محافلِ میلاد النبی ﷺ کا ایک اَہم جزو بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں ہدیہ صلوٰۃ و سلام پیش کرنا ہے۔ صلوٰۃ و سلام ایک منفرد عمل ہے جو مقبولِ بارگاہِ اِلٰہی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ کے قرب و رضا کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ فوری اَثرات و نتائج کے حامل اَعمال میں اِسے خاص اَہمیت حاصل ہے کیوں کہ یہ عمل اللہ رب العزت اور ملائکہ کی سنت ہے۔ وہ ہمہ وقت محبوبِ رب العالمین ﷺ پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ جملہ اہلِ ایمان کو بھی صلوٰۃ و سلام بھیجنے کا حکمِ خداوندی ہے۔ اِس حکم کے تحت محبوبِ کائنات ﷺ پر ہمہ وقت درود و سلام بھیجنا اہلِ ایمان کا وظیفۂ حیات ہے۔ جب آمدِ مصطفیٰ ﷺ کا دن آتا ہے تو اہلِ محبت کے درود و سلام پر مشتمل اِس عملِ خیر میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور ہر طرف صَلِّ علٰی کے نغمے گونجتے سنائی دیتے ہیں۔
1۔ حضور ﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجنا اللہ تعالیٰ کی سنت اور حکم ہے۔ اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO
’’بے شک اللہ اور اُس کے (سب) فرشتے نبيِّ (مکرمّ ﷺ ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔ ‘‘
الأحزاب، 33: 56
صلوٰۃ و سلام کا قرآنی حکم مطلق ہے، عملِ درود و سلام ایک ایسی عبادت ہے جس میں وقت، جگہ یا کیفیت کی کوئی پابندی نہیں۔ آپ کسی بھی حالت میں، بیٹھ کر، لیٹ کر یا کھڑے ہو کر درود و سلام پڑھ سکتے ہیں۔ جس طرح آپ اِسے محفلِ میلاد سے باہر پڑھ سکتے ہیں اُسی طرح محفلِ میلاد میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ حالتِ قیام میں سلام پڑھنا زیادہ فضیلت کا حامل ہے کیوں کہ یہ کمالِ اَدب و اِحترام پر دلالت کرتا ہے۔ سورۃ الاحزاب کی مذکورہ آیت کے لفظ تسلیمًا کے ذریعے بارگاہِ مصطفیٰ ﷺ میں سلام پیش کرنے کے آداب ہی سکھائے جا رہے ہیں۔ صلوٰۃ بھیجنا سنتِ الٰہیہ ہے۔ انسانی ماحول، ضرورت اور زمانے کے تغیرات سے اَحکام میں تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے مگر سنتِ اِلٰہیہ میں تبدیلی نہیں ہوتی، الله تعالیٰ کی اس سنت کو اَبدی، دائمی اور آفاقی قانون کا درجہ حاصل رہتا ہے جو ہردور میں بعینہ ایک ہی شکل میں قائم و برقرار رہتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلًا.
’’سو آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ ‘‘
فاطر، 35: 43
اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اپنے محبوب ﷺ کی تعظیم و توقیر کا بڑی تاکید سے حکم فرمایا ہے:
لِتُؤْمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ.
’’تاکہ (اے لوگو!) تم الله اور اس کے رسول ( ﷺ ) پر ایمان لاؤ اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) الله کی صبح و شام تسبیح کرو۔ ‘‘
الفتح، 48: 9
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بارگاہِ مصطفیٰ ﷺ میں اپنی آوازیں پست رکھنے کاحکم دیاگیا، اِرشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَO
’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبی (مکرّم ﷺ ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اَعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اَعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو۔ ‘‘
الحجرات، 49: 2
پس جس طرح تعظیم و توقیر مصطفیٰ ﷺ کا حکم ہے اسی طرح آپ ﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہوئے ادب و احترام ضروری اَمر ہے۔
قرآن حکیم کی رُو سے سلام کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ قرآن حکیم نے ان واقعات اور مواقع کا ذکر کیا ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ انبیاء اور صلحاء پر سلام بھیجا۔ ایسی آیات کریمہ سے سلام کی اہمیت کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے:
1۔ میلادِ یحییٰ علیہ السلام پر سلام کے حوالے سے ارشاد فرمایا:
وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّاO
’’اور یحییٰ پر سلام ہو اُن کے میلاد کے دن اور اُن کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔ ‘‘
مريم، 19: 15
2۔ اللہ تعالیٰ نے کلام کی نسبت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف کرتے ہوئے فرمایا:
وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّاO
’’اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن اور میری وفات کے دن اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ ‘‘
مريم، 19: 33
ان آیاتِ کریمہ سے انبیاء کرام علیہم السلام کے اَیامِ ولادت و بعثت اور وفات پر سلام کے تناظر میں حضور نبی اکرم ﷺ کے یومِ ولادت کے موقع پر سلام پڑھنے کی اَہمیت کا اظہار ہوتا ہے۔
3. تمام انبیاء اور رُسل علیہم السلام پر من حیث المجموع سلام بھیجتے ہوئے اِرشاد فرمایا:
وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ
’’اور سلام ہو پیغمبروں پر۔‘‘
الصافات، 37: 181
4۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو اپنی حمد اور اپنے برگزیدہ بندوں پر سلام بھیجنے کا حکم فرمایا:
قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى.
’’فرما دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور اس کے منتخب (برگزیدہ) بندوں پر سلامتی ہو۔‘‘
النحل، 27: 59
قرآن حکیم نے انبیاء کرام علیہم السلام کا یہ طریقہ اور سنت بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنے پاس بہرِ ملاقات آنے والے ہر فرد کو سلام کہتے۔ ذیل میں چند آیات بطور نمونہ دی جاتی ہیں:
5. وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَيْكُمْ.
’’اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ (ان سے شفقتًا) فرمائیں کہ تم پر سلام ہو۔‘‘
الأنعام، 6: 54
6. وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْراهِيمَ بِالْبُـشْرَى قَالُواْ سَلاَمًا.
’’اور بے شک ہمارے فرستادہ فرشتے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس خوش خبری لے کر آئے انہوں نے سلام کیا (ابراہیم علیہ السلام نے بھی جواباً) سلام کیا۔‘‘
هود، 11: 69
7. إِذْ دَخَلُواْ عَلَيْهِ فَقَالُواْ سَلاَمًا قَالَ إِنَّا مِنكُمْ وَجِلُونَO
’’جب وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے تو انہوں نے (آپ کو) سلام کہا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ ہم آپ سے کچھ ڈر محسوس کررہے ہیں۔ ‘‘
الحجر، 15: 52
8۔ ایمان والوں کو گھر میں داخل ہونے پر سلام کرنے کا حکم دیا گیا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَO
’’اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لیے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کرو۔ ‘‘
النور، 24: 27
9. فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰی اَنْفُسِکُمْ تَحِيَّة مِّنْ عِنْدِ اللهِ مُبٰرَکَة طَيِّبَة.
’’پھر جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے (گھر والوں) پر سلام کہا کرو (یہ) اللہ کی طرف سے بابرکت پاکیزہ دعا ہے۔‘‘
النور، 24: 61
10۔ لیلۃ القدر میں جب جبرئیل امین علیہ السلام لاکھوں فرشتوں کے جلو میں سطح زمین پر نزول کرتے ہیں تو طلوعِ فجر تک ان کا سلسلۂ سلام جاری رہتا ہے۔ سورۃ القدر میں ہے:
تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍO سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِO
’’اس(رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرئیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر اَمر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے۔ ‘‘
القدر، 97: 4، 5
اس رات سپیدۂ سحر نمودار ہونے تک ہر طرف سے سلام کی صدائیں آتی رہتی ہیں۔
11۔ جب اہلِ ایمان کی میدانِ حشر میں آمد ہوگی تو حضور نبی اکرم ﷺ کے صدقے ان کی آپس میں ملاقات اور الله تعالیٰ کی طرف سے ان کا استقبال سلام سے ہوگا۔ ارشاد خداوندی ہے:
سَلَامٌ قَوْلًا مِن رَّبٍّ رَّحِيمٍO
’’(تم پر) سلام ہو، (یہ) ربِ رحیم کی طرف سے فرمایا جائے گا۔ ‘‘
يٰس، 36: 58
12. تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ.
’’جس دن وہ اس سے ملیں گے ان (کی ملاقات) کا تحفہ سلام ہوگا۔‘‘
الأحزاب، 33: 44
جب اللہ سے ملاقات اور دیدارِ الٰہی کے لیے انہیں بلایا جائے گا تو اس دن سلام کا خاص تحفہ ان کی نذر کیا جائے گا، یہ سلام لمحاتِ وصل کا خصوصی تحفہ اور اَرمغانِ خاص ہوگا۔
13۔ اللہ بزرگ و برتر نے اپنے برگزیدہ بندوں پر سلام بھیجنے کو بہت اہمیت دی ہے۔ قیامت کے دن جب وہ بارگاہِ خداوندی میں حاضر ہوں گے اور انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا تو وہاں پر ان کا استقبال اللہ رب العزت کی طرف سے کلماتِ سلام سے کیا جائے گا۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس کا ذکر ہے:
وَنَادَوْاْ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلاَمٌ عَلَيْكُمْ.
’’اور وہ اہلِ جنت کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔‘‘
الأعراف، 7: 46
14. جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالْمَلاَئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍO سَلاَمٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِO
’’(جہاں) سدا بہار باغات ہیں ان میں وہ لوگ داخل ہوں گے اور ان کے آباء و اَجداد اور ان کی بیویاں اور ان کی اولاد میں سے جو بھی نیکوکار ہوگا اور فرشتے ان کے پاس (جنت کے) ہر دروازے سے آئیں گے (انہیں خوش آمدید کہتے اور مبارک باد دیتے ہوئے کہیں گے)۔ تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کرنے کے صلہ میں، پس (اب دیکھو) آخرت کا گھر کیا خوب ہے۔ ‘‘
الرعد، 13: 23، 24
15. الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَآئِكَةُ طَيِّبِينَ يَقُولُونَ سَلاَمٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُواْ الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَO
’’جن کی روحیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ (نیکی و اِطاعت کے باعث) پاکیزہ اور خوش و خرم ہوں (ان سے فرشتے قبضِ روح کے وقت ہی کہہ دیتے ہیں: ) تم پر سلامی ہو تم جنت میں داخل ہو جاؤ اُن (اَعمالِ صالحہ) کے باعث جو تم کیا کرتے تھے۔ ‘‘
النحل، 16: 32
16. فَسَلَامٌ لَّكَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِO
’’تو (اس سے کہا جائے گا: ) تمہارے لئے دائیں جانب والوں کی طرف سے سلام ہے (یا اے نبی! آپ پر اَصحابِ یمین کی جانب سے سلام ہے)۔ ‘‘
الواقعة، 56: 91
اس مضمون سے جس چیز کی وضاحت مقصود ہے اور جس نکتے پر زور دینا مطلوب ہے وہ سلام کی اَہمیت و خصوصیت سے متعلق ہے۔ سلام کو عام کرنے کا عمل اللہ تعالیٰ، جبرئیل علیہ السلام اور تمام ملائکہ کی سنت ہے۔ شبِ قدر میں آسمانوں کی بلندیوں سے فرشتوں کا روئے زمین پر نزولِ اِجلال ساکنانِ عالمِ بالا کا معمول ہے۔ مومنین اور مقبولانِ الٰہی کا جنت میں داخلہ سلام سے ہوگا اور لقائے الٰہی کے وقت صالح اور نیکوکار بندوں کا اِستقبال بھی سلام کے تحفے سے کیا جائے گا۔ اَنبیاء کرام علیہم السلام کا معمول رہا ہے کہ اپنی ولادت کے دن کے حوالے سے ان کی زبانوں پر قرآن حکیم کے ارشاد کے مطابق وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ کے کلمات تھے۔ یہ اِرشادِ خداوندی سلام کی خصوصی اَہمیت و معنویت پر دلالت کرتا ہے۔
قرآن حکیم کے درجِ ذیل اِرشاد پر عمل کے اعتبار سے بعض ذہنوں میں مغالطہ پایا جاتا ہے:
اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO
’’بے شک اللہ اور اُس کے (سب) فرشتے نبيِّ (مکرمّ ﷺ ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔ ‘‘
الأحزاب، 33: 56
اللہ رب العزت کا یہ فرمان اہل ایمان کے نام پیغام ہے۔ اللہ رب العزت نے صلوٰۃ اور سلام میں فرق اور امتیاز کیا ہے، بعض لوگ سلام کے تصور یا سلام کے جداگانہ تشخص پر اعتراض کرتے ہیں اور تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سلام پہلے ہی صلوٰۃ (درودِ ابراہیمی) میں شامل کردیا گیا ہے، جیسا کہ مذکور ہے:
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرٰهِيْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرٰهِيْمَ انَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.
ان کے نزدیک سلام، صلوٰۃ ہی کا حصہ ہے۔ اس لیے اس کی علیحدہ سے کوئی ضرورت نہیں۔ یہ نقطۂ نظر درست نہیں کیوں کہ سلام، صلوٰۃ کا حصہ ہونے کے باوجود ایک جداگانہ تشخص رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں دو باتوں کا حکم دیا ہے:
1۔ صَلُّوا عَلَيْهِ (تم ان پر درود بھیجا کرو)
2۔ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (اور خوب سلام بھیجا کرو)
یہاں باری تعالیٰ نے صلوۃ و سلام دونوں کا الگ الگ بیان فرمایا ہے لہٰذا جس طرح دو الگ الگ حکم ہیں ان کی تعمیل کے تقاضے بھی الگ الگ ہیں، اور آپ ﷺ کی بارگاہِ میں صلوٰۃ و سلام دونوں کے نذرانے پیش کیے جائیں گے۔
درج ذیل پہلوؤں سے سلام کی اہمیت مزید اجاگر ہوتی ہے:
سلام کی اہمیت اِس قدر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کی قبولیت کا انحصار سلام پر ہے۔ قرآن حکیم فرماتا ہے:
سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَO وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَO وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَO
’’آپ کا رب جو عزت کا مالک ہے اُن (باتوں) سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ اور (تمام) رسولوں پر سلام ہو۔ اور سب تعریفیں الله ہی کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔ ‘‘
الصافات، 37: 180 - 182
اِن آیات میں اللہ رب العزت اپنی تعریف و تحمید میں مشغول بندوں سے فرما رہا ہے کہ میری ذات تمہاری تعریفوں کی حد اور گنجائش سے کہیں بلند و برتر ہے۔ تم میری تعریف اور مدح و ستائش کا حق ادا ہی نہیں کرسکتے۔ میری عظمت اور بزرگی کا ادراک تمہارے بس کی بات نہیں۔ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری تعریفیں مجھ تک رسائی پاسکیں اور تمہاری حمدیں میری بارگاہ میں شرف قبولیت سے نوازی جائیں تو اس کے لیے تمہیں میرے پیغمبروں پر سلام بھیجنا ہوگا۔ سلام ہی ذریعۂ مدح و ستائش ہے۔ جب تک انبیاء و رسل کے واسطۂ سلام کو درمیان میں نہ لایا جائے گا تب تک تمہاری تعریفوں اور حمدوں کی رسائی مجھ تک نہ ہوسکے گی۔ سو مجھ تک رسائی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ’’سلام علی المرسلین‘‘ یعنی انبیاء و مرسلین پر سلام بھیجنے سے مشروط ہے۔ تمہارا پیغمبروں پر سلام بھیجنا رافعِ حمد بن جائے گا اس لیے کہ ان پر بھیجا ہوا سلام ہمیشہ قابلِ قبول ہوتا ہے۔ صلوۃ اور سلام کی معیت میں آئی ہوئی حمد کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں اور وہ ہمیشہ میری بارگاہ تک رسائی حاصل کر لیتی ہے۔
نماز میں تشہد کا آغاز کلماتِ حمد سے کیا جاتا ہے۔ اِس کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ پر سلام بھیجا جاتا ہے۔ بعد ازاں شہادت ہے جس میں توحید اور رِسالت کی گواہی دی جاتی ہے، پھر آپ ﷺ پر درود اور آخر میں دعا ہے۔ اِس طرح حالتِ تشہد میں دعا کے ساتھ نماز کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اگر تجزیہ کیا جائے تو پورے تشہد میں کل چار چیزیں ہوتی ہیں:
1۔ حمد: تشہد کا حصۂ اَوّل خالصتاً اللہ تعالیٰ کی تعریف کے لیے وقف ہے:
اَلتَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّيِّبَاتُ
2۔ سلام: دوسرا حصہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اَقدس پر سلام کے لیے مختص ہے:
اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَکَاتُه
اِس طرح ایک حصہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے اور ایک حصہ حضور نبی اکرم ﷺ کے لیے خاص ہے۔
3۔ شہادت: تیسرا حصہ شہادت ہے جو اللہ اور رسول ﷺ کے لیے مشترک ہے:
اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَرَسُوْلُه
اِس میں نصف حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے اور نصف حصہ رسول اللہ ﷺ کے لیے ہے۔
4۔ صلوٰۃ: چوتھا حصہ صلوٰۃ ہے جو خالصتاً رسول اللہ ﷺ کے لیے ہے:
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرٰهِيْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرٰهِيْمَ انَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ. اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرٰهِيْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرٰهِيْمَ انَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.
چنانچہ تشہد کے اَجزائے ترکیبی کا تناسب جو اللہ تعالیٰ کو مقبول ہے یہ ہے کہ عبادت کا اڑھائی حصہ رسول اللہ ﷺ پر درود وسلام کے لیے خاص ہے جبکہ ڈیڑھ حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے لیے خاص ہے۔ اِس کے ساتھ جب دعا کو ملایا جائے تو ہماری نماز اور دعا قبول ہوتی ہے۔ تکمیلِ صلوٰۃ کے بعد خروج عن الصلوٰۃ کے لیے بھی سلام ہی کفایت کرتا ہے، اِس لیے کہ نماز کو عملِ سلام پر ہی ختم کیا جائے گا:
اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ
اور یہ سلام حضور نبی اکرم ﷺ کے علاوہ آپ ﷺ کی اُمت کے اَولیاء و صالحین، مومنین اور تمام اَفرادِ اُمت کے لیے ہے۔ گویا ہر طرف سلام ہی سلام ہے۔
اس بحث سے سلام کی اہمیت اور اس کے بارے میں تاکید کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہم سلام سے کیسے گریز کر سکتے ہیں؟
حضور نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو اَز راہِ ہدایت تلقین فرمائی ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں صلوٰۃ کے بعد آپ ﷺ پر سلام بھیجتے رہیں۔
حضرت علی بن حسین رضی الله عنہما اپنے جد امجد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
وصلّوا عليّ وسلّموا حيثما کنتم، فَسَيَبْلُغُنِي سلامکم وصلاتکم.
’’اور تم جہاں بھی ہو مجھ پر درود و سلام بھیجتے رہا کرو، تمہارے درود و سلام مجھ تک (خود) پہنچتے ہیں۔‘‘
1. ابن اسحاق أزدي، فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله
وسلم: 35، رقم: 20
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 367، رقم: 8790
3. ابن أبي شيبة، المصنف، 2: 150، رقم: 7542
4۔ ابن کثیر کی ’تفسیر القرآن العظیم (3: 515)‘ میں بیان کردہ روایت میں فَسَيَبْلُغُنِی
کی بجائے فَتَبْلُغُنِی کا لفظ بیان کیا گیا ہے۔
5۔ عسقلانی نے بھی ’’لسان المیزان (2: 106)‘‘ میں فَتَبْلُغُنِی کا لفظ ذکر کیا ہے۔
6۔ ہندی نے ’کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال (1: 498، رقم: 2199)‘‘ میں لکھا ہے
کہ اِسے حکیم ترمذی نے روایت کیا ہے۔
اِس حدیث شریف میں دو باتوں کی تلقین کی گئی ہے: ایک صلوٰۃ اور دوسرا سلام لہٰذا جب حضور ﷺ کا واضح اِرشاد ہے کہ ’’مجھ پر درود پڑھو اور سلام بھیجو‘‘ تو پھر ہم اِنہیں کیسے ایک تصور کر سکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ اپنے نام لیواؤں کو یہی تلقین فرمائی کہ مجھ پر صلوٰۃ اور سلام بھیجا کرو۔
اُمتی کا یہ نذرانہ بارگاہِ سرورِ کونین ﷺ میں مختلف طریقوں سے پہنچتاہے جس کا ثبوت متعدد احادیث سے ملتا ہے۔ ذیل میں ہم اُن اَحادیث مبارکہ کو متعلقہ عنوانات کے تحت بیان کر رہے ہیں:
یہ تاجدارِ کائنات ﷺ کے خصائص میں سے ہے کہ اُمتی جہاں کہیں بھی ہوں اُن کی طرف سے پیش کیا جانے والا درود و سلام بلاواسطہ خود بارگاہِ مصطفیٰ ﷺ میں پہنچتا ہے۔ اس کے لیے احادیث میں تَبْلُغُنِی، فَتَبْلُغُنِی، يَبْلُغُنِی، فَسَيَبْلُغُنِی وغیرہ جیسے اَلفاظ وارد ہوئے ہیں، جو لغوی اعتبار سے معروف کے صیغے ہیں مجہول کے نہیں، اور اِن صیغوں کا فاعل خود صلا تکم اور سلامکم ہے، جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات سے ظاہر ہے:
1. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
صلّوا عليّ، فإنّ صلاتکم تَبلُغُنِي حيث کنتم.
’’مجھ پر درود بھیجتے رہو، بے شک تمہاری طرف سے بھیجے گئے درود (خود) مجھ تک پہنچتے ہیں خواہ تم کہیں بھی ہو۔‘‘
1. أبوداؤد، السنن، کتاب المناسک، باب زيارة القبور، 2: 176،
رقم: 2042
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 367
3. ابن أبي شيبة، المصنف، 2: 150، رقم: 7542
4. طبراني، المعجم الأوسط، 8: 82، 83، رقم: 8030
5. بيهقي، شعب الإيمان، 3: 491، رقم: 4162
6. مقريزي، إمتاع الأسماع بما للنبي صلي الله عليه وآله وسلم من الأحوال والأموال والحفدة
والمتاع، 11: 59، 71
7. ابن قيم، جلاء الأفهام في الصلاة والسلام علي خير الأنام صلي الله عليه وآله وسلم:
42، رقم: 61
8. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3: 514
9. عسقلاني، فتح الباري، 6: 488
2۔ حضرت علی بن حسین اپنے دادا حضرت علی رضی اللہ عنھم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
فإن تسليمکم يَبْلُغُنِي أين ما کنتم.
’’پس تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارے سلام مجھ تک (خود) پہنچتے ہیں۔‘‘
1. أبو يعلي، المسند، 1: 361، رقم: 469
2. مقدسي، الأحاديث المختارة، 2: 49، رقم: 428
3. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 4: 3
4. عسقلاني، لسان الميزان، 2: 106
3۔ سیدنا حسن بن علی رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
صلّوا عليّ وسلّموا، فإن صلا تکم وسلامکم يَبْلُغُنِي أين ما کنتم.
’’مجھ پر درود و سلام بھیجتے رہا کرو، بے شک تمہارے درود و سلام (خود) مجھ تک پہنچتے ہیں اگرچہ تم جہاں بھی ہو۔‘‘
1. أبو يعلي، المسند، 12: 131، رقم: 6761
2. ابن قيم، جلاء الأفهام في الصلاة والسّلام علي خير الأنام صلي الله عليه وآله وسلم:
42، رقم: 60
4۔ سیدنا حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنھم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
حيثما کنتم فصلّوا عليّ، فإن صلا تکم تَبْلُغُنِي.
’’تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود بھیجتے رہا کرو، بے شک تمہارے درود مجھ تک پہنچتے ہیں۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 3: 82، رقم: 2729
2۔ احمد بن حنبل نے ’’المسند (2: 367)‘‘ میں ان الفاظ کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت لی ہے۔
3۔ طبرانی نے ’’المعجم الاوسط (1: 238، رقم: 367)‘‘ میں راوی کا نام حسین بن حسن بن
علی رضی اللہ عنھم لکھا ہے۔
4۔ عبد الرزاق نے ’’المصنف (3: 577، رقم: 6726)‘‘ میں اسے ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ
روایت کیا ہے۔
5. دولابي، الذرية الطاهرة: 73، رقم: 199
6۔ منذری نے ’’الترغیب والترہیب من الحدیث الشریف (2: 362)‘‘ میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں حسن اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے۔
7. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 10: 162
8. ابن قيم، جلاء الأفهام في الصلاة والسّلام علي خير الأنام صلي الله عليه وآله وسلم:
42، رقم: 61
5۔ سیدنا حسن بن حسین رضی اللہ عنہما ہی روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
وصلّوا عليّ، فإن صلا تکم تَبْلُغُنِي حيثما کنتم.
’’اور مجھ پر درود بھیجتے رہا کرو، بے شک تمہارے درود (خود) مجھ تک پہنچتے ہیں اگرچہ تم جہاں بھی ہو۔‘‘
1. ابن إسحاق أزدي، فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله
وسلم: 45، رقم: 30
2. ابن أبي شيبة، المصنف، 2: 150، رقم: 7543
3۔ عبد الرزاق نے ’المصنف (3: 17، رقم: 4839)‘ میں یہ روایت حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے نقل کی ہے۔
درود شریف وہ مقبول ترین اور پاکیزہ عمل ہے جس میں ربِ کائنات بھی اپنے ملائکہ اور بندوں کے ساتھ شریک ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب گرامی ﷺ کو یہ خصوصیت عطا فرمائی ہے کہ آپ ﷺ اپنے اُمتیوں کا درود و سلام سُنتے ہیں۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
أکثروا الصلاة علي يوم الجمعة، فإنه يوم مشهود تشهده الملائکة، ليس من عبد يصلي عليّ إلا بلغنی صوته حيث کان.
’’جمعہ کے روز مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو، بے شک جمعہ کا دن یومِ مشہود ہے (کیوں کہ) اس میں ملائکہ حاضر ہوتے ہیں۔ جو آدمی مجھ پر درود پڑھے اس کی آواز مجھ تک پہنچتی ہے خواہ وہ کسی بھی جگہ پڑھے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: یا رسول الله صلی الله علیک وسلم! کیا آپ کی وفات کے بعد بھی ہم یہ عمل جاری رکھیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
وبعد وفاتي، إن الله عزوجل حرّم علي الأرض أن تأکل أجساد الأنبياء.
’’(ہاں) میری وفات کے بعد بھی (تم یہ عمل جاری رکھو)، بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر اَنبیاء کے جسموں کو کھانا حرام کر دیا ہے۔‘‘
1۔ ابن قیم نے ’’جلاء الافہام فی الصلاۃ والسّلام علی خیر الانام ﷺ (ص: 63، رقم: 108)‘‘ میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔
2. هيتمي، الدرّ المنضود في الصلاة والسّلام علي صاحب المقام المحمود صلي الله عليه وآله وسلم: 155، 156
3۔ سخاوی نے ’’القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع (ص: 158، 159)‘‘ میں کہا ہے کہ اِسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔
4. نبهاني، حجّة الله علي العالمين في معجزات سيّد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم: 713
اِس حدیث مبارکہ میں بَلَغَنِی صَوتُہُ کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی فرشتہ صلوٰۃ و سلام حضور ﷺ کی بارگاہ تک نہیں پہنچاتا بلکہ آپ ﷺ خود بلاواسطہ درود و سلام پڑھنے والے کی آواز سماعت فرماتے ہیں۔ اس میں دور و نزدیک کی قید ہے نہ کسی کا پہنچانا شرط ہے بلکہ خود حضور ﷺ کا سننا ثابت ہے۔ اَعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان (1272۔ 1340ھ) نے کیا خوب کہا ہے:
دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کانِ لعلِ کرامت پہ لاکھوں سلام
احمد رضا خان، حدائقِ بخشش، 2: 206
ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ جو آپ ﷺ پر نزدیک سے درود بھیجتے ہیں، دور سے درود بھیجتے ہیں اور بعد میں آنے والے بھی بھیجیں گے، کیا یہ سب درود آپ ﷺ کو پیش کیے جاتے ہیں؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
أسمع صلاة أهلِ محبتي وأعرفهم.
’’میں اہلِ محبت کا درود خود سنتا ہوں اور اُنہیں پہچانتا (بھی) ہوں۔‘‘
1. جزولي، دلائل الخيرات وشوارق الأنوار في ذکر الصلاة علي
النّبي المختار صلي الله عليه وآله وسلم: 18
2. فاسي، مطالع المسرّات بجلاء دلائل الخيرات وشوارق الأنوار في ذکر الصلاة علي النبي
المختار صلي الله عليه وآله وسلم: 81
اِس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ اہلِ محبت کا درود نہ صرف خود سُنتے ہیں بلکہ بھیجنے والوں کو پہچانتے بھی ہیں، اگرچہ وہ دور کسی مقام پر اور بعد کے کسی زمانے میں ہی کیوں نہ ہوں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نہ صرف اُمت کی طرف سے بھیجا جانے والا درود و سلام سُنتے ہیں بلکہ اس کا جواب بھی مرحمت فرماتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ما من أحد يسلّم عليّ إلا ردّ الله عليّ روحي، حتي أردّ عليه السّلام.
’’جب کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح واپس لوٹا دیتا ہے، یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘
1. أبوداود، السنن، کتاب المناسک، باب زيارة القبور، 2: 175،
رقم: 2041
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 527
3. طبراني، المعجم الأوسط، 4: 84، رقم: 3116
4. بيهقي، السنن الکبري، 5: 245
5. بيهقي، شعب الإيمان، 2: 217، رقم: 1581
6. منذري، الترغيب و الترهيب من الحديث الشريف، 2: 362، رقم: 2573
7. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 10: 162
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروِی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
ما من مسلم سلّم عليّ في شرق ولا غرب، إلا أنا وملائکة ربّي نردّ عليه السّلام.
’’مشرق و مغرب میں جو مسلمان بھی مجھ پر سلام بھیجتا ہے میں اور میرے رب کے فرشتے اُس کے (بھیجے ہوئے) سلام کا جواب دیتے ہیں۔‘‘
1. أبو نعيم، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 6: 349
2. مقريزي، إمتاع الأسماع بما للنبي صلي الله عليه وآله وسلم من الأحوال والأموال والحفدة
والمتاع، 11: 59
3. ابن قيم، جلاء الأفهام في الصلاة والسلام علي خير الأنام صلي الله عليه وآله وسلم:
19، رقم: 20
4. سخاوي، القول البديع في الصلاة علي الحبيب الشفيع صلي الله عليه وآله وسلم: 156
حضور نبی اکرم ﷺ کی شان ہے کہ خود بھی اپنے غلاموں کا درود و سلام سنتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ فرشتے اَدباً حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں آپ ﷺ کی اُمت کا سلام پہنچاتے ہیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبیء اکرم ﷺ نے فرمایا:
من صلي عليّ في يوم الجمعة و ليلة الجمعة مائة مرة، قضي الله له مائة حاجة: سبعين من حوائج الآخرة وثلاثين من حوائج الدنيا، ثم يوکّل الله بذالک ملکًا يدخله في قبري کما يدخل عليکم الهدايا، يخبرني من صلي عليّ باسمه ونسبه إلي عشيرته، فأثبته عندي في صحيفة بيضاء.
’’جو شخص مجھ پر جمعہ کے روز اور جمعہ کی رات درود پڑھے اللہ اُس کی سو حاجتیں پوری کرتا ہے، سترآخرت کی اور تیس دُنیا کی پھر اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے جو (اُس کی طرف سے) میری قبر میں اِس طرح درود پیش کرتا ہے جس طرح تمہیں ہدیے پیش کیے جاتے ہیں۔ وہ مجھے اُس آدمی کے نام و نسب کی اُس کے خاندان سمیت خبر دیتا ہے، پس میں اُسے اپنے پاس سفید صحیفے میں ثبت (ریکارڈ) کر لیتا ہوں۔‘‘
1. بيهقي، شعب الإيمان، 3: 111، رقم: 3035
2. فيروز آبادي، الصلات والبشر في الصلاة علي خير البشر صلي الله عليه وآله وسلم: 77
3. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 5: 219
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 7: 372
5. سخاوي، القول البديع في الصلاة علي الحبيب الشفيع صلي الله عليه وآله وسلم: 156
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إن ﷲ ملائکة سيّاحين في الأرض، يبلّغوني من أمتي السلام.
’’اللہ عزوجل کے بہت سے فرشتے ایسے ہیں جو زمین پر پھرتے رہتے ہیں، اور میری اُمت کی طرف سے جو سلام بھیجا جاتا ہے مجھے پہنچاتے ہیں۔‘‘
1. نسائي، السنن، کتاب السهو، باب السلام علي النبي، 3: 31،
رقم: 1282
2. نسائي، عمل اليوم و الليلة: 167، رقم: 66
3. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 387، 441، 452
4. دارمي، السنن، 2: 409، رقم: 2774
5. ابن حبان، الصحيح، 3: 195، رقم: 914
6. بزار، البحر الزخار (المسند)، 5: 307، 308، رقم: 1924، 1925
7. أبويعلي، المسند، 9: 137، رقم: 5213
8. عبد الرزاق، المصنف، 2: 215، رقم: 3116
ابن حبان کی بیان کردہ روایت کی اسناد امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہیں اور اس کے رِجال ثقہ ہیں۔ حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے جبکہ ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔ ابن قیم نے اس کی اسناد کو صحیح کہا ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أکثروا عليّ من الصلاة في کل يوم جمعة، فإنّ صلاة أمّتي تُعرَض عليّ في کلِّ يوم جمعة، فمن کان أکثرهم عليّ صلاة کان أقربهم منّي منزلة.
’’ہر جمعہ کے روز مجھ پر کثرت کے ساتھ درود پڑھو، بے شک میری اُمت کا درود ہر جمعہ کے دن مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ پس جس نے مجھ پر کثرت سے درود بھیجا وہ مرتبہ کے اِعتبار سے سب سے بڑھ کر میرے قریب ہوگا۔‘‘
1. بيهقي، شعب الإيمان، 3: 110، رقم: 3032
2. بيهقي، السنن الکبري، 3: 249، رقم: 5791
3. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 1: 81، رقم: 250
4. منذري، الترغيب والترهيب من الحديث الشريف، 2: 328، رقم: 2583
5. سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام: 136
6. مقريزي، إمتاع الأسماع بما للنبي صلي الله عليه وآله وسلم من الأحوال والأموال والحفدة
والمتاع، 11: 66
7. ابن قيم، جلاء الأفهام في الصلاة والسلام علي خير الأنام صلي الله عليه وآله وسلم:
40، رقم: 56
8. عظيم آبادي، عون المعبود علي سنن أبي داؤد، 4: 272
اِن اَحادیثِ مبارکہ سے یہ بھی واضح ہوا کہ حضور نبی اکرم ﷺ دور و نزدیک ہر جگہ سے اپنے اُمتیوں کی طرف سے پیش کیا جانے والا درود و سلام سنتے ہیں۔ فرشتہ صرف اَز رُوئے اَدب آپ ﷺ کی بارگاہ میں اُمتیوں کی طرف سے پیش کیا جانے والا درود و سلام پہنچاتا ہے، ورنہ آپ ﷺ تک تمام اُمتیوں کے درود و سلام کی نہ صرف آواز پہنچتی ہے بلکہ آپ ﷺ جواب بھی مرحمت فرماتے ہیں۔ اتنے واضح اَحکامات اور کثیر فضائل کے باوُجود بھی اگر کوئی صلاۃ و سلام پر اِعتراض کرے اور اِس کے لیے منعقدہ محافلِ میلاد پر طعن و تشنیع کرے تو اسے صرف بدبختی پر محمول کیا جائے گا۔ انہیں چاہیے کہ قرآن و سنت کے دلائل کے روشنی میں حقائق کی معرفت حاصل کریں۔
ہم نے اِس فصل میں درود و سلام کی فضیلت و اَہمیت بارے صرف چند احادیث بیان کی ہیں، ورنہ اِس موضوع پر احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے، ائمہ نے اِس موضوع پر الگ کتب تالیف کی ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ہماری کتاب البدر التمام فی الصلوٰۃ علیٰ صاحبِ الدُّنُوّ والمقام ﷺ کا مطالعہ کریں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved