Mukhtalif Mahinon awr Dinon ky Fazail-o-Barakat

ماہ محرم الحرام کی فضیلت

فَضْلُ شَھْرِ الْمُحَرَّمِ الْحَرَامِ

اَلْقُرْآن

(1) اَلشَّھْرُ الْحَرَامُ بِالشَّھْرِالْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ط فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَo

(البقرة، 2: 194)

حرمت والے مہینے کے بدلے حرمت والا مہینہ ہے اور (دیگر) حرمت والی چیزیں ایک دوسرے کا بدل ہیں، پس اگر تم پر کوئی زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو مگر اسی قدر جتنی اس نے تم پر کی اور الله سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ الله ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔

(2) یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّهْرِالْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْهِ ط قُلْ قِتَالٌ فِیْهِ کَبِیْرٌ ط وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللهِ وَکُفْرٌم بِهٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللهِ ج وَالْفِتْنَةُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ.

(البقرة، 2: 217)

لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں جنگ کا حکم دریافت کرتے ہیں، فرما دیں اس میں جنگ بڑا گناہ ہے اور الله کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجدِ حرام (خانہ کعبہ) سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا الله کے نزدیک (اس سے بھی) بڑا گناہ ہے، اور یہ فتنہ انگیزی قتل و خون سے بھی بڑھ کر ہے۔

(3) یٰـٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللهِ وَلاَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْھَدْیَ وَلَا الْقَـلَآ ئِدَ وَلَآ آٰمِّیْنَ الْـبَـیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرِضْوَاناً.

(المائدة، 5: 2)

اے ایمان والو! الله کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت (و ادب) والے مہینے کی (یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب میں سے کسی ماہ کی) اور نہ حرم کعبہ کو بھیجے ہوئے قربانی کے جانوروں کی اور نہ مکّہ لائے جانے والے ان جانوروں کی جن کے گلے میں علامتی پٹے ہوں اور نہ حرمت والے گھر (یعنی خانہ کعبہ) کا قصد کرکے آنے والوں (کے جان و مال اور عزت و آبرو) کی (بے حرمتی کرو کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں) جو اپنے رب کا فضل اور رضا تلاش کر رہے ہیں۔

(4) جَعَلَ اللهُ الْکَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْیَ وَالْقَـلَآ ئِدَ ط ذٰلِکَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاَنَّ اللهَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌo

(المائدة، 5: 97)

اللہ نے عزت (و ادب) والے گھر کعبہ کو لوگوں کے (دینی و دنیوی امور میں) قیام (امن) کا باعث بنا دیا ہے اور حرمت والے مہینے کو اور کعبہ کی قربانی کو اور گلے میں علامتی پٹے والے جانوروں کو بھی (جو حرمِ مکہ میں لائے گئے ہوں سب کو اسی نسبت سے عزت و احترام عطا کر دیا گیا ہے)، یہ اس لیے کہ تمہیں علم ہو جائے کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ خوب جانتا ہے اور اللہ ہر چیز سے بہت واقف ہے۔

(5) اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ کِتٰبِ اللهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ.

(التوبة، 9: 36)

بے شک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب (یعنی نوشتۂ قدرت) میں بارہ مہینے (لکھی) ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین (کے نظام) کو پیدا فرمایا تھا ان میں سے چار مہینے (رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم) حرمت والے ہیں۔

اَلْحَدِیْث

1۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَدِمَ الْمَدِیْنَةَ فَوَجَدَ الْیَهُوْدَ صِیَامًا یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا هٰذَا الْیَوْمُ الَّذِي تَصُوْمُوْنَهٗ؟ فَقَالُوْا: هٰذَا یَوْمٌ عَظِیْمٌ أَنْجَی اللهُ فِیْهِ مُوْسٰی وَقَوْمَهٗ وَغَرَّقَ فِرْعَوْنَ وَقَوْمَهٗ، فَصَامَهٗ مُوْسٰی شُکْرًا، فَنَحْنُ نَصُوْمُهٗ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: فَنَحْنُ أَحَقُّ وَأَوْلٰی بِمُوْسٰی مِنْکُمْ. فَصَامَهٗ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَأَمَرَ بِصِیَامِهٖ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأنبیاء، باب قول الله تعالی: وھل أتاک حدیث موسی، 3: 1244، الرقم: 3216، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء، 2: 796، الرقم: (2)1130، وابن ماجہ في السنن، کتاب الصیام، باب صیام یوم عاشوراء، 1: 552، الرقم: 1734، وأحمد بن حنبل في المسند، 1: 336، الرقم: 3112.

حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے یہودیوں کو یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے پایا۔ تو رسول الله ﷺ نے اُن سے پوچھا: یہ کون سا (خاص) دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ اُنہوں نے کہا: یہ بہت عظیم دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس میں موسیٰ e اور اُن کی قوم کو نجات عطا کی جب کہ فرعون اور اُس کی قوم کو غرق کیا۔ حضرت موسیٰ e نے شکرانے کے طور پر اُس دن کا روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ اِس پر رسول الله ﷺ نے فرمایا: تمہاری نسبت ہم موسیٰ کے زیادہ حق دار اور قریبی ہیں۔ پس اُس دن رسول الله ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی) اُس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

2. وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی الله عنهما، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَدِیْنَةَ وَجَدَ الْیَهُوْدَ یَصُوْمُوْنَ عَاشُوْرَائَ فَسُئِلُوْا عَنْ ذٰلِکَ، فَقَالُوْا: هٰذَا الْیَوْمُ الَّذِي أَظْفَرَ اللهُ فِیْهِ مُوْسٰی وَبَنِي إِسْرَائِیْلَ عَلٰی فِرْعَوْنَ وَنَحْنُ نَصُوْمُهٗ تَعْظِیْمًا لَهٗ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: نَحْنُ أَوْلٰی بِمُوْسٰی مِنْکُمْ. ثُمَّ أَمَرَ بِصَوْمِهٖ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب إتیان الیھود النبي ﷺ حین قدم المدینۃ، 3: 1434، الرقم: 3727، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء، 2: 795، الرقم: 1130، وأبو داود في السنن، کتاب الصوم، باب في صوم یوم عاشوراء، 2: 326، الرقم: 2444، وابن ماجہ في السنن، کتاب الصیام، باب صیام یوم عاشوراء، 1: 552، الرقم: 1734.

حضرت (عبد الله) بن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں۔ پس ان سے اس کی بابت دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا: اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ e اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ و نصرت عطا فرمائی تو ہم اِس عظیم کامیابی کی تعظیم و تکریم بجا لانے کے لیے اِس دن روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہم تم سے زیادہ موسیٰ کے حق دار ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے (خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی) روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

3. وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی الله عنه، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَدِینَةَ فَرَأَی الْیَهُوْدَ تَصُوْمُ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ، فَقَالَ: مَا هٰذَا؟ قَالُوْا: هٰذَا یَوْمٌ صَالِحٌ، هٰذَا یَوْمٌ نَجَّی اللهُ بَنِي إِسْرَائِیلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ، فَصَامَهٗ مُوْسٰی. قَالَ: فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوْسٰی مِنْکُمْ. فَصَامَهٗ وَأَمَرَ بِصِیَامِهٖ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ یَعْلٰی.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء، 2: 704، الرقم: 1900، وأحمد بن حنبل في المسند، 1: 291، الرقم: 2644، وأبو یعلی في المسند، 4: 441، الرقم: 2567.

حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے اُن سے اُس دن روزہ رکھنے کا سبب دریافت فرمایا تو اُنہوں نے جواب دیا: یہ دن (ہمارے لیے) متبرک ہے۔ یہ وہ مبارک دن ہے جس دن الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اُن کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی (یہ ہمارا یومِ آزادی اور یومِ نجات ہے)۔ پس حضرت موسیٰ e نے اُس دن روزہ رکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم سے زیادہ موسیٰ کا حق دار میں ہوں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس دن کا روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی) اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔

اِسے امام بخاری، احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

4. وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْهُ رضی الله عنه : یَقُوْلُ: حِیْنَ صَامَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ وَأَمَرَ بِصِیَامِهٖ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّهٗ یَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْیَهُوْدُ وَالنَّصَارٰی. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: فَإِذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَائَ اللهُ صُمْنَا الْیَوْمَ التَّاسِعَ. قَالَ: فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتّٰی تُوُفِّيَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ.

أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب أي یوم یصام في عاشوراء، 2: 797، الرقم: 1134، وأبو داود في السنن، کتاب الصوم، باب ما روی أن عاشوراء الیوم التاسع، 2: 327، الرقم: 2445، والبیہقي في السنن الکبری، 4: 287، الرقم: 8184.

ایک اور روایت میں حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب رسول الله ﷺ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول الله! اس دن کی تو یہود اور نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں۔ تو رسول الله ﷺ نے فرمایا: جب اگلا سال آئے گا تو ہم ان شاء اللہ نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے۔ راوی کہتے ہیں کہ ابھی اگلا سال آنے نہ پایا تھا کہ رسول الله ﷺ وصال فرما گئے۔

اِسے امام مسلم اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔

5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما: قَالَ: مَا رَأَیْتُ النَّبِيَّ ﷺ یَتَحَرّٰی صِیَامَ یَوْمٍ فَضَّلَهٗ عَلٰی غَیْرِهٖ إِلَّا هٰذَا الْیَوْمَ، یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ، وَهٰذَا الشَّهْرَ، یَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء، 2: 705، الرقم: 1902، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء، 2: 797، الرقم: 1132، وأحمد بن حنبل في المسند، 1: 222، الرقم: 1938، والنسائي في السنن، کتاب الصیام، باب صوم النبي ﷺ، 4: 204، الرقم: 2370، والحمیدي في المسند، 1: 226، الرقم: 484.

حضرت (عبد الله) بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو نہیں دیکھا کہ کسی دن کو دوسرے پر فضیلت دے کر روزہ رکھتے ہوں مگر اِس روز یعنی عاشورہ کو اور اس مہینہ یعنی ماهِ رمضان کو (ہمیشہ فضیلت دی)۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

6. وَفِي رِوَایَۃٍ عَنْ حَفْصَةَ رضی اللہ عنها ، قَالَتْ: أَرْبَعٌ لَمْ یَکُنْ یَدَعُهُنَّ النَّبِيُّ ﷺ: صِیَامَ عَاشُوْرَائَ وَالْعَشْرَ وَثَـلَاثَةَ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَهْرٍ وَالرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْغَدَاۃِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 6: 287، الرقم: 26502، والنسائي في السنن، کتاب الصیام، باب کیف یصوم ثلاثۃ أیام من کل شہر، 4: 220، الرقم: 2416، والطبراني في المعجم الکبیر، 23: 205، الرقم: 354، وأیضًا في المعجم الأوسط، 8: 20، الرقم: 7831.

ایک روایت میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ان چار اعمال کو کبھی ترک نہیں فرماتے تھے: دسویں محرم کے روزے، عشرہ ذو الحجہ کے روزے، ہر مہینہ کے تین روزے اور نمازِ فجر سے قبل دو رکعات۔

اِسے امام احمد بن حنبل، نسائی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

7. عَنِ الرُّبَیِّعِ بِنْتِ مُعَوَّذٍ رضی اللہ عنها قَالَتْ: أَرْسَلَ النَّبِيُّ ﷺ غَدَاةَ عَاشُوْرَاءَ إِلٰی قُرَی الْأَنْصَارِ، مَنْ أَصْبَحَ مُفْطِرًا فَلْیُتِمَّ بَقِیَّةَ یَوْمِهٖ وَمَنْ أَصْبَحَ صَائِمًا فَلیَصُمْ. قَالَتْ: فَکُنَّا نَصُوْمُهٗ بَعْدُ وَنُصَوِّمُ صِبْیَانَنَا وَنَجْعَلُ لَهُمُ اللُّعْبَةَ مِنَ الْعِهْنِ. فَإِذَا بَکٰی أَحَدُهُمْ عَلَی الطَّعَامِ أَعْطَیْنَاهُ ذَاکَ حَتّٰی یَکُوْنَ عِنْدَ الْإِفْطَارِ.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب صوم الصبیان، 2: 692، الرقم: 1859، ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب من أکل في عاشوراء فلیکف بقیۃ یومہ، 2: 798، الرقم: 1136، وابن خزیمۃ في الصحیح، 3: 288، الرقم: 2088، وابن حبان في الصحیح، 8: 385، الرقم: 3620.

حضرت رُبَیّع بنت معوَّذ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا: حضور نبی اکرم ﷺ نے عاشورہ کی ایک صبح کو انصار کے کسی گائوں میں پیغام بھیجا کہ جس نے روزہ نہیں رکھا وہ اس دن کا بقیہ حصہ حالت روزہ میں گزارے۔ وہ باقی دن اس طرح پورا کرے اور جس نے روزہ رکھا ہوا ہے وہ روزے سے رہے۔ اس کے بعد ہم روزہ رکھتیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتیں ۔ ہم اُن کے لیے روئی کی ایک گڑیا بنا دیتیں ۔ جب اُن میں سے کوئی بچہ کھانے کے لیے روتا تو ہم اُسے وہی (گڑیا دے) دیتے۔ (وہ اس گڑیا سے کھیلنے میں مشغول ہوجاتا) یہاں تک کہ افطار کا وقت ہو جاتا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

8. وَفِي رِوَایَۃِ أَسْمَاءَ بْنِ حَارِثَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ بَعَثَهٗ فَقَالَ: مُرْ قَوْمَکَ بِصِیَامِ هٰذَا الْیَوْمِ. قَالَ: أَرَأَیْتَ إِنْ وَجَدْتُهُمْ قَدْ طَعِمُوْا. قَالَ: فَلْیُتِمُّوْا آخِرَ یَوْمِهِمْ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَقَالَ الْهَیْثَمِيُّ: رِجَالُهٗ رِجَالُ الصَّحِیْحِ.

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3: 484، الرقم: 16005، والطبراني في المعجم الکبیر، 5: 274، الرقم: 5312، وأیضًا في المعجم الأوسط، 1: 186، الرقم: 589، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 5: 318، الرقم: 2855، وابن حبان في الثقات، 4: 141، الرقم: 2188، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 4: 231، الرقم: 1435، وذکرہ الہیثمي في مجمع الزوائد، 3: 185.

ایک روایت میں حضرت اسماء بن حارثہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے انہیں (ان کی قوم میں) بھیجا اور فرمایا: تم جا کر اپنی قوم کو اس (یومِ عاشور کے) روزے کا حکم دو۔ انہوں نے کہا (میں نے عرض کیا: یا رسول الله!) اگر میں اُنہیں دیکھوں کہ وہ کھانا کھا چکے ہیں تو پھر آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ باقی دن کا روزہ مکمل کر لیں۔

اِسے امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا ہے: اس کے رجال ’صحیح مسلم‘ کے رجال ہیں۔

9. عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنها ، قَالَتْ: کَانُوْا یَصُوْمُوْنَ عَاشُوْرَاءَ قَبْلَ أَنْ یُفْرَضَ رَمَضَانُ وَکَانَ یَوْمًا تُسْتَرُ فِیْهِ الْکَعْبَةُ، فَلَمَّا فَرَضَ اللهُ رَمَضَانَ، قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ شَاءَ أَنْ یَصُوْمَهٗ فَلْیَصُمْهُ، وَمَنْ شَاءَ أَنْ یَتْرُکَهٗ فَلْیَتْرُکْهُ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْهَقِيُّ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الحج، باب قول الله: جعل الله الکعبۃ البیت الحرام، 2: 578، الرقم: 1515، والطبراني في المعجم الأوسط، 7: 278، الرقم: 7495، والبیہقي في السنن الکبری، 5: 159، الرقم 9513.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں: اہلِ عرب رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل یومِ عاشور کا روزہ رکھتے تھے کیوں کہ اُس دن کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کر دیے تو رسول الله ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جو اِس دن روزہ رکھنا چاہے وہ روزہ رکھ لے، اور جو ترک کرنا چاہے وہ ترک کر دے۔

اِسے امام بخاری، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

قَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ: فَإِنَّهٗ یُفِیْدُ أَنَّ الْجَاھِلِیَّةَ کَانُوْا یُعَظِّمُوْنَ الْکَعْبَةَ قَدِیْمًا بِالسُّتُوْرِ وَیَقُوْمُوْنَ بِھَا.(1)

وَقَالَ أَیْضًا: أَمَّا صِیَامُ قُرَیْشٍ لِعَاشُوْرَائَ فَلَعَلَّھُمْ تَلَقَّوْهُ مِنَ الشَّرْعِ السَّالِفِ، وَلِھٰذَا کَانُوْا یُعَظِّمُوْنَهٗ بِکِسْوَۃِ الْکَعْبَۃِ فِیْهِ.(2)

  1. العسقلاني في فتح الباري، 3: 455
  2. العسقلاني في فتح الباري، 4: 246

حافظ ابن حجر عسقلانی نے (اِس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے) فرمایا ہے: اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت سے ہی وہ کعبہ پر غلاف چڑھا کر اُس کی تعظیم کرتے اور اُس کی دیکھ بھال کرتے تھے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی ایک اور مقام پر (قریش کے اس دن روزہ رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے) کہتے ہیں: یومِ عاشور کو قریش کا روزہ رکھنے کا سبب یہ تھا کہ شاید اُنہوں نے گزشتہ شریعت سے اس کو پایا ہو، اور اِسی لیے وہ اس دن کی تعظیم کعبہ پر غلاف چڑھا کر کیا کرتے تھے۔

10. عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضی الله عنه، قَالَ: کَانَ یَوْمُ عَاشُوْرَائَ تَعُدُّهُ الْیَهُوْدُ عِیْدًا، قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: فَصُوْمُوْهُ أَنْتُمْ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء، 2: 704705، الرقم: 1901.

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یوم عاشورہ کو یہود یومِ عید شمار کرتے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے (مسلمانوں کو حکم دیتے ہوئے) فرمایا: تم ضرور اس دن روزہ رکھا کرو۔

اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

11. عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضی الله عنه، قَالَ: کَانَ یَوْمُ عَاشُوْرَائَ یَوْمًا تُعَظِّمُهُ الْیَهُوْدُ وَتَتَّخِذُهٗ عِیْدًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: صُوْمُوْهُ أَنْتُمْ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَالطَّحَاوِيُّ.

أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب صیام یوم عاشوراء، 2: 796، الرقم: (1)1131، والنسائي في السنن الکبری، 2: 159، الرقم: 2848، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 2: 133، الرقم: 3217، والبیہقي في السنن الکبری، 4: 289، الرقم: 8197.

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہود یوم عاشورہ کی تعظیم کرتے اور اُسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ رسول الله ﷺ نے (مسلمانوں کو) فرمایا کہ تم بھی اِس دن روزہ رکھو۔

اِسے امام مسلم، نسائی اور طحاوی نے روایت کیا ہے۔

12. عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضی الله عنه، قَالَ: کَانَ أَهْلُ خَیْبَرَ یَصُوْمُوْنَ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ یَتَّخِذُوْنَهٗ عِیْدًا وَیُلْبِسُوْنَ نِسَائَهُمْ فِیْهِ حُلِیَّهُمْ وَشَارَتَهُمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: فَصُوْمُوْهُ أَنْتُمْ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب صیام یوم عاشوراء، 2: 796، الرقم: 1131.

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اہلِ خیبر یوم عاشور کا روزہ رکھتے اور اُسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ اُس دن وہ اپنی عورتوں کو خوب زیورات پہناتے اور اُن کا بنائو سنگھار کرتے۔ تو رسول الله ﷺ نے (مسلمانوں سے) فرمایا: تم بھی اُس دن روزہ رکھا کرو۔

اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

13. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: أَيُّ الصِّیَامِ أَفْضَلُ بَعْدَ شَھْرِ رَمَضَانَ؟ قَالَ: شَھْرُ اللهِ الَّذِي تَدْعُوْنَهُ الْمُحَرَّمَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ فِي السُّنَنِ الْکُبْرٰی وَابْنُ مَاجَہ.

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2: 303، الرقم: 8013، وابن ماجہ في السنن، کتاب الصیام، باب صیام أشھر الحرم، 1: 554، الرقم: 1742، والنسائي في السنن الکبری، 2: 171، الرقم: 2904، والدارمي في السنن، 2: 35، الرقم: 1757.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاهِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا: (یا رسول الله!) رمضان کے بعد کون سے مہینے کے روزے افضل ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: الله تعالیٰ کا وہ مہینہ جسے تم محرم کہتے ہو۔

اِسے امام احمد بن حنبل نے، نسائی نے ’السنن الکبریٰ‘ میں اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

14. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: یَوْمُ عَاشُوْرَائَ، یَوْمٌ کَانَتْ تَصُوْمُهُ الْأَنْبِیَائُ، فَصُوْمُوْهُ أَنْتُمْ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَیْبَةَ. وَقَالَ الْعَیْنِيُّ: سَنَدُهٗ جَیِّدٌ.

أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف، 2: 311، الرقم: 9355، وذکرہ العیني في عمدۃ القاري، 11: 118.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے: عاشورہ کے دن انبیاء روزہ رکھا کرتے تھے، تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو۔

اسے امام ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ علامہ عینی نے کہا ہے کہ اس کی سند عمدہ ہے۔

(1) ثَوَابُ صَوْمِ عَاشُوْرَاء

{عاشورہ کے روزے کا ثواب}

15. عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْاَنْصَارِيِّ رضی الله عنه، قَالَ: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ یَوْمِ عَاشُوْرَاءَ. فَقَالَ: یُکَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِیَةَ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْدَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ.

أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثۃ أیام من کل شھر وصوم یوم عرفۃ وعاشوراء، والإثنین والخمیس 2: 819، الرقم: 1162، وأحمد بن حنبل في المسند، 5: 308، الرقم: 22674، وأبو داود في السنن، کتاب الصیام، باب في صوم الدھر تطوعا، 2: 321، الرقم: 2425، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في الحث صوم یوم عاشوراء، 3: 126، الرقم: 752، وابن ماجہ في السنن، کتاب الصیام، باب صیام یوم عاشوراء، 1: 553، الرقم: 1738، والنسائي في السنن الکبریٰ، 2: 150، الرقم: 2796.

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ سے عاشورہ کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ روزہ گزشتہ سال (کے گناہوں اور کوتاہیوں) کا کفارہ کرتا ہے۔

اِسے امام مسلم، احمد، ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

16. وَفِيْ رِوَایَۃٍ عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: أَتَی النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَخْبِرْنِي بِشَهْرٍ أَصُوْمُهٗ بَعْدَ رَمَضَانَ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنْ کُنْتَ صَائِمًا شَهْرًا بَعْدَ رَمَضَانَ، فَصُمِ الْمُحَرَّمَ، فَإِنَّهٗ شَهْرُ اللهِ، وَفِیْهِ یَوْمٌ تَابَ فِیْهِ عَلٰی قَوْمٍ، وَیُتَابُ فِیْهِ عَلٰی آخَرِینَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ وَأَبُوْ یَعْلٰی، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ غَرِیْبٌ.

أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 1: 155، الرقم: 1334، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في صوم المحرم، 3: 117، الرقم: 741، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 2: 300، الرقم: 9223، وأبو یعلی في المسند، 1: 337، الرقم: 426-427، والبیہقي في شعب الإیمان، 3: 360، الرقم: 3775.

ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول الله! اس مہینے کے بارے میں بتائیے جس میں، رمضان کے بعد میں روزے رکھوں۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا: اگر تو رمضان کے بعد کسی مہینے کے روزے رکھنا چاہتا ہے تو محرم کے روزے رکھ۔ بے شک یہ اللہ کا مہینہ ہے، اس میںایک دن ایسا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی اوردوسروں کی توبہ بھی قبول کی جائے گی۔

اِسے امام احمد، ترمذی، ابن ابی شیبہ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔۔

17. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ صَامَ یَوْمَ عَرَفَةَ کَانَ لَهٗ کَفَّارَةَ سَنَتَیْنِ، وَمَنْ صَامَ یَوْمًا مِنَ الْمُحَرَّمِ فَلَهٗ بِکُلِّ یَوْمٍ ثَـلَاثُوْنَ یَوْمًا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ لَا بَأْسَ بِهٖ.

أخرجہ الطبراني في المعجم الصغیر، 2: 164، الرقم: 963، وأیضًا في المعجم الکبیر، 11: 72، الرقم: 11081، وذکرہ المنذري في الترغیب والترھیب، 2: 70، الرقم: 1529، والھیثمي في مجمع الزوائد، 3: 190.

حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص یو م عرفہ کا روزہ رکھتا ہے وہ اس کے لیے دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے اور جو شخص محرم کے ایک دن کا روزہ رکھتا ہے اسے ہر ایک دن کے بدلے تیس دنوں (کے روزوں) کا ثواب ملتا ہے۔

اسے امام طبرانی نے محفوظ سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔

18. وَفِي رِوَایَۃِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی الله عنهما قَالَ: مَنْ صَامَ عَاشُوْرَائَ فَکَأَنَّمَا صَامَ السَّنَةَ، وَمَنْ تَصَدَّقَ فِیْهِ کَانَ کَصَدَقَۃِ السَّنَۃِ.

ذَکَرَهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ.

ذکرہ ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف: 112.

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جس شخص نے عاشوراء کا روزہ رکھا اس نے گویا پورے سال کا روزہ رکھا اور جس نے اس دن صدقہ کیا تو یہ صدقہ پورے سال کے صدقہ کرنے کی طرح ہو گا۔

اسے علامہ ابن رجب الحنبلی نے ذکر کیا ہے۔

(2) مَا رُوِيَ عَنِ الْأَئِمَّۃِ مِنَ السَّلَفِ الصَّالِحِیْن

{ماهِ محرم الحرام سے متعلق اَئمہ سلف صالحین کے ارشادات و معمولات}

قَالَ ابْنُ شَاهِیْنٍ: وَمِمَّنْ بَلَغَنَا أَنَّهٗ کَانَ یَصُوْمُ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَأَبُو مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ وَعَلِيُّ بْنُ الْحُصَیْنِ وَسَعِیْدُ بْنُ جُبَیْرٍ وَطَاوُسُ رضوان الله علیهم اجمعین . وَفِي الْجُمْلَۃِ هُوَ یَوْمٌ عَظِیْمٌ. فَیَنْبَغِي أَنْ یُفْعَلَ فِیْهِ مَا یُمْکِنُ مِنَ الْخَیْرِ فَهُوَ وَأَمْثَالُهٗ مَوَاسِمُ الْخَیْرَاتِ فَاغْتَنِمُوهَا وَاحْذَرُوا الْغَفَـلَاتِ.

ذَکَرَهُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ.

ذکرہ ابن الجوزي في التبصرۃ، 2: 8.

ابنِ شاہین کہتے ہیں: (اسلاف کی طرف سے) ہم تک پہنچنے والی خبروں میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب، ابو موسیٰ اشعری، علی بن الحصین، سعید بن جبیر اور طاوس بن کیسان دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ خلاصتاً یہ کہ یہ عظیم دن ہے۔ لہٰذا اس میں ہر ممکن خیر کا عمل کرنا چاہیے۔ اس دن اور اس جیسے دیگر دن نیکیوں کے موسم ہوتے ہیں سو تم اِن کو غنیمت جانو اور غفلت کے ارتکاب سے بچو۔

اسے علامہ ابن الجوزی نے بیان کیا ہے۔

عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّ الْفَجْرَ الَّذِي أَقْسَمَ اللهُ بِهٖ فِي أَوَّلِ سُوْرَۃِ الْفَجْرِ: هُوَ فَجْرُ أَوَّلِ یَوْمٍ مِنَ الْمُحَرَّمِ. تَنْفَجِرُ مِنْهُ السَّنَةُ.

ذَکَرَهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ.

ذکرہ ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف: 80.

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفجر کے آغاز میں جس فجر کی قسم کھائی ہے وہ ماهِ محرم کے پہلے دن کی فجر ہے جس سے پورا سال نکلتا ہے۔

اسے علامہ ابن رجب الحنبلی نے ذکر کیا ہے۔

عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: إِنَّ اللهَ افْتَتَحَ السَّنَةَ بِشَهْرِ حَرَامٍ، وَخَتَمَهَا بِشَهْرِ حَرَامٍ. فَلَیْسَ شَهْرٌ فِي السَّنَۃِ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ أَعْظَمَ عِنْدَ اللهِ مِنَ الْمُحَرَّمِ.

ذَکَرَهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ.

ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف: 79.

حضرت حسن سے روایت ہے کہ آپ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے سال کا آغاز حرمت والے مہینے (محرم الحرام) سے کیا۔ اور سال کا اختتام بھی حرمت والے مہینے (ذی الحجہ) سے کیا۔ پس ماهِ رمضان کے بعد پورے سال میں محرم الحرام سے بڑھ کر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں زیادہ عظمت والا کوئی اور مہینہ نہیں ہے۔

اسے علامہ ابن رجب الحنبلی نے ذکر کیا ہے۔

قَالَ أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ: کَانُوا یُعَظِّمُوْنَ ثَـلَاثَ عَشَرَاتٍ: الْعَشْرَ الْأَخِیْرَ مِنْ رَمَضَانَ وَالْعَشْرَ الْأَوَّلَ مِنْ ذِي الْحَجَّۃِ وَالْعَشْرَ الْأَوَّلَ مِنْ مُحَرَّمٍ.

ذَکَرَهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ.

ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف: 80.

ابو عثمان النہدی نے کہا ہے کہ اہل عرب تین عشروں کی تعظیم کرتے تھے: ایک رمضان کا آخری عشرہ، دوسرا ذی الحجہ کا پہلا عشرہ اور تیسرا محرم کا پہلا عشرہ۔

اسے علامہ ابن رجب الحنبلی نے ذکر کیا ہے۔

قَالَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ: قَدْ رُوِيَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الْمُفَسِّرِیْنَ فِي قَوْلِهٖ تَعَالٰی: {وَالْفَجْرِo وَلَیَالٍ عَشْرٍo} أَنَّهَا الْعَشْرُ الْأَوَائِلُ مِنَ الْمُحَرَّمِ، وَقَالَ قَتَادَةُ: أَرَادَ بِالْفَجْرِ فَجْرِ أَوَّلِ یَوْمٍ مِنَ الْمُحَرَّمِ.

ابن الجوزي في التبصرۃ، 2: 6.

علامہ ابن الجوزی کہتے ہیں: مفسرین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ الله تعالیٰ کے فرمان {وَالْفَجْرِo وَلَیَالٍ عَشْرٍo} ’’صبح کی قَسم۔ اور دس (مبارک) راتوں کی قَسم۔‘‘ میں ماهِ محرم کی پہلی دس راتیں مراد ہیں۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں: فجر سے مراد محرم کے پہلے دن کی فجر ہے۔

قَالَ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ: وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي أَيِّ الْأَشْهَرِ الْحَرَمِ أَفْضَلُ. فَقَالَ الْحَسَنُ وَغَیْرُهٗ: أَفْضَلُهَا شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ. وَرَجَّحَهٗ طَائِفَۃٌ مِنَ الْمُتَأَخِّرِیْنَ.

ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف: 79.

علامہ ابن رجب الحنبلی نے فرمایا: علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ حرمت والے مہینوں میں کون سا مہینہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ امام حسن بصریؒ وغیرہ فرماتے ہیں کہ ان چاروں میں افضل مہینہ اللہ کا مہینہ (یعنی) محرم ہے۔ اسی قول کو متاخر علماء کے ایک گروہ نے ترجیح دی ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved