گزشتہ اَبواب میں ہم نے میلاد النبی ﷺ کے جشن اور محافل کے اِنعقاد پر قرآن و سنت سے دلائل دینے کے ساتھ ساتھ یہ ثابت کیا کہ جمہور علماء و ائمہ بھی اِس پر متفق ہیں کہ تاجدارِ کائنات ﷺ کے میلاد کا جشن منانا شرعاً جائز بلکہ مستحب ہے اور بے اِنتہاء فضائل و برکات اور خیر و بھلائی کا موجب ہے۔ لہٰذا ایک بندۂ مومن کو حتی المقدور برکتوں کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔ کتاب کے اِس آخری باب میں ہم جشنِ میلادالنبی ﷺ کے حوالہ سے چند اِعتقادی اُمور زیر بحث لائیں گے تاکہ اِس موضوع پر اُٹھائے جانے والے اُن بعض اِعتراضات کا قلع قمع ہو جو ناقدین کی طرف سے اِس مباح اور مستحسن اَمر پر کیے جاتے ہیں۔
لفظِ میلاد کی اَصل (origin) کے بارے میں بعض ناقدین کی طرف سے سوال اٹھایا جاتا ہے کہ عالم عرب میں اس کی جگہ مولد کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور میلاد ایسا لفظ ہے جو صرف برصغیر پاک و ہند میں مستعمل ہے۔ یہ ایک غلط تصور ہے۔ دراصل اُردو ایک لشکری زبان ہے جس کے ذخیرۂ اَلفاظ میں عربی، فارسی اور دیگر زبانوں کے بے شمار الفاظ شامل ہیں۔ اُردو میں ولد، والد، والدہ، مولود، میلاد اور متولد تمام عربی الاصل الفاظ ہیں۔ اِسی طرح عربی اور فارسی کے بے شمار الفاظ ہیں جنہیں اُردو نے کثرتِ اِستعمال سے اپنے اندر سمو لیا ہے اور وہ اُردو زبان و محاورہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ عربی کتب میں مولد کا لفظ کثرت سے متداول ہے، اِسی طرح اردو کتبِ سیرت میں میلادالنبی ﷺ کثیر الاستعمال لفظ بن گیا ہے۔ میلاد عربی لفظ ہے جسے ترمذی (210۔ 279ھ)، طبری (224۔ 310ھ)، ابن کثیر (701۔ 774ھ)، سیوطی (849۔ 911ھ) اور عسقلانی (773۔ 852ھ) سمیت متعدد مفسرین، محدّثین، مؤرّخین اور اَصحابِ سیر نے اِستعمال کیا ہے۔
اَئمہ لغت نے لفظ میلاد اپنی کتب میں استعمال کیا ہے۔
1۔ ابن منظور افریقی (630۔ 711ھ) اور عبد القادر رازی حنفی (660ھ کے بعد فوت ہوئے)، مرتضی زبیدی (1145۔ 1205ھ) اور علامہ جوہری فرماتے ہیں :
وميلاد الرجل : اسم الوقت الذي وُلِدَ فيه.
’’اور اِنسان کا میلاد اُس وقت کا نام ہے جس میں اُس کی پیدائش ہوتی ہے۔‘‘
1. ابن منظور، لسان العرب، 3 : 468
2. رازي، مختار الصحاح : 422
3. زبيدي، تاج العروس من جواهر القاموس، 5 : 327
4. جوهري، الصحاح في اللغة والعلوم، 2 : 713
2۔ لغت کی معروف کتب ’’المعجم الوسیط (2 : 1056)‘‘ اور ’’تاج العروس من جواہر القاموس (5 : 327)‘‘ میں ہے :
الميلاد : وقت الولادة.
’’میلاد سے مراد وقتِ ولادت ہے۔‘‘
اَحادیث و آثار کے متن میں بھی لفظِ میلاد اِستعمال ہوا ہے۔ اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) نے الجامع الصحيح میں کتاب المناقب کا دوسرا باب ہی ’’ما جاء فی میلادالنبی ﷺ ‘‘ قائم کیا ہے۔ لہٰذا یہ دعویٰ بالکل باطل ہے کہ لفظِ میلاد ہندی الاصل ہے۔ وہ روایت کرتے ہیں :
سأل عثمان بن عفان رضي الله عنه قباث بن أشَيْمِ أخا بني يعمر بن ليث : أ أنت أکبر أم رسول الله ﷺ؟ فقال : رسول الله ﷺ أکبر مني، وأنا أقدم منه في الميلاد.
’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بنی یعمر بن لیث کے بھائی قباث بن اُشیم سے پوچھا : آپ بڑے ہیں یا حضور نبی اکرم ﷺ ؟ تو اُنہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ مجھ سے بڑے ہیں، اور میں میلاد (پیدائش) میں اُن سے پہلے ہوں۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 589، کتاب المناقب، باب ماجاء
في ميلاد النبي ﷺ ، رقم : 3619
2. شيباني، الآحاد والمثاني، 1 : 407، رقم : 566
3. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 453
4. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 77
5. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 216، 217
حضرت قباث بن اُشیم رضی اللہ عنہ کا قول. ’’آپ ﷺ مجھ سے بڑے ہیں لیکن میں آپ ﷺ سے پہلے پیدا ہوا تھا‘‘ حسنِ اَدب اور معراجِ اِحترام کی زُہرہ صفت مثال ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ جب ہجرتِ مدینہ کے دوران نہاں خانۂ غارِ ثور میں قیام فرما ہوئے درآں حالیکہ قریشِ مکہ آپ ﷺ کو تلاش کر رہے تھے۔ روایت کے الفاظ ہیں :
وطلبت قريش رسول الله ﷺ أشد الطلب حتي انتهوا إلي باب الغار، فقال بعضهم : إن عليه العنکبوت قبل ميلاد محمد ﷺ فانصرفوا.
’’قریش نے رسول الله ﷺ کو بہت تلاش کیا یہاں تک کہ تلاش کرتے کرتے غارِ ثور کے دہانے تک پہنچ گئے۔ پس اُن میں سے بعض نے کہا : اِس کے منہ پر تو محمد ( ﷺ ) کے میلاد سے بھی پہلے کا مکڑی کا بنا ہوا جالا ہے۔ پس (یہ دیکھ کر) وہ لوٹ گئے۔‘‘
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 228
2. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 305
اِسی موضوع کی ایک روایت میں درجِ ذیل اَلفاظ ہیں :
فلما انتهوا إلي فم الغار، قال قائل منهم : ادخلو الغار. فقال أمية بن خلف : وما أر بکم أي حاجتکم إلي الغار؟ أن عليه لعنکبوتًا کان قبل ميلاد محمد ﷺ .
’’جب قریشِ مکہ غار کے دہانہ پر پہنچے تو اُن میں سے کسی نے کہا : غار میں داخل ہو جاؤ اِس پر اُمیہ بن خلف نے کہا : تم غار میں جا کر کیا کرو گے؟ اِس کے منہ پر تو محمد ( ﷺ ) کے میلاد سے قبل کا مکڑی کا جالہ لگا ہوا ہے۔‘‘
1. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 2 : 209
2. کلاعي، الإکتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله ﷺ ، 1 : 339
3. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 306
ابن عون فرماتے ہیں :
قُتل عمارٌ، رحمه الله ، وهو ابن إحدي وتسعين سنة، وکان أقدم في الميلاد من رسول الله ﷺ .
’’حضرت عمار رضی اللہ عنہ 91 سال کی عمر میں شہید کیے گئے اور وہ میلاد میں حضور نبی اکرم ﷺ سے پہلے تھے۔‘‘
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 259
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 43 : 471
3. مزي، تهذيب الکمال في أسماء الرجال، 21 : 224
حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) زمانۂ جاہلیت کے ’’محمد‘‘ نامی لوگوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ’’محمد بن مسلمہ‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :
وهو غلط فأنه ولد بعد ميلاد النبي ﷺ بمدة، ففضل له خمسة، وقد خلص لنا خمسة عشر.
’’اور یہ درست نہیں ہے کیوں کہ ان کی پیدائش حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد کے مدت بعد ہوئی۔ تو آپ ﷺ کو پانچ ناموں کے ذریعے فضیلت دی گئی اور ہمیں پندرہ سے نجات دے دی گئی۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 6 : 557
حضرت اِبن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کان بين موسي بن عمران وعيسي بن مريم ألف سنة وتسعمائة سنة ولم تکن بينهما فَترة، وإنه أرسل بينهما ألف نبي من بني إسرائيل سوي من أرسل من غيرهم، وکان بين ميلاد عيسٰي والنبي عليه الصلاة والسلام، خمسمائة سنة وتسع وستون سنة.
’’حضرت موسیٰ بن عمران اور عیسیٰ بن مریم علیھما السلام کے درمیان 1900 سال کا عرصہ ہے اور اُن دونوں کے درمیان زمانہ فترت (جس میں وحی کا سلسلہ موقوف ہو جاتا ہے) نہیں گزرا۔ اُن دونوں کے اِس عرصہ نبوت کے درمیان بنی اسرائیل میں ہی ایک ہزار نبی بھیجے گئے، اُن کے علاوہ بھیجے جانے والے علیحدہ ہیں۔ میلادِ عیسیٰ اور حضور ﷺ (کی بعثت) کا درمیانی عرصہ 569 سال بنتا ہیں۔‘‘
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 53
2. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 495
3. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 6 : 122
مذکورہ روایات واضح کرتی ہیں کہ ثقہ رُواۃ اور اَجل ائمہ و محدثین نے حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کے بیان کے لیے لفظِ میلاد اِستعمال کیا ہے، اور یہ لفظ قطعاً برصغیر پاک و ہند کے لوگوں کی اِیجاد نہیں ہے۔
کبار اور مستند مصنفین نے حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد شریف کے موضوع پر کتب لکھیں، جیسا کہ ہم نے گزشتہ اَبواب میں بالتفصیل بیان کیا ہے۔ اُنہوں نے اپنی کتب کے ناموں میں لفظِ میلاد اِستعمال کیا ہے۔ حاجی خلیفہ نے اپنی کتاب ’’کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون‘‘ میں ایک کتاب کا نام یوں بیان کیا ہے :
’’درج الدرر في ميلاد سيد البشر‘‘ للسيد اصيل الدين عبد الله بن عبد الرحمن الحسيني الشيرازي المتوفي سنة 884 أربع وثمانين وثمانمائة.
’’درج الدرر فی میلاد سید البشر‘‘ کتاب اصیل الدین عبد اللہ بن عبد الرحمن حسینی شیرازی کی تصنیف ہے، جن کا سنِ وِصال 884ھ ہے۔‘‘
حاجي خليفه، کشف الظنون عن أسامي الکتب والفنون، 1 : 745
علامہ ابن جوزی (510۔ 597ھ) نے میلادالنبی ﷺ پر دو مستقل کتب لکھی ہیں، جن میں سے ایک کا عنوان ’’بیان المیلاد النبوي ﷺ ‘‘ ہے۔
اِس تفصیل سے ہر صاحبِ علم اور صاحبِ رائے شخص کو معلوم ہو جانا چاہیے کہ لفظِ میلاد کی اصل برصغیر پاک و ہند کی اِختراع نہیں بلکہ عربی لغت کا لفظ ہے جس کا اِستعمال عالمِ عرب میں قدیم تاریخی دور سے ثابت ہے۔ اِس کے خلاف جو باتیں کی جاتی ہیں وہ ایک مخصوص ذہنی کیفیت کی غماز ہیں، حالاں کہ مصطلحاتِ دینی کے اِستعمال میں عرب دنیا اور غیرِ عرب دنیا میں کوئی فرق نہیں۔
جشنِ میلادالنبی ﷺ عیدِ شرعی ہے نہ ہم اِسے عیدِ شرعی سمجھتے ہیں، لیکن یہ عید شرعی سے بھی زیادہ عظمت والا اور کئی گنا زیادہ قدر و منزلت والا دن ہے۔ اِس لیے اس دن خوشیاں منانا ایک فطری عمل ہے، اور اگر اِسے عید مسرت بھی کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ عید میلادالنبی ﷺ تو سال میں صرف ایک دفعہ آتی ہیں جب کہ محافلِ میلاد اور آپ ﷺ کے ذکر اور سیرت کا بیان سال بھر جاری رہتاہے، اس میں زمان و مکان کی کوئی قید نہیں۔ مگر تاجدارِ کائنات ﷺ کی ولادت باسعادت کے دن کو عید کا نام اِس لیے دیا جاتا ہے کہ لوگ اپنی ہر بڑی خوشی اور فرحت کے اِظہار کے لیے لفظِ عید اِستعمال کرتے ہیں۔
یومِ میلادالنبی ﷺ معروف معنی میں عید کا دن ہے، جیسے کسی قریبی دوست یا محبوب کی آمد پر کہا جاتا ہے کہ آپ کا آنا عید ہے! آپ کا ملنا عید ہے! عربی زبان کا یہ شعر اس معنی کی صحیح عکاسی کرتا ہے :
عيد وعيد وعيد صرن مجتمعة
وجه الحبيب وعيد الفطر والجمعة
’’ہمارے لیے تین عیدیں اکٹھی ہوگئی ہیں : محبوب کا چہرہ، عید الفطر اور یومِ جمعہ۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ کے یوم ولادت کو عیدِ میلاد اور عیدِ نبوی کا نام دینا اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ ہمارے نزدیک شرعی طور پر صرف دو ہی عیدیں ہیں : عید الفطر اور عید الاضحی۔ حالاں کہ بنظر غائر دیکھا جائے تو یومِ میلاد ان عیدوں سے کئی گنا بلند رُتبہ اور عظمت کا حامل ہے۔ آپ ﷺ ہی کے صدقہ و توسط سے ہمیں تمام عیدیں، تمام تہوار اور اسلام کے تمام عظمت والے دن نصیب ہوئے۔ اگر آپ ﷺ کی ولادت نہ ہوتی تو آپ ﷺ کی بعثت ہوتی نہ قرآن نازل ہوتا، نہ معراج ہوتی، نہ ہجرت ہوتی، نہ جنگ بدر میں نصرتِ خداوندی ہوتی اور نہ ہی فتحِ مبین ہوتی۔ یہ تمام چیزیں آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے میلاد کے تصدق و توسل سے نصیب ہوئی ہیں۔
عاشقانِ مصطفیٰ ﷺ محافلِ میلاد ہر اُس موقع پر منعقد کرتے ہیں جس میں خوشی، فرحت اور سرور ہوتا ہے اور یہ مسرت و شادمانی کا احساس آپ ﷺ کے ماہِ ولادت ’’ربیع الاول‘‘ میں اور بڑھ جاتا ہے اور بروز پیر آپ ﷺ کے میلاد کے دن خوشی و مسرت کے لطیف جذبات اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال کرنا کہ محافلِ میلاد کیوں منعقد کی جاتی ہیں، درست نہیں ہے۔ کیوں کہ اِس سوال سے مراد گویا یہ پوچھنا ہے کہ تم اپنے نبی ﷺ کی ولادت کے دن پر کیوں خوش ہوتے ہو؟ یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ تمہیں صاحبِ معراج ﷺ کی صورت میں یہ خوشی اور مسرت کیوں حاصل ہوئی؟ کیا کسی مسلمان کو یہ سوال زیب دیتا ہے؟ اس لایعنی سوال کے جواب میں اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ میں آپ ﷺ کی آمد پر مسرور اور خوش ہونے کی وجہ سے محفلِ میلاد منعقد کرتا ہوں، میں آپ ﷺ سے محبت کرتا ہوں اس لیے کہ میں مومن ہوں۔ بلاشبہ محافلِ میلاد اور سیرت النبی ﷺ کی مجالس کا انعقاد، سرورِ کائنات ﷺ کی نعت و مدحت سننے سنانے کے لیے جلسۂ و جلوس کا اہتمام، غریبوں کو کھانا کھلانا اور اہل اسلام کے لیے اجتماعی طور پر خوشی اور مسرت کا سامان پیدا کرنا جائز اور مستحسن عمل ہے! یہ بھی فطری اَمر ہے کہ ماہِ ولادت باسعادت (ربیع الاول) میں ذکرِ جمیلِ مصطفیٰ ﷺ کے اسباب زیادہ قوی اور مضبوط ہوتے ہیں کیوں کہ اس مناسبت سے لوگ ایسی محفلوں میں کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ لوگ شعوری طور پر اس بات کے قائل ہیں کہ بعض لمحات کسی خاص مناسبت کی وجہ سے دوسرے لمحات و اوقات سے زیادہ شان اور شرف کے حامل ہوتے ہیں لہٰذا دوسروں کی نسبت سے وہ زیادہ پرکشش اور کیف آور یادیں لے کر آتے ہیں۔ اور اِسی طرح لوگ حال کو ماضی کے ساتھ ملا کر اور موجود کو غائب کی طرف منتقل کر کے ذکرِ یار کی لذت سے اِنتہائی کیف و سرور حاصل کرتے ہیں۔ بقول شاعر :
باز گو اَز نجد و اَز یارانِ نجد
تا دَر و دیوار را آری بہ وجد
(شہرِ دِل بر اور اِس میں بسنے والے اَحباب کا ذِکر کرتے رہیے تاکہ اِس کے در و دیوار یک گونہ کیف و مستی سے وجد میں آجائیں۔)
محافلِ میلاد کے اِجتماعات دعوت اِلی اللہ کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ یہ لمحات درحقیقت اُن کیفیاتِ جذب و مستی کے امین ہوتے ہیں جنہیں ہر گز ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ خطباء و علماء اور اہلِ علم حضرات کے لیے تو لازم ہے کہ وہ اِن محافل کے ذریعے اُمتِ مصطفیٰ ﷺ کو اَخلاق و آدابِ نبوی، سیرتِ طیبہ، معاملات و عباداتِ نبوی جیسے اَہم امور کی یاد دلاتے رہیں۔ لوگوں کو بھلائی، نیکی اور خیر و فلاح کی تلقین کرتے رہیں۔ نیز ان کو امت مسلمہ پر نازل ہونے والی مصیبتوں اور اُمتِ محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کو کمزور اور بے جان بنا دینے والی گمراہیوں، اسلام میں پیدا ہونے والے نئے نئے فتنوں اور اپنوں بیگانوں کے اٹھائے ہوئے شر اور فتور کی آگ سے اپنے خرمنِ ایمان کو بچانے کے لیے پند و نصائح کیا کریں۔ میلادالنبی ﷺ کے اِن اِجتماعات کا مقصد محض اکٹھے ہونا اور لوگوں کو دکھانا یعنی گفتند، نشستند، برخاستند نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ ضروری ہے کہ یہ مقدس اِجتماعات اَعلیٰ مقاصد کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ بنیں۔ پس جو شخص اِن اِجتماعات سے کوئی دینی فائدہ حاصل نہ کر سکا وہ میلاد شریف کی خیر و برکت سے محروم رہا!
اِمام مسلم (206۔ 261ھ)، اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) اور دیگر اَئمۂ حدیث کا یہ اُسلوب ہے کہ مناقب و فضائلِ مصطفیٰ ﷺ کے باب میں میلادِ مصطفیٰ ﷺ کا مضمون بالالتزام بیان کرتے ہیں۔ اَئمہ کرام حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت پر فی نفسہ گفتگو کرنے کی بجائے آپ ﷺ کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ کے میلاد شریف، یومِ ولادت، نسبِ عالی اور ان سب چیزوں کا حوالہ دیتے ہیں جو براہِ راست آپ ﷺ کی ذاتِ اَقدس سے متعلق ہیں۔
اِمام مسلم (206۔ 261ھ) نے اپنی ’’الصحيح‘‘ کی کتاب الفضائل اور اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) اپنی ’’الجامع الصحيح‘‘ کی کتاب المناقب کے آغاز میں حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور رحمتِ عالم ﷺ نے فرمایا :
إن الله اصطفي من ولد إبراهيم إسماعيل، واصطفي من ولد إسماعيل بني کنانة، واصطفي من بني کنانة قريشاً، واصطفي من قريش بني هاشم، واصطفاني من بني هاشم.
’’بے شک ربِ کائنات نے اِبراہیم (علیہ السلام) کی اَولاد میں سے اِسماعیل (علیہ السلام) کو منتخب فرمایا، اور اِسماعیل (علیہ السلام) کی اَولاد میں سے بنی کنانہ کو، اور اَولادِ کنانہ میں سے قریش کو، اور قریش میں سے بنی ہاشم کو، اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ اِنتخاب سے نوازا اور پسند فرمایا۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ
، 5 : 583، رقم : 3605
2. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب فضل نسب النبي ﷺ وتسليم الحجر عليه قبل النبوة،
4 : 1782، رقم : 2276
3. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 107
4. ابن ابي شيبة، المصنف، 6 : 317، رقم : 31731
5. ابو يعلي، المسند، 13 : 469، 472، رقم : 7485، 7487
6. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 66، رقم : 161
7. بيهقي، السنن الکبري، 6 : 365، رقم : 12852
8. بيهقي، شعب الإيمان، 2 : 139، رقم : 1391
اِس حدیث میں آپ ﷺ نے اپنا پورا سلسلۂ نسب بیان فرما دیا ہے۔ آپ ﷺ نے اصطفی کا لفظ اس لیے بیان کیا کہ صاحبِ نسب، مصطفیٰ ﷺ (چُنے ہوئے) ہیں اور پورے نسبی سلسلہ کو یہ صفاتی لقب دیا گیا ہے۔
اِمام مسلم (206۔ 261ھ) اپنی ’’الصحيح‘‘ کی کتاب الفضائل اور اِمام ترمذی (210۔ 279ھ) نے اپنی ’’الجامع الصحيح‘‘ کی کتاب المناقب کے آغاز میں آپ ﷺ کی سیرت و اَخلاق کو موضوع نہیں بنایا اور نہ آپ ﷺ کی تعلیمات و اَقدار بیان کی ہیں، بلکہ سارا کا سارا باب بیانِ میلاد کے لیے وقف کیا ہے۔ اِمام ترمذی نے کتاب المناقب کے پہلے باب فضل النبي ﷺ کی حدیث نمبر 2 میں دوبارہ اِسی مضمون کو لیا ہے۔ حدیث نمبر 3 اور حدیث نمبر 4 میں بھی یہی مضمون ہے۔ دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ پانچویں حدیث میں امام ترمذی نے ولادت سے قبل تخلیقِ مصطفیٰ ﷺ کا مرحلہ بیان کیا ہے جس میں تخلیقِ آدم ں کا حوالہ ہے، جہاں سے اَولادِ آدم علیہ السلام کے سلسلۂ پیدائش کا آغاز ہوا۔ اِس حدیث کی اِبتدا یوں ہوتی ہے :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بارگاہِ رِسالت مآب ﷺ میں عرض کیا :
يا رسول الله ! متي وجبت لک النبوة؟
’’یا رسول الله ! آپ کو شرفِ نبوت سے کب نوازا گیا؟‘‘
یہ ایک معمول سے ہٹا ہوا سوال تھا کیوں کہ صحابہ میں سے کون نہیں جانتا تھا کہ آپ ﷺ نے اِعلانِ نبوت چالیس سال کی عمر میں فرمایا جب غار حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی۔ یہ سب اُن کے علم میں تھا اور کسی کو اِعلانِ نبوت کے زمانہ اور وقت کے بارے میں کوئی شک و شبہ اور مغالطہ بھی نہیں تھا۔ تو پھر اس سوال کی کیا ضرورت لاحق ہوئی کہ پوچھنے لگے : ’’متی وجبت لک النبوۃ (آپ کو شرفِ نبوت سے کب نوازا گیا)؟‘‘ جب یہ بات واضح تھی کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت چالیس سال کی عمر میں ہوئی تو حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی جواباً یہ نہیں فرمایا :
ألم تعلموا؟
’’کیا تم یہ نہیں جانتے؟‘‘
اِس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بعثت اور عطاءِ نبوت میں فرق سمجھتے تھے اور اِس سے بخوبی آشنا تھے۔ اِسی لیے حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے سوال کے جواب میں فرمایا :
وآدم بين الروح والجسد.
’’(میں اُس وقت بھی نبی تھا) جب آدم کی تخلیق ابھی رُوح اور جسم کے مرحلے میں تھی۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ ، 5 : 585، رقم : 3609
2۔ ابن مستفاض نے ’’کتاب القدر (ص : 27، رقم : 14)‘‘ میں کہا ہے کہ اِس کے رِجال ثقہ ہیں۔
3. تمام رازي، کتاب الفوائد، 1 : 241، رقم : 581
4. ابن حبان، کتاب الثقات، 1 : 47
5. لالکائي، إعتقاد أهل السنة، 1 : 422، رقم : 1403
6. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 665، رقم : 4210
7. بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 2 : 130
8. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 6 : 569
9۔ ناصر الدین البانی نے اِس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہوئے ’’صحیح السیرۃ النبویۃ (ص : 54، رقم : 53)‘‘ میں بیان کیا ہے۔
اِس حدیث سے مراد ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ اُس وقت بھی نبی تھے جب روح اور جسم سے مرکب حضرت آدم علیہ السلام کا خمیر ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوا تھا۔ اور ہم نے یہاں اِس حدیث شریف کو اِسی لیے بیان کیا ہے کہ اِس میں میلاد کا مضمون بیان ہوا ہے نہ کہ سیرت کا۔ اِمام ترمذی نے بھی اس حدیث کو کتاب المناقب میں نقل کیا ہے کیوں کہ اِس میں کوئی اَحکامِ حلّت و حُرمت، اَخلاقیات، اَقدار وغیرہ سے بحث نہیں بلکہ میلاد کا بیان ہے۔
امام ترمذی کی ’’الجامع الصحيح‘‘ میں کتاب المناقب کا پہلا باب فضل النبی ﷺ ہے، جب کہ دوسرا باب ما جاء فی میلادالنبی ﷺ ہے۔ اگر بعض لوگ نبوت و سیرت کے لاحقہ کا ذکر کریں تو اِس کا سابقہ میلاد ہے جس کی وقوع پذیری پہلے ہوئی اور نبوت وسیرت کا ظہور اِس کے بعد ہوا۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ولادت سے پہلے ہی بعثت ہو جائے؟ اَمرِ واقع ہے کہ ولادت پہلے ہوئی اور اِعلانِ نبوت بعد میں ہوا۔ پس اگر کوئی میلاد منائے تو وہ رسولِ معظم ﷺ کی ذات سے روحانی طور پر والہانہ وابستگی اختیار کرتا ہے، پھر اس کے قلب کو وہ حالت نصیب ہوتی ہے جس میں وہ نورِ نبوت کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ امام ترمذی نے حضور نبی اکرم ﷺ کی فضیلت اور برتری کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس ترتیب کو مقدم رکھا ہے اور آپ ﷺ کی سیرت و اَخلاق کی تبلیغ کرتے وقت آپ ﷺ کے اَعلیٰ و اَرفع مقام و منصب کا ذکر کیا ہے۔ ہو سکتا ہے بعض کوتاہ فہم لوگ کہیں کہ اس فضیلت و برتری کے بیان کا کیا جواز ہے، کیوں نہ آپ ﷺ کے سیرت و کردار اور اَخلاق کی تبلیغ کی جائے۔ ایسا کہنے والوں کو اِمام ترمذی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اِمام مسلم، ترمذی و دیگر ائمہ علم کا ذریعہ اور ماخذ ہیں۔ مناقب میں وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی فضیلت و برتری سے آغاز کرتے ہیں، پھر میلاد کا ذکر کیا جاتا ہے۔
میلاد کے بعد جامع الترمذی کی کتاب المناقب کا تیسرا باب ہے : ما جاء فی بدء نبوۃ النبی ﷺ یہ ایک تاریخی، عقلی اور منطقی ترتیب ہے جس میں میلاد کا ذکر پہلے اور نبوت کا بعد میں آتا ہے۔ پھر چوتھے باب کا آغاز اِمام ترمذی بعثتِ نبوی ﷺ سے کرتے ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ چوتھے باب میں ان کا موضوع حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت ہے اور اِس کا اِعلان اُس وقت ہوا جب آپ ﷺ کی عمر مبارک چالیس برس تھی حالاں کہ آپ ﷺ کو حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے پہلے ہی نبوت عطا ہو چکی تھی۔ اِس کا بیان یہاں بڑی وضاحت سے کر دیا گیا ہے کہ نبوت عطا ہونا اور اِس کا اِعلان ہونا یکسر دو مختلف چیزیں ہیں اور بعض علماء کج فہمی کی بناء پر اِن دونوں کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔
اِمام ترمذی کی اِس ترتیب سے اَئمہ حدیث اور اَصحابِ صحاحِ ستہ کا عقیدہ سمجھ میں آتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ پانچویں باب فی آیات اثبات نبوۃ النبی ﷺ . کا آغاز ہی حضور ﷺ کی ذات پر سلام سے کرتے ہیں۔ وادیء مکہ میں ایک پتھر پر سے جب آپ ﷺ کا گزر ہوتا تو وہ آپ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام پڑھا کرتا تھا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
إن بمکة حجرا کان يسلم عليّ ليالي بُعثتُ إني لأعرفه الآن.
’’بے شک مکہ میں ایک پتھر تھا، (جب) مجھے مبعوث کیا گیا تو وہ مجھے سلام کیا کرتا تھا۔ بے شک میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في آيات إثبات
نبوة النبي ﷺ ، 5 : 592، رقم : 3624
2. ابو يعلي، المسند، 13 : 459، رقم : 7469
3. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 220، رقم : 1907
4. طبراني، المعجم الأوسط، 2 : 291، رقم : 2012
سیدنا علی کرم الله وجھہ فرماتے ہیں :
کنت مع النبي ﷺ بمکة، فخرجنا في بعض نواحيها فما استقبله جبل ولا شجر إلا وهو يقول : السلام عليک يا رسول الله .
’’میں مکہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہم راہ تھا، پس ہم بیرونی مضافات سے گزرے تو جس درخت اور پتھر سے ہمارا گزر ہوتا وہ السلام علیک یا رسول الله کی صدا ضرور بلند کرتا۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في آيات إثبات
نبوة النبي ﷺ ، 5 : 593، رقم : 3626
2. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 677، رقم : 4238
3. مقدسي، الأحاديث المختارة، 2 : 134، رقم : 502
یہ وہی سلام ہے جو ہم محافلِ میلاد میں پڑھتے ہیں۔ اَفسوس! شجر و حجر تو تاجدارِ کائنات ﷺ پر سلام پڑھ رہے ہیں لیکن آج کے بعض نام نہاد مُوَحد، شدت پسند اور بدعتی اِسے کفر و شرک گردانتے ہیں۔ حالاں کہ حدیث شریف کی اَصح کتب جیسے جامع الترمذی اور الصحيح لمسلم کی اِبتدا اِس طرح ہوئی ہے، اور جہاں تک عقیدہ کا تعلق ہے امام مسلم اور امام بخاری اِسی عقیدہ کے حامل ہیں۔ فضائل و مناقب کے مختلف اَبواب حضور ﷺ کے شرف و فضیلت پر وقف ہیں۔ ان میں مولد النبی ﷺ کے باب بھی ہیں اور میلادالنبی ﷺ کی اِصطلاح اِمام ترمذی نے بیان کی ہے۔
محدثین کے علاوہ سیرت و تاریخ نگاروں نے بھی یہی اُسلوب اپنایا ہے۔ اُنہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور اَحوال کے بیان میں آپ ﷺ کے نسب پاک اور میلاد و مولد کے اَبواب بالالتزام باندھے ہیں۔
1۔ سیرت طیبہ کی سب سے پہلی اور بنیادی کتاب. السیرۃ النبویۃ کے مؤلف ابن اِسحاق (80۔ 151ھ) نے کتاب کا آغاز ہی آپ ﷺ کے نسب اور میلاد کے بیان سے کیا ہے۔ اُنہوں نے درج ذیل دو اَبواب قائم کیے ہیں :
(1) ذکر سرد النسب الزکي من محمد ﷺ إلي آدم عليه السلام
(2) مولد رسول الله ﷺ (1)
(1) ابن إسحاق، السيرة النبوية : 17، 99
2۔ ابن ہشام (م 213ھ) نے السیرۃ النبویۃ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے نسب و میلاد کی فصول درج ذیل ترتیب کے مطابق قائم کی ہیں :
(1) ذکر سرد النسب الزکي من محمد ﷺ إلي آدم عليه السلام
(2) ولادة رسول الله ﷺ ورضاعته(1)
(1) ابن هشام، السيرة النبوية : 23، 153
3۔ نام وَر سیرت نگار ابن سعد (168۔ 230ھ) نے ’’الطبقات الکبری (1 : 20، 25، 100)‘‘ کے آغاز میں حضور نبی اکرم ﷺ کے نسبِ پاک اور ولادت باسعادت کے اَبواب بالتفصیل قائم کیے ہیں۔
4۔ اِمام محمد خرکوشی نیساپوری (م 406ھ) نے ’’کتاب شرف المصطفیٰ ﷺ ‘‘ کی پہلی جلد میں جماع ابواب ظھورہ ﷺ ومولدہ الشریف کے عنوان سے میلاد شریف کی بابت کئی اَبواب قائم کیے ہیں۔
5۔ ابو نعیم اَصبہانی (336۔ 430ھ) نے ’’دلائل النبوۃ (1 : 14۔ 18)‘‘ میں ایک فصل کا عنوان ذکر فضیلتہ بطیب مولدہ وحسبہ ونسبہ رکھا ہے۔
6۔ معروف محدّث و سیرت نگار اِمام بیہقی (384۔ 458ھ) نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃ (1 : 71)‘‘ میں جماع ابواب مولد النبی ﷺ کے عنوان سے میلاد شریف کی بابت کئی فصول قائم کی ہیں۔
7۔ اِمام مقریزی (769۔ 845ھ) نے ’’امتاع الاسماع بما للنبی ﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع‘‘ میں کئی مقامات پر حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت سے متعلق فصول قائم کی ہیں۔
8۔ علامہ قسطلانی (851۔ 923ھ) نے ’’المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ‘‘ کے المقصد الاول میں میلاد شریف کی اَبحاث بالتفصیل بیان کی ہیں۔
9۔ یوسف صالحی شامی (م 942ھ) نے ’’سبل الھدیٰ و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ (1 : 325۔ 374)‘‘ میں جماع ابواب مولدہ الشریف ﷺ کے عنوان سے میلاد شریف کی بابت کئی فصول قائم کی ہیں۔
10۔ خلیفہ بن خیاط (160۔ 240ھ) نے ’’التاریخ‘‘ میں مولد رسول الله ﷺ ووفاتہ کا عنوان قائم کیا ہے۔
11۔ اِمام طبری (224۔ 310ھ) نے ’’تاریخ الامم والملوک‘‘ حضور نبی اکرم ﷺ کے نسب پاک اور میلاد کا بیان بالتفصیل کیا ہے۔
12۔ ابن عساکر (499۔ 571ھ) نے ’’تاریخ دمشق الکبیر (3 : 29، 39)‘‘ میں حضور نبی اکرم ﷺ کا نسب پاک اور میلاد شریف بیان کیا ہے۔
13۔ اِمام ابن جوزی (510۔ 597ھ) نے ’’المنتظم فی تاریخ الملوک والامم‘‘ کی پہلی جلد کے آغاز میں حضور نبی اکرم ﷺ کے آباء و اَجداد اور ولادت باسعادت بالتفصیل بیان کی ہے۔
14۔ اِمام ابن اثیر جزری (555۔ 630ھ) نے ’’الکامل فی التاریخ‘‘ کی دوسری جلد کے آغاز میں حضور نبی اکرم ﷺ کا نسب پاک اور ولادت کا بیان بالتفصیل کیا ہے۔
15۔ اِمام ذہبی (673۔ 748ھ) نے ’’تاریخ الاسلام ووفیات المشاہیر والاعلام‘‘ کی السیرۃ النبویۃ کے بیان پر مشتمل جلد میں مولدہ المبارک کا عنوان قائم کیا ہے۔
16۔ ابن الوردی (م 749ھ) نے اپنی تاریخ۔ ’’تتمۃ المختصر فی اخبار البشر‘‘۔ کی پہلی جلد میں مولد النبی ﷺ وشرف نسبہ الطاہر کا عنوان باندھا ہے۔
17۔ اِمام ابن کثیر (701۔ 774ھ) نے ’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ کی دوسری جلد میں مولد سے متعلق کئی فصول قائم کی ہیں۔
18۔ شیخ حسین دیاربکری (م 966ھ) نے ’’تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیس‘‘ کی پہلی جلد کے آغاز میں حضور نبی اکرم ﷺ اور دیگر انبیاء کرام کے میلاد شریف کے واقعات بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ (1)
(1) سیرتِ طیبہ اور تاریخ کی مذکورہ کتب کے مطابع و سنینِ اِشاعت کتاب کے آخر میں دیے گئے مآخذ و مراجع میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
درج بالا حوالہ جات سے اَجل سیرت نگار و تاریخ نگار اَئمہ کی سنت واضح ہوتی ہے کہ ان سب نے اپنی کتب کے آغاز میں گزشتہ انبیاء کرام علیھما السلام کی ولادت و واقعات، حضور نبی اکرم ﷺ کا نسب پاک اور آپ ﷺ کے میلاد شریف سے متعلق معلومات بڑی تفصیل کے ساتھ فراہم کی ہیں۔ اِن کے علاوہ بھی تقریباً ہر کتابِ سیرت و تاریخ میں یہ موضوع ضرور زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ سرورِ کائنات ﷺ کی ولادت باسعادت کے لیے میلاد و مولد کے الفاظ قدیم زمانہ سے مستعمل ہیں اور کبار مصنفین اپنی کتب میں میلاد و مولد کے عنوانات سے اَبواب و فصول قائم کرتے چلے آرہے ہیں۔ اب بھی اگر کوئی یہ اِعتراض کرے کہ لفظِ میلاد و مولد کی کوئی اَصل نہیں تو یہ ہٹ دھرمی اور بد بختی کے سوا کچھ نہیں۔
اَحکامِ اِلٰہیہ سے مستنبط اُصول و قوانین ہر شرعی عمل کی اَساس ہیں اور ہر عمل سنتِ رسول الله ﷺ کی بنیاد پر استوار ہے۔ یہی اس دین کی حقانیت و صداقت کی وہ بیّن دلیل ہے جو اسے دیگر اَدیانِ باطلہ سے ممتاز کرتی ہے۔ اِس ضمن میں ہم میلادالنبی ﷺ کو بہ طور عید منانے اور اِظہار مسرت کرنے کی بابت نصوصِ قرآن و حدیث کے ساتھ تفصیلی بحث کر چکے ہیں لیکن ایسے حضرات کے لیے جو بلاوجہ میلاد شریف کے موقع پر فتویٰ بازی سے جمہور مسلمانوں کو کفر و شرک اور بدعت کا مرتکب ٹھہراتے ہیں اور ہر بات پر قرآن و سنت سے دلیل طلب کرتے ہیں اُن کے دل و دماغ تنگ نظری کا شکار ہیں اور وہ بزعم خویش یہ سوچتے ہیں کہ اِس عمل کا کوئی شرعی ثبوت نہیں؟ اُن سے بہ قولِ اِقبال رحمۃ اللہ علیہ بس اِتنی گزارش ہے :
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور، دل کا نور نہیں
اِقبال، کليات (اُردو)، بالِ جبريل : 335 / 43
میلادالنبی ﷺ جیسی نعمتِ عظمی پر شکرانے کے ثبوت طلب کرنے والے نادان اور کم نصیب لوگوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ زندگی میں ہزارہا دنیاوی خوشیاں مناتے وقت کبھی قرآن و حدیث کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھ لیں کہ اِس کا ذکر اِن میں ہے یا نہیں؟
1۔ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ جب کبھی ایک مدت کے بعد اولاد پیدا ہو تومٹھائیاں بانٹی جاتیں اور دعوتیں دی جاتیں ہیں؟ کیا اُس وقت بھی کتبِ حدیث اٹھا کر یہ ثبوت طلب کیا جاتا ہے کہ آیا حضور نبی اکرم ﷺ یا کسی صحابی نے بیٹوں کی پیدائش پر مٹھائی بانٹی تھی؟
2۔ ہر سال اپنے بچوں کی سالگرہ پر ہزاروں لاکھوں کی ضیافتیں کرنے والوں نے کیا کبھی قرآن و حدیث سے اِس بارے میں بھی ثبوت تلاش کیا ہے؟
3۔ عام معمول ہے کہ جب کسی کی شادی قریب ہوتی ہے تو کئی کئی مہینے اِس کی تیاریوں میں گزرتے ہیں۔ اِشتہار اور دعوتی کارڈ چھپوائے جاتے ہیں، رسم و رواج اور تبادلہ تحائف پر لاکھوں روپے اڑائے جاتے ہیں۔ اچھے کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ ولیمہ پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں، اپنے خویش و اَقارب اور دوست و اَحباب کی حتی الوسع خدمت کی جاتی ہے۔ کیا اس موقع پر بھی ہم نے کبھی قرآن و حدیث سے دلیل طلب کی کہ شادیوں پر آقائے دوجہاں ﷺ نے یا ان کے غلاموں نے ایسی خوشیاں منائی تھیں یا نہیں؟ کیا انہوں نے بھی اتنے مہنگے اور پرتکلف کھانے تیار کرائے تھے؟ یہاں اِس لیے ثبوت طلب نہیں کیے جاتے کہ اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کا معاملہ ہے اور بات اپنے گھر تک پہنچتی ہے مگر میلادالنبی ﷺ پر ثبوت یاد آجاتا ہے کیوں کہ یہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت کا معاملہ ہے۔
4۔ 23 مارچ کو آزادی کے حصول کے لیے قرارداد پاس ہوئی اور جد و جہد آزادی کا آغاز ہوا تھا۔ اِس کی خوشی میں ہر سال ملک کے طول و عرض میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر تقریبات، جشن اور محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس دن 14 اگست غیروں کے تسلط سے آزادی ملی اور مملکتِ خداداد پاکستان کی صورت میں الله تعالیٰ کی نعمت ملی تو اُس دن ہر سال پورے ملک کو دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے، بے پناہ وسائل خرچ ہوتے ہیں، جگہ جگہ جہازوں، ٹینکوں اور گاڑیوں کی سلامی دی جاتی ہے، گارڈ آف آنر پیش ہوتے ہیں۔ یومِ دفاع (6 ستمبر) کی خوشی میں پاک فوج کی جنگی مشقیں دیکھنے کے لیے مخصوص مقامات پر اِجتماعات ہوتے ہیں۔ یہ سب اُمور اگرچہ درست ہیں مگر اِن قومی تہواروں کے لیے عہدِ نبوی ﷺ اور عہدِ صحابہ سے ثبوت تلاش نہیں کیے جاتے۔
5۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور حصولِ آزادی کی جد و جہد میں کام کرنے والے رہنماؤں کے یومِ ولادت پر پورے ملک میں عید کا سا سماں ہوتا ہے۔ دفاتر، تعلیمی اور صنعتی اِدارے بند کر دیے جاتے ہیں۔ جلسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لیے دور دور سے دانش وروں اور زعماء کو بڑے اہتمام سے دعوتیں دے کر بلوایا جاتا ہے اور ان کی شان میں قصیدہ خوانی کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں قرآن و حدیث یا اُسوئہ صحابہ رضی اللہ عنھم سے کسی ثبوت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ بجا طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ملک و قوم کے رہبروں کی ملی خدمات کو سراہا جانا چاہیے لیکن پوری انسانیت بلکہ کائناتِ ہست و بود کے محسنِ اَعظم ﷺ کا یومِ ولادت آئے تو اُن کی یاد میں محافلِ میلاد اور خوشی کرنے پر ہمیں ثبوت یاد آنے لگتے ہیں اور دلیلیں طلب کرنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اَعلیٰ حضرت اِمام اَحمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اس حوالے سے کیا خوب لکھتے ہیں :
اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی اِحسان گیا
احمد رضا خان، حدائقِ بخشش، 1 : 33
6۔ جب ملک کا یوم تاسیس آئے یا بیرونِ ملک سے کوئی مہمان آئے (خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم) اُسے اِکیس توپوں کی سلامی دی جائے تو اُس وقت قرآن و حدیث سے جواز تلاش نہیں کیا جاتا۔
7۔ ملک کے صدر، سربراہِ ریاست یا بہت بڑے لیڈر کے اِنتقال پر بڑے اِعزاز کے ساتھ اُس کی تدفین عمل میں آتی ہے، اُس کی وفات پر سوگ کے جلوس نکالے جاتے ہیں، میت پر ماتمی دھنوں سے بینڈ باجے، توپوں کی سلامی ہوتی ہے، پھولوں کی چادریں چڑھتی ہیں، گل پاشیاں اور نہ جانے کیا کیا تقریبات ہوتی ہیں۔ علماء و غیر علماء سب اِن تقریبات میں شریک ہوتے ہیں مگر کسی نے کبھی فتویٰ صادر نہیں کیا۔ سنتِ رسول ﷺ اور اُسوئہ صحابہ رضی اللہ عنھم سے کبھی سند تلاش نہیں کی۔ اِس لیے کہ اِس میں ملک کا اِعزاز اور مرحوم لیڈر کی خدمات کا اعتراف تھا، اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار تھا اور اقوام عالم کے سامنے اپنے قومی وقار کا مسئلہ تھا۔ یہ سب کچھ ٹھیک ہے اور ہمارے نزدیک بھی یہ غلط نہیں ہے۔ ایسا ہونا چاہیے مگر اَمر زیرِ بحث یہ ہے کہ کسی صدر مملکت کے لیے ایسا اہتمام ہو تو کوئی ثبوت نہیں مانگے جاتے لیکن باعثِ موجودات حضرت محمد علیہ الصلوٰت والتسلیمات کے یوم ولادت کے سلسلے میں دلائل اور فتووں کا مطالبہ کیا جاتاہے۔ آقائے دوجہاں رحمۃ للعالمین ﷺ کی آمد کا دن آئے تو خوشی منانے کے لیے دلائل و براہین اور ثبوت مانگے جائیں، اس کا صاف مطلب ہے کہ باقی ہر موقع پر خوشی تھی بس حضور ﷺ کے معاملے میں دل اِحساسِ مسرت سے محروم ہوگیا اور حکمِ خداوندی۔ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ(1) یاد نہ رہا۔ اَعمالِ حسنہ، عبادت و ریاضت میں کثرتِ ذکر پر بھروسہ کافی محسوس ہونے لگا اور دل اس احساس سے خالی ہوگیا کہ دنیا کی سب سے پیاری، سب سے معظم اور سب سے زیادہ واجب التعظیم ہستی آقا ﷺ ہیں۔ ان کی محبت ایمان کی اساس ہے اور ایمان دل کی وہ حالت ہے جسے کیفیت یا حال کہتے ہیں، جسے لگن بھی کہتے ہیں اور لگاؤ بھی، محبت بھی کہتے ہیں اور محبت کا الاؤ بھی۔ یہ الاؤ دل میں جل اٹھے تو مومن اپنی زندگی کے ہر لمحے کو عید میلاد بنا کر مناتا رہے اور اپنے در و دیوار کو آخرت کا گھر سمجھ کر سجاتا رہے۔ ہم سب کو یہ جان لینا چاہیے کہ ان خشک و بے مغز عبادتوں کے ذخیروں کے مقابلے میں حضور ﷺ کی آمد پر خوشی کرنا الله تعالیٰ کی نگاہ میں زیادہ اَفضل عمل ہے۔
يونس، 10 : 58
اَفسوس کہ کفر و شرک کے فتاویٰ صادِر کرنے والے منکرِ میلاد بدعتیوں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی خوشیوں پر لاکھوں روپے خرچ کر دیے تو کوئی چیز رکاوٹ نہ بنی لیکن محبوب ﷺ کا ماہِ ولادت جلوہ فگن ہوا تو اِس کے اہتمام پر خود خرچ کرنے کی بجائے دوسروں کو بھی اس سے منع کرتے رہے۔ یاد رہے کہ کوئی خوشی آقائے دو جہاں ﷺ کی آمد کی خوشی سے بڑی نہیں، اس کے مقابلے میں دنیا و جہان کی ساری خوشیاں ہیچ ہیں۔
یہاں یہ نکتہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ میلاد منانا فی الواقع عملِ توحید ہے۔ یہ عمل ذاتِ باری تعالیٰ کو واحد ویکتا ماننے کی سب سے بڑی دلیل ہے کیوں کہ میلاد منانے سے یہ اَمر خود بخود ثابت ہو جاتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا میلاد منانے والے آپ ﷺ کو اللہ کا بندہ اور اللہ کی مخلوق مانتے ہیں۔ اور جس کی ولادت منائی جائے وہ خدا نہیں ہو سکتا، کیوں کہ خدا کی ذات لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے)(1) کی شان کی حامل ہے۔ جب کہ نبی وہ ذات ہے جس کی ولادت ہوئی ہو جیسا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے حوالے سے سورئہ مریم میں الله تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا :
وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ. (2)
’’اور یحییٰ پر سلام ہو، اُن کے میلاد کے دن۔‘‘
(1) الاخلاص، 112 : 3
(2) مريم، 19 : 15
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا :
وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ.
مريم، 19 : 33
’’اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن۔‘‘
تو میلاد منانا گویا نبی کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق قرار دینا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ سے اَفضل و اَعلیٰ مخلوق اِس کائنات میں کوئی نہیں۔ جب ہم آپ ﷺ کا میلاد مناتے ہیں تو الله تعالیٰ کی خالقیت اور رسول ﷺ کی مخلوقیت کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ ﷺ پیدا ہوئے۔ اِس سے بڑی توحید اور کیا ہے؟ مگر اہلِ بدعت اِس خالص عملِ توحید کو بھی بزعمِ خویش شرک کہتے ہیں جو کہ صریحاً غلط ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد کی خوشی میں خرچ کرنا اِسراف نہیں کیوں کہ یہ ایک اَمرِ خیر ہے اور ائمہ و فقہا کے نزدیک اُمورِ خیرمیں اِسراف نہیں۔ ذیل میں ہم چند ائمہ کے اَقوال درج کر رہے ہیں جن کے مطابق اُمورِ خیر پر خرچ کرنا اِسراف کے زمرے میں نہیں آتا :
1۔ حسن بن سہل رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے سے روایت ہے کہ حسن بن سہل نے کسی پانی پلانے والے کو اپنے گھرمیں دیکھا تو اُس کا حال پوچھا۔ سقہ نے اپنے زبوں حالی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بیٹی کی شادی کا اِرادہ ظاہر کیا۔ حسن بن سہل نے اُس کی حالتِ زار پر رحم کرتے ہوئے اُسے ایک ہزار درہم دینے کا عندیہ دیا لیکن غلطی سے اُسے دس لاکھ درہم دے دیے۔ حسن بن سہل کے اہلِ خانہ نے اِس عمل کو پسند نہ کیا اور حسن بن سہل کے پاس جانے سے خوف زدہ ہوئے۔ پھر وہ رقم کی واپسی کے لیے غسان بن عباد کے پاس گئے جو خود بھی سخی ہونے کی شہرت رکھتا تھا۔ اُس نے کہا :
أيها الأمير! إن الله لا يحب المسرفين.
’’اے امیر! بے شک اللہ تعالیٰ اِسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
اِس پر حسن نے کہا :
ليس في الخير إسراف.
’’خیرمیں کوئی اِسراف نہیں۔‘‘
پھر حسن نے سقہ کے حال کا ذکر کیا اور کہا :
و الله ! لا رجعت عن شيء خطّته يدي.
’’اللہ رب العزت کی قسم! میں اپنے ہاتھوں سے ادا کردہ جملہ دراہم میں سے کچھ بھی واپس نہیں لوں گا۔‘‘
پس سقہ کو اُن تمام دراہم کا حق دار ٹھہرا دیا گیا۔
1. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، 11 : 240، 241،
رقم : 1392
2. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 7 : 322
3. ابن جرادة، بغية الطلب في تاريخ حلب، 5 : 2386
2۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنھما فرماتے ہیں :
ليس في الحلال اسراف، وإنما السرف في إرتکاب المعاصي.
1. شربيني، مغني المحتاج إلي معرفة معاني ألفاظ المنهاج، 1
: 393
2. دمياطي، إعانة الطالبين، 2 : 157
’’حلال میں کوئی اِسراف نہیں، اِسراف صرف نافرمانی کے اِرتکاب میں ہے۔‘‘
3۔ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
الحلال لا يحتمل السرف.
’’حلال کام میں اِسراف کا اِحتمال نہیں ہوتا۔‘‘
1. ابو نعيم، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 6 : 382
2. شربيني، مغني المحتاج إلي معرفة معاني ألفاظ المنهاج، 1 : 393
3. دمياطي، إعانة الطالبين، 2 : 157
مذکورہ اَقوال سے واضح ہوتا ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں جتنا بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے اور خرچ کیا جائے اُس کا شمار اِسراف میں نہیں ہوتا۔ لہٰذا جو لوگ جشنِ میلادالنبی ﷺ پر خرچ کرنے کو فضول خرچی گردانتے ہیں اُنہیں اپنی اِصلاح کرلینی چاہیے اور اِس اَمر خیر کو ہرگز نشانۂ طعن نہیں بنانا چاہیے۔
حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : میں خانہ کعبہ میں شیبہ کے ساتھ کرسی پر بیٹھا تھا تو اس نے کہا کہ اسی جگہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیٹھتے تھے، میرا ارادہ ہے کہ اِس (کعبہ) میں سے تمام زرد و سفید (سونا اور چاندی) تقسیم کر دوں۔ میں نے کہا : لیکن آپ کے صاحبوں (حضور ﷺ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ) میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا۔ تو انہوں نے فرمایا : اُن دونوں کی اِقتداء مجھ پر لازم ہے (یعنی میں یہ مال تقسیم نہیں کروں گا)۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب کسوة الکعبة، 2 : 578، رقم
: 1517
2. بخاري، الصحيح، کتاب الإعتصام بالکتاب والسنة، باب الإقتداء بسنن رسول الله ﷺ ،
6 : 2655، رقم : 6847
3. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 410
4. طبراني، المعجم الکبير، 7 : 300، رقم : 7196
5. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 159، رقم : 9511
حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) نے کعبہ شریف کا خزانہ تقسیم نہ کرنے کی ایک وجہ یہ لکھی ہے :
وفي ذلک تعظيم الإسلام وترهيب العدو.
’’اور اِس میں تعظیمِ اسلام اور دشمنوں کو ڈرانا معلوم ہوتا ہے۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 3 : 457
آپ مزید لکھتے ہیں :
واستدل التقي السبکي بحديث الباب علي جواز تعليق قناديل الذهب والفضة في الکعبة ومسجد المدينة.
اور تقی الدین سبکی نے باب کی (درج بالا) حدیث سے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی ﷺ میں سونے اور چاندی کی قنادیل لٹکانے کے جواز کا اِستدلال کیا ہے۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 3 : 457
کعبہ کے غلاف کے بارے میں آپ لکھتے ہیں :
أن تجويز ستر الکعبة بالديباج قام الإجماع عليه.
’’بے شک کعبہ کو دیباج (قیمتی ریشم کے کپڑے) کے ساتھ ڈھانپنے کی تجویز پر اِجماع ہوگیا ہے۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 3 : 457
قاضی زین الدین عبد الباسط کو بحکم شاہی اِس کا غلاف تیارکرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے اسے نہایت عمدگی سے تیار کیا۔ ابن حجر عسقلانی (773۔ 852ھ) اِس بارے میں لکھتے ہیں :
بسط الله له في رزقه وعمره، فبالغ في تحسينها بحيث يعجز الواصف عن صفة حسنها، جزاه الله علي ذلک أفضل المجازاة.
’’اللہ تعالیٰ اُس کی عمر اور رِزق میں اِضافہ کرے، اُس نے کعبہ کو اتنا حسین کیا کہ کوئی بھی اس کا حسن بیان کرنے سے عاجز ہے۔ اللہ تعالیٰ اُسے اِس پر بہترین جزا دے۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 3 : 460
اِس ساری بحث سے معلوم ہوا کہ اگر اسلام کی عظمت و شوکت اور دشمنوں پر رعب و دبدبہ جمانے کے لیے کعبہ کو سونے اور چاندی کی قندیلوں اور شمعوں سے سجایا جا سکتا ہے اور بہترین ریشم کے غلاف سے کعبہ کی زینت کا سامان کیا جا سکتا ہے تو پھر تاجدار کائنات ﷺ کی ولادت باسعادت کے موقع پر محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اور پرجوش عقیدت کا والہانہ اظہار کرتے ہوئے گلی، محلوں، بازاروں اور مسجدوں کو کیوں نہیں سجایا جا سکتا؟ حضور نبی اکرم ﷺ صاحبِ لولاک ہیں اور آپ ﷺ کی ذات کائنات کی روح ہے۔ آپ ﷺ کے صدقے ہی سے ہمیں کعبہ ملا، اگر کعبہ کو سجایا جا سکتا ہے تو حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد پر چراغاں کیوں نہیں ہو سکتا؟ لہٰذا آپ ﷺ کے میلاد پر آرائش و زیبائش کا اہتمام کرنا بدرجہ اَتم مستحسن اور مقبول عمل ہے۔
گزشتہ صفحات میں ہماری معروضات صراحت سے اِس اَمر کی شہادت فراہم کر رہی ہیں کہ جشنِ میلادالنبی ﷺ کا اِہتمام کرنا یقیناً مستحسن اور باعثِ اَجر و ثواب عمل ہے لیکن اِس موقع پر اگر اِنعقادِ میلاد کے بعض قابلِ اِعتراض پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اُنہیں برقرار رہنے دیا جائے تو ہم میلادالنبی ﷺ کے فیوض و برکات سے محروم رہیں گے۔ جب تک اس پاکیزہ جشن میں طہارت، نفاست اور کمال درجہ کی پاکیزگی کا خیال نہیں رکھا جائے گا سب کچھ کرنے کے باوجود اِس سے حاصل ہونے والے مطلوبہ ثمرات سمیٹنا تو درکنار ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم ﷺ کی ناراضی مول لیں گے۔ محفلِ میلاد ہو یا جلوسِ میلاد، یہ سارا اِہتمام چوں کہ حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی کے سلسلہ میں ہوتا ہے، لہٰذا اس کا تقدس برقرار رکھنا اُسی طرح ضروری ہے جس طرح حضور نبی اکرم ﷺ کی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں آپ ﷺ کی مجلس کے آداب ملحوظ رکھے جاتے تھے۔ ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ماحول کی پاکیزگی کو خرافات اور خلافِ شرع بے ہودہ کاموں سے آلودہ نہ ہونے دیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ جشنِ میلاد کے موقع پر محفلیں منعقد کرنا اور صدقہ و خیرات کرنا، جانی و مالی، علمی و فکری غرضیکہ ہر قسم کی قربانی کا جذبہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حبیبِ مکرم ﷺ کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ صبح و شام حضور ﷺ پر درود و سلام کے علاوہ اپنی اُمت کے دوسرے نیک و بد اَعمال بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ حضور ﷺ اچھے کام دیکھ کر خوشی کا اظہار فرماتے ہیں اور برائی دیکھ کر ناراضگی اور اَفسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ (1) بالکل اسی طرح ہماری یہ میلاد کی خوشیاں بھی حضور ﷺ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ اگر ان میں صدق و اخلاص شامل نہیں ہوگا تو حضور ﷺ کو ہماری ایسی محفلوں کے انعقاد سے کیا مسرت ہوگی؟ اور اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں اپنے محبوب ﷺ کی خاطر کی جانے والی اس تقریب کو کیوں کر شرفِ قبولیت سے نوازے گا؟ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ صدقہ و خیرات میں کثرت اور اِظہارِ مسرت کے لیے بڑے بڑے جلسے جلوس اُس بارگاہ میں باعثِ شرف و قبولیت نہیں جب تک کہ ظاہری عقیدت میں اخلاصِ باطن اور حسنِ نیت شامل نہ ہو۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی سچی محبت اور ادب و تعظیم ہی ہمارے ہر عمل کی قبولیت کی اَوّلیں شرائط میں سے ہیں۔
1. بزار، البحر الزخار (المسند)، 5 : 308، 309، رقم : 1925
2۔ ابن ابی اسامۃ نے اِسے صحیح سند کے ساتھ ’’مسند الحارث (2 : 884، رقم : 953)‘‘ میں روایت کیا ہے۔
3. حکيم ترمذي، نوادر الأصول في أحاديث الرسول ﷺ ، 4 : 176
4. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 1 : 183، رقم : 686
6. قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفي ﷺ ، 1 : 19
6۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (9 : 24)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ حدیث بزار نے روایت کی ہے اور اِس کے تمام رجال صحیح ہیں۔
7. ابن کثير، البداية والنهاية، 4 : 257
8۔ ابو الفضل عراقی نے ’’طرح التثریب فی شرح التقریب (3 : 297)‘‘ میں اس روایت کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔
محفل میلاد کے تقاضوں میں خلوص و تقویٰ کے ساتھ ساتھ ظاہری و باطنی طہارت بھی انتہائی ضروری ہے۔ حضور ﷺ چوں کہ خود صفائی کو انتہائی پسند فرماتے تھے، اور جس طرح آپ ﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ میں ہر طرح کی صفائی، طہارت اور پاکیزگی کا خیال رکھا جاتا تھا اُسی طرح حضور ﷺ کی نسبت سے منعقد ہونے والی محافل و مجالس میں بھی ہمیں کمال درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ حضور ﷺ اگر چاہیں تو اپنے غلاموں کی ان محافل میں اپنے روحانی وجود کے ساتھ تشریف لاتے ہیں۔ یہاں اسی سلسلہ میں ایک مثال سے اس اَمر کی توثیق کی جاتی ہے :
’’راقم کے والد گرامی حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اِسی موقع کی مناسبت سے ایک واقعہ بیان فرمایا ہے کہ مولانا عبد الحئ فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ حقہ پیتے تھے۔ ایک دفعہ محفل میلاد منعقد تھی۔ حقہ پی کر جلدی سے بغیر کلی کیے محفل میں چلے آئے، بیٹھے بیٹھے اونگھ آگئی۔ خواب میں حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے اور فرمانے لگے : ’’عبد الحئ! تمہیں اِحساس نہیں کہ ہماری محفل میں حقہ پی کر اسی بدبودار منہ کے ساتھ آگئے ہو؟‘‘
حضور ﷺ کی طبیعت مبارکہ اتنی پاک، منزہ اور لطیف تھی کہ آپ ﷺ لہسن اور پیاز وغیرہ کھا کر مسجد میں آنے سے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو منع فرماتے تھے۔ (1) ایسے کئی واقعات ہیں کہ حضور ﷺ اپنے خاص غلاموں کو جس طرح ظاہری حیاتِ طیبہ میں ایسی بدبودار اشیاء استعمال کرنے سے روکتے تھے بعداَز وصال بھی اسی طرح حکماً یا اشارتًا منع فرماتے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1114۔ 1174ھ) ’’الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین ﷺ ‘‘ کی اٹھائیسویں حدیث میں اپنے والد گرامی شاہ عبد الرحیم (1054۔ 1131ھ) کے حوالہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں : دو صالح آدمیوں۔ جن میں سے ایک عالم بھی تھا اور عابد بھی، جب کہ دوسرا عابد تھا عالم نہ تھا۔ کو ایک ہی وقت اور ایک ہی حالت میں حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت ہوئی لیکن حضور ﷺ کی مجلس میں صرف عابد کو بیٹھنے کی اجازت دی گئی، عالم اس سے محروم رہا۔ چنانچہ اس عابد نے بعد میں لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا ماجرا ہے؟ اس عالم کو اس سعادت سے کیوں محروم رکھا گیا؟ تو اُسے بتایا گیا کہ وہ حقہ پیتا تھا اور حضور ﷺ حقہ ناپسند فرماتے ہیں۔ دوسرے دن یہ عابد اس عالم کے پاس گیا تو دیکھا کہ عالم اپنی اس محرومی پر زار و قطار رو رہا ہے۔ جب عابد نے حقیقتِ حال سے اُسے آگاہ کیا اور محرومی کا اصل سبب بتایا تو عالم نے اسی وقت تمباکو نوشی سے توبہ کرلی۔ پھر اگلی شب دونوں نے اسی طرح بیک وقت حضور ﷺ کی زیارت کی اور اِس بار عالم کو مجلس میں نہ صرف حاضری کا شرف بخشا گیا بلکہ آقائے دوجہاں ﷺ نے اسے اپنے پاس بٹھایا۔ (2)
1. مسلم، الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب نهي من أکل
ثوماً أو بصلاً أو کراثاً أو نحوهما، 1 : 394، رقم : 561
2. أبو داود، السنن، کتاب الأطعمة، باب في أکل الثوم، 3 : 160، 161، رقم : 3824، 3825
(2) شاه ولي الله ، الدر الثمين في مبشرات النبي الأمين ﷺ : 43، 44
یہ بات خوش آئند ہے کہ میلادالنبی ﷺ کا عقیدہ رکھنے والے اور جشنِ میلاد کے جلوس کا اِہتمام کرنے والے حضور ﷺ سے اتنی محبت و عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ میلاد کی خوشیوں کو جزوِ ایمان سمجھتے ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ درست اور حق ہے، مگر انہیں اس کے تقاضوں کو بھی بہرحال مدنظر رکھنا چاہئے۔ کاش ان عقیدت مندوں کو بارگاہِ مصطفیٰ ﷺ کی تعظیم اور آپ ﷺ کی تعلیمات کا بھی کما حقہ علم ہوتا!
اس مبارک موقع کے فیوضات سمیٹنے کے لیے ضروری ہے کہ حضور ﷺ کے میلاد کی ان پاکیزہ محفلوں میں اس انداز سے شرکت کریں جس میں شریعتِ مطہرہ کے احکام کی معمولی خلاف ورزی بھی نہ ہونے پائے لیکن فی زمانہ بعض مقامات پر مقام و تعظیم رسالت سے بے خبر جاہل لوگ جشنِ میلاد کو گوناگوں منکرات، بدعات اور محرمات سے ملوث کر کے بہت بڑی نادانی اور بے ادبی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جلوسِ میلاد میں ڈھول ڈھمکے، فحش فلمی گانوں کی ریکارڈنگ، نوجوانوں کے رقص و سرور اور اِختلاط مرد و زن جیسے حرام اور ناجائز اُمور بے حجابانہ سرانجام دیے جاتے ہیں جو کہ انتہائی قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت ہے اور ادب و تعظیمِ رسول ﷺ کے سراسر منافی ہے۔ اگر ان لوگوں کو ان محرمات اور خلافِ ادب کاموں سے روکا جاتا ہے تو وہ بجائے باز آنے کے منع کرنے والے کو میلادالنبی ﷺ کا منکر ٹھہرا کر اِصلاحِ اَحوال کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ اُن نام نہاد عقیدت مندوں کو سختی سے سمجھانے کی ضرورت ہے ورنہ جشنِ میلادالنبی ﷺ ان ادب ناشناس جہلاء کی اِسلام سوز رسوم و رواج کے باعث پاکیزگی و تقدس سے محروم ہو کر محض ایک رسم بن کر رہ جائے گا۔ جب تک ان محافل و مجالس اور جشن میلاد کو ادب و تعظیم رسالت مآب ﷺ کے سانچے میں نہیں ڈھال لیا جاتا اور ایسی تقاریب سے ان تمام محرمات کا خاتمہ نہیں کر دیا جاتا اس وقت تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا اور خوش نودی ہمارے شاملِ حال نہیں ہوسکتی۔ ایسی محافل میں جہاں بارگاہِ رِسالت ﷺ کے ادب سے پہلوتہی ہو رہی ہو نہ صرف یہ کہ رحمتِ خداوندی اور اس کے فرشتوں کا نزول نہیں ہوتا بلکہ اہلِ محفل و منتظمینِ جلوس خدا کے غضب اور حضور ﷺ کی ناراضگی کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ اس برائی کے خلاف کہیں آواز بلند کی جاتی ہے نہ حکومت کی طرف سے حکمت یا سختی کے ساتھ اس قبیح روش کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ مذہبی طبقے کی خاموشی کی سب سے بڑی وجہ (الا ماشاء اللہ) پیٹ کا دھندا ہے جو ان قبیح رسموں کو روکنے میں آڑے آجاتا ہے۔ مفاد پرست حلقوں کی سوچ یہ ہے کہ اگر ان غیر اَخلاقی و غیر شرعی اُمور کی سختی سے گرفت کی گئی تو شاید جلسے جلوسوں میں ان علماء کی دھواں دھار تقریریں ختم ہو جائیں اور کاروباری حضرات سے ملنے والے معاوضے اور چندے بند ہو جائیں۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ مالی مفادات اور ان گروہی اور نام نہاد محدود مسلکی منفعتوں کی خاطر یہ لوگ میلادالنبی ﷺ کے تقدس اور عظمت کو پامال کر رہے ہیں۔
ایسے مواقع پر حکومت کو خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ ضروری ہے کہ وہ ہر ممکن اِصلاحی تدابیر عمل میں لائے۔ کیا وجہ ہے کہ اَربابِ اِقتدار یا سیاسی حکومت کے کسی لیڈر یا عہدے دار کے خلاف معمولی سی گستاخی اور بے ادبی کرنے والے کو حکومت اپنی پولیس فورس کے ذریعے ڈنڈے کے زور سے نہ صرف باز رکھتی ہے بلکہ معاملہ گھمبیر ہو تو قانون شکنی کرنے والوں کو فوراً گرفتار بھی کر لیا جاتا ہے۔ مگر عرس اور میلاد جیسے موقعوں پر بدعمل، اوباش اور کاروباری لوگ ناچ گانے اور ڈانس کا باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں، میلے، تھیٹر اور سرکسوں کا انتظام ہوتا ہے، اَولیائے کرام کی پاکیزہ تعلیمات کی دانستہ اور سرِبازار خلاف ورزی ہوتی ہے مگر معلومات کے باوجود حکومت کوئی قانونی کارروائی نہیں کرتی۔ حکومت کے اَربابِ بست و کشاد نہ جانے کیسے گوارا کر لیتے ہیں کہ باقاعدہ پولیس کی نگرانی اور اَمن و امان میں یہ خلافِ شریعت اُمور ہو رہے ہیں۔ ایسے عناصر کو بزورِ قانون خلافِ شریعت حرکات سے روکنا اَشد ضروری ہے۔
عرس کے موقعوں پر بزرگانِ دین کے مزارات پر آنے کا مقصد قرآن حکیم کی تلاوت اور ان اولیائے کرام کی پاکیزہ تعلیمات سے بہرہ ور ہونے اور ان پر عمل کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ میلادالنبی ﷺ کے جلوس نعت خوانی، حضور ﷺ کے خصائص و شمائل اور فضائل و مراتب کے بیان اور جائز شرعی طریقے سے خوشیاں منانے کے لیے نکالے جاتے ہیں۔ مگر افسوس کہ
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمت روایات میں کھو گئی
اِقبال، کليات (اُردو)، بالِ جبريل : 416 / 124
کے مصداق دینی شعار کا کھلے بندوں مذاق اڑایا جاتا ہے اور حکومت اور اہلِ فکر و نظر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔
بدقسمتی سے آج اُمتِ مسلمہ دو بڑے طبقوں میں بٹ گئی ہے : ایک طبقہ جشنِ میلادالنبی ﷺ کو سرے سے ناجائز، حرام اور بدعت کہہ کر اِس کا اِنکار کر رہا ہے، جب کہ دوسرا طبقہ میلاد کے نام پر (اِلا ما شاء اللہ) ناجائز اور فحش کام سرانجام دینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ اُنہوں نے بہت سے ناجائز اور حرام اُمور کو داخلِ میلاد کر کے میلادالنبی ﷺ کے پاکیزہ تصور کو بدنام اور تقدس کو پامال کردیا ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِفراط و تفریط سے بچتے ہوئے اِن انتہاء پسند رویوں کے بین بین اِعتدال پسندی کی روش اِختیار کی جائے۔ ہم نے میلاد اور سیرت کے نام پر مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کوئی صرف میلاد کا داعی بن گیا اور کوئی صرف سیرت کا نام لیوا۔ میلاد کا نام لینے والا سیرت سے کتراتا ہے اور سیرت کا داعی میلاد کو ناجائز کہہ کر اپنی دانش وری اور بقراطیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ سوچ ناپید ہے کہ اگر میلاد نہ ہوتا تو سیرت کہاں سے ہوتی اور اگر سیرت کے بیان سے اِحتراز کیا تو پھر میلاد کا مقصد کیسے پورا ہو سکتا ہے! بیانِ میلاد اور بیانِ سیرت دونوں حضور ﷺ کے ذکر کے طریقے ہیں۔ دونوں ایک شمع کی کرنیں ہیں۔ میلاد کو نہ تو بدعت اور حرام کہہ کر ناجائز سمجھیں اور نہ اِسے جائز سمجھتے ہوئے اس کے پاکیزہ ماحول کو خرافات سے آلودہ کیا جائے۔
حضور ﷺ کی ولادت مبارکہ کی خوشی مناتے ہوئے محافلِ میلاد میں محبت و تعظیم کے ساتھ باوُضو ہو کر شریک ہوں تو یہ اَفضل عبادت ہے۔ میلاد کے جلسے، جلوسوں اور محافل میں سیرت کا ذکرِ جمیل کرنا، لوگوں کو آقائے نامدار حبیبِ کبریا ﷺ کے حسنِ سیرت و صورت اور فضائل و شمائل سنانا اور حضور ﷺ کی محبت اور عشق کے نغمے الاپنا ہر سچے مسلمان کا شیوہ ہونا چاہیے کہ اِسی میں پوری اُمتِ مسلمہ کی کامیابی کا راز مضمر ہے اور یہی وقت کی سب سے اہم مذہبی ضرورت ہے۔ ملتِ اِسلامیہ کے واعظین اور مبلغین اگر میلاد اور سیرت کی دو بنیادی حقیقتوں کو الگ الگ کر دیں گے تو عوام الناس تک کلمہ حق کیسے پہنچے گا؟
واعظین اور مبلغین اگر دین کا اور حضور ﷺ کی تعظیم و رسالت کا تحفظ چاہتے ہیں تو یہ ان کی ذاتی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حتی المقدور ناجائز اور خلافِ شرع بدعت، ہرقسم کے منکرات اور فحش اُمور کے خلاف علم جہاد بلند کریں۔
حکومت کا فرض ہے کہ محافلِ میلاد کا تقدس برقرار رکھنے کے لیے مداخلت کرے اور عید میلادالنبی ﷺ کے نام پر ناچ گانا اور دیگر خرافات کرنے والوں پر قانونی پابندی لگا دے جس کی خلاف ورزی کرنے والے عناصر کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں تاکہ جلسوں اور جلوسوں کا ماحول ہر قسم کی خرافات اور غیر شرعی اُمور سے پاک رہے۔
الله تعالیٰ اپنے حبیب مکرّم ﷺ کے تصدق سے ہمارے حال پر رحم فرمائے، ہمیں میلاد شریف کے فیوض و برکات سمیٹنے، اپنی زندگیاں سیرتِ طیبہ کے سانچے میں ڈھالنے اور منکرات و فواحش سے بچنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ (آمین بجاہِ سید المرسلین ﷺ )
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved