاج اور راسخ العقیدہ سنی تھا، فقہاء اور محدثین سے محبت کرتا تھا۔ سبط الجوزی کہتے ہیں: شاہ مظفر الدین ہر سال محفلِ میلاد پر تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا جب کہ خانقاهِ صوفیاء پر دو لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔ اس محفل میں شریک ہونے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ اُس کی دعوتِ میلا دمیں ایک سو (100) قشلمیش گھوڑوں پر سوار سلامی و اِستقبال کے لیے موجود تھے۔ میں نے اُس کے دستر خوان پر پانچ ہزار بھنی ہوئی سِریاں، دس ہزار مرغیاں، ایک لاکھ دودھ سے بھرے مٹی کے پیالے اور تیس ہزار مٹھائی کے تھال پائے۔
قَالَ السَّخَاوِيُّ: وَإِنَّمَـا حَدَثَ بَعْدَهَا بِالْـمَقَاصِدِ الْـحَسَنَةِ، وَالنِّیةِ الَّتِي لِلْإِخْلَاصِ شَامِلَۃٌ، ثُمَّ لَا زَالَ أَهْلُ الإِسْلَامِ فِي سَائِرِ الْأَقْطَارِ وَالْـمُدُنِ الْعِظَامِ یَحْتَفِلُوْنَ فِي شَهْرِ مَوْلِدِهٖ ﷺ وَشَرَفٍ وَکَرَمٍ بِعَمَلِ الْوَلَائِمِ الْبَدِیْعَةِ، وَالْـمَطَاعِمِ الْـمُشْتَمِلْةِ عَلَی الْأُمُوْرِ الْبَهِیَّةِ وَالْبَدِیْعَةِ، وَیَتَصَدَّقُوْنَ فِي لَیَالِیْهِ بِأَنْوَاعِ الْصَّدَقَاتِ، وَیُظْهِرُوْنَ الْـمَسَرَّاتِ وَیَزِیْدُوْنَ فِي الْـمَبَرَّاتِ، بَلْ یَعْتَنُوْنَ بِقَرَابَةِ مَوْلِدِهِ الْکَرِیْمِ، وَیَظْهَرُ عَلَیْهِمْ مِنْ بَرَکَاتِهٖ کُلُّ فَضْلٍ عَظِیْمٍ عَمِیْمٍ، بِحَیْثُ کَانَ مِـمَّـا جُرِّبَ کَمَـا قَالَ الإِمَامُ شَمْسُ الدِّیْنِ بْنُ الْـجَزَرِيِّ الْـُمقْرِيُّ، أَنَّہٗ أَمَانٌ تَامٌّ فِي ذٰلِکَ الْعَامِّ وَبُشْرٰی تُعَجَّلُ بِنَیْلِ مَا یَنْبَغِي وَیُرَامُ.
ذکرہ ملا علي القاري في المورد الروي في مولد النبي ﷺ ونسبہ الطاہر: 12-13، والصالحي في سبل الہدیٰ والرشاد في سیرۃ خیر العباد ﷺ، 1: 362، والحلبي في إنسان العیون في سیرۃ الأمین المامون، 1: 84، وإسماعیل الحقي في روح البیان، 9: 56-57، وأحمد بن زیني الدحلان في السیرۃ النبویۃ، 1: 53، والنبھاني في حجۃ اللہ علی العالمین في معجزات سید المرسلین ﷺ: 233.
امام شمس الدین محمد بن عبد الرحمان سخاوی فرماتے ہیں: (محفلِ میلاد النبی ﷺ) قرونِ ثلاثہ کے بعد صرف نیک مقاصد کے لیے شروع ہوئی اور جہاں تک اس کے انعقاد میں نیت کا تعلق ہے تو وہ اخلاص پر مبنی تھی۔ پھر ہمیشہ سے جملہ اہلِ اسلام تمام ممالک اور بڑے بڑے شہروں میں آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کے مہینے میں محافل میلاد منعقد کرتے چلے آ رہے ہیں اور اس کے معیار اور عزت و شرف کو عمدہ ضیافتوں اور خوبصورت طعام گاہوں (دستر خوانوں) کے ذریعے برقرار رکھا۔ اب بھی ماهِ میلاد کی راتوں میں طرح طرح کے صدقات و خیرات دیتے ہیں اور خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرتے ہیں۔ بلکہ جونہی ماهِ میلاد النبی ﷺ قریب آتا ہے خصوصی اہتمام شروع کر دیتے ہیں اور نتیجتاً اس ماهِ مقدس کی برکات اللہ تعالیٰ کے بہت بڑے فضلِ عظیم کی صورت میں ان پر ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ بات تجرباتی عمل سے ثابت ہے جیسا کہ امام شمس الدین بن جزری مقری نے بیان کیا ہے کہ ماهِ میلاد کے اس سال مکمل طور پر حفظ و امان اور سلامتی رہتی ہے اور بہت جلد تمنائیں پوری ہونے کی بشارت ملتی ہے۔
قَالَ السَّیُوْطِيُّ: إِنَّ أَصْلَ عَمَلِ الْـمَوْلِدِ الَّذِي هُوَ اجْتِمَـاعُ النَّاسِ، وَقِرَائَةُ مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ، وَرِوَایَةُ الْأَخْبَارِ الْوَارِدَةِ فِي مَبْدَأِ (أَمْرِ) النَّبِيِّ ﷺ، وَمَا وَقَعَ فِي مَوْلِدِهٖ مِنَ الآیَاتِ، ثُمَّ یُمَدُّ لَهُمْ سِمَـاطًا یَأْکُلُوْنُہٗ، وَیَنْصَرِفُوْنَ مِنْ غَیْرِ زِیَادَةٍ عَلٰی ذٰلِکَ مِنَ الْبِدَعِ (الْـحَسَنَةِ) الَّتِي یُثَابُ عَلَیْهَا صَاحِبُهَا؛ لِـمَـا فِیْهِ مِنْ تَعْظِیْمِ قَدَرِ النِّبِيِّ ﷺ، وَإِظْهَارِ الْفَرَحِ وَالْاِسْتِبْشَارِ بِمَوْلِدِهِ الشَّرِیْفِ.
السیوطي في حسن المقصد في عمل المولد: 41، وأیضا في الحاوی للفتاوی: 199، والصالحي في سبل الہدی والرشاد في سیرۃ خیر العباد ﷺ، 1: 367، والنبہاني في حجۃ اللہ علی العالمین في معجزات سید المرسلین ﷺ: 236.
امام سیوطی فرماتے ہیں: رسولِ معظم ﷺ کا میلاد منانا جو کہ اصل میں لوگوں کے جمع ہو کر بہ قدرِ سہولت قرآن خوانی کرنے اور ان روایات کا تذکرہ کرنے سے عبارت ہے جو آپ ﷺ کے بارے میں منقول ہیں، آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ کے معجزات اور خارق العادت واقعات کے بیان پر مشتمل ہوتاہے۔ پھر اس کے بعد ان کی ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے اور وہ تناول ماحضر کرتے ہیں اور وہ اس بدعتِ حسنہ میں کسی اضافہ کے بغیر لوٹ جاتے ہیں اور اس اہتمام کرنے والے کو حضور ﷺ کی تعظیم اور آپ ﷺ کے میلاد پر اِظہارِ فرحت و مسرت کی بناء پر ثواب سے نوازا جاتا ہے۔
وَقَالَ أَیْضًا: إِنَّ وِلَادَتَہٗ ﷺ أَعْظَمُ النِّعَمِ عَلَیْنَا، وَوَفَاتَہٗ أَعْظَمُ الْـمَصَائِبِ لَنَا، وَالشَّرِیْعَةُ حَثَّتْ عَلٰی إِظْهَارِ شُکْرِ النِّعَمِ وَالصَّبْرِ وَالسُّکُوْنِ وَالْکَتْمِ عِنْدَ الْـمَصَائِبِ، وَقَدْ أَمَرَ الشَّرْعُ بِالْعَقِیْقَةِ عِنْدَ الْوِلَادَةِ وَهِيَ إِظْهَارُ شُکْرٍ وَفَرَحٍ بِالْـمَوْلُوْدِ، وَلَـمْ یَأْمُرْ عِنْدَ الْـمَوْتِ بِذَبْحٍ وَلَا بِغَیْرِهٖ. بَلْ نُهِيَ عَنِ النِّیَاحَةِ وَإِظْهَارِ الْـجَزَعِ، فَدَلَّتْ قَوَاعِدُ الشَّرِیْعَةِ عَلٰی أَنَّہٗ یَحْسُنُ فِي هٰذَا الشَّهْرِ إِظْهَارُ الْفَرَحِ بِوِلَادَتِهٖ ﷺ دُوْنَ إِظْهَارِ الْـحُزْنِ فِیْهِ بِوَفَاتِهٖ.
السیوطي في حسن المقصد في عمل المولد: 54-55، وأیضًا في الحاوي للفتاوی: 203.
امام سیوطی نے ہی فرمایا ہے: بے شک آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہمارے لیے نعمتِ عظمی ہے اور آپ ﷺ کی وفات ہمارے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے۔ تاہم شریعت نے نعمت پر اِظہارِ شکر کا حکم دیا ہے اور مصیبت پر صبر و سکون کرنے اور اُسے چھپانے کا حکم دیا ہے۔ اِسی لیے شریعت نے ولادت کے موقع پر عقیقہ کا حکم دیا ہے اور یہ بچے کے پیدا ہونے پر اللہ کے شکر اور ولادت پر خوشی کے اِظہار کی ایک صورت ہے، لیکن موت کے وقت جانور ذبح کرنے جیسی کسی چیز کا حکم نہیں دیا بلکہ نوحہ اور جزع وغیرہ سے بھی منع کر دیا ہے۔ لہٰذا شریعت کے قواعد کا تقاضا ہے کہ ماهِ ربیع الاول میں آپ ﷺ کی ولادت باسعادت پر خوشی کا اظہار کیا جائے نہ کہ وصال کی وجہ سے غم کا۔
وَقَالَ أَیْضًا: وَظَهَرَ لِي تَخْرِیْجُہٗ عَلٰی أَصْلٍ آخَرَ، وَهُوَ مَا أَخْرَجَهُ الْبَیْهَقِيُّ، عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ عَقَّ عَنْ نَفْسِهٖ بَعْدَ النُّبُوَّةِ. مَعَ أَنَّہٗ قَدْ وَرَدَ أَنَّ جَدَّہٗ عَبْدَ الْـمُطَّلِبِ عَقَّ عَنْهُ فِی سَابِعِ وِلَادَتِهٖ، وَالْعَقِیْقَةُ لَا تُعَادُ مَرَّۃً ثَانِیَۃً، فَیُحْمَلُ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ الَّذِي فَعَلَهُ النَّبِيُّ ﷺ إِظْهَارًا لِلشُّکْرِ عَلٰی إِیْجَادِ اللهِ تَعَالٰی إِیَّاهُ، رَحْمَۃً لِلْعَالَـمِیْنَ وَتَشْرِیْفًا لِأُمَّتِهٖ، کَمَـا کَانَ یُصَلِّي عَلٰی نَفْسِهٖ، لِذٰلِکَ فَیَسْتَحِبُّ لَنَا أَیْضًا إِظْهَارُ الشُّکْرِ بِمَوْلِدِهٖ بِاجْتِمَـاعِ الإِخْوَانِ، وَإِطْعَامِ الطَّعَامِ، وَنَحْوِ ذٰلِکَ مِنْ وُجُوْهِ الْقُرُبَاتِ، وَإِظْهَارِ الْـمَسَرَّاتِ.
السیوطي في حسن المقصد في عمل المولد: 64-65، وأیضًا في الحاوي للفتاوی: 206، والصالحي في سبل الہدی والرشاد في سیرۃ خیر العباد ﷺ، 1: 367، والزرقاني في شرح المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، 1: 263-264، والنبھاني في حجۃ اللہ علی العالمین في معجزات سید المرسلین ﷺ: 237.
امام سیوطی مزید فرماتے ہیں: یوم میلاد النبی ﷺ منانے کے حوالے سے ایک اور دلیل جو مجھ پر ظاہر ہوئی ہے، جسے امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اِعلانِ نبوت کے بعدخود اپنا عقیقہ کیا۔ باوُجود اس کے کہ آپ ﷺ کے دادا عبد المطلب آپ ﷺ کی پیدائش کے ساتویں روز آپ ﷺ کا عقیقہ کر چکے تھے اورعقیقہ دو (2) بار نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا یہ واقعہ اِسی چیز پر محمول کیا جائے گا کہ آپ ﷺ کا دوبارہ اپنا عقیقہ کرنا آپ ﷺ کا شکرانے کا اِظہار تھا اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو رحمۃ للعالمین اور آپ ﷺ کی اُمت کے شرف کا باعث بنایا۔ اسی طرح ہمارے لیے مستحب ہے کہ ہم بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے یومِ ولادت پر خوشی کا اِظہار کریں اور کھانا کھلائیں اور دیگر عبادات بجا لائیں اور خوشی کا اظہار کریں۔
قَالَ ابْنُ ظَھِیْرَۃ الْقَرَشِيُّ الْحَنَفِيُّ فِي الْجَامِعُ اللَّطِیْفُ فِي فَضْلِ مَکَّةَ وَأَهْلِهَا وَبِنَائِ الْبَیْتِ الشَّرِیْفِ: وَجَرَتِ الْعَادَةُ بِمَکَّةَ لَیْلَةَ الثَّانِي عَشَرَ مِنْ رَبِیْعِ الْأَوَّلِ فِي کُلِّ عَامٍ أَنَّ قَاضِيَ مَکَّةَ الشَّافِعِيَّ یَتَهَیَّأُ لِزِیَارَةِ هٰذَا الْـمَحَلِّ الشَّرِیْفِ بَعْدَ صَلَاةِ الْـمَغْرِبِ فِي جَمْعٍ عَظِیْمٍ، مِنْهُمُ الثَّـلَاثَةُ الْقُضَاةُ وَأَکْثَرُ الْأَعْیَانِ مِنَ الْفُقَهَائِ وَالْفُضَلَائِ، وَذَوِي الْبُیُوْتِ بِفَوَانِیْسَ کَثِیْرَةٍ وَشُمُوْعٍ عَظِیْمَةٍ وَزِحْامٍ عَظِیْمٍ. وَیُدْعٰی فِیْهِ لِلسُّلْطَانِ وَلِأَمِیْرِ مَکَّةَ، وَلِلْقَاضِي الشَّافِعِيِّ بَعْدَ تَقَدُّمِ خُطْبَةٍ مُنَاسِبَةٍ لِلْمَقَامِ، ثُمَّ یَعُوْدُ مِنْهُ إِلَـی الْـمَسْجِدِ الْـحَرَامِ قُبَیْلَ الْعِشَائِ، وَیَجْلِسُ خَلْفَ مَقَامِ الْـخَلِیْلِ علیه السلام بِإِزَائِ قُبَّةِ الْفِرَاشَیْنِ، وَیَدْعُو الدَّاعِي لِـمَنْ ذُکِرَ آنِفًا بِحُضُوْرِ الْقُضَاةِ وَأَکْثَرِ الْفُقَهَائِ. ثُمَّ یُصَلُّوْنَ الْعِشَاءَ وَیَنْصَرِفُوْنَ، وَلَـمْ أَقِفْ عَلٰی أَوَّلِ مَنْ سَنَّ ذٰلِکَ، سَأَلْتُ مُؤَرِّخِي الْعَصْرِ فَلَمْ أَجِدْ عِنْدَهُمْ عِلْمًـا بِذٰلِکَ.
ابن ظہیرۃ في الجامع اللطیف في فضل مکۃ وأھلہا وبناء البیت الشریف: 201-202.
اِمام جمال الدین محمد جار اللہ بن محمد نور الدین بن ظہیرہ قرشی حنفی ’الجامع اللطیف في فضل مکۃ وأہلہا وبناء البیت الشریف‘ میں اہلِ مکہ کا جشنِ میلاد النبی ﷺ منانے کا معمول یوں بیان کرتے ہیں: ہر سال مکہ مکرمہ میں بارہ ربیع الاول کی رات اہل مکہ کا یہ معمول ہے کہ قاضی مکہ - جو کہ شافعی ہیں - مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ مولد شریف کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں تینوں مذاہبِ فقہ کے قاضی، اکثر فقہاء، فضلاء اور اہل شہر ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔ وہاں جا کر مولد شریف کے موضوع پر خطبہ دینے کے بعد بادشاهِ وقت، امیرِ مکہ اور شافعی قاضی کے لیے (منتظم ہونے کی وجہ سے) دعا کی جاتی ہے۔ پھر وہ وہاں سے نمازِ عشاء سے تھوڑا پہلے مسجد حرام میں آجاتے ہیں اور صاحبانِ فراش کے قبہ کے مقابل مقامِ ابراہیم کے پیچھے بیٹھتے ہیں۔ بعد ازاں دعا کرنے والا کثیر فقہاء اور قضاۃ کی موجودگی میں دعا کا کہنے والوں کے لیے خصوصی دعا کرتا ہے اور پھر عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد سارے الوداع ہو جاتے ہیں۔ (مصنف فرماتے ہیں کہ) مجھے علم نہیں کہ یہ سلسلہ کس نے شروع کیا تھا اور بہت سے ہم عصر مؤرّخین سے پوچھنے کے باوُجود اس کی تاریخ کا پتہ نہیں چل سکا۔
قَالَ الْعَلَّامَةُ قُطْبُ الدِّیْنِ الْحَنَفِيُّ فِي کِتَابِ الإِعْلَامِ بِأَعْلَامِ بَیْتِ اللهِ الْحَرَامِ فِي تَارِیْخِ مَکَّةِ الْمُشْرِفَةِ: یُزَارُ مَوْلِدُ النَّبِيِّ ﷺ الْـمَکَانِـيُّ فِـي اللَّیْلَةِ الثَّانِیَةِ عَشَرَ مِنْ شَهْرِ رَبِیْعِ الْأَوَّلِ فِـي کُلِّ عَامٍ، فَیَجْتَمِعُ الْفُقَهَائُ وَالْأَعْیَانُ عَلٰی نِظَامِ الْـمَسْجِدِ الْـحَرَامِ وَالْقُضَاةُ الْأَرْبَعَةُ بِمَکَّةَ الْـمُشَرَّفَةِ بَعْدَ صَلَاةِ الْـمَغْرِبِ بِالشُّمُوْعِ الْکَثِیْرَةِ وَالْـمُفَرَّغَاتِ وَالْفَوَانِیْسِ وَالْـمَشَاغِلِ وَجَمِیْعِ الـْمَشَائِخِ مَعَ طَوَائِفِهِمْ بِالْأَعْلَامِ الْکَثِیْرَةِ، وَیَخْرُجُوْنَ مِنَ الْمَسْجِدِ إِلٰـی سُوْقِ الَّلیْلِ وَیَمْشُوْنَ فِیْهِ إِلٰـی مَحَلِّ الْـمَوْلِدِ الشَّرِیْفِ بِازْدِحَامٍ، وَیَخْطُبُ فِیْهِ شَخْصٌ وَیَدْعُوْ لِلسَّلْطَنَةِ الشَّرِیْفَةِ، ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ إِلَـی الْـمَسْجِدِ الْـحَرَامِ، وَیَجْلِسُوْنَ صُفُوْفًا فِـي وَسَطِ الْـمَسْجِدِ مِنْ جِهَةِ الْبَابِ الشَّرِیْفِ خَلْفَ مَقَامِ الشَّافِعِیَّةِ وَیَقِفُ رَئِیْسُ زَمْزَمَ بَیْنَ یَدَيْ نَاظِرِ الْـحَرَمِ الشَّرِیْفِ وَالْقُضَاةِ، وَیَدْعُوْ لِلسُّلْطَانِ وَیُلْبِسُهُ النَّاظِرُ خِلْعَۃً وَیُلْبِسُ شَیْخَ الْفِرَاشَیْنِ خِلْعَۃً. ثُمَّ یُؤَذَّنُ لِلْعِشَائِ وَیُصَلِّي النَّاسُ عَلٰی عَادَتِهِمْ، ثُمَّ یَمْشِي الْفُقَهَائُ مَعَ نَاظِرِ الْـحَرَمِ إِلَـی الْبَابِ الَّذِي یُخْرَجُ مِنْهُ مِنَ الْـمَسْجِدِ، ثُمَّ یَتَفَرَّقُوْنَ. وَهٰذِهٖ مِنْ أَعْظَمِ مَوَاکِبِ نَاظِرِ الْـحَرَمِ الشَّرِیْفِ بِمَکَّةَ الْـمُشَرَّفَةِ وَیَأْتِـي النَّاسُ مِنَ الْبَدْوِ وَالْـحَضَرِ وَأَهْلِ جَدَّةَ، وَسُکَّانِ الْأَوْدِیَةِ فِـي تِلْکَ اللَّیْلَةِ وَیَفْرَحُوْنَ بِهَا.
قطب الدین في کتاب الإعلام بأعلام بیت اللہ الحرام فی تاریخ مکۃ المشرفۃ: 355-356.
علامہ قطب الدین حنفی نے ’کتاب الإعلام بأعلام بیت اللہ الحرام فی تاریخ مکۃ المشرفۃ‘ میں فرماتے ہیں: ہر سال باقاعدگی سے بارہ ربیع الاول کی رات حضور نبی اکرم ﷺ کی جائے ولادت کی زیارت کی جاتی ہے۔ (تمام علاقوں سے) فقہاء، گورنر اور چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ (مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور ﷺ کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے اور اس سلطنتِ شریفہ کے لیے دعا کرتا ہے۔ پھر تمام لوگ دوبارہ مسجد حرام میں آنے کے بعد باب شریف کی طرف رُخ کر کے مقامِ شافعیہ کے پیچھے مسجد کے وسط میں بیٹھ جاتے ہیں اور رئیسِ زَم زَم حرم شریف کے نگران کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ بعد ازاں قاضی بادشاهِ وقت کو بلاتے ہیں، حرم شریف کا نگران اس کی دستار بندی کرتا ہے اور صاحبانِ فراش کے شیخ کو بھی خلعت سے نوازتا ہے۔ پھر عشاء کی اذان ہوتی اور لوگ اپنے طریقہ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر حرم پاک کے نگران کی معیت میں مسجد سے باہر جانے والے دروازے کی طرف فقہاء آتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں حتیٰ کہ جدہ کے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ ﷺ کی ولادت پر خوشی کا اِظہار کرتے تھے۔
قَالَ الإِمَامُ بُرْهَانُ الدِّیْنِ الْحَلَبِيُّ: وَکَانَتْ تِلْکَ السَّنَةُ الَّتِي حُمِلَ فِیْهَا بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ، یُقَالُ لَهَا سَنَةُ الْفَتْحِ وَالإِبْتِهَاجِ، فَإِنَّ قُرَیْشًا کَانَتْ قَبْلَ ذٰلِکَ فِي جَدْبٍ وَضَیِّقٍ عَظِیْمٍ فَاخْضَرَّتِ الْأَرْضُ وَحَمَلَتِ الْأَشْجَارُ وَأَتَاهُمُ الرَّغَدُ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ فِي تِلْکَ السَّنَةِ.
الحلبي في إنسان العیون فی سیرۃ الأمین المأمون، 1: 78.
امام برہان الدین حلبی نے لکھا ہے: جس سال رسول اللہ ﷺ کی والدہ ماجدہ اُمید سے تھیں اس کو فتح اور خوش حالی کا سال کہا جاتا ہے کیونکہ قریش اس سے پہلے سخت خشک سالی اور تنگی میں مبتلا تھے۔ مگر یہ سال آتے ہی زمینیں سر سبز ہو گئیں اور درخت پھلوں سے لد گئے، الغرض اس سال قریش کو ہر طرف سے آسودگی اور فراخی حاصل ہوئی۔
{شبِ میلاد کی فضیلت پر اَئمہ سلف صالحین کے ارشادات}
وَقَدْ صَرَّحَ الإِمَامُ الطَّحَاوِيُّ وَالتِّلِمْسَانِيُّ وَالْقَسْطَلَانِيُّ والزُّرْقَانِيُّ وَالْحَلَبِيُّ وَعَبْدُ الْحَيِّ الْفَرَنْجِي الْمَحَلِّيُّ اللَّکْنَوِيُّ والنَّبْهَانِيُّ بِکُلِّ وُضُوْحٍ أَنَّ جَمِیْعَ هٰذِهِ اللَّیَالِي مُفَضَّلَۃٌ، وَأَفْضَلُهَا لَیْلَةُ مَوْلِدِ الْحَبِیْبِ ﷺ.
قَالَ الإِمَامُ الطَّحَاوِيُّ نَقْـلًا عَنْ بَعْضِ الشَّوَافِعِ مَا نَصُّہٗ: إِنَّ أَفْضَلَ اللَّیَالِيْ لَیْلَةُ مَوْلِدِهٖ ﷺ، ثُمَّ لَیْلَةُ الْقَدْرِ، ثُمَّ لَیْلَةُ الْإِسْرَائِ وَالْـمِعْرَاجِ، ثُمَّ لَیْلَةُ عَرَفَةَ، ثُمَّ لَیْلَةُ الْـجُمُعَةِ، ثُمَّ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، ثُمَّ لَیْلَةُ الْعِیْدِ.
ابن عابدین الشامي في رد المحتار علی در المختار علی تنویر الأبصار، 2: 511، والشرواني في حاشیۃ علی تحفۃ المحتاج بشرح المنہاج، 2: 405، والنبہاني في جواہر البحار في فضائل النبي المختار ﷺ، 3: 426.
امام طحاوی، تلمسانی، قسطلانی، زرقانی، حلبی، عبد الحی فرنگی محلی اور نبہانی نے بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ سب راتیں فضیلت والی ہیں مگر شبِ میلادِ رسول ﷺ سب سے افضل ہے۔
امام طحاوی بعض شوافع سے نقل کرتے ہیں: راتوں میں سے افضل ترین شبِ میلادِ رسول ﷺ ہے، پھر شبِ قدر، پھر شبِ اِسراء و معراج، پھر شبِ عرفہ، پھر شبِ جمعہ، پھر شعبان کی پندرہویں شب اور پھر شبِ عید ہے۔
قَالَ الإِمَامُ الْحَافِظُ الْفَقِیْهُ أَبُو عَبْدِ اللهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَرْزُوْقٍ التِّلِمْسَانِيُّ: وَشَرَفُ لَیْلَةِ مَوْلِدِهٖ صَلَوَاتُ اللهِ وَسَلَامُہٗ عَلَیْهِ غَیْرُ خَفِيٍّ أَنَّهَا شَرُفَتْ بِوِلَادَةِ خَیْرِ الْخَلَائِقِ وَأَکْرَمِهَا، وَأَزْکَی الْبَرِیَّةِ وَأَشْرَفِهَا، وَخَاتَمِ الْأَنْبِیَاءِ وَیَدِ الرُّسُلِ وَسِرِّ الْوُجُوْدِ وَمَعْنَاهُ، وَوَسِیْلَةُ الْأَنْبِیَاءِ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَإِمَامُ الْمَلَائِکَةِ وَالنَّبِیِّیْنَ، وَرَحْمَةُ اللهِ لِلْعَالَمِیْنَ، وَأَفْضَلُ الْخَلاَئِقِ أَجْمَعِیْنَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَیْهِ وَعَلٰی آلِهِ الْأَکْرَمِیْنَ، وَصَحْبِهِ الْمُنْتَخَبِیْنَ، وَسَلَّمَ عَلَیْهِ وَعَلَیْهِمْ.
التلمساني في جنی الجنتین في شرف اللیلتین: 183.
امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن مرزوق تلمسانی کہتے ہیں: شبِ میلادِ رسول اللہ ﷺ کی فضیلت پوشیدہ نہیں ہے اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ رات تمام مخلوقات میں سے بہترین اور معزز، اور تمام مخلوق سے زیادہ پاکیزہ اور شرف والے، انبیاء کے خاتم، رسولوں کے سردار اور کائنات کے راز کی ولادت کی وجہ سے فضیلت والی ہوئی۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ تمام انبیاء اور رسولوں کے وسیلہ، ملائکہ اور انبیاء کے امام، تمام جہانوں کے لیے رحمت اور تمام مخلوق سے افضل و اَعلی ہیں۔ آپ ﷺ پر، آپ کی مکرّم آل پر اور آپ کے چیدہ صحابہ کرام رضوان الله علیهم اجمعین پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں۔
وقَالَ أَیْضًا فِي الْأَدِلَّةِ عَلٰی أَفْضَلِیَّةِ لَیْلَةِ الْمَوْلِدِ:
اَلدَّلِیْلُ عَلٰی مَا نَخْتَارُہٗ مِنْ أَثَرَةِ لَیْلَةِ الْمَوْلِدِ بِالْمَعْنَی الَّذِيْ قَدَّمْنَاهُ مِنْ وُجُوْہٍ:
اَلْأَوَّلُ: إِنَّ الشَّرْفَ حَسْبَمَا قَدَّمْنَاهُ هُوَ الْعُلُوُّ وَالرِّفْعَةُ، وَهُمَا نِسْبَتَانِ إِضَافِیَّتَانِ، فَشَرَفُ کُلِّ لَیْلَةٍ بِحَسَبِ مَا شَرُفَتْ بِهٖ، وَلَیْلَةُ الْمَوْلِدِ شَرُفَتْ بِوِلَادَةِ خَیْرِ خَلْقِ اللهِ، فَثَبَتَ بِذٰلِکَ أَفْضَلِیَّتُهَا بِهٰذَا الْاِعْتِبَارِ.
اَلثَّانِي: إِنَّ لَیْلَةَ الْمَوْلِدِ لَیْلَةُ ظُهُوْرِهٖ ﷺ، وَلَیْلَةُ الْقَدْرِ مُعْطَاۃٌ لَہٗ، وَمَا شَرُفَ بِظُهُوْرِ ذَاتِ الْمُشَرِّفِ مِنْ أَجْلِهٖ أَشْرَفُ مِمَّا شَرُفَ بِسَبِبِ مَا أُعْطِیَہٗ، وَلَا نِزَاعَ فِيْ ذٰلِکَ، فَکَانَتْ لَیْلَةُ الْمَوْلِدِ بِهٰذَا الْاِعْتِبَارِ أَشْرَفَ.
اَلثَّالِثُ: إِنَّ لَیْلَةَ الْقَدْرِ إِحْدٰی مَا مُنِحَہٗ. مَنْ شَرُفَتْ لَیْلَةُ الْمَوْلِدِ بِوُجُوْدِهٖ مِنَ الْمَوَاهِبِ وَالْمَزَایَا وَهِيَ لَا تُحْصٰی کَثْرَۃً، وَمَا شَرُفَ بِإِحْدٰی خَصَائِصَ مِنْ حَیْثُ لَهُ الشَّرَفُ الْمُطْلَقُ لَا یَتَنَزَّلُ مَنْزِلَةَ الْمُتَشَرَّفِ بِوُجُوْدِهٖ، فَظَهَرَ أَنَّ لَیْلَةَ الْمَوْلِدِ أَشْرَفُ بِهٰذَا الْاِعْتِبَارِ وَهُوَ الْمَطْلُوْبُ.
اَلرَّابِعُ: إِنَّ لَیْلَةَ الْقَدْرِ شَرُفَتْ بِاعْتِبَارِ مَا خُصَّتْ بِهٖ، وَهُوَ مُنْقَضٍ بِانْقِضَائِهَا إِلٰی مِثْلِهَا مِنَ السَّنَةِ الْمُقْبِلَةِ عَلَی الْأَرْجَحِ مِنَ الْقَوْلَیْنِ، وَلَیْلَةُ الْمَوْلِدِ شَرُفَتْ بِمَنْ ظَهَرَتْ آثَارُہٗ، وَبَهَرَتْ أَنْوَارُہٗ أَبَدًا فِي کُلِّ فَرَدٍ مِنْ أَفْرَادِ الزَّمَانِ إِلَی انْقِضَاءِ الدُّنْیَا.
اَلْخَامِسُ: إِنَّ لَیْلَةَ الْقَدْرِ شَرُفَتْ بِنُزُوْلِ الْمَلاَئِکَةِ فِیْهَا، وَلَیْلَةَ الْمَوْلِدِ شَرُفَتْ بِظُهُوْرِ النَّبِيِّ ﷺ فِیْهَا، وَمَنْ شَرُفَتْ بِهٖ لَیْلَةَ الْمَوْلِدِ أَفْضَلُ مِمَّنْ شَرُفَتْ بِهِمْ لَیْلَةَ الْقَدْرِ عَلَی الْأَصَحِّ الْمُرْتَضٰی، فَتَکُوْنُ لَیْلَةُ الْمَوْلِدِ أَفْضَلَ مِنْ هٰذَا الْوَجْهِ وَهُوَ الْمَطْلُوْبُ.
اَلسَّادِسُ: اَلْأَفْضَلِیَّةُ عِبَارَۃٌ عَنْ ظُهُوْرِ فَضْلٍ زَائِدٍ فِي الْأَفْضَلِ، وَاللَّیْلَتَانِ مَعًا اشْتَرَکَتَا فِي الْفَضْلِ بِتَنَزُّلِ الْمَلَائِکَةِ فِیْهِمَا مَعًا حَسْبَمَا سَبَقَ مَعَ زِیَادَةِ ظُهُوْرِ خَیْرِ الْخَلْقِ ﷺ فِي لَیْلَةِ الْمَوْلِدِ، فَفَضُلَتْ مِنْ هٰذَا الْوَجْهِ عَلَی الْقَوْلَیْنِ جَمِیْعًا فِي الْمُفَاضَلَةِ بَیْنَ الْمَلَائِکَةِ وَالْأَنْبِیَاءِ عَلَیْهِمُ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ.
اَلسَّابِعُ: إِنَّ لَیْلَةَ الْقَدْرِ شَرُفَتْ بِنُزُوْلِ الْمَلَائِکَةِ عَلَیْهِمُ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ وَانْتِقَالُهُمْ مِنْ مَحَالِّهِمْ مِنَ الْأَعْلٰی إِلَی الْأَرْضِ، وَلَیْلَةُ الْمَوْلِدِ شَرُفَتْ بِوُجُوْدِهٖ ﷺ وَظُهُوْرِهٖ، وَمَا شَرُفَ بِالْوُجُوْدِ وَالظُّهُوْرِ أَشْرَفُ مِمَّا شَرُفَ بِالْاِنْتِقَالِ.
اَلثَّامِنُ: لَیْلَةُ الْقَدْرِ فَضُلَتْ بِاعْتِبَارِ عَمَلِ الْعَامِلِ فِیْهَا، فَأَنْتَ إِذَا قَدَّرْتَ أَهْلَ الْأَرْضِ کُلَّهُمْ عَامِلِیْنَ فِیْهَا فَـلَا یَلْحَقُوْنَ قَدْرَ مَنْ شَرُفَتْ بِهٖ لَیْلَةُ الْمَوْلِدِ، وَلَا یَلْحَقُوْنَ عَمَلَہٗ فِي لَحْظَةٍ وَإِنْ کَانَ فِي غَیْرِهَا. فَثَبَتَتْ أَفْضَلِیَّةُ لَیْلَةِ الْمَوْلِدِ بِهٰذَا الْاِعْتِبَارِ.
اَلتَّاسِعُ: شَرُفَتْ لَیْلَةُ الْقَدْرِ بِکَوْنِهَا مَوْهِبَۃً لِأُمَّةِ مُحَمَّدٍ عِنَایَۃً بِهٖ ﷺ، وَشَرُفَتْ لَیْلَةُ الْمَوْلِدِ بِوُجُوْدِ مَنْ وُهِبَتْ لَیْلَةُ الْقَدْرِ لِأُمَّتِهِ اعْتِنَائً بِهٖ ﷺ فَکَانَتْ أَفْضَلَ.
اَلْعَاشِرُ: لَیْلَةُ الْقَدْرِ وَقَعَ التَّفَضُّلُ فِیْهَا عَلٰی أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ﷺ، وَلَیْلَةُ الْمَوْلِدِ الشَّرِیْفِ وَقَعَ التَّفَضُّلُ فِیْهَا عَلٰی سَائِرِ الْمَوْجُوْدَاتِ، فَهُوَ الَّذِيْ بَعَثَهُ اللهُ ل رَحْمَۃً لِلْعَالَمِیْنَ فَقَالَ تَعَالٰی: {وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَo} [الأنبیاء، 21: 107]؛ فَعَمَّتْ بِهِ النِّعْمَةُ عَلَی الْخَلَائِقِ، فَکَانَتْ لَیْلَةُ الْمَوْلِدِ أَعَمَّ نَفْعًا بِهٰذَا الْاِعْتِبَارِ، فَکَانَتْ أَشْرَفَ وَهُوَ الْمَطْلُوْبُ.
اَلْحَادِي عَشَرَ: لَیْلَةُ الْمَوْلِدِ فَضُلَتْ غَیْرَهَا مِنْ لَیَالِيَ السَّنَةِ بِوِلَادَتِهٖ ﷺ فَإِنَّکَ تَقُوْلُ فِیْهَا: لَیْلَةُ مَوْلِدِ مُحَمَّدٍ ﷺ، وَتَقُوْلُ فِي لَیْلَةِ الْقَدْرِ هِيَ إِمَّا لَیْلَةُ الشَّرَفِ وَإِمَّا لَیْلَةُ التَّقْدِیْرِ، وَالإِضَافَةُ فِي لَیْلَةِ الْمَوْلِدِ إِضَافَةُ اخْتِصَاصٍ، وَهِيَ أَبْلَغُ مِنَ الإِضَافَةِ إِلٰی مُطْلَقِ الْمُشَرَّفِ، فَکَانَتْ أَفْضَلَ بِهٰذَا الْوَجْهِ وَهُوَ الْمَطْلُوْبُ.
اَلثَّانِي عَشَرَ: لَیْلَةُ الْقَدْرِ إِمَّا لَیْلَةُ الشَّرَفِ أَوْ لَیْلَةُ التَّقْدِیْرِ، فَهِي وَإِنْ کَانَ التَّقْدِیْرُ فِیْهَا مِنْ لَوَازِمِهٖ شَرَفُهَا بِاعْتِبَارِهٖ، وَلَیْلَةُ الْمَوْلِدِ لَیْلَةُ شَرَفٍ عَامٍّ لَا امْتِرَاءَ فِیْهِ، فَیَثْبُتُ فَضْلُ لَیْلَةِ الْمَوْلِدِ وَهُوَ الْمَطْلُوْبُ.
اَلثَّالِثُ عَشَرَ: لَیْلَةُ الْقَدْرِ إِنَّمَا یَحْظٰی بِهَا الْعَامِلُ فِیْهَا فَمَنْفَعَتُھَا قَاصِرَۃٌ، وَلَیْلَةُ الْمَوْلِدِ مُتَعَدِّیَۃٌ مَنْفَعَتُهَا، وَمَا کَانَتْ مَنْفَعَتُہٗ مُتْعَدِّیَۃً أَفْضَلُ مِنْ غَیْرِهٖ وَهُوَ الْمُدَّعٰی.
اَلرَّابِعُ عَشَرَ: اَلْمُدَّعٰی أَنَّ لَیْلَةَ الْمَوْلِدِ أَفْضَلُ، وَیَدُلُّ عَلَیْهِ بِأَنْ نَقُوْلَ: زَمَنٌ شَرُفَ بِوِلَادَتِهٖ ﷺ وَإِضَافَتِهٖ إِلَیْهِ وَاخْتُصَّ بِذٰلِکَ، فَلْیَکُنْ أَفْضَلَ الْأَزْمِنَةِ قِیَاسًا عَلٰی أَفْضَلِیَّةِ الْبُقْعَةِ الَّتِي اخْتُصَّتْ بِهٖ وَلَحْدِهٖ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ بَیْنَ أَطْبَاقِهَا عَلٰی سَائِرِ الْأَمْکِنَةِ، وَقَدْ فَضُلَتْهَا إِجْمَاعًا فَلْیَکُنِ الزَّمَنُ الَّذِيْ اخْتُصَّ بِوِلَادَتِهٖ ﷺ أَفْضَلَ الْأَزْمَانِ بِهٰذَا الْاِعْتِبَارِ.
اَلْخَامِسُ عَشَرَ: لَیْلَةُ الْقَدْرِ فَرْعُ ظُهُوْرِهٖ ﷺ، وَلَیْلَةُ الْمَوْلِدِ أَصْلُ ظُهُوْرِهٖ ﷺ، وَالْفَرْعُ لَا یَقْوٰی قُوَّةَ الْأَصْلِ، فَفَضُلَتْ لَیْلَةُ الْمَوْلِدِ بِهٰذَا الْاِعْتِبَارِ وَهُوَ الْمَطْلُوْبُ.
اَلسَّادِسُ عَشَرَ: لَیْلَةُ الْمَوْلِدِ حَصُلَ فِیْهَا مِنَ الْفَیْضِ الإِلٰهِيِّ النُّوْرَانِيِّ مَا عَمَّ الْوُجُوْدَ، وَوُجُوْدُہٗ مُقَارِنٌ لِوُجُوْدِهٖ ﷺ، وَلَمْ یَقَعْ ذٰلِکَ إِلَّا فِیْهَا، فَوَجَبَ فَضْلُهَا عَلٰی غَیْرِهَا. وَهُوَ الْمُدَّعٰی.
اَلسَّابِعُ عَشَرَ: لَیْلَةُ الْمَوْلِدِ أَظْهَرَ اللهُ فِیْهَا سِرَّ وُجُوْدِهِ ﷺ الَّذِي ارْتَبَطَتْ بِهِ السَّعَادَاتُ الْأُخْرَوِیُّةُ عَلَی الإِطْلَاقِ، وَاتَّضَحَتِ الْحَقَائِقُ وَتَمَیَّزَ بِهِ الْحَقُّ مِنَ الْبَاطِلِ، وَظَهَرَ مَا أَظْهَرَهُ اللهُ تَعَالٰی فِي الْوُجُوْدِ مِنْ أَنْوَارِ السَّعَادَةِ وَسَبِیْلِ الْمَرَاشِدِ، وَافْتَرَقَ بِهٖ فَرِیْقُ الْجَنَّةِ مِنْ فَرِیْقِ السَّعِیْرِ، وَتَمَیَّزَ وَعَلَا بِهِ الدِّیْنُ، وَأَصْبَحَ الْکُفْرُ وَهُوَ الْحَقِیْرُ، إِلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ مِنْ أَسْرَارِ وُجُوْدِ اللهِ ل فِي مَخْلُوْقَاتِهٖ، وَمَا بَھَرَ الْوُجُوْدُ مِنْ آیَاتِهٖ وَلَمْ یَثْبُتْ ذٰلِکَ فِي لَیْلَةٍ مِنْ لَیَالِيَ الزَّمَانِ، فَوَجَبَ بِذٰلِکَ تَفْضِیْلُهَا بِهٰذَا الْاِعْتِبَارِ وَهُوَ الْمَطْلُوْبُ.
اَلثَّامِنُ عَشَرَ: وَهُوَ تَنْوِیْحٌ فِي الْاِسْتِدْلَالِ وَإِنْ کَانَ مَعْنٰی مَا تَقَدَّمَ وَهُوَ أَنَا أَقُوْلُ: لَوْ لَمْ تَکُنْ لَیْلَةُ الْمَوْلِدِ أَفْضَلَ مِنْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ لَلَزِمَ أَحَدُ أُمُوْرٍ ثَـلَاثَةٍ وَهِيَ:
وَکُلُّهَا مُمْتَنِعٌ، أَمَّا الْأَوَّلُ: فَعَلَی الصَّحِیْحِ الْمُرْتَضٰی، وَأَمَّا الثَّانِي وَالثَّالِثُ فَبِاتِّفَاقٍ، وَبَیَانُ الْمُلَازَمَةِ أَنَّ التَّفْضِیْلَ فِي الْأُوْلٰی حُصِلَ بِوِلَادَتِهٖ ﷺ ؛ وَفِي الثَّانِیَةِ: إِمَّا بِنُزُوْلِ الْمَلَائِکَةِ أَوِ الْعَمَلِ.
التلمساني في جنی الجنتین في شرف اللیلتین: 189-193.
امام تلمسانی (اپنی کتاب میں) شبِ میلاد کی افضلیت کے متعلق دلائل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وہ دلیل جسے ہم شب مولد رسول ﷺ کی فضیلت کے لیے اختیار کر رہے ہیں اس مفہوم میں جس کو ہم نے پہلے پیش کر دیا، وہ کئی اعتبارات سے ہے۔
پہلی دلیل: بے شک (شبِ مولد الرسول) کا مشرف ہونا جو ہم بیان کر چکے ہیں وہ علو و رفعت کے سبب ہے اور یہ دو اضافی نسبتیں ہیں۔ ہر رات کا شرف اس وجہ سے ہے جس کے ذریعہ سے وہ شرف والی کہلاتی ہے، اور شبِ مولد الرسول ﷺ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق میں سے بہترین شخصیت کی اس میں ولادت باسعادت کی وجہ سے افضلیت ہے۔ اِس اعتبار سے شبِ مولد الرسول کی افضلیت ثابت ہوئی۔
دوسری دلیل: بے شک شبِ میلاد آپ ﷺ کے ظہور کی رات ہے اور شبِ قدر آپ ﷺ کو عطا کی گئی ہے۔ لہٰذا جس شے کو آپ ﷺ کے سبب شرف و منزلت عطا ہوئی ہو، وہ رات (یعنی لیلۃ المولد) جس کی وجہ سے شرف دینے والی ذات کا ظہور ہوا، اور اس رات کو اس ظہور سے فضیلت ملی وہ اس رات سے زیادہ شرف والی ہے جس کو آپ ﷺ کو عطا کیے جانے کے سبب شرف حاصل ہوا۔ اِس اَمر میں کوئی اِختلاف نہیں ہے۔ بنا بریں شبِ میلاد اِس اِعتبار سے (شبِ قدر سے) زیادہ افضل اور شرف والی ہے۔
تیسری دلیل: بے شک شب قدر آپ ﷺ کو عطا کی جانے والی اشیاء میں سے ایک ہے۔ جبکہ شب مولد آپ ﷺ کی ذات اقدس میں پائے جانے والی ان گنت وہبی اشیاء اور خصوصیات کے وجود سے متشرف ہوئی۔ جس رات کو صرف ایک ہی شرف حاصل ہو کہ وہ آپ کو عطاء ہوئی وہ اس رات کے بمنزل نہیں ہوسکتی جو آپ کے وجود مسعود سے متشرف ہوئی۔ لہٰذا واضح ہو گیا کہ شبِ مولد الرسول ﷺ اِس اعتبار سے بہت اَعلی و اَرفع ہے اور یہی بات مطلوب ہے ۔
چوتھی دلیل: بے شک شب قدر جس چیز کے ساتھ خاص ہے اسی سے اس کو شرف حاصل ہوا، اور وہ شرف آئندہ سال آنے والی ایسی ہی رات سے ختم ہو جاتا ہے، دو قولوں میں سے راجح کی بنیاد پر، جبکہ شب مولد کو شرف اس ذات سے حاصل ہوا جس کے آثار نمایاں ہیں، اور جن کے انوار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تا اختتام دنیا زمانہ کے افراد میں سے ہر فرد میں جھلکیں گے۔
پانچویں دلیل:بے شک لیلۃ القدر اپنے اندر نزولِ ملائکہ کے سبب فضیلت والی ہوئی اور شبِ مولد حضور نبی اکرم ﷺ کے اس میں ظہور کے سبب فضیلت والی ہوئی، صحیح ترین اور پسندیدہ ترین قول کے مطابق جس ذات سے شب مولد شرف والی ہوئی وہ ان سے افضل ہیں جن سے شب قدر نے شرف حاصل کیا۔ لہٰذا شبِ مولد الرسول ﷺ اِس اعتبار سے زیادہ افضل واَعلی ہے اور یہی بات مطلوب ہے۔
چھٹی دلیل: اَفضلیت عبارت ہے زائد فضل کے افضل میں ظہور سے۔ دونوں راتوں میں ملائکہ کا نزول فضیلت کے اعتبار سے مشترک ہے جبکہ شبِ مولد الرسول آپ ﷺ کے ظہور کے سبب زیادہ فضیلت والی ہے جیسا کہ گزر چکا ہے۔ اِسی وجہ سے یہ رات (یعنی شب مولد) دونوں اقوال میں ملائکہ اور اَنبیاء کے مابین مغاضلت (یعنی فضیلت کا باہمی مقابلہ) میں فضیلت والی ہے۔
ساتویں دلیل: بے شک شبِ قدر کو نزولِ ملائکہ اور ان کے بلندی والے مقام کو چھوڑ کر زمین پر شرف حاصل ہوتا ہے، جب کہ شب میلاد کو آپ ﷺ کے وجودِ مسعود اور ظہور سے شرف حاصل ہوا ہے۔ لہٰذا جو رات حضور نبی اکرم ﷺ کے وجود و ظہور سے مشرف ہوئی ہو وہ اُس رات سے زیادہ شرف و منزلت والی ہے جو فرشتوں کے نزول سے مشرف ہوتی ہے۔
آٹھویں دلیل: لیلۃ القدر عامل کے اس رات میں عمل کے سبب فضیلت والی ہے۔ جب تو تمام اہلِ زمین کو اس رات میں عمل کرنے والا فرض کرے تب بھی وہ اس ذات کی قدر و منزلت تو نہیں پاسکیں گے جن کے سبب شب مولد شرف والی ہوئی اور نہ ہی وہ آپ ﷺ کے لمحہ بھر کے عمل کے رتبہ کو پاسکیں گے اگرچہ وہ کسی اور رات میں ہی کیوں نہ ہو۔ اِس اعتبار سے شبِ مولد الرسول کی افضلیت زیادہ ہے۔
نویں دلیل: لیلۃ القدر اُمتِ محمدیہ کو عطا ہونے اور اللہ تعالیٰ کے آپ ﷺ پر خصوصی انعام کے سبب فضیلت وعظمت والی ہوئی جبکہ شبِ مولد اس ہستی کے وجود کے سبب شرف والی ہوئی جن کی خاطر ان کی اُمت کو شب قدر عطا کی گئی ہے۔ اِس لیے یہ رات (شبِ قدر)سے زیادہ افضل ہے۔
دسویں دلیل: لیلۃ القدرمیں اُمتِ محمدیہ پر فضیلت وعظمت واقع ہوئی اور شبِ مولد الرسول میں کائنات کی تمام موجودات پرفضیلت واقع ہوئی ہے۔ آپ ﷺ ہی وہ ذات ہیں جنہیں اللہ عزوجل نے تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَo} ’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کرo‘۔ آپ ﷺ کے سبب تمام مخلوق پر نعمتیں عام ہوئیں تو شبِ مولد الرسول اِس اعتبار سے نفع کے طور پر زیادہ عام ہے اور زیادہ فضلیت والی ہے۔ یہی بات مطلوب ہے۔
گیارہویں دلیل: شبِ مولد سال کی دوسری راتوں سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کے سبب فضیلت والی ہے۔ اِس کے متعلق آپ کہتے ہیں کہ یہ مولد محمد ﷺ کی رات ہے اور شب قدر کو آپ شب قدر کہتے اور یہ قدر یا تو شرف کے لیے ہے یا تقدیر کے لیے اور لیلۃ المولد میں اِضافت، اِضافتِ اختصاص ہے اور یہ کسی چیز کے مطلقًا فضیلت والی ہونے سے زیادہ بلیغ نسبت ہے۔ اِس نسبتکی وجہ سے یہ رات زیادہ فضیلت والی ہے اور یہی بات مطلوب ہے۔
بارہویں دلیل: شبِ قدر یا تو شبِ شرف ہے یا شبِ عظمت و بزرگی۔ اگر عظمت و بزرگی اِس رات کے لوازمات میں سے ہے تو یہ صرف اِسی اعتبار سے شرف و منزلت والی ہوئی (کہ یہ شبِ قدر ہے)؛ جب کہ شبِ میلاد عمومی شرف والی رات ہے، اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ لہٰذا (میلاد النبی ﷺ کے باعث) شبِ مولد کی فضیلتِ حقہ ثابت ہو جاتی ہے اور یہی مطلوب ہے۔
تیرہویں دلیل: لیلۃ القدر میں عمل کرنے والا اپنے عمل کا حصہ حاصل کرتا ہے، تو اس رات کی منفعت کم ہے۔ جبکہ شبِ مولد کی منفعت متعدی ہے (مطلب اس کا حصہ ہر ایک کو ملا) اور جس کی منفعت متعدی ہو وہ دوسری راتوں سے افضل ہے۔ یہی مدعاء کلام ہے۔
چودہویں دلیل: بے شک دعوی یہ ہے کہ شبِ مولد زیادہ اَفضل ہے اور اِس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں:پورا زمانہ آپ ﷺ کی ولادت با سعادت کے سبب عظمت والا ہوا اور اس زمانہ کی نسبت آپ ﷺ کی طرف ہے اور آپ ہی کے ساتھ خاص ہونے کی وجہ سے وہ تمام زمانوں سے افضل ٹھہرا اس ٹکڑے کی افضلیت پر قیاس کرتے ہوئے جو آپ ﷺ کے جسدِ اَقدس اور آپ ﷺ کی قبرِ انور کے ساتھ خاص ہے وہ(حصہ کائنات کی)تمام جگہوں سے اَعلی واَفضل ہے۔اور اِس بات پر اجماع ہے کہ (وہ مقدس جگہ)فضیلت والی ہے تو وہ زمانہ جو نبی مکرم ﷺ کی ولادت کے ساتھ خاص ہے وہ اِس اعتبار سے تمام زمانوں پر فضیلت والا ہے۔
پندرہویں دلیل: لیلۃ القدر آپ ﷺ کے ظہور کی ایک شاخ ہے اور شبِ مولد آپ ﷺ کے ظہور کی اَصل ہے۔ شاخ (اپنے)اَصل کی قوت سے زیادہ طاقتور نہیں ہوسکتی۔ اِس اعتبار سے شبِ مولد (زیادہ)عظمت و فضیلت والی ہے اور یہی بات مطلوب ہے۔
سولہویں دلیل: شبِ مولد میں فیضِ الٰہی کے نور کا حصول ممکن ہوا جو تمام کائنات کو عام ہو گیا اور نورِ الٰہی کا وجود حضور نبی اکرم ﷺ کے وجودِ اَقدس کے ساتھ ہے اور یہ اِسی رات ہی میں واقع ہوا ہے۔ اِس رات کی فضیلت وعظمت اِس کے غیر پر ضروری ہے اور یہی مقصود ہے۔
سترہویں دلیل: اللہ تعالیٰ نے شبِ مولد الرسول ﷺ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے وجود کے راز کو ظاہر کیا ہے، جس کے ساتھ اُخروی سعادتیں مطلقًا مربوط ہیں۔ آپ ﷺ کے سبب حقائق واضح ہوگئے اور حق باطل سے جدا ہو گیا اور کائنات میں اُس کا ظہور ہوا جس کو اللہ تعالیٰ نے سعادت کے انوار اور ہدایت کے راستوں سے کائنات میں ظاہر کیا ہے۔ آپ ﷺ کے سبب جنتی گروہ جہنمی گروہ سے جدا ہو گیا اور آپ ﷺ کے ہی سبب دین متین (دوسرے ادیان سے)جدا اور بلند ہوگیا اور کفر حقیر ہوگیا۔ اس کے علاوہ وجودِ باری تعالیٰ کے اسرار کا اس کی مخلوقات میں آپ ﷺ کی وجہ سے ظہور ممکن ہوا، اور اُس کی نشانیوں کے ساتھ کائنات منور ہوئی۔ یہ سب کچھ زمانے کی راتوں میں سے کسی ایک رات (یعنی شبِ مولد)میں ہوا۔ اِس وجہ سے اِس رات کی فضیلت واجب ہے اور یہی بات مطلوب ہے۔
اَٹھارویں دلیل: یہ دلیل دینے میں آواز بلند کرنا ہے اگرچہ اِس کا معنٰی وہی ہے جو پہلے گزر چکا ہے اور وہ میں اس وجہ سے یہ بات کہتا ہوںکہ اگر شبِ مولد، شبِ قدر سے افضل نہ ہوتی تو تینوں اُمور میں سے ایک اَمر لازم آتا اور وہ تین اُمور یہ ہیںـ:
1۔ ملائکہ کا حضور نبی اکرم ﷺ سے افضل ہونا۔
2۔ یا عمل کا دوگنا ہونا۔
3۔ یا عمل (یا عظمت)کا برابر ہونا
اور یہ تمام امور ممنوع ہیں۔ بہرحال پہلا امر صحیح اور پسندیدہ ہے اور دوسرا اور تیسرا امر دونوں اتفاقِ رائے کے ساتھ ہیں۔ لزومِ امر کے بیان سے مراد یہ ہے کہ پہلے امر میں فضیلت دینا حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت کے سبب حاصل ہوا ہے اور دوسرے میں ملائکہ کے نزول کے ساتھ ہے یا عمل کے ساتھ ہے۔
اَلتَّاسِعُ عَشَرَ: بَعْضُ زَمَنِ لَیْلَةِ الْمَوْلِدِ الشَّرَیْفِ هُوَ زَمَنُ وِلَادَتِهٖ ﷺ، وَکُلُّ زَمَنِ وِلَادَتِهٖ ﷺ أَفْضَلُ الْأَزْمِنَةِ، فَبَعْضُ لَیْلَةِ الْمَوْلِدِ أَفْضَلُ الْأَزْمِنَةِ، وَإِذَا فَضُلَ بَعْضُهَا سَائِرَ الْأَزْمِنَةِ فَضُلَتْ لَیْلَةَ الْقَدْرِ بِهٰذَا الْاِعْتِبَارِ.
اَلْعِشْرُوْنَ: فَإِنْ قُلْتُ: لَیْلَةُ الْقَدْرِ اخْتُصَّتْ بِأَعْمَالٍ لَمْ تُوْجَدْ فِي لَیْلَةِ الْمَوْلِدِ، وَذٰلِکَ یَدُلُّ عَلٰی کَوْنِهَا أَفْضَلَ أَوْ أَشْرَفَ.
قُلْتُ: اَلْأَعْمَالُ الَّتِي اخْتُصَّتْ بِهَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ، وَإِنْ کَانَتْ شَرِیْفَۃً مُشَرَّفَۃً إِلَّا أَنَّ مَا اخْتُصَّتْ بِهٖ لَیْلَةُ الْمَوْلِدِ الْمُشَرَّفِ أَعَمُّ نَفْعًا، فَإِنَّ ثَمْرَةَ الْعَمَلِ فِي لَیْلَةِ الْقَدْرِ إِنَّمَا یَعُوْدُ بِالنَّفْعِ عَلَی الْعَامِلِ فَقَطْ دُوْنَ غَیْرِهٖ، وَلَیْلَةُ الْمَوْلِدِ عَادَ نَفْعُهَا عَلٰی کُلِّ الْخَلَائِقِ کَمَا سَبَقَ.
التلمساني في جنی الجنتین في شرف اللیلتین: 196.
اُنیسویں دلیل: شبِ میلاد کا ایک خاص حصہ آپ ﷺ کے وقتِ ولادت سے متصف ہے اور آپ ﷺ کی ولادت کا وقت تمام زمانوں سے افضل ہے۔ اِس بنا پر شبِ میلاد کا یہ حصہ تمام زمانوں سے افضل ہوگا۔ لہٰذا جب شبِ میلاد کا بعض حصہ سارے زمانوں سے افضل ہے تو شبِ میلاد اِس اعتبار سے شبِ قدر سے بھی افضل قرار پائے گی۔
بیسویں دلیل: اگر میں کہوں کہ لیلۃ القدر ایسے اَعمال کے ساتھ خاص کی گئی ہے جو شبِ مولد میں نہیں پائے جاتے اور یہ بات شبِ قدر کے افضل و اعلیٰ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
میں کہتا ہوں: اَعمال جن کو شب قدر کے ساتھ خاص کیا گیا ہے اگرچہ وہ اعلیٰ اور فضیلت والے ہیں، مگریہ کہ جو شے شبِ مولد کے ساتھ خاص ہے وہ نفع کے اعتبار سے عام ہیں۔ بے شک شبِ قدر میں عمل کا پھل صرف عمل کرنے والے ہی کو نفع دیتا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور کو نہیں دیتا۔ شبِ مولد کا نفع تمام مخلوق کو ہوا۔ جیسا کہ یہ بات پہلے گزر چکی ہے۔
قَدْ قِیْلَ: أَنَّ الْمُشْتَغِلُ فِي هٰذِهِ الَّلیْلَةِ بِالصَّلَاةِ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ وَالْقِیَامِ بِإِحْیَاءِ سُنَّتِهٖ وَمَعُوْنَةِ آلِهٖ، وَمُسَاهَمَتِهِمْ وَتَعْظِیْمِ حُرْمَتِهِمْ وَالْاِسْتِکْثَارِ مِنَ الصَّدَقَةِ وَأَعْمَالِ الْبِرِّ، وَإِغَاثَةِ الْمَلْهُوْفِ، وَفَکِّ الْعَانِي، وَنَصْرِ الْمَظْلُوْمِ هُوَ أَفْضَلُ مِمَّا سِوٰی ذٰلِکَ مِمَّا أَحْدَثَ، إِذْ لَا یَخْلُو مِنْ مُزَاحِمٍ فِي النِّیَّةِ، أَوْ مُفْسِدٍ لِلْعَمَلِ، أَوْ دُخُوْلِ الشُّهْرَةِ. وَطَرِیْقُ الْحَقِّ وَالسَّلَامَةِ مَعْرُوْفٌ، وَالْأَفْضَلَ فِي هٰذِهِ اللَّیْلَةِ مِمَّا ذَکَرْنَاهُ مِنْ أَعْمَالِ الْبِرِّ، وَالْاِسْتِکْثَارِ مِنَ الصَّلَاةِ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ لَیَحَظَّی الْمُسْتَکْثِرُ مِنْهَا بِبَعْضِ مَا وَرَدَ فِي فَضْلِهَا.
التلمساني في جنی الجنتین في شرف اللیلتین: 211.
یہ کہا گیا ہے کہ اِس رات میں حضور نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجنے، آپ کی سنت کا احیاء کرنے، آپ کی آل کی مدد کرنے، ان کی حرمت کی تعظیم کرنے، صدقہ اور نیک اعمال کی کثرت کرنے، مفلوک الحال کی مدد کرنے اور قیدی کو آزاد کروانے اور مظلوم کی مدد کرنے میں مشغول ہونے والا، ان لوگوں سے افضل ہے جنہوں نے اس رات میں بدعات کو فروغ دیا ہے۔ کیونکہ کوئی شخص بھی نیت میں خلل، یا عمل میں فساد، اور شہرت کی چاہت سے خالی نہیں ہوتا اور حق اور سلامتی کا راستہ معروف ہے۔ اِس رات میں نیک اَعمال کرنا، کثرت کے ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام پڑھنا اور دیگر اعمال جن کا ہم نے ذکر کیا ہے وہی افضل ہیں تاکہ کثرت کے ساتھ عمل کرنے والے کو (اِس رات)کے متعلق جو فضیلتیں وارد ہوئی ہیں اُن میں سے حصہ مل سکے۔
وَنَقَلَ الإِمَامُ أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ یَحْیَی الْوَنْشَرِیْسِيُّ ھٰذِهِ الْأَدِلَّةَ فِي الْمِعْیَارِ المُعْرِبِ وَالْجَامِعِ الْمُغْرِبِ عَنْ فَتَاوٰی أَھْلِ إِفْرِیْقِیَّةِ وَالْأَنْدَلُسِ وَالْمَغْرِبِ، وَاسْتَشْهَدَ بِهَا.
ذکرہ الونشریسي في المعیار المعرب والجامع المغرب عن فتاوی أھل إفریقیۃ والاندلس والمغرب، 11: 280-284
امام تلمسانی کے ذکر کردہ یہ تمام دلائل امام ابو العباس احمد بن یحیی الونشریسی نے اپنی کتاب المعیار المعرب والجامع المغرب عن فتاوی أھل إفریقیۃ والاندلس والمغرب میں نقل کیے اور ان سے استشہاد کیا ہے۔
قَالَ الْقَسْطَلَانِيُّ مَا نَصُّہٗ: إِذَا قُلْنَا بِأَنَّہٗ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ وُلِدَ لَیْلًا، فَأَیُّمَـا أَفْضَلُ: لَیْلَةُ الْقَدْرِ أَوْ لَیْلَةُ مَوْلِدِهٖ ﷺ ؟ أُجِیْبُ: بِأَنَّ لَیْلَةَ مَوْلِدِهٖ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أَفْضَلُ مِنْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ مِنْ وُجُوْہٍ ثَـلَاثَةٍ:
أَحَدُهَا: أَنَّ لَیْلَةَ الْـمَوْلِدِ لَیْلَةُ ظُهُوْرِهٖ ﷺ، وَلَیْلَةُ الْقَدْرِ مُعْطَاۃٌ لَّہٗ، وَمَا شَرُفَ بِظُهُوْرِ ذَاتِ الْـمُشْرِفِ مِنْ أَجْلِهٖ أَشْرَفُ مِـمَّـا شَرُفَ بِسَبَبِ مَا أُعْطِیَہٗ، وَلَا نِزَاعَ فِيْ ذٰلِکَ، فَکَانَتْ لَیْلَةُ الْـمَوْلِدِ - بِهٰذَا الْاِعْتِبَارِ - أَفْضَلَ.
اَلثَّانِي: أَنَّ لَیْلَةَ الْقَدْرِ شَرُفَتْ بِنُزُوْلِ الْـمَلَائِکَةِ فِیْهَا، وَلَیْلَةُ الْـمَوْلِدِ شَرُفَتْ بِظُهُوْرِهٖ ﷺ فِیْهَا. وَمِـمَّنْ شَرُفَتْ بِهٖ لَیْلَةُ الْـمَوْلِدِ أَفْضَلُ مِـمَّنْ شَرُفَتْ بِهٖ لَیْلَةُ الْقَدْرِ، عَلَی الْأَصَحِّ الْـمُرْتَضٰی (أَیْ عِنْدَ جُمْهُوْرِ أَهْلِ السُّنَّةِ) فَتَکُوْنُ لَیْلَةُ الْـمَوْلِدِ أَفْضَلَ.
اَلثَّالِثُ: لَیْلَةُ الْقَدْرِ وَقَعَ التَّفَضُّلُ فِیْهَا عَلٰی أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ﷺ، وَلَیْلَةُ الْـمَوْلِدِ الشَّرِیْفِ وَقَعَ التَّفَضُّلُ فِیْهَا عَلٰی سَائِرِ الْـمَوْجُوْدَاتِ، فَهُوَ الَّذِي بَعَثَهُ اللهُ تَعَالٰی رَحْمَۃً لِّلْعَالَـمِیْنَ، فَعَمَّتْ بِهِ النِّعْمَةُ عَلٰی جَمِیْعِ الْـخَلَائِقِ، فَکَانَتْ لَیْلَةُ الْـمَوْلِدِ أَعَمَّ نَفْعًا، فَکَانَتْ أَفْضَلَ مِنْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ بِهٰذَا الْاِعْتِبَارِ.
القسطلاني في المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، 1: 145، وعبد الحق في ما ثَبَت مِن السُّنّۃ في أیّام السَّنَۃ: 59-60، والزرقاني في شرح المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، 1: 255-256، والنبہاني في جواہر البحار في فضائل النبي المختار ﷺ، 3: 424.
امام قسطلانی اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
جب ہم یہ کہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ رات کے وقت پیدا ہوئے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ شبِ میلادِ رسول ﷺ افضل ہے یا لیلۃ القدر؟ میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ آپ ﷺ کے میلاد کی رات تین وجوہ کی بناء پر شبِ قدر سے اَفضل ہے:
(1) آپ ﷺ کا ظہور شبِ میلاد میں ہوا جب کہ لیلۃ القدر آپ ﷺ کو عطا کی گئی، لہٰذا وہ رات جس کو آپ ﷺ کے ظہور کا شرف ملا اُس رات سے زیاد شرف والی ہوگی جسے اِس رات میں تشریف لانے والی ہستی کے سبب سے شرف ملا، اور اِس میں کوئی نزاع نہیں۔ لہٰذا اِس اِعتبار سے شبِ میلاد شبِ قدر سے افضل ہوئی۔
(2) اگر لیلۃ القدر کی عظمت اِس بناء پر ہے کہ اِس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے تو شبِ ولادت کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے محبوب ﷺ کائنات میں جلوہ فرما ہوئے۔ جمہور اہلِ سنت کے قول کے مطابق شبِ میلاد کو جس ہستی (یعنی حضور ﷺ) نے شرف بخشا وہ شبِ قدر کو شرف بخشنے والی ہستیوں (یعنی فرشتوں) سے کہیں زیادہ بلند و برتر اور عظمت والی ہے۔ لہٰذا شبِ ولادت ہی افضل ہے۔
(3) شبِ قدر کے باعث اُمتِ محمدیہ کو فضیلت بخشی گئی ہے اور شبِ میلاد کے ذریعے جمیع موجودات کو فضیلت سے نوازا گیا۔ لہٰذا
حضور ﷺ ہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے رحمۃً للعالمین بنا کر بھیجا، اور اِس طرح نعمتِ رحمت جمیع کائنات کے لیے عام کر دی گئی ہے۔ لہٰذا شبِ ولادت نفع رسانی میں کہیں زیادہ ہے، اور اِس اعتبار سے بھی یہ لیلۃ القدر سے افضل ٹھہری۔
قَالَ النَّبْهَانِيُّ مَا نَصُّہٗ: وَلَیْلَةُ مَوْلِدِهٖ ﷺ أَفْضَلُ مِنْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ.
النبہاني في الأنوار المحمدیۃ من المواہب اللدنیۃ: 28
امام نبہانی لکھتے ہیں: شبِ میلادِ رسول ﷺ شبِ قدر سے افضل ہے۔
قَالَ الإِمَامُ عَبْدُ الْحَيِّ الْفَرَنْجِي الْمَحَلِّيُّ اللَّکْنَوِيُّ مُجِیْبًا عَلٰی سُؤَالٍ یَقُوْلُ: أَیُّهُمَا أَفْضَلُ، لَیْلَةُ الْقَدْرِ أَمْ لَیْلَةُ الْمَوْلِدِ؟ قَالَ:
فَضْلُ لَیْلَةِ الْقَدْرِ عَلٰی سَائِرِ اللَّیَالِي مَنْصُوْصٌ وَثَابِتٌ عَلٰی أَوْجُہٍ عِدَّةٍ:
(1) فِي لَیْلَةِ الْقَدْرِ تَتَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ عَلَی الْأَرْضِ.
(2) اَلتَّجَلِّیَاتُ الإِلٰهِیَّةُ تَتَوَالٰی عَلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا مِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ.
(3) فِي لَیْلَةِ الْقَدْرِ أُنْزِلَ الْقُرْآنُ مِنَ اللَّوْحِ الْمَحْفُوْظِ إِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا.
بِنَاءً عَلٰی هٰذِهِ الْمِیْزَاتِ جُعِلَتِ الْعِبَادَةُ فِي هٰذِهِ اللَّیْلَةِ تَعْدِلُ عِبَادَةَ أَکْثَرَ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، وَذٰلِکَ تَفَضُّلًا مِنْهُ عَلَی الْأُمَّةِ الْمُحَمَّدِیَّةِ وَتَرْوِیْحًا لِأَنْفُسِهِمْ، قَالَ عَزَّ مِنْ قَائِلٍ: {لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍo} [القدر، 97: 3].
وَفِي الْحَدِیْثِ النَّبَوِيِّ الشَّرِیْفِ أَمَرَ بِإِحْیَاءِ لَیْلَةِ الْقَدْرِ، وَرَدَ عَنِ الْعَدِیْدِ مِنَ الْمُحَدِّثِیْنَ أَنَّ لَیْلَةَ الْمَوْلِدِ خَیْرٌ مِنْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ، لٰـکِنَّهُمْ لَمْ یَقْصِدُوْا بِذٰلِکَ أَنَّ الْعِبَادَةَ فِي لَیْلَةِ الْمَوْلِدِ تَعْدِلُ الْعِبَادَةَ فِي لَیْلَةِ الْقَدْرِ، لِأَنَّ الثَّوَابِ وَکَذٰلِکَ الْعِقَابَ یَحْتَاجُ إِلٰی نَصٍّ مَقْطُوْعٍ بِهٖ، فَمَا لَمْ یَتَوَافَرِ النَّصُّ لَا یُقْطَعُ بِالثَّوَابِ أَوِ الْعِقَابِ، وَلٰـکِنَّ لَیْلَةَ الْمَوْلِدِ تَفْضُلُ عِنْدَ اللهِ عَلٰی لَیْلَةِ الْقَدْرِ لِمَا لَهَا مِنْ مَفْخَرَةٍ ذَاتِیَّةٍ وَخَصَائِصَ.
عبد الحي اللکنوي في مجموعۃ الفتاوٰی، 1: 86-87
مولانا محمد عبد الحئ فرنگی محلی لکھنوی شبِ قدر اور شبِ میلاد میں سے اَفضلیت کی حامل رات کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
تمام راتوں پر شبِ قدر کی بزرگی منصوص اور کئی طرح سے ثابت ہے:
(1) اِس رات میں اَرواح اور ملائکہ کا نزول زمین پر ہوتا ہے۔
(2) شام سے صبح تک آسمانِ دنیا پر تجلیات الٰہیہ کا نزول ہوتا رہتا ہے۔
(3) لوحِ محفوظ سے آسمانِ اَوّل پر نزولِ قرآن اِسی رات میں ہوا ہے۔
اِنہی امتیازی فضائل و خصائص کی وجہ سے اس ایک رات کی عبادت کا ثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُمتِ محمدیہ ﷺ پر خصوصی فضل و انعام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍo} ’شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہےo‘۔
حدیث مبارک میں بھی اِس رات جاگنے کی تاکید آئی ہے اور بعض محدثین نے جو شبِ میلاد کو شبِ قدر پر فضیلت دی ہے تو اُن کا منشا یہ نہیں کہ شبِ میلاد کی عبادت ثواب میں شبِ قدر کی عبادت کے برابر ہے، کیوں کہ ثواب اور عقاب کا حکم یہ ہے کہ جب تک نصِ قطعی موجود نہ ہو اُس وقت تک کسی کام پر ثواب یا عقاب کا قطعیت کے ساتھ تعین نہیں کیا جاسکتا۔ مگر شبِ میلاد کو شبِ قدر پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو فضیلت حاصل ہے اس کا سبب شبِ میلاد کی ذاتی عظمت اور خصوصیت ہے۔
قَالَ الْفَقِیْرُ (مُحَمَّد طَاهِر الْقَادِرِي): وَالسِّرُّ فِي فَضْلِ لَیْلَةِ الْقَدْرِ کَامِنٌ فِي نُزُوْلِ الْقُرْآنِ وَنُزُوْلِ الْمَلَائِکَةِ، أَمَّا فَضْلُ الْحَبِیْبِ الْمُصْطَفٰی ﷺ فَحَدِّثْ بِهٖ وَلَاحَرَجَ، فَمِنْ جُمْلَةِ فَضَائِلِهٖ أَنَّہٗ أُنْزِلَ عَلَیْهِ الْقُرْآنُ، وَیُهْبَطُ عَلَیْهِ صَبِیْحَةَ کُلِّ یَوْمٍ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ، وَکَذٰلِکَ یُهْبَطُ عَلَیْهِ مَسَاءَ کُلِّ یَوْمٍ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ(1)، یَضْرِبُوْنَ الْقَبْرَ الشَّرِیْفَ بِأَجْنِحَتِهِمْ، یَحُفُّوْنَ بِهٖ، یَطُوْفُوْنَ حَوْلَہٗ، وَیَتَقَدَّمُوْنَ بِأَزْکَی الصَّلَوَاتِ وَأَتَمِّ التَّسْلِیْمَاتِ عَلَیْهِ، وَسَیَسْتَمِرُّ ذٰلِکَ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ، فَمَنْ ظَفَرَ مِنْهُمْ بِتِلْکَ اللَّحْظَاتِ، وَتَشَرَّفَ بِالْمُثُوْلِ بَیْنَ یَدَیْهِ لَنْ یَسْعَدَ بِذٰلِکَ ثَانِیًا إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ.
فَالْمَلَائِکَةُ خُدَّامُ الْحَبِیْبِ ﷺ وَکُنَّاسُ الْمَقَامِ الشَّرِیْفِ وَالْحَرَمِ النَّبِوِيِّ، فَإِثْرَ نُزُوْلِ الْمَلَائِکَةِ تَزْدَادُ اللَّیْلَةُ شَرَفًا، وَتُصْبِحُ خَیْرًا مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، فَمَنْ ذَا الَّذِي یَسْتَطِیْعُ أَنْ یُدْرِکَ فَضْلَ لَیْلَةِ الْمَوْلِدِ، لَیْلَةَ وُلِدَ سَیِّدُ الْخَلْقِ وَأَکْرَمُهُمْ عَلَی اللهِ، مُسْتَحِیْلٌ أَنْ یُحِیْطَ بِفَضْلِ لَیْلَةِ الْمَوْلِدِ عَقْلُ الْعَاقِلِ وَشُعُوْرُ الشَّاعِرِ، فَفَضَائِلُ آلاَفِ الْمَلَایِیْنِ مِنَ الشُّهُوْرِ مَفْدِیَّۃٌ لِشَهْرِ الْمَوْلِدِ وَلَیْلَةِ الْمَوْلِدِ، وَالْجَدِیْرُ بِالذِّکْرِ أَنَّ فَضْلَ لَیْلَةِ الْقَدْرِ یُدْرِکُهُ الْمُؤْمِنُوْنَ فَحَسَبُ، وَسَائِرُ مَا عَدَاهُمْ یُحْرَمُوْنَ فَضْلَہٗ، وَلٰـکِنَّ مَوْلِدَ الْحَبِیْبِ ﷺ فَضْلٌ مِنَ اللهِ وَنِعْمَتُہٗ عَلٰی سَائِرِ الْخَلْقِ وَلَیْسَ الْمُؤْمِنِیْنَ فَحَسَبُ، فَمَوْلِدُہٗ فَضْلٌ مِنَ اللهِ عَلٰی جَمِیْعِ الْمَخْلُوْقَاتِ فِي الْعَالَمِ أَجْمَعَ، وَرَحْمَتُہٗ لِلْعَالَمِیْنَ فِي کُلِّ زَمَانِ وَمَکَانٍ، فَالْاِسْتِبْشَارُ بِهٰذِهِ النِّعْمَةِ وَإِظْهَارُ الْفَرَحِ بِذٰلِکَ مَجْلَبَۃٌ لِلْخَیْرِ وَمَکْسَبَۃٌ لِلثَّوَابِ.
(1) أخرجہ الدارمي في السنن، 1: 57، الرقم: 94، وابن المبارک في الزھد: 558، الرقم: 1600، وابن حبان في العظمۃ، 3: 1018- 1019، الرقم: 537، والأزدي في فضل الصلاۃ علی النبي ﷺ: 92، الرقم: 101، والبیہقي في شعب الإیمان، 3: 492-493، الرقم: 4170، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 5: 390، وابن الجوزي في الوفا بأحوال المصطفٰی ﷺ: 833، الرقم: 1578، وابن القیم الجوزیۃ في جلاء الأفہام في الصلاۃ والسلام علی خیر الأنام ﷺ: 68، الرقم: 129، والسمہودي في وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفٰی ﷺ، 2: 559، والقسطلاني في المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، 4: 625، والسیوطي في کفایۃ الطالب اللبیب في خصائص الحبیب ﷺ، 2: 376.
فقیر (محمد طاہر القادری) کہتا ہے: شبِ قدر کو فضیلت اس لیے ملی کہ اِس میں قرآن حکیم نازل ہوا اور اِس میں فرشتے اُترتے ہیں؛ جب کہ ذاتِ مصطفی ﷺ کی فضیلت کا یہ عالم ہے آپ پر قرآن نازل ہوا اور روزانہ ستر ہزار فرشتے صبح اور ستر ہزار فرشتے شام کو آپ ﷺ کے مزارِ اَقدس کی زیارت اور طواف کرتے ہیں اور بارگاهِ مصطفی ﷺ میں ہدیۂ درود و سلام پیش کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ قیامت تک اسی طرح جاری رہے گا اور فرشتوں میں سے جو ایک بار روضۂ رسول ﷺ پر حاضری کا شرف پالیتا ہے دوبارہ قیامت تک اُس کی باری نہیں آئے گی۔
فرشتے تو دربارِ مصطفی ﷺ کے خادم اور جاروب کش ہیں۔ وہ اُتریں تو شبِ قدر ہزار مہینوں سے افضل ہو جاتی ہے اور جس رات ساری کائنات کے سردار تشریف لائیں اس کی فضیلت کا اِحاطہ کرنا انسان کے علم و شعور کے لیے ناممکن ہے۔ آقا ﷺ کی آمد کی رات اور آپ ﷺ کی آمد کے مہینے پر کروڑوں اربوں مہینوں کی فضیلتیں قربان! خاص بات یہ ہے کہ شبِ قدر کی فضیلت فقط اہلِ ایمان کے لیے ہے۔ باقی انسانیت اس سے محروم رہتی ہے مگر حضور ﷺ کی آمد فقط اہلِ ایمان کے لیے ہی باعثِ فضل و رحمت نہیں بلکہ کل کائنات کے لیے ہے۔ آپ ﷺ کی ولادتِ مبارکہ ساری کائنات میں جملہ مخلوق کے لیے اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے، اس پر خوشی کا اظہار کرنا باعثِ اَجر و ثواب ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved