اللہ تعالیٰ نے اِنسان کی جسمانی اور روحانی ضروریات کے مطابق جہاں ایک طرف اُس کے مادّی اور جسمانی حوائج کی تکمیل کا اہتمام کیا وہیں بقائے حیات کی خاطر اُسے ایسی ہدایت و رہنمائی سے بھی بہرہ ور فرمایا جس سے وہ اپنی اَخلاقی و رُوحانی زندگی کے تقاضوں سے کماحقہ عہدہ بر آہو سکے۔ قافلۂ رُشد و ہدایت کا وہ نورانی و رُوحانی سفر جس کی اِبتداء بنی نوع انسان کے جد اَمجد حضر ت آدم علیہ السلام کی آفرینش سے ہوئی، یکے بعد دیگرے مختلف انبیاء کرام علیھم السلام کے زمانوں سے گزرتا ہوا بھٹکی ہوئی نسلِ انسانی کو راہِ ہدایت سے ہم کنار کرتا رہا۔ لیکن گمراہی و ضلالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں تاریخِ انسانی پر ایک ایسا وقت بھی آیا جب تہذیب و تمدن کا نام بھی باقی نہ رہا اور ظلم و بربریت کے شکنجوں میں جکڑی اِنسانیت شہنشاہیت اور جابرانہ آمریت کے دو پاٹوں کے درمیان بری طرح پسنے لگی۔ جب تاریخِ انسانی کی طویل ترین رات اپنی ہیبت کی انتہا کو پہنچ گئی تو قانونِ قدرت کے مطابق ظلمتِ شب کے دامن سے ایک ایسی صبحِ درخشاں طلوع ہوئی جو قیامت تک کے لیے غیر فانی اور سرمدی اُجالوں کی نقیب بن گئی۔ بلادِ حجاز کی مقدس فضائیں نعرۂ توحید کی صداؤں سے گونجنے لگیں، وادیء مکہ میں اس نادرِ روزگار ہستی کا ظہور ہوا جس کے لیے چشمِ فلک ابتدائے آفرینش سے منتظر تھی اور روحِ عصر جس کے نظارے کے لیے بے قرار تھی۔
سرورِ کائنات ﷺ کی ذاتِ ستودہ صفات نے اِس خاک دان کا مقدر بدل ڈالا، انسانی تہذیب و تمدن کے بے جان جسم میں وہ روح پھونک دی جس سے تاریخ انسانی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ محسنِ اِنسانیت ﷺ کے وجودِ اَقدس میں حسن وجمالِ ایزدی کے جملہ مظاہر اپنی تمام تر دل آویزیوں اور رعنائیوں کے ساتھ یوں جلوہ گر ہوئے کہ تمام حسینانِ عالم کے سراپے ماند پڑ گئے اور شاعر کو بے اختیار کہنا پڑا:
ز فرق تا بہ قدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جاست
(سر سے پاؤں تک جہاں بھی میں دیکھتا ہوں حسنِ سراپا کی تجلی دل کے دامن کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔)
میلادِ مصطفیٰ ﷺ کی اِس صبح اَوّلیں سے اب تک چودہ صدیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن آج بھی جب اس عظیم ترین ہستی کے پردۂ عالم پر ظہور کا دن آتا ہے تو مسلمانانِ عالم میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ماہِ ربیع الاول کا یہ مقدس دن اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی نویدِ جشن لے کر طلوع ہوتا ہے اور مسلمانوں کا سوادِ اعظم اس روزِ سعید کو بڑھ چڑھ کر مناتا ہے۔
ذیل میں ہم جشنِ میلاد النبی ﷺ کے مختلف پہلوؤں پر ایک اِجمالی نظر ڈالیں گے تاکہ عمرانی تناظر میں اس کا کوئی گوشہ ہماری نظروں سے اوجھل نہ رہے:
جشنِ میلاد النبی ﷺ منانے کے شرعی پہلو کو ہم نے شرح و بسط کے ساتھ گزشتہ اَبواب میں اُجاگر کر دیا ہے۔ یہاں باب کی مناسبت سے صرف چند حوالہ جات پر اِکتفا کیا جائے گا:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍO
’’اور بے شک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ (اے موسیٰ!) تم اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جاؤ اور انہیں الله کے دنوں کی یاد دلاؤ (جو ان پر اور پہلی اُمتوں پر آچکے تھے)، بے شک اس میں ہر زیادہ صبر کرنے والے (اور) خوب شکر بجا لانے والے کے لیے نشانیاں ہیں۔ ‘‘
ابراهيم، 14: 5
حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
بينا موسي عليه السلام في قومه يذکرهم بأيام الله ، وأيام الله بلاؤه ونعماؤه.
’’ہم میں موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو اللہ کے دنوں کی یاد دلاتے تھے۔ اور اللہ کے دنوں سے مراد (اس کی طرف سے) مصائب اور نعمتوں کے اترنے کے دن ہیں۔‘‘
قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 9: 342
مفسرین کرام نے وَذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ الله کی تفسیر کے ذیل میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہوئے کہا کہ اِس سے مراد ہے:
بنعم الله عليهم.
’’اُن پر اللہ کی نعمتوں کا اُترنا۔‘‘
1. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 9: 341
2. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 5: 6
3. شوکاني، فتح القدير، 3: 95
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نام وَر تابعی شاگرد مجاہد اس آیت کی تفسیر ان الفاظ میں کرتے ہیں:
بالنعم التي أنعم بها عليهم: أنجاهم من آل فرعون وفلق لهم البحر وظلل عليهم الغمام وأنزل عليهم المن والسلوي.
’’اللہ کی ان نعمتوں کو یاد کرنا جو اس نے ان پر نازل کیں: اس نے ان کو آلِ فرعون سے نجات دی، ان کے لیے سمندر کو پھاڑا، ان کے اوپر بادلوں کا سایہ کیا اور ان پر من و سلوی اتارا۔‘‘
1. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 13: 184
2. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 5: 6
یہ آیت اتارنے کا مقصد یہ تھا کہ بنی اسرائیل الله کے دنوں کی یاد منائیں تاکہ ان کی آئندہ نسلیں بھی ان دنوں کی یاد مناتی رہیں اور انہیں معلوم ہو کہ ان اَیام میں اللہ تعالیٰ نے انہیں کیسی کیسی نعمتوں سے نوازا تھا: انہیں فرعون کی سختیوں سے نجات دی گئی، فرعون کو غرقِ نیل کرکے انہیں اس میں سے صحیح سلامت نکالا گیا، اُن پر سخت دھوپ میں بادلوں کا سایہ کیا گیا حتی کہ ان کی خوراک کا بھی آسمانی بندوبست کیا گیا اور وہ من و سلویٰ سے نوازے گئے۔ اتنی کثیر نعمتوں سے مالا مال کرنے کے بعد ان کویاد دلایا جا رہا ہے کہ مرورِ اَیام سے وہ دن جب بھی لوٹ کر آئے تو ان پر لازم ہے کہ اُس دن ملنے والی نعمتیں یاد کرکے اپنے رب کا شکر بجا لائیں اور خوب عبادت کریں۔
قرآن حکیم فرماتا ہے:
قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَO
’’عیسیٰ بن مریم نے عرض کیا: اے الله ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہو جائے، ہمارے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی)، اور (وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو، اور ہمیں رزق عطا کر اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔ ‘‘
المائدة، 5: 114
ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ نے جامع البیان فی تفسیر القرآن میں اس آیت کی تفسیر میں قولِ صحیح نقل کرتے ہوئے کہا کہ اِس دعا کا معنی یہ ہے کہ نزولِ خواں کا دن ہمارے لیے عید ہو جائے، اس دن ہم اسی طرح نماز پڑھیں گے جیسے لوگ عید کے دن نمازِ شکرانہ ادا کرتے ہیں۔
طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 7: 177
اِس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ وہ نزولِ مائدہ کا دن بہ طورِ عید منائیں، اس کی تعظیم و تکریم کریں، الله کی عبادت کریں اور شکر بجا لائیں۔ اِس سے یہ اَمر بھی مترشح ہوا کہ جس دن الله تعالیٰ کی کوئی خاص رحمت نازل ہوتی ہے، اس دن شکر الٰہی کے ساتھ اِظہارِ مسرت کرنا، عبادت بجا لانا اور اس دن کو عید کی طرح منانا طریقہ صالحین اور اہل الله کا شیوہ رہا ہے۔ امام الانبیاء، محسنِ انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی اس دنیائے آب و گل میں تشریف آوری کا دن خدائے بزرگ و برتر کی عظیم ترین نعمت اور رحمت کے نزول کا دن ہے، کیوں کہ اسے خود الله نے نعمت قرار دیا ہے۔ اس لیے حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا، شکر اِلٰہی بجا لانا اور اظہارِ مسرت و شادمانی کرنا انتہائی مستحسن و محمود عمل ہے، اور یہ ہمیشہ سے مقبولانِ الٰہی کا طریقہ رہا ہے۔
سلاطینِ اسلام بھی سرکاری سطح پر جشنِ میلاد النبی ﷺ کا انعقاد کرتے رہے ہیں۔ اس میں سب سے نمایاں نام ابو سعید المظفر (م 630ھ) کا ہے جو سلطان صلاح الدین ایوبی (532۔ 589ھ) کے بہنوئی تھے۔ ان کے تفصیلی اَحوال شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ کلبی (544۔ 633ھ) نے اپنی کتاب ’’التنویر فی مولد البشیر النذیر‘‘ میں رقم کیے ہیں۔ مزید برآں شیخ ابو مظفر یوسف (م 654ھ)۔ جو سبطِ ابن جوزی کے نام سے معروف ہیں۔ نے اپنی کتاب ’’مرآۃ الزمان فی تاریخ الاعیان‘‘ میں سلطان کے حوالہ سے جشنِ میلاد النبی ﷺ کے شاہی اِہتمام کی تفصیلات و جزئیات نقل کی ہیں۔ (اس پر مزید تفصیلات کتاب ھٰذا کے باب۔ جشنِ میلاد النبی ﷺ : اَئمہ و محدثین کی نظر میں۔ میں ملاحظہ کریں۔)
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو نعمتوں پر شکر بجا لانے کا حکم صرف اُمتِ محمدیہ ﷺ ہی کو نہیں بلکہ سابقہ اُمتوں کو بھی دیا جاتا رہا۔ قرآن حکیم میں بنی اسرائیل کی طرف رُوئے خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا:
يَا بَنِي إِسْرَآئِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَO
’’اے اولادِ یعقوب! میرے وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کیے اور یہ کہ میں نے تمہیں (اس زمانے میں) سب لوگوں پر فضیلت دی۔ ‘‘
البقرة، 2: 47
اس امر کی مزید تائید حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس دعا سے ہوتی ہے جس کا ذکر گزشتہ صفحات میں تفصیل سے ہو چکا ہے۔
2۔ قرآن حکیم میں حضرت زکریا علیہ السلام کو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کی بشارت کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلاَمٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيًّاO
’’(ارشاد ہوا: ) اے زکریا! بے شک ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوش خبری سناتے ہیں جس کا نام یحییٰ (علیہ السلام) ہوگا ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی ہم نام نہیں بنایا۔ ‘‘
مريم، 19: 7
3۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت مبارکہ کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح کیا گیا ہے:
إِذْ قَالَتِ الْمَلآئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَO
’’جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! بے شک الله تمہیں اپنے پاس سے ایک کلمہ (خاص) کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا، وہ دنیا اور آخرت (دونوں) میں قدر و منزلت والا ہوگا اور الله کے خاص قربت یافتہ بندوں میں سے ہو گا۔ ‘‘
آل عمران، 3: 45
تاریخ کے آئینے میں سابقہ اور موجودہ اَقوام کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ایک ناقابلِ تردید حقیقت نظر آتی ہے کہ ہر دور کے لوگ اپنے مشاہیر کے اَیام بڑی دھوم دھام سے ایک جشن کی صورت میں مناتے چلے آئے ہیں۔ آج بھی اقوامِ عالم اپنے قومی و روحانی پیشواؤں اور بانیانِ مملکت کا یومِ ولادت سرکاری سطح پر مناتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ہر سال 23 مارچ، 14 اگست، 9 نومبر اور 25 دسمبر کے دن بالترتیب یومِ جمہوریہ پاکستان، یومِ آزادی، یومِ اِقبال اور یوم قائد اعظم کے طور پر منائے جاتے ہیں۔ علیٰ ھذا القیاس عرب اور دیگر اَقوامِ عالم اپنے بادشاہوں اور قومی سطح کے رہنماؤں کی یاد ہر سال باقاعدگی سے مناتی ہیں، بلکہ عرب ممالک میں تو حکمرانوں کی تاج پوشی کا دن العید الوطنی کے نام سے معروف ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا یوم ولادت باسعادت بھی ایک ایسا ہی عظیم دن ہے جس پر اِظہارِ تشکر اور اِظہارِ مسرت ہوتا آرہا ہے اور اسے یوم عید کے طور پر منانے کی روایت قائم ہے، اور اس کی اصل قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ اس پر اعتراض کی وجوہات کا تعلق حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اَقدس کے حوالہ سے بعض لوگوں کی مخصوص قلبی کیفیت سے ہے، ورنہ ان خوشیوں کی تقریبات پر کوئی اِعتراض سراسر بلاجواز ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ پوری دنیائے انسانیت کے لیے ایک ایسا انقلاب لے کر آئے جس کی عالم گیریت اور آفاقیت پر کبھی دو آراء نہیں ہو سکتیں۔ آپ ﷺ کے پیروکاروں نے اپنے عظیم ہادی ﷺ کی غیر فانی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر انسانی تہذیب و تمدن کے ایسے مینار روشن کیے اور ہمہ گیر معاشی و معاشرتی ترقی کی وہ مثالیں قائم کیں جس کی نظیر پوری تاریخِ عالم پیش نہیں کر سکتی۔ اِس لیے اُمتِ مسلمہ پر بہ درجۂ اَولیٰ لازم ہے کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کا میلاد مبارک منانے میں اَقوامِ عالم میں کسی سے پیچھے نہ رہیں بلکہ آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کا عظیم ترین دن اس طرح منائیں کہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعر کی تفسیر عملی طور پر نظر آنے لگے:
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اِسمِ محمد سے اُجالا کر دے
اِقبال، کليات (اُردو)، بالِ جبريل: 207
زمانۂ قدیم سے لے کر آج تک حیاتِ انسانی کے تمام شعبوں میں طرزِ بود و باش، معاشرتی میل جول اور خوشی و غم کے جذبات و اِحساسات کے پیرایۂ اِظہار کے اَطوار بدلتے چلے آرہے ہیں۔ ہر قوم کی اپنی ثقافت ہوتی ہے جو اس قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ ہر قوم خوشی کا اظہار زمانے کے تقاضوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنی ثقافت کے مطابق کرتی چلی آئی ہے اور مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ ہر قوم کے رسوم و رواج اور ثقافت میں تغیر آتا رہا ہے۔ یہی صورتِ حال فرزندانِ اِسلام کی رہی ہے۔ قرونِ اُولیٰ میں اس دور کے تقاضوں کے مطابق رسوم و رواج مزاجاً سادہ تھے، لہٰذا ان کے خوشی منانے کے طریقے بھی سادہ ہوتے تھے۔ مگر جیسے جیسے زمانے میں تبدیلیاں رُونما ہوتی چلی گئیں اسی طرح ان کی ثقافت بھی تبدیل ہوتی رہی۔ پہلے سادگی کا عنصر نمایاں تھا اور ثقافتی اظہار خاموشی سے کیا جاتا تھا مگر موجودہ دور میں اِظہارِ ثقافت کی شکلیں زیادہ سے زیادہ نمود و نمائش کا رُخ اختیار کر گئی ہیں۔ اگر ہم اس تغیر کی وجوہات کا تجزیہ کریں تو شہری آبادیوں میں بے پناہ اِضافہ، تفریحی تقریبات کی اَشد ضرورت، انسانی زندگی میں الیکٹرانک میڈیا کا مرکزی کردار، جدید ایجادات، وسائل اور زندگی کی ہر طرح کی تقریبات کے عمومی حجم میں بے پناہ اضافہ کا رُجحان عید میلاد النبی ﷺ جیسی بھرپور تقریبات کی magnificence اور large scale celebrations کے نمایاں اَسباب ہیں۔
اِن حقائق کے ہماری عملی زندگی پر بھرپور اِطلاق کی ایک مثال ہر سال منائی جانے والی ’’بسنت‘‘ ہے جسے حکومتی سطح پر منعقد ہونے والے ’’جشنِ بہاراں‘‘ کی تقریبات کا حصہ بنا دیا گیا ہے، اوراِس بابت عدالتِ عالیہ و عدالتِ عظمیٰ کے اَحکامات بھی نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ اس کی تیاریاں ہفتوں پہلے شروع ہو جاتی ہیں، اربوں روپے کی پتنگیں اور ڈور بکتی ہے۔ کروڑوں روپے روشنیوں اور طرح طرح کے کھانوں کے انتظامات پر صرف کیے جاتے ہیں۔ صرف بسنت منانے کے لیے دنیا کے ہر کونے سے لوگ ہر سال لاہور آتے ہیں؛ کسی ایئر لائن پر سیٹ ملتی ہے، نہ ٹرین یا فلائنگ کوچز پر بکنگ ہوتی ہے۔ ’’بسنت‘‘ کی تقریبات کا جتنا پھیلاؤ ہے اتنے ہی اس کے اندر عیوب و خبائث پنہاں ہیں۔ سب سے نمایاں معصوم جانوں کا وہ نقصان ہے جو دھاتی ڈور یا چھتوں سے گر کر مرنے سے ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ اَربوں روپے کا ضیاع ہوتا ہے اور مرد و زن کی مخلوط محافل میں بے حیائی، فحاشی اور لچر پن کا طوفانِ بدتمیزی الگ بپا کیا جاتا ہے۔ اور اِن تمام خرافات و لغویات کو کلچر و ثقافت کا نام دیا جاتا ہے۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔
اِسی کلچر کی دوسری مثال کی تفصیلات ہر سال یکم جنوری کے موقع پر اَخبارات میں چھپنے والی باتصویر رپورٹس سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ نیا عیسوی سال آنے پر Happy New Year کا تہوار قہر اِلٰہی کو دعوت دیتے ہوئے منایا جاتا ہے۔ تیسری مثال 14 فروری کو منایا جانے والا Valentine Day ہے، جسے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ’’یومِ عشق‘‘ کا نام دے کر نسلِ نو کو مغربی تہذیب کی پیروی کی طرف راغب کرتے ہوئے ہماری اِسلامی و مشرقی اَقدار کی پامالی کا سامان بہم پہنچایا جاتا ہے، اُنہیں بے حیائی کی تعلیم دی جاتی ہے اور مخلوط محافل کا اِہتمام کیا جاتا ہے۔ مملکتِ خداداد پاکستان کی حکومت، قانون نافذ کرنے والے اِدارے اِس سیل بلا کا کیا سدباب کرتے ہیں؟
اِن دگرگوں حالات میں حضور نبی اکرم ﷺ کی میلاد کے موقع پر رُوحانی محافل کا اہتمام ایک ایسا عمل ہے جو ہمارے قومی دھارے کو فروغِ ہدایت کی راہ پر ڈھالنے کا ایک مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے، اور ان تقریبات کی تعلیمات اور برکات کی وجہ سے ہم ’’بسنت کلچر، ‘‘ ’’Happy New Year کلچر‘‘ اور ’’Valentine Day کلچر‘‘ جیسی لعنتوں سے محفوظ ہو جائیں گے۔ اَفسوس اِس بات کا ہے کہ اگر حق پر مبنی ایک عقیدے کو مذہبی علوم سے بے خبر عوام کے سامنے مطعون کر کے پیش کیا جائے گا تو عامۃ الناس دین کے بارے میں واضح نظریات کے سرمائے سے محروم ہو جائیں گے، جس کا نتیجہ بے راہ روی اور بسنت کلچر ہی ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم ہر پہلو سے اِسلام کا مطالعہ کرتے ہوئے حکمت و ضرورت کے پیشِ نظر اُس کی تعلیمات کا اِطلاق و اِنطباق درست سمت میں کریں۔ تاریخِ اِسلام کا مطالعہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ ہجرتِ مدینہ، میثاقِ مدینہ، یومِ غزوہء بدر، یومِ فتحِ مکہ اور یومِ نزول قرآن اپنی جگہ بڑی اَہمیت کے حامل ہیں۔ ان اَیام نے تاریخ کے دھاروں کا رخ بدل ڈالا لیکن اس کے باوجود قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں نے ان مہتم بالشان واقعات اور عظیم ایام کو منانے کا کوئی اہتمام نہ فرمایا۔ وجہ یہ تھی کہ اُس دور کا یہ رواج اور کلچر نہیں تھا مگر موجودہ دور اپنے جلو میں نئے ثقافتی اور تہذیبی تقاضے لے کر آیا ہے۔ موجودہ عصری تہذیبی و ثقافتی پس منظر میں ہم نہ صرف ان ایام کو شان و شوکت سے مناتے ہیں بلکہ ان کے علاوہ دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اور بہت سے تہواروں کو منانے کا اہتمام بھی پُرمسرت اَنداز سے کیا جاتا ہے، جیسے یومِ پاکستان، یومِ آزادی، یومِ دفاع، یومِ بانیء پاکستان، مزدوروں کا عالمی دن، خواتین کا عالمی دن وغیرہ۔
خلافتِ عثمانیہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت کے دن اِکیس (21) توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ اِسی طرح مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور بلادِ یمن و شام میں میلاد النبی ﷺ انتہائی تزک و احتشام سے منایا جاتا تھا، جیسا کہ ہم نے گزشتہ اَبواب میں بالصراحت بیان کیا ہے۔ آج بھی عرب دنیا میں جب کوئی تخت نشین ہوتا ہے تو بڑی گرم جوشی سے اس کی تاج پوشی کا دن منایا جاتا ہے، یہی نہیں بلکہ ہر سال تخت نشینی کی رسم کے ساتھ بادشاہ کو تحائف سے نوازا جاتا ہے، توپوں کی سلامی دی جاتی ہے، مٹھائیاں تقسیم کی جاتیں ہیں اور ملک بھر میں عید کا سا سماں ہوتا ہے۔ پوری مغربی دنیا 25 دسمبر کو بطور عید (کرسمس ڈے) مناتی ہے لیکن وہ اس کی تیاریاں کئی ماہ قبل شروع کردیتے ہیں۔ ان کی دکانیں، گھر، بازار اور درخت کرسمس کی آمد کی نشان دہی کر رہے ہوتے ہیں۔ ان چار مہینوں (ستمبر تا دسمبر) میں امریکہ اور یورپ کی دنیا کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔ لہٰذا جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کی خوشیاں عیسائی دنیا بڑے کرّ و فرسے مناتی ہے، تو جس ہستی کی وساطت اور رِسالت کے تصدق سے سے عیسیٰ علیہ السلام اور دیگر تمام انبیاء کو نبوت و رِسالت ملی، اور جن کی بعثت کے لیے جد الانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دعا فرمائی، اُن کا یومِ وِلادت اُمت مسلمہ کیوں نہ منائے!
آج حالات کے تقاضے یکسر بدل چکے ہیں، یوم آزادی اور دیگر اہم ایام کا منایا جانا ہماری ثقافتی زندگی کا جزو لاینفک بن چکا ہے؛ لہٰذا اسلامی ثقافت کی سب سے بڑی علامت (symbol) یعنی یومِ میلاد النبی ﷺ کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے! حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت اصلِ ایمان ہے اور آپ ﷺ کی تعلیمات و اُسوہ پر عمل کے ساتھ ساتھ اِس محبت کا مؤثر ترین اِظہار جشنِ میلاد منا کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ بڑی ستم ظریفی اور نا انصافی ہوگی کہ آج کے مسلمان حکمران اپنی تخت نشینی کا دن پورے جوش و خروش سے منائیں اور اس پر کسی حلقے کی طرف سے بدعت و شرک کا فتویٰ نہ لگے اور اسے ثقافت کے نام پر جائز سمجھا جائے، لیکن جب تاجدارِ کائنات ﷺ کی ولادتِ مبارکہ کا دن منایا جائے تو فتویٰ فروشوں کی زبانیں اور قلم حرکت میں آ کر بدعت و شرک کے فتوے اگلنا شروع کر دیں۔
آج کے دور میں اِس اَمر کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ ہم اپنی اولاد کو حُبِ رسولِ اکرم ﷺ کی تعلیم دیں اور ان کی تربیت اس نہج پر کریں کہ ان میں آقائے دوجہاں ﷺ سے یک گونہ حبی و قلبی تعلق پختہ سے پختہ تر ہوتا چلا جائے۔ ان کے اندر یہ تعلق پیدا کرنے کے لیے میلاد النبی ﷺ منانے کی ترغیب مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ اس ضمن میں ہماری رہنمائی ایک حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے جس میں اولاد کو حُبِ رسول ﷺ کی تعلیم دینے کی تلقین ان الفاظ میں فرمائی گئی ہے:
أدبوا أولادکم علي ثلاث خصال: حبّ نبيکم، وحبّ أهل بيته، وقراء ة القرآن.
’’اپنی اولاد کو تین خصلتیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبت، نبی کے اہلِ بیت کی محبت اور (کثرت کے ساتھ) تلاوتِ قرآن۔‘‘
1. سيوطي، الجامع الصغير في أحاديث البشير النذير، 1: 25، رقم:
311
2. هندي، کنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، 16: 456، رقم: 45409
فی زمانہ اولاد کو حضور ﷺ کی محبت سکھانے کا اس سے مؤثر اور نتیجہ خیز طریقہ اور کوئی نہیں کہ جب وہ شعور و آگہی کی عمر کو پہنچیں تو انہیں حضور ﷺ کا میلاد منانے کی ترغیب دی جائے۔ زیادہ سے زیادہ ایسی محافل کا انعقاد کیا جائے جن میں تذکارِ سیرت و رِسالت ہوں، نعتیں پڑھی جائیں اور ایک خاص اہتمام کے ساتھ حضور ﷺ کے ذکر کی مجالس بپا کی جائیں تاکہ بچوں میں اَوائلِ عمری ہی سے حضور ﷺ کے ساتھ یک گونہ ذہنی و جذباتی وابستگی پختہ تر ہوتی چلی جائے۔ چین میں جب کمیونسٹ انقلاب آیا تو ماؤزے تنگ (1893۔ 1976ء) کی تقریروں کے کیسٹ بچوں کے پیدا ہوتے ہی ان کے کانوں میں سنائے جاتے تھے، یہ عمل سال ہا سال جاری رکھا جاتا۔ اِنقلابِ روس کے دور میں بھی مدتوں نوجوان نسل کو لینن (1870۔ 1924ء) کے نام اور کام سے آشنا کیا جاتا رہا۔ انقلابِ ایران کی جد و جہد میں خمینی (1902۔ 1989ء) کی انقلابی تقریروں کی کیسٹیں بچوں کے کانوں میں سنائی جاتی رہیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ بچے اس ماحول میں پرورش پائیں اور باشعور ہونے تک ایک خاص پیغام ان کے ذہنوں میں راسخ ہو جائے۔
مسلمان ہونے کے ناطے اور بہ حیثیت والدین ہماری یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ ایمان کی دولت اپنی اگلی نسلوں کو منتقل کرتے رہیں۔ اگر ہم ایک لمحہ کے لیے پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ہم پر آشکار ہوگا کہ ہمارے ماں باپ نے ایمان کی عظیم دولت نہایت امانت و دیانت سے ہمیں منتقل کی۔ اب یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ایمان اور حُبِ رسول ﷺ کی یہ وراثت اپنی اولاد میں منتقل کر دیں تاکہ محبت کا یہ پیغام اگلی نسلوں تک پہنچتا رہے اور اس طرح چراغ سے چراغ جلنے کا عمل جاری رہے۔ اگر ہم اس فریضہ سے سبک دوش نہ ہو سکے تو روزِ حساب اس کوتاہی اور غفلت شعاری کے بارے میں ہم سے ضرور پوچھا جائے گا۔
اگر ہم اپنے احوال پر نظر دوڑائیں تو یہ بات عام مشاہدے کی ہے کہ ہم میں سے اکثر نے مال و دولت، مکانات، کاروبار، تجارت، سرمایہ اپنے ماں باپ سے پایا اور اب اِس کوشش میں ہیں کہ اپنی اولادوں کو اس سے کئی گنا زیادہ منتقل کر کے دنیا سے جائیں۔ کتنے دکھ کی بات ہوگی کہ ایمان اور محبتِ رسول ﷺ کی وہ دولت جو ہم نے اپنے آباء و اَجداد سے زیادہ لی اور اولاد کو کم منتقل کر کے اس دنیا سے رخصت ہوں۔ اور جب ہماری اولاد اپنی اگلی نسل کے لیے مؤخر الذکر ورثہ میں اور بھی کمی کردے گی تو ان کا کیا حشر ہوگا؟ کیا ان کے پاس ایمان کی کوئی دولت رہے گی؟
آج مسلم دنیا کی دگرگوں صورت حال انتہائی پریشان کن ہے۔ عالمِ کفر و اِلحاد اور باطل کی یلغار مسلم نسلوں کو ایمان کی دولت سے محروم کرنے کی اِنتہائی کوشش کر رہی ہیں۔ اِس صورتِ حال سے نکلنے اور ایمان کی دولت محفوظ کرنے کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا اور آپ ﷺ کی سیرتِ طیبہ کی پیروی کرنا اَز بس ضروری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم شعوری طور پر یہ کوشش کریں کہ سینوں میں حضور ﷺ کی محبت کی شمع روشن رہے، اور ہم اگلی نسلوں کو محبتِ رسول ﷺ کی لازوال دولت منتقل کر سکیں۔ منتقلی کا یہ عمل کسی نہ کسی شکل میں سال بھر جاری رہتا ہے اور حضور ﷺ کی تعلیمات کا ذکر ہوتا رہتا ہے، قرآن مجید کے دروس ہوتے ہیں، حدیث شریف کا بیان بھی ہوتا ہے۔ مگر سال کے بارہ مہینوں میں ربیع الاول ایک خاص مہینہ ہے جس میں سب سے بڑھ کر حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت و عشق کا پیغام دینے کی ضرورت ہے۔ اِس مہینے میں کوئی خوش الحانی سے حسنِ سراپا رسول ﷺ کی بات کرتا ہے، کوئی آقا ﷺ کے پُر پیچ گیسوؤں کی، کوئی شہر مدینہ کے گلی کوچوں کا ذکر چھیڑ رہا ہوتاہے، کوئی گنبد خضریٰ کی سنہری جالیوں اور شہر مدینہ کی فضاؤں کے دل نشین تذکروں سے قلب و روح کے تار چھیڑتا ہے، کوئی حضرت آمنہ اور حضرت حلیمہ کے حوالے سے لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم کے مصداق حضور ﷺ کے بچپن کے احوال بیان کرتا ہے، اور کوئی چودہ سو سال پہلے شہر مکہ کی تاریخ کے اَوراق پلٹ رہا ہے۔ الغرض اس مہینے میں حضور ﷺ کی محبت کے ترانے الاپے جاتے ہیں، آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ کی بات ہوتی ہے، آپ ﷺ کا بچپن یاد کیا جاتا ہے اور سیرت الرسول ﷺ کی ترویج کے لیے خصوصی خطابات ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگلی نسلوں کو حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت کی تعلیم دینے کا اس سے مؤثر اور سنہری موقع کوئی نہیں کہ انہیں آقائے دوجہاں ﷺ کا میلاد منانے کی زیادہ سے زیادہ ترغیب دی جائے۔ ماہِ ربیع الاول میں بالخصوص اور سال کے دیگر مہینوں میں بالعموم ایسی محافلِ منعقد کی جائیں جن میں تذکارِ سیرت اور نعت خوانی کا خاص اِہتمام ہو، تاکہ نئی نسل کے قلب و روح میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ذہنی و قلبی وابستگی اور جذباتی تعلق کو فروغ ملے۔
جشنِ میلاد کے مختلف پہلوؤں میں دعوتی و تبلیغی پہلو بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جب ماہ ربیع الاول آتا ہے تو کثرت سے ایسی تقریبات منعقد ہوتی ہیں جن میں مختلف مشرب و مسلک رکھنے والے لوگوں کو شرکت کی دعوتِ عام دی جاتی ہے۔ مساجد میں محافلِ میلاد ایک اجتماع کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر مختلف تقریبات منعقد ہوتی ہیں جن میں کثرت سے حضور نبی اکرم ﷺ کے واقعاتِ سیرت اور آپ ﷺ کے اَوصافِ حمیدہ کے تعلیماتی پہلو بیان کیے جاتے ہیں، درود و سلام کے نذرانے اور گلہائے نعت آقائے دوجہاں ﷺ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں۔ سیرت کے بیان میں حضور نبی اکرم ﷺ کے اَخلاقِ حسنہ کے مختلف گوشے اُجاگر کیے جاتے ہیں اور اِطاعت و اِتباعِ رسول ﷺ پر زور دیا جاتا ہے جس سے لوگوں میں محبت و اخوت اور یگانگت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔
یہ بدیہی حقیقت ہے کہ میلاد النبی ﷺ کے اجتماعات دعوت اِلی الله اور کلمہ حق کی سربلندی کے لیے ایک بہت بڑا وسیلہ اور انتہائی مؤثر ذریعہ ہیں۔ حکمت و دانش کا تقاضا ہے کہ یہ سنہری موقع ہرگز ضائع نہ کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مبلغین اور علمائے کرام محافلِ میلاد کے پلیٹ فارم سے مصطفوی اخلاق و آداب اور سیرت طیبہ کی روشنی میں معاملات و عبادات کا درس دیں۔ میلاد کے اس مقدس مہینے میں ایسی محافل کا انعقاد جن کے ذریعے لوگوں کو سیرتِ رسول ﷺ کی طرف راغب کیا جائے اور ان کے شعور کو بیدار کیا جائے دوسرے مہینوں کے مقابلے میں یقیناً بہتر اور زیادہ نتیجہ خیز ہے۔ محافلِ میلاد میں حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ مطہرہ کے باب میں آپ ﷺ کے شمائل و فضائل اور ان پہلوؤں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے جن سے حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت اور اتباع کے جذبات فروغ پائیں اور آپ ﷺ کی تعلیمات لوگوں کے دلوں میں گھر کر جائیں۔ مکہ مکرمہ میں یہ دستور تھا کہ لوگ ہر سال مولد النبی ﷺ کی زیارت کرتے، جہاں بالاہتمام محافلِ میلاد کا انعقاد کیا جاتا جن میں خطباء سیرت مطہرہ کے مختلف پہلو بیان کرتے۔ شیخ قطب الدین حنفی رحمۃ اللہ علیہ اس ضمن میں آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہیں:
ويخرجون من المسجد إلي سوق الليل ويمشون فيه إلي محل المولد الشريف بازدحام ويخطب فيه شخص.
’’اور وہ جوق در جوق جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور ﷺ کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے۔‘‘
قطب الدين، کتاب الإعلام بأعلام بيت الله الحرام في تاريخ مکة المشرفة: 355، 356
ہر شے کی دو جہات ہوتی ہیں:
1۔ ظاہری جہت
2۔ باطنی جہت
کسی چیز کا نظر آنے والا پہلو اُس کی ظاہری جہت کہلاتا ہے جب کہ باطنی جہت کسی چیز کا وہ پہلو ہے جو ہر کس و ناکس کو نظر نہیں آتا بلکہ مخفی ہونے کی بنا پر ہمارے حواس اس کا ادراک نہیں کرسکتے۔ یہ مجرب اَمر ہے کہ جو چیز جس قدر مخفی، غیر مرئی اور غیر محسوس ہوگی وہ اُسی قدر لطیف اور زیادہ قدر و قیمت کی حامل ہوگی۔ روز مرہ زندگی میں سے اس کی مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ آپ دوقسم کے سیب لیں: ایک عام ضخیم سیب اور دوسرا سرخ پتلا سیب۔ پہلی قسم میں سوائے نفسِ سیب کے کوئی ذائقہ ملے گا نہ خوشبو، جب کہ دوسری قسم کا سیب جسے عرف عام میں ’’گولڈن سیب‘‘ کہا جاتا ہے اس میں حلاوت، ذائقہ اور خوشبو اس درجہ ہوگی کہ آپ دیر تک اُس کا ذائقہ اور حلاوت محسوس کرتے رہیں گے۔ آپ نے موازنہ کیا کہ دونوں میں کیا فرق ہے؟ بظاہر دونوں اپنی ہیئت اور شکل میں یکساں نظر آتے ہیں لیکن دونوں کے اندر موجود گودے میں مخفی حلاوت اور خوشبو۔ جو نظروں سے اوجھل ہے۔ نے ان کی قدر و قیمت میں بہت فرق پیدا کر دیا۔ بقول سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ:
کے مصداق جو چیز نظر آتی ہے وہ اس کی ضخامت ہے اور وہ اتنی قیمتی نہیں ہوتی جتنی کہ وہ چیز جو نگاہوں سے مخفی ہو یعنی لذت، حلاوت اور خوشبو۔ گویا اس کا خول اس دکھائی نہ دینے والی چیز پر پڑا ہے، جس کی اَہمیت اُس کے حجم اور ضخامت کے مقابلے میں بہ درجہا زیادہ ہے۔
دینِ اسلام کے اَحکامات کے مطابق عبادات اور اَعمالِ صالحہ بجا لانے کے باب میں حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
إنما الأعمال بالنيات.
’’بے شک اَعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب بدء الوحي، باب بدء الوحي، 1: 3، رقم:
1
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإمارة، باب قوله: إنما الأعمال بالنية، 3: 1515، رقم: 1907
3. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب فضائل الجهاد، باب ما جاء في من يقاتل رياء والدنيا،
4: 179، رقم: 1647
4. ابو داؤد، السنن، کتاب الطلاق، باب فيما عني به الطلاق والنيات، 2: 262، رقم: 2201
5. نسائي، السنن، کتاب الطهارة، باب النية في الوضوء، 1: 58، رقم: 75
6. ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب النية، 2: 1413، رقم: 4227
الله تعالیٰ نے بہ طور عبادت نماز کا حکم دیا جو تسبیح، تکبیر، رکوع، قیام و سجود اور جلسہ و قعدہ پر مشتمل ہے، اس میں قرآن مجید کی تلاوت بھی ہے، تسبیحات بھی ہیں، لیکن قبولیت کا دار و مدار نیت پر ہے جو کہ قلب و باطن کے اندر چھپی ہوئی ہے۔ اگر نیت درست ہوئی تو عبادت کا عمل قبول ہو جائے گا اور اگر نیت ہی خراب رہی تو یہ نماز دکھلاوے کی نماز ہوگی اور اس میں چاہے ہزار سجدے بھی ادا کر لیے جائیں یہ قبول نہ ہوگی۔ بقول علامہ اِقبال رحمۃ اللہ علیہ:
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو، زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
اِقبال، کليات (اُردو)، بانگِ درا: 281
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اِقبال، کليات (اُردو)، بانگِ درا: 291
اس سے معلوم ہوا کہ ریاکاری کی وجہ سے اَعمال اپنے وجود کے باوجود قبولیت نہیں پا سکتے کیوں کہ انہیں قبولیت تک پہنچانے والی چیز نیت ہے جو مخفی ہونے کی بنا پر نظر نہیں آتی۔ نہ اس کا کوئی ظاہری وجود ہے۔ اگر نیت کا قبلہ درست ہو تو ایک لمحے میں دو نفلوں کو اٹھا کر اجر میں ایک لاکھ نوافل سے زیادہ کر دے۔ یہاں غور طلب نکتہ وہ حقیقت ہے جو عبادت کو قابل قبول بناتی ہے اور اَعمالِ صالحہ کو مقبولیت کے درجے تک پہنچاتی ہے۔ یہ حقیقت اُس وقت عیاں ہوتی ہے جب ہم حصارِ دین میں داخل ہو کر ایمان کی طرف بڑھتے ہیں اور حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات سے ہماری نسبت اور ہمارا تعلق متحقق ہو جاتا ہے۔ اس تعلق اور نسبت کی بھی دو جہات ہیں: اس میں بھی ایک جہت ظاہری ہے اور دوسری باطنی ہے۔
وہ تمام اَعمالِ صالحہ اور اِطاعات و عبادات جو ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی اِتباع اور آپ ﷺ کی نسبتِ مبارکہ کی پیروی میں ادا کرتے ہیں اَعمال کی ظاہری شکل ہے۔ یہ سب کچھ جو بادی النظر میں دکھائی دیتا ہے دراَصل وجودِ اَعمال ہے جس میں ایک حقیقی رُوح کار فرما ہے جو ان کو درجۂ قبولیت تک پہنچاتی ہے، اور وہ نظر نہ آنے والی لطیف حقیقت محبتِ رسول ﷺ ہے۔
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لا يؤمن أحدکم حتي أکون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين.
’’تم میں سے کوئی شخص مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے ماں باپ، اس کی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب حب الرسول صلي الله عليه
وآله وسلم من الإيمان، 1: 14، رقم: 15
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب وجوب محبة الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، 1:
67، رقم: 44
3. نسائي، السنن، کتاب الإيمان، باب علامة الإيمان، 8: 114، 115، رقم: 5013، 5014
4. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب في الإيمان، 1: 26، رقم: 67
2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فو الذي نفسي بيده! لا يؤمن أحدکم حتي أکون أحب إليه من والده وولده.
’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین اور اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب حب الرسول صلي الله عليه
وآله وسلم من الإيمان، 1: 14، رقم: 14
2. نسائي، السنن، کتاب الإيمان، باب علامة الإيمان، 8: 114، رقم: 5015
ان احادیثِ مبارکہ سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ہمارے اَعمال میں محبتِ رسول ﷺ روح کا درجہ رکھتی ہے، اگر یہ مفقود ہو تو روح سے عاری اَعمال بے اَجر، بے ثمر اور بے کار ہو کر رہ جاتے ہیں۔ الله رب العزت کے نزدیک ان کی حیثیت پرِکاہ کے برابر بھی نہیں رہتی۔ اِس لحاظ سے محافلِ میلاد محبتِ رسول ﷺ کے اِحیاء کا مؤثر ترین ذریعہ ہیں۔ ان محافل و مجالس میں نعت اور صلوٰۃ و سلام کا جو اہتمام کیا جاتا ہے اس کے پیچھے کار فرما محرک یہی جذبہ ہوتا ہے کہ اصلِ ایماں محبتِ رسول ﷺ ماند پڑ جانے والی حرارت کو پھر سے شعلہ بنایا جائے اور حضور ﷺ کی محبت کا چراغ پھر سے مومنوں کے دلوں میں روشن کیا جائے۔ اِسی طرح فرمودۂ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
در دلِ مسلم مقامِ مصطفیٰ است
آبروی ما ز نامِ مصطفیٰ است
اِقبال، کليات (فارسي)، اَسرار و رُموز: 38
(مسلمان کے دِل میں مقامِ مصطفیٰ ﷺ نے گھر کر رکھا ہے، ہماری عزت و آبرو آپ ﷺ کے نام سے ہی ہے۔)
کا منشاء پورا ہو سکتا ہے ورنہ ہماری دین داری تو محض ایک رسم بن کر رہ گئی ہے۔ جب کہ عہد صحابہ و تابعین و تبع تابعین میں ایسی کوئی صورتِ حال کار فرما نہ تھی۔ انہیں اپنی کشتِ ایمان کو حوادثِ زمانہ کی دست برد سے بچانے کی ایسی ضرورت نہ تھی جس طرح آج ہمیں درپیش ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اَحوالِ محبت جو کتبِ حدیث میں محفوظ ہیں وہ ان عاشقانِ زار کی وارفتگیء محبت پر شاہد عادل ہیں۔ اَربابِ سیرت نے لکھا ہے کہ ان عشاقانِ مصطفیٰ ﷺ کی محبتِ رسول ﷺ ایسی متاعِ گراں بہا تھی کہ اگر اسے ساری کائنات میں تقسیم کر دیا جائے تو پھر بھی قیامت تک کم نہ پڑے۔ لہٰذا آج کے دورِ فتن میں ہمارے ایمان کو ہر جہت سے خطرات لاحق ہیں اور طاغوتی یلغار کئی محاذوں پر سرگرم عمل ہے۔ آج ایمان کی حفاطت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم شعوری کوشش کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت اپنی اولادوں کو منتقل کریں۔ منتقلی کا یہ عمل جو سال کے گیارہ مہینے تعلیماتِ نبوی ﷺ اور دروسِ قرآن کی شکل میں جاری رہتا ہے اس سلسلے کو ربیع الاول کے ماہِ مبارک میں خصوصی توجہ سے مہمیز کر کے آگے بڑھائیں تاکہ عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا نقش ہمارے قلوب پر ’’کالنقش فی الحجر‘‘ کی طرح ثبت ہو جائے۔
واقعاتِ میلاد النبی ﷺ کی سماعت سے روحانیت کو فروغ ملتا ہے۔ محافل و مجالسِ میلاد سے اِنسان کی روحانی اَقدار تقویت پاتی ہیں۔ اس لیے ان تقریبات میں یہ بات خصوصیت کے ساتھ پیش نظر رہے کہ ماہِ ربیع الاول کی سعید ساعتوں میں حضور نبی اکرم ﷺ کے زیادہ سے زیادہ روحانی فیوضات سے بہرہ ور ہونے کی شعوری کوشش کی جائے اور مشکل مہماتی اُمور میں حضور نبی رحمت ﷺ کا وسیلہ اختیار کیا جائے، تاہم اگر اس موقع پر میلاد منانے کے قابلِ اعتراض پہلوؤں پر سخت گرفت نہ کی جائے اور انہیں برقرار رہنے دیا جائے تو ہم یقیناً میلاد کے فیوض و برکات سے محروم رہیں گے۔ لہٰذا ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ جشنِ میلاد النبی ﷺ مناتے ہوئے طہارت و نفاست اور پاکیزگی کا کما حقہ خیال رکھا جائے۔ اِس حوالہ سے یہ اَمر دل و دماغ میں مستحضر رہنا چاہیے کہ جشنِ میلاد کے موقع پر محافل کے اِنعقاد، صدقہ و خیرات اور قربانی و ایثار کے پیچھے صرف الله تعالی اور اس کے حبیب ﷺ کی رضا و خوش نودی کے حصول کا جذبہ کارفرما ہو۔ احادیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں درود و سلام اور اُمتیوں کے نیک و بد اَعمال بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ صالح اَعمال پر سرکارِ دو جہاں ﷺ خوشی کا اظہار فرماتے ہیں اور بدی و گناہ کی باتوں پر ناراضگی اور اَفسوس کا اِظہار کرتے ہیں۔ (1) ہم جو میلاد کی خوشیاں مناتے ہیں وہ بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ اگر محافلِ میلاد کی تقریبات صدق و اخلاص پر مبنی ہوں تو وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں پذیرائی اور مسرت کا باعث بنتی ہیں اور الله تعالی بھی اپنے حبیب ﷺ کی محبت کی خاطر کی جانے والی کوششوں کو شرفِ قبولیت سے نوازتا ہے۔
1. بزار، البحر الزخار (المسند)، 5: 308، 309، رقم: 1925
2۔ ابن ابی اسامۃ نے اِسے صحیح سند کے ساتھ ’’مسند الحارث (2: 884، رقم: 953)‘‘ میں روایت کیا ہے۔
3. حکيم ترمذي، نوادر الأصول في أحاديث الرسول صلي الله عليه
وآله وسلم ، 4: 176
4. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 1: 183، رقم: 686
5. قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفيٰ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1: 19
6۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (9: 24)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ حدیث بزار نے روایت کی ہے اور اِس کے تمام رجال صحیح ہیں۔
7. ابن کثير، البداية والنهاية، 4: 257
8۔ ابو الفضل عراقی نے اپنی کتاب ’’طرح التثریب فی شرح التقریب (3: 297)‘‘ میں اس روایت کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔
اخلاصِ عمل کے باب میں شاہ ولی الله محدث دہلوی (1114۔ 1174ھ) نے اپنے والد گرامی شاہ عبدالرحیم (1054۔ 1131ھ) کے معمول کے بارے میں جو لکھا ہے وہ ہمارے لیے چشم کشا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اُن کے والد ہر سال حضور ﷺ کے میلاد کے موقع پر کھانے کا اہتمام کرتے تھے، لیکن ایک سال (بوجہ عسرت شاندار) کھانے کا اہتمام نہ کر سکے، تو کچھ بھنے ہوئے چنے لے کر میلاد کی خوشی میں لوگوں میں تقسیم کر دیے۔ رات کو اُنہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضور ﷺ کے سامنے وہی چنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ ﷺ خوش و خرم تشریف فرما ہیں۔
شاه ولي الله ، در الثمين في مبشرات النبي الأمين صلي الله عليه وآله وسلم: 40
لہٰذا ہمیں جشنِ میلاد النبی ﷺ مناتے ہوئے اخلاص و للہیت کو مد نظر رکھنا چاہیے اور ہر اُس عمل سے بچنا چاہیے جو آقائے دو جہاں ﷺ کی دل آزاری کا باعث بنے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved