محافلِ میلاد النبی ﷺ کا ایک اہم ترین عنصر حضور ﷺ کی مدح سرائی اور نعت خوانی ہے۔ اہلِ اسلام محافلِ نعت منعقد کرکے اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کے ساتھ اپنی بے پناہ محبت اور جذباتی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ نعتِ مصطفیٰ ﷺ کوئی نیا عمل نہیں بلکہ قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ ذیل میں اِس ضمن میں چند حوالہ جات نقل کیے جاتے ہیں:
الله رب العزت نے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کا ذکرِ جمیل پیرایۂ نعت میں کیا ہے۔ خالقِ کائنات اپنے حبیب ﷺ سے جب بھی روئے خطاب ہوا تونام لینے کی بجائے کبھی يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ کہا اور کبھی يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ اور کبھی یٰسین کے لقب سے پکارا۔ اِسی طرح کلامِ مجید میں کہیں وَالضُّحَى کہہ کر آپ ﷺ کے رُخِ اَنور کی قسم کھائی اور کہیں وَاللَّيْلِ کہہ کر آپ ﷺ کی شبِ تاریک کی مانند سیاہ زلفوں کی قسم کھائی۔ ہمہ قرآن دَر شانِ محمد ﷺ کے مصداق پورا قرآن حکیم حضور ﷺ کی مدح اور نعت ہی تو ہے۔ اِس کے پیرایۂ اِظہار میں نعت ہی کا رنگ صاف جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ بہ طور حوالہ چند آیات درج ذیل ہیں:
1۔ آپ ﷺ کے شرحِ صدر، رفعِ بارِ غم اور رِفعتِ ذکر کو قرآن حکیم میں یوں بیان کیا گیا ہے:
أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَO وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَO الَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَO وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَO
’’کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (اَنوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے) کشادہ نہیں فرما دیا۔ اور ہم نے آپ کا (غمِ اُمت کا وہ) بار آپ سے اتار دیا۔ جو آپ کی پشتِ (مبارک) پر گراں ہو رہا تھا۔ اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔ ‘‘
الإنشراح، 94: 1 - 4
2۔ اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے ہمہ وقت آپ ﷺ پر درود بھیج رہے ہیں۔ اِرشاد فرمایا:
إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO
الأحزاب، 33: 56
’’بے شک اللہ اور اُس کے (سب) فرشتے نبيّ (مکرمّ ﷺ ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔ ‘‘
3۔ آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے بارے میں فرمایا:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًاO
’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اِس لیے کہ الله کے حکم سے اُس کی اِطاعت کی جائے، اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور الله سے معافی مانگتے اور رسول ( ﷺ ) بھی اُن کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور الله کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔ ‘‘
النساء، 4: 64
4۔ آپ ﷺ کی اِطاعت کو اپنی اِطاعت قرار دیا:
مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ وَمَن تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًاO
’’جس نے رسول ( ﷺ ) کا حکم مانا بے شک اُس نے الله (ہی) کا حکم مانا، اور جس نے رُوگردانی کی تو ہم نے آپ کو اُن پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔ ‘‘
النساء، 4: 80
5۔ تورات و انجیل میں آپ ﷺ کے تذکرئہ اَوصاف کے ضمن میں فرمایا:
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَO
’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول ( ﷺ ) کی پیروی کرتے ہیں جو اُمی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر مِن جانبِ الله لوگوں کو اَخبارِ غیب اور معاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اَوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور اِنجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو اُنہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور اُن سے اُن کے بارِ گراں اور طوقِ (قیود) جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلط) تھے ساقط فرماتے (اور اُنہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اُس نورِ (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔ ‘‘
الأعراف، 7: 157
6۔ آپ ﷺ کی رِسالتِ عامہ کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا:
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ.
’’آپ فرما دیں: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اُس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں جس کے لیے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔‘‘
الأعراف، 7: 158
7۔ معرکۂ بدرمیں کفار پر آپ ﷺ کے کنکریاں پھینکنے کے عمل کو اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا:
وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللهَ رَمَى.
’’اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) الله نے مارے تھے۔‘‘
الانفال، 8: 17
8۔ آپ ﷺ کے اپنی اُمت پر رؤوف و رحیم ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌO
’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( ﷺ ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق، بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔ ‘‘
التوبه، 9: 128
9۔ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی عمر مبارک کی یوں قسم کھاتا ہے:
لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَO
الحجر، 15: 72
’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمر مبارک کی قسم! بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔ ‘‘
10۔ الله تعالیٰ کو اپنے محبوب ﷺ کا مشقت میں پڑنا گراں گزرا تو فرمایا:
طهO مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىO
’’طٰہٰ (اے محبوبِ مکرّم!)۔ ہم نے آپ پر قرآن (اِس لیے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں۔ ‘‘
طٰهٰ، 20: 1، 2
11۔ آپ ﷺ کی شانِ رحمۃً للعالمینی کو درج ذیل آیت میں بیان فرمایا:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَO
’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔ ‘‘
الأنبياء، 21: 107
12۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بارگاہِ مصطفیٰ ﷺ کے آداب سکھاتے ہوئے فرمایا:
لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌO
’’(اے مسلمانو!) تم رسول ( ﷺ ) کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم ﷺ کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول ﷺ کی ذات گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)، بے شک اللہ ایسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ میں (دربارِ رِسالت ﷺ سے) چپکے سے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول ( ﷺ ) کے اَمرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آپہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گا۔ ‘‘
النور، 24: 63
13۔ آپ ﷺ کو تمام ایمان والوں کی جانوں سے زیادہ قریب قرار دیتے ہوئے فرمایا:
النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ.
’’یہ نبیء (مکرم ﷺ ) مومنوں کے ساتھ ان کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ ( ﷺ ) کی اَزواجِ (مطہرات) ان کی مائیں ہیں۔‘‘
الأحزاب، 33: 6
14۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو شاہد، مبشر، نذیر، داعی اور سراجِ منیر بنا کر بھیجا۔ اِرشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاO وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًاO
الأحزاب، 33: 45، 46
’’اے نبیء (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوش خبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اُس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)۔ ‘‘
15۔ آپ ﷺ کی اِن بے مثال شانوں کو ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا:
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاO لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًاO
’’بے شک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لیے اَعمال و اَحوالِ اُمت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوش خبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ (اے لوگو!) تم الله اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) الله کی صبح و شام تسبیح کرو۔ ‘‘
الفتح، 48: 8، 9
16۔ ایک مقام پر الله تعالیٰ نے آپ ﷺ کی شان بہ طریقِ نعت یوں بیان فرمائی:
يسO وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِO إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَO
’’یاسین (حقیقی معنی اللہ اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں)۔ حکمت سے معمور قرآن کی قَسم۔ بے شک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیں۔ ‘‘
يٰسين، 36: 1 - 3
17۔ آپ ﷺ کی بیعت کو اپنی بیعت قرار دیتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًاO
’’اے (حبیب !) بے شک جو لو گ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے، پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہوگا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اُس نے اللہ سے عہد کیا تھا تو وہ عن قریب اسے بہت بڑا اَجر عطا فرمائے گا۔ ‘‘
الفتح، 48: 10
18۔ آپ ﷺ کی آواز سے اونچی آواز کرنے اور آپ ﷺ کو دوسروں کی مثل پکارنے پر اَعمال کے ضائع ہو جانے کی وعید سناتے ہوئے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَO
الحجرات، 49: 2
’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیء مکرّم ( ﷺ ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اَعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اَعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو۔ ‘‘
19۔ آپ ﷺ کی آواز سے پست آواز رکھنے کو تقویٰ کا معیار قرار دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌO
’’بے شک جو لوگ رسول ( ﷺ ) کی بارگاہ میں (اَدب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو الله نے تقویٰ کے لیے چُن کر خالص کر لیا ہے، ان ہی کے لیے بخشش ہے اور اَجرِ عظیم ہے۔ ‘‘
الحجرات، 49: 3
20۔ آپ ﷺ کا واقعۂ معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا:
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُO
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اَقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔ ‘‘
بني اسرائيل، 17: 1
21۔ سورۃ النجم میں آپ ﷺ کے واقعہ معراج کو تفصیلاً نہایت ہی حسین پیرایہ میں بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىO مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىO وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىO إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىO عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىO ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىO وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىO ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىO فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىO فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىO أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَىO وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىO عِندَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَىO عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىO إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىO مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىO لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىO
النجم، 53: 1 - 18
’’قَسم ہے روشن ستارے (محمد ﷺ ) کی جب وہ (چشمِ زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اُترے۔ تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی تمہیں اپنے فیضِ صحبت سے صحابی بنانے والے رسول ﷺ ) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکے۔ اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا اِرشاد سَراسَر وحی ہوتی ہے جو اُنہیں کی جاتی ہے۔ ان کو بڑی قوتوں و الے (رب) نے (براہِ راست) علمِ (کامل) سے نوازا۔ جو حسنِ مُطلَق ہے، پھر اُس (جلوۂ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایا۔ اور وہ (محمد ﷺ شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)۔ پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد ﷺ سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔ پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم ﷺ میں صِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (اِنتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)۔ پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس ( الله ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی۔ (اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا۔ کیا تم ان سے اِس پر جھگڑتے ہو کہ جو انہوں نے دیکھا۔ اور بے شک انہوں نے تو اُس (جلوۂ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)۔ سِدرۃ المنتہیٰ کے قریب۔ اسی کے پاس جنت الماویٰ ہے۔ جب نورِ حق کی تجليّات سِدرَۃ (المنتہیٰ) کو (بھی) ڈھانپ رہی تھیں جو کہ (اس پر) سایہ فگن تھیں۔ اور اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)۔ بے شک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ ‘‘
22۔ آپ ﷺ کے خلقِ عظیم کو یوں بیان فرمایا:
وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍO
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزيّن اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متصف ہیں)۔ ‘‘
القلم، 68: 4
23۔ آپ ﷺ کے شہر کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا:
لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِO وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِO وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَO
’’میں اس شہر (مکہ) کی قسم کھاتا ہوں۔ (اے حبیبِ مکرم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔ (اے حبیبِ مکرم! آپ کے) والد (آدم یا اِبراہیم علیہما السلام) کی قسم اور (اُن کی) قسم جن کی ولادت ہوئی۔ ‘‘
البلد، 90: 1 - 3
24۔ آپ ﷺ کے چہرۂ انور اور گیسوئے عنبریں کی قسموں اور چند دیگر خصائل کا تذکرہ یوں فرمایا:
وَالضُّحَىO وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىO مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىO وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىO وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىO أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىO وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىO وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىO فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْO وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْO وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْO
’’(اے حبیبِ مکرم!) قسم ہے چاشت (کی طرح آپ کے چہرۂ اَنور) کی (جس کی تابانی نے تاریک روحوں کو روشن کردیا)۔ اور (اے حبیبِ مکرم!) قسم ہے سیاہ رات کی (طرح آپ کی زلفِ عنبریں کی) جب وہ (آپ کے رخِ زیبا یا شانوں پر) چھا جائے۔ آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا او رنہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہے۔ اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت ) ہے۔ اور آپ کا رب عن قریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔ (اے حبیب!) کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اس نے (آپ کو معزز و مکرم) ٹھکانا دیا۔ اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ و گم پایا تو اس نے مقصود تک پہنچا دیا۔ اور اس نے آپ کو (وصالِ حق کا) حاجت مند پایا تو اس نے (اپنی دید کی لذت سے نواز کر ہمیشہ کے لیے ہر طلب سے) بے نیاز کر دیا۔ سو آپ بھی کسی یتیم پر سختی نہ فرمائیں۔ اور (اپنے دَر کے) کسی منگتے کو نہ جھڑکیں۔ اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں۔ ‘‘
الضحي، 93: 1 - 11
25۔ آپ ﷺ کو خیرِ کثیر عطا کیے جانے کا ذکر یوں فرمایا:
إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَO فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْO إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُO
الکوثر، 108: 1 - 3
’’بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے۔ پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیۂ تشکر ہے)۔ بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہوگا۔ ‘‘
قرآن حکیم کی مذکورہ بالا آیات سے حضور نبی اکرم ﷺ کے شرف و فضیلت اور رِفعت و عظمت کا پہلو اُجاگر ہو رہا ہے جب کہ نعت کا موضوع بھی یہی قرار پاتاہے۔ اگر کوئی اِعتراض کرے کہ حضور ﷺ کی نعت پڑھنا اور سننا (معاذ الله ) ناجائز ہے تو یہ مندرجہ بالا آیات میں بیان کیے گئے مضمون کے اِنکار کے مترادف ہوگا۔
حضور نبی اکرم ﷺ خود محفلِ نعت منعقد فرماتے اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو فرماتے کہ وہ آپ ﷺ کی مدح میں لکھے ہوئے قصائد پڑھ کر سنائیں۔ ان کے علاوہ بعض دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی حضور ﷺ کی مدح سرائی کا شرف حاصل ہوا۔ اِس ضمن میں وارِد چند روایات درج ذیل ہیں:
1۔ ام المؤ منین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا روایت کرتی ہیں:
کان رسول الله ﷺ يضع لحسان منبراً في المسجد يقوم عليه قائماً يفاخر عن رسول الله ﷺ أو قالت: ينافح عن رسول الله ﷺ .
’’حضور نبی اکرم ﷺ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد نبوی میں منبر رکھواتے، وہ اس پر کھڑے ہو کر رسول اللہ ﷺ کے متعلق (کفار و مشرکین کے مقابلہ میں) فخریہ شعر پڑھتے یا فرمایا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا دفاع کرتے۔‘‘
حدیث شریف میں وارِد لفظ ’’کَانَ‘‘ اس امر کی خبر دیتا ہے کہ یہ واقعہ بار بار ہوا اور یہ آپ ﷺ کا معمول تھا۔ آپ ﷺ ہمیشہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی میں منبر پر بلاتے اور وہ حضور ﷺ کی شان میں نعت پڑھتے اور کفار کی ہجو میں لکھا ہوا کلام سناتے۔ اس سے آپ ﷺ کی عظمت و شوکت اور علو مرتبت کا پتہ چلتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا آگے بیان کرتی ہیں کہ حضرت حسان آپ ﷺ کی نعت پڑھتے تو آپ ﷺ خوش ہوکر فرماتے:
إن الله تعالي يؤيّد حسان بروح القدس ما يفاخر أو ينافح عن رسول الله .
’’بے شک اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا ہے جب تک وہ الله کے رسول کے متعلق فخریہ اَشعار بیان کرتا ہے یا (اَشعار کی صورت میں) ان کا دفاع کرتا ہے۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الأدب، باب في إنشاد الشعر،
5: 138، رقم: 2846
2. احمد بن حنبل، المسند، 6: 72، رقم: 24481
3. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3: 554، رقم: 6058
4. ابو يعلي، المسند، 8: 189، رقم: 4746
2۔ اُم المؤ منین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا روایت کرتی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہوئے سنا:
إن روح القدس لا يزال يؤيّدک ما نافحت عن الله ورسوله. . . . هجاهم حسان فشفي واشتفي.
’’بے شک روح القدس (جبرئیل امین) تمہاری مدد میں رہتے ہیں جب تک تم اللہ اور اُس کے رسول کا دفاع کرتے ہو۔ ۔ ۔ ۔ حسان نے کافروں کی ہجو کی، (مسلمانوں کو) تشفی دی اور خود بھی تشفی پائی۔‘‘
اور سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے یہ اَشعار پڑھے:
هجوت محمداً فأجبت عنه
وعند الله في ذاک الجزاء
هجوت محمداً برًّا تقيا
رسول الله شِيمَتُه الوفاء
فإن أبي ووالده وعرضي
لِعِرْض محمد منکم وِقَاءُ
(تو نے محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کی تو میں اس کا جواب دیتا ہوں اور اِس (جواب) پر اللہ کے پاس جزا ہے۔ تو نے اس محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے جو کہ نیک، پرہیزگار، اللہ کے رسول ہیں، وفا جن کی خصلت ہے۔ پس بے شک میرے والد، اور ان کے والد (یعنی میرے دادا) اور میری عزت و آبرو تمہارے مقابلے میں عزت و ناموسِ محمد ﷺ کے دفاع کا ذریعہ ہے۔)
1. مسلم، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت،
4: 1936، رقم: 2490
2. بيهقي، السنن الکبري، 10: 238
3. طبراني، المعجم الکبير، 4: 38، رقم: 3582
4. حسان بن ثابت، ديوان: 20، 21
3۔ واقعۂ اِفک میں حضرت حسان رضی اللہ عنہ بھی منافقین کے پراپیگنڈے کی وجہ سے غلط فہمی کا شکار ہو گئے لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا نے ثناء خوانِ مصطفیٰ ﷺ سمجھ کر انہیں معاف کر دیا اور فرمایا: حسان تو وہ ہے کہ جس نے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں یہ نعت پڑھی ہے:
فإن أبي ووالده وعرضي
لِعِرْض محمدٍ منکم وِقَاءُ
’’پس بے شک میرے والد، اوران کے والد (یعنی میرے دادا) اور میری عزت وآبرو (اے کفار !) تمہارے مقابلے میں عزت و ناموسِ محمد ﷺ کے دفاع کا ذریعہ ہیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب حديث الإفک، 4: 1518،
رقم: 3910
2. مسلم، الصحيح، کتاب التوبة، باب في حديث الإفک وقبول توبة القاذف، 4: 2137، رقم:
2770
3. أحمد بن حنبل، المسند، 6: 197
4. نسائي، السنن الکبري، 5: 296، رقم: 8931
5. أبو يعلي، المسند، 8: 341، رقم: 4933
6. حسان بن ثابت، ديوان: 21
4۔ حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
يا حسان! أجب عن رسول الله ﷺ، اللّهم أيّده بروح القدس.
’’اے حسان! اللہ کے رسول کی طرف سے دفاع کرتے ہوئے (کفار کو) جواب دو، اے اللہ! اِس کی روح الامین کے ذریعے مدد فرما۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ہاں، میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔
1. بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب هجاء المشرکين، 5: 2279،
رقم: 5800
2. بخاري، الصحيح، کتاب الصلاة، باب الشعر في المسجد، 1: 173، رقم: 442
3. مسلم، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت، 4: 1933، رقم: 2485
4. نسائي، السنن الکبري، 6: 51، رقم: 10000
5. أبو يعلي، المسند، 10: 411، رقم: 6017
6. بيهقي، السنن الکبري، 10: 237
7. طبراني، المعجم الأوسط، 1: 208، رقم: 668
5۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ بے شک حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
اهجهم أو قال: هاجهم وجبريل معک.
’’(اے حسان! جو لوگ میرے گستاخ اور بے ادب ہیں تم نعت میں) اُن کی ہجو اور گستاخانہ کلمات کا جواب دو۔ (اِس کام میں) جبرائیل بھی تمہارے مددگار ہیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب هجاء المشرکين، 5: 2279،
رقم: 5801
2. بخاري، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکة، 3: 1176، رقم: 3041
3. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب مرجع النبي من الأحزاب ومخرجه إلي بني قريظة،
4: 1512، رقم: 3897
4. مسلم، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت، 4: 1933، رقم: 2486
5. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 302
6. طيالسي، المسند، 1: 99، رقم: 730
7. بيهقي، السنن الکبري، 10: 237
8. طبراني، المعجم الکبير، 4: 41، رقم: 3588
الله ہی بہتر جانتا ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کتنی دیر اپنا حمدیہ اور نعتیہ کلام بارگاہِ رِسالت مآب ﷺ میں حاضر ہو کر تاجدارِ کائنات ﷺ کو سناتے رہے اور آپ ﷺ کو راحت پہنچاتے رہے۔
حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بارگاہِ رِسالت مآب ﷺ میں عرض کیا:
يا رسول الله ! إني قد مدحت الله بمدحة ومدحتک بأخري.
’’یا رسول الله ! بے شک میں نے ایک قصیدہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی ہے اور دوسرے قصیدہ میں آپ کی نعت بیان کی ہے۔‘‘
اِس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
هات وابدأ بمدحة الله عزوجل.
1. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 24، رقم: 16300
2. ابن أبي شيبة، المصنف، 6: 180
3. طبراني، المعجم الکبير، 1: 287، رقم: 842
4. بيهقي، شعب الإيمان، 4: 89، رقم: 4365
’’آؤ اور اللہ تعالیٰ کی حمد سے اِبتداء کرو۔‘‘
1۔ حضرت ہیثم بن ابی سنان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ وعظ میں رسول اکرم ﷺ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ تمہارا بھائی عبد اللہ بن رواحہ بالکل لغویات نہیں کہتا۔ پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے درج ذیل اَشعار بیان کیے:
وفينا رسول الله يتلو کتابه
إذا انشقّ معروف من الفجر ساطع
أرانا الهدي بعد العمي فقلوبنا
به موقنات أن ما قال واقع
يبيت يجافي جنبه عن فراشه
إذا استثقلت بالمشرکين المضاجع
(اور ہمارے درمیان اللہ کے رسول ہیں جو کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں، جب کہ فجر طلوع ہوتی ہے۔ انہوں نے ہمیں ہدایت کا راستہ دکھایا اس کے بعد کہ ہم جہالت کی تاریکی میں تھے، چنانچہ ہمارے دل یقین کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ نے کہا وہ ہوکر رہے گا۔ آپ ﷺ اس حال میں رات گزارتے ہیں کہ بستر سے آپ ﷺ کا پہلو جدا ہوتا ہے، جب کہ مشرکین کے بستر ان کی وجہ سے بوجھل ہوتے ہیں یعنی ان کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجمعة، باب فضل من تعار من الليل فصلي،
1: 387، رقم: 1104
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب هجاء المشرکين، 5: 2278، رقم: 5799
3. بخاري، التاريخ الکبير، 8: 212، رقم: 2754
4. بخاري، التاريخ الصغير: 23، رقم: 71
5. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 451
6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 10: 239
7. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3: 465
2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ عمرۂ قضاء کے موقع پر مکہ مکرمہ داخل ہوئے تو عبد الله بن رواحہ آپ ﷺ کے آگے آگے چلتے ہوئے بلند آواز سے کہہ رہے تھے:
خلُّوا بني الکفار عن سبيله
اليوم نضربکم علي تنزيله
ضربًا يزيل الهام عن مقيله
ويذهل الخليل عن خليله
(اے اولادِ کفار! آپ ﷺ کا راستہ چھوڑ دو، آج ہم تمہیں حکمِ قرآن کی مار ماریں گے۔ ایسی مار جو کھوپڑی کو اپنی جگہ سے دور کردے گی، اور دوست کو دوست سے جدا کردے گی۔‘‘
اِس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا:
يا ابن رواحة! بين يدي رسول الله ﷺ وفي حرم الله تقول الشّعر؟
’’اے ابن رواحہ! تم حضور ﷺ کے سامنے اور الله کے حرم میں شعر کہہ رہے ہو؟‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سوال سنا تو اُن سے فرمایا:
خل عنه يا عمر! فلهي أسرع فيهم من نضح النبل.
’’اے عمر! اِسے کہنے دو، یہ اَشعار ان کفار (کے دلوں) پر تیر برسانے سے بھی زیادہ تیز ہیں۔‘‘
1۔ ترمذی نے ’’الجامع الصحیح (کتاب الادب، باب ما جاء فی انشاد الشعر، 5: 139، رقم:
2847)‘‘ میں اِس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔
2۔ نسائي، السنن، کتاب مناسک الحج، باب انشاد الشعر في الحرم، 5: 202، رقم: 2873
3۔ قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 13: 151
حضرت سلمہ بن اَکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک رات ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ خیبر کی طرف جا رہے تھے۔ قافلہ میں سے کسی شخص نے میرے بھائی عامر بن اَکوع سے کہا کہ آج آپ ہمیں اپنا کوئی کلام سنائیں۔ وہ اونٹ سے اُترے اور یہ شعر پڑھنے لگے:
اللّهم! لو لا أنت ما اهتدينا
ولا تصدّقنا ولا صلّينا
فاغفر فداء لک ما اتّقينا
وثبّت الأقدام إن لاقينا
(اے ہمارے پروردگار! اگر تو (اپنا محبوب ہمارے درمیان بھیج کر) ہمارے شاملِ حال نہ ہوتا تو ہم ہرگز ہدایت پاسکتے نہ ہم صدقہ و خیرات کرتے اور نہ نماز قائم کرسکتے۔ میں تجھ پر فدا! تو ہماری خطائیں معاف فرما جب تک ہم تقوی اِختیار کیے ہوئے ہیں اور جب دشمن سے ہمارا سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدمی عطا فرما۔‘‘
یہ سن کر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
من هذا السائق؟
’’یہ اونٹنی چلانے والا (اور میری نعت کہنے والا) کون ہے؟‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: یا رسول الله ! یہ عامر بن اَکوع ہیں۔ حضور ﷺ نے خوش ہوکر دعا دیتے ہوئے فرمایا:
يرحمه الله .
’’اللہ تعالیٰ اُس پر رحمت نازل فرمائے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، 4: 1537، رقم:
3960
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب ما يجوز من الشّعر، 5: 2277، رقم: 5796
3. مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد، باب غزوة خيبر، 3: 1428، رقم: 1802
4. ابو عوانه، المسند، 4: 314، رقم: 6830
5. بيهقي، السنن الکبري، 10: 227
6. طبراني، المعجم الکبير، 7: 32، رقم: 6294
یہ حضور ﷺ کی سنتِ مبارکہ ہے کہ آپ ﷺ نعت سن کر اپنے ثناء خواں کے حق میں دعا کرتے اور انہیں اپنی توجہات اور فیوضات سے مالا مال کرتے۔
حضرت خریم بن اوس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی غزوۂ تبوک سے واپسی پر حاضر ہو کر اسلام قبول کیا تو میں نے عباس بن عبد المطلب کو یہ کہتے ہوئے سنا: یا رسول اللہ! میں آپ کی مدح کرنا چاہتا ہوں۔ اُن کے اِظہارِ خواہش پر حضور ﷺ نے فرمایا:
قل، لا يفضض الله فاک.
’’کہیں، اللہ تعالیٰ آپ کے منہ کی مہر نہ توڑے (یعنی آپ کے دانت سلامت رہیں)۔‘‘
پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کی شانِ اَقدس میں درج ذیل نعتیہ اَشعار کہے:
من قبلها طبت في الظلال وفي
مستودع حيث يخصف الورق
(جب حضرت آدم علیہ السلام (اور حضرت حوا علیہا السلام) اپنے اپنے جسموں کو (جنت میں) پتوں سے ڈھانپ رہے تھے۔ اُس وقت سے بھی بہت پہلے آپ صلی الله علیک وآلک وسلم جنت کے سایوں اور اپنی والدہ ماجدہ کے رحم میں بھی پاکیزہ تھے۔)
ثم هبطت البلاد لا بشر
أنت ولا مضغة ولا علق
(اُن کے جنت سے زمین پر اتارے جانے کے بعد) آپ صلی الله علیک وآلک وسلم بھی اُن کے ہمراہ زمین پر تشریف لے آئے جب کہ آپ صلی الله علیک وآلک وسلم نہ تو قبل ازیں بشری صورت میں تھے اور نہ ہی گوشت اور علق کی حالت میں۔)
بل نطفة ترکب السفين وقد
ألجم نسرا وأهله الغرق
(بلکہ حضرت نوح علیہ السلام کی مبارک پشت میں ایک تولیدی قطرہ کی حالت میں کشتی میں سوار تھے جب (دریا کے) غرق نے نسر (بت) اور اس کی پرستش کرنے والوں کو لگام دی تھی (یعنی طوفان کے باعث منکرینِ نوح غرق ہوگئے تھے)۔
تنقل من صالب إلي رحم
إذا مضي عالم بدا طبق
(آپ صلی الله علیک وآلک وسلم مقدس اَصلاب سے پاکیزہ اَرحام کی جانب منتقل ہوتے رہے۔ جب ایک دور گزرتا تو دوسرا شروع ہوجاتا۔)
حتي احتوي بيتک المهيمن من
خندف علياء تحتها النطق
(یہاں تک کہ آپ صلی الله علیک وآلک وسلم کا مبارک شرف جو آپ کے فضل پر گواہ ہے قبیلہ خندف (قریش) کے نسب کے اَعلیٰ مقام پر فائز ہوا (جب کہ دوسرے تمام لوگ آپ کے اِس مقام سے نیچے ہیں)۔
وأنت لما ولدت أشرقت الأ
رض وضاءت بنورک الأفق
(اور جب آپ (سیدہ آمنہ رضی الله عنہا کی گود میں) بزم آرائے جہاں ہوئے تو آپ کی تشریف آوری کے باعث زمین پُر نور ہوگئی اور فضائیں جگمگا اٹھیں۔)
فنحن في ذلک الضياء وفي
النور وسبل الرشاد نخترق
(ہم آپ صلی الله علیک وآلک وسلم کی ضیاء پاشی اور نورانیت کے صدقے ہی تو راہِ ہدایت پر گامزَن ہیں۔ )
1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3: 369، 370، رقم: 5417
2. طبراني، المعجم الکبير، 4: 213، رقم: 4167
3. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1: 54
4. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 2: 165، 166
5. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8: 218
6. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1: 46
7. نبهاني، الأنوار المحمدية من المواهب اللدنية: 25
محمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں: کعب بن زہیر بن ابو سلمیٰ بھاگ کر مدینہ منورہ آئے تو قبیلہ جہینہ کے ایک شناسا شخص کے پاس رات ٹھہرے، نمازِ فجر کے وقت وہ انہیں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں لے گئے تو انہوں نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ کسی نے انہیں بتایا کہ وہ رسول الله ﷺ ہیں۔ پس تو ان کے پاس جا کر اَمان طلب کر۔ وہ آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے سامنے بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ کو آپ ﷺ کے ہاتھ میں دے دیا۔ پھر عرض کیا: یا رسول الله ! بے شک کعب بن زہیر تائب اور مسلمان ہو کر آپ سے امان طلب کرنے آیا ہے، اگر میں اسے آپ کے حاضر خدمت کروں تو کیا آپ اس کی معافی قبول فرمائیں گے؟ حضور ﷺ نے فرمایا: ہاں، تو اس نے عرض کیا کہ میں ہی کعب بن زہیر ہوں۔ یہ سنتے ہی ایک انصاری شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! مجھے حکم دیجیے کہ میں اس دشمنِ خدا کی گردن اتار دوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، بے شک وہ اپنی (گزشتہ) حالت سے تائب ہو کر اور چھٹکارا پا کر آیا ہے۔ پھر انہوں نے قصیدہ بانت سعاد پڑھا:
بانت سعاد فقلبي اليوم متبول
متيم أثرها لم يفد مکبول
(معشوقہ کی جدائی میں میرا دل بیمار ہے، ذلیل و غلام بنا ہوا اس کے ساتھ ساتھ ہے جو فدیہ دے کر چھوٹ نہ سکا۔)
اس قصیدہ میں انہوں نے یہ شعر بھی پڑھا:
أنبئت أن رسول الله أوعدني
والعفو عند رسول الله مأمول
(مجھے خبر دی گئی کہ بے شک رسول اللہ نے میرے لیے وعید فرمائی ہے، حالاں کہ رسول اللہ سے عفو و درگزر کی امید کی جاتی ہے۔)
پھر انہوں نے یہ شعر بھی پڑھا:
إن الرسول لنور يستضاء به
وصارم من سيوف الله مسلول
(بے شک یہ رسول نور ہیں جن سے روشنی اَخذ کی جاتی ہے، اور اللہ کی شمشیروں میں سے برہنہ شمشیر ہیں۔)
1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3: 670 - 673، رقم: 6477
2. طبراني، المعجم الکبير، 19: 157 - 159، رقم: 403
3. بيهقي، السنن الکبري، 10: 243
4. ابن إسحاق، السيرة النبوية: 591 - 594
5. ابن هشام، السيرة النبوية: 1011 - 1021
6. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 9: 393
7. ابن کثير، البداية والنهاية، 3: 582 - 588
ابن قانع بغدادی (م 351ھ) روایت کرتے ہیں کہ کعب نے یہ شعر پڑھا تو حضور ﷺ نے انہیں چادر عنایت فرمائی:
فکساه النبي ﷺ بردة له، فاشتراها معاوية من ولده بمال، فهي البردة التي تلبسها الخلفاء في الأعياد.
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں چادر مبارک عطا فرمائی جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی اولاد سے مال کے بدلہ خرید لیا، یہی وہ چادر تھی جسے خلفاء عیدوں کے موقع پر پہنتے تھے۔‘‘
1. ابن قانع، معجم الصحابة، 12: 4466، رقم: 1657
2. ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفي ﷺ : 463، رقم: 813
اس حدیث شریف سے ثابت ہوا کہ نعت سن کر نعت خواں کو نذرانہ کے طور پر کچھ دینا حضور ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔
حضرت نابغہ جعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر دو سو (200) اَشعار پر مشتمل طویل قصیدہ پڑھا۔ جب انہوں نے درج ذیل اَشعار پڑھے:
ولا خير في حلم إذا لم يکن له
بوادر تحمي صفوه أن يکدرا
ولا خير في جهل إذا لم يکن له
حليم إذا ما أورد الأمر أصدرا
(اس حلم میں کوئی خیر نہیں جب تک کہ اس کے ساتھ غصہ کی گرمی نہ ہو جو اس کے صاف ہونے کو گدلا ہونے سے بچائے، اور اس جہالت میں کوئی خیر نہیں جب تک کہ اس کے ساتھ کوئی حلم والا نہ ہو جو کوئی معاملہ (بد) پیش آنے پر (اس سے) روکے۔
تو حضور نبی اکرم ﷺ نے اُسے دعا دیتے ہوئے فرمایا:
لا يفضض الله فاک.
’’اللہ تعالیٰ تمہارے منہ کی مہر نہ توڑے (یعنی تمہارے دانت سلامت رہیں)۔‘‘
راوی بیان کرتے ہیں:
وکان من أحسن الناس ثغراً، وکان إذا سقطت له سن نبتت.
’’ان کے دانت سب لوگوں سے اچھے تھے اور جب اُن کا کوئی دانت گرتا تو اس کی جگہ دوسرا نکل آتا۔‘‘
1. حارث، المسند، 2: 844، رقم: 894
2. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8: 126
3. ابن حيان، طبقات المحدثين بأصبهان، 1: 274، رقم: 11
4. ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 4: 1516، رقم: 2648
5. ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفي ﷺ : 462، 463، رقم: 812
6. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 5: 276 - 278
7. عسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، 6: 394، رقم: 8645
اس حدیث شریف میں حضرت نابغہ جعدی رضی اللہ عنہ نے کنایہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی نعت بیان کی ہے۔ پہلے مصرعہ میں آپ ﷺ کے ’’حلم اور جلالت‘‘ کو ملانے کا مطلب ہے کہ حضور ﷺ سراپا حلم ہیں اور وہ ڈھال بن کر پیکرِ حلم و وقار ﷺ کے وفادار رہیں گے، جب کہ دوسرے مصرع میں ’’جہالت کو حلم والے کے ساتھ‘‘ ملا کر اپنی تواضع اور اِنکساری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آپ کو حضور ﷺ کے ساتھ ملایا ہے کہ آپ ﷺ ہی اسے ہر قسم کی آفات اور مصائب و آلام سے بچا سکتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے کنایتاً آپ ﷺ کی مدح سرائی کی ہے جس سے خوش ہو کر آپ ﷺ نے اسے دعا دی۔
حضور نبی اکرم ﷺ جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو اِنصارِ مدینہ کی بچیوں نے آپ ﷺ کی آمد کے موقع پر دف بجا کرایک قصیدہ گایا جس کے درج ذیل اَشعار شہرتِ دوام پا گئے ہیں:
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا
مِنْ ثَنِيّاتِ الْودَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنَا
مَا دَعَ الله دَاعٍ
أيّهَا الْمَبْعُوْثُ فِيْنَا
جِئْتَ بِالْأمْرِ الْمُطَاعِ
(ہم پروداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اللہ کو پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی! آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی۔)
1. ابن ابي حاتم رازي، الثقات، 1: 131
2. ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد، 14: 82
3. أبو عبيد أندلسي، معجم ما استعجم من أسماء البلاد والمواضع، 4: 1373
4. محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشرة، 1: 480
5. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 2: 507
6. ابن کثير، البداية والنهاية، 2: 583
7. ابن کثير، البداية والنهاية، 3: 620
8. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 7: 261
9. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 8: 129
10. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 634
11. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 4: 100، 101
12. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1: 323
(9) امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو نعتیہ قصیدہ لکھنے پر بارگاہِ مصطفیٰ ﷺ سے چادر اور شفایابی کا تحفہ عطا ہوا صاحبِ ’’قصیدہ بردہ‘‘ امام شرف الدین بوصیری (608۔ 696ھ) کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ اپنے زمانے کے متبحر عالمِ دین، شاعر اور شہرۂ آفاق ادیب تھے۔ اللہ رب العزت نے آپ کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا جن کی بناء پر اُمراء و سلاطینِ وقت آپ کی بہت قدر کرتے تھے۔ ایک روز جارہے تھے کہ سرِ راہ ایک نیک بندۂ خدا سے آپ کی ملاقات ہوگئی، انہوں نے آپ سے پوچھا: بوصیری! کیا تمہیں کبھی خواب میں حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی ہے؟ آپ نے اس کا جواب نفی میں دیا لیکن اس بات نے ان کی کایا پلٹ دی اور دل میں حضور نبی اکرم ﷺ سے عشق و محبت کا جذبہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ ہر وقت آپ ﷺ کے خیال میں مستغرق رہنے لگے۔ اِسی دوران میں آپ نے چند نعتیہ اَشعار بھی کہے۔
پھر اچانک ان پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کا آدھا جسم بیکار ہوگیا، وہ عرصہ دراز تک اس عارضہ میں مبتلا رہے اور کوئی علاج کارگر نہ ہوا۔ اس مصیبت و پریشانی کے عالم میں امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں خیال گزرا کہ اس سے پہلے تو دنیاوی حاکموں اور بادشاہوں کی قصیدہ گوئی کرتا رہا ہوں کیوں نہ آقائے دوجہاں ﷺ کی مدح میں ایک قصیدہ لکھ کر اپنی اس مرضِ لادوا کے لیے شفاء طلب کروں؟ چنانچہ اس بیماری کی حالت میں قصیدہ لکھا۔ رات کو سوئے تو مقدر بیدار ہوگیا اور خواب میں حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت سے شرف یاب ہوئے۔ عالم خواب میں پورا قصیدہ آقائے کائنات ﷺ کو پڑھ کر سنایا۔ امام بوصیری کے اس کلام سے آپ ﷺ اس درجہ خوش ہوئے کہ اپنی چادر مبارک ان پر ڈالی اور اپنا دستِ شفاء پھیرا جس سے دیرینہ بیماری کے اثرات جاتے رہے اور وہ فوراً تندرست ہوگئے۔ اگلی صبح جب آپ اپنے گھر سے نکلے تو سب سے پہلے جس شخص سے آپ کی ملاقات ہوئی وہ اس زمانے کے مشہور بزرگ حضرت شیخ ابو الرجاء تھے۔ انہوں نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو روکا اور درخواست کی کہ وہ قصیدہ جو انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی مدح میں لکھا ہے اُنہیں بھی سنائیں۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ کون سا قصیدہ؟ انہوں نے کہا: وہی قصیدہ جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے:
أمن تذکر جيران بذي سلم
مزجت دمعا جري من مقلة بدم
(کیا تو نے ذی سلم کے پڑوسیوں کو یاد کرنے کی وجہ سے گوشۂ چشم سے بہنے والے آنسو کو خون سے ملا دیا ہے؟)
آپ کو تعجب ہوا اور پوچھا کہ اس کا تذکرہ تو میں نے ابھی تک کسی سے نہیں کیا، پھر آپ کو کیسے پتہ چلا؟ انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم جب آپ یہ قصیدہ آقائے دوجہاں ﷺ کو سنا رہے تھے اور آپ ﷺ خوشی کا اظہار فرما رہے تھے تو میں بھی اسی مجلس میں ہمہ تن گوش اسے سن رہا تھا۔ اس کے بعد یہ واقعہ مشہور ہوگیا اورا س قصیدہ کو وہ شہرتِ دوام ملی کہ آج تک اس کا تذکرہ زبان زدِ خاص و عام ہے اور اس سے حصولِ برکات کا سلسلہ جاری ہے۔
قصیدہ بردہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ سے خوش ہو کر اپنی چادر مبارک ان کے بیمار جسم پر ڈالی اور اپنا دست شفاء پھیرا جس کی برکت سے وہ فوراً شفاء یاب ہوگئے۔ لہٰذا اس چادرِ مصطفیٰ ﷺ کی نسبت سے اس قصیدہ کا نام ’’قصیدہ بردہ‘‘ مشہور ہوا۔
خرپوتي، عصيدة الشهدة شرح قصيدة البردة: 3 - 5
بہت سے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حضور نبی اکرم ﷺ کی نعت گوئی اور نعت خوانی کا شرف حاصل ہوا۔ اِمام التابعین محمد ابن سیرین (م 110ھ) عہدِ نبوی کے نعت گو شعراء میں سے چند کا ذکر یوں کرتے ہیں:
کان شعراء النبی ﷺ : حسان بن ثابت، وکعب بن مالک، وعبد الله بن رواحة، فکان کعب بن مالک يخوّفهم الحرب، وکان حسان يقبل علي الأنساب، وکان عبد الله بن رواحة يعيّرهم بالکفر.
’’حضرت حسان بن ثابت، کعب بن مالک اور عبد الله بن رواحہ رضی اللہ عنھم کا شمار حضور نبی اکرم ﷺ کے شعراء میں ہوتا تھا۔ پس حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ دشمنانِ رسول کو جنگ سے ڈراتے، اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ اُن کے نسب پر طعن زنی کرتے، اور حضرت عبد الله بن رواحہ رضی اللہ عنہ انہیں کفر کا (طعنہ دے کر) شرم دلاتے تھے۔‘‘
ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 4: 461
علامہ ابن جوزی (510۔ 597ھ) نے بھی شاعر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے چند کا ذِکر کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
وقد أنشده جماعة، منهم العباس وعبد الله بن رواحة، وحسّان، وضمار، وأسد بن زنيم، وعائشة، في خَلْق کثير قد ذکرتهم في کتاب الأشعار.
’’بہت سے لوگوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو (نعتیہ) اَشعار سنائے، جن میں حضرت عباس، حضرت عبد الله بن رواحہ، حضرت حسان، حضرت ضمار، حضرت اَسد بن زنیم، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھم اور بہت سے دیگر صحابہ شامل ہیں جو شاعری کے دیوان میں مذکور ہیں۔‘‘
ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفي ﷺ : 463
ذیل میں ثناء خوانِ مصطفیٰ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اَسمائے گرامی درج کیے جاتے ہیں:
1۔ حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ (م 32ھ)
1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3: 369، 370، رقم: 5417
2. طبراني، المعجم الکبير، 4: 213، رقم: 4167
3. ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفي ﷺ : 463
4. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1: 54
5. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 2: 165، 166
6. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8: 218
7. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1: 46
8. نبهاني، الأنوار المحمدية من المواهب اللدنية: 25
2۔ حضور صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضي اللہ عنہ (م 3ھ)
1. ابن اسحاق، السيرة النبوية: 212، 213
2. ابن هشام، السيرة النبوية: 503، 504
3۔ حضور صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت ابو طالب (م 10 نبوي)
1. بخاري، الصحيح، کتاب الاستسقاء، باب سؤال الناس الامام الاستسقاء
إذا قحطوا، 1: 342، رقم: 963
2. ابن ماجه، السنن، کتاب اقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في الدعاء في الاستسقاء،
1: 405، رقم: 1272
3. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 93
4. بيهقي، السنن الکبري، 3: 352
5. ابن هشام، السيرة النبوية: 246. 253
6. بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 6: 142، 143
7. ابن کثير، البداية والنهاية، 4: 471، 472
4۔ حضرت ابوبکر صديق رضي اللہ عنہ (م 13ھ)
أبو زيد قرشي، جمهرة أشعار العرب: 10
5۔ حضرت عمر فاروق رضي اللہ عنہ (م 23ھ)
أبو زيد قرشي، جمهرة أشعار العرب: 10
6۔ حضرت عثمان غني رضي اللہ عنہ (م 35ھ)
أبو زيد قرشي، جمهرة أشعار العرب: 10
7۔ حضرت علي کرم الله وجہہ (م 40ھ)
أبو زيد قرشي، جمهرة أشعار العرب: 10
8۔ اُم المؤمنين سيدہ عائشہ صديقہ رضي الله عنہا (م 58ھ)
ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفي ﷺ : 463
9۔ سيدہ کائنات فاطمۃ الزہراء سلام الله عليہا (م 11ھ)
1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب مرض النبي ﷺ ووفاته، 4:
1619، رقم: 4193
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاته ودفنه ﷺ، 2: 103، رقم: 1630
3. نسائي، السنن، کتاب الجنائز، باب في البکاء علي الميت، 4: 12، رقم: 1844
4. أحمد بن حنبل، 3: 197، رقم: 13054
5. دارمي، السنن: 56، رقم: 88
6. ابن حبان، الصحيح، 14: 591، 592، رقم: 6622
7. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 1: 537، رقم: 1408
8. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3: 61، رقم: 4396
9. طبراني، المعجم الکبير، 22: 416، رقم: 1029
10. ابن سعد، الطبقات الکبري، 2: 311
11. ذهبي، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام (السيرة النبوية)، 1: 562
12. ابن کثير، البداية والنهاية، 4: 254
10۔ سيدہ صفيہ بنت عبد المطلب رضي الله عنہما (م 20ھ)
حافظ شمس الدين بن ناصر دمشقي، مورد الصادي في مولد الهادي
11۔ شيما بنت حليمہ سعديہ رضي الله عنہا
عسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، 7: 165، 166، رقم: 11378
12۔ حضرت ابو سفيان بن الحارث (ابن عم النبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم)
1. ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 4: 1675
2. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الأصحاب، 6: 142، 143
13۔ حضرت عبد الله بن رَوَاحہ رضي اللہ عنہ (م 8ھ)
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجمعة، باب فضل من تعار من الليل فصلي،
1: 387، رقم: 1104
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب هجاء المشرکين، 5: 2278، رقم: 5799
3. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الأدب، باب ما جاء في إنشاد الشعر، 5: 139، رقم: 2847
4. نسائي، السنن، کتاب مناسک الحج، باب إنشاد الشعر في الحرم، 5: 202، رقم: 2873
5. بخاري، التاريخ الکبير، 8: 212، رقم: 2754
6. بخاري، التاريخ الصغير: 23، رقم: 71
7. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 451
8. بيهقي، السنن الکبري، 10: 239
9. ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفي ﷺ : 463
10. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3: 465
11. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 13: 151
14۔ حضرت کعب بن مالک الانصاري رضي اللہ عنہ (م 51ھ)
ابن أبي عاصم، الآحاد والمثاني: 663، رقم: 1171
15۔ حضرت حسان بن ثابت رضي اللہ عنہ (م 40ھ)
1. بخاري، الصحيح، کتاب الصلاة، باب الشعر في المسجد، 1: 173،
رقم: 442
2. بخاري، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکة، 3: 1176، رقم: 3041
3. بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب من أحب أن لا يسب نسبه، 3: 1299، رقم: 3338
4. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب مرجع النبي من الأحزاب ومخرجه إلي بني قريظة،
4: 1512، رقم: 3897
5. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب حديث الإفک، 4: 1518، رقم: 3910
6. بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب هجاء المشرکين، 5: 2279، رقم: 5800، 5801
7. مسلم، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت، 4: 1933، رقم: 2485،
2486
8. مسلم، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل حسان بن ثابت، 4: 1936، رقم: 2490
9. مسلم، الصحيح، کتاب التوبة، باب في حديث الإفک وقبول توبة القاذف، 4: 2137، رقم:
2770
10. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الأدب، باب في إنشاد الشعر، 5: 138، رقم: 2846
16۔ حضرت زہير بن صُرد الجثمي رضی اللہ عنہ
1. ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 2: 97، 98، رقم:
723
2. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الأصحاب، 2: 325، رقم: 1769
17۔ حضرت عباس بن مرداس السلمي رضی اللہ عنہ
1. ابن هشام، السيرة النبوية: 949، 977
2. ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 2: 362. 364، رقم: 1387
3. ابن کثير، البداية والنهاية، 3: 547. 553
18۔ حضرت کعب بن زہير رضي اللہ عنہ (صاحبِ قصيدہ بانت سعاد)
1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3: 670. 673، رقم: 6477
2. طبراني، المعجم الکبير، 19: 157. 159، رقم: 403
3. بيهقي، السنن الکبري، 10: 243
4. ابن إسحاق، السيرة النبوية: 591. 594
5. ابن هشام، السيرة النبوية: 1011. 1020
6. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 9: 393
7. ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفي ﷺ : 463، رقم: 813
8. ابن کثير، البداية والنهاية، 3: 582. 588
19۔ حضرت عبد الله بن الزَبَعْري رضی اللہ عنہ
1. ابن إسحاق، السيرة النبوية: 536
2. ابن هشام، السيرة النبوية: 942، 943
3. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 3: 239، 240، رقم: 2946
20۔ حضرت ابو عزہ الجُمَحي رضی اللہ عنہ
ابن هشام، السيرة النبوية: 555
21۔ حضرت قتيلہ بنت الحارث القرشيہ رضی اللہ عنہ
ابن هشام، السيرة النبوية: 635، 636
22۔ حضرت مَالک بن نمط الہمداني رضی اللہ عنہ
1. ابن هشام، السيرة النبوية: 1089
2. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 5: 46، 47، رقم: 4651
23۔ حضرت انس بن زنيم رضي اللہ عنہ (اناس بن زنيم)
1. ابن اسحاق، السيرة النبوية: 539، 540
2. ابن هشام، السيرة النبوية: 947
3. ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفي ﷺ : 463
24۔ حضرت اَصيد بن سلمہ السلمي رضی اللہ عنہ
1. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 1: 253، 254، رقم:
191
2. عسقلاني، الاصابة في تمييز الصحابة، 1: 85، 86، رقم: 211
25۔ رئيسِ ہوازن حضرت مالک بن عوف النصري رضی اللہ عنہ
ابن هشام، السيرة النبوية: 1002، 1003
26۔ حضرت قَيس بن بحر الاشجعي رضی اللہ عنہ
1. ابن هشام، السيرة النبوية: 760، 761
2. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 4: 394، رقم: 4327
27۔ حضرت عمرو بن سُبَيع الرہاوي رضی اللہ عنہ
ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 4: 214، 215، رقم: 3932
28۔ حضرت نابغہ الجعدي رضی اللہ عنہ(م 70ھ)
1. ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 4: 1516، رقم:
2648
2. ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفي ﷺ : 462، 463، رقم: 812
3. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 5: 276. 278، رقم: 5162
29۔ حضرت مازن بن الغضوبہ الطائي رضی اللہ عنہ
1. ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 3: 1344
2. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 5: 4، رقم: 4553
3. عسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، 5: 21، 22، رقم: 7584
30۔ حضرت الاعشي المازِني رضی اللہ عنہ
1. ابن سعد، الطبقات الکبري، 7: 53
2. ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 1: 229، رقم: 159
3. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 1: 256، 257، رقم: 196
31۔ حضرت فَضَالہ اللَّيثي رضی اللہ عنہ
1. فاکهي، أخبار مکة في قديم الدهر وحديثه، 2: 222، 223
2. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 4: 347، رقم: 4233
3. عسقلاني، الاصابة في تمييز الصحابة، 4: 346، رقم: 6999
32۔ حضرت عمرو بن سالم الخزاعي رضی اللہ عنہ
1. بيهقي، السنن الکبري، 9: 233
2. ابن هشام، السيرة النبوية: 923
3. ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 4: 212، 213، رقم: 3929
33۔ حضرت اَسيد بن ابي اُناس الکناني
ابن أثير، أسد الغابة في معرفة الصحابة، 1: 236، رقم: 161
34۔ حضرت عمرو بن مُرّہ الجہني رضی اللہ عنہ
ابن کثير، البداية والنهاية، 2: 288، 289، 327
35۔ حضرت قيس بن بحر الاشجعي رضی اللہ عنہ
ابن هشام، السيرة النبوية: 761
36۔ حضرت عبد الله بن حارث بن قيس رضی اللہ عنہ
1. ابن اسحاق، السيرة النبوية: 254
2. ابن هشام، السيرة النبوية: 293
37۔ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ
حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 1: 104
38۔ حضرت ابو احمد بن جحش رضی اللہ عنہ
1. ابن هشام، السيرة النبوية: 407، 408
2. ابن کثير، البداية والنهاية، 2: 522
39۔ حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ
1. سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام،
2: 322
2. ابن کثير، البداية والنهاية، 2: 570
40۔ حضرت اَسود بن سريع رضی اللہ عنہ
1. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 24، رقم: 16300
2. ابن أبي شيبة، المصنف، 6: 180
3. طبراني، المعجم الکبير، 1: 287، رقم: 842
4. بيهقي، شعب الإيمان، 4: 89، رقم: 4365
41۔ حضرت عامر بن اَکوع رضی اللہ عنہ
1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، 4: 1537، رقم:
3960
2. بخاري، الصحيح، کتاب الأدب، باب ما يجوز من الشّعر، 5: 2277، رقم: 5796
3. مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد، باب غزوة خيبر، 3: 1428، رقم: 1802
4. أبو عوانه، المسند، 4: 314، رقم: 6830
5. بيهقي، السنن الکبري، 10: 227
6. طبراني، المعجم الکبير، 7: 32، رقم: 6294
42۔ حضرت اُم معبد عاتکہ بن خالد الخزاعي رضي الله عنہا
ابن سعد، الطبقات الکبري، 1: 230، 231
43۔ دخترانِ مدينہ
1. ابن ابي حاتم رازي، الثقات، 1: 131
2. ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد، 14: 82
3. أبو عبيد أندلسي، معجم ما استعجم من أسماء البلاد والمواضع، 4: 1373
4. محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشرة، 1: 480
5. بيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، 2: 507
6. ابن کثير، البداية والنهاية، 2: 583
7. ابن کثير، البداية والنهاية، 3: 620
8. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 7: 261
9. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 8: 129
10. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1: 634
11. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 4: 100، 101
12. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1: 323
44. حبشي وفد
1. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 152
2. ابن حبان، الصحيح، 13: 179، رقم: 5870
3. مقدسي، الأحاديث المختارة، 5: 60، رقم: 1681
4. هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان: 493، رقم: 2012
45۔ حضرت عمرو جنّي (جنّ صحابي)
1. ابن هشام، السيرة النبوية: 419
2. سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 2: 324
یہ تمام ہستیاں حضور نبی اکرم ﷺ کی مدح سرائی نہ صرف شعر گوئی کی صورت میں کرتی تھیں بلکہ مجلس کی صورت میں نعت خوانی بھی کرتی تھیں۔ آج دنیا میں جہاں بھی محافلِ نعت منعقد ہوتی ہیں وہاں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اور دیگر نعت خواں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا کلام بھی بہ طور تبرک پڑھا جاتا ہے۔
خلاصۂ بحث یہ ہے کہ ممدوحِ خالقِ کائنات رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی مدح خوانی کرنا، آپ ﷺ کی نعت پڑھنا، سننا اور محافلِ نعت منعقد کرنا قرآن و سنت کے عین مطابق جائز اور مطلوب اَمر ہے۔ شعراء صحابہ کی کثیر تعداد سے واضح ہے کہ نعت گوئی اور نعت خوانی ان کے معمولات میں شامل تھی۔ اسی طرح ہم جب محفلِ میلاد منعقد کرتے ہیں تو اِنہی جلیل القدر صحابہ و اَکابرینِ اُمت کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔ یہ عمل قرونِ اُولیٰ سے لے کر آج تک جاری ہے جو ایک سچے اور کامل مومن کی نشانی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved